اردو محفل کا مشاعرہ برائے ۲۰۱۲ء ( تبصرہ جات کی لڑی)

محمد وارث

لائبریرین
السلامُ علیکم، احباب۔
مدعو کرنے کا نہایت شکریہ۔ ایک غزل آپ سب کے ذوق کی نذر!

ہونے والی ہے بزمِ نو آغاز​
بج اٹھے ہیں سبھی سنے ہوئے ساز​
عشق اکیسویں صدی میں ہے​
وہی راہیں، وہی نشیب و فراز​
اس نے پھر سنگِ آستاں بدلا​
ہم نے رکھ دی وہی جبینِ نیاز​
دور تھا ہر کسی سے ہر کوئی​
دی کسی نے قریب سے آواز​
بندہ پرور کو یہ نہ تھا معلوم​
بندے مانگیں گے بندگی کا جواز​
عشق کرتے ہیں لوگ بھی راحیلؔ​
ہم روایت شکن، روایت ساز​
والسلام۔​

واہ واہ واہ کیا خوبصورت اور رواں غزل پڑھی ہے جناب راحیل فاروق صاحب۔ کہا کہنے، سبھی اشعار بہت خوبصورت ہیں، لاجواب۔


اس نے پھر سنگِ آستاں بدلا
ہم نے رکھ دی وہی جبینِ نیاز

مرحبا، مکرر ارشاد حضور۔۔۔۔۔۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اس لیلیٰ دنیا کو اب کے ہم رہنے دیں گے روٹھا ہی
دل چیر بھی دیں اس کی خاطر یہ پھر بھی خفا ہو جاتی ہے

لیلی دنیا کی ترکیب خوب ہے۔ واہ

ہاتھوں سے سنوارا ہے اپنے اس قفس کی ساری اینٹوں کو
ہمیں جہاں سنبھلنا ہوتا ہے اک نئی خطا ہو جاتی ہے

وہ شخص کہ جس کی آنکھوں میں اک عجب سی الجھن رہتی ہے
جو بات بھی اس کی نسبت ہو وہ حرفِ ثنا ء ہو جاتی ہے

بہت خوب کیا بات ہے۔

سرابِ عشق کی کیا کہیے ہر گام پہ منزل ملتی ہے
پر دشت نوردی میں اکثر روح آبلہ پا ہو جاتی ہے

دنیا کی عدالت بھی ہم کو اب تلک سمجھ نہ آئی ہے
اک بار جو کوئی جرم کرے ہر بار سزا ہو جاتی ہے

بہت خوب ندیم حفی صاحب،

خوب کلام پیش کیا ہے جناب نے۔ اور خاص طور پر آپ کا گیت بہت خوب ہے۔

خاکسار کی جانب سے بہت سی داد پیشِ خدمت ہے۔

خوش رہیے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
دُعا
الٰہی مجھ کو تو ذوقِ مسیحائی عطا کر دے​
جنوں کو تو مرے، مولا شکیبائی عطا کر دے​
بنوں رہبر دکھاؤں راہ میں گمراہ لوگوں کو​
مجھے وہ معرفت ، ایماں، وہ مولائی عطاکردے​
مری بے نام منزل کو نشانِ راہ دے دے تو​
مجھے تو ذات سے اپنی شناسائی عطا کر دے​
الٰہی سوچ سے میری ،ہو روشن اک جہانِ نو​
تخیل کو مرے تو ایسی گہرائی عطا کردے​
نگہ میری اٹھے جس سمت دنیا ہی بدل جائے​
مری بے نور آنکھوں کو ،وہ بینائی عطا کر دے​
معطر روح ہو جس سے ، مسخر قلب ہو جس سے
زبان و نطق کو یارب ،وہ گویائی عطا کردے
زَمن جس سے منور ہو، چمن جس سے معطر ہو​
مرے کردار کو مولا، وہ رعنائی عطا کر دے​
خیالوں کو ملے تصویر اور تعبیر خوابوں کو​
مرے وجدان کو یارب، وہ دانائی عطا کر دے​
اگر چہ عجز سے ہوں میں تہی دامن ، کرم سے تُو​
مرے بے ربط جملوں کو پذیرائی عطا کردے​
ترے در پر ندامت سے ،جھکی ہے پھر جبیں میری​
تمنائے حزیں کو اب، تو شنوائی عطا کر دے​
ترا ہی نام ہو لب پر ، نہ ہو پھر دوسرا کوئی​
نصرؔ کو اب تو وہ خلوت، وہ تنہائی عطا کردے​

