امریکہ ٹوٹ رہا ہے؟

آپ کا فراہم کردہ زکواۃ یا ٹیکس کا نظام سرکار ، قرآن کے احکامات کو مکمل طور پر رد کرتا ہے اور اس کو روایات کا جامہ پہناتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان واضح ہے کہ ٹیکس یا زکواۃ کتنا ادا کیا جائے اور کب ادا کیا جائے۔ اللہ تعالی کا فرمان اس بارے میں بھی واضح ہے کہ ان ٹیکس چوروں کو ہی سود خور یا ربا خور سمجھا جائے۔

اگر یہ ٹیکس اپنی مرضی کے لوگوں کو ادا ہوگا لیکن مرکزی حکومت کو ادا نہیں ہوگا تو اسکول کیسے بنیں گے؟ سڑکیں کیسے بنیں گی؟ یونیورسٹیز کیسے بنیں گی؟ ٹیکس وصولنے والے ادارے کیسے بنیں گے؟ ترقی کرنے کا انفراسٹرکچر کیسے بنے گا؟ بندرگاہیں کیسے بنیں گی؟ قانون نافذ کرنے والے ادارے کیسے بنیں گے؟ پولیس کا نظام کیسے بنے گا؟ فوج اور دفاعی نظام کیسے بنے گا؟ بنکاری کا نظام، اور اس نظام کو نافذ کرنے والے ادارے کیسے بنیں گے۔ رسد و ترسیل کا نظام کیسے بنے گا؟ خوراک کی سپلائی کا نظام کیسے بنے گا۔

ضروری ہے کہ قوم اوسط 20 فی صد ٹیکس ادا کرتی ہو۔ تاکہ قوم ترقی کرسکے اور ساری قوم کو خوراک، سر چھپانے کی جگہ ، کپڑا ، کاریں ، فرج، ٹی وی، اچھے گھر بہترین طریقے سے جاری رہ سکے ، اس سب کے لئے امداد باہمی کے اصولوں کے تحت زکواۃ یا ٹیکس کا نظام ضروری ہے۔ ہمیں قرآن حکیم میں بہت سے آسان اصول ملتے ہیں۔ امریکہ اس ہی قسم کےسادہ اصولوں سے سارے قوانین بناتا ہے۔ لیکن مسلمانوں نے قرآن چھوڑ کر، روایات کی کتابوں سے اپنے لئے اصول متعین کرنے کو اسلام کا نام دیا ہوا ہے۔ ان کتابوں سے جو اصول سامنے آتے ہیں وہ کسی طور نبی اکرم کا فرمان نہیں ہوسکتے۔

قرض:
آپ نے فرمایا کہ قرض نام کی کوئی شے اسلام میں نہیں ہے؟ صرف قرض حسنہ ہے۔ آپ کے پاس قرآن حکیم سے کوئی حوالہ موجود ہے جو قرض دینے اور منافع لینے سے منع کرتا ہو؟؟

اس حوالہ کو دیکھئے، قرض لینے کی ممانعت ہوتی تو کیا یہ حکم ہوتا:
2:280
اور اگر قرض لینے والا تنگ دست ہو تو (اسے) کشائش (کے حاصل ہونے) تک مہلت (دو) اور اگر (زر قرض) بخش ہی دو توتمہارے لئے زیادہ اچھا ہے بشرطیکہ سمجھو

یا پھر قرض لینا اللہ کے فرمان کی رو سے منع ہوتا تو کیا موت کی صورت میں سب سے پہلے قرض کی ادائیگی کی شرط ہوتی؟
4:12
اور تمہارے لئے اس (مال) کا آدھا حصہ ہے جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو تمہارے لئے ان کے ترکہ سے چوتھائی ہے (یہ بھی) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد، اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لئے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد، اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کی وراثت تقسیم کی جا رہی ہو جس کے نہ ماں باپ ہوں نہ کوئی اولاد اور اس کا (ماں کی طرف سے) ایک بھائی یا ایک بہن ہو (یعنی اخیافی بھائی یا بہن) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہے، پھر اگر وہ بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ تقسیم بھی) اس وصیت کے بعد (ہو گی) جو (وارثوں کو) نقصان پہنچائے بغیر کی گئی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد، یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے، اور اللہ خوب علم و حلم والا ہے

قرض حسنہ اللہ تعالی کو قرض دینے کا نظریہ ہے جو کہ دراصل ٹیکس یعنی زکواۃ و صدقات کی ادائیگی کے متعلق ہے۔
57:18 بیشک صدقہ و خیرات دینے والے مرد اور صدقہ و خیرات دینے والی عورتیں اور جنہوں نے اللہ کو قرضِ حسنہ کے طور پر قرض دیا ان کے لئے (صدقہ و قرضہ کا اجر) کئی گنا بڑھا دیا جائے گا اور اُن کے لئے بڑی عزت والا ثواب ہوگا

اول تو آپ کے پاس کوئی ملک، بطور ماڈل اسلامی ملک موجود نہیں ۔ اور جن ممالک کی مثال اسلامی ممالک کی طرح دی جاتی ہے ان ممالک کے سربراہان آپ کی قرض حسنہ والی تھیوری پر عمل نہیں کرتے ۔ سعودی، کویتی، امارتی، ایرانی اور لیبیا کی ساری دولت بطور قرض امریکی اور یوروپی بینکوں میں رکھی ہوئی ہے جس پر یہ لوگ باقاعدگی سے منافع وصولتے ہیں۔

آپ کا قرض حسنہ کا نظریہ ایسا ہے کہ نا تو یہ صرف قرآن حکیم سے ثابت ہے اور ناہی یہ کسی بڑے میکرو اکنامک نظام کا حصہ ہے۔ اگر آپ پانچ روپے یا دس روپے ادھار دینے والی بات کررہے ہیں تو پھر ٹھیک ہے لیکن اس سے تو ایک روٹی بھی نہیں آتی۔ کیا آپ پاکستان کی گندم کی فصل کو قرض حسنہ کے طور پر سعودیوں کو دینے کے بارے میں سوچ بھی سکتے ہیں؟ پوری قوم بھوکی مر جائے گی؟؟؟؟

بات کرتے ہیں اللہ تعالی کو قرض دینے کی تو کیا آپ کے ٹو پر چڑھ کر اپنے پیسے اچھالتے پھریں گے کہ "اللہ، جو تجھ کو چاہئے رکھ لے"

