محمد بلال اعظم

لائبریرین
مجھے بھی اس غزل کی تشریح چاہیے

باہر کا دھن آتا جاتا اصل خزانہ گھر میں ہے
ہر دھوپ میں جو مجھے سایہ دے وہ سچا سایہ گھر میں ہے
پاتال کے دکھ وہ کیا جانیں جو سطح پہ ہیں ملنے والے
ہیں ایک حوالہ دوست مرے اور ایک حوالہ گھر میں ہے
مری عمر کے اک اک لمحے کو میں نے قید کیا ہے لفظوں میں
جو ہارا ہوں یا جیتا ہوں وہ سب سرمایہ گھر میں ہے
تو ننھا منا ایک دیا میں ایک سمندر اندھیارا
تو جلتے جلتے بجھنے لگا اور پھر بھی اندھیرا گھر میں ہے
کیا سوانگ بھرے روٹی کے لیے عزت کے لیے شہرت کے لیے
سنو شام ہوئی اب گھر کو چلو کوئی شخص اکیلا گھر میں ہے
اک ہجر زدہ بابل پیاری ترے جاگتے بچوں سے ہاری
اے شاعر کس دنیا میں ہے تو تری تنہا دنیا گھر میں ہے
دنیا میں کھپائے سال کئی آخر میں کھلا احوال یہی
وہ گھر کا ہو یا باہر کا ہر دکھ کا مداوا گھر میں ہے
(عبید اللہ علیم)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
نیرنگ خیال


درخواست برئے تشریح:

ہمارے حال پر رویا دسمبر
وہ دیکھو ٹوٹ کر برسا دسمبر

گزر جاتا ہے سارا سال یوں تو
نہیں کٹتا مگر تنہا دسمبر

بھلا بارش سے کیا سیراب ہوگا
تمھارے وصل کا پیاسا دسمبر

وہ کب بچھڑا، نہیں اب یاد لیکن
بس اتنا علم ہے کہ تھا دسمبر

یوں پلکیں بھیگتی رہتی ہیں جیسے
میری آنکھوں میں آ ٹھہرا دسمبر

جمع پونجی یہی ہے عمر بھر کی
مری تنہائی اور میرا دسمبر

دراصل میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ دسمبر کے ساتھ آخر مسئلہ کیا ہے؟؟؟؟
احمد بھائی میں اسکی تشریح پہلی فرصت میں پیش کرتا ہوں۔ گرچہ مجھے لگتا ہے کچھ اشعار کی تشریح ذپ میں ہی مناسب رہے گی۔ :laugh:
 

محمداحمد

لائبریرین
احمد بھائی میں اسکی تشریح پہلی فرصت میں پیش کرتا ہوں۔ گرچہ مجھے لگتا ہے کچھ اشعار کی تشریح ذپ میں ہی مناسب رہے گی۔ :laugh:

:ROFLMAO:

آپ عوامی سطح پر جتنے اشعار کی تشریح کر سکیں وہی کافی رہیں گے۔ :)

عوامی سطح سے مراد صرف Publically ہے۔ :D
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہمارے حال پر رویا دسمبر​
وہ دیکھو ٹوٹ کر برسا دسمبر​
شاعر دسمبر کی اوس کو بھی اغیار کی طعنہ زنی سمجھ رہا ہے۔ کتابی باتوں نے شاعر کا دماغ اتنا خراب کر دیا ہے کہ وہ یہ بھی بھول بیٹھا ہے کہ ساون دسمبر میں نہیں آتا۔ اصل میں شاعر اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی بجائے انکی کوئی وجہ تلاش کرنے کے چکر میں ہے۔ اب اور کوئی نہ ملا تو یہ الزام اس نے مہینے کے سر منڈھ دیا۔ :cautious:

گزر جاتا ہے سارا سال یوں تو​
نہیں کٹتا مگر تنہا دسمبر​
کوئی اللہ کا بندہ پوچھے کہ جہاں سارا سال گزرا وہاں ان اکتیس دنوں کو کیا بیماری ہے۔ مگر نہ جی۔ اصل میں شاعر نے یہاں استعارے سے کام لیا ہے۔ کہ اپنے گھر والوں کے سامنے شادی کا ذکر کس طرح کرے۔:p سو اس نے دسمبر کا کاندھا استعمال کرنے میں رتی بھر رعایت نہیں کی۔;)

