مقدس
لائبریرین
لولزززگویا کہ مقدس کے دھاگے بھی مقدس۔
لولزززگویا کہ مقدس کے دھاگے بھی مقدس۔
احمد بھائی میں اسکی تشریح پہلی فرصت میں پیش کرتا ہوں۔ گرچہ مجھے لگتا ہے کچھ اشعار کی تشریح ذپ میں ہی مناسب رہے گی۔نیرنگ خیال
درخواست برئے تشریح:
ہمارے حال پر رویا دسمبر
وہ دیکھو ٹوٹ کر برسا دسمبر
گزر جاتا ہے سارا سال یوں تو
نہیں کٹتا مگر تنہا دسمبر
بھلا بارش سے کیا سیراب ہوگا
تمھارے وصل کا پیاسا دسمبر
وہ کب بچھڑا، نہیں اب یاد لیکن
بس اتنا علم ہے کہ تھا دسمبر
یوں پلکیں بھیگتی رہتی ہیں جیسے
میری آنکھوں میں آ ٹھہرا دسمبر
جمع پونجی یہی ہے عمر بھر کی
مری تنہائی اور میرا دسمبر
دراصل میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ دسمبر کے ساتھ آخر مسئلہ کیا ہے؟؟؟؟
احمد بھائی میں اسکی تشریح پہلی فرصت میں پیش کرتا ہوں۔ گرچہ مجھے لگتا ہے کچھ اشعار کی تشریح ذپ میں ہی مناسب رہے گی۔
دسمبر کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ شاعر کے ساتھ ہے جس نے دسمبر کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ اور آخر میں اسے اک تھپکی بھی دے کہدراصل میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ دسمبر کے ساتھ آخر مسئلہ کیا ہے؟؟؟؟
ہمارے حال پر رویا دسمبروہ دیکھو ٹوٹ کر برسا دسمبرشاعر دسمبر کی اوس کو بھی اغیار کی طعنہ زنی سمجھ رہا ہے۔ کتابی باتوں نے شاعر کا دماغ اتنا خراب کر دیا ہے کہ وہ یہ بھی بھول بیٹھا ہے کہ ساون دسمبر میں نہیں آتا۔ اصل میں شاعر اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی بجائے انکی کوئی وجہ تلاش کرنے کے چکر میں ہے۔ اب اور کوئی نہ ملا تو یہ الزام اس نے مہینے کے سر منڈھ دیا۔
گزر جاتا ہے سارا سال یوں تونہیں کٹتا مگر تنہا دسمبرکوئی اللہ کا بندہ پوچھے کہ جہاں سارا سال گزرا وہاں ان اکتیس دنوں کو کیا بیماری ہے۔ مگر نہ جی۔ اصل میں شاعر نے یہاں استعارے سے کام لیا ہے۔ کہ اپنے گھر والوں کے سامنے شادی کا ذکر کس طرح کرے۔ سو اس نے دسمبر کا کاندھا استعمال کرنے میں رتی بھر رعایت نہیں کی۔
بھلا بارش سے کیا سیراب ہوگاتمھارے وصل کا پیاسا دسمبراسی موضوع کو شاعر نے جاری رکھا ہے۔ جب پہلے شعر پر کوئی ردعمل نہ ہوا اور گھر والوں کی طرف سے کسی قسم کی پذیرائی حاصل نہ ہوئی تو شاعر کا لہجہ ذرا بیباک ہو گیا۔ اور اس نے کھلے الفاظ میں وصل کی تمنا ظاہر کرنی شروع کر دی۔ شاعر کو اخلاقی سدھار کی اشد ضرورت ہے۔
وہ کب بچھڑا، نہیں اب یاد لیکنبس اتنا علم ہے کہ تھا دسمبریہاں ہر شاعر نے اپنی نام نہاد محبت کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ اگر اسے محبوب سے الفت ہوتی تو اسے وقت اور دن یاد ہونا چاہئے تھا۔ مگر شاعر کو تو عشرہ بھی یاد نہیں۔ کہ شروع تھا درمیان یا پھر آخر۔۔۔ ۔ اس کو صرف مہینہ یاد ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ محبوب شاعر کی نسیانی سے تنگ تھا۔ اوریہی وجہ بنی اس کے چھوڑ کر جانے کی۔ شعر کے الفاظ سے اندازہ ہو رہا ہے کہ شاعر کو بھی کوئی دکھ نہیں ہے۔
