محمد یعقوب آسی
محفلین
یہ ’’ مژہ بی بی ‘‘ ہوں گی۔ اب اس سے زیادہ کیا کہیں! ۔۔ کہ عین ممکن ہے فارس میں آپ کو ’’مژہ بانو‘‘ ، ’’مژگانی خانم‘‘ یا اس سے ملتے جلتے کئی نام مل جائیں۔یہ مزہ بی بی کون ہے بھئی
یہ ’’ مژہ بی بی ‘‘ ہوں گی۔ اب اس سے زیادہ کیا کہیں! ۔۔ کہ عین ممکن ہے فارس میں آپ کو ’’مژہ بانو‘‘ ، ’’مژگانی خانم‘‘ یا اس سے ملتے جلتے کئی نام مل جائیں۔یہ مزہ بی بی کون ہے بھئی
جناب محمد خلیل الرحمٰن صاحب آپ کے شافی جواب کا یہاں انتظار کیا جارہا ہے۔فی الحال تو گفتہ ٔ فقیر حاضر ہے۔
آپ کے سوال کا شافی جواب یا تو محمد خلیل الرحمٰن دے سکتے ہیں یا پھر محمد اسامہ سَرسَری ۔ یہ فقیر تو عرض کر چکا کہ قباحت کوئی نہیں۔
محمداحمد بھائی کا فیس بک کا کیفیت نامہ
آؤ کچھ دیر دسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں
پھر اگلے سال یہ لمحے ہمیں ملیں نہ ملیں
تشریح:
شاعر اس شعر میں ذرا اتاولا ہو رہا ہے۔۔۔ ۔۔ محبوب کی طرف سے اسے بےوفائی کا ازحد یقین ہے۔۔۔ لہذا جلد از جلد موقع کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہ رہا ہے۔۔۔ ۔۔ اور اس کے لیے اس نے وعدہ شب کی بجائے دھوپ پر ہی اکتفا کرنے کا سوچ لیا ہے۔ شاعر کا "سامنے دھری" کے مقولے پر ایمان کامل ہے۔
معلوماتی
شاعر اکثر اتاؤلے ہی ہوتے ہیں۔
ہی ہی ہیمحمداحمد بھائی کا فیس بک کا کیفیت نامہ
آؤ کچھ دیر دسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں
پھر اگلے سال یہ لمحے ہمیں ملیں نہ ملیں
تشریح:
شاعر اس شعر میں ذرا اتاولا ہو رہا ہے۔۔۔ ۔۔ محبوب کی طرف سے اسے بےوفائی کا ازحد یقین ہے۔۔۔ لہذا جلد از جلد موقع کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہ رہا ہے۔۔۔ ۔۔ اور اس کے لیے اس نے وعدہ شب کی بجائے دھوپ پر ہی اکتفا کرنے کا سوچ لیا ہے۔ شاعر کا "سامنے دھری" کے مقولے پر ایمان کامل ہے۔
دکھ اٹھائیں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں۔۔۔۔۔ہی ہی ہی
ویلڈن احمد بھائی
دکھ اٹھائیں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں۔۔۔ ۔۔
تم جو کہتی ہو چھوڑ دو سگریٹ
تم میرا ہاتھ تھام سکتی ہو
یہ ایک بڑا تحقیقی شعر ہے جس میں شاعر سگریٹ کے متبادل اور پھر ان کے ایک آدمی پر نقصانات کا جائزہ لینا چاہ رہا ہے۔ کسی آدمی نے شاعر کو سگریٹ کے نقصانات سے جب روشناس کروایا توتقابلی جائزہ لینے سے شاعر پر یہ بات واضح ہوگئی کہ قریب اسی قسم کے اثرات ایک عورت بھی مرد کی زندگی پر مرتب کرتی ہے۔ لہذا جیسے ہی شاعر کی وجہ شاعری نے اس سے سگریٹ چھوڑنے کا مطالبہ کیا اس نے فوراً متبادل کے طور پر اس کے سامنے یہ شرط رکھ دی۔ اس شعر سے ہم پر یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ شاعر ایک معصوم اور بھولا آدمی ہے جو کہ ایک کم نقصان کرنے والی چیز پر ایک زیادہ نقصان کرنے والی چیز کو ترجیح دے رہا ہے۔ یا پھر شاعر بہت ہوشیار آدمی ہے جس نے ہونے والی "نہ" کا ادراک قبل از وقت کر لیا ہے۔
ایک بار ایک بزرگ نے کہا تھا۔۔۔ روشنی ہمیشہ اچھے طریقے سے ڈالنا۔۔۔ہاہاہاہاہا!
