محمد بلال اعظم

لائبریرین
شاعر
جس آگ سے جل اُٹھا ہے جی آج اچانک
پہلے بھی مرے سینے میں بیدار ہوئی تھی
جس کرب کی شدّت سے مری روح ہے بے کل
پہلے بھی مرے ذہن سے دو چار ہُوئی تھی
جس سوچ سے مَیں آج لہُو تھوک رہا ہوں
پہلے بھی مرے حق میں یہ تلوار ہُوئی تھی

وہ غم، غمِ دنیا جسے کہتا ہے زمانہ
وہ غم، مجھے جس غم سے سرو کار نہیں تھا
وہ درد کے ہر دور کے انسان نے جھیلا
وہ درد مرے عشق کا معیار نہیں تھا
وہ زخم کے ہر سینے کا ناسور بنا تھا
وہ زخم مجھے باعثِ آزار نہیں تھا

دنیا نے تڑپ کر مرے شانوں کو جھنجھوڑا
لیکن مرا احساس غمِ ذات میں گُم تھا
آتی رہیں کانوں میں المناک پکاریں
لیکن مرا دل اپنے ہی حالات میں گُم تھا
مَیں وقت سے بیگانہ زمانے سے بہت دُور
جام و مے و مینا و خرابات میں گُم تھا

دربار کی تفریح کا ساماں تھا مرا فن
ہاتھوں میں مرے ظرفِ گدا لب پہ غزل تھی
شاہوں کی ہوا خواہی مرا ذوقِ سخن تھا
ایوانوں کی توصیف و ثنا اوجِ عمل تھی
اور اِس کے عوض لعل و جواہر مجھے ملتے
ورنہ مرا انعام فقط تیغِ اجل تھی

چھیڑے کبھی میں نے لب و رخسار کے قصّے
گاہے گل و بلبل کی حکایت کو نِکھارا
گاہے کسی شہزادے کے افسانے سُنائے
گاہے کیا دنیائے پرستاں کا نظارا
میں کھویا رہا جنّ و ملائک کے جہاں میں
ہر لحظہ اگرچہ مجھے آدم نے پکارا

برسں یُونہی دل جمعئ اورنگ کی خاطر
سَو پھول کھِلائے سَو زخم خریدے
مَیں لکھتا رہا ہجو بغاوت منشوں کی
میں پڑھتا رہا قصر نشینوں کے قصیدے
اُبھرا بھی اگر دل میں کوئی جذبۂِ سر کش
اِس خوف سے چپ تھا کہ کوئی ہونٹ نہ سی دے

لیکن یہ طلسمات بھی تا دیر نہ رہ پائے
آخر مے و مینا و دف و چنگ بھی ٹوٹے
یوں دست و گریباں ہوئے دست و خداوند
نخچیر تو تڑپے قفسِ رنگ بھی ٹوٹے
اِس کشمکشِ ذرّہ و انجم کی فضا میں
کشکول تو کیا افسر و اورنگ بھی ٹوٹے

میں دیکھ رہا تھا کہ مرے یاروں نے بڑھ کر
قاتل کو پُکارا کبھی مقتل میں صدا دی
گاہے رسن و دار کے آغوش میں جھُولے
گاہے حرم و دَیر کی بنیاد ہلا دی
جس آگ سے بھرپور تھا ماحول کا سینہ
وہ آگ مرے لوح و قلم کو بھی پلا دی

اور آج شکستہ ہُوا ہر طوقِ طلائی
اب فن مرا دربار کی جاگیر نہیں ہے
اب میرا ہُنر ہے مرے جمہور کی دولت
اب میرا جنوں خائفِ تعزیر نہیں ہے
اب دل پہ جو گزرے گی وہ بے ٹوک کہوں گا
اب میرے قلم میں کوئی زنجیر نہیں ہے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
رباعیات


لفظوں میں فسانے ڈھونڈتے ہیں ہم لوگ
لمحوں میں زمانے ڈھونڈتے ہیں ہم لوگ
تو زہر ہی دے شراب کہہ کر ساقی
جینے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں ہم لوگ
٭٭٭

اک راہِ طویل اک کڑی ہے یارو
افتاد عجیب آ پڑی ہے یارو
کس سمت چلیں کدھر نہ جائیں آخر
دوراہے پہ زندگی کھڑی ہے یارو
٭٭٭

غنچے کی چٹک سنائی دے گی یارو
ساغر کی کھنک سنائی دے گی یارو
زنداں کا سکوت گونج اُٹھے گا جس سے
ایسی دستک سُنائی دے گی یارو
٭٭٭

پھولوں کی جبیں جھلس گئی ہے یارو
گلزار میں آگ بس گئی ہے یارو
گزرے ہیں کہاں سے رنگ و بو کے طوفاں
شبنم کو فضا ترس گئی ہے یارو
٭٭٭

