ام اویس

محفلین
خلا بڑہتے بڑہتے مہیب دائرہ بن گیا ۔۔۔ لیکن نظر اس ایک نقطے کی تلاش میں بھٹکتی رہی ۔۔۔ وہ جسے محور بنانا تھا ۔۔۔ وہ جس کے گرد ایسے دیوانہ وار چکر لگانا تھا کہ ہستی کا وجود پانی پانی ہوکر نہ چھلکے ۔۔۔ بھرا پیمانہ وجود کے ساتھ ساتھ دیوانگی کے سارے گر آزمائے ۔۔۔ اور ۔۔ وجود سے الگ نہ ہو ۔۔۔ خالی برتن تو کھنکتا ہے بجتا ہے ۔۔۔ ہلکا ۔۔ بے وزن ۔۔ محور سے بندھا ۔۔ ان بندھا

خیال و فکر کی ساری رعنائیاں ۔۔۔ چھلکتے پیمانے ۔۔۔ جاننے کا مان ۔۔۔ نا جاننے کا بھرم ۔۔ لبا لب بھرا ۔۔ اک مضبوط ڈور سے بندھا ۔۔۔ اسی کے گرد چکراتا ۔۔۔ مسلسل چکراتا ۔۔۔ چکراتا ۔۔ نقطے میں مدغم ہوا جاتا ہے ۔
 

ام اویس

محفلین
جھیل کسے کہتے ہیں ؟

ہر لفظ کے ساتھ ہمارے ذہن کا ایک مخصوص تصور بندھا ہوتا ہے ۔ جیسے ہی کسی چیز کا کوئی نام بولا جاتا ہے ہمارا ذہن فورا اس کی تصویر دکھاتا ہے ۔

میرے ذہن میں جو پہلا تصور آیا وہ جھیل جیسی گہری آنکھوں کا ہی تھا ۔۔۔ ذہن کے پردوں پر گہرائی کا الگ الگ رنگ لیے کئی آنکھیں جگمگائیں ۔ کوئی آنکھ غم کی گہرائی کا کھلا اظہار تھی تو کوئی خوشی کے ہزار رنگ آشکار کرتی ۔ اور کوئی حیرانی کے پانی سے بھری تو کسی میں تجسس کا جذبہ ، کسی میں معصومیت تھی تو کسی میں حسرت ۔۔۔۔۔۔

اس جھیل نے میرے تصور کے پردوں کو جھیل ہی بنادیا ۔۔۔ ایک جھلک دکھائی دیتی پھر دوسری تصویر اس کی جگہ لے لیتی

چند ہی لمحوں میں ہزاروں جھیل جیسی آنکھوں کا تصور میرے لبوں سے “ آنکھیں “ جواب بن کر بلند ہوا ۔

جوابا ایک طویل قہقہ سنائی دیا ۔۔۔۔( یعنی آپ بھی نا ۔۔ بات کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں )

جھیل سطح زمین پر اس گڑھے کو یا گہرائی کو کہتے ہیں جس میں جتنا پانی آتا ہے اتنا ہی اس سے باہر نکلتا ہے ۔۔۔۔ جھیل پانی سے بھری رہتی ہے اور اس کی سطح ہموار رہتی ہیں ۔۔۔ اس مقدار میں کمی بیشی نہیں ہوتی اگرچہ پانی بدل جاتا ہے ۔

جواب یہ تھا ۔۔۔ اور یہی ہونا چاہیے تھا

لیکن !

میرا ذہن ایک نئے تانے بانے میں الجھ گیا ۔۔۔۔ آنکھ کی جھیل کا پانی بھی کیا بدلتا رہتا ہے ؟ کبھی غم کا پانی ، کبھی خوشی کا ، کبھی تجسس کا پانی کبھی حسرت کا

مجھے جھیل جیسی آنکھوں کے بدلتے رنگ سمجھ آنے لگے اور سمجھ کا خمار بن کر چھانے لگے ۔


لیکن زندگی اگر جھیل جیسی ہو تو مزا نہیں دیتی ۔۔۔ زندگی کو تو سمندر جیسا ہونا چاہیے ۔۔۔ میں نے جوابا کہا

سمندر میں ایک جوش ہوتا ہے ۔۔۔ اس کی ہر لہر کا زور دوسری اٹھنے والی لہر ہی توڑ دیتی ہے ۔۔۔ ہر لمحہ کچھ مقابل ہو تبھی اس لمحے کا مزہ ہے ۔


(لذت ۔۔۔ کیا انسان کی طلب لذت ہی ہے ۔۔۔۔ )

اور میرا یقین ہے کہ یہ انسان کی فطرت ہے ۔ وہ جھیل کی مانند ساکت نہیں رہ سکتا ۔۔۔ سکوت گویا جمود ہے اور جمود تو تباہی میں بھی نہیں بدلتا ۔۔۔ شاید اسی لیے کائنات کا ہر ذرہ حرکت میں ہے ۔۔۔۔ جو آخر کار اسے تباہی سے ضرور دوچار کرے گا ۔

زندگی جھیل کی طرح ساکت اچھی نہیں لگتی ۔ ایسی زندگی جیا نہیں جا سکتا ۔ زندگی سمندر کی طرح گہری ہو اور اس میں ہر وقت حرکت ہو ، اختلاف ہو ، ضد ہو

عمل کی حرکت ، کچھ نہ کچھ کرنے کی لگن ۔۔۔ موج کی طرح آگے بڑھنے کا جتن ۔۔۔ کچھ پانے کی تڑپ اور بہت کچھ کھو دینے کا حوصلہ ۔۔۔۔ صحیح کی تلاش کی ضد ۔۔ غلط سے اجتناب کی اکڑ ۔۔۔ حرکت ۔۔۔ حرکت ۔۔۔ حرکت ۔۔۔ مسلسل حرکت

مان تو سب لیتے ہیں ۔۔۔ لیکن اقرار نہیں کرتے ۔
 

ام اویس

محفلین
جلانے والی لکڑی۔۔۔آگ بجھانے والے پانی سے پرورش پاتی ہے۔۔۔اور بجھانے والا پانی خود اپنے اندر جلانے والی گیسوں کا مجموعہ ہے۔۔۔غور کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔۔۔!

