فاروق سرور خان
محفلین
آپ کا فراہم کردہ زکواۃ یا ٹیکس کا نظام سرکار ، قرآن کے احکامات کو مکمل طور پر رد کرتا ہے اور اس کو روایات کا جامہ پہناتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان واضح ہے کہ ٹیکس یا زکواۃ کتنا ادا کیا جائے اور کب ادا کیا جائے۔ اللہ تعالی کا فرمان اس بارے میں بھی واضح ہے کہ ان ٹیکس چوروں کو ہی سود خور یا ربا خور سمجھا جائے۔
اگر یہ ٹیکس اپنی مرضی کے لوگوں کو ادا ہوگا لیکن مرکزی حکومت کو ادا نہیں ہوگا تو اسکول کیسے بنیں گے؟ سڑکیں کیسے بنیں گی؟ یونیورسٹیز کیسے بنیں گی؟ ٹیکس وصولنے والے ادارے کیسے بنیں گے؟ ترقی کرنے کا انفراسٹرکچر کیسے بنے گا؟ بندرگاہیں کیسے بنیں گی؟ قانون نافذ کرنے والے ادارے کیسے بنیں گے؟ پولیس کا نظام کیسے بنے گا؟ فوج اور دفاعی نظام کیسے بنے گا؟ بنکاری کا نظام، اور اس نظام کو نافذ کرنے والے ادارے کیسے بنیں گے۔ رسد و ترسیل کا نظام کیسے بنے گا؟ خوراک کی سپلائی کا نظام کیسے بنے گا۔
ضروری ہے کہ قوم اوسط 20 فی صد ٹیکس ادا کرتی ہو۔ تاکہ قوم ترقی کرسکے اور ساری قوم کو خوراک، سر چھپانے کی جگہ ، کپڑا ، کاریں ، فرج، ٹی وی، اچھے گھر بہترین طریقے سے جاری رہ سکے ، اس سب کے لئے امداد باہمی کے اصولوں کے تحت زکواۃ یا ٹیکس کا نظام ضروری ہے۔ ہمیں قرآن حکیم میں بہت سے آسان اصول ملتے ہیں۔ امریکہ اس ہی قسم کےسادہ اصولوں سے سارے قوانین بناتا ہے۔ لیکن مسلمانوں نے قرآن چھوڑ کر، روایات کی کتابوں سے اپنے لئے اصول متعین کرنے کو اسلام کا نام دیا ہوا ہے۔ ان کتابوں سے جو اصول سامنے آتے ہیں وہ کسی طور نبی اکرم کا فرمان نہیں ہوسکتے۔
قرض:
آپ نے فرمایا کہ قرض نام کی کوئی شے اسلام میں نہیں ہے؟ صرف قرض حسنہ ہے۔ آپ کے پاس قرآن حکیم سے کوئی حوالہ موجود ہے جو قرض دینے اور منافع لینے سے منع کرتا ہو؟؟
اس حوالہ کو دیکھئے، قرض لینے کی ممانعت ہوتی تو کیا یہ حکم ہوتا:
2:280
یا پھر قرض لینا اللہ کے فرمان کی رو سے منع ہوتا تو کیا موت کی صورت میں سب سے پہلے قرض کی ادائیگی کی شرط ہوتی؟
4:12
قرض حسنہ اللہ تعالی کو قرض دینے کا نظریہ ہے جو کہ دراصل ٹیکس یعنی زکواۃ و صدقات کی ادائیگی کے متعلق ہے۔
اول تو آپ کے پاس کوئی ملک، بطور ماڈل اسلامی ملک موجود نہیں ۔ اور جن ممالک کی مثال اسلامی ممالک کی طرح دی جاتی ہے ان ممالک کے سربراہان آپ کی قرض حسنہ والی تھیوری پر عمل نہیں کرتے ۔ سعودی، کویتی، امارتی، ایرانی اور لیبیا کی ساری دولت بطور قرض امریکی اور یوروپی بینکوں میں رکھی ہوئی ہے جس پر یہ لوگ باقاعدگی سے منافع وصولتے ہیں۔
آپ کا قرض حسنہ کا نظریہ ایسا ہے کہ نا تو یہ صرف قرآن حکیم سے ثابت ہے اور ناہی یہ کسی بڑے میکرو اکنامک نظام کا حصہ ہے۔ اگر آپ پانچ روپے یا دس روپے ادھار دینے والی بات کررہے ہیں تو پھر ٹھیک ہے لیکن اس سے تو ایک روٹی بھی نہیں آتی۔ کیا آپ پاکستان کی گندم کی فصل کو قرض حسنہ کے طور پر سعودیوں کو دینے کے بارے میں سوچ بھی سکتے ہیں؟ پوری قوم بھوکی مر جائے گی؟؟؟؟
بات کرتے ہیں اللہ تعالی کو قرض دینے کی تو کیا آپ کے ٹو پر چڑھ کر اپنے پیسے اچھالتے پھریں گے کہ "اللہ، جو تجھ کو چاہئے رکھ لے"