یوں پلکیں بھیگتی رہتی ہیں جیسےمیری آنکھوں میں آ ٹھہرا دسمبراب شاعر نے یکدم پلٹی کھائی ہے۔ اور محبوب کے ذکر سے سیدھا غم روزگار پر آ پہنچا ہے۔ شاعر کسی ہوٹل میں پیاز کاٹنے کے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔ اور انکی وجہ سے جو آنکھوں سے پانی بہہ رہا ہے اس کو بھی دسمبر کے سر تھوپ دیا۔ حالانکہ دسمبر اک خوشیوں بھرا مہینہ ہے۔ اور خاص طور پر مغربی ممالک کے لیئے خوشیوں کا پیغام لے کر آتا ہے۔ مگر اسے شاعر کی مغرب بیزاری کہیں یا پھر دسمبر سے چڑ کے اس نے پورے دسمبر کو ہی نوحہ کناں قرار دے دیا ہے۔
جمع پونجی یہی ہے عمر بھر کیمری تنہائی اور میرا دسمبرشاعر اک فضول خرچ آدمی ہے یا پھر بے روزگار۔ کہ اس کے پاس تنہائی کے علاوہ کچھ اور ہے ہی نہیں۔ اوپر سے اس نے اس کڑکی کے دور میں جب کچھ اور ہاتھ آتا نہ دیکھا تو دسمبر کو ہی اپنی ملکیت قرار دے دیا۔ دسمبر نے یقینا اس دعوے پر اچھے بھلے ناشائستہ لہجے میں اظہار خیال کیا ہوگا۔ واللہ اعلم
اک اور وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ شاعر اک بدزبان آدمی تھا اور اسی وجہ سے کوئی بھی اس سے ملنا یا بات کرنا پسند نہ کرتا تھا۔ اب تنہائی میں بیٹھا اکیلے میں باتیں کرتے ہوئے دسمبر کو کہنے لگا کہ یار تم تو میرے ہو۔ سنا ہے دسمبر نے اسکا دل رکھنے کو حامی بھر لی تھی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ دسمبر نے صاف انکار کر دیا تھا۔ خیر ہم اندر کی تفصیلات میں نہیں جاتے۔
دسمبر کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ شاعر کے ساتھ ہے جس نے دسمبر کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ اور آخر میں اسے اک تھپکی بھی دے کہ
"تو تو یار ہے اپنا۔ فکر مت کر۔۔۔ ۔"غیر تصدیقی ذرائع سے یہ بھی سننے کو ملا ہے کہ دسمبر اس کے خلاف احتجاج کرے گا۔ اور قانونی چارہ جوئی کے لیئے بھی کوئی دعوی دائر کرے گا۔
مجھے بھی اس غزل کی تشریح چاہیے
باہر کا دھن آتا جاتا اصل خزانہ گھر میں ہےہر دھوپ میں جو مجھے سایہ دے وہ سچا سایہ گھر میں ہےپاتال کے دکھ وہ کیا جانیں جو سطح پہ ہیں ملنے والےہیں ایک حوالہ دوست مرے اور ایک حوالہ گھر میں ہےمری عمر کے اک اک لمحے کو میں نے قید کیا ہے لفظوں میںجو ہارا ہوں یا جیتا ہوں وہ سب سرمایہ گھر میں ہےتو ننھا منا ایک دیا میں ایک سمندر اندھیاراتو جلتے جلتے بجھنے لگا اور پھر بھی اندھیرا گھر میں ہےکیا سوانگ بھرے روٹی کے لیے عزت کے لیے شہرت کے لیےسنو شام ہوئی اب گھر کو چلو کوئی شخص اکیلا گھر میں ہےاک ہجر زدہ بابل پیاری ترے جاگتے بچوں سے ہاریاے شاعر کس دنیا میں ہے تو تری تنہا دنیا گھر میں ہےدنیا میں کھپائے سال کئی آخر میں کھلا احوال یہیوہ گھر کا ہو یا باہر کا ہر دکھ کا مداوا گھر میں ہے(عبید اللہ علیم)
شکریہ احمد بھائی۔
ہاہاہاہا۔۔۔ !
