محمد بلال اعظم

لائبریرین
منسُوبہ سے!

تو نے دیکھا ہی نہیں مجھ کو تجھے کیا معلوم
وقت نے آج کسے سونپ دیا ہے تجھ کو
کس کے دامن سے ہے باندھا گیا پلّو تیرا
کس نے تقدیر سے وابستہ کیا ہے تجھ کو

تیرے ہونٹوں پہ تو ہیں شرم و حیا کی مہریں
تیرے ماں باپ نے کیوں نرخ ترا بول دیا
کالے بازار میں نیلام اُٹھا کر تیرا
سبز باغوں کے تصوّر پہ تجھے تول دیا

جو سجائی گئی فردوس نمائش کے لئے
وہ کسی اور کی تعمیر ہے میری تو نہیں
یہ مکانات، یہ جندر، یہ دکانیں، یہ زمیں
میرے اجداد کی جاگیر ہے میری تو نہیں

میں تو آوارہ سا شاعر ہوں مری کیا وقعت
ایک دو گیت پریشان سے گا لیتا ہوں
گاہے گاہے کسی ناکام شرابی کی طرح
ایک دو زہر کے ساغر بھی چڑھا لیتا ہوں

تو کہ اِک وادئ گلرنگ کی شہزادی ہے
دیکھ بیکار سے انساں کے لئے وقف نہ ہو
تیرے خوابوں کے جزیروں میں بڑی رونق ہے
ایک انجان سے طوفاں کے لئے وقف نہ ہو

سوچ ابھی وقت ہے حالات بدل سکتے ہیں
ورنہ اس رشتۂ بے ربط پہ پچھتائے گی
توڑ اِن کہنہ رسومات کے بندھن ورنہ
جیسے جی موت کے زنداں میں اُتر جائے گی
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
معذرت
(ایک دوست کی شادی پر)

میں نے چاہا تری شادی پہ کوئی نظم کہوں
جس کے الفاظ میں پا زیب کی جھنکاریں ہوں
جس کے ہر بند میں رقصاں ہوں بہاریں نغمے
جس کے شعروں میں خیابانوں کی مہکاریں ہوں

میں نے چاہا تری شادی پہ کوئی گیت کہوں
جس کی تشبیہوں میں ہنستے ہوئے پیمانے ہوں
جس کے انداز پہ طاری ہو شرابوں کا نغمہ
جس کے مفہوم میں افسانے ہی افسانے ہوں

میں نے چاہا تری شادی پہ کوئی سہرا لکھوں
جس کی لَے سے کئی گیت ہم آہنگ رہیں
جس سے جاگ اٹھیں مغنّی کی سُریلی تانیں
جس میں افکار کی ترتیب کے سب رنگ رہیں

لیکن اِس وقت مرے ذہن کے ہر پردے میں
چند سلگی ہوئی آہوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میری سانسوں میں ہیں مغموم دلوں کی چیخیں
جن کی قسمت میں کراہوں کے سوا کچھ بھی نہیں

جس کی شادی بھی غم و رنج کا مجموعہ ہے
جن کو حاصل نہیں ہوتا کسی لمحہ بھی فراغ
جن کو ماں باپ سے ملتے ہیں مصائب کے جہیز
جن کی باراتوں میں جل اُٹھتے ہیں اشکوں کے چراغ

ایسے حالات میں کیا چیز تجھے نذر کروں
یہ حقائق مجھے مجبور کیے دیتے ہیں
میرے شاہد1؎ مرے اخلاص سے مایوس نہ ہو
چند صدمے مجھے معذور کیے دیتے ہیں

1؎ دولہا دوست
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