بھلا بارش سے کیا سیراب ہوگا​
تمھارے وصل کا پیاسا دسمبر​
اسی موضوع کو شاعر نے جاری رکھا ہے۔ جب پہلے شعر پر کوئی ردعمل نہ ہوا اور گھر والوں کی طرف سے کسی قسم کی پذیرائی حاصل نہ ہوئیo_O تو شاعر کا لہجہ ذرا بیباک ہو گیا۔ اور اس نے کھلے الفاظ میں وصل کی تمنا ظاہر کرنی شروع کر دی۔:devil: شاعر کو اخلاقی سدھار کی اشد ضرورت ہے۔ :twisted:

وہ کب بچھڑا، نہیں اب یاد لیکن​
بس اتنا علم ہے کہ تھا دسمبر​
یہاں ہر شاعر نے اپنی نام نہاد محبت کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔:LOL: اگر اسے محبوب سے الفت ہوتی تو اسے وقت اور دن یاد ہونا چاہئے تھا۔:confused: مگر شاعر کو تو عشرہ بھی یاد نہیں۔ کہ شروع تھا درمیان یا پھر آخر۔۔۔۔ اس کو صرف مہینہ یاد ہے۔:unsure: اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ محبوب شاعر کی نسیانی سے تنگ تھا۔:nailbiting: اوریہی وجہ بنی اس کے چھوڑ کر جانے کی۔:thumbsdown: شعر کے الفاظ سے اندازہ ہو رہا ہے کہ شاعر کو بھی کوئی دکھ نہیں ہے۔ :tongue:

یوں پلکیں بھیگتی رہتی ہیں جیسے​
میری آنکھوں میں آ ٹھہرا دسمبر​
اب شاعر نے یکدم پلٹی کھائی ہے۔ اور محبوب کے ذکر سے سیدھا غم روزگار پر آ پہنچا ہے۔:biggrin: شاعر کسی ہوٹل میں پیاز کاٹنے کے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔:hypnotized: اور انکی وجہ سے جو آنکھوں سے پانی بہہ رہا ہے اس کو بھی دسمبر کے سر تھوپ دیا۔:nerd: حالانکہ دسمبر اک خوشیوں بھرا مہینہ ہے۔ اور خاص طور پر مغربی ممالک کے لیئے خوشیوں کا پیغام لے کر آتا ہے۔ مگر اسے شاعر کی مغرب بیزاری کہیں یا پھر دسمبر سے چڑ کے اس نے پورے دسمبر کو ہی نوحہ کناں قرار دے دیا ہے۔

جمع پونجی یہی ہے عمر بھر کی​
مری تنہائی اور میرا دسمبر​
شاعر اک فضول خرچ آدمی ہے یا پھر بے روزگار۔(n) کہ اس کے پاس تنہائی کے علاوہ کچھ اور ہے ہی نہیں۔:shock: اوپر سے اس نے اس کڑکی کے دور میں جب کچھ اور ہاتھ آتا نہ دیکھا تو دسمبر کو ہی اپنی ملکیت قرار دے دیا۔:atwitsend: دسمبر نے یقینا اس دعوے پر اچھے بھلے ناشائستہ لہجے میں اظہار خیال کیا ہوگا۔:laughing: واللہ اعلم
اک اور وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ شاعر اک بدزبان آدمی تھا:thinking: اور اسی وجہ سے کوئی بھی اس سے ملنا یا بات کرنا پسند نہ کرتا تھا۔:timeout: اب تنہائی میں بیٹھا اکیلے میں باتیں کرتے ہوئے دسمبر کو کہنے لگا کہ یار تم تو میرے ہو۔:rollingeyes: سنا ہے دسمبر نے اسکا دل رکھنے کو حامی بھر لی تھی۔:sigh: بعض لوگ کہتے ہیں کہ دسمبر نے صاف انکار کر دیا تھا۔:shameonyou: خیر ہم اندر کی تفصیلات میں نہیں جاتے۔:cowboy:

دراصل میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ دسمبر کے ساتھ آخر مسئلہ کیا ہے؟؟؟؟
دسمبر کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ شاعر کے ساتھ ہے جس نے دسمبر کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ اور آخر میں اسے اک تھپکی بھی دے کہ
"تو تو یار ہے اپنا۔ فکر مت کر۔۔۔۔"o_O
غیر تصدیقی ذرائع سے یہ بھی سننے کو ملا ہے کہ دسمبر اس کے خلاف احتجاج کرے گا۔ اور قانونی چارہ جوئی کے لیئے بھی کوئی دعوی دائر کرے گا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ہمارے حال پر رویا دسمبر​
وہ دیکھو ٹوٹ کر برسا دسمبر​
شاعر دسمبر کی اوس کو بھی اغیار کی طعنہ زنی سمجھ رہا ہے۔ کتابی باتوں نے شاعر کا دماغ اتنا خراب کر دیا ہے کہ وہ یہ بھی بھول بیٹھا ہے کہ ساون دسمبر میں نہیں آتا۔ اصل میں شاعر اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی بجائے انکی کوئی وجہ تلاش کرنے کے چکر میں ہے۔ اب اور کوئی نہ ملا تو یہ الزام اس نے مہینے کے سر منڈھ دیا۔ :cautious:

گزر جاتا ہے سارا سال یوں تو​
نہیں کٹتا مگر تنہا دسمبر​
کوئی اللہ کا بندہ پوچھے کہ جہاں سارا سال گزرا وہاں ان اکتیس دنوں کو کیا بیماری ہے۔ مگر نہ جی۔ اصل میں شاعر نے یہاں استعارے سے کام لیا ہے۔ کہ اپنے گھر والوں کے سامنے شادی کا ذکر کس طرح کرے۔:p سو اس نے دسمبر کا کاندھا استعمال کرنے میں رتی بھر رعایت نہیں کی۔;)

بھلا بارش سے کیا سیراب ہوگا​
تمھارے وصل کا پیاسا دسمبر​
اسی موضوع کو شاعر نے جاری رکھا ہے۔ جب پہلے شعر پر کوئی ردعمل نہ ہوا اور گھر والوں کی طرف سے کسی قسم کی پذیرائی حاصل نہ ہوئیo_O تو شاعر کا لہجہ ذرا بیباک ہو گیا۔ اور اس نے کھلے الفاظ میں وصل کی تمنا ظاہر کرنی شروع کر دی۔:devil: شاعر کو اخلاقی سدھار کی اشد ضرورت ہے۔ :twisted:

وہ کب بچھڑا، نہیں اب یاد لیکن​
بس اتنا علم ہے کہ تھا دسمبر​
یہاں ہر شاعر نے اپنی نام نہاد محبت کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔:LOL: اگر اسے محبوب سے الفت ہوتی تو اسے وقت اور دن یاد ہونا چاہئے تھا۔:confused: مگر شاعر کو تو عشرہ بھی یاد نہیں۔ کہ شروع تھا درمیان یا پھر آخر۔۔۔ ۔ اس کو صرف مہینہ یاد ہے۔:unsure: اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ محبوب شاعر کی نسیانی سے تنگ تھا۔:nailbiting: اوریہی وجہ بنی اس کے چھوڑ کر جانے کی۔:thumbsdown: شعر کے الفاظ سے اندازہ ہو رہا ہے کہ شاعر کو بھی کوئی دکھ نہیں ہے۔ :tongue:

یوں پلکیں بھیگتی رہتی ہیں جیسے​
میری آنکھوں میں آ ٹھہرا دسمبر​
اب شاعر نے یکدم پلٹی کھائی ہے۔ اور محبوب کے ذکر سے سیدھا غم روزگار پر آ پہنچا ہے۔:biggrin: شاعر کسی ہوٹل میں پیاز کاٹنے کے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔:hypnotized: اور انکی وجہ سے جو آنکھوں سے پانی بہہ رہا ہے اس کو بھی دسمبر کے سر تھوپ دیا۔:nerd: حالانکہ دسمبر اک خوشیوں بھرا مہینہ ہے۔ اور خاص طور پر مغربی ممالک کے لیئے خوشیوں کا پیغام لے کر آتا ہے۔ مگر اسے شاعر کی مغرب بیزاری کہیں یا پھر دسمبر سے چڑ کے اس نے پورے دسمبر کو ہی نوحہ کناں قرار دے دیا ہے۔