ذیشان نصر بھائی۔۔۔! ماشاءاللہ دعا تو بہت ہی خوب پیش کی ہے آپ نے ۔ تمام کلام سچے جذبوں کا عکاس ہے۔
-------------​
تری یاد دل سے مٹانے لگے
تجھے رفتہ رفتہ بھلانے لگے
تمہارے بنا بھی ہیں جی سکتے ہم​
زمانے کو اب یہ دکھانے لگے​
مقدر ہمارے ہوئے خواب پھر​
جبھی تجھ کو دل میں بسانے لگے​
خزینے وفا کے لٹا کر سبھی​
ترے در سے تشنہ ہی جانےلگے​
بچی تھی یہی جاں مرے پاس پھر​
وہی تجھ پہ اب ہم لٹانے لگے​
چلی پھر ہوا یوں ہوا ختم سب​
وفا کر کے یوں ہم ٹھکانے لگے​
جنہیں لوگ پاگل سمجھتے تھے سب
وہی لوگ ہم کو سیانے لگے
ہوئے ہم تو تائب محبت سے اب
تصور کے بت سب گرانے لگے
اور مقطع عرض ہے ۔۔۔​
تمناؤں کا خون کر کے نصر​
سراپنا لحد میں چھپانے لگے​
محمد ذیشان نصر​
واہ ، بہت خوب غزل بھی خوب ہے۔
خوش رہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
السلامُ علیکم، احباب۔

وعلیکم السلام

مدعو کرنے کا نہایت شکریہ۔ ایک غزل آپ سب کے ذوق کی نذر!

ہونے والی ہے بزمِ نو آغاز​
بج اٹھے ہیں سبھی سنے ہوئے ساز​
عشق اکیسویں صدی میں ہے
وہی راہیں، وہی نشیب و فراز
اس نے پھر سنگِ آستاں بدلا
ہم نے رکھ دی وہی جبینِ نیاز
دور تھا ہر کسی سے ہر کوئی
دی کسی نے قریب سے آواز
بندہ پرور کو یہ نہ تھا معلوم​
بندے مانگیں گے بندگی کا جواز​
عشق کرتے ہیں لوگ بھی راحیلؔ
ہم روایت شکن، روایت ساز
والسلام۔​

راحیل فاروق صاحب،

یہ پہلا موقع ہے کہ آپ کا کلام پڑھ رہا ہوں، اور آپ کی پہلی غزل ہی بڑی متاثر کن ہے۔

کچھ اشعار (نیلے والے) بہت ہی لاجواب ہیں۔

خاکسار کی جانب سے نذرانہ ء تحسین پیشِ خدمت ہے۔ :applause:

خوش رہیے۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
سال ہا بیت گئے خوشبوئے یاری نہ گئی
پھول مرجھا گئے پر باد بہاری نہ گئی

ہفت قلزم کا ہوا صاحب و مالک لیکن
بر سر بزم مری کاسہ شماری نہ گئی

سوچ سے نوچ نہیں پایا اسے اور اسکی
طاق دیوار سے تصویر اتاری نہ گئی

جرس قافلہِ دربدری سن کر بھی
دل سے اٹھ کر بہ زباں محمل زاری نہ گئی

وقت گزرا تو سبھی تند نشے ٹوٹ گئے
پر مئے عشق بے رحم خماری نہ گئی

رات دن دشت میں صحرا میں پھرے ہیں لیکن
در یاراں پہ حجاز اپنی سواری نہ گئی

:great:

مہدی نقوی حجازؔ

مہدی بھائی۔۔۔۔!