سر جی اللہ تعالی نے اس دنیا میں انسان کو بھیجا اور ہدایت کے لئے صرف "الکتاب" بھیجی ۔ ہر دور میں یہی الکتاب اور یہی اصول ملے۔ ٹیکس یا زکواۃ یا صدقات، ایک بنیادی حقیقت ہے۔ اس کے اصول صرف اور صرف قرآن حکیم میں ملتے ہیں۔ نا کہ لوگوں کی ذاتی خواہشوں کی پیروی کرنے والی کہانیوں کی کتابوں میں۔ جو قوم صرف قرآن کے اصولوں کے مطابق ٹیکس دے گی وہ ترقی کرے گی۔ زمین پر خلافت کی حقدار ہوگی۔ جو قوم ان کہانیوں کی کتابوں پر ایمان رکھ کر اپنے اصول وضع کرے گی وہ تباہ وہ برباد ہو جائے گی۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کی تباہی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس حکومت نے قرآن حکیم کے اصولوں کی جگہ انسانی ہاتھوں کی کتب کے اصولوں کو اسلامی اصول سمجھا اور تباہ وہ برباد ہوئے۔

9:103
ان کے مالوں میں سے زکواة لے کہ اس سے ان کے ظاہر کو پاک اور ان کے باطن کو صاف کر دے اورانہیں دعا دے بے شک تیری دعا ان کے لیے تسکین ہے اوراللہ سننے والا جاننے والا ہے

18:29 اور کہہ دو کہ (لوگو) یہ قرآن تمہارے پروردگار کی طرف سے برحق ہے تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے۔
ہم نے ظالموں کے لئے دوزخ کی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں ان کو گھیر رہی ہوں گی۔ اور اگر فریاد کریں گے تو ایسے کھولتے ہوئے پانی سے ان کی دادرسی کی جائے گی (جو) پگھلے ہوئے تانبے کی طرح (گرم ہوگا اور جو) مونہوں کو بھون ڈالے گا (ان کے پینے کا) پانی بھی برا اور آرام گاہ بھی بری
 

علی خان

محفلین
نبیل شمشاد ساجد اسد عباسی عاطف بٹ

کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان ایک اسلامی ملک نہیں ہے یا پاکستان میں مسلمان نہیں بستے ؟؟؟ تو پھر سارا شور و غوغا کس بات کا ہے؟ اسلام کچھ اور کہتا ہے اور پاکستان کچھ اور؟؟؟؟ تو پھر کس ملک میں آپ والا اسلامی نظام ہے؟؟؟


اب خان صاحب بات کو اور طرف لے جانے کی کوشش کررہیں ہیں۔ ہماری بات امریکہ پر ہو رہی تھی۔ اور زکواۃ پر میں نے مدلل جوابات خان صاحب کو پیش کر دئیے ہیں۔ ان جوابات میں انکے 20 فیصد والی بات بھی واضح کر دی ہے۔ کہ یہ کسطرح اور کن جیزوں پر لوگو ہونگی۔ اب مجھے خان صاحب یہ ثابت کردیں۔ کہ زکواۃ کے اسلامی طریقے کارپر امریکہ کسطرح عمل پیرا ہے۔میں نے سود پر اسلامی موقف واضح کر دیا ہے۔ اب بال خان صاح کورٹ میں ہے۔ اور خان صاحب اَب بات کو دوسری طرف لے جانے کی کوشش کر رہیں ہیں۔ :p


تدوین۔ خان صاحب کی اُوپر والی پوسٹ میرے اس پوسٹ کو لکھنے کے دوران پوسٹ کی گئی ہے۔ اسکا جواب بھی دے رہا ہوں۔ :D
 

علی خان

محفلین
آپ کا فراہم کردہ زکواۃ یا ٹیکس کا نظام سرکار ، قرآن کے احکامات کو مکمل طور پر رد کرتا ہے اور اس کو روایات کا جامہ پہناتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان واضح ہے کہ ٹیکس یا زکواۃ کتنا ادا کیا جائے اور کب ادا کیا جائے۔ اللہ تعالی کا فرمان اس بارے میں بھی واضح ہے کہ ان ٹیکس چوروں کو ہی سود خور یا ربا خور سمجھا جائے۔
تو کیا خان صاحب اپکے خیال میں اسلام نے جو ہر چیز کے لئے زکواۃ کا علیحٰدہ علیحٰدہ حصہ مکرر کیا ہے۔ کیا وہ غلط ہے۔ کیا پیغمبر اسلام نے یہ غلط کیا ہے۔ کیا دین اسلام کو بس اپ والا صرف 20 فیصد زکواۃ کو ہی رائج کروانا چاہیئے تھا۔

اگر یہ ٹیکس اپنی مرضی کے لوگوں کو ادا ہوگا لیکن مرکزی حکومت کو ادا نہیں ہوگا تو اسکول کیسے بنیں گے؟ سڑکیں کیسے بنیں گی؟ یونیورسٹیز کیسے بنیں گی؟ ٹیکس وصولنے والے ادارے کیسے بنیں گے؟ ترقی کرنے کا انفراسٹرکچر کیسے بنے گا؟ بندرگاہیں کیسے بنیں گی؟ قانون نافذ کرنے والے ادارے کیسے بنیں گے؟ پولیس کا نظام کیسے بنے گا؟ فوج اور دفاعی نظام کیسے بنے گا؟ بنکاری کا نظام، اور اس نظام کو نافذ کرنے والے ادارے کیسے بنیں گے۔ رسد و ترسیل کا نظام کیسے بنے گا؟ خوراک کی سپلائی کا نظام کیسے بنے گا۔

اسکے لئے بہت سے معدنی وسائل بھی ہیں۔اور میرے خیال سے جسطرح ایک ملک خرچوں کے لئے پلاننگ کرسکتا ہے ٹھیک اُسی طرح کمانے کے لئے بھی کوئی پالیسی بنا سکتا ہے۔ اور اسکے علادہ اسلام میں ان شاہ خرچیوں کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اور خان صاحب کیا اپکو پتہ نہیں ہے۔ کہ رزق کا وعدہ اللہ پاک کے پاس ہے۔ وہی رازق ہے۔ لیکن ہماری اور اپکی بات ان چیزوں پر نہیں ہو رہی ہے۔ میں اپکو یاد دلاتا چلوں ہماری بات امریکہ پر ہو رہی ہے۔ :D اور آپ نے اب یہ ثابت کرنا ہے۔ کہ امریکہ کسطرح ایک اسلامی معاشی نظام پر چل رہا ہے۔

ضروری ہے کہ قوم اوسط 20 فی صد ٹیکس ادا کرتی ہو۔ تاکہ قوم ترقی کرسکے اور ساری قوم کو خوراک، سر چھپانے کی جگہ ، کپڑا ، کاریں ، فرج، ٹی وی، اچھے گھر بہترین طریقے سے جاری رہ سکے ، اس سب کے لئے امداد باہمی کے اصولوں کے تحت زکواۃ یا ٹیکس کا نظام ضروری ہے۔ ہمیں قرآن حکیم میں بہت سے آسان اصول ملتے ہیں۔ امریکہ اس ہی قسم کےسادہ اصولوں سے سارے قوانین بناتا ہے۔ لیکن مسلمانوں نے قرآن چھوڑ کر، روایات کی کتابوں سے اپنے لئے اصول متعین کرنے کو اسلام کا نام دیا ہوا ہے۔ ان کتابوں سے جو اصول سامنے آتے ہیں وہ کسی طور نبی اکرم کا فرمان نہیں ہوسکتے۔