اُڑتے پنچھی شکار کرنے والو
گلزار میں گیر و دار کرنے والو
کتنی کلیاں مَسل کے رکھ دیں تم نے
تزئینِ گل و بہار کرنے والو
٭٭٭

یہ دَورِ مے و جام چلے یا نہ چلے
نشے سے پھر بھی کام چلے یا نہ چلے
ہم اہلِ خرابات سے یوں بَیر نہ رکھ
ساقی کل ترا نام چلے یا نہ چلے
٭٭٭

یہ پھیلی ہوئی رات ڈھلے یا نہ ڈھلے
یہ یورشِ حالات ٹلے یا نہ ٹلے
روشن کر چراغِ دیر و کعبہ
پھر شمعِ خرابات جلے یا نہ جلے
٭٭٭

خوابوں میں خیال کھو رہے ہوں جیسے
نشے میں زمانے سو رہے ہوں جیسے
سینے سے ڈھلک گیا ہے کس کا آنچل
خورشید طلوع ہو رہے ہوں جیسے
٭٭٭

ساغر میں ستارے گھل رہے ہوں جیسے
کرنوں کے دریچے کھُل رہے ہوں جیسے
مستی میں وہ اُٹھتی ہوئی نظریں توبہ
پلکوں پہ زمانے تُل رہے ہوں جیسے
٭٭٭

ہر غم کو دلآویز کیے دیتا ہوں
احساس کی لو تیز کیے دیتا ہوں
تو زلف کو کچھ اور پریشاں کر دے
میں جام کو لبریز کیے دیتا ہوں
٭٭٭

دل گرمئ احساس سے پھُک جائیں گے
قدموں میں ترے زمانے جھک جائیں گے
اے حسن فقط جنبشِ ابرو کی ہے دیر
دنیا کے کاروبار رُک جائیں گے
٭٭٭

ظلمات کو موجِ نور کیسے سمجھیں
پھر برق کو طور کیسے سمجھیں
مانا کہ یہی مصلحت اندیشی ہے
ہم لوگ مگر حضور کیسے سمجھیں
٭٭٭

آشوب گہہِ دہر کے سوداگر ہیں
مغرب کے کسی شہر کے سوداگر ہیں
تم آبِ حیات مانگتے ہو ان سے
جو لوگ فقط زہر کے سوداگر ہیں
٭٭٭

یا اپنے رفیقانِ سفر سے کٹ جاؤ
یا سیلِ حوادث کے مقابل ڈٹ جاؤ
رستے کا غبار کیوں بنے ہو چھٹ جاؤ
جب بڑھ نہیں سکتے تو پرے ہٹ جاؤ
٭٭٭

ہر زخم کو سینے پہ سجا لیتے ہیں
ہر درد کو ہم دل میں بسا لیتے ہیں
تم پھولوں پہ سوتے ہو تو دکھتا ہے بدن
ہم کانٹوں کو آنکھوں سے لگا لیستے ہیں
٭٭٭

مذہب کو مدام بیچتے ہیں یہ لوگ
ایمان تو عام بیچتے ہیں یہ لوگ
جنت کے اجارہ دار بن کر شب و روز
اللہ کا نام بیچتے ہیں یہ لوگ
٭٭٭

تھک جائیں گے راہگیر چلتے چلتے
ڈھل جائیں گے ماحول میں ڈھلتے ڈھلتے
تاریکئ شب میں نہ کمی آئے گی
بجھ جائیں گے یہ چراغ جلتے جلتے
٭٭٭

روتا ہوں تو احباب بُرا مانتے ہیں
ہنستا ہوں تو مجرم مجھے گردانتے ہیں
ہر حال میں اعتراض کرنے والے
ناداں مرے حالات کہاں جانتے ہیں
٭٭٭

زہرابِ حیات چکھ رہا ہوں دیکھو
کانٹوں پہ زبان رکھ رہا ہوں دیکھو
واقف ہوں طبیعتوں سے ان کی پھر بھی
احباب کے دل پرکھ رہا ہوں دیکھو
٭٭٭

حالات کی دوپہر کڑی ہے ساقی
تقدیر برہنہ سر کھڑی ہے ساقی
کچھ دیر غمِ جہاں پہ ہنس لیں آؤ
رونے کو تو زندگی پڑی ہے ساقی
٭٭٭

دنیا تو ہے کانٹوں کا بچھونا پیارے
تم ہم سے کبھی جدا نہ ہونا پیارے
آؤ مل کر دکھ کے لمحے کاٹیں
اک جشن ہے ساتھ ساتھ رونا پیارے
٭٭٭

بڑھ جاتا ہے دل کا روگ گاہے گاہے
کر لیتے ہیں اپنا سوگ گاہے گاہے
جو یاد دلا دیتے ہیں بھولے صدمے
مل جاتے ہیں ایسے لوگ گاہے گاہے
٭٭٭