بہت خوبصورت کلام پیش کیا ہے آپ نے۔ مختصراً کہوں تو اتنا کہ پہلی غزل خوب اور دوسری لاجواب ہے۔ اس غزل میں بھی سارے شعر ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔

خاکسار کی جانب سے ڈھیر ساری داد مہدی بھائی کے لئے۔ :best:

اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ۔ :praying:
 

محمد وارث

لائبریرین
غزل
کمال عاشقی دیکھو شکوہ حسن ظن دیکھو
کہ میرا بِین اور اس پر حسینوں کا چلن دیکھو
مُصر ہے جاں نکلنے پر، بدن کو خواہش جاں ہے
کہ آج اس حشر ساماں میں جدال جان و تن دیکھو
کمر تو ہے نہیں اس کی، جو ہے سو وہ بھی خاکی ہے
صنم کو دیکھ کر بے جا جلال بت شکن دیکھو
کلام شوق سے میرے جہان سوز خنداں ہے
کہ عرش و ماہ و کوہ و دشت و دریا و چمن دیکھو
اگر ہم بزم میں آئیں، نہ دیکھو تم حجاز ہم کو
سر محفل کھڑے سد ہا خدایان سخن دیکھو
یہ ایک اور تازہ غزل ملاحظہ ہو۔۔۔
غزل
سال ہا بیت گئے خوشبوئے یاری نہ گئی
پھول مرجھا گئے پر باد بہاری نہ گئی
ہفت قلزم کا ہوا صاحب و مالک لیکن
بر سر بزم مری کاسہ شماری نہ گئی
سوچ سے نوچ نہیں پایا اسے اور اسکی
طاق دیوار سے تصویر اتاری نہ گئی
جرس قافلہِ دربدری سن کر بھی
دل سے اٹھ کر بہ زباں محمل زاری نہ گئی
وقت گزرا تو سبھی تند نشے ٹوٹ گئے
پر مئے عشق بے رحم خماری نہ گئی
رات دن دشت میں صحرا میں پھرے ہیں لیکن
در یاراں پہ حجاز اپنی سواری نہ گئی

کیا کہنے جناب مہدی نقوی حجاز صاحب، بہت خوب۔
 

محمد وارث

لائبریرین
غزل​
(مزمل شیخ بسمل)​
جو کل تھی آج ہم میں وہ سیرت نہیں رہی​
وہ دبدبہ وہ ہوش وہ شوکت نہیں رہی​
جو کل تھی آج ہم میں وہ جرات نہیں رہی​
وہ حوصلہ وہ جوش وہ ہمت نہیں رہی​
جو کل تھی آج ہم میں وہ حشمت نہیں رہی​
وہ مال وہ منال وہ عزت نہیں رہی​
جو کل تھی آج ہم میں وہ دولت نہیں رہی​
وہ عقل وہ حواس وہ نیت نہیں رہی​
جو کل تھی آج ہم میں وہ غیرت نہیں رہی​
وہ سوچ و فکراور وہ عادت نہیں رہی​
جو کل تھی آج میری وہ طاعت نہیں رہی​
وہ پیروی وہ نقل وہ حرکت نہیں رہی​
جو کل تھی آج مجھ میں وہ میں وہ جرات نہیں رہی​
وہ شوق و ولولے وہ طبیعت نہیں رہی​
جو کل تھی آج دل میں وہ الفت نہیں رہی​
وہ میل جول اور وہ ملت نہیں رہی​
جو کل تھی آج مجھ میں وہ زینت نہیں رہی​
وہ روپ وہ شباب وہ رنگت نہیں رہی​
جو کل تھی آج اپنی وہ صورت نہیں رہی​
وہ ملک و نظام اور وہ حکومت نہیں رہی​
جاناں کے رخ پہ جب سے صباحت نہیں رہی​
دل تو وہی ہے اپنی وہ چاہت نہیں رہی​
خالی پڑا ہے جرات و جدت نہیں رہی​
خوش ہوں کہ دل میں اب کوئی حسرت نہیں رہی​
سمجھا ہے تو کہ رنج و مصیبت نہیں رہی​
بسمل ترے نصیب کی راحت نہیں رہی​

