بارہ مرچوں کا کچھ بیاں ہوجائے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ہوہوہوہوہو۔۔۔۔ یہ کونسل کی اسیری سے پہلے کے مضامین ذرا ڈھونڈ کر لگائیے۔۔۔ یا ایک دو غزلیات ہی اس سادہ اور غیر رنگین دور کی شریک کیجیے۔۔۔ ہوہوہوہوہوہو
امریکا کے مزےسے مراد وہ مزے قطعی نہیں ہیں کہ جو آپ لاہور میں لوٹتے رہے ہیں۔ وضاحت کے لیے مندرجہ ذیل کثیفے سے مدد لیجیے:
بیوی نے پوچھا کہ آپ شادی سے پہلے کیا کرتے تھے ۔ شوہر بولا کہ جو میرے جی میں آئے وہ کرتا تھا۔
:censored:
اللہ اللہ میرے منہ میں خاک۔۔۔
ہائیں ، ہائیں ۔ بری بات! یہ مٹی کھانے کی عادت کب جائے گی آپ کی۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جماعت اسلامی جب ہر جگہ سے پٹ گئی ، تو ایک ایماندار نے سوچا کہ جیتا تو میں بھی نہیں ہوں گا۔ بہترین موقع ہے ایماندار کہلوانے کا، اور اپنی ہار کا اعلان کر دیا۔۔۔۔
یقینا یہ اجازت دینا اس مثال سے ہرگز متعلق نہ ہوگا۔۔۔۔ :devil3:
نہیں ۔ اس مثال سے متعلق تو بالکل بھی نہیں ہے ۔ لیکن یہ آج کل آپ اتنی سمجھناک باتاں کیوں کررہے ہیں؟
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اس قدر شاندار مضمون بڑے عرصے بعد پڑھا۔ مضمون مرچوں پہ تھا لیکن دل ٹھنڈا کر دیا۔ زبردست پہ ڈھیروں زبریں۔
صاحبِ مضمون نے تو خوب کمال کیا۔ ساتھ ہی ایسے ایسے تبصرے ہوئے کہ تبصرہ کرنے والوں نے بھی کمال کر دیا۔
بہت بہت شکریہ! بہت ممنون ہوں ۔
تمام تبصرہ نگاروں کا بھی شکریہ کہ انہوں نے توجہ سے پڑھا اور اپنی رائے دی ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آپ نے کمال تبصرہ کیا ہے۔
اور متفق ہوں کہ ظہیر بھائی کو نثر میں بھی کنجوسی نہیں کرنی چاہیے۔ ہمارا حق ہے کہ ہم ان کی نثری تحریروں سے بھی مستفید ہوں۔ :)
چند مضامین اور ہیں جو یہاں پوسٹ کرنے کا ارادہ ہے ۔
ویسے کچھ تو قارئین کو بھی سانس لینے کی مہلت دینا چاہیے۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب تحریر ہے۔
بس اس بات کی وضاحت کر دیں کہ سچی بات کہنے پر سامنے والے جو مرچیں لگتی ہیں، وہ والی کون سی ہیں۔
اللہ کرئے زور قلم اور زیادہ۔
⬇️
جاتے جاتے اگر تتیّا مرچ کا ذکر بھی ہوجائے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ پاک و ہند میں بکثرت پائی جانے والی یہ چھوٹی سی زردی مائل مرچ تعارف کی محتاج نہیں۔ اس کی ڈنک مار مرچائیت نام ہی سے ظاہر ہے۔ مختصراً یوں سمجھیے کہ اس کی تیزی اور کاٹ بیوی کے طنز سےبس ذرا ہی کم ہوتی ہے۔ چونکہ ہر شخص موصوفہ (یہاں مرچ کی طرف اشارہ ہے) کی خصوصیات سے بخوبی واقف ہے اس لیےاندیشۂ نقصِ امن کے تحت غیر ضروری تفصیلات سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ امید ہے کہ عقلمند قارئین تھوڑے لکھے کو بہت جانیں گے اور اپنے اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں خالی جگہیں پُر کر لیں گے۔ دیگر قارئین مزید معلومات کے لیے محفل پر موجود خواتین سے رابطہ فرمائیں کہ باورچی خانے کے معاملات اُن سے بہتر کون جان سکتا ہے۔