ہر بحرِ ستم کو پاٹ لینے والا
ہر زہرِ الم کو چاٹ لینے والا
ذرّے سے پناہ ڈھونڈتا پھرتا ہے
انساں پہاڑ کاٹ لینے والا
٭٭٭

آشوبِ گہہِ حیات لے ڈوبیں گے
دنیا کو بھی اپنے ساتھ لے ڈوبیں گے
ہم لوگ عبارت ہیں زمانے جن سے
ڈوبیں گے تو کائنات لے ڈوبیں گے
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کھنڈر
عبث کیوں اُلٹتے پلٹتے ہو جھوٹی روایات کی عظمتوں کے کھنڈر
یہاں کچھ نہیں ہے
یہاں تم نہ پاؤ گے کوئی خزانہ
نہ شداد کی جنتِ گمشدہ کا کوئی لعل و در سے جڑا آستانہ
نہ فرعون کا کوئی خفیہ خزانہ
نہ قاروں کا کوئی دفینہ
نہ جممشید کے جام و مینا
نہ نمرود کے باغِ آغوش کی چہچہاتی ہوئی کوئی الّھڑ حسینہ
یہاں کچھ نہ ڈھونڈو
یہاں کچھ نہیں ہے
یہاں خشک و ویران خِطّوں میں
مدّت سے خانہ برانداز عفریت چاروں طرف خیمہ زن ہے
یہاں سالہا سال سے قرن ہا قرن سے
وحشت انگیز اوہام سایہ فگن ہیں
یہاں بے شمار اُلّوؤں کے بسیرے ہیں چمگادڑوں کے ٹھکانے ہیں اور
گیدڑوں نے کئی غار کھودے ہوئے ہیں
جو دن کے دھند لکوں میں شب کی سیاہی میں آسیب صورت
کبھی ایک ایک اور کبھی سب کے سب مل کے یوں چیختے ہیں
کہ جیسے بنی نوع انساں کی تخریب پر نوحہ گر ہوں
یہاں کوئی تپتی پوئی دوپہر ہو کہ سرما کی تاریک و مفلوج شب ہو
کبھی کوئی ابرِ خراماں نہ برسا نہ چھایا
یہاں کوئی شعلہ نہ بھڑکا نہ کوئی چراغِ سحر ٹمٹمایا
کہ جیسے ہمیشہ پر افشاں رہا ہو یہاں اجنبیت کا گھمبیر سایہ
کہ اس سر زمیں کی فضا میں خلا میں کبھی بھی کوئی بھی تغیر نہ آیا
مگر یہ کھنڈر
روزِ اوّل سے ہی
پتّھروں اور اینٹوں کے انبار ہائے پریشاں نہیں تھے
فقط ادھ کٹے بُت شکستہ ستوں ٹوٹے پھوٹے ظروف
اور جھکے بام و در یونہی سردر گریباں نہیں تھے
یہاں صرف ویرانیوں کے مناظر ہی تاریخِ ماضی کے عنواں نہیں تھے
یہ وہ سر زمیں ہے
کہ جس پر زمرّد کے یاقوت کے تخت جلوہ فگن تھے
یہاں سنگِ سرخ اور مر مر کے بے مثل و نادر محلّات
گلکاریوں سے مرصع تھے معراجِ فن تھے
یہاں بے بہا اور نایاب قالین فرشِ رہِ کاخِ فرمانروائے زمن تھے
یہاں ریشم و اطلس و پرنیاں اور دیبا و زربفت و سنجاب و کمخواب
کے بے نظیر اور عریاں ذخیرے شکن در شکن تھے
یہاں لہلہاتے ہوئے گلستاں رشکِ باغِ عدن تھے
یہاں سونے چاندی کے ڈھیروں میں لعل و جواہر میں
تلتی کنیزوں کے گلرنگ چہرے فضا تاب سینے سنہرے بدن تھے
اور ان کی حفاظ کی چوبی صلیبیں تھیں زندانِ آہن تھے دار و رسن تھے
یہاں کاس و قیتار کی گرم تانوں سے جام و سبو کے فسانوں سے
عیش و نشاط و مسرّت کے جشنِ چراغاں منائے گئے ہیں
یہاں خوش گلو اپسراؤں کے ہر تارِ گیسو سے تزئینِ بربط روا تھی
یہاں زندگی صرف زخمِ نوا تھی!!
یہاں اب ادب با سلیقہ غلاموں نے سجدے کئے اور ثبوتِ وفا کے لئے
گردنیں تک کٹا دیں
مگر رحم دل اور کشادہ دل آقاؤں کی عدل و انصاف سے
جگمگاتی جبینوں پہ کوئی شکن تک نہ آئی
بہ ایں حال بھی مطمئن تھی خدائی
مگر وقت کی پے بہ پے کروٹوں نے کئی گل کھلائے
کبھی تو ہلاکو و چنگیز و تیمور نے بربریت کے پرچم اُٹھائے
کبھی تورماں اور نادر کی جرار فوجوں نے یلغار کی شہر لوٹے جلائے
تباہی کے دف صورِ محشر کی صورت ہر اک سمت بھونچال لائے
بگولوں کے دامن میں امن و سکوں کے درخشندہ فانوس جلنے نہ پائے
اور اپنی روایات کے تلخ و تیرہ دھوئیں چھوڑ کر بجھ گئے مٹ گئے ہیں
یہ کہنہ روایات جن کی گھنی ظلمتوں میں نہ جادہ نہ منزل
غبارِ رواں کی طرح چھا رہی ہیں
دلوں کو دماغوں کو نظروں کو بھٹکا رہی ہیں
اور ان کی جلو میں نہ لیلا نہ محمل
نہ جذبِ تجسّس کا حاصل
یہاں کچھ نہیں کچھ نہیں ہے
فقط کچھ کھنڈر ابنِ آدم کی تاریخ پہ منفعل ہیں
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بھول
افق پر دھندلکے، شفق میں الاؤ گھٹاؤں میں شعلے، چمن میں ببول
بہاروں پہ صرصر کے گھمبیر سائے
نظاروں کے دامن میں نکہت بسائے
دلوں پر اُداسی، دماغوں میں الجھن، خیالوں میں تلخی، نگاہیں ملول
ہر اک سمت ویرانیوں کا نزول
جلاتا رہا میں اندھیروں میں شمعیں، کھلاتا رہا خار زاروں میں پھول
شعاعوں سے تاریکیوں کو اُجالے
خرابوں پہ تعمیر کا عکس ڈالے
بڑے زخم کھا کر مگر مسکرا کر کیے زندگی نے حوادث قبول
اڑاتی پھری دشت و صحرا کی دھول
وہی وقت کی سست رفتار گردش وہی موت کی رہگزاروں کا طول
وہی چار سو دہکے دہکے الاؤ
وہی گلستاں میں خزاں کا رچاؤ
وہی چاند تاروں پہ کہنہ دھند لکے وہی ظلمتوں کا پرانا اصول
مگر کون سمجھے یہ کس کی تھی بھول؟
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
فرار
کئی ایاغ دل میں آنسوؤں کے بیج بو گئے
شرابِ لالہ گوں کے عکس عکس میں
جہانِ رنگ و بو لیے
فریبِ آرزو دیے
گھنیری آندھیوں کے رقص رقص میں
کئی چراغ ظلمتوں کی وادیوں میں کھو گئے