خان صاحب یہ 20 فیصد والا فارمولا کہا پر ذرا اسکی وضاحت کردیں کیونکہ اسلام میں تو 20 فیصد زکواۃ صرف مدفون خزانے پر ادا کرنا فرض ہے۔
"رکاز (دفن شدہ خزانہ ) دریافت ہونے پر زکوٰۃ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کافرمان ہے :۔''رکاز(دفن شدہ خزانہ) ملنے پر بیس فیصد زکوٰۃ فرض ہے۔"

اس حوالہ کو دیکھئے، قرض لینے کی ممانعت ہوتی تو کیا یہ حکم ہوتا:
2:280

اور اگر قرض لینے والا تنگ دست ہو تو (اسے) کشائش (کے حاصل ہونے) تک مہلت (دو) اور اگر (زر قرض) بخش ہی دو توتمہارے لئے زیادہ اچھا ہے بشرطیکہ سمجھو

یا پھر قرض لینا اللہ کے فرمان کی رو سے منع ہوتا تو کیا موت کی صورت میں سب سے پہلے قرض کی ادائیگی کی شرط ہوتی؟
4:12

اور تمہارے لئے اس (مال) کا آدھا حصہ ہے جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو تمہارے لئے ان کے ترکہ سے چوتھائی ہے (یہ بھی) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد، اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لئے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد، اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کی وراثت تقسیم کی جا رہی ہو جس کے نہ ماں باپ ہوں نہ کوئی اولاد اور اس کا (ماں کی طرف سے) ایک بھائی یا ایک بہن ہو (یعنی اخیافی بھائی یا بہن) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہے، پھر اگر وہ بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ تقسیم بھی) اس وصیت کے بعد (ہو گی) جو (وارثوں کو) نقصان پہنچائے بغیر کی گئی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد، یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے، اور اللہ خوب علم و حلم والا ہے
وہ بھائی کیا کوئی قرض حسنہ بھی نہیں دے سکتا ہے۔ مطلب کوئی بندہ بیمار ہے۔ اور کوئی دوسرا مسلمان اسکو قرض حسنہ دیتا ہے۔ تو کیا اسکے مرنے کے بعد وہ قرض بھی اسکے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔ نہیں یہ آیت اُنکے وارثوں کے لئے ہے۔ کہ اگر اس پر کوئی قرض ہے تو وہ اب انہوں نے اسکے مال سے ادا کرنا ہے۔ ورنہ تو پھر کوئی بھی کسی بھی بیمار کو کوئی بھی قرض نہیں دے گا۔
اور یہ اسلامی سسٹم کے خلاف ہے۔ اس لئے اسکے سدباب کے لئے اسطرح کی وضاحت کی گئی ہے۔ تاکہ اسلامی بھائی چارہ قائم رہے۔

اول تو آپ کے پاس کوئی ملک، بطور ماڈل اسلامی ملک موجود نہیں ۔ اور جن ممالک کی مثال اسلامی ممالک کی طرح دی جاتی ہے ان ممالک کے سربراہان آپ کی قرض حسنہ والی تھیوری پر عمل نہیں کرتے ۔ سعودی، کویتی، امارتی، ایرانی اور لیبیا کی ساری دولت بطور قرض امریکی اور یوروپی بینکوں میں رکھی ہوئی ہے جس پر یہ لوگ باقاعدگی سے منافع وصولتے ہیں۔

جناب یہ تو ہم بھی کہتےہیں کہ ہمارے سربراہان غیر اسلامی طریقہ کار پر چل رہیں ہے۔ اسلام جو کہتا ہے۔ وہ یہ سربراہان نہیں کر رہیں ہے۔ اپکے اِس بات سے تو میرے خیال سے تمام مسلمان متفق ہیں۔ اور ان سربراہان کو صحیح اسلامی نظام نافذ کرنا چاہئے۔
 
آپ بیس فی صد ٹیکس مرکزی حکومت کو ادا کرنے اور پھر مرکزی خزانے سے فلاح و بہبود کی مد میں ادائیگی کو آپس میں کنفیوژ کررہے ہیں۔ اتفاق سے امریکہ 20 فی صد اوسط ٹیکس مرکزی حکومت کو ادا کرتا ہے۔ اور پھر امریکی حکومت یہ وصول شدہ رقم ان تمام مدوں میں خرچ کرتی ہے جو سورۃ البقرۃ آیت 177 یا سورۃ توبہ آیت 60 یا سورۃ انفال آیت 8 میں درج ہیں۔ رکاز پر 20 فی صد آپ نےجن کتب سے لیا ہے مجھے علم ہے کہ وہ آپ کے مذہب کی کتب ہیں۔ لیکن قرآن حکیم ، اللہ تعالی کا فرمان اس طرح فراہم کرتا ہے۔

کسی بھی منافع، نفع، آمدن کا پانچواں حصہ اللہ تعالی کا حق۔ یہ حق مرکزی حکومت کو ادا کیا جائے۔
8:41
اور جان لو کہ جو کچھ تمہیں غنیمت (منافع یا نفع) کسی بھی چیز سے حاصل ہو تو اس میں سے پانچواں حصہ الله اور اس کے رسول کا ہے اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے اگر تمہیں الله پر یقین ہے اور اس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلہ کے دن اتاری جس دن دونوں جماعتیں ملیں اور الله ہر چیز پر قادر ہے

9:60
بیشک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والوں پر) اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے

2:177
نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں


کیا امریکہ 20 فی صد اوسطاً ٹیکس اپنی آمدنی، منافع یا نفع پر ادا کرتا ہے؟
بالکل

کیا اسلامی ممالک کے امراء اور عوام 20 فی صد ٹیکس مرکزی حکومت کو ادا کرتے ہیں
نہیں ۔

کیا امریکہ اپنا جمع شدہ ٹیکس فلاح و بہبود نظریاتی ریاست کے دفاع، اور سب کے لئے ترقیاتی کاموں پر خرچ کرتا ہے
بالکل

کیا اسلامی ممالک اپنا جمع شدہ ٹیکس یا زکواۃ فلاح و بہبود نظریاتی ریاست کے دفاع، اور سب کے لئے ترقیاتی کاموں پر خرچ کرتے ہیں۔
ٹیکس ہی دینے پر 1400 سال سے اتفاق نہیں تو فلاح بہبود ، نظریاتی ریاست کے دفاع اور ترقیاتی کاموں پر کیا خرچ کریں گےِ

