گویا "وہ اک حسین تھا اس عہد کے حسینوں میں"ارے نہیں فاتح بھائی! لاجواب نظم ہے۔ دل کے تاروں کو چھو لینے والی۔
آپ کو تو پتہ ہے لاجواب کا ہی "حال" کیا جاتا ہے ورنہ "گزارے لائق" چیزوں کو تو کوئی پوچھتا ہی نہیں۔
اس نظم میں "آئی ڈونیشن" ضرورت شعری ہے۔۔۔ جس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تمھیں انگریزی بولنے کی اجازت مل گئی۔بھیا!
لگتا ہے منصور بھائی کا اثر آتا جا رہا ہے آپ میں
فینٹاسٹکنظم ہے
میں نے تو پہلے بھی سن رکھی ہے ناں
لیکن اس نظم سے ثابت ہوتا ہے کہ اب ہماری انگریزی پر غیر متفق نہیں آیا کریں گے کیونکہ بڑے بھیا نے شاعری میں بھی انگریزی کا استعمال شروع کر دیا ہے ناں
بہت شکریہبہترین.....زبردست
اس نظم میں "آئی ڈونیشن" ضرورت شعری ہے۔۔۔ جس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تمھیں انگریزی بولنے کی اجازت مل گئی۔
ممنون ہوں۔کمال ہے فاتح بھائی۔ بہت ہی عمدہ اور لاجواب۔
اور وہ ضرورت فورم کیا ہے؟ یہ بھی بتا دوارے واہ!
یہ کیا بات ہوئی بھلا۔۔ ہماری "انگریزی" بھی "ضرورت فورم" ہے جی
بس ہے ناں بھیاااور وہ ضرورت فورم کیا ہے؟ یہ بھی بتا دو
آج تمھیں اک بات بتاؤں
ایک کہانی یا کوئی قصہ
جو بھی کہہ لو
میرے لیے تو نوحہ ہے یہ
ماتمی نوحہ
آخری نوحہ
تمھیں پتا ہے؟
اس قصے کی الٹی مثلث مجھ پہ کھڑی ہے
تمھیں پتا ہے؟
برسوں سے خاموش سا بیٹھا
کن سوچوں کی
قبر میں دھنستا جاتا ہوں میں؟
سوچ رہا ہوں۔۔۔
کیسی لگتی ہو گی تم
کیسی لگتی ہو گی دنیا
اس دنیا کے رنگ اور نور کی بارش میں تم
بھیگتی کیسی لگتی ہو گی
ہنستی کیسی لگتی ہو گی
یاد ہے تم کو فیصلے کا وہ آخری لمحہ؟
وہ لمحہ جو
صدیوں سے میں جھیل رہا ہوں
تنہا تنہا
۔۔۔ فیصلے کا وہ لمحہ جس میں
تم نے میری آنکھیں لے کر
اور کسی کو تحفہ دی تھیں
یاد ہے تم کو؟
تمھیں پتا ہے؟
بہت دنوں تک
میں تو یہ بھی جان نہ پایا
میری آنکھیں
جا بھی چکی ہیں
بینائی سے میرا رشتہ
ٹوٹ چکا ہے
ہوش میں آنے پر
جب میں نے
آنکھوں پر سے پٹی کھولی
چاروں اور اندھیرا تھا
بس تاریکی تھی
وحشت میں ہاتھوں سے ٹٹولا
آنکھ کی جا پر فقط گڑھے تھے
تمھیں پتا ہے؟
کسی کو میری آنکھوں کی ڈونیشن دے کر
اس کی دنیا روشن کر کے
کہنے کو
جنت میں تم نے ایک محل تعمیر کیا ہے
لیکن میری آنکھیں چھین کے
تم نے ایسا پاپ کیا ہے
جس میں دوزخ بھی جل جائیں
میرا حصہ گھور اندھیرے
تمھیں پتا ہے؟
ایسے اندھیرے
جن میں
تمھارے چہرے کا بھی دیپ نہیں ہے
جن میں
تمھارا سایا بھی معدوم ہوا ہے۔۔۔
مٹ ہی چلا ہے
تمھیں پتا ہے؟
تاریکی کی لحَد میں لیٹا
سوچتا ہوں میں
رنگ اور نور کی بارش اب بھی ہوتی ہو گی
اب بھی
بہاریں آتی ہوں گی
اب بھی
تمھارے ہونٹوں پر وہ
مسکانوں کی قوس قزح اور
آنکھوں میں وہ
دیپ تو ہوں گے
مجھ کو لیکن کیسے خبر ہو؟
میری تو آنکھیں ہی لے کر
تم نے کسی کو ہدیہ دی تھیں