بچھے رہے سراب گام گام پر
جمالِ ضو فشاں لیے
مآلِ خونچکاں لیے
حیات کے ہر اک نئے مقام پر
ہزاروں داغ مسکرا دیے چراغ ہو گئے

مگر چلے ہو کس کی جستجو میں تم
وفا کی روشنی لیے
ہر ایک چاک دل سیئے
تصوّرِ حصولِ آرزو میں تم
کئی دماغ موت کی کمیں گہوں میں سو گئے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
احتساب
سوچ مفلوج ہے حالات کے زندانوں میں
عقل پر تلخ حوادث کے گراں تالے ہیں
آگہی سرود خموش
منجمد شعلۂ ہوش
ذہن پر بھولے فسانوں کے گھنے جالے ہیں
کوئی آہٹ بھی نہیں دل کے سیہ خانوں میں
قہقہے وقت کے خوشرنگ شبستانوں میں
کتنی دلدوز و غمیں آہوں کے رکھوالے ہیں
آرزو جامِ طرب
آبرو زہر بلب
کتنے ہی ناگ خزانوں نے یہاں پالے ہیں
کتنے پیکر ہیں جو ڈھل جاتے ہیں ایوانوں میں
زندگی رینگتی ہے موت کے ویرانوں میں
انقلابات نے انداز بدل ڈالے ہیں
رات دن شام و سحر
کس کو جرات ہو مگر
ناگ خود ہی تو خزانوں نے یہاں پالے ہیں
آگ پھولوں نے بکھیری ہے گلستانوں میں
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
آگ
مفلسو! اپنے مقدّر کی شکایت نہ کرو
اِس سے انسان کے ایمان میں فرق آتا ہے
ہم تو ناچیز سے بندے ہیں ہمیں کیا معلوم
کونسی بات میں کیا مصلحتِ یزداں ہے
کتنے گمراہ و گنہگار ہوئے جاتے ہو

کیا کہا؟ "خانماں برباد ہوئے جاتے ہیں
دمبدم آگ کے بے رحم لپکتے شعلے
اپنے بوسیدہ مکاں راکھ کیے دیتے ہیں
خاک ہی خاک ہوئی جاتی ہے دنیا اپنی
اور اس آتش و ظلمات کے سیلاب میں ابھی
اسی پندار اسی شان سے استادہ ہیں
کیا خدا صرف غریبوں پہ ستم ڈھاتا ہے"

