السلام علیکم امن، ٹھیک ہوں میں۔ معذرت کی ضرورت نہیں بالکل بھی بلکہ اگر آپ میری رفتار کا ساتھ نہ دے پائیں تو میں اپنی رفتار کم کرنے کو تیار ہوں
آپ کے انتظار میں پہلے ہی بچپن کو آواز دی ہوئی !
اب سوالوں کے جواب
پسندیدہ اشعار ، غزل یا نظم تو بے شمار ہیں ، میں کچھ نہ کچھ یہاں شامل کرتی رہوں گی۔ جیسے
فیض احمد فیض کے
نُسخہ ہائے وفا سے
دلِ مَن مُسافرِمَن
مرے دل ، مرے مُسافر
ہوا پھر سے حُکم صادر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
دیں گلی گلی صدائیں
کریں رُخ نگر نگر کا
کہ سُراغ کوئی پائیں
کسی یارِ نامہ بَر کا
ہر اِک اجنبی سے پوچھیں
جو پتا تھا اپنے گھر کا
سرِ کوئے ناشنایاں ،
ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا
کبھی اُس سے بات کرنا
تُمھیں کیا کہوں کہ کیا ہے
شبِ غم بُری بلا ہے
ہمیں یہ بھی تھا غنیمت
جو کوئی شُمار ہوتا،
ہمیں کیا بُرا تھا مرنا
اگر ایک بار ہوتا !
---×-×-×-×-×----
یا پھر یہ دیکھیں (سلیم کوثر اگر میں یاد کر سکوں !؟)
وہ سارے سَمے جو بیت گئے
کیا ہار گئے ، کیا جیت گئے
جتنے دکھ سکھ کے ریلے تھے
ہم سب نے مل کر جھیلے تھے
اب شاید کچھ بھی یاد نہیں
کبھی وقت ملا تو سوچیں گے
آپس کے پیار گھروندوں کو
گُڑیوں کے کھیل کھلونوں کو
گیتوں سے مہکتی کیاری کو
آنگن کی پھل پُھلواری کو
دھرتی پر امن کی خواہش کو
موسم کی پہلی بارش کو
کن ہاتھوں نے بے حال کیا
کن قدموں سے پامال ہوئے
وہ سارے سَمے جو بیت گئے
مل جُل کر کتنے سال ہوئے
یہ سال ، مہینے ، دن ، گھڑیاں
ہم سب سے آگے نکل گئے
ہم جیون رتھ میں جُڑے ہوئے
کبھی سنبھل گئے ، کبھی پھسل گئے
دامن میں صبر کی مایا ہے
کچھ آس امید کی چھایا ہے
ہر راہ میں کانٹے پڑے ہوئے
ہر موڑ پہ دکھ ہیں کھڑے ہوئے
ہم بڑے ہوئے
اب لوری پاس نہیں رہتی
ہمیں نیند کی آس نہیں رہتی
مری بات سنو
جب ہاں انکار میں لپٹی ہو
تصویر غبار میں لپٹی ہو
کہیں رشتے ٹوٹنے والے ہوں
یا اپنے چھوٹنے والے ہوں
جب ہر جانب دیواریں ہوں
اور پاؤں پڑی دستاریں ہوں
جب سچی بات پہ ہاتھ اُٹھیں
پھر اُٹھنے والے ہاتھ کٹیں
جب جھوٹ سے اصل بدل جائے
انصاف کی شکل بدل جائے
جب امن کی راہ نہ ملتی ہو
اور کہیں پناہ نہ ملتی ہو
کہیں ظلم کی آری چلتی ہو
اور دلوں میں نفرت پلتی ہو
کانٹون سے بھرے جنگل میں اگر
رنگوں کی سواری جلتی ہو
ایسے میں لہُو کی خوشبو سے
مَن پھلواری مہکا دینا
جہاں جیون سُر خاموش ہوں تم
آواز کے دیپ جلا دینا
جب سچ باتوں پر ہاتھ اُٹھیں
تم اپنا ہاتھ اُٹھا دینا !
جب کوئی نئی دیوار گرے
تم آنچل کو لہرا دینا
اور تِیرہ شَبی کے دامن میں
اِک ایسی آگ لگا دینا
جو نئی سحر کی آمد تک
اس دھرتی کی پیشانی سے
تاریکی کو بے دخل کرے
اور اندھیاروں کو قتل کرے
وہ سارے سَمے جو بیت گئے
کیا ہار گئے کیا جیت گئے
جتنے دکھ سکھ کے ریلے تھے
ہم سب نے مل کر جھیلے تھے !!