سیاہ سرورق والی یہ ایک روشن کتاب ہے ۔
ایک شخص کے اندرکی روشنی نے اس کتاب میں اتنی روشنیاں سمودی ہیں کہ اب یہ آنے والے دورکے اجالوں کی نمائندہ کتاب بن گئی ہے۔ کچھ چیزیں کچھ لوگوں کے لئے بے کار ہوتی ہیں اورہر چیزہرشخص کے لئے کبھی نہیں ہوتی ۔سو جس دل میں گداز نہ ہواورجس میں انسانیت کی کوئی رمق نہ بچی ہووہ شخص کبھی یہ کتاب نہیں پڑھ سکتامگر جس دل میں ان میں سے کوئی سی چیز ذراسی بھی رہ گئی ہو،وہ بغیر روئے اوربغیر ہچکیاں لئے یہ کتاب مکمل نہیں کرسکتا۔یہ روناوہ رونانہیں ہو گاجوتذلیلِ انسانیت پہ کوئی صاحب احساس روتاہے ،بلکہ یہ عظمتِ انسانیت کے لئے مینارہ ہوجاتے لوگوں کے جوتوں میں سپاس کے طورپرگرتے آنسوؤں والاروناہوگا ۔جس میں رقت ہوتی ہے مگرجس میں مسرت جھومتی ہے اورجس میں خلوص بھری عظمت ہلکورے لیتی ہے۔جس میں دل اُن اَن دیکھی نعمتوں کے تازہ ذائقے محسوس کرتاہے ، جوابھی دنیامیں نہیں اتریں۔ اورجس میں آنکھ ان گم گشتہ رفعتوں کے خواب دیکھتی ہے جنہوں نے کبھی کائنات کے دلہا،سرورِ کائناتؐ کے عہدِانسان نواز میں دھرتی پہ جھانکا تھا اورپھرجن کی چاہ میں انسان باؤلااوربوڑھاہوتاگیا۔
ڈاکٹرامجد ثاقب اس عہدکاانسان نہیں ،مگروہ اس عہدکے لئے ضرورہے ۔ا س کی کامیابیاں،نہیں بلکہ عظمتِ انسان کی کامیابیاں وہ ہیں کہ جوخشکی سے اترکراورسمندروں میں بہہ کر،اب براعظموں میں تیرتی پھرتی ہیں۔
معاشیات کی ساری ترقی ،معاشیات کے سارے فلسفے ،معاشیات کے سارے ادارے اورپھران سے وابستہ معتبر افراد سارے ،اس ایک سادہ شخص کی کامرانی کو حیرت سے بت بنے دیکھتے ہیں۔دیکھتے اورسراہتے ہیں ۔
مائیکروفنانس کے جتنے معتبرعالمی حوالے ہیں ،وہ اسے جانتے اوراس کی کامرانی کومانتے ہیں!
اس شخص کی کامرانی کی کلیدیہ ہے کہ اس نے زندگی کووہاں سے نہیں دیکھاجہاں سے چکاچوندکی ماری دنیادیکھتی ہے ،بلکہ وہاں سے دیکھاہے جہاں سے دنیابنانے والاانسان کودکھاناچاہتاہے ۔
چنانچہ ان کی کہانی اوردنیاکی داستان میں اتناہی فاصلہ وفرق ہے جتنابلندی اورپستی میں ہوتاہے اورجتناہوناچاہئے ۔ا س دن ،جس دن
ڈاکٹرامجدثاقب اس امریکی یونیورسٹی ہاورڈمیں لیکچردینے کھڑے تھے ،جس سے 50 نوبل انعام یافتہ شخصیت وابستہ ہیں اورجس کابجٹ 22ملکوں سے بھی زیادہ ہے ،توکیایہ ایک پاکستانی فاتح کی جیت تھی ؟نہیں سرورعالمؐ کے ا س ارشادکی جیت کہ سود کی کوکھ بانجھ ہے اورجیت صرف صدقات کے لئے بنی ہے ۔
جس دن بنگلہ دیشی نوبل انعام یافتہ اورگرامین بینک کے خالق ڈاکٹر یونس سے ہمارے امجدثاقب نے دردمیں ڈوب کے پوچھاتھاکہ غریبوں کی بے بسی کوسہارادینے والے قرض پہ آخر آپ کابینک سود کیوں لیتاہے ؟ آیا یہ غریب کی مددہے یااس کا ستحصال !توبنگلہ دیشی طنز سے مسکرادیاتھااورا س نے کہاتھا’’تم بغیرسودکے کر کے دکھادو!‘‘ی
ہ چیلنج صرف
ڈاکٹریونس کانہ تھا،یہ چیلنج لندن سے اخوت دیکھنے پاکستان آئے مائیکروفنانس ایکسپرٹ