شاعر تو کافی فنکار لگ رہا ہے۔
حالانکہ آپ نے بڑی اچھی طرح روشنی ڈالی ہے شاعر کے بہیمانہ عزائم پر لیکن شاعر کی فنکاری ختم ہونے کو ہی نہیں آ رہی۔
منے کی فرمائش پر۔۔۔۔
آپ مجھ کو بہت پسند آئیں
آپ میری قمیص سیجیے گا
کہتے ہیں کہ چھپ کر محبت کرنا عورت کا کام ہے۔ مرد کو ببانگ دہل یہ کالک منہ پر ملنی چاہیے۔ یہاں پر شاعر نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ کوچہ جاناں میں جب رسوا و ذلیل ہونے کے بعد دامن تار تار ہوگیا تو شاعر پھر بھی اپنی روش سے باز نہ آیا اور کہا کہ یہ جو مار کھاتے کھاتے میری قمیص پھٹ گئی ہے۔ اب یہ آپ کو ہی سینی پڑے گی۔ ایسا اعلی" پروپوز "کرنے کا اندازاور ایسی ڈھٹائی تو کبھی کسی فلم میں بھی نہیں دیکھا۔ کیا کہنے۔ شاعر چھا گیا ہے۔
مجھ سے میری کمائی کا سرِ شام
پائی پائی حساب لیجیے گا
شاعر نے اسی موضوع کو یعنی اپنے "پروپوزل" میں مزید کشش پیدا کرنے کی خاطر دلربا کو لالچ دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں جو بھی کما کر لاؤں گا ایک اچھے اور فرماں بردار شوہر کی طرح اس کا حساب پیش کروں گا۔ لیکن یہاں جس طرح شاعر کی بیویات کے موضوع پر کم علمی کھل کر سامنے آئی ہے وہیں یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ شاعر مزدور آدمی ہے۔ اور دیہاڑی دار ہے۔ اگر تنخواہ دار طبقے سے تعلق رکھتا تو مہینے کی بات کرتا۔ شام کی نہیں۔ اس سے قبل کے کوئی دریدہ دہن شاعر کو "دکاندار" کہہ کر ہمیں خاموش کروانے کی کوشش کرے ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اگر شاعر "سیلف ایمپلائیڈ" ہوتا تو اس کی توجہ اپنی دکانداری میں ہوتی یوں کوچہ جاناں میں رسوا نہ ہو رہا ہوتا۔
ہاہاہاہاااا۔۔۔ اعلیٰاٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امراء کے در و دیوار ہلا دو
یہ شعر علامہ اقبالؒ نے کچی آبادی کے مکینوں کے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔
جو کہ ایک کچی بستی کو گرا کر امیروں کے لئے محل تعمیر کرنے پر ہو رہا تھا۔
پہلے مصرع میں اقبال امیروں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ یہاں سے اٹھ جاؤ اور غریب لوگوں کو جگہ دو۔ (کاتب کی غلطی سے جگہ کے بجائے جگا لکھا گیا)
اور ان کے بات نہ ماننے پر غریبوں کو اشتعال دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ امیروں کے محل خود آگے بڑھ کر توڑ دو۔
اس مظاہرے کے بعد حکومتِ وقت نے اقبال کو گرفتار کیا یا نہیں،اس پر راوی خاموش ہے۔
ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔۔ آپ کو جو دل کرتا ہے کریں سئیں۔۔۔۔اوپر کے تمام کمنٹس پڑھنے پر محسوس ہوا کہ اقبالؒ کے اشعار پر طبع آزمائی پر لوگوں کا اعتراض ہے۔
میں بھی کچھ دیر کو رکا، پر تشریح خود بخود ہوتی چلی گئی۔ آئندہ کے لئے احتیاط اور اوپر کی گستاخی پر معذرت۔