ٹھیک کہتے ہیں مگر خام عقائد والو
ہم تو تقدیر کے بندے ہیں ہمیں کیا معلوم
کونسی بات میں کیا مصلحتِ یزداں ہے
اور پھر اپنی شکایت سے بھی کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بانو کے نام

ملوکیت کے محل کی گنہگار کنیز
وہ جُرم کیا تھا کہ تجھ کو سزائے مرگ ملی
وہ راز کیا تھا کہ تعزیرِ ناروا کے خلاف
تری نگاہ نہ بھڑکی تری زباں نہ ہلی
وہ کون سا تھا گناہِ عظیم جس کے سبب
ہر ایک جبر کو تُو سہہ گئی بطیبِ دلی

یہی سُنا ہے بس اتنا قصور تھا تیرا
کہ تُو نے قصر کے کچھ تلخ بھید جانے
تری نظر نے وہ خلوت کدوں کے داغ گنے
جو خواجگی نے زر و سیم میں چھپانے تھے
تجھے یہ علم نہیں تھا کہ اِس خطا کی سزا
ہزار طوق و سلاسل تھے تازیانے تھے

یہ رسم تازہ نہیں ہے اگر تری لغزش
مزاجِ قصر نشیناں کو ناگوار ہوئی
ہمیشہ اُونچے محلّات کے بھرم کے لئے
ہر ایک دَور میں تزئینِ طوق و دار ہوئی
کبھی چُنی گئی دیوار میں انار کلی
کبھی شکنتلا پتھراؤ کا شکار ہوئی

مگر یہ تخت یہ سلطاں یہ بیگمات یہ قصر
مؤرخین کی نظروں میں بے گناہ رہے
بفیضِ وقت اگر کوئی راز کھُل بھی گیا
زمانے والے طرفدارِ کجکلاہ رہے
ستم کی آگ میں جلتے رہے عوام مگر
جہاں پناہ ہمیشہ جہاں پناہ رہے

1؎ وہ کم سن کنیز جسے بیگم جونا گڑھ نے قتل کروایا
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
مجسمہ

اے سیہ فام حسینہ ترا عریاں پیکر
کتنی پتھرائی ہوئی آنکھوں میں غلطیدہ ہے
جانے کس دورِ المناک سے لے کر اب تک
تو کڑے وقت کے زندانوں میں خوابیدہ ہے

تیرے شب رنگ ہیولے کے یہ بے جان نقوش
جیسے مربوط خیالات کے تانے بانے
یہ تری سانولی رنگت یہ پریشان خطوط
بارہا جیسے مٹایا ہو اِنہیں دنیا نے

ریشۂ سنگ سے کھینچی ہوئی زلفیں جیسے
راستے سینۂ کہسار پہ بل کھاتے ہیں
ابروؤں کی جھکی محرابوں میں جامد پلکیں
جس طرح تیر کمانوں میں اُلجھ جاتے ہیں

منجمد ہونٹوں پہ سنّاٹوں کا سنگین طلسم
جیسے نایاب خزانوں پہ کڑے پہرے ہوں
تند جذبات سے بھرپور برہنہ سینہ
جیسے سستانے کو طوفان ذرا ٹھہرے ہوں

جیسے یونان کے مغرور خداوندوں نے
ریگزارانِ حبش کی کسی شہزادی کو
تشنہ روحوں کے ہوسناک تعّیش کے لئے
حجلۂ سنگ میں پابند بنا رکھا ہو
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
مسیحا

میری افسردگی سے پریشاں نہ ہو
تو مری تلخیوں کا سبب تو نہیں
تیری آنکھیں تو میری ہی دمساز ہیں
تھیں کبھی اجنبی لیکن اب تو نہیں
تجھ کو میری مسرّت مقدّم سہی
تیرا غم مجھ کو وجہِ طرب تو نہیں

تیرا احسان ہے تُو نے میرے لئے
اپنی پلکوں سے راہوں کے کانٹے چُنے
خود کڑی دھُوپ میں رہ کے میرے لئے
تُو نے زلفوں کے شاداب سائے بُنے
میری خاطر زمانے کو پاگل کہا

میری خاطر زمانے کے طعنے سُنے
تُو مری زندگی ہے مگر جانِ من!
میرے دل میں کئی گھاؤ ایسے بھی ہیں
جن کا درماں تری دسترس میں نہیں
ایک غم جس کی شدّت ہمہ گیر ہے
تیرے بس میں نہیں میرے بس میں نہیں
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
تشنگی

دیکھو پگھلا پگھلا سونا بہہ نِکلا کہساروں سے
دیکھو نازک نازک کرنیں ٹوٹ رہی ٹیلوں پر
دیکھو بھینی بھینی خوشبو آتی ہے گلزاروں سے
دیکھو نیلے نیلے بادل جھُول رہے جھیلوں پر
تم بھی سُندر سُندر سپنوں کی لہروں پر بہہ جاؤ
اور ذرا کچھ لمحے ٹھہرو اور ذرا رہ جاؤ

سُلگا سُلگا موسم ہے شعلوں کی دہکتی حِدّت سے
چڑھتے سورج کے سائے میں ساری دنیا جلتی ہے
دہک دہک اُٹھی ہیں سڑکیں تپتی دھوپ کی شدّت سے
ابھی نہ جاؤ دیکھو کتنی تیزی سے لُو چلتی ہے
اِس کو بھی اِک جبرِ مشیّت سمجھو اور سہہ جاؤ
اور ذرا کچھ لمحے ٹھہرو اور ذرا رہ جاؤ

دیکھو چار طرف ٹھنڈے ٹھنڈے سائے لہراتے ہیں
تارے نکھرے موتی بکھرے شام کا جادو قائم ہے
خنک خنک پھولوں کے جھونکے خوشبوئیں برساتے ہیں
ٹھیک ہے تم کو جانا ہے پر ایسا بھی کیا لازم ہے
ٹھہرو کچھ باتیں ہم سے سُن لو کچھ تم کہہ جاؤ
اور ذرا کچھ لمحے ٹھہرو اور ذرا رہ جاؤ
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اَبیٹ آباد

ابھی تلک ہے نظر میں وہ شہرِ سبزہ و گل
جہاں گھٹائیں سرِ رہگزار جھُومتی ہیں
جہاں ستارے اُترتے ہیں جگنوؤں کی طرح
جہاں پہاڑوں کی قوسیں فلک کو چُومتی ہیں
تمام رات جہاں چاندنی کی خوشبوئیں
چنار و سرو کی پرچھائیوں میں گھومتی ہیں

ابھی تلک ہیں نظر کے نگار خانے میں
وہ برگِ گل سے تراشے ہوئے بہشت سے جسم
وہ بولتے ہوئے افسانے الف لیلیٰ کے
وہ رنگ و نور کے پیکر وہ زندگی کے طلسم
اور ایسی کتنی ہی رعنائیاں کہ جن کے لئے
خیال و فکر کی دنیا میں کوئی نام نہ اِسم

ابھی تلک ہیں تصوّر میں وہ در و دیوار
بسیط دامنِ کہسار میں چناروں تلے
جہاں کسی کی جواں زلف بارہا بِکھری
جہاں دھڑکتے ہوئے دل محبتوں میں ڈھلے
عجیب تھی وہ جھروکوں کی نیم تاریکی
جہاں نظر سے نظر جب ملی چراغ جلے

میں لوٹ آیا ہوں اُس شہرِ سبزہ و گل سے
مگر حیات اُنہیں ساعتوں پہ مرتی ہے
مجھے یقیں ہے گھنے بادلوں کے سائے میں
وہ زلف اب بھی مری یاد میں بِکھرتی ہے
چراغ بُجھ بھی چکے ہیں مگر پسِ چلمن
وہ آنکھ اب بھی مرا انتظار کرتی ہے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
طلسمِ ہو شربا

ابھی اک پھول کے دامن سے کوئی بھنور اُڑا
اور اُڑتے ہی اُجالے میں کہیں ڈوب گیا
ابھی اک شاخ کے سائے سے سرکتا ہوا سانپ
پاس بہتے ہوئے نالے میں کہیں ڈوب گیا

گنگناتے ہوئے نالے کا سنہرا پانی
دیکھتے دیکھتے اک جھیل بنا نہر بنا
یوں اُبھر آئے کناروں پہ دمکتے ایواں
ایک اُجڑے ہوئے خطے میں نیا شہر بنا

یہ فصیلوں میں گھرا راج محل کس کا ہے
یہ پُر اسرار در و بام انوکھے فانوس
بربط و چنگ و خم و جام لیے دست بدست
منتظر کس کا ہے یہ زہرہ جبینوں کا جلوس

میں شہنشاہِ زمن ہوں کسے معلوم نہیں
ہر طرف موجبِ تعمیل ہیں فرمان مرے
میرے ادنیٰ سے اشارے پہ ہیں سب رقص کناں
یہ سپاہی، یہ حسینائیں، یہ دربان مرے

کوئی ہے! کون؟ زرینہ نظر افروز کنیز
جیسے مینائے مئے ناب دھری ہو کوئی
یہ پریشان سی زلفیں یہ برہنہ سینہ
جس طرح قاف کی آوارہ پری ہو کوئی

خادمہ! آج سے اس قصر کی تو ملکہ ہے
آ مجھے اپنی گرہ گیر لٹوں میں کَس لے
آ مرے جسم سے اک سانپ کی مانند لپٹ
اور تڑپ کر مرے بیتاب لبوں کو ڈس لے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
خریدار