آج بھی پاکستان میں زراعت پر کوئی ٹیکس نہیں ۔

کیوِں ؟؟؟؟
 

علی خان

محفلین
ہاہا ہا ہا چلیں خان صاحب آپ اب بھی اپنی راگ گا رہیں ہے۔ میں نے تو اپکو وضاحت صاف الفاظ میں کر دی ہے۔ اب یہ 20 فیصد والا فارمولا آپکا اپنا ہے۔ اور ابھی آپ اسکو ہم پر رائج کرنا چاہتے ہیں۔ مگر یہ ناممکن ہے۔ کیونکہ دین اسلام نے ہر چیز پر زکواۃ کی اپنی حد مقرر کر دی ہے۔ اور اسکی وضاحت بھی صاف الفاظ میں کر دی ہے۔ اور وہی وضاحت میں نے صاف صاف الفاظ میں اپکو کر دی ہے۔ مگر اب آپ نے میں نہ مانوں ہار والا گردان شروع کر دیا ہے۔

اپکے تمام الفاظ میں کہیں پر بھی 20 پرسنٹ پر کوئی بھی واضح ہدایت نہیں ہے۔ بس آپ ہی اسطرح کہہ رہیں ہیں۔ ورنہ پھر تو قرآن مجید اور آحادیث میں اللہ تعالیٰ واضح الفاظ میں حکم دیتا کہ ہر چیز میں میرا پانچواں حصہ ہے۔ نہ کہ پھر یہ کہ مدفون پر اتنا، بارانی زمین پر اتنا ، اور نہری یا کنوں کے پانی والے زمین پر اتنا۔
 

علی خان

محفلین
اور جناب اپکا امریکہ 10 سے لیکر 35 فیصد تک ٹیکس لیتا ہے اپنے عوام سے اب آپ 10 اور 35 کو بھی اپنے فارمولے پر 20 تک لے آئے ہیں۔ تو اب اسمیں میں کچھ بھی کہہ نہیں سکتا ہوں۔
اب اگر امریکہ اپنے شہریوں سےآپ والا 20 فیصد ٹیکس وصول کرتا ہے تو بھی یہ اسلامی نہیں۔ اور اگر 10 سے 35 فیصد تک ٹیکس وصول کرتا ہے تو بھی یہ اسلامی نہیں۔ تو اس لئے غلط نظام کو ہر گز ہرگز اسلامی لبادہ پہنانے کی کوشش نہ کریں۔
 

شمشاد

لائبریرین
برسبیلِ تذکرہ، اگر زرداری صاحب مسٹر ٹین پرسنٹ ہیں تو کیا وہ آدھے مسلمان ہوئے؟
وہ تو اس وقت کی بات ہے جب بی بی زندہ تھی اور زرداری کے پاس کوئی عہدہ نہیں تھی۔ اب تو سُنا ہے وہ ترقی کر کے مسٹر 30 پرسنٹ سے بھی آگے بڑھ چکے ہیں۔
 

علی خان

محفلین
برسبیلِ تذکرہ، اگر زرداری صاحب مسٹر ٹین پرسنٹ ہیں تو کیا وہ آدھے مسلمان ہوئے؟
زرداری صاحب تو کوشش میں ہے کہ تمام کا تمام پاکستان ہی پیچ ڈالیں۔ تاکہ نہ رہےبانس اور نہ بجے بانسوری۔;)

ویسے ہماری بات امریکہ معاشی نظام پر ہو رہی ہے۔ اور یہ خان صاحب نے ابھی ثابت کرنا ہے ۔ کہ امریکی معاشی نظام کس طرح اسلامی معاشی نظام کا شیڈو ورژن ہے۔ خان صاحب نے پورا زور لگا دیا ہے۔ مگر ثابت کرنے میں ابھی تک ناکام ہیں۔ اس لئے اب کبھی بات کو ایک طرف لے جانے کی کوشش میں نظر آتے ہیں اور کبھی دوسری طرف ۔
:thumbsup4:
 
میں ایک بات واضح کرچکا ہوں کہ یہاں اصول کے بارے میں بات ہورہی ہے۔ کہ امریکہ کا کوئی قانون کسی قرآنی اصول کے خلاف نہیں ہے۔ ایک ایک کرکے نکات سامنے آرہے ہیں اور ان کی صورت حال۔ آپ کا اسلام قرآن کے علاوہ دوسری کتب سے بنتا ہے اس لئے آپ کو سوچنے سمجھنے میں دشواری ہورہی ہے۔ ٹیکس یا زکواۃ کے بارے میں بات سامنے ہے۔

اب بتائیے کہ اگلا نکتہ کونسا ہے جس پر آپ بات کریں گے؟
 

قیصرانی

لائبریرین
زرداری صاحب تو کوشش میں ہے کہ تمام کا تمام پاکستان ہی پیچ ڈالیں۔ تاکہ نہ رہےبانس اور نہ بجے بانسوری۔;)

ویسے ہماری بات امریکہ معاشی نظام پر ہو رہی ہے۔ اور یہ خان صاحب نے ابھی ثابت کرنا ہے ۔ کہ امریکی معاشی نظام کس طرح اسلامی معاشی نظام کا شیڈو ورژن ہے۔ خان صاحب نے پورا زور لگا دیا ہے۔ مگر ثابت کرنے میں ابھی تک ناکام ہیں۔ اس لئے اب کبھی بات کو ایک طرف لے جانے کی کوشش میں نظر آتے ہیں اور کبھی دوسری طرف ۔
:thumbsup4:
زرداری پاکستان کو بیچنے کو نہیں خریدنے کے چکر میں ہے :)
 

علی خان

محفلین
میں ایک بات واضح کرچکا ہوں کہ یہاں اصول کے بارے میں بات ہورہی ہے۔ کہ امریکہ کا کوئی قانون کسی قرآنی اصول کے خلاف نہیں ہے۔ ایک ایک کرکے نکات سامنے آرہے ہیں اور ان کی صورت حال۔ آپ کا اسلام قرآن کے علاوہ دوسری کتب سے بنتا ہے اس لئے آپ کو سوچنے سمجھنے میں دشواری ہورہی ہے۔ ٹیکس یا زکواۃ کے بارے میں بات سامنے ہے۔

اب بتائیے کہ اگلا نکتہ کونسا ہے جس پر آپ بات کریں گے؟
ابھی تو آپ نے 20 ٍفیصد والا مسلہ حل نہیں کیا ہے۔ اگر فیصد امریکہ میں ہے تو کسطرح کیونکہ وہاں تو ٹیکس 10 کے ہندسے سے شروع ہوکر 35 تک جاتا ہے۔ اب اسمیں ہاں میں مانتا ہوں۔ کہ درمیان میں 20 کا ہندسہ بھی آتا ہے۔ مگر یہ نہیں کہ 20 سے شروع ہو کر 20 پر ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اب جب یہاں خود امریکی سسٹم یہ کہہ رہا ہے۔ کہ ہمارا ٹیکس 10 سے 35 فیصد تک ہے۔ تو پھر یہ کسطرح اپکے 20 فیصد پر پورا اُترتا ہے۔اور جب 20 پر ختم نہیں ہوتا تو پھر کسطرح میں مان لوں۔ یہ حل کردیں۔ پھر آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ :notworthy:

6dx0cm.png


ویسے یہ 20 فیصد آپ نے گھڑا ہے۔ واقعی میں اسطرح ہے نہیں۔ :D
 
تمام امریکہ اوسطاً کتنا ٹیکس ادا کرتا ہے، اس کا جواب اس 10 سے 35 فی صد کا weighted average یعنی باوزن اوسط نکالنے سے مل جاتا ہے کہ کتنی تعداد میں لوگ کتنے فی صد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے ۔ اگر آپ اوسط 20 فی صد سے شروع کیجئے تو آپ کو کم آمدنی والوں کی فلاح کے لئے کچھ رقم دینی ہوگی کیوں کہ یہ لوگ اگر 20 فی صد ٹیکس ادا کریں گے تو یہ غریب ہوجائیں گے۔ اسی طرح زیادہ کمانے والے اس ٹیکس کی کمی کو پورا کریں گے۔ آپ کسی بھی طرح دیکھئے امریکی ڈھائی فیصد ٹیکس ادا نہیں کرتے بلکہ ٹیکس ادا کرنے کی یہ مقدار اوسطاً 17 فی صد سے زائید وفاقی اور 6 فیصد سے زائید علاقائی، سیلز اور پراپرٹی اور تعلیمی ٹٰکس کا اوسط ہے۔ یہ مقدار 23 سے 24 فیصد کا اوسط بنتی ہے۔ ایسا کیوں؟

1۔ اصول نمبر ایک ، 20 فی صد ٹیکس ۔ سورۃ 8 اور آیت 41 ( سورۃ الانفال، آیت 41)
2۔ اصول نمبر 2۔ عام آدمی کی فلاح و بہبود کے لئے اس کو اس جمع شدہ ٹیکس سے ادائیگی۔ جس کا ایک طریقہ ہے کم آمدنی والے کو ٹیکس میں چھوٹ، فلاح و بہبود کے نظریے کے لئے دیکھئے سورۃ التوبہ 9 ، آیت 60
3۔ اصول نمبر 3 ۔ جو ضرورت سے زیادہ کماتا ہے ، اس کے لئے زیادہ ادائیگی۔ سورۃ البقرۃ 2 آیت نمبر 219
4۔ زکواۃ یا ٹیکس اسی دن ادا کرو جس دن فصل کٹ؁ یعنی منافع ہو۔دیکھئے سورۃ الانعام آیت 141

سر جی، آپ انسانوں کی لکھی ہوئی کتب میں طرح طرح کی زکواۃ کی شرحیں ڈھونڈ رہے ہیں اور پیش کررہے ہیں۔ ان مقداروں اور اصولوں کا کوئی بھی جواز قرآن حکیم میں موجود نہیں ، تو پھر یہ اصول اسوۃ حسنہ کیسے بن گئے؟؟؟ اس لئے کہ لوگوں نے اپنی ذاتی خواہشوں کی پیروی کے لئے اپنے اصول خود اپنے آپ متعین کئے اور ان اصولوں کو رسول اکرم سے منسوب کردیا۔

اس میں آپ کا قصور بھی نہیں ہے۔ میں کہہ چکا ہوں کہ آپ کے ٹیکس یا زکواۃ کا نظام ان انسانی ہاتھوں سے لکھی ہوئی کتب سے نکالا گیا ہے۔ جس کا کوئی سرا آپ قرآن حکیم سے ثابت نہیں کرسکتے۔ زکواۃ کے طرح طرح کے فی صد انسانوں نے گھڑے ہیں۔ اللہ تعالی نے اللہ تعالی کا حق کسی بھی شے سے ہونے والے منافع کا پانچواں حصہ یعنی 20 فی صد قرار دیا ہے۔ دیکھئے سورۃ الانفال ، آیت 41 ، اسی طرح زکواۃ یا ٹیکس کی ادائیگی اللہ تعالی نے منافع ہونے یا فصل کی کٹائی کے وقت پر مقرر کی ہے۔ دیکھئے سورۃ الانعام آیت 141

آپ نے انسانوں کی لکھی کتابوں سے طرح طرح کی زکواۃ کی شرح و شرائط پیش کی ہیں۔ یہ ان لوگوں نے خود گھڑی ہیں، آپ اللہ تعالی کا حکم درج ذیل نکات کے بارے میں اللہ تعالی کی کتاب القرآن سے پیش کردیجئے کہ

1۔ زکواۃ ڈھائی فی صد ہے 20 فی صد نہیں
2۔ زکواۃ سال بھر کے اثاثے پر ہوگی۔ یا فصل کٹنے پر؟
3۔ وہ تمام طرح طرح کی زکواۃ کی شرح جو لوگوں نے رسول اکرم سے منسوب کی ہوئی ہیں۔ ان کا ثبوت قرآن حکیم سے فراہم کردیجئے۔
4۔ زکواۃ کی ادائیگی مرکزی حکومت کا حق نہیں بلکہ بندوں کی مرضی سے ادھر ادھر بانٹنا ہے۔

سارا مسئلہ یہ ہے کہ آپ کا خیال ہے کہ جو کچھ کتب روایات میں لکھا ہے وہ اللہ تعالی کا فرمان ہے۔ جبکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ صرف قرآن حکیم اللہ تعالی کا فرمان ہے۔ جب آپ ان کتب روایات سے اصول بنائیں گے تو بات سامنے ہے کہ آپ کو سب کچھ کتب کے اصول کے مطابق دیکھیں گے، اور قرآن حکیم کو ایک طرف رکھ دیں گے۔

آپ گوگل کرکے دیکھئے۔ امریکہ 17 فی صد اوسطاً وفاقی ٹیکس ادا کرتا ہے اور 6 فی صد اوسطاً سیلز ٹیکس ۔ اس طرح سارے ٹیکس کی اوسط مقدار 20 فی صد سے زائید بنتی ہے۔ جو کہ

3۔ اصول نمبر 3 ۔ جو ضرورت سے زیادہ کماتا ہے ، اس کے لئے زیادہ ادائیگی۔ سورۃ البقرۃ 2 آیت نمبر 219

کے عین مطابق ہے ۔۔۔
 

علی خان

محفلین
خان صاحب تم اپنی عادت سے مجبور ہوں۔ اور امریکہ کے لئے اتنے حد تک جا سکتے ہوں۔ میں نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا۔ کہ اپ آیت کو اپنے مقصد کے استعمال کریں گے۔

۔ اصول نمبر ایک ، 20 فی صد ٹیکس ۔ سورۃ 8 اور آیت 41 ( سورۃ الانفال، آیت 41)

یہ رہا سورۃ انفال کی آیت نمبر 41۔ اگر تمھارے پاس دماغ نام کی کوئی چیز ہے۔ اور تم حق کی تلاش میں ہوں۔ تو جان لوں کہ یہ آیت جنگ بدر کے تناظر میں نازل ہوئی تھی۔ کیونکہ اُس وقت مسلمان تعدار میں کم تھے۔ اور اُن میں زیادہ تر مسلمانوں کی مالی حالت کمزور تھی۔ تو اسی مناسبت سے یہ آیت نازل ہوئی تھی۔ کیونکہ مال غنیمت اور خزانہ ایک ہی ہیں۔

وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُمْ بِاللّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ۔
اور جان لو کہ جو کچھ مالِ غنیمت تم نے پایا ہو تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اور (رسول ﷺکے) قرابت داروں کے لئے (ہے) اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہے۔ اگر تم اللہ پر اور اس (وحی) پر ایمان لائے ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر (حق و باطل کے درمیان) فیصلے کے دن نازل فرمائی وہ دن (جب میدانِ بدر میں مومنوں اور کافروں کے) دونوں لشکر باہم مقابل ہوئے تھے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے

اصول نمبر 2۔ عام آدمی کی فلاح و بہبود کے لئے اس کو اس جمع شدہ ٹیکس سے ادائیگی۔ جس کا ایک طریقہ ہے کم آمدنی والے کو ٹیکس میں چھوٹ، فلاح و بہبود کے نظریے کے لئے دیکھئے سورۃ التوبہ 9 ، آیت 60

إِنَّمَا ٱلصَّدَقَٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَٱلْمَسَٰكِينِ وَٱلْعَٰمِلِينَ عَلَيْهَا وَٱلْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِى ٱلرِّقَابِ وَٱلْغَٰرِمِينَ وَفِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةًۭ مِّنَ ٱللَّهِ ۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌۭ(60)
صدقات (یعنی زکوٰة وخیرات) تو مفلسوں اور محتاجوں اور کارکنان صدقات کا حق ہے اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرضداروں (کے قرض ادا کرنے میں) اور خدا کی راہ میں اور مسافروں (کی مدد) میں (بھی یہ مال خرچ کرنا چاہیئے یہ حقوق) خدا کی طرف سے مقرر کر دیئے گئے ہیں اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے(60)
تفسیر
ف١ چونکہ تقسیم صدقات کے معاملہ میں پیغمبر پر طعن کیا گیا تھا، اس لیے متنبہ فرماتے ہیں کہ صدقات کی تقسیم کا طریقہ خدا کا مقرر کیا ہوا ہے۔ اس نے صدقات وغیرہ کے مصارف معتین فرما کر فہرست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں دے دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کے موافق تقسیم کرتے ہیں اور کریں گے کسی کی خواہش کے تابع نہیں ہو سکتے۔ حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "خدا نے صدقات (زکوٰۃ) کی تقسیم کو نبی یا غیر نبی کسی کی مرضی پر نہیں چھوڑا۔ بلکہ بذاتِ خود اس کے مصارف متعین کر دیے ہیں۔ جو آٹھ ہیں۔ "فقراء" (جن کے پاس کچھ نہ ہو) "مساکین" (جن کو بقدر حاجت میسر نہ ہو) "عاملین" (جو اسلامی حکومت کی طرف سے تحصیل صدقات وغیرہ کے کاموں پر مامور ہوں) "مؤلفۃ القلوب" (جن کے اسلام لانے کی امید ہو یا اسلام میں کمزور ہوں وغیر ذلک من الانواع، اکثر علماء کے نزدیک حضور کی وفات کے بعد یہ مد نہیں رہی) "رقاب" (یعنی غلاموں کا بدل کتابت ادا کر کے آزادی دلائی جائے۔ یا خرید کر آزاد کیے جائیں۔ یا اسیروں کا فدیہ دے کر رہا کرائے جائیں) "غارمین" (جن پر کوئی حادثہ پڑا اور مقروض ہوگئے یا کسی کی ضمانت وغیرہ کے بارے میں دب گئے) "سبیل اللہ" (جہاد وغیرہ میں جانے والوں کی اعانت کی جائے) "ابن السبیل" (مسافر جو حالت سفر میں مالک نصاب نہ ہو، گو مکان پر دولت رکھتا ہو) "حنفیہ" کے یہاں تملیک ہر صورت میں ضروری ہے اور فقر شرط ہے۔ تفصیل فقہ میں ملاحظہ کی جائے۔(60)

اصول نمبر 3 ۔ جو ضرورت سے زیادہ کماتا ہے ، اس کے لئے زیادہ ادائیگی۔ سورۃ البقرۃ 2 آیت نمبر 219
يَسْ۔َٔلُونَكَ عَنِ ٱلْخَمْرِ وَٱلْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَآ إِثْمٌۭ كَبِيرٌۭ وَمَنَٰفِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَآ أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا ۗ وَيَسْ۔َٔلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ ٱلْعَفْوَ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمُ ٱلْءَايَٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ(219)
پوچھتے ہیں: شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے؟ کہو: ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں، مگر ان کا گناہ اُن کے فائدے سے بہت زیادہ ہے پوچھتے ہیں: ہم راہ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو: جو کچھ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو اس طرح اللہ تمہارے لیے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے، شاید کہ تم دنیا اور آخرت دونوں کی فکر کرو(219)
خان صاحب یہاں پر زکوۃ کی کوئی شق نہیں ہے۔ بس یہ حکم ہوا ہے۔ کہ اللہ کی راہ میں زیادہ دیا کروں۔ اسمیں زبردستی نہیں ہے۔ بس توفیق کی بات کی گئی ہے۔ اور اس بات سے تو سب ہی متفق ہیں کہ جتنا بھی اللہ کی راہ میں سے سکتے ہو۔ دے دوں۔ مگر اسمیں اپکی 20 فیصد والی بات کہیں پر بھی نہیں ہے۔ اور ابھی آپ اسکو ثابت کریں۔ کیونکہ وہ 20 فیصد تو مال غنیمت پر ہے۔ 20 فیصد زکواۃ مدفون خزانے کے علادہ کہا پر ہے۔