نور مری ہی آنکھوں کا تو
تم نے کسی کو دان کیا تھا
جو اَب تم کو دیکھ رہا ہے
میری آنکھوں سے جو تم کو دیکھ رہا ہے
میرے سپنے
میرے منظر
اس کے ہیں اب
وہ
جو میری آنکھوں سے سب دیکھ رہا ہے
وہ جو تم کو دیکھ رہا ہے
(فاتح الدین بشیرؔ)
بہت شکریہ جناب۔لاجواب۔۔۔ ۔! بہت خوبصورت نظم ہے۔
لالہ میں بھی اس کی انٹر پٹیشن کا سوچ رہی ہوں ، فاتح لالہ پوسٹ مارٹم کی اجازت عنایت کرئیے ہمیں ؟محترم فاتح بھائی
کتنی ہی بار پڑھ چکا مگر " نظم " مجھے اک " طلسم " ہی لگی ۔
جو مجھ ناقص العقل پر نہ کھل سکی ۔
جانے
نوحہ ہے بے بسی کا
کہ دہائی ہے ظلم کی
پچھتاوے کا اظہار ہے
کہ " کبھی آنکھیں دان نہ کرنا " کی صدا ،
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
آپ تو "ہمزاد" ہیں۔۔۔ آپ جس طرح چاہیں پکاریں۔۔۔فاتح الدین بشیر محمود ۔۔۔
(معاف کرنا دوست۔۔ آج براہِ راست نام لیا۔۔اظہارِلاتعلقی کے لیے)
موجود و نامو جود و خلا کی تثلیث پر حرفِ چند لکھنے لیے ’’لاتعلقی ‘‘ ضروری ہے دوست۔۔
مجھے نہیں معلوم میں اپنے آنسو رقم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔۔۔
یا وہ فاتح الدین بشیر محمود قرطاس پر زنجیر کر رہا ہوں جس کے ہاتھ کا لمس میرے رگ و پے میں کھوکھلی ہنسی ہنس رہا ہے۔۔
جسے پہلی بار دیکھ کر ’’ قصّہ فاتح الدین بشیر محمود سے ملاقات کا ‘‘ لکھتے ہوئے بے روح بے جان اور کھوکھلے قہقہے لگانے والا لکھا ۔۔
وہ جسے چائے خانے کی میز پر ’’باہر والا ‘‘ کو منصبی طغرہ دکھاتے ہوئےدھمکاتے دیکھا تھا ۔۔
وہ ’’فاتح‘‘ جسے میں ’’ قبلہ و کعبہ و جامع مسجد و عیدگاہ فاتح المفتوحین والفتّاح المفتاح الفاتح الدین بشیر محمود ‘‘ لکھتے ہوئے خالی آنکھوں سے مسکراتے دیکھتا تھا۔۔۔ ۔۔
وہ فاتح المفتوحین۔۔ مفتاح العیون کے محاذ پر آنکھیں چوکھٹ پر گاڑ آیا ہے ۔۔
یار پیارے میرے دوست میرے بھائی پیارے صاحب۔۔۔
یار جانی۔۔ آنکھیں دھندلا رہی ہیں ناں پیارے دھندلا رہی ہیں۔۔کتنی بار پڑھوں یار ۔۔ افف۔۔
گیارہ بارہ مرتبہ کی کوشش کے بعد بس صرف’’پڑھ‘‘ پایا ہوں یار۔۔۔ ۔۔
وہ ’’ فاتح‘‘‘ جسے میں ’’ نفرت‘‘ سے جانتا ہوں ۔۔ وہ فاتح ۔۔ اففف میرے خدا ۔۔ افف۔۔ یار صرف تین سطریں پڑھی تھیں اور آنکھوں کو لگام دینے لگ گیا تھا
مگر ہاتھوں سے باگیں پھسلتی جارہی ہیں۔ پیارے صاحب ۔۔ کیا کہوں ۔۔
’’نگارِ وقت پہ موجود ہر تحریر جھوٹی ہے‘‘ یا یہ کہوں یار ۔۔
اس ’’عطیہ‘‘ میں کہیں ’’ مخبون ‘‘ ۔۔کہیں ’’ محذوف ‘‘ بھی تو ہونے تھے ناں یار ۔۔ "خبن" اور "قطع" کی حد ہی جاری کردیتے ناں ۔۔ ۔۔
یار نہیں لکھا جا رہا ناں نہیں لکھا جا رہا۔ ۔۔ جی میں آتا ہے
’’ تُف برَ تُو تُف برَ تُو تُف برَ تُو تُف برَ تُو تُف برَ تُو تُف برَ تُو تُف برَ تُو تُف برَ تُو‘‘ کہہ کے آنکھیں پھیر لوں تجھ سے ۔۔