دلِ بے تاب کی موہوم سی تسکیں کے لئے
اِک نظر دیکھنے آیا تھا تجھے دیکھ لیا
آج کی رات بھی تُو اپنے دریچے کی طرف
حسبِ معمول نئی شان سے اِستادہ ہے
"تَیرتے ہیں تری آنکھوں میں اشارے کیا کیا"
دیدنی ہے ترے جلووں کی نمائش لیکن
اب یہ عالم ہے کہ احساسِ تہی دستی سے
تیرے زینے کی طرف تیرے دریچے کی طرف
پاؤں تو کیا مری نظریں بھی نہیں اُٹھ سکتیں!
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
خیر مقدم

قصیدہ نویسوں نے مل کر یہ سوچا
کہ پھر آج وہ ساعتِ جانستاں آ گئی ہے
جب اُن سے کوئی اُن کا آقا جُدا ہو رہا ہے
وہ آقا؟
کہ جس کی مسلسل کرم گستری سے
کوئی خادمِ خاص ہو یا کہ ادنیٰ ملازم
کسی کے لبوں پر کبھی کوئی حرفِ شکایت نہ آیا
وہ آقا کہ جس کی کشادہ دلی نے خزانے لٹائے
وہ آقا کہ جس کی سخاوت نے سب کے دلوں اور دماغوں
سے حاتم کے مفروضہ قصّے بھلائے
اگرچہ وہ نوشیرواں کی طرح شہر میں کو بُکو
بھیس بدلے نہیں گھومتا تھا
مگر پھر بھی ہر سمت امن و اماں تھا
اگرچہ جہانگیر کی طرح اُس نے
کوئی ایسی زنجیرِ زر قصرِ شاہی کے باہر نہ لٹکائی تھی
جس کی ہلکی سی جنبش بھی انصافِ شاہی میں طوفاں اُٹھاتی
مگر پھر بھی ہر گھر میں عدل و مساوات کا سائباں تھا
اگرچہ کبھی وہ جھروکے میں بیٹھے
رعایا کو رُوئے مبارک کے درشن سے مجبورِ سجدہ نہ کرتا
مگر پھر بھی ہر دل پہ وہ حکمراں تھا
وہ جانِ جہاں تھا بڑا مہرباں تھا
قصیدہ نویسوں نے سوچا
کہ آخر وہ لمحات بھی آ گئے ہیں
جب اُن سے بچھڑنے کو ہے اُن کا دیرینہ آقا
تو وہ آج اُسے کون سا ایسا نایاب تحفہ کریں پیش جس سے
رہیں تا ابد یاد آقائے عالی کو
اپنے وفادار پاپوش بردار خادم
قصیدہ نویسوں نے سوچا
کہ وہ یوں تو عہدے میں ہیں
قصرِ شاہی کے جارُوب کش سے بھی کہتر
مگر عالمِ کلک و قرطاس کے بادشہ ہیں
وہ چاہیں تو اپنے قلم کے اشارے سے
ذرّوں کو ہم رُتبۂ مہر و مہتاب کریں
وہ چاہیں تو اپنے تخیل کے جادو سے
صحراؤں کے خشک سینوں کو پھولوں سے بھر دیں
وہ چاہیں تو اپنے کمالِ بیاں سے
فقیروں کو اورنگ و افسر کا مالک بنا دیں
وہ چاہیں تو اپنے فسونِ زباں سے
محلاّت کے بام و دیوار ڈھا دیں
وہ چاہیں تو یکسر نظامِ زمانہ بدل دیں
کہ وہ عالمِ کلک و قرطاس کے بادشہ ہیں
یہی ہے وہ ساعت کہ وہ اپنے
محبوب آقا کی تعریف و توصیف میں
آسمان و زمیں کو ملائیں!
کہ وہ اپنی اپنی طبیعت کے جوہر دکھائیں
کہ وہ اپنے آقا سے بس آخری مرتبہ داد پائیں
مگر پھر قصیدہ نویسوں نے سوچا
کہ وہ تو ہیں عہدے میں ایوانِ شاہی
کے جاروب کش سے بھی کہتر
انہیں کیا کوئی آئے یا کوئی جائے
کہ اُن کا فریضہ تو ہے صرف
آقائے حاضر کی خدمت گزاری
کہ ان کا فریضہ فقط تاج اور تخت کی ہے پرستش
تو پھر مصلحت ہے اِسی میں
کہ اپنے قصیدوں سے آقائے نو کا کریں خیر مقدم!
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اے بھوکی مخلوق
(14 اگست 1954ء)