جمع پونجی یہی ہے عمر بھر کی​
مری تنہائی اور میرا دسمبر​
شاعر اک فضول خرچ آدمی ہے یا پھر بے روزگار۔(n) کہ اس کے پاس تنہائی کے علاوہ کچھ اور ہے ہی نہیں۔:shock: اوپر سے اس نے اس کڑکی کے دور میں جب کچھ اور ہاتھ آتا نہ دیکھا تو دسمبر کو ہی اپنی ملکیت قرار دے دیا۔:atwitsend: دسمبر نے یقینا اس دعوے پر اچھے بھلے ناشائستہ لہجے میں اظہار خیال کیا ہوگا۔:laughing: واللہ اعلم
اک اور وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ شاعر اک بدزبان آدمی تھا:thinking: اور اسی وجہ سے کوئی بھی اس سے ملنا یا بات کرنا پسند نہ کرتا تھا۔:timeout: اب تنہائی میں بیٹھا اکیلے میں باتیں کرتے ہوئے دسمبر کو کہنے لگا کہ یار تم تو میرے ہو۔:rollingeyes: سنا ہے دسمبر نے اسکا دل رکھنے کو حامی بھر لی تھی۔:sigh: بعض لوگ کہتے ہیں کہ دسمبر نے صاف انکار کر دیا تھا۔:shameonyou: خیر ہم اندر کی تفصیلات میں نہیں جاتے۔:cowboy:


دسمبر کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ شاعر کے ساتھ ہے جس نے دسمبر کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ اور آخر میں اسے اک تھپکی بھی دے کہ
"تو تو یار ہے اپنا۔ فکر مت کر۔۔۔ ۔"o_O
غیر تصدیقی ذرائع سے یہ بھی سننے کو ملا ہے کہ دسمبر اس کے خلاف احتجاج کرے گا۔ اور قانونی چارہ جوئی کے لیئے بھی کوئی دعوی دائر کرے گا۔

:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:

ہاہاہاہا۔۔۔! :D

کیا ہی شاندار تشریح کی ہے آپ نے۔ شاعر کی تو وہ کیا کہتے ہیں "واٹ" لگادی ہے آپ نے۔

شاید احمد فراز کوبھی ایسا ہی کوئی ناقد میسر آگیا تھا کہ ایک بار اُنہوں نے کہا:
اک دن وہ میرے عیب گنوانے لگا فراز
جب خود ہی تھک گیا تو مجھے سوچنا پڑا
:)
بہت ہی اعلیٰ توقع سے زیادہ عمدہ اور پر لطف تشریح کی ہے آپ نے ۔​
خوش رہیے ۔ شاد آباد رہیے۔​
پس نوشت: ویسے اگر شاعر نے آپ کی تشریح پڑھ لی تو وہ آپ کو تو نہیں چھوڑے گا اور آپ سے فارغ ہو کر میری طرف رخ کرے گا۔ :D
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
مجھے بھی اس غزل کی تشریح چاہیے

باہر کا دھن آتا جاتا اصل خزانہ گھر میں ہے
ہر دھوپ میں جو مجھے سایہ دے وہ سچا سایہ گھر میں ہے
پاتال کے دکھ وہ کیا جانیں جو سطح پہ ہیں ملنے والے
ہیں ایک حوالہ دوست مرے اور ایک حوالہ گھر میں ہے
مری عمر کے اک اک لمحے کو میں نے قید کیا ہے لفظوں میں
جو ہارا ہوں یا جیتا ہوں وہ سب سرمایہ گھر میں ہے
تو ننھا منا ایک دیا میں ایک سمندر اندھیارا
تو جلتے جلتے بجھنے لگا اور پھر بھی اندھیرا گھر میں ہے
کیا سوانگ بھرے روٹی کے لیے عزت کے لیے شہرت کے لیے
سنو شام ہوئی اب گھر کو چلو کوئی شخص اکیلا گھر میں ہے
اک ہجر زدہ بابل پیاری ترے جاگتے بچوں سے ہاری
اے شاعر کس دنیا میں ہے تو تری تنہا دنیا گھر میں ہے
دنیا میں کھپائے سال کئی آخر میں کھلا احوال یہی
وہ گھر کا ہو یا باہر کا ہر دکھ کا مداوا گھر میں ہے
(عبید اللہ علیم)

نیرنگ خیال جی، اب اس کی بھی تشریح کر دیجیے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:

ہاہاہاہا۔۔۔ ! :D

کیا ہی شاندار تشریح کی ہے آپ نے۔ شاعر کی تو وہ کیا کہتے ہیں "واٹ" لگادی ہے آپ نے۔