سر جی اللہ تعالی نے اس دنیا میں انسان کو بھیجا اور ہدایت کے لئے صرف "الکتاب" بھیجی ۔ ہر دور میں یہی الکتاب اور یہی اصول ملے۔ ٹیکس یا زکواۃ یا صدقات، ایک بنیادی حقیقت ہے۔ اس کے اصول صرف اور صرف قرآن حکیم میں ملتے ہیں۔ نا کہ لوگوں کی ذاتی خواہشوں کی پیروی کرنے والی کہانیوں کی کتابوں میں۔ جو قوم صرف قرآن کے اصولوں کے مطابق ٹیکس دے گی وہ ترقی کرے گی۔ زمین پر خلافت کی حقدار ہوگی۔ جو قوم ان کہانیوں کی کتابوں پر ایمان رکھ کر اپنے اصول وضع کرے گی وہ تباہ وہ برباد ہو جائے گی۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کی تباہی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس حکومت نے قرآن حکیم کے اصولوں کی جگہ انسانی ہاتھوں کی کتب کے اصولوں کو اسلامی اصول سمجھا اور تباہ وہ برباد ہوئے۔
9:103
18:29 اور کہہ دو کہ (لوگو) یہ قرآن تمہارے پروردگار کی طرف سے برحق ہے تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے۔
اگر یہ ٹیکس اپنی مرضی کے لوگوں کو ادا ہوگا لیکن مرکزی حکومت کو ادا نہیں ہوگا تو اسکول کیسے بنیں گے؟ سڑکیں کیسے بنیں گی؟ یونیورسٹیز کیسے بنیں گی؟ ٹیکس وصولنے والے ادارے کیسے بنیں گے؟ ترقی کرنے کا انفراسٹرکچر کیسے بنے گا؟ بندرگاہیں کیسے بنیں گی؟ قانون نافذ کرنے والے ادارے کیسے بنیں گے؟ پولیس کا نظام کیسے بنے گا؟ فوج اور دفاعی نظام کیسے بنے گا؟ بنکاری کا نظام، اور اس نظام کو نافذ کرنے والے ادارے کیسے بنیں گے۔ رسد و ترسیل کا نظام کیسے بنے گا؟ خوراک کی سپلائی کا نظام کیسے بنے گا۔
ضروری ہے کہ قوم اوسط 20 فی صد ٹیکس ادا کرتی ہو۔ تاکہ قوم ترقی کرسکے اور ساری قوم کو خوراک، سر چھپانے کی جگہ ، کپڑا ، کاریں ، فرج، ٹی وی، اچھے گھر بہترین طریقے سے جاری رہ سکے ، اس سب کے لئے امداد باہمی کے اصولوں کے تحت زکواۃ یا ٹیکس کا نظام ضروری ہے۔ ہمیں قرآن حکیم میں بہت سے آسان اصول ملتے ہیں۔ امریکہ اس ہی قسم کےسادہ اصولوں سے سارے قوانین بناتا ہے۔ لیکن مسلمانوں نے قرآن چھوڑ کر، روایات کی کتابوں سے اپنے لئے اصول متعین کرنے کو اسلام کا نام دیا ہوا ہے۔ ان کتابوں سے جو اصول سامنے آتے ہیں وہ کسی طور نبی اکرم کا فرمان نہیں ہوسکتے۔
قرض:
آپ نے فرمایا کہ قرض نام کی کوئی شے اسلام میں نہیں ہے؟ صرف قرض حسنہ ہے۔ آپ کے پاس قرآن حکیم سے کوئی حوالہ موجود ہے جو قرض دینے اور منافع لینے سے منع کرتا ہو؟؟
اس حوالہ کو دیکھئے، قرض لینے کی ممانعت ہوتی تو کیا یہ حکم ہوتا:
2:280
اور اگر قرض لینے والا تنگ دست ہو تو (اسے) کشائش (کے حاصل ہونے) تک مہلت (دو) اور اگر (زر قرض) بخش ہی دو توتمہارے لئے زیادہ اچھا ہے بشرطیکہ سمجھو
یا پھر قرض لینا اللہ کے فرمان کی رو سے منع ہوتا تو کیا موت کی صورت میں سب سے پہلے قرض کی ادائیگی کی شرط ہوتی؟
4:12
اور تمہارے لئے اس (مال) کا آدھا حصہ ہے جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو تمہارے لئے ان کے ترکہ سے چوتھائی ہے (یہ بھی) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد، اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لئے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد، اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کی وراثت تقسیم کی جا رہی ہو جس کے نہ ماں باپ ہوں نہ کوئی اولاد اور اس کا (ماں کی طرف سے) ایک بھائی یا ایک بہن ہو (یعنی اخیافی بھائی یا بہن) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہے، پھر اگر وہ بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ تقسیم بھی) اس وصیت کے بعد (ہو گی) جو (وارثوں کو) نقصان پہنچائے بغیر کی گئی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد، یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے، اور اللہ خوب علم و حلم والا ہے
