اسکے بعد چند تجزیات جو کافی عرصہ نثر کی صورت میں اپنی ڈائیری میں لکھ رکھے تھے آج کچھ اشعار میں بدلنے کی کوشش کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
بتوں بسمل سے کہتے ہو مسلماں ہم نہیں ہونگے
سرِ محشر تم ہی ہوگے پشیماں ہم نہیں ہونگے
جلا دیگا جہاں کو حسنِ عریاں ہم نہیں ہونگے
دھواں بن جائینگی زلفِ پریشاں ہم نہیں ہونگے
بنیں گے کل یہاں انسان حیواں ہم نہیں ہونگے
رقیبِ آدمیت ہونگے انساں ہم نہیں ہونگے
رہیںگے حسن و الفت پا جولاں ہم نہیں ہونگے
دلِ ناشاد ہونگے سنگِ طفلاں ہم نہیں ہونگے
تکے گی ماجرا پھر چشمِ حیراں ہم نہیں ہونگے
یہی منظر رہیںگے اب نمایاں ہم نہیں ہونگے
جہاں ہوجائیگا سب کافرستاں ہم نہیں ہونگے
بنینگے دل اسیرِ زلفِ پیچاں ہم نہیں ہونگے
صنم خانے بنینگے سب دبستاں ہم نہیں ہونگے
مدرّس صرفِ محوِ دیدِ جاناں ہم نہیں ہونگے
اب عالم علم پر خود ہونگے نازاں ہم نہیں ہونگے
بیاں ہونگے خلافِ حکمِ یزداں ہم نہیں ہونگے
دلِ واعظ بنینگے بحرِ عصیاں ہم نہیں ہونگے
خیالِ خود غرض اب ہوںگے طوفاں ہم نہیں ہونگے
کہیں گے چور اب خود کو نگہباں ہم نہیں ہونگے
ہوا کھوئینگے اپنی جب سلیماں ہم نہیں ہونگے
رہوگے ہم سے تم کب تک گریزاں ہم نہیں ہونگے
حسینوں در بدر تم ہوگے ارزاں ہم نہیں ہونگے
رہے گر کفر سے مل کر مسلماں ہم نہیں ہونگے
کسی تدبیر سے بھی پاک داماں ہم نہیں ہونگے
اگر تائب غریقِ بحرِ عصیاں ہم نہیں ہونگے
حبیبِ کبریا کے زیرِ داماں ہم نہیں ہونگے
کہیں گے خود کو ہم مسلم مسلماں ہم نہیں ہونگے
بمع اب اعتمادِ اہلِ برہاں ہم نہیں ہونگے
آپ کی توجہ کا بہت شکریہ
والسلام