آج تری آزادی کی ہے ساتویں سالگرہ
چار طرف جگمگ جگمگ کرتی ہے شہر پنہ
پھر بھی تیری رُوح بُجھی ہے اور تقدیر سیہ
پھر بھی ہیں پاؤں میں زنجیریں ہاتھوں میں کشکول
کل بھی تجھ کو حکم تھا آزادی بول نہ بول
آج بھی تیرے سینے پر ہے غیروں کی بندوق
اے بھوکی مخلوق
بیس نہ سَو نہ ہزار نہ لاکھ ہیں پورے آٹھ کروڑ
اتنے انسانوں پر لیکن چند افراد کا زور
مزدور اور کسان کے حق پر جھپٹیں کالے چور
کھیت تو سونا اُگلیں پھر بھی ہے ناپید اناج
تیرے دیس میں سب کچھ اور تُو غیروں کی محتاج
گوداموں کے پیٹ بھرے ہیں بوجھل ہیں صندوق
اے بھوکی مخلوق
آج گرفتہ دل تُو کیوں ہے تو بھی جشن منا
آنسو گر نایاب ہیں اپنے لہو کے دیے جلا
پیٹ پہ پتھر باندھ کے اِمشب ننگا ناچ دکھا
آج تو ہنسی خوشی کا دن ہے آج یہ کیسا سوگ
تیری بہاریں دیکھنے آئیں دُور دُور کے لوگ
تیرے خزانے پل پل لُوٹیں کتنے ہی فاروق
اے بھوکی مخلوق
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
چند نادان چند دیوانے

رات کی جانگداز ظلمت میں
عزم کی مشعلیں جلائے ہُوئے
دل میں لے کر بغاوتوں کے شرار
وحشتوں کے مہیب سائے میں
سر بکف، جاں بلب، نگاہ بہ قصر
سرخ و خونیں علم اٹھائے ہُوئے
بڑھ رہے ہیں جنوں کے عالم میں
چند نادان، چند دیوانے

قصرِ شاہی کے اے نگہبانو!
تلخ لمحوں سے ہوشیار رہو
اپنے پہروں پہ جم کے ڈٹ جاؤ
اپنے آقاؤں کی بقا کے لئے
فرض کے تند و تیز دھارے پر
تم وفادار ہو تو کٹ جاؤ

اس سے پہلے کہ مہرباں آقا
تند شعلوں کی زد میں آ جائیں
اس سے پہلے کہ قصر جل اٹھے
خاک پر لوٹتے نظر آئیں
چند نادان، چند دیوانے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
لختئ

اَدھ کٹے بالوں پہ افشاں کے ستارے لرزاں
کھردرے گالوں پہ غازے کی تہیں ہانپتی ہیں
سرد و بے جان سے چہرے پہ تھرکتی آنکھیں
جیسے مرگھٹ میں چراغوں کی لَویں کانپتی ہیں

ٹوٹتے جسم میں لہرانے کی ناکام اُمنگ
کسی سُوکھی ہوئی ٹہنی کا جھکاؤ جیسے
لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کی گراں رفتاری
خشک ہوتی ہوئی ندّی کا بہاؤ جیسے

رقص کرتی ہوئی پشواز پہ باہوں کی اُڑان
بادباں جس طرح گرداب میں چکراتے ہیں
یا کسی جھیل میں کنکر کے گرا دینے سے
چند لمحوں کے لئے دائرے بن جاتے ہیں

گرد آلود سے ماتھے پہ پسینے کی نمی
ریگزاروں سے عرق پھُوٹ رہا ہو جیسے
جھنجھناتے ہوئے ہر گام پہ پیلے گھنگرو
دُور اک شیش محل ٹوٹ رہا ہو جیسے

زندگی بال فشاں، خاک بہ رُخ، نالہ بلب
منجمد، ساکن و حیران ہیولے کی طرح
چند تانبے کے تراشے ہوئے سکّوں کی طرح
ڈھول کی تھاپ پہ رقصاں ہے بگولے کی طرح

1؎ سرحد کے وہ رقّاص لڑکے جو بیاہ شادیوں اور خوشی کی تقریبات کے موقعوں پر عورتوں کا روپ بنا کر ناچتے ہیں
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ایک منظر

دُور کچھ ماتمی نعروں سے فضا گونج اُٹھی
چند مجذوب سے لوگوں کا الم کیش گروہ
(کچھ سیہ پوش تماشائی بہ اندازِ جلوس)
چادرِ گُل سے سجائے ہوئے اعلام لیے!
دمبدم نیند میں ڈوبے ہوئے کوچوں کی طرف
چیختا پیٹتا بڑھتا ہی چلا جاتا ہے

یک بیک کھلنے لگے بند دریچوں کے کِواڑ
چلمنیں کانپتی باہوں کے سہارے اُٹھیں
جیسے دم توڑتے بیمار کی بوجھل پلکیں
اور کئی مضطر و بے تاب دمکتے چہرے
ایک دلچسپ و الم ناک تماشے کے لئے
تنگ و تاریک جھروکوں کے گھنے پردوں سے
نُور کے چشموں کی مانند اُبل آئے ہیں
٭٭٭​
 
Top