قرض حسنہ اللہ تعالی کو قرض دینے کا نظریہ ہے جو کہ دراصل ٹیکس یعنی زکواۃ و صدقات کی ادائیگی کے متعلق ہے۔
57:18 بیشک صدقہ و خیرات دینے والے مرد اور صدقہ و خیرات دینے والی عورتیں اور جنہوں نے اللہ کو قرضِ حسنہ کے طور پر قرض دیا ان کے لئے (صدقہ و قرضہ کا اجر) کئی گنا بڑھا دیا جائے گا اور اُن کے لئے بڑی عزت والا ثواب ہوگا
اول تو آپ کے پاس کوئی ملک، بطور ماڈل اسلامی ملک موجود نہیں ۔ اور جن ممالک کی مثال اسلامی ممالک کی طرح دی جاتی ہے ان ممالک کے سربراہان آپ کی قرض حسنہ والی تھیوری پر عمل نہیں کرتے ۔ سعودی، کویتی، امارتی، ایرانی اور لیبیا کی ساری دولت بطور قرض امریکی اور یوروپی بینکوں میں رکھی ہوئی ہے جس پر یہ لوگ باقاعدگی سے منافع وصولتے ہیں۔
آپ کا قرض حسنہ کا نظریہ ایسا ہے کہ نا تو یہ صرف قرآن حکیم سے ثابت ہے اور ناہی یہ کسی بڑے میکرو اکنامک نظام کا حصہ ہے۔ اگر آپ پانچ روپے یا دس روپے ادھار دینے والی بات کررہے ہیں تو پھر ٹھیک ہے لیکن اس سے تو ایک روٹی بھی نہیں آتی۔ کیا آپ پاکستان کی گندم کی فصل کو قرض حسنہ کے طور پر سعودیوں کو دینے کے بارے میں سوچ بھی سکتے ہیں؟ پوری قوم بھوکی مر جائے گی؟؟؟؟
بات کرتے ہیں اللہ تعالی کو قرض دینے کی تو کیا آپ کے ٹو پر چڑھ کر اپنے پیسے اچھالتے پھریں گے کہ "اللہ، جو تجھ کو چاہئے رکھ لے"
سر جی اللہ تعالی نے اس دنیا میں انسان کو بھیجا اور ہدایت کے لئے صرف "الکتاب" بھیجی ۔ ہر دور میں یہی الکتاب اور یہی اصول ملے۔ ٹیکس یا زکواۃ یا صدقات، ایک بنیادی حقیقت ہے۔ اس کے اصول صرف اور صرف قرآن حکیم میں ملتے ہیں۔ نا کہ لوگوں کی ذاتی خواہشوں کی پیروی کرنے والی کہانیوں کی کتابوں میں۔ جو قوم صرف قرآن کے اصولوں کے مطابق ٹیکس دے گی وہ ترقی کرے گی۔ زمین پر خلافت کی حقدار ہوگی۔ جو قوم ان کہانیوں کی کتابوں پر ایمان رکھ کر اپنے اصول وضع کرے گی وہ تباہ وہ برباد ہو جائے گی۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کی تباہی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس حکومت نے قرآن حکیم کے اصولوں کی جگہ انسانی ہاتھوں کی کتب کے اصولوں کو اسلامی اصول سمجھا اور تباہ وہ برباد ہوئے۔
9:103
ان کے مالوں میں سے زکواة لے کہ اس سے ان کے ظاہر کو پاک اور ان کے باطن کو صاف کر دے اورانہیں دعا دے بے شک تیری دعا ان کے لیے تسکین ہے اوراللہ سننے والا جاننے والا ہے
18:29 اور کہہ دو کہ (لوگو) یہ قرآن تمہارے پروردگار کی طرف سے برحق ہے تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے۔
ہم نے ظالموں کے لئے دوزخ کی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں ان کو گھیر رہی ہوں گی۔ اور اگر فریاد کریں گے تو ایسے کھولتے ہوئے پانی سے ان کی دادرسی کی جائے گی (جو) پگھلے ہوئے تانبے کی طرح (گرم ہوگا اور جو) مونہوں کو بھون ڈالے گا (ان کے پینے کا) پانی بھی برا اور آرام گاہ بھی بری