محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
ایک بیکل گزاری ہوئی اتوار کی صبح
محمد خلیل الرحمٰن
تمہید:
اتوار کی خوبصورت صبح جونہی ہمارے چہرے پر طلوع ہوئی، یعنی ہماری نصف بہتر نے ہمارے چہرے پر سے چادر ہٹاتے ہوئے ہمیں یہ مژدہ روح فرسا سنایا کہ ہمارا پیارا اخبار پانی سے بھری ہوئی بالٹی کی نظر ہوچکا ہے، ہم بے چین ہوگئے ۔ اتوار کی خوبصورت صبح گئی چولہے بھاڑ میں، اور آرامو چین اس بے کلی کی نظر ہوئے۔
اتوار کی صبح ایک مہذب انسان کے لیے سب سے خوش گوار وہ لمحات ہوتے ہیں جب آجکھ کھلتے ہی بیگم کی سُریلی آواز کانوں میں رس گھولتی ہے۔
’’ لیجیے یہ آپ کا نگوڑا اخبار آگیا ہے۔‘‘
اب ہم اخبار کو بائیں ہاتھ سے تھامتے ہیں، آنکھیں بند کیے ہی اسے کھولنے کی تگ و دو شروع کردیتے ہیں اور داہنے ہاتھ سے اپنی عینک سنبھالتے ہوئے اسے اپنی ناک پر بِٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے آپ سے یوں گویا ہوتے ہیں کہ بیٹا ! لو اب آنکھیں کھولو۔ اخبار میں خبروں کا سیکشن، مقامی سیکشن اور کتب دنیا کے علاوہ ایک اور اہم حصہ ہمارا منتظر ہوتا ہے جہاں حسینانِ جہاں کی رنگین اور خوبصورت تصویریں سجی ہوتی ہیں۔ ہم دنیا و مافیہا سے بے خبر اس حسین دنیا میں کھوسے جاتے ہیں۔ ہالی وڈ، بالی وڈ اور لالی وڈ کی چٹ پٹی خبریں اور حسینانِ ختن کی شوخ و چنچل اداؤں بھری رنگ برنگی تصویریں۔
لیکن آج یہ کیا غضب ہوگیا ۔ آن کی آن میں یہ کیا ماجرا ہوگیا کہ اخبار کا اخبار پانی میں شرابور ہوگیا۔ ہائے حسینانِ ختن کے پانی میں بھیگے ہوئے چہرے۔۔۔۔۔ ہمارا مطلب ہے، ارے کوئی ہے جو اس اخبار کو خشک کرے تاکہ ہم گزرے ہوئے کل کی وہ خبریں پڑھ سکیں جنہیں کل ٹی وی اسکرین پر نہیں دیکھ سکے تھے۔ اور اس طرح اپنی معلومات میں اضافہ کریں۔ مطالعہ علم حاصل کرنے کا ایک بڑا اہم ذریعہ ہے۔
اپنی اس دہائی کا کوئی خاطر خواہ جواب نہ پاکر ہم نے صورتحال کا بغور جائزہ لینے کی ٹھانی اور مائل بہ عمل ہوگئے۔
پس منظر:
ہمارا اخبار والا روزآنہ کا اخبار تو کچن کی بالکونی سے اوپر پھینکتا ہے، البتہ اتوار کا اخبار ضخیم ہونے کی وجہ سے اوپر آکر دروازے کی نچلی درز سے اندر سرکا دیتا ہے۔ یہ اس کا معمول ہے۔
پیش منظر:
آج چونکہ ہمارا معمول کا اخبار والا چھٹی پر تھا لہٰذا اس کی جگہ لینے والے اخبار والے نے اتوار کا ضخیم اخبار بھی بنڈل بناکر بالکونی سے اوپر کی جانب اچھال دیا ۔ حسنِ اتفاق کہیے یا سوئے اتفاق، کل رات پانی کی فراہمی میں تعطل کے پیشِ نظر ہماری نصف بہتر نے حفظِ ما تقدم کے طور پر کچن کی بالکونی میں ایک عدد بالٹی پانی سے بھری رکھ چھوڑی تھی تاکہ سحری میں برتن دھونے کے کام آئے۔ وہ بالٹی اس طرح داشتہ آید بکار کے مصداق کام آئی کہ اخبار نے فوراً اس کے اندر گھر کیا اور مآلِ کار ہمارے چہرے پر چھینٹے اُڑاتے ہوئے ہمارے ہاتھوں میں آیا۔
اشیائے ضرورت:
ہمارے اِس تجربے کے لیے مندرجہ ذیل نکات کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے
1.برقی رو کی فراہمی میں تعطل نہ ہو۔
2.اخبار اتوار ہی کا ہو
3.گھر میں موجود بجلی کی استری قابلِ استعمال ہو اور اِس میں کوئی بنیادی نقص نہ ہو۔
ہمارا کامیاب تجربہ:
ہم نے سب سے پہلے احتیاط کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے خبروں کا حصہ اُٹھایا اور اس کے صفحات پر نہایت احتیاط کے ساتھ استری پھیرتے چلے گئے۔ جب وہ کافی حد تک خشک ہوگیا تو اسے اپنے بستر پر ہلکے پنکھے میں سوکھنے کے لیے پھیلا دیا۔ پھر مقامی سیکشن پر ہاتھ صاف کیا اور سب سے آخر میں کتب دنیا پر اچھی طرح تجربہ کرنے کے بعد ہم تیار تھے کہ اپنے پسندیدہ اتوارمیگزین کو خشک کریں جہاں پر چند حسینوں کے پانی میں بھیگے ہوئے چہرے ہمارے منتظر تھے، لیکن نصف بہتر کی قہر آلود نظروں نے ہمیں اس منصوبے پر عمل درآمد سے باز رکھااور ہم اس خوبصورت حصے کو بستر پر پھیلا کر باقی ماندہ خشک اخبار کی بے مقصد ورق گردانی کرنے لگے اور وقت گزاری کرنے لگے۔
ہمارا ناکام انجام:
انتظار، انتظار، انتظار۔۔۔۔۔ اے نسیمِ صبح!، جلد اِس پانی کو خشک کردے۔
سبق:
اس تجربے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اخبار پڑھتے وقت خاص طور پر حسینوں کے گداز چہروں پر نظر ڈالتے وقت، خیال رکھیے کہ بیگم صاحبہ کچن میں مصروف ہیں۔ ان کے قریب آتے ہی خبروں والے حصے کیا بغور مطالعہ شروع کردیجیے کہ سیاست، صحافت، مذہب، دِگرگوں سماجی و معاشرتی حالات ہی آپ کے مطالعہٗ اخبار کا مطمحِ نظر ہیں۔ خبردار
سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوری
والا راز کہیں بیگم پر افشاٗ نہ ہوجائے۔
ٹیگ نامہ: یوسف-2 ، نیرنگ خیال ، محمد یعقوب آسی