اسکے بعد چند تجزیات جو کافی عرصہ نثر کی صورت میں اپنی ڈائیری میں لکھ رکھے تھے آج کچھ اشعار میں بدلنے کی کوشش کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:​
بتوں بسمل سے کہتے ہو مسلماں ہم نہیں ہونگے​
سرِ محشر تم ہی ہوگے پشیماں ہم نہیں ہونگے​
جلا دیگا جہاں کو حسنِ عریاں ہم نہیں ہونگے​
دھواں بن جائینگی زلفِ پریشاں ہم نہیں ہونگے​
بنیں گے کل یہاں انسان حیواں ہم نہیں ہونگے​
رقیبِ آدمیت ہونگے انساں ہم نہیں ہونگے​
رہیںگے حسن و الفت پا جولاں ہم نہیں ہونگے​
دلِ ناشاد ہونگے سنگِ طفلاں ہم نہیں ہونگے​
تکے گی ماجرا پھر چشمِ حیراں ہم نہیں ہونگے​
یہی منظر رہیںگے اب نمایاں ہم نہیں ہونگے​
جہاں ہوجائیگا سب کافرستاں ہم نہیں ہونگے​
بنینگے دل اسیرِ زلفِ پیچاں ہم نہیں ہونگے​
صنم خانے بنینگے سب دبستاں ہم نہیں ہونگے​
مدرّس صرفِ محوِ دیدِ جاناں ہم نہیں ہونگے​
اب عالم علم پر خود ہونگے نازاں ہم نہیں ہونگے​
بیاں ہونگے خلافِ حکمِ یزداں ہم نہیں ہونگے​
دلِ واعظ بنینگے بحرِ عصیاں ہم نہیں ہونگے​
خیالِ خود غرض اب ہوںگے طوفاں ہم نہیں ہونگے​
کہیں گے چور اب خود کو نگہباں ہم نہیں ہونگے​
ہوا کھوئینگے اپنی جب سلیماں ہم نہیں ہونگے​
رہوگے ہم سے تم کب تک گریزاں ہم نہیں ہونگے​
حسینوں در بدر تم ہوگے ارزاں ہم نہیں ہونگے​
رہے گر کفر سے مل کر مسلماں ہم نہیں ہونگے​
کسی تدبیر سے بھی پاک داماں ہم نہیں ہونگے​
اگر تائب غریقِ بحرِ عصیاں ہم نہیں ہونگے​
حبیبِ کبریا کے زیرِ داماں ہم نہیں ہونگے​
کہیں گے خود کو ہم مسلم مسلماں ہم نہیں ہونگے​
بمع اب اعتمادِ اہلِ برہاں ہم نہیں ہونگے​
آپ کی توجہ کا بہت شکریہ​
والسلام​

لاجواب۔ کیا کہنے جناب مزمل شیخ صاحب، واہ واہ۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
غزل​
(مزمل شیخ بسمل)​
جو کل تھی آج ہم میں وہ سیرت نہیں رہی​
وہ دبدبہ وہ ہوش وہ شوکت نہیں رہی​
جو کل تھی آج ہم میں وہ جرات نہیں رہی​
وہ حوصلہ وہ جوش وہ ہمت نہیں رہی​
جو کل تھی آج ہم میں وہ حشمت نہیں رہی​
وہ مال وہ منال وہ عزت نہیں رہی​
جو کل تھی آج ہم میں وہ دولت نہیں رہی​
وہ عقل وہ حواس وہ نیت نہیں رہی​
جو کل تھی آج ہم میں وہ غیرت نہیں رہی​
وہ سوچ و فکراور وہ عادت نہیں رہی​
جو کل تھی آج میری وہ طاعت نہیں رہی​
وہ پیروی وہ نقل وہ حرکت نہیں رہی​
جو کل تھی آج مجھ میں وہ میں وہ جرات نہیں رہی​
وہ شوق و ولولے وہ طبیعت نہیں رہی​
جو کل تھی آج دل میں وہ الفت نہیں رہی​
وہ میل جول اور وہ ملت نہیں رہی​
جو کل تھی آج مجھ میں وہ زینت نہیں رہی​
وہ روپ وہ شباب وہ رنگت نہیں رہی​
جو کل تھی آج اپنی وہ صورت نہیں رہی​
وہ ملک و نظام اور وہ حکومت نہیں رہی​
جاناں کے رخ پہ جب سے صباحت نہیں رہی​
دل تو وہی ہے اپنی وہ چاہت نہیں رہی​
خالی پڑا ہے جرات و جدت نہیں رہی​
خوش ہوں کہ دل میں اب کوئی حسرت نہیں رہی​
سمجھا ہے تو کہ رنج و مصیبت نہیں رہی
بسمل ترے نصیب کی راحت نہیں رہی