شاید احمد فراز کوبھی ایسا ہی کوئی ناقد میسر آگیا تھا کہ ایک بار اُنہوں نے کہا:
اک دن وہ میرے عیب گنوانے لگا فراز
جب خود ہی تھک گیا تو مجھے سوچنا پڑا
:)
بہت ہی اعلیٰ توقع سے زیادہ عمدہ اور پر لطف تشریح کی ہے آپ نے ۔​
خوش رہیے ۔ شاد آباد رہیے۔​
پس نوشت: ویسے اگر شاعر نے آپ کی تشریح پڑھ لی تو وہ آپ کو تو نہیں چھوڑے گا اور آپ سے فارغ ہو کر میری طرف رخ کرے گا۔ :D
شکریہ احمد بھائی۔ :)
ویسے پس نوشت پڑھنے کے بعد میں کہہ سکتا ہوں کہ آپ تک جو بھی آئے گا۔ ہم سے گزر کر آئے گا۔ :ROFLMAO:
ارے ہم تو پتہ نہیں کتنوں کے گناہگار ہیں۔ شیخ شعدی کی حکایتوں تک کا تو حلیہ بگاڑ چکے۔ اب اس شاعر کا نمبر آیا بھی تو اسے لائن میں لگنا پڑے گا۔ :laugh:
 
ماشاء اللہ ۔۔خاصی ادبی تشریح ہے اشعار کی :battingeyelashes: لیکن بڑا ہی پرلطف دھاگہ ہے ۔۔۔آپکی تخلیقی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت :)اللہ آپکے قلم کی روانی برقرار رکھیں ۔۔۔ مگر وہ کیا ہے نا کہ اشعار سے دلی ہمدردی کے طور پر ذرا ہاتھ ہولا رکھیئے گا ۔ :heehee:ورنہ کئی شاعر حضرات کی روحوں کے تڑپ جانے کے امکانات قوی ہو سکتے ہیں۔:battingeyelashes::heehee:
 

محمداحمد

لائبریرین
شکریہ احمد بھائی۔ :)
ویسے پس نوشت پڑھنے کے بعد میں کہہ سکتا ہوں کہ آپ تک جو بھی آئے گا۔ ہم سے گزر کر آئے گا۔ :ROFLMAO:
ارے ہم تو پتہ نہیں کتنوں کے گناہگار ہیں۔ شیخ شعدی کی حکایتوں تک کا تو حلیہ بگاڑ چکے۔ اب اس شاعر کا نمبر آیا بھی تو اسے لائن میں لگنا پڑے گا۔ :laugh:

:)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ماشاء اللہ ۔۔خاصی ادبی تشریح ہے اشعار کی :battingeyelashes: لیکن بڑا ہی پرلطف دھاگہ ہے ۔۔۔ آپکی تخلیقی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت :)اللہ آپکے قلم کی روانی برقرار رکھیں ۔۔۔ مگر وہ کیا ہے نا کہ اشعار سے دلی ہمدردی کے طور پر ذرا ہاتھ ہولا رکھیئے گا ۔ :heehee:ورنہ کئی شاعر حضرات کی روحوں کے تڑپ جانے کے امکانات قوی ہو سکتے ہیں۔:battingeyelashes::heehee:
مشکور و ممنون ہیں۔ اور ادبی کا لفظ ہمارے نام کے ساتھ لگانے پر تو اور بھی ممنون ہیں۔ :cowboy: شاعر حضرات کی روحوں کی تو خیر ہے۔ لیکن اگر زندہ تڑپ اٹھے تو ہماری خیر نہیں۔ :ROFLMAO:
دعاؤں کے لیئے بہت شکریہ۔ یونہی ہمیں دعائیں دیا کیجیئے اور شاد باد رہیئے۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
مشکور و ممنون ہیں۔ اور ادبی کا لفظ ہمارے نام کے ساتھ لگانے پر تو اور بھی ممنون ہیں۔ :cowboy: شاعر حضرات کی روحوں کی تو خیر ہے۔ لیکن اگر زندہ تڑپ اٹھے تو ہماری خیر نہیں۔ :ROFLMAO:
دعاؤں کے لیئے بہت شکریہ۔ یونہی ہمیں دعائیں دیا کیجیئے اور شاد باد رہیئے۔ :)