اس میں نہ سمجھ میں آنے والی کون سی بات ہے ۔۔۔ الله تعالی کی شان ہے کہ وہ بیج کو مٹی سے پھاڑ کر نکالتا ہے ۔ اورجس طرح اس کی نمو کے لیے سورج کی حرارت ، موسمی حالات کی مناسبت اورزمین کی زرخیزی ضروری ہے اسی طرح پانی کی نمی بھی اس کے وجود کی بقا کا ایک سبب ہے ۔ ان تمام اسباب کے ہوتے ہوئے بھی الله کے حکم کے بغیر بیج سے پودا نمودار نہیں ہوسکتا ۔

اور یہ الله کی شان ہے کہ سر سبز درخت سوکھ کر لکڑی میں بدل جاتا ہے جو جلانے کے کام آتی ہے ۔ اور اس کے جلنے کے عمل میں آکسیجن گیس ایک اہم سبب بنا دیا ۔ کہ آکسیجن کے بغیر آگ جل ہی نہیں سکتی ۔

اور آکسیجن گیس پانی کا ایک اہم حصہ ہے ۔ معلوم ہے نا پانی دوگیسوں کا مجموعہ ہے H2O ۔ دوحصہ ہائیڈروجن اور ایک حصہ آکسیجن ۔ اور آگ کو بجھانے کے لیے بھی پانی کا استعمال ہوتا ہے ۔

سورہ یس میں الله سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے ۔


الَّذِي جَعَلَ لَكُم مِّنَ الشَّجَرِ الْأَخْضَرِ نَارًا فَإِذَا أَنتُم مِّنْهُ تُوقِدُونَ

اردو:

وہی جس نے تمہارے لئے سبز درخت سے آگ پیدا کی پھر تم اسکی ٹہنیوں کو رگڑ کر ان سے آگ نکالتے ہو۔


کہتے ہیں عرب میں دو درخت ہیں مرخ اور عفار۔ ان کی دو لکڑیاں آپس میں رگڑی جائیں تو آگ پیدا ہوتی ہے،


یعنی لکڑی سکھائے بغیر بھی آگ پیدا کر دیتا ہے ۔۔۔۔ غور وفکر کرنے والوں کے لیے الله کی بنائی ہر شے میں حیرت وتعجب اور نشانیاں ہی نشانیاں ہیں ۔
 

ام اویس

محفلین
زندگی ایک طویل شاہراہ ہے ہر شخص کے لئے اس کی مسافت ، راستے کی دشواریاں ، مشکلات اور کٹھنائیاں الگ الگ ہیں ۔ اس راستے پر بہار ہے ، پھول ہیں ُ خوشبو ہے ۔ خوشی ہے ، غمی ہے اداسی اور تنہائی ہے
خوشی اور غمی ، تنگی اور آسانی ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔
ہر ایک اپنی طاقت ، محنت اور ہمت سے اس راستے پر چلتا رہتا ہے ۔ کیونکہ مسافر کا کام چلنا ہی ہے ۔
جن کے راستے ایمان کی روشنی سے جگمگا رہے ہوں ۔ وہ توکل اور اطاعت کی لاٹھی تھامے مزے سے گزر جاتے ہیں پھر بھی
کبھی جب شاہراہ زندگی پر اندھیرا چھانے لگے تو روشنی کی ضرورت پڑتی ہے ۔ تب انسان سر اٹھا کر دیکھے
تو دور دور اسے مینار لگے نظر آتے ہیں ۔ کچھ کی روشنی مدھم صرف خود تک محدود اور کچھ کی ذرا زیادہ ۔ اور بندہ تو حرص کا مارا ہے وہ وہ زیادہ اور زیادہ کی طلب رکھتا ہے ۔ پھر ایسے مینار نگاہ کی گرفت میں آتے ہیں جو خود اپنی ذات سے نا آشنا مخلوقِ خدا میں روشنی بکھیر رہے ہوتے ہیں
 

ام اویس

محفلین
ماں کا اصل کردار اپنے بچوں کی بہترین تربیت کرنا ہے ۔ اسے غیر ضروری طور پر دوسرے تمام معاملات میں اس بُری طرح الجھا دیا جاتا ہے اور ہر وقت کٹہرے میں کھڑا رکھا جاتا ہے کہ وہ اپنے مقصد سے کہیں دور جا پڑتی ہے ۔
جیسے دوسرے تمام شعبہ جات میں ترجیحات طے نہیں کی جاتیں ، پلاننگ اور منصوبہ بندی نہیں کی جاتی کہ کون سا کام اہم وضروری اور پہلے کرنے والا ہے اسی طرح یہ شعبہ ہے
گھر میں بیاہ کر لائی جانی والی لڑکی کیوں لائی جا رہی ہے ۔ اپنا گھربار ، ماں باپ چھوڑ کر دوسرے گھر میں آنا کس لیے ہے ۔
اس پر سوچنا بھی ضروری خیال نہیں کیا جاتا ۔ اصل مقصد کو چھوڑ کر وقتی فائدہ اٹھانا ، وقتی مزہ لینا ہماری قوم کا مزاج بن گیا ہے ۔ یا بنا دیا گیا ہے ۔ نسلیں برباد ہوجائیں اس کی کوئی فکر نہیں ۔ پانی کا گلاس وقت پر نہ ملے سب سے بڑا ایشو ہے ۔۔۔
اسی وجہ سے معاشرہ خرابی کا شکار ہے ۔ لیکن کسی کو رب کے سامنے کھڑے ہونے اور اپنے اعمال کا حساب دینے کی فکر ہی نہیں ۔ وہاں بھی یہی ڈنگ ٹپاؤ رویہ ہے ۔ جب وقت آئے گا دیکھا جائے گا ۔
ترجیحات کا تعین انتہائی ضروری ہے ۔ جس کے لیے ہر انسان عورت ہو یا مرد ، بچہ ہویا بوڑھا اسے باشعور ہونا چاہیے ۔
 

ام اویس

محفلین
جب کوئی سننے والا نہ ہو ۔۔ جب کوئی بات کو سمجھنے والا نہ ہو تو اس سے بات کرو جو دل کی گہرائیوں میں چھپے خیالات سے بھی آگاہ ہے ۔ جو تمہاری بات اور سوچ کسی دوسرے تک پہنچنے بھی نہیں دیتا ۔ اور جو تمہارےدل سے نکلے الفاظ پر پکڑ بھی نہیں کرتا ۔۔۔ بلکہ سُن کر ٹال دیتا ہے ۔

زندگی مشکل ہے بہت مشکل ۔۔۔۔ ہنر تو یہ ہے کہ اس مشکل سے ہنس کر گزر جاؤ ۔

غلطی ہو یا نہ ہو ۔۔۔ سر جھکا کر معافی مانگ لو

خاموشی کو حرز جاں بنا لو ۔۔۔ نگاہ کو جھکا لو

اس سے لگن لگا لو جو دلوں کے چھپے بھید جانتا ہے ۔

دل جس کے قبضے اور اختیار میں ہے ۔ جو دل کو بدلنے کی پوری قدرت رکھتا ہے ۔

وہ بدلے گا دل ساری مخلوق کا ۔۔۔ وہ ڈالے گا تمہاری محبت اپنی ساری مخلوق کے دل میں

یقین رکھو ۔۔۔ اسی کے قبضے میں مخلوق کا دل ہے ۔

اور دل کے سدھرنے سے ہی ہر چیز سدھرتی ہے ۔

دل کو مضبوطی ۔۔۔ قوت ۔۔ چمک اور طاقت دینے والی ایک ہی چیز ہے اور وہ ہے الله کی رضا کی چاہت ۔ الله کا ذکر اور اس کے احکام کی پوری پوری فرمانبرداری ۔ جب بندہ الله کی غلامی اور اطاعت میں خود کو پورے کا پورا سونپ دے ۔۔ دل وجان سے اس کو راضی کرنے میں لگ جائے ۔۔تو ممکن ہی نہیں کہ مالک اس سے لاپرواہی برتے ۔۔۔ پھر وہ بندے کے ہر معاملے کا خود وکیل ، کارساز اور مشکل کشا و حاجت روا بن جاتا ہے ۔۔۔ آزما کر دیکھ لو ۔۔۔!!!
 

ام اویس

محفلین
کبھی کوئی بات تیر کی طرح جگر چیر کر رکھ دیتی ہے ۔۔۔ بندہ اس میں اپنی غلطی ڈھونڈنے لگتا ہے ۔۔۔ اور جب اپنی ہی غلطی ہو ۔۔۔ پھر اس تکلیف اور دکھ کا مداوہ ممکن نہیں ۔

انسان بے بس ہے یا شاید اپنے ہاتھوں خود اپنے لئے گھڑا کھود لیتا ہے ۔۔۔ جھوٹے لارے ، دلاسے ، تسلیاں کیا کر سکتی ہیں جب پتہ ہو ریت کی طرح بھربھری ہیں ۔۔۔

سوہنے نبی کے فرمان کا مفہوم ہے ۔۔۔ اس بات کو چھوڑ دو جس میں شک ہو ۔

جو تجھے کھینچ کر گناہ کی طرف لے جائے اس لذت بے حاصل سے کیا حاصل ۔۔۔۔؟؟؟

جو تیری آخرت کو برباد کردے اس پل دو پل کی خوشی سے کیا حاصل ۔۔۔۔؟؟؟

جس کی ہوا بھی دسترس میں نہ ہو اس بہار کے شگوفوں سے کیا حاصل ۔۔۔۔؟؟؟

سب جان کر انجان بننا ۔۔۔ سراب کو حقیقت سمجھنا

کانٹوں پر چل کر خود کو اذیت دینا ۔۔۔۔ کہاں کی عقلمندی ہے ۔۔۔؟؟؟

کاش یہ دل تھوڑا سا عقل مند ہوتا ۔۔۔۔۔۔

جان لیتا کہ انسان کے سینے میں ایک لوتھڑا ہے ۔۔۔۔ اگر وہ سدھر گیا تو سب ٹھیک ۔۔۔ اگر بگڑ گیا تو سب بےکار ۔۔۔
 

ام اویس

محفلین
معاشرے نے انسانوں کو ان دیکھی زنجیروں میں باندھ رکھا ہے ۔۔۔ نہ تو ان سے دامن چھڑایا جاسکتا ہے اور نہ ان کو توڑا جاسکتا ہے ۔۔۔ انسان چاہتا ہے کہ ان زنجیروں سے رہائی پالے مگر " دنیا کیا کہے گی " ۔۔۔۔ یہ جملہ اسے قدم بڑھانے سے روک دیتا ہے ۔

اور لاکھوں میں سے ۔۔۔ کوئی ایک ان زنجیروں کو توڑنے میں کامیاب ہو جائے تو اس پر بھی غصہ ۔۔۔ جنجھلاہٹ ۔۔۔ اور اپنی بے بسی تھوپ دی جاتی ہے ۔۔۔ اور کڑھن اور حسد کے مارے ۔۔۔ اپنی بے بسی و لاچاری ۔۔۔ خود ساختہ پابندی کا غصہ اس پر تنقید کے تیر چلا کر نکالتے ہیں ۔

کچھ ایسا معاملہ ہوتا جا رہا ہے کہ نہ تو خود سیدھی راہ پر چلنا ہے نہ کسی کو چلنے دینا ہے ۔

گمراہی میں ۔۔۔ بے حیائی کے کاموں میں ۔۔۔ رشوت لینے ۔۔۔ سودی نظام کی مدد دینے میں سب ایک دوسرے کے مدگار ہم نوالہ و ہم پیالہ ہوتے ہیں ۔۔۔۔ اور جہاں کسی نے اسلام کا نام لیا ۔۔۔ سادگی یا سنت اختیار کرنی چاہئیے تو اس پر اختلافات اور طنز و تضحیک کے سارے ہتھیار لے کر چڑھ دوڑتے ہیں ۔۔۔۔۔۔

اسلام کو ہر شخص اپنی مرضی کا لبادہ پہنانے میں مصروف ہوجاتا ہے ۔۔۔۔ اپنی سہولت کے مطابق اس میں تبدیلی لانے کو معاشرتی دباؤ اور نظریہ ضرورت کا نام دے کر موم کی ناک بنا لینا چاہتا ہے جدھر چاہے موڑ لے ۔۔۔

حالانکہ الله تعالی اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے احکام اٹل اور دوٹوک ہیں ۔ ان میں ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ کی کوئی گنجائش نہیں ۔۔۔

کوئی سمجھے ۔۔۔ یا نہ سمجھے ۔
 

ام اویس

محفلین
سوال تھا
کیا آپ نے کبھی موت کو یاد کیا ہے ۔کبھی قبر کا خیال آیا ۔کچھ تیاری کی ؟
کیسے کریں ؟
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ جوانی میں انسان موت کو یاد نہیں کرتا ۔۔۔ نہ اس کو مرنے کا خیال آتا ہے نہ ڈر ۔۔۔ جب وہ چالیس سال کا ہوجاتا ہے تو اسے مرنے کا خیال آنے لگتا ہے اسی طرح جوں جوں عمر بڑھتی ہے ۔۔۔ موت کی یاد بھی بڑھتی ہے ۔
قبر کانام اور اس کا خیال بہت وحشت ناک ہے ۔ اور ان میں جابسنے والے اپنے پیارے ۔۔۔۔
بہت بار ۔۔۔ دن میں اور رات میں بہت بار قبر کا خیال آتا ہے ۔ کبھی اپنے حوالے سے اور کبھی ہر پل ساتھ رہنے والے اپنے پیاروں کے حوالے سے ۔۔۔۔ کیسے منوں مٹی کے نیچے دفن کر دئیے جاتے ہیں ۔ کیسے موت کے ساتھ ہی ہر چیز یکدم ختم ہوجاتی ہے ۔ کوئی تعلق ، کوئی رشتہ باقی نہیں رہتا ۔ ہر چیز کی اہمیت ، ضرورت ۔۔۔ ختم
وہ جو اپنے لباس پر ایک داغ لگا برداشت نہیں کرتے کیسے مٹی کی گہرائیوں اور تاریکیوں میں گُم ہو جاتے ہیں ۔ ان کے ہاتھ سے لکھی تحریریں ، ان کے ہاتھ سے خریدی چیزیں سالہا سال نظروں کے سامنے موجود رہتی ہیں ۔ ایک کاغذ سے بھی حقیر زندگی ہوجاتی ہے جب موت اسے اچک لے جائے ۔

موت کی تیاری انسان کیسے کرتا ہے ۔۔۔ میں نے بہت بار میت کی موجودگی میں لوگوں کو ہنستے مسکراتے اپنی باتیں کرتے دیکھا ہے ۔ شاید جس کا پیارا اس دنیا سے جاتا ہے اسی کو اس کی جدائی کی تکلیف محسوس ہوتی ہے ۔

کبھی یہ خیال ذہن سے نہیں گزرتا کہ ایک دن ہم نے اس جگہ لیٹے ہونا ہے اور ہمارے پیارے شاید اردگرد کھڑے رو رہے ہوں ۔

آخرت کیوں کہ نگاہوں کے سامنے نہیں ہوتی اسی لئے انسان اس سے لاپرواہی برتتا ہے ۔۔۔

اگر موت کی ہولناکیاں ہر وقت پیش نظر ہوں تو ہم ہنسیں کم اور روئیں زیادہ ۔۔۔ اپنے ہر عمل کو مالک الملک کے حکم کا پابند بنا لیں ۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔ انسان ظالم اور جاھل ہے ۔ لمحوں میں بڑی سے بڑی تکلیف بھول کر ذرا سی خوشی کی طرف بے قرار ہو کر بھاگ پڑتا ہے ۔ اور اسی کو حاصل ہستی سمجھ لیتا ہے ۔۔۔

موت کی کتنی تیاری ہوئی ہے ۔۔۔۔ یہ تو معلوم نہیں ۔۔۔ کیونکہ اگلی منزل کے زاد راہ پر جب بھی نظر پڑتی ہے ۔۔۔ خالی اور بے کار سا سامان نظر آتا ہے ۔ ہر کوشش میں کوئی نہ کوئی ایسی خرابی بھی نظر آ جاتی ہے کہ یقین ڈولنے لگتا ہے ۔

بادشاہوں کے بادشاہ کے حضور پیش ہونا کوئی معمولی بات تو نہیں ۔ ہر لمحہ اس سفر کی تیاری میں گزرے تو شاید انسان کچھ جمع کر پائے ۔ پر یہاں تو ذہن بھٹک بھٹک جاتا ہے اور قدم ڈگمگا جاتے ہیں ۔۔۔۔۔ ہر عمل سے جھولی خالی ۔۔۔ ہر عمل میں ریا کے کیڑے پڑے ہیں ۔۔۔ ہر عمل میں غرض کے بڑے بڑے گھٹڑ ۔۔۔
پھر ذہن میں یہی بات گوبجتی ہے ۔۔۔

جے میں دیکھاں اپنے عملاں ولے تے کج نہ میرے پلے

تے جے دیکھاں تیری رحمت ولے ۔۔۔

بس ایک امید کی نازک سی ڈور ہے جو کچھ تسلی دیتی ہے کہ ان شاء الله وہ مالک الملک نرمی کا معاملہ فرمائے گا ۔ ہماری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا ۔۔۔۔ دعا ہے کہ اپنے پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم کی امّت سے اٹھائے ۔

امّاں عائشہ رضی الله تعالی عنھا موت کو یاد کرتیں تو فرماتیں کاش میں ایک چڑیا ہوتی ۔

مرنے کے بعد کیا ہوگا ۔۔۔ جب جب خیال آیا یہی سوچ آئی کاش میں ایک تنکا ہوتی ، کوئی بے وقعت اور حقیر سی شے ہوتی ۔ کاش اس دنیا میں آئی ہی نہ ہوتی ۔

موت کے بعد کا معاملہ بہت سخت ہے ۔
جس کی ابتدا ہی قبر جیسی خوفناک شے سے ہو ۔۔ اس کی انتہا کیا ہو گی ۔
جس کی ابتدا کفن جیسے لباس سے ہو اس کی انتہا کیا ہو گی ۔
جس کی اتبدا مٹی کے ٹھنڈے ، سخت اور کیڑے مکوڑوں سے بھرے بستر سے ہو اس کی انتہا کیا ہوگی ۔
بہت مشکل ۔۔ بہت گھمبیر بہت سخت معاملہ ہے ۔

ہر چیز یہاں کی یہیں رہ جائے گی ۔ جو اعمال و کمال ہیں ان میں کس کس خرابی سے سڑاند پڑھی ہوئی ہے۔ معلوم نہیں رائی کے برابر بھی کام آئیں گے ۔ بہت سخت معاملہ ہے
ہر لمحہ اس کی اطاعت میں گزرا ہو ، ہر سانس اس کے شکر میں بسر ہوئی ہو ۔ ہر عمل اس کے حکم میں ڈھلا ہو تب بھی حق بندگی ادا نہ ہو پائے ۔
اور یہاں تو سب کچھ بگڑا پڑا ہے ۔ نہ جانے بچت کی کیا صورت ہوگی ۔ بہت سخت معاملہ ہے ۔ والله بہت سخت معاملہ ہے ۔

اس کی رحمت کے بغیر تو کوئی بھی بخشش اور نجات نہیں پا سکتا ۔۔۔ سو اس کی رحمت کی امید لگائے یہ عاجز ، خطاکار اور درماندہ بندے بیٹھے ہیں ۔
قبر کی تیاری ایسی ہو جس سے ہماری آخرت سنور جائے، سب سے پہلے ہمیں اپنی خود احتسابی کی طرف توجہ دینا ہے، نہ صرف اپنے آپ کو برائیوں سے روکنا اور خرابیوں سے الگ ہونا ہے بلکہ اُن کے خاتمہ کے لیئے اپنے اپنے لیول اور اپنے اپنے انداز میں جدو جہد کرنے کی ضرورت ہے۔

اپنا مقصد زندگی متعین کرتے وقت بنیادی اسلامی اصولوں کو سامنے رکھنا ہے تا کہ ہمارا اُٹھنا بیٹھنا، کاروبار زندگی، سیاست و صحافت، نوکری اور پڑھائی لکھائی سب عبادت اور آخرت کی کامیابی کے لیئے وسیلہ بن جائے۔۔۔

ہم سب کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں کس کس انداز میں اُس اللہ رب العزت کی نافرمانی کرتے ہیں جو ہماری دنیا اور آخرت کا مالک ھے اور جس کی مرضی و منشا کے خلاف پتہ تک نہیں ھل سکتا۔۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اس عارضی زندگی کے حصول کے لیئے اپنی ابدی زندگی میں جہنم کا سودا کر رھے ھوں جو بلاشبہ گھاٹے کا سودا ہو

اللھم اغفر وارحم ۔۔۔۔ اللھم اغفر وارحم ۔۔۔ اللھم اغفر وارحم
 

ام اویس

محفلین
ایک عورت معاشرے میں مرد کے بغیر کچھ نہیں ۔۔۔ اور ایک گھر کا وجود عورت کے بغیر ممکن نہیں ۔ مرد کا کام بیوی بچوں کے لیے نان نفقہ اور سامانِ زندگی مہیا کرنے کا ہے تو بیوی کا کام اس مرد کی اولاد کی اچھی تربیت اور اس کے گھر کو جنت نظیر بنانے کا ہے ۔ شوہر اور بیوی ۔۔۔ مرد اور عورت ایک دوسرے کا لازمی جزو ہیں ۔۔۔ نہ اکیلا مرد اس معاشرے اور گھر کو چلا سکتا ہے ۔ نہ تنہا عورت معاشرے میں عزت پا سکتی ہے ۔ یہ تو قانون قدرت ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک دوسرے کے حقوق پہچانیں ۔ ایک دوسرے کا خیال رکھیں ، محبت پیدا کریں ، ہر ایک کی محنت کا احساس کریں ۔ عزت ، محبت ، محنت خلوص ان سب چیزوں کی ضرورت ہر شوہر وبیوی کو ہے ۔ کوئی کسی پر احسان نہیں کرتا ۔ لیکن ایک دوسرےکا احساس احسان سے کہیں بڑی طاقت ہے ۔
الله کریم نے ہر ایک کو اس کی ایک خاص حیثیت دی ہے ۔ اگر کوئی اپنی حد کراس نہ کرے ایک دوسرے سے محبت اور احسان کا معاملہ رکھے تو سب کچھ بہترین ہو جاتا ہے ۔ بیوی کو شوہر کی قدر اور احساس کرنا چاہیے ۔ اور شوہر کو بیوی کا احساس اور قدر کرنی چاہیے ۔
یہ تو محبت کے معاملے ہیں ۔ ان میں احسان کیسا ؟
دراصل احساس ہی نہیں کیا جاتا ۔۔۔۔ ایک دن مرد اگر عورت کی گھر میں مصروفیت دیکھ لے اسے گھر ، کچن ، بچوں اور ماں باپ کی خدمت اور گھرداری میں گھن چکر بنا دیکھ لے تو اس کا شکر گزار ہو ۔ اور اگرعورت ایک دن گھر سے باہر نکل کر مرد کی مشقت دیکھ لے تو اسے بھی احساس ہوجائے ۔ آج کے دور میں گھر سے نکلنا سڑک پر چلنا اور کام کی مشقت سہنا مرد ہی کا حوصلہ ہے ۔
اپنے اپنے دائرہ کار میں مرد و عورت دونوں مشقت کرتے ہیں ۔ بس آپس میں محبت ، احساس اور ذمہ داری کا معاملہ رکھنا چاہیے ۔ شوہر بیوی کو عزت دینے والا ہو تو عورت اپنا سب کچھ اس پر قربان کر دیتی ہے ۔ اور بیوی شوہر کا احساس اور خیال رکھنے والی ہو تو مرد کی زندگی جنت کا نمونہ بن جاتی ہے ۔ یہ دوطرفہ معاملہ ہے ۔ اور دونوں طرف سے حل کی کوشش ہو تو معاملہ عمدگی سے انجام پا سکتا ہے ۔
کوئی عورت دو روٹیوں کے لیے اپنا آپ شوہر کو نہیں سونپتی بلکہ الله کے حکم سے نسل انسانی کو بڑھانے اور معاشرے کو اسلامی طور طریقوں پر مضبوط کرنے کے لیے مرد کے نکاح میں آتی ہے ۔ ہر بات کو یونہی عادت کے طور اختیار کرنے سےمسائل حل نہیں ہوتے ۔ ہر ایک کام کا ایک مقصد ہوتا ہے ۔ اس مقصد کو سمجھنا چاہیے اور اس پر عمل کی کوشش کرنا چاہیے ۔ اور اس معاملے میں الله تعالی کے احکام کی پابندی کرنی چاہیے ۔ الله کی رضا اور خوشنودی کو مدنظر رکھنا چاہیے ۔ صرف دنیا داری میں نہیں پڑے رہنا چاہیے ۔
 

ام اویس

محفلین
اگر دعوت دین کی زمین میں ایمان کی جڑ ہو ، تعلیم کا پانی ہو ، تربیت اور ذکر کی فضا ہو ، گناہوں سے بچنے کی باڑ ہو ، مال ، جان ، اوقات اور جذبات کی قربانی کی کھاد ہو ، تلملانے ، بلبلانے اور گڑگڑانے والی ہوا ہو تو اس کے اوپر معاملات و معاشرت کا درخت چڑھے گا ، اس پر اخلاق کا پھل لگے گا ، ان پھلوں کے اندر اخلاص کا رس ہوگا اور اس سے پوری انسانیت مستفید ہوگی ۔
 

ام اویس

محفلین
ماں باپ اپنی اولاد سے بہت محبت کرتے ہیں ان کی تربیت بڑے خلوص سے بغیر کسی غرض کے کرتے ہیں ۔ دنیا میں جو مشکلات انہیں پیش آچکی ہوتی ہیں حتی الامکان ان سے اپنے بچوں کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اپنی اولاد کی غلطیوں پر سرزنش بھی کرتے ہیں لیکن بہت سی ایسی غلطیوں کو معاف کر دیتے ہیں جن کی اولاد کو خبر بھی نہیں ہوتی ۔
یہی معاملہ مخلص اساتذہ کا ہوتا ہے ۔ اپنے شاگردوں کی تربیت کرتے ہوئے وہ ان کی بہت سی غلطیوں سے درگزر کرتے ہیں ان کی تربیت کے لیے انہیں مواقع فراہم کرتے ہیں ۔ اور خود پیچھے رہ کر ان کو آگے بڑھنے کی ہمت دیتے ہیں ۔ ان کی لاعلمی میں بے شمار مقامات پر ان کو گرنے سے بچاتے ہیں ۔
بہت سے مقامات پر محض ان کا ساتھ ہونے کی وجہ سے شاگرد غیر ضروری تنقید سے محفوظ رہتا ہے ۔
ماں باپ بچے کو دنیا میں لانے کا سبب ہیں تو اساتذہ اس کی ترقی وکامیابی کا سببب ۔ اچھے اساتذہ الله تعالی کا خاص انعام ہوتے ہیں ۔
عموما جس طرح اولاد کو ماں باپ کی قدر نہیں ہوتی اسی طرح شاگرد کو استاد کے احسانات کا اندازہ نہیں ہوتا ۔ بچے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی صلاحیت موجود تھی والدین یا اساتذہ کی اس میں کوئی محنت یا احسان نہیں حالانکہ زندگی کے ہر میدان میں کامیاب ہونے کے پیچھے کسی نا کسی کی محنت اور تربیت یقینی ہے ۔
ماں باپ اور استاد بچے کے خود سے آگے بڑھ جانے اور ترقی پانے پر خوش ہوتے ہیں ۔ درحقیقت یہ ان کی محنت کا ثمر ہوتا ہے ۔
وہ ہمیشہ اپنی اولاد اور شاگردوں کو کامیاب اور پرسکون زندگی کی دعا دیتے ہیں اور ان کی کامیابی پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔
اچھی اولاد اور اچھے شاگرد ہمیشہ اپنے والدین اور اساتذہ کے احسان مند اور شکر گزار ہوتے اور ان کے لیے دعا گو رہتے ہیں ۔
 
دو مختلف درختوں کے ٹہنیوں سے آگ


پهر تم اس کی ٹہنیوں کو رگڑ کر اس سے آگ نکالتے ہو


آگ جلانے کے ذریعے ماچس کا ڈبہ اور لائیٹر

یا دو پتھروں کی آپس کے رگڑ سے چنگاری

یہ ٹہنیوں کی رگڑ سے آگ ویسے تو ہونے کو بہت کچھ ہے دنیا میں یہ اپکا مشاهدہ اور علم ہے کتنا ہو
 

ام اویس

محفلین
اسلام دینِ فطرت ہے ۔ اور الله تعالی نے انسان کی فطرت ایسی بنائی ہے کہ ہر انسان دوسرے انسان سے مختلف ہے ۔ اسکی اپنی فہم اور سمجھ ہے ایک ہی بات کو سننے والے تمام لوگ ایک طرح سے سمجھ نہیں سکتے ۔ بلکہ اپنی اپنی صلاحیت اور شعور کے مطابق سمجھیں گے ۔ اسی وجہ سے اختلاف سامنے آتا ہے ۔ تو جب معمولی معمولی چیزوں میں بڑے بڑے اختلاف ہوتے ہیں ۔ اتنے عظیم دین کو سمجھنے میں اختلا ف کیوں اور کیسے نہیں ہو گا ۔ الله کریم نے اسلام کو ہمارے لئے دین مکمل کر دیا ۔ اور اس کی پوری سمجھ اپنے محبوب محمد صلی الله علیہ وسلم کو دے دی ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھنے والوں نے اپنی اپنی سمجھ کے مطابق سیکھا اور سمجھا ۔ پھر الله تعالی کسی کو ایک بات سمجھنے کی صلاحیت زیادہ دی اور کسی کو دوسری بات ۔ گویا سپیشلائزیشن ۔ آج بھی جو ڈاکڑ ہے وہ انجینئر کا کام نہیں کر سکتا ۔ اور انجینئر ڈاکڑ کی طرح اپریشن نہیں کر سکتا ۔ اسی طرح دین کو سمجھنے والے صحابہ رضوان الله علیھم اجمعین اسلام کے مختلف شعبوں کے سپیشلسٹ تھے ۔ اور بہت سے لوگ ملٹی ٹاسکنگ بھی ہوتے ہیں ۔ اسی طرح صحابہ کرام بھی تھے ۔ تو وہ دین کی ترویج خلوص اور محنت سے کرتے رہے ۔ سیکھنے اور سمجھنے والے اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق خلوص اور محنت سے سیکھتے اور سمجھتے رہے ۔ یہی فطرت ہے اور یہی الله کا طریقہ ہے ۔ پھر بہت سے شاگرد استادوں سے بھی بڑھ جاتے ہیں ۔ کیا دنیا کی تعلیم میں بھی ایسانہیں ہوتا ۔
اسی لئے ہر مذہب ہر طر یقے ہر راستے میں فرقے ہوتے ہیں اور یہ نیچر کے عین مطابق ہے ۔ اب یہ انسان کا کام ہے کہ وہ سمجھے اور ڈھونڈھے کہ درست راستہ کون سا ہے ۔
الله تعالی نے قرآن مجید کو قوانین و نصیحت کی شکل میں اتارا اور نبی آخر الزماں نے اس پر عمل کر کے دکھایا ۔ صحیح مسلمان وہ ہے جو الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے طریقوں پر چلے ۔ اس کو سمجھنے ، سیکھنے اور اس پر عمل کرنے پر محنت کرے اور الله تعالی سے صراط مستقیم طلب کرتا رہے ۔
 

ام اویس

محفلین
ہر شخص مختلف مزاج کا ہوتا ہے ہر ایک کے اپنے تعلقات اور اپنی ترجیحات ہیں ۔ کہیں ایک شخص بالکل درست موقف پر کھڑا ہوتا ہے اور دوسری جگہ بالکل ہی غلط بات کر رہا ہوتا ہے ۔ ہر شخص میں بہت سی خوبیاں ہوتی ہیں اور ساتھ ساتھ بہت سی خامیاں بھی ہوتی ہیں ۔
الله تعالی کی قدرت کاملہ کا کمال ہے کہ اس کی تخلیق کردہ مخلوق ہمہ رنگ ہے ایک شخص کی شکل و صورت ، رنگ و روپ ، کردار و سوچ ، برتاؤ اور اخلاق دوسرے سے نہیں ملتا ۔ یہاں تک کہ ایک کی سمجھ دوسرے کی سمجھ جیسی نہیں ہوتی یعنی ہر ایک کی اپنی ہی دنیا ہوتی ہے کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ یہ جو رنگ ہیں شاید یہ بھی ہر ایک کو مختلف دکھائی دیتے ہیں ۔
ہم کبھی کبھی کسی کو اس کی ان خوبیوں کی وجہ پسند کرتے ہیں جو دوسرے کی نگاہ میں اس کی خامیاں ہوتی ہیں اور کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں وہ چیز پسند آجاتی ہے جس سے دوسروں کو شدید مسئلہ ہوتا ہے ۔ لیکن ساتھ رہنے کے لیے برداشت کیا جاتا ہے ۔ کسی بھی تعلق اور رشتے میں اسی وقت مضبوطی پیدا ہوتی ہے جب دوسرے کی خامیوں کو نظر انداز کیا جائے اور اچھائی پر نگاہ رکھی جائے ۔
یہ دنیا مصائب کا گھر ہے ۔ ہر شخص اپنے اندر دکھوں کی بھاری پوٹلی اٹھائے پھرتا ہے اور اپنے عمل اور باتوں سے ان غموں ، دکھوں اور تکلیفوں کا اظہار بھی نہیں ہونے دیتا ۔ کبھی ایک شخص کو وہیں سے اپنی زندگی کا سب سے بڑا دکھ ملا ہوتا ہے جہاں سے دوسرے کو بے انتہا خوشی ملتی ہے ۔ وہ لوگ جن کا تعلق الله تعالی کے ساتھ مضبوط ہوتا ہے صبر اور شکر کی ردا میں اپنے غم چھپائے ہنستے رہتے ہیں اور لوگوں کو ان غموں سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
محبت اور رشتوں میں شرائط بھی اچھی نہیں لگتیں ۔ بے لوث محبت اور بے غرض تعلق بہت خاص لوگوں کا اثاثہ ہوتاہے ۔ ان سے اس دولت کو چھیننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے
 

ام اویس

محفلین
اسلام پوری دنیا کے لوگوں کے لیے راہ ھدایت ہے ۔ ہر زبان کے لوگوں کو دین سیکھنے کے لیے اور اسلام کی تعلیمات جاننے کے لیے اپنی زبان میں سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس لیے علماء کرام نے لوگوں کو دین سکھانے اورسمجھانے کے لیے قرآن مجید و احادیث مبارکہ کا ترجمہ اس زبان میں کیا جس کو وہاں کے لوگ سمجھتے تھے بلکہ دین کے ہر شعبے سے متعلقہ لوگوں نے اسلام کی اصلاحات اپنی زبان میں اپنے لوگوں کو سمجھانے کے لیے ترجمہ کیں ۔
عربی کے بعد سب سے زیادہ تراجم فارسی میں ہوئے اور پھر فارسی سے اردو میں ۔۔۔۔ عربی سے عوام الناس کی مسلسل دوری کی وجہ سے ایک طرح سے اردو ہماری مذہبی زبان بھی ہے اس لیے اردو کی حفاظت کرنا اس کی ترویج کرنا اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس کی طرف مائل کرنا سب باشعور لوگوں کی ذمہ داری ہے ۔
اسلام قیامت تک آنے والے تمام لوگوں کی ھدایت کا سبب ہے اسی طرح اسلام کا تعلق انسانی زندگی کے ہر ایک شعبے سے ہے ۔ اسلام کے تمام شعبوں کی تعلیمات کا فروغ اور امربالمعروف نہی عن المنکر کا حکم ہر شخص کے لیے عام ہے ۔ اس کام میں علماء کے ساتھ ساتھ درد دل اور درد امت رکھنے والے ہر باشعور شخص کو شامل ہونا چاہیے اور اس ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے ۔
نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرمان مبارک کا مفہوم ہے کہ تم میں سے ہر شخص سے اس کی ذمہ داری ادا کرنے کا سوال کیا جائے گا ۔
جہاں آپ کی بات سنی جاتی ہے اور جہاں آپ کی باتوں پر غور وفکر اور احساس ندامت پیدا ہوتا ہے اور جہاں آپ کی بات کی ذرا سی بھی اہمیت ہے اس جگہ کو چھوڑ دینا اور اس مقام سے ہٹ جانا گویا الله تعالی کی نعمت کی ناشکری ہے ۔ کیونکہ رتبہ اور مقام دینے والا خود الله سبحانہ وتعالی ہے ۔
بے شک نیٹ کی دنیا ایک خیالی دنیا محسوس ہوتی ہے لیکن جب یہاں پر پھیلی برائیوں کے اثرات معاشرے میں واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں تو اچھائیاں کیسے دکھائی نہیں دیں گی ۔ یہاں بے حیائی اور فحاشی کے لیے دوستیاں تو کامیاب ہوں اور حق بات کرنے کے لیے ایک دوسرے کے تعاون میں شرمندگی اور ندامت محسوس ہو ۔
صرف اپنی ذات کی اصلاح درکار ہوتی تو انبیاء ، صدیقین ، صالحین اور کتابوں کا کردار کیا ہے ؟
بے شک اپنی اصلاح کی بہت اہمیت ہے لیکن اس کے ساتھ معاشرے کی اصلاح بھی ہر فرد کی ذمہ داری ہے ۔ عام آدمی جسے اچھی تعلیم و تربیت کی سہولت میسر نہ رہی ہو وہ رہنمائی کے لیے صاحبِ علم و شعور کی طرف دیکھتا ہے ۔ آپ بھی اس معاشرے کے فرد ہیں ۔ اگر ایک شخص بھی آپ کے ذریعے دنیا ودین کے کسی معاملے میں رہنمائی پا لیتا ہے تو الله سے امید ہے کہ وہی نجات کا سبب بن جائے ۔
بہر حال ہر شخص اپنے اعمال کا ذمہ دار اور اپنی مرضی کا مالک ہے ۔ لیکن دوسروں کی اصلاح سے لاپرواہی برت کر کامیاب ہوجائے یہ ممکن نہیں
 

