منصُور
وہ کیا خطا تھی؟
کہ جس کی پاداش میں ابھی تک
میں قرن ہا قرن سے شکارِ عبودیت
طوق در گلو۔۔۔پا بہ گِل رہا ہوں
وہ جرم کیا تھا؟
کہ زندگی بھر تو میں
ترے آستاں پہ سجدوں کی نذر گزرانتا رہا ہوں
اور اس کا ثمرہ ملے
تو بس کاسۂ گدائی۔ عذابِ عالم
تو کیا مری بے طلب ریاضت۔۔۔ مجاہدت کا یہی صلہ ہے
مجھے گلہ ہے
خدائے تنّور و آبِ سادہ مجھے گلہ ہے
مجھے تری بندگی کے صدقے میں کیا مِلا ہے؟
کہاں ہے وہ ترا دستِ فیّاض
جس کے جُود و سخا کے قصّے
سنہرے حرفوں میں ہر صحیفے کے
حاشیے بن کے رہ گئے ہیں
کہاں ہیں وہ تری جنّتیں جن کی داستانیں
بڑے تکلّف سے عرش سے فرش پر اُتاریں
کہاں ہیں وہ تیرے شیر و شہد شکر کے بے انتہا ذخیرے
کہ جن کی کاذب جھلک سے تُو نے
گرسنہ مخلوق کو ازل سے غلام رکھا
کہاں ہیں اُن واہمی کھلونوں کے
اُونچے بازار کس طرف ہیں
میں اِن روایات کی حقیقت سے با خبر ہوں
یہ سب وہ رنگین دام تھے جن کے بل پہ تُو نے
زمیں پہ بغض و عناد و ظلم و فساد و حرص و ہوس کے ایسے دُھوئیں اُڑائے
کہ نسلِ آدم کروڑ فرقوں میں بٹ گئی ہے
یہ وحدہٗ لاشکر یک دُنیا ہزار خطّوں میں کٹ گئی ہے
اگرچہ روزِ الست سے لے کے اب تلک
بے شمار صدیوں کے فاصلے ہیں
مگر یہ تاریخ کی کہن سالہ راہبہ، جو
ترے کلیساؤں بتکدوں اور حرم سراؤں کے مجرمانہ
رموز سے آشنا رہی ہے
ہر اک خرابے کی خاک اُڑانے کے بعد آئی
تو کہہ رہی ہے
"سنو نشیبوں کے باسیو!
یہ جہاں تمہارا ہے
یہ زمیں یہ فلک یہ خورشید و ماہ و انجم فقط تمہارے ہیں
دوسرا ماسوا تمہارے کوئی نہیں ہے
خدا و بندہ کی تلخ تفریق بے حقیقت ہے بے سبب ہے
الوہیت کا وجود تم میں سے ہی کسی خود فریب انساں کا واہمہ تھا
یہ واہمہ اِس قدر بڑھا پھر
کہ رفتہ رفتہ تمام کونین کا خداوند بن گیا ہے
اور اس خداوند
اس تصوّر کے آسرے پر
تمہارے کچھ ہم نفس رفیقوں نے
تم کو محکوم و پا بہ زنجیر کر دیا ہے
یہی وہ پہلا گناہ پہلا فریب پہلا فسوں ہے جس نے
مزاجِ انساں کو غاصبانہ شعور بخشا"
اگر یہ سچ ہے!
اگر یہ سچ ہے خدائے تنّور و آبِ سادہ
تو یہ من و تو کی پست و بالا فصیل مسمار کیوں نہ کر دوں
کہ اِن مراتب کی کشمکش سے ہی
آج میں اور میرے ہم جنس
اِس طرح ایک دوسرے کے غنیم ہیں
جس طرح زمستاں کی برفباری کے بعد گرگانِ گرسنہ
بھوک کی شقاوت سے تنگ آ کر
اُس ایک لمحے کے منتظر ہوں
جب ان کا کوئی نحیف ساتھی
غنودگی کا شکار ہو
اور سب کے سب اس پہ ٹوٹ کے چیر پھاڑ ڈالیں
کہ اس شکم کے مہیب دوزخ سے بڑھ کے
کوئی نہیں جہنّم
نہ اِس جہاں میں
نہ اُس جہاں میں
٭٭٭