:):):)
 

صابرہ امین

لائبریرین
ہا ہاہاہ! مرچوں پر مضمون لکھنے کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ مرچیں جوابی میزائیل نہیں داغ سکتیں۔ :D مرچ کے رشتہ داروں کی طرف روئے سخن کیا جائے تو تند و تیز جواب مضمون کا اندیشہ رہتا ہے۔ :grin:
( ایک عدد ہیلمٹ اور دو عدد زرہ بکتر والی ایموجیاں)
بھئی ہم تو معصوم اور سادہ سی شملہ مرچ ہی ہوتے اگر کسی مرچ کے رشتہ دار ہوتے :female-fighter: !! اچانک سے اماں (دادی) یاد آ گئیں! اللہ ان کی مغفرت فرمائے، آمین۔
جب کوئی بھی بچہ کام کرنے میں آنا کانی کیا کرتا تھا تو کہتی تھیں۔ ٰٰ ہوں! کام نہ کرنے کے سو بہانے!!!ٰٰ
برگر وغیرہ میں ذرا سی چپوٹلے تو میں بھی کھالیتا ہوں۔ چپوٹلے ساس چونکہ مرچوں کے ساتھ عموماً پنیر یا میئو وغیرہ ملا کر بنائی جاتی ہے اس لیے مرچ کی شدت کم ہوجاتی ہے۔
آپ کبھی پیری پیری ساس آزمائیے گا۔ وال مارٹ وغیرہ پر کئی قسم کی دستیاب ہیں ۔ شکاگو میں پیری پیری چکن والوں کا ایک ریستوران کئی سال پہلے کھلا تھا کہ جس میں ہم جاسکتے تھے۔ وہ میرے بچوں کا پسندیدہ رہا ہے ۔ میں البتہ نہیں کھا سکتا۔ جب بھی وہاں گئے تو مجھے کول سلا پر ہی گزارا کرنا پڑا۔:)
پیری پیری چکن تو کراچی میں خوب کھایا۔ نینڈوز گھر کے پاس ہی تھا تو پورچوگیز پیری پیری چکن اور گرلڈ ویجیز ہمارے پسندیدہ تھے۔ کیا یاد دلا دیا!!:desire:
جی وال مارٹ پر کئی قسم ساسز دستیاب ہیں۔ بچے بدل بدل کر لاتے رہتے ہیں۔ آج کل تھاؤزنڈ آئی لینڈز آیا ہوا ہے۔ مزے کا ہے۔
ہا ہاہا ۔ کمیشن اور معمولی؟!
اگر اس کمیشن کی تفصیلات بہ آسانی لکھ سکیں تو گوش گزار کرنے کی گزارش ہے۔ اگر تفصیلات لکھنے میں تین صفحات سے زیادہ لگیں تو پھر کوئی ضرورت نہیں ۔ میں مرچوں سے سمجھوتا کرلوں گا۔ :D
بھئی فیس نہیں بس کمیشن کہا تھا۔ اصل میں ہم ایک سمجھدار محفلین کو جانتے ہیں جو آپ کے گھریلو مسائل کو بہت سمجھداری سے حل کر سکتی ہیں۔ ان کا نام بتانے پر کچھ فیصدی کمیش کا سوچا تھا مگر چونکہ آپ کے گنجلک مسائل کے مطابق تفصیلات تین صفحات سے زیادہ ہیں تو آپ سمجھوتہ ہی کر لیجیے تو بہتر ہو گا ! :D

ہاں تعلقات میں بگاڑ چاہتے ہوں تو وہ خدمات مفت میں سارا سال مل سکتی ہیں!!! :D
ایک ہی فن تو ہم نے سیکھا ہے
جس سے ملیے اسے خفا کیجیے
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
ضرور لکھیے یہ رہنمائے بیگمات ۔ مجھے یقین ہے کہ یہ رہنما ہدایات سب سے پہلے آپ پر ہی استعمال ہوں گی۔