کیا ہی شاندار تشریح کی ہے آپ نے۔ شاعر کی تو وہ کیا کہتے ہیں "واٹ" لگادی ہے آپ نے۔
شاید احمد فراز کوبھی ایسا ہی کوئی ناقد میسر آگیا تھا کہ ایک بار اُنہوں نے کہا:
اک دن وہ میرے عیب گنوانے لگا فرازجب خود ہی تھک گیا تو مجھے سوچنا پڑابہت ہی اعلیٰ توقع سے زیادہ عمدہ اور پر لطف تشریح کی ہے آپ نے ۔خوش رہیے ۔ شاد آباد رہیے۔پس نوشت: ویسے اگر شاعر نے آپ کی تشریح پڑھ لی تو وہ آپ کو تو نہیں چھوڑے گا اور آپ سے فارغ ہو کر میری طرف رخ کرے گا۔
دھیرج منے دھیرج۔ مجھے یاد ہے۔ لیکن تھوڑا انتظارنیرنگ خیال جی، اب اس کی بھی تشریح کر دیجیے۔
شکریہ احمد بھائی۔
ویسے پس نوشت پڑھنے کے بعد میں کہہ سکتا ہوں کہ آپ تک جو بھی آئے گا۔ ہم سے گزر کر آئے گا۔
ارے ہم تو پتہ نہیں کتنوں کے گناہگار ہیں۔ شیخ شعدی کی حکایتوں تک کا تو حلیہ بگاڑ چکے۔ اب اس شاعر کا نمبر آیا بھی تو اسے لائن میں لگنا پڑے گا۔
مشکور و ممنون ہیں۔ اور ادبی کا لفظ ہمارے نام کے ساتھ لگانے پر تو اور بھی ممنون ہیں۔ شاعر حضرات کی روحوں کی تو خیر ہے۔ لیکن اگر زندہ تڑپ اٹھے تو ہماری خیر نہیں۔ماشاء اللہ ۔۔خاصی ادبی تشریح ہے اشعار کی لیکن بڑا ہی پرلطف دھاگہ ہے ۔۔۔ آپکی تخلیقی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت اللہ آپکے قلم کی روانی برقرار رکھیں ۔۔۔ مگر وہ کیا ہے نا کہ اشعار سے دلی ہمدردی کے طور پر ذرا ہاتھ ہولا رکھیئے گا ۔ ورنہ کئی شاعر حضرات کی روحوں کے تڑپ جانے کے امکانات قوی ہو سکتے ہیں۔
یہ تو کوئی خبریں لگتی ہیں شمشاد بھائی۔ یہ کیا چکر ہے۔میری مانیں تو اس کے ساتھ ساتھ اس دھاگے کی مناسبت سے اناؤنسر بن جائیں۔
مشکور و ممنون ہیں۔ اور ادبی کا لفظ ہمارے نام کے ساتھ لگانے پر تو اور بھی ممنون ہیں۔ شاعر حضرات کی روحوں کی تو خیر ہے۔ لیکن اگر زندہ تڑپ اٹھے تو ہماری خیر نہیں۔
دعاؤں کے لیئے بہت شکریہ۔ یونہی ہمیں دعائیں دیا کیجیئے اور شاد باد رہیئے۔
اب تو یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے