باب ہجدھم: شیر خان کا حملہ
ابھی اس دوستی کو چند ہی لمحات گزرے تھے
مگر یہ قیمتی لمحے کئی برسوں سے لمبے تھے
یہ سچی دوستی بھی دوستو ! کیا قیمتی شَے ہے
یہ ایسا گیت ہے جس کی بہت مخمور سی لَے ہے
ذرا سی دیر میں ایسے وہ گہرے دوست بن بیٹھے
لگا ایسے کہ مدت سے وہ سارے دوست ہوں جیسے
ہوئے باتوں میں ایسے گُم کہ دنیا ہی بھُلا بیٹھے
بگھیرا اور بھالو دوسری جانب پریشاں تھے
اُنہیں بس موگلی کے دشمنوں کا خوف کھاتا تھا
خیال اُن کو بس اپنے موگلی کا ہی ستاتا تھا
کہیں ایسا نہ ہوجائے، اسے اب شیر پاجائے
اکیلا جان کر اُس کو کوئی نقصان پہنچائے
کہاں پر جا چھپا ہے موگلی ، کیسے اُسے پائیں
یہ موذی تاک میں ہے موگلی کوکیسے بتلائیں
اِدھر جنگل کی میرے دوستو ہر شے نرالی ہے
نظامِ زندگی ان بے زبانوں کا مثالی ہے
خبر کوئی کسی بھی حادثے کی چھُپ نہیں پاتی
پہنچتی ہے وہ جنگل کے ہر اِک گوشے کو گرماتی
گِدھوں کے غول نے جب موگلی سے دوستی کرلی
فضاء میں اُڑتے کوّوں نے خبر یہ خوب پھیلادی
یہی سرگوشیاں پھر شیر کے کانوں تلک آئیں
اندھیری رات تھی، جب بدلیاں بھی جھوم کر چھائیں
کہا یہ شیر نے موقع بہت اچھا ہے ، اٹھ بیٹھو!
اٹھو ہانکا لگانے کے لیے کوّوے وہاں بھیجو
دبے پاؤں وہاں پہنچا، یہاں دیکھا وہاں جھانکا
اُدھر اُس کے اشارے پر لگا کوّوں کا بھی ہانکا
سُنا جب شور کوّوں کا تو اپنا موگلی نکلا
اچانک شیر کو پھر اپنی جانب گھورتا پایا
گِدھوں نے جب اُسے دیکھا ، اُڑن چھو ہوگئے فوراً
ڈرا اب موگلی دِل میں ، جو پایا سامنے دشمن
ٌٌ ٌ ٌ ٌ ٌ ٌ
نوٹ: تبصروں کے لیے دیکھیے مندرجہ ذیل دھاگہ
جنگل بُک: رڈیارڈ کپلنگ کی کہانی پر نظم: از محمد خلیل الرحمٰن