واہ جناب کیا غزل ہے اور کیا مقطع ہے۔
کیا کہنے آپ کے!
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اسکے بعد چند تجزیات جو کافی عرصہ نثر کی صورت میں اپنی ڈائیری میں لکھ رکھے تھے آج کچھ اشعار میں بدلنے کی کوشش کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:​
بتوں بسمل سے کہتے ہو مسلماں ہم نہیں ہونگے​
سرِ محشر تم ہی ہوگے پشیماں ہم نہیں ہونگے​
جلا دیگا جہاں کو حسنِ عریاں ہم نہیں ہونگے​
دھواں بن جائینگی زلفِ پریشاں ہم نہیں ہونگے​
بنیں گے کل یہاں انسان حیواں ہم نہیں ہونگے​
رقیبِ آدمیت ہونگے انساں ہم نہیں ہونگے​
رہیںگے حسن و الفت پا جولاں ہم نہیں ہونگے​
دلِ ناشاد ہونگے سنگِ طفلاں ہم نہیں ہونگے​
تکے گی ماجرا پھر چشمِ حیراں ہم نہیں ہونگے​
یہی منظر رہیںگے اب نمایاں ہم نہیں ہونگے​
جہاں ہوجائیگا سب کافرستاں ہم نہیں ہونگے​
بنینگے دل اسیرِ زلفِ پیچاں ہم نہیں ہونگے​
صنم خانے بنینگے سب دبستاں ہم نہیں ہونگے​
مدرّس صرفِ محوِ دیدِ جاناں ہم نہیں ہونگے​
اب عالم علم پر خود ہونگے نازاں ہم نہیں ہونگے​
بیاں ہونگے خلافِ حکمِ یزداں ہم نہیں ہونگے​
دلِ واعظ بنینگے بحرِ عصیاں ہم نہیں ہونگے​
خیالِ خود غرض اب ہوںگے طوفاں ہم نہیں ہونگے​
کہیں گے چور اب خود کو نگہباں ہم نہیں ہونگے​
ہوا کھوئینگے اپنی جب سلیماں ہم نہیں ہونگے​
رہوگے ہم سے تم کب تک گریزاں ہم نہیں ہونگے​
حسینوں در بدر تم ہوگے ارزاں ہم نہیں ہونگے​
رہے گر کفر سے مل کر مسلماں ہم نہیں ہونگے​
کسی تدبیر سے بھی پاک داماں ہم نہیں ہونگے​
اگر تائب غریقِ بحرِ عصیاں ہم نہیں ہونگے​
حبیبِ کبریا کے زیرِ داماں ہم نہیں ہونگے​
کہیں گے خود کو ہم مسلم مسلماں ہم نہیں ہونگے​
بمع اب اعتمادِ اہلِ برہاں ہم نہیں ہونگے​
آپ کی توجہ کا بہت شکریہ​
والسلام​

بہت خوب غزل ہے جناب
داد قبول کریں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
افسوس کے کل رات بسمل بھائی کے کلام پر سیر حاصل تبصرہ کیا تھا۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ بجلی، مراسلہ اور ہمارے ہوش سب کچھ اُڑ گیا۔ :D
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
افسوس کے کل رات بسمل بھائی کے کلام پر سیر حاصل تبصرہ کیا تھا۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ بجلی، مراسلہ اور ہمارے ہوش سب کچھ اُڑ گیا۔ :D

ایسا کیا کریں ایک ورڈ فائل بنا لیں، پہلے اس میں ٹائپ کیا کریں، ساتھ ساتھ سیو بھی کر لیا کریں۔
بعد میں یہاں پوسٹ کر دیا کریں۔ لمبے جوابات کے لئے میں خود بھی ایسا ہی کرتا ہوں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ایسا کیا کریں ایک ورڈ فائل بنا لیں، پہلے اس میں ٹائپ کیا کریں، ساتھ ساتھ سیو بھی کر لیا کریں۔
بعد میں یہاں پوسٹ کر دیا کریں۔ لمبے جوابات کے لئے میں خود بھی ایسا ہی کرتا ہوں۔

ٹھیک کہا آپ نے، اکثر میں بھی ایسا کرتا ہوں۔ لیکن جب انسان ترنگ میں ہو تو یہ سب چیزیں یاد نہیں رہتی۔ ;)
 
Top