اور رو رو کر ہلکان ہونے کا ہنر سیکھنے لگ جاؤں ۔۔ یار۔۔ یہ مثلث نہیں ہے ناں ۔۔ اففف۔۔ یہ ’’تکوین‘‘ ہے یار یہ ’’تکوین‘‘ ہے کیوں تکلیف دیتا ہے یار۔۔
کتنی دور سمندروں کے غلاف منھ پر اوڑھ کر بیٹھ گیا ہے کہ میں جھلّاہٹ میں چہرہ بھی نہیں نوچ سکتا ۔۔
میں تو اتنا بھی نہیں کہہ سکتا کہ یار یہ مکروہ چہرہ ہے یار کریہہ المنظر بننا اختیاری نہیں ہے ۔۔
کیوں مسلّمات میں چھیڑ چھاڑ کرتا ہے۔۔۔
یار نوحے نہ لکھا کر یار۔۔ بس’’ نفرت‘‘ کیا کر ۔۔ فاتح کی نفرت سب سے بڑی فتح ہے ۔۔
کیوں عَلم گاڑنے لگا ہے میرے یار۔۔۔
سینے پر الم ہی کافی ہوتے ہیں عَلم نہیں میرے یار۔۔
۔ یار میں بَک بَک اسی لیے کر رہا ہوں کہ کوئی لفظ مل جائے یار۔۔۔
او میرے بھائی ۔۔۔ یار یہ تنقیدیئے کہتے ہیں جس میں ’’رِقّت‘‘ آجائے اسے ’’ادب میں دِقّت‘‘ سے جگہ ملتی ہے ۔۔
یار۔۔ میں آنسوؤں کو دلاسے دوں یا بینائی کے ’’عطیے‘‘ کا ماتم کروں ۔
یار ہاتھ سینہ کوبی کواٹھتے ہیں مگر آنسوؤں پر پڑ جاتے ہیں۔۔
یاااااررر۔۔ یار ۔۔ بال نوچوں ۔ سینہ پیٹوں ۔۔ ناخن چباؤں ۔۔ہونٹ چباؤں یا کچھ لکھوں ۔۔۔
خود ہی بتا دے ناں یار۔۔۔
خود ہی بتا دے ۔۔ او میرے بھائی ۔۔ میرے بھائی ۔۔بھائی ۔۔افف میرے اللہ ۔۔۔ ۔
یار آنسوکسی عروضی دائرے میں آتے ہیں یار۔۔ کوئی مخبون محذوف کی باڑ ؟؟۔۔ کسی وتد ’’سبب‘‘ کی منڈیر؟۔۔
میرے یار ۔۔ کیوں کافر کرتا ہے کیوں کافر کرتا ہے ۔۔ افف۔۔ فاتح بھائی ۔۔۔
میرا ہاتھ اپنے دل پر محسوس کرو ناں یار۔۔ ماتھے پر بوسے ۔
آنکھوں پر دھوئیں کی کثافت میں لتھڑی ہوئی انگلیوں کے پور۔۔
بس کردے ناں یار کیوں زنگ لگی آنکھوں کو تر کرتا ہے یار۔۔
میرے یار۔۔۔ فاتح الدین بشیر محمود ۔۔۔
’’ قبلہ و کعبہ و جامع مسجد و عیدگاہ فاتح المفتوحین والفتّاح المفتاح الفاتح الدین بشیر محمود ‘‘ ۔۔
یار ۔۔ ’’ نفرت‘‘ بس ’’ نفرت ‘‘ ۔۔
قسم سے بڑی خالص اور بڑی لطیف ہے نفرت۔۔۔
==
یار تمھاری بھابھی کی طبعیت کی خرابی کی وجہ طبیعت ادھر مائل نہیں ہے ،
سعود بھّیا سے بھی کل خوب باتیں ہوئی تھیں۔۔ مگر تم نے دامن پکڑ لیا یار۔۔رات میرے ساتھ غزل بھی روتی رہی۔۔ تمھارے چیٹ پر وہ جملے پڑھ کر۔۔
میں نے کئی بار پوسٹ کرنے کوشش کی ۔۔ مگر ناکام رہے۔۔ غزل کے حکم پر یہ شامل ہے ۔۔ ہو سکے تو قبول کرنا۔۔
یہ تو پڑھنے والے کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ اس کی تفہیم کیسے کرتا ہے، شاعر کے ذہن میں جو ہو اگر وہی قاری کے ذہن میں بھی منتقل ہو جائے تو ایسی شاعری کو کمال کہا جاتا ہے۔محترم فاتح بھائی
کتنی ہی بار پڑھ چکا مگر " نظم " مجھے اک " طلسم " ہی لگی ۔
جو مجھ ناقص العقل پر نہ کھل سکی ۔
جانے
نوحہ ہے بے بسی کا
کہ دہائی ہے ظلم کی
پچھتاوے کا اظہار ہے
کہ " کبھی آنکھیں دان نہ کرنا " کی صدا ،
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
جذبۂ تشکر کے ساتھ ممنون ہوں جناب۔کیا عمدہ ہے۔ بہت بہت داد قبول کیجیے جناب