زکواۃ یا ٹیکس اسی دن ادا کرو جس دن فصل کٹ یعنی منافع ہو۔دیکھئے سورۃ الانعام آیت 141
وَهُوَ الَّذِی أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَیْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفاً أُکُلُهُ وَالزَّیْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهاً وَغَیْرَ مُتَشَابِهٍ کُلُواْ مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُواْ حَقَّهُ یَوْمَ حَصَادِهِ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِینَ .141
وہ خدا ہے جس نے تختوں پرچڑھائے ہوئے بھى اور اس کے خلاف بھى ہر طرح کے باعات پیدا کئے ہیں اور کھجور اور زراعت پیدا کى ہے جس کے مزے مختلف ہیں اور زیتون اور انار بھى ہر پیدا کئے ہیں جن بعض آپس میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اوربعض مختلف ہیں _ تم سب ان کے پھلوں کو جب وہ تیار ہو جائیں تو کھا ؤ اور جب کا ٹنے کا دن آئے تو ان کا حق ادا کرو اور خبردار اسراف نہ کرنا کہ خدا اسراف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ہے ( 141)
1_ خداوندتعالی ہى نے باغات پیدا کئے کہ جن میں سے بعض، (باڑھ) پر چڑھائی ہوئی بیلیں، بعض اپنے تنوں پر کھڑے اور بعض زمین پر پڑى ہوئی بیلیں ہیں_
و ھو الذى انشاء جنت معروشت و غیر معروشت
''عرش'' کا معنى چھت''جنات معروشت'' وہ باغات کہ جن میں انگور کے درختوں کے
لیے باڑھ جیسى چھت بنائی گئی ہوں ''لسان العرب'' میں لکھا ہے ''المعروشات الکروم والعرش ما عرشتہ بہ''
2_ خداوندتعالٰی ہى باغات اور کھجور کے درخت اور لہلہاتے (سرسبز) کھیت پیدا کرنے والا ہے_
و ھو الذى انشاء جنت ... والنخل والزرع
3_ عالم طبیعت کے گوناگون مظاہر قدرت خدا کا جلوہ ہیں_
و ھو الذى انشاء جنت
4_ اشیاء کو مباح اور حرام قرار دینے کا اختیار فقط خداوندتعالٰی کے ہاتھ میں ہے_
و قالوا ھذہ انعم و حرث حجر ... و ھو الذى انشائ
باغات اور انکى پیداوار پر خداوندتعالٰی کى مالکیت کے بارے میں آیت کى تاکید گویا مشرکین کیلئے ایک تعریض ہے کہ جو بغیر صلاحیت کے دوسرے لوگوں کا حصہ مقرر کرتے ہیں یا بعض اموال کو ممنوع قرار دیتے ہوئے بے جا طور پر ان کى حرمت کا حکم لگاتے ہیں اس قسم کى ممانعت کے چند نمونے گذشتہ آیات میں ہیں (کہ جن کے مشرکین قائل تھے)_
5_ زرعى پیداوار اور مختلف پھل قدرت الہى کے آثار میں سے ہے_
والزرع مختلفا اکلہ
''اکل'' کھائے جانے والے پھل اور ثمر کو کہتے ہیں_
6_ خداوندتعالٰی ہى زیتون اور انار کے یکساں (ملتے جلتے) اور غیر یکساں درخت پیدا کرنے والا ہے_
و ہوالذى انشا ... والذیتون و الرمان متشبہا و غیر متشبہ
7_ زیتون اور انار کے پھلوں اور درختوں کى انواع و اقسام ایک دوسرے کے متشابہ ہونے کے باوجود (آپس میں) فرق رکھتے ہیں_
والزیتون والرّ مان متشبھا و غیر متشبہ
8_ پھلوں کى (ظاہری) شکل میں یکسانیت جیکہ کیفیت و ذائقے مختلف ہونا، قدرت خدا کى نشانى ہے_
و ھو الذی ... الزیتون و الرّ مان متشبھا و غیر متشبہ
احتمال ہے آیت میں زیتون و انار سے مراد ان کے پھل ہوں اس صورت میں ''متشابہ'' یعنى زیتوں کے پھلوں کا ایک دوسرے سے کے مشابہ ہونا اور اسى طرح انار کے پھلوں میں بھى شباہت پائی جانا_ ''غیر متشابہ'' سے مراد ان پھلوں کا رنگ اور ذائقے کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہونا ہے جبکہ ان میں یکسانیت و شباہت بھى موجود ہے_
9_ انسان کے لیے پھلوں اور زرعى پیداوار کى انواع و اقسام سے استفادہ کرنے کا جواز_
کلوا من ثمرة اذا اثمر
10_ خداوندمتعال نے زرعى محصولات اور پیداوار میں سے اپنا حق بھى مقرر کیا ہے_
و اتوا حقہ یوم حصادہ صدر آیت کے قرینے سے ممکن ہے ''حقہ'' کى ضمیر کا مرجع ''اللہ'' ہو_
11_ درخت سے پھل اتارتے وقت اور فصلوں کى کٹائی کے وقت زرعى پیداوار میں سے کچھ (پھل اور غلات، راہ خدا میں) دینے کا ضرورى ہونا_
و ء اتوا حقہ یوم حصادہ
12_ مکہ میں (دیا گیا) حکم زکواۃ، تمام زرعى محصولات اور پیدوار کو شامل تھا_
جنت ... وانخل والزرع ... والزیتون والرمان ... و اتوا حقہ یوم حصادہ
پھل اتارنے کے دن زرعى پیداوار میں سے حق ادا کرنے کا فرمان، خاص قسم کى زرعى پیداوار سے مخصوص نہیں ہے چونکہ دوسرى مکى آیات میں بھى زکواۃ کا حکم دیا گیا ہے احتمال ہے کہ ''ایتاء حق الحصاد'' کا حکم، اسى زکواۃ کى جانب اشارہ ہو_
13_ زرعى پیداوار میں سے حقوق (زکات یا حق الحصاد) ادا کرنے کا حکم، مکہ میں نازل ہوا ہے_
و اتوا حقہ یوم حصاد ہ
14_ اسراف (خرچ کرنے اور انفاق کرنے میں زیادہ روى کرنا) ایک حرام اور ناپسندیدہ فعل ہے_
و لا تسرفوا
15_ مالى لحاظ سے واجب حقوق ادا نہ کرنا، اسراف ہے_
و ء اتوا حقہ یوم حصادہ ... و لا تسرفوا انہ لا یجب المسرفین
16_ خدا نے فضول خرچى کرنے والوں کو اپنى محبت سے محروم کردیا ہے_
انہ لا یحب المفسرفین
17_ عن ابى عبداللہ(ع) : لا تصرم باللیل و لا تحصد باللیل ... و ان حصدت باللیل لم یاتک السؤال و ھو قول اللہ تعالى : ''و ء اتوا حقہ یوم حصادہ'' ... یعنى القبضہ بعد القبضہ اذا حصدتہ و اذا خرج فالحفنة بعد الحفنة ... (81)
امام صادق(ع) سے منقول ہے کہ پھل رات کے وقت نہ اتارو اور رات کے وقت کٹائی نہ کرو ... کیونکہ اگر رات کے وقت کٹائی کرو کے تو فقرا تمہارے پاس نہیں آئیں گے_ جبکہ خدا کا فرمان ہے پیداوار کا حق کٹائی کے دن ہى ادا کردو، ... یعنى کٹائی کے وقت، دستہ دستہ اور دانے جدا کرتے وقت، مٹھى مٹھى ادا کرو_
18_ عن ابى جعفر(ع) قال : ... ان اللہ یقول : ''و ا توا حقہ یوم حصادہ و لا تسرفوا انہ
لا یحب المسرفین'' قال : کان فلان ... لہ حرث و کان اذا جذہ تصدق بہ و بقى ھو و عیالہ بغیر شیء فجعل اللہ ذلک سرفا (9)
امام باقر(ع) سے منقول ہے کہ آپ(ع) نے آیت ''ء اتوا حقہ ...'' کى تلاوت کرنے کے بعد فرمایا : ایک شخص کے پاس ایک کھیت تھا_ جب اس کى فصل کى کٹائی کا وقت ہوتا تو سب کى سب فصل صدقے میں دے دیتا اور اپنے اور اپنے عیال کے لیے کچھ بھى نہ چھوڑتا_ خداوندمتعال نے اس فعل کو اسراف کہا ہے_
19_ عبد اللہ بن سنان عن ابى عبداللہ(ع) قال : سالتہ عن قولہ: ''و ا توا حقہ یوم حصادہ'' قال: اعط من حضرک من المسلمین وان لم یحضرک الا مشرک فاعطہ (10)
عبداللہ بن سنان کہتے ہیں میں نے امام صادق(ع) سے آیت ''و ء اتوا حقہ یوم حصادہ'' کے بارے میں پوچھا_ آپ(ع) نے فرمایا : اگر فصل کى کٹائی کے وقت مسلمانوں میں سے کوئی موجود ہو تو ''حق الحصاد'' کا حق اسے دو_ اور اگر مشرک کے علاوہ کوئی اور نہ ہو تو اسے دے دو_
20_ عن ابى عبداللہ(ع) فى قولہ : ''و ء اتوا حقہ یوم حصادہ'' قال: حقہ یوم حصادہ علیک واجب و لیس من الزکاة ...(11)
امام صادق(ع) سے آیت ''و اتوا حقہ یوم حصادہ'' کے بارے میں منقول ہے کہ کٹائی کے دن ''حق الحصاد'' (حق پیداوار) ادا کرنا تم پر واجب ہے_ اور یہ حق، زکات کے علاوہ ہے_
21_ عن النبی(ص) فى قولہ : ''و اتوا حقہ یوم حصادہ'' قال : ما سقط من السنبل (12)
رسول خدا(ص) سے آیت ''و اتوا حقہ یوم حصادہ'' کى توضیح کے سلسلے میں منقول ہے کہ :
فصل کى کٹائی کے وقت زمین پر گرنے والے خوشہ ''حق الحصاد'' ہیں_
 