اور اس کے بعد آپ کو ان ہدایات کا رد لکھنے میں آسانی ہوگی۔
میں محفوظ ہوں۔ الحمداللہ میرے گھر کی وزارت عظمی کتابوں سے رتی برابر بھی شغف نہیں رکھتیں،بلکہ یہ سمجھتی ہیں کہ میں اپنا وقت ان کاموں میں ضائع کر رہا ہوں۔ جو کہ کافی حد تک درست بات بھی ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
امریکا کے مزےسے مراد وہ مزے قطعی نہیں ہیں کہ جو آپ لاہور میں لوٹتے رہے ہیں۔ وضاحت کے لیے مندرجہ ذیل کثیفے سے مدد لیجیے:
بیوی نے پوچھا کہ آپ شادی سے پہلے کیا کرتے تھے ۔ شوہر بولا کہ جو میرے جی میں آئے وہ کرتا تھا۔
:censored:
ہوہوہوہوہوہو۔۔۔۔ ہم تو مظلومیت کی زندگی گزار رہے ہیں، روح کانپ جاتی ہے جب کمپنی والے بھی یہی کہتے ہیں کہ دفتر میں آپ کو گھر کا ماحول دینا ہماری ذمہ داری ہے۔

ہائیں ، ہائیں ۔ بری بات! یہ مٹی کھانے کی عادت کب جائے گی آپ کی۔
عادت چلی گئی ہے۔۔۔ بس کبھی کبھی بچپن یاد کرنے کو ایسی حرکت کر لیتا ہوں۔۔۔ اب تو لہوری مٹی میں بھی ذائقہ نہیں۔۔۔ ہائے ملتانی مٹی۔۔۔۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
پس ثابت ہوا کہ جوابی میزائل کی بابت راقم کا اندیشہ درست تھا ، ہے اور ہوگا۔:cool:

بھئی ہم تو معصوم اور سادہ سی شملہ مرچ ہی ہوتے اگر کسی مرچ کے رشتہ دار ہوتے :female-fighter: !! ا
اب اسے آپ کے مراسلے کا اثر کہیے یا پھر خوف اور دہشت کا عالم کہ میں شملہ مرچ کو آخر تک حملہ مرچ ہی پڑھتا رہا ۔
اقتباس لیتے وقت غور سے پڑھا تو معلوم ہوا کہ یہ تو آپ نے اونچے شملے والی طرّہ مرچ کی بات کی ہے۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آپ نے پچھلی بار بھی یہی کہا تھا ۔
اب آخر کتنی بار انسان معافی دے۔ چلیں ایک دفعہ اور سہی ۔ کیا یاد کریں گے کہ کس حاتم تایا سے واسطہ پڑا تھا۔
وہ جو پچھلی بار کہا تھا وہ پچھلی بار کے لیے تھا۔۔۔ وہ موقع دوبارہ نہیں آیا۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
پیارے قارئینِ! چونکہ آپ بہت عقلمند ہیں اور ہر مراسلے کو بغور دیکھ کر جانچتے پرکھتے ہیں تو یقیناً اس وقت آپ کے ذہنِ رسا میں یہ سوال چھلانگ مار کر باہر آنے بلکہ کیبورڈ پر کودنے کے لیے مچل رہا ہوگا کہ ایسی کیا آفت آپڑی جو قبلہ ظہیؔر احمد شاعری کے زمرے سے نکل کر یکایک باورچی خانے میں جھانکنے لگے۔ آپ کے اس فضول سے سوال کا مختصر جواب ویسے تو یوں بھی دیا جاسکتا ہے کہ یہ تحریر منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے لکھی ہے لیکن اس کا اصل جواب جو بہت پہلے اس خاکسار نے کسی کتاب میں پڑھا تھا وہ کچھ یوں ہے کہ کسی چیز کا خوف دور کرنے کے لیے اُس چیز کے بارے میں اکثر اور کھل کر بات کرنا چاہیے۔