میلکم ہارپرکا بھی تھا،یہ چیلنج توسود پرکھڑی دنیاکی ساری معیشت نے پوری امت کودے رکھاہے ۔ یہ چوٹ اس ڈاکٹرکے دماغ پہ لگی اور اس نے اسے دل کاروگ بنالیا۔
ا س نے پنجاب گورنمنٹ کی افسری چھوڑی اوردوکمرے کے ایک مکان سے اس کام کاآغازکیا،جوغارِ حرا سے اٹھ کرآنے والے نے مکہ اورپھرمدینہ میں شروع کیاتھا۔اورکون نہیں جانتا،جس کاآغازمدینے والے کے نقش قدم پرہو،اس کی اٹھان بڑی تابناک اوراس کاانجام بڑارشک آور ہوتاہے ۔پہلے قرض دس ہزارسے لے کرآج تک کہ جب اس کارخیرکادائرہ چھ ارب
ڈالر(روپے)تک پھیل چکاہے ،یہ کتاب وہ ساری کہانیاں کہتی ہے ،جن میں سے ہرایک پرانسانیت ناز کرسکتی اورجن میں سے ہرایک پرمسرت قربان ہوتی ہے ۔تین لاکھ گھرانے آج اس ایک شخص کی وجہ سے اپنے پاؤں پرکھڑے ہیں ۔تین لاکھ گھرانوں کااعتماد ،ان کی دعائیں اوررسول رحمت ؐکے فرمان کی تائید حاصل ہو،وہ کبھی ناکام ہوسکتاہے ؟جی نہیں ،خیرہ کن کامیابی ڈاکٹر امجدثاقب کی جھولی اورپاکستان کے آنگن میں آگری ہے اوریہ کامیابی ایک پورے عہد کی عظمت کی داستاں ہے ۔ایک اخوت کے سفرکاحیرت کدہ ہی اس میں آباد نہیں ،امت اورامریکہ کی تاریخی اورحالیہ حیرتوں کی کئی ایسی کہانیاں بھی آگئی ہیں جواتنی زیادہ کم ہی کسی ایک کتاب میں یکجاملتی ہیں۔مثلاوہ امریکی ریاست جوآج بھی جدید دنیاکی کسی ایجاد سے کوئی سروکارنہیں رکھتی اوروہ امریکی شہر جس میں ایک پاکستانی کانام پوراشہر احترام سے لیتاہے مثلاً،ملک سے باہر بستے ان پاکستانیوں کی محبتِ وطن کی وہ لازوال داستانیں جن کاایک ایک حرف درخشاں اوردرخشندہ ہے ۔مثلاًوہ سفرجوامجدثاقب نے اپنی فیملی کے ساتھ پوراماہ ٹرین میں امریکہ کھوجتے گزاردیا۔کچھ آنکھوں اورکچھ چہروں کی رائیگاں گئی الفت کی داستاں بھی گاہ کتاب میں پلکیں اٹھاتی ہے جن کی مہمیز کوڈاکٹر نے اخوت میں گم کرکے اسے رائیگاں نہیں جانے دیا۔ یہ کتاب پاکستان کاایک اورچہرہ پیش کرتی ہے ، دشمن نہیں چاہتایہ چہرہ بھی دنیادیکھے ۔امجدثاقب نے مگریہ چہرہ بڑی محبت اورمحنت سے دکھایاہے ۔تابناک ،توانااورزندگی سے بھرپورچہرہ !انکسار ایسا کہ پورے سفر میں سایہ دیتے کسی ایک شخص کا نام بھولے سے بھی نہیں بھولے۔ اتنے نام کتاب میں آ گئے ہیں کہ کسی ناموں کی کتاب میں بھی نہ آئے ہوں گے۔مجھے خوشی ہے کہ میں ڈاکٹرامجد ثاقب کے عہدمیں زندہ ہوں ۔ مسرت اس لئے بھی دوبالاہوجاتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ہمارے اس عہدکوعہدِ نبوی سے ملادیاہے ۔مجھے یوں لگتاہے کہ کسی دن میں بھی مفلسوں کی درید ہ قباسیتے ڈاکٹر صاحب کے مخلص کارکنوں سے جاملوں گا۔میری روح اوردعاہراس شخص سے ہروقت گلے ملنے کوبیتاب رہے گی جس کی کدال انسانیت کی راہ میں حائل ہمالیاؤں کاسینہ تراشتی پائی جائے گی ۔شکریہ ڈاکٹر امجد ثاقب !آپ کی اخوت کاشکریہ اورکتاب اخوت کے ہرسفر اورہرورق کاشکریہ