:D
 

یوسف-2

محفلین
اب تو یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟
اُستاد ابراہیم ذوق نے یہ شعرچچا غالب کو اُن کی ”غیر اخلاقی حرکتوں“ سے باز رکھنے لئے طنزاً کہا تھا۔ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ چچا کی اپنی بیگم سے ان بن رہتی تھی۔ اس لئے کہ چچا پینے پلانے کے شوقین اور چچی پنج وقتہ نمازن۔ چچی نے چچا کے کھانے پینے کے برتن بھی الگ کر رکھے تھے۔ چچا کو ”حکم“ تھا کہ جب زنان خانے میں آئیں، اپنی جوتی باہر اتار کر آئیں۔ چچا زنان خانے کے باہراپنی جوتی اتارتے ہوئے کہا کرتے۔ لو اب میں مسجد میں داخل ہورہا ہوں۔ چچا نے ایک کوٹھے والی سے آنکھ لڑائی ہوئی تھی۔ اکثر ان کے پاس جایا کرتے تھے اوراپنی ”منظور نظر“ کو پیسوں کی بجائے”مفت میں غزلیں“ عطا کیا کرتے تھے، جسے وہ مجرہ میں گا کر ”کیش“ کرا لیا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ کسی بات پر نازنین ناراض ہوگئیں تو انہوں نے چچا کے لئے اپنے گھر کا دروازہ بند کردیا (چچا کو باہر نکال کر:D ) ۔ اب چچا کی پریشانی دیدنی تھی۔ سر جھاڑ منہ پھاڑ گلیوں میں پھرا کرتے۔ کوٹھے پر آنے جانے والے کے ہاتھ ایک مرتبہ یہ رقعہ بھی بھجوایا کہ:​
مہرباں ہو کے بُلا لو مجھے، چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں
استاد ذوق نےلاکھ سمجھایا کہ میاں کیا تمہیں کوئی شریف زادی نہیں ملی تھی کہ ایک طوائف زادی پر مر مٹے ہو، چچا غالب گھبرا کے بولے: بھئی ہم تو اسی پہ مریں گے اور یہیں پہ مر کے چین پائیں گے۔ اس موقع پر استاد ذوق نے لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ ۔۔۔ اب تو گھبرا کے ”یہ“ (حضرت) کہتے ہیں کہ (اسی طوائف زادی پہ) مرجائیں گے۔ (لیکن میاں غالب! اگر کوٹھے والی پہ) مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے۔۔۔۔ کیونکہ پھر تو تمہاری بیگم بھی گھر میں گھسنے نہیں دیں گی۔​
پس نوشت: مندرجہ بالا تشریح میں مرزا غالب سے متعلق تمام باتیں حقیقت پر مبنی ہیں، کوئی اسے ”فرضی“ سمجھ کر ”گمراہ“ نہ ہو۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
سوچا ہم بھی دامے درمے نہیں تو کم از کم سخنے ہی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیں۔ :)

شعر:
تمنا پھر مچل جائے اگر تم ملنے آجاؤ
یہ موسم بھی بدل جائے اگر تم ملنے آجاؤ

تشریح:

یہ شعر "تمنا" کے شوہر کا ہے (میر صاحب والا آئیڈیا چرایا ہے:D) ۔ اور اس شعر میں شاعر "اپنی مخاطب" سے کہہ رہے ہیں کہ اگر تم ایک بار پھر ملنے آجاؤ تو "تمنا" مچل کے رہ جائے گی :) (جیسا کہ پہلی بار تمھارے آنے پر اور مجھ سے راہ و رسم بڑھانے پر تمنا خوب تلملائی تھی :ROFLMAO: ) اور یہ جو ہمارے گھر کی فضا کافی دنوں سے چپ چاپ سی ہے اور موسم بے کیف ہے وہ بدل کر رہ جائے گا۔ :) گو کہ تمھارے آنے سے ہنگامہ تو خوب مچے گا لیکن کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا تو پڑتا ہی ہے نا۔۔۔! :lol: (یہ بات شاعر شعر میں کہہ نہیں سکا سو یہ مت سمجھیے گا کہ یہ بات ہم نے خود اپنی طرف سے لکھی ہے۔ کچھ باتیں بین السطور بھی ہوتی ہیں۔ :p)

براہِ کرم "مخاطب" کو "محبوبہ" نہ پڑھا جائے۔ :-P
 
Top