ٹھیک ہے پھر عمل کریں . . . ۔
۔ اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اور جو شخص تم میں سے انکو دوست بنائیگا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا۔ بیشک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔
Surah Maidah 51
برادر محترم اکمل زیدی۔
آپ نے ایک ایسے نکتے کی طرف توجہ دلائی ہے جس کے بارے میں تفصیل پیش کرنا ضروری ہے۔ میں آیات پیش کرتا ہوں ، آپ انصاف کیجئے۔
آئیے دیکھتے ہیں پھر اخذ کریں گے کہ اللہ تعالی کیا فرما رہے ہیں اور بناء سیاق وسباق کے یہ ترجمہ مناسب ہے یا نہیں ؟
معاملہ یہ ہے کہ کچھ لوگ جو قرآن پر ایمان نہیں رکھتے تھے رسول اکرم کے پاس آئے کہ رسول اکرم ان کے درمیان قضیے کا فیصلہ فرمادیں۔ اس پر سورۃ المائیدہ کی جو آیات نازل ہوئیں، ان میں سے ہم آیات 48 تا 51 دیکھتے ہیں ۔
اللہ تعالی تلقین فرمارہے ہیں کہ جو کتاب رسول اکرم صلعم پر نازل کی اس کی پیروی کی جائے ، گو کہ کچھ اور شریعت بھی مقرر کی گئی ہیں۔ آزمائش یہ ہے کہ نیکیوں میں انسان سبقت لے جائے۔
سورۃ المائیدہ - آیت 48
پھر نازل کی ہم نے تم پر (اے نبی) یہ کتاب حق کے ساتھ جو تصدیق کرنے والی ہے اس کی جو موجود ہے اس سے پہلے الکتاب میں سے اور نگہبان ہے اس کی سو فیصلے کرو تم اُن کے درمیان اس کے مطابق جو نازل کیا اللہ نے اور مت پیروی کرو اُن کی خواہشات کی، (منہ موڑ کر) اس سے جو آگیا ہے تمہارے پاس حق۔ ہر ایک کے لیے تم میں سے مقّرر کی ہے ہم نے شریعت اور راستہ اور اگر چاہتا اللہ تو بنادیتا تم کو ایک ہی اُمّت لیکن (یہ اس لیے کیا) کہ آزمائے تم کو ان احکام کے بارے میں جو اس نے تم کو دیے ہیں سو تم سبقت لے جاؤ نیکیوں میں۔ اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے تم سب کو پھر آگاہ کرے گا وہ تم کو اِن اُمور سے جن میں تم اختلاف کرتے تھے۔
آیت نمبر 49 -
اور فیصلہ کیا کرو اُن کے معاملات کا اس کے مطابق جو نازل کیا ہے اللہ نے اور نہ پیروی کرنا اُن کی خواہشات کی اور محتاط رہنا کہ مبادا یہ لوگ تم کو فتنے میں مبتلا کردیں (اور منحرف کردیں) کسی ایسے حُکم سے جو نازل کیا ہے اللہ نے تم پر۔ پھر اگر وہ منہ موڑ جائیں تو جان لو کہ چاہتا ہے اللہ کہ مُبتلائے مصیبت کرے اُن کو پاداش میں ان کے بعض گناہوں کی۔ اور بے شک انسانوں میں سے اکثر نافرمان ہیں۔
آیت نمبر 50
تو کیا پھر یہ لوگ زمانۂ جاہلیّت کا فیصلہ چاہتے ہیں حالانکہ کون بہتر ہے اللہ سے فیصلہ کرنے والا اُن لوگوں کے نزدیک جو اس پر یقین رکھتے ہیں۔
اب دیکھئے آیت نمبر 51۔ اس آیت میں رسول اکرم کو حکم دیا جارہا ہے کہ وہ "یہود نصاریٰ " سے "اخذ" نا کریں ۔ کہ یہ "یہود و نصاریٰ" اس معاملے میں جو کچھ پیش کررہے ہیں وہ ان کا اپنا "اخذ کردہ " ہے ۔ یہ آپس میں ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں اس "اخذ شدہ " کے بارے میں کہ یہ آپس میں دوست ہیں۔ میں نے آپ کے لئے عربی متن اور اردو ترجمہ دونوں لکھ دیے ہیں ۔ امید ہے بردر محترم آپ کو آسانی ہوگی اور آپ انصاف کرسکیں گے کہ اس آیت کو بہت سے مذہبی سیاسی بازیگر اپنے فائیدے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
آیت نمبر 51 -
أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
اے ایمان والو " ان یہود اور ان نصاریٰ" سے اخذ نہیں کرو کہ یہ آپس میں دوست ہیں ایک دوسرے کے اور جو کوئی تم میں سے دوستی کرے ان سے تو وہ انہی میں ہے اللہ ہدایت نہیں کرتا ظالم لوگوں کو
یہاں غور کرنے والے الفاظ ہیں الیھود ، النصاریٰ اور لا تتخذو ۔
"ال" اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کسی خاص والے شخص یا اشخاص کی طرف اشارہ ہو۔
یہود کے معانی ہے ہدایت یافتہ اور نصاری کے معانی ہیں مدد کرنے والا۔ اور لا تتخذو کے معانی ہیں آپ اخذ نہیں کیجئے۔
بنیادی بات یہاں یہ ہے کہ قانون ان مخصوص یہود و نصاریٰ کی اخذ کردہ تورات کی تعبیر و تفسیر سے نا کیا جائے کہ یہ خاص یہود اور یہ خاص نصاریٰ مصر تھے کہ ان کے درمیان ان کے اخذ کردہ قانون اور ان کی تفسیر کردہ اللہ کے قانون سے فیصلہ کیا جائے۔ ان کا اصرار تھا کہ تورات اللہ کا حکم ہے اور قرآن اس کی تصدیق کرتا ہے لہذا کیا وجہ ہے کہ " ان یہود اور ان نصاریٰ " کے درمیان فیصلہ ان کی تعبیر کے مطابق نا کیا جائے۔ یہ حقیقت آیات 41 سے 47 میں بیان کردی گئی ہے ۔ آپ دیکھ سکتے ہیں۔ اللہ تعالی نے رسول اکرم کو حکم دیا کہ وہ ان یہود اور ان نصاریٰ سے اخذ نا کریں۔ کہ یہ گروپ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو بھی ان سے خیالات و نظریات ہموار کرے گا تو وہ بھی انہی میں سے ہوگا۔
آپ آیات 41 تا 48 کا مطالعہ بھی فرمائیے۔ تو آپ کو اندازاہ ہوگا کہ معاملہ یہ ہے کہ یہ مخصوص گروہ رسول اکرم کے پاس اس لئے آیا تھا کہ ان سے توریت سے فیصلہ کروایا جائے ، اس کی دلیل ان لوگوں کے پاس یہ تھی کہ قرآن کریم توریت اور انجیل کو توثیق کرتا ہے ۔لہذا ان کے "اخذ کردہ " فیصلے کو قبول کیا جائے۔
امید ہے آپ کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہوگی کہ تمام کے تمام یہود اور نصاری سے دوستی رکھنے یا نا رکھنے کی بات اس آیت میں نہیں ہورہی ہے بلکہ اللہ تعالی رسول اکرم کو قرآن کے مطابق فیصلہ کرنے کی ہدایت فرما رہے ہیں اور ان مفسرین کے اخذ کردہ بیان اور فیصلے سے اور اس گروپ سے ملاپ کرکے اپنے نظریات ان کے نظریات سے ملانے سے منع فرمارہے ہیں۔
والسلام