علی خان

محفلین
آپ نے انسانوں کی لکھی کتابوں سے طرح طرح کی زکواۃ کی شرح و شرائط پیش کی ہیں۔ یہ ان لوگوں نے خود گھڑی ہیں، آپ اللہ تعالی کا حکم درج ذیل نکات کے بارے میں اللہ تعالی کی کتاب القرآن سے پیش کردیجئے کہ

1۔ زکواۃ ڈھائی فی صد ہے 20 فی صد نہیں
2۔ زکواۃ سال بھر کے اثاثے پر ہوگی۔ یا فصل کٹنے پر؟
3۔ وہ تمام طرح طرح کی زکواۃ کی شرح جو لوگوں نے رسول اکرم سے منسوب کی ہوئی ہیں۔ ان کا ثبوت قرآن حکیم سے فراہم کردیجئے۔
4۔ زکواۃ کی ادائیگی مرکزی حکومت کا حق نہیں بلکہ بندوں کی مرضی سے ادھر ادھر بانٹنا ہے۔
خان صاحب۔ پتہ نہیں آپ کسطرح کے انسان ہیں۔ کیونکہ اسطرح تو بہت سی باتیں ہیں۔ جو قرآن مجید میں موجود نہیں ہیں۔اور تمام مسلمان ان پر عمل پیرا ہیں۔ تو کیا یہ سب بھی انسانوں نے اسلام میں شامل کی ہیں۔

کیا نیچے دیئے گئے سوالات آپ قرآن سے ثابت کر سکتے ہیں۔

1۔ مجھے ذرا یہ بتائیں۔ کہ گدھا (Donkey) حلال ہے یا حرام؟
2۔ روزہ کے اوقات کے بارے میں قرآن سے وضاحت کردیں۔ کہ کس ٹائم روزہ بند کرنا ہے۔ اور کس ٹائم پر افطار کرنا ہے؟
3۔ حج کے دوران شیطان کو کنکریاں مرنے کا شرعی حکم؟
4۔ نماز ادا کرنے سے پہلے آذان کے لئے شرعی حکم؟
5۔ جہاد کب اور کن وجوہات میں فرض ہوتا ہے اور جہاد کا طریقہ کیا ہوگا؟
6۔ نماز کا طریقہ کار اور نماز میں ادا کئے جائے والے الفاظ قرآن مجید میں کہاں پر ہیں؟
7۔ خنزیر کے علاوہ حرام کئے گئے جانور کون کون سے ہیں اور اگر نہیں ہیں تو پھر ہم کیوں کواہ، گدھا وغیرہ وغیرہ کو نہیں کھاتے ہیں؟
8۔ اسی طرح نکاح اور طلاق کا ذکر تو ہے۔ مگر اسکی تفصیل کہاں پر ہے۔ کہ کن وجوہات کی بناہ پر نکاح اور طلاق ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اور اسی طرح شہادتیوں کی تعداد وغیرہ۔
9۔ رمضان کریم میں اپنی زوجہ کے ساتھ مباشرت کرنے پر روزہ کیوں ختم وہ جاتا ہے ؟

اُمید ہے خان صاحب میرے سوالات کو دوسری طرف نہیں لے جائیں گے اورقرآنی حوالات کے ساتھ ان کے جوابات ضرور دیں گے۔
 
برادر محترم، علی خان صاحب۔
آپ نے جو کچھ تاریخی حوالے اور معلومات فراہم کی ہیں وہ اپنی جگہ درست ہیں۔ لیکن اللہ کا فرمان قرآن کی آیات کسی ایک واقعے تک محدود نہیں ہیں بلکہ یہ تمام وقتوں کے لئے ہیں۔ بہت ہی سادہ سے بات ہے جو آپ بھی سمجھتے ہیں اور میں بھی۔

1۔ قرآن کے احکامات اصولوں کا سیٹ متعین کرتے ہیں۔
2۔ قرآن اور انسانوں کی لکھی ہوئی کتب ایک مختلف اصولوں کا سیٹ متعین کرتے ہیں۔

بات یہ ہے کہ تمام کے تمام نام نہاد اسلامی ممالک نمبر 2 قسم کے اصولوں پر کاربند ہیں۔ جس کا نتیجہ سامنے ہے۔
جبکہ امریکہ جن اصولوں پر کاربند ہے وہ اصول قرآن کے اصولوں کے مطابق ہیں۔

اب آپ خود دیکھ لیں کہ ان اصولوں پر پابند ہو کر امریکہ نے پچھلے 236 سالوں میں کیسی ترقی کی ہے اور نام نہاد مسلمان ممالک نے کیسی ترقی کی ہے ۔ آج مسلمان اس لئے بکھرے پڑے ہیں کہ ان کی سوچ میں اپنی غرض بھی شامل ہے۔ یہ ٹھنڈے دل سے سوچنے ک مقام ہے نا کہ جذبات میں آکر ایک خان صاحب یا دوسرے بھائی صاحب کو لتاڑنے کا مقابلہ :)
 
Top