ام اویس

محفلین
محبت کی پہلی نشانی محبوب کی تعریف کرنا ہے ۔ ایک ماں سے اس کے بچے کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ اس کی تعریف کرنا شروع کردیتی ہے ۔ وہ ایسا ہے ، وہ ایسے کرتا ہے ، وہ ایسے خوش ہوتا ہے ۔۔ اگر ایسے کریں تو وہ ناراض ہوجاتا ہے ۔

خالق و مالک سے محبت بھی اس کی حمد و ثنا سے شروع ہوتی ہے ۔ سبحان الله ۔۔۔ وہ ہر عیب سے پاک ہے ، الحمد لله ۔۔ ہر طرح کی تعریف کا مستحق صرف اور صرف وہی ہے ۔ الله اکبر ۔۔ وہ عظیم ہے ہر لحاظ سے اور ہر ایک سے ۔

اور محبت کی بڑی نشانی یہ بھی ہے کہ اس کی پسند ناپسند کے بارے میں پوری آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ میرے پیارے کو کیا پسند ہے ؟ وہ کن باتوں سے خوش ہوتا ہے ؟ اور کون سی باتیں اس کی ناپسندیدگی کا سبب بن سکتی ہیں ؟

حقیقی محبت آداب محبت خود سکھا دیتی ہے ۔ پھر بندہ اس فکر میں رہتا ہے کہ میرےمالک کو کیا پسند ہے ۔ کون سی باتیں اور کون سے کام ہیں جو اس کو ناگوار ہو سکتے ہیں ۔ ہمیں اپنے دلوں میں الله جل شانہ کی محبت بیدار کرنی چاہیے ۔ اس کی عطا کردہ بے بہا نعمتوں کو ہر وقت نگاہ میں رکھنا چاہیے ۔ اور اس کی عنایات کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے ۔ یہی اس خالق ومالک کا حق ہے ، اور یہی اس سےمحبت کی شان ۔

سبحان الله وبحمدہ سبحان الله العظیم ۔
 

ام اویس

محفلین
سادہ زندگی اختیار کرنے اور معمولی لباس استعمال کرنے میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ہمارے لیے بہترین نمونہ و اعلی ترین مقتدی ہیں ۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے کھانے پینے لباس اور رہائش سب میں سادگی کو اختیار کیا تاکہ مسلم معاشرہ اور امت آپ کی اقتدا و پیروی کرے ، اور آپ کی سنت اور طریقے پر چلے اور ان تمام حوادث کے لیے جو ان کے راستے میں پیش آنے والے ہیں یا ان کے اوپر جو مصیبتیں نازل ہونے والی ہیں ہمیشہ ہمیشہ مکمل تیار اور مستعد اور چاک وچوبند رہیں
یہ بات صاف مشاہدہ ہے کہ جب امت مسلمہ نعمتوں میں مست اور کھانے پینے میں مگن ہو جائے گی اور ریشم و دیباج پر سوئے گی تو مادی ترقی و تمدن اپنی چمک دمک اور ظاہری آب و تاب سے اسے دھوکہ میں ڈال دے گا ۔ اور پھر وہ بہت جلد اپنے مقام سے گر جائے گی اور دشمن کے سامنے گردن جھکا دے گی ۔ اور اس کے نوجوانوں کے دلوں سے صبر اور جہاد فی سبیل الله اور اس کے مصائب برداشت کرنے کی روح ماند پڑ جائے گی ۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج مسلمان مرد و عورت اچھے سے اچھا لباس پہننے اور بہترین سے بہترین کھانے کھانے میں مگن ہیں ۔ زندگی محض کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کے لیے محنت کرنے کا نام بن چکی ہے ۔ نت نئے برانڈ کے لباس اور جوتے اور اس پر فخر و تکبر ضروریات زندگی سے کہیں آگے بڑھ چکا ہے ۔ اور اس کے لیے پرواہ نہیں کہ اس کو حاصل کرنے کے ذرائع حلال بھی ہیں یا نہیں ۔
آج حلال کمانے کا تصور عجیب بنتا جا رہا ہے ۔۔۔ لوگ حیران ہو کر سوال کرتے ہیں کہ حلال آمدن میں گزارا کرنا کیسے ممکن ہے ۔ ضروریاتِ زندگی غیر ضروری طور پر اس قدر بڑھا لی گئی ہیں کہ ان کے بغیر زندہ رہنے کا تصور محال ہے
زندگی کی ضروریات اور کھیل تماشے میں آخرت نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے ۔
کیا یہ بات حقیقت نہیں بن چکی کہ ہم الله کے پاس نعمتوں کا جواب دینے سے لاپرواہ ہو چکے ہیں ؟
اور کیا یہ بات حقیقت نہیں بن چکی کہ ہم مکمل طور پر دنیا میں مگن ہیں اور آخرت میں جوابدہی کا تصور ہمارے ذہن سے نکل چکا ہے ؟
اس بات کی انتہائی ضرورت ہے کہ ہم اپنی زندگی اور اس کے گزارنے کے طریقوں پر غور و فکر کریں ۔ اپنے تمام اعمال میں الله سبحانہ و تعالی اور رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کا اتباع مدنظر رکھیں ۔
اپنے عقیدہ و اعمال کے اصلاح کی کوشش کریں اور اپنی زندگیاں عین اسلامی تعلیمات کے مطابق گزارنے کی کوشش کریں ۔
الله کریم ہم سب کو صراط مستقیم کی ہدایت دے اور سادہ زندگی اختیار کرنے کی ہمت دے ۔
 
مقدار اور معیار کی پرکھ الٹا ہے جو جہاں سے جیسے ہاتھ آئے معیار ہے زر زن اور زمین کی دوڑ کے پیچھے گهومتی سوچ کو کیا پرواہ
 
Top