اصولاً تو اس وضاحت کے بعد سوالات کے کارخانے میں کام بند ہوجانا چاہیے لیکن ہر معاملے کو کریدنا اور بال کی کھال نکالنا چونکہ ہمارا قومی مشغلہ ہے اس لیے تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ فدوی نے اکتیس بتیس برس پہلے پاکستان کے روایتی مصالحے دار کھانوں سے منہ موڑ کر جب بوجوہ "بلینڈ" امریکی کھانوں کو ہاتھ لگایا تو وہ سر چڑھ گئے۔ اس غیر ملکی دوستی کا نتیجہ یہ نکلا کہ دن بدن زبان اور مرچوں میں ایک گونہ مخاصمت سی پیدا ہوتی چلی گئی۔ رفتہ رفتہ نوبت با ایں جا رسید کہ جب کہیں کسی دیسی دعوت میں مرچ کی تیزی زبان پر آتی تو فوراً ماتھے پر پسینہ اور لبوں پر سی سی کا ورد جاری ہوجاتا۔ حلق سے معدے تک تیکھے پن کی ایک تیزابی لکیر سی کھنچ جاتی۔ مرچ اگر معمول سے تیز تر ہوتی تو چند لقموں کے بعد ہچکیاں بھی شروع ہوجاتیں۔ جس کی وجہ راقم کی ناقص سمجھ میں یہی آتی کہ ہو نہ ہو کوئی میٹھی چیز مجھے یاد کررہی ہے۔ چنانچہ مرچ آلود کھانا چھوڑ کر سیدھے سیدھے میٹھے کی میز کا رخ کرنا پڑتا۔ میرے اِس مرچ مخالف دسترخوانی رویے کی وجہ سے بعض میزبان خواتین کچھ ناراض سی ہونے لگیں۔ اُن کی ناراضگی تو خیر یہ کہہ کر دور کردی جاتی کہ قورمہ بریانی وغیرہ تو کھاتے ہی رہتے ہیں لیکن آپ کے ہاتھ کا حلوہ کہاں نصیب! حلوہ نہیں من و سلویٰ ہے! وغیرہ وغیرہ۔ کچھ عرصے تک تو ہماری یہ شیریں سخنی کام کرتی رہی لیکن جب یہی بات ہم نے کئی دعوتوں میں کھیر ، کسٹرڈ اور گلتّی کے بارے میں بھی دہرائی تو زنانہ میزبان حلقوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں اور کچھ شکوک و شبہات سر اٹھانے لگے۔ چٹپٹے کھانوں سے اس عدم رغبت کا احوال ہر میزبان خاتون نے حسبِ توفیق نمک مرچ لگا کر اگلی متوقع میزبان تک پہنچانا ضروری سمجھا۔ یہ شکایت نما خبریں جب ہوتے ہوتے فدوی کی ہوم گورنمنٹ تک پہنچیں تو معاملات نے کچھ پیچیدہ سی صورت اختیار کرنا شروع کردی۔ ان شکایاتِ غیرلذیذہ و ناپسندیدہ پر قابو پانے کے لیے ایک شام کچن کے پاس کھانے کی میز پر پکوان کونسل کا ہنگامی اجلاس خاتونِ خانہ کی زیرِ صدارت منعقد کیا گیا۔ یوں تو اس خاکسار کو مدتوں پہلے "آج کیا پکائیں" کے روزمرہ سوال کے جواب میں چکن کا بھرتہ اور آلو کی نہاری جیسی کئی شاندار تجاویز دینے اور اُن پر اصرار کرنے کی پاداش میں پکوان کونسل سے معطل کیا جاچکا تھا لیکن اس اہم اجلاس میں بطور سامع بطورِ خاص مدعو کیا گیا۔ ہمارے دونوں صاحبزادگان نے سیاسی وجوہات کی بنا پر اجلاس میں بطور رکن شرکت کرنے کے بجائے دور ہی دور سے مبصرین کا فریضہ انجام دینے اور تالیاں بجانے کو ترجیح دی۔ چنانچہ اس یک رکنی کونسل نے معاملے کی سرسری سماعت کے بعد چند قرادادیں متفقہ طور پر منظور کرلیں۔ قراردادوں کی بلامخالفت متفقہ منظوری کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ صدرِ کونسل کو اپنا ویٹو پاور استعمال نہیں کرنا پڑا۔ ویسے بھی کونسل کے فیصلوں سے اختلاف کی نہ کسی میں ہمت تھی اور نہ کسی کو اجازت۔
