محمد وارث
لائبریرین
جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں
ج ہا تے رَ نق شے ق دم دے ک تے ہے
خ یا با خ یا با ا رم دے ک تے ہے
غالب نے " تیرا " کا الف گرا کر " ر " پر " زبر " کی اضافت ( اشباع ) کر کے وزن پورا کیا ہے، کیا میری تقطیع درست ہے؟
تیرا میں الف لفظ کے آخر میں ہے جبکہ جو الف میں نے گرائے ہیں وہ الفاظ کے درمیاں میں تھے، شاید یہی میری غلتی ہے ؟
بالکل صحیح ہے، لا جواب، خوشی اس بات کی ہوئی کہ آپ غور کر رہے ہیں، آپ کا یہ پیغام آپ کے ایڈٹ کرنے سے پہلے میں دیکھ چکا تھا لیکن اب آپ نے بالکل صحیح کہا اور اپنی غلطی کی نشاندہی بھی صحیح کی۔ یہ گرانے کا عمل 'اخفا' ہے۔
کیا ہم نہایت ضرورت کے وقت بھی درمیان میں سے لفظ نہیں گرا سکتے ؟
نہیں گرا سکتے، ماسوائے 'اور' کے جو 2 1 ہے لیکن اسے 'ار' بنا کر 2 بنا لیتے ہیں۔
کیا ہم بوقتِ ضرورت واولز کے علاوہ بھی کسی لفظ کو گرا سکتے ہیں ؟
نوٹ کریں کہ اخفا کا عمل کیوں کرتے ہیں، ظاہر ہے وزن پورا کرنے لیکن یاد رہے کہ حروفِ علت کے گرانے سے صوت اور تلفظ پر کوئی فرق نہیں پڑتا یعنی تیرا کا الف گرا بھی دیں بھی تو تیرَ ہوگا جو تیرا ہی پڑھا جائے گا، عروض میں صوت کا بہت عمل دخل ہے۔ یعنی اخفا میں ایک بڑھے حرفِ علت (الف، و، ی) کو چھوٹے حرفِ علت (زیر، زبر، پیش) سے بدل لیتے ہیں۔ اسی طرح اسکا الٹ عمل اشباع ہے۔ اب کسی حرف صحیح consonant کو گرا کر دیکھیں، مثلاً ساگر کی آخری 'ر' گرا دیں، اسکے بعد جو لفظ باقی رہے گا وہ دریا کو کھیت میں بند کر دے گا ، کیا سے کیا ہوگیا، سو غلط ہے بلکہ ناجائز ہے۔
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیںحضرت غالب نے اس غزل کے مقطعہ کے آخری مصرعہ میں اہلِ کو اہلے ( ے ) کی اضافت کیساتھ تقطیع کر کے اشباع سے کام لیا ہے، کیا میں درست ہوں؟
َ
ماشاءاللہ، بہت خوب، مجھے بھی خوشی ہو رہی ہے یہ سب دیکھ کر، بالکل صحیح لکھا آپ نے۔ مشق کیلیئے اب خود ہی اس غزل کے تمام اشعار کی تقطیع کرتے رہیں۔
آپ نے غالب کو حضرت لکھا میرے آنکھوں میں ٹھنڈک اتر آئی۔
اور اب آپ اس قابل بھی ہو گئے ہیں ماشاءاللہ کہ اس بحر میں ایک خوبصورت غزل کہہ سکیں۔