القصہ مختصر ، مذکورہ بالا جمہوری نظام کے تحت منظور کردہ قرارداد نمبر تین کی رو سے مجھے روزانہ زبردستی مرچیلے کھانے کھلانے کی ایک باقاعدہ مہم شروع کردی گئی تاکہ زبان اُس ذائقۂ رفتہ سے دوبارہ شناسائی اختیار کرلے کہ جس سے ترکِ تعلقات کو ایک زمانہ ہوگیا تھا۔ مرچ مصالحے اِس بارِ دگر شناسائی پر خوش ہوئے یا نہیں یہ تو نہیں معلوم لیکن اِن بھولے بسرے مراسم کے دوبارہ استوار ہونے پر یہ زبانِ عاجز دہان مرچ کی شان میں کچھ کہے بغیر نہ رہ سکی۔ لیکن نتیجہ اس ہجوِ ملیح کا ہر بار یہ نکلتا کہ اگلے روز کھانے میں مرچیں پہلے سے زیادہ تیزی اور جوش و خروش کے ساتھ کام و دہن سے معانقے کے لیے تیار نظر آتیں۔ اب دکھائی یہ دیتا ہے کہ خاکسار کے غدود ہائے ذائقہ ان تیکھے ترچھے غذائی حملوں کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکیں گے اور گھٹنے ٹیکتے ہی بنے گی۔ چنانچہ ہتھیار ڈالنے کی رسم کو باوقار و باعزت بنانے کے لیے عدو سے سمجھوتا کرنے کی ٹھان لی ہے۔ ذیل کا مضمون اسی دشمنِ دہاں کو سمجھنے اور برداشت کرنے کی ایک کوشش ہے۔ آپ حضرات سے میٹھے میٹھے تبصروں کی درخواست ہے۔

ارے بھئی! بہت مرچیں ہو گئیں۔ پہلے کچھ میٹھا کھا لوں ۔ پھر جواب دیتا ہوں۔ :) :)
 

محمداحمد

لائبریرین
پیارے قارئینِ! چونکہ آپ بہت عقلمند ہیں اور ہر مراسلے کو بغور دیکھ کر جانچتے پرکھتے ہیں تو یقیناً اس وقت آپ کے ذہنِ رسا میں یہ سوال چھلانگ مار کر باہر آنے بلکہ کیبورڈ پر کودنے کے لیے مچل رہا ہوگا کہ ایسی کیا آفت آپڑی جو قبلہ ظہیؔر احمد شاعری کے زمرے سے نکل کر یکایک باورچی خانے میں جھانکنے لگے۔ آپ کے اس فضول سے سوال کا مختصر جواب ویسے تو یوں بھی دیا جاسکتا ہے کہ یہ تحریر منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے لکھی ہے لیکن اس کا اصل جواب جو بہت پہلے اس خاکسار نے کسی کتاب میں پڑھا تھا وہ کچھ یوں ہے کہ کسی چیز کا خوف دور کرنے کے لیے اُس چیز کے بارے میں اکثر اور کھل کر بات کرنا چاہیے۔
اصولاً تو اس وضاحت کے بعد سوالات کے کارخانے میں کام بند ہوجانا چاہیے لیکن ہر معاملے کو کریدنا اور بال کی کھال نکالنا چونکہ ہمارا قومی مشغلہ ہے اس لیے تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ فدوی نے اکتیس بتیس برس پہلے پاکستان کے روایتی مصالحے دار کھانوں سے منہ موڑ کر جب بوجوہ "بلینڈ" امریکی کھانوں کو ہاتھ لگایا تو وہ سر چڑھ گئے۔ اس غیر ملکی دوستی کا نتیجہ یہ نکلا کہ دن بدن زبان اور مرچوں میں ایک گونہ مخاصمت سی پیدا ہوتی چلی گئی۔ رفتہ رفتہ نوبت با ایں جا رسید کہ جب کہیں کسی دیسی دعوت میں مرچ کی تیزی زبان پر آتی تو فوراً ماتھے پر پسینہ اور لبوں پر سی سی کا ورد جاری ہوجاتا۔ حلق سے معدے تک تیکھے پن کی ایک تیزابی لکیر سی کھنچ جاتی۔ مرچ اگر معمول سے تیز تر ہوتی تو چند لقموں کے بعد ہچکیاں بھی شروع ہوجاتیں۔ جس کی وجہ راقم کی ناقص سمجھ میں یہی آتی کہ ہو نہ ہو کوئی میٹھی چیز مجھے یاد کررہی ہے۔ چنانچہ مرچ آلود کھانا چھوڑ کر سیدھے سیدھے میٹھے کی میز کا رخ کرنا پڑتا۔ میرے اِس مرچ مخالف دسترخوانی رویے کی وجہ سے بعض میزبان خواتین کچھ ناراض سی ہونے لگیں۔ اُن کی ناراضگی تو خیر یہ کہہ کر دور کردی جاتی کہ قورمہ بریانی وغیرہ تو کھاتے ہی رہتے ہیں لیکن آپ کے ہاتھ کا حلوہ کہاں نصیب! حلوہ نہیں من و سلویٰ ہے! وغیرہ وغیرہ۔ کچھ عرصے تک تو ہماری یہ شیریں سخنی کام کرتی رہی لیکن جب یہی بات ہم نے کئی دعوتوں میں کھیر ، کسٹرڈ اور گلتّی کے بارے میں بھی دہرائی تو زنانہ میزبان حلقوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں اور کچھ شکوک و شبہات سر اٹھانے لگے۔ چٹپٹے کھانوں سے اس عدم رغبت کا احوال ہر میزبان خاتون نے حسبِ توفیق نمک مرچ لگا کر اگلی متوقع میزبان تک پہنچانا ضروری سمجھا۔ یہ شکایت نما خبریں جب ہوتے ہوتے فدوی کی ہوم گورنمنٹ تک پہنچیں تو معاملات نے کچھ پیچیدہ سی صورت اختیار کرنا شروع کردی۔ ان شکایاتِ غیرلذیذہ و ناپسندیدہ پر قابو پانے کے لیے ایک شام کچن کے پاس کھانے کی میز پر پکوان کونسل کا ہنگامی اجلاس خاتونِ خانہ کی زیرِ صدارت منعقد کیا گیا۔ یوں تو اس خاکسار کو مدتوں پہلے "آج کیا پکائیں" کے روزمرہ سوال کے جواب میں چکن کا بھرتہ اور آلو کی نہاری جیسی کئی شاندار تجاویز دینے اور اُن پر اصرار کرنے کی پاداش میں پکوان کونسل سے معطل کیا جاچکا تھا لیکن اس اہم اجلاس میں بطور سامع بطورِ خاص مدعو کیا گیا۔ ہمارے دونوں صاحبزادگان نے سیاسی وجوہات کی بنا پر اجلاس میں بطور رکن شرکت کرنے کے بجائے دور ہی دور سے مبصرین کا فریضہ انجام دینے اور تالیاں بجانے کو ترجیح دی۔ چنانچہ اس یک رکنی کونسل نے معاملے کی سرسری سماعت کے بعد چند قرادادیں متفقہ طور پر منظور کرلیں۔ قراردادوں کی بلامخالفت متفقہ منظوری کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ صدرِ کونسل کو اپنا ویٹو پاور استعمال نہیں کرنا پڑا۔ ویسے بھی کونسل کے فیصلوں سے اختلاف کی نہ کسی میں ہمت تھی اور نہ کسی کو اجازت۔
القصہ مختصر ، مذکورہ بالا جمہوری نظام کے تحت منظور کردہ قرارداد نمبر تین کی رو سے مجھے روزانہ زبردستی مرچیلے کھانے کھلانے کی ایک باقاعدہ مہم شروع کردی گئی تاکہ زبان اُس ذائقۂ رفتہ سے دوبارہ شناسائی اختیار کرلے کہ جس سے ترکِ تعلقات کو ایک زمانہ ہوگیا تھا۔ مرچ مصالحے اِس بارِ دگر شناسائی پر خوش ہوئے یا نہیں یہ تو نہیں معلوم لیکن اِن بھولے بسرے مراسم کے دوبارہ استوار ہونے پر یہ زبانِ عاجز دہان مرچ کی شان میں کچھ کہے بغیر نہ رہ سکی۔ لیکن نتیجہ اس ہجوِ ملیح کا ہر بار یہ نکلتا کہ اگلے روز کھانے میں مرچیں پہلے سے زیادہ تیزی اور جوش و خروش کے ساتھ کام و دہن سے معانقے کے لیے تیار نظر آتیں۔ اب دکھائی یہ دیتا ہے کہ خاکسار کے غدود ہائے ذائقہ ان تیکھے ترچھے غذائی حملوں کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکیں گے اور گھٹنے ٹیکتے ہی بنے گی۔ چنانچہ ہتھیار ڈالنے کی رسم کو باوقار و باعزت بنانے کے لیے عدو سے سمجھوتا کرنے کی ٹھان لی ہے۔ ذیل کا مضمون اسی دشمنِ دہاں کو سمجھنے اور برداشت کرنے کی ایک کوشش ہے۔ آپ حضرات سے میٹھے میٹھے تبصروں کی درخواست ہے۔

بہت تیز مزیدار بلکہ مسالے دار مضمون ہے۔ :) پڑھ کر باچھیں کھل گئیں۔ :) :)

آپ جب بھی لکھتے ہیں کمال لکھتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ بہت کم لکھتے ہیں اور لکھ بھی لیں تو بہت کم شئر کرتے ہیں۔ :) حالانکہ محفل میں مجھ سمیت سب ہی آپ کی نظم و نثر کے دلدادہ ہیں۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
ہم نے گزشتہ ڈیڑھ دو ماہ بغیر مرچوں کا کھانا کھایا۔ اب جب مرچیں کھانا شروع کی ہیں تو تھوڑی کو بھی بہت جان رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مرچوں نمک والے کھانے اب پہلے سے زیادہ اچھے لگ رہے ہیں۔ :) :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ارے بھئی! بہت مرچیں ہو گئیں۔ پہلے کچھ میٹھا کھا لوں ۔ پھر جواب دیتا ہوں۔ :) :)
آپ کی یہ بات سیدھی معدے پر جا لگی۔ ہائے وہ میٹھے کے مزے!
بہت تیز مزیدار بلکہ مسالے دار مضمون ہے۔ :) پڑھ کر باچھیں کھل گئیں۔ :) :)

آپ جب بھی لکھتے ہیں کمال لکھتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ بہت کم لکھتے ہیں اور لکھ بھی لیں تو بہت کم شئر کرتے ہیں۔ :) حالانکہ محفل میں مجھ سمیت سب ہی آپ کی نظم و نثر کے دلدادہ ہیں۔ :)
بہت شکریہ ، احمدبھائی! یہ آپ کی ذرہ نوازی اور وسیع القلبی ہے ۔ آپ اور ذوالقرنین جیسے شگفتہ نگار صاحبانِ قلم کی طرف سے پذیرائی میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ اللہ کریم آپ کو خوش رکھے!
مصروفیات اور ذمہ داریاں کچھ ایسا گھیر لیتی ہیں کہ چاہنے کے باوجود یہاں کچھ پوسٹ نہیں کرپاتا۔ شکر ہے کہ فیس بک اور ٹوئٹر وغیرہ پر نہیں ہوں۔سو جب کبھی فرصت اور مہلت ملتی ہے یہیں واپس لوٹتا ہوں ۔الحمدللہ۔
ہم نے گزشتہ ڈیڑھ دو ماہ بغیر مرچوں کا کھانا کھایا۔ اب جب مرچیں کھانا شروع کی ہیں تو تھوڑی کو بھی بہت جان رہے ہیں۔
تھوڑی مرچیں بہت ہی ہوتی ہیں ، احمد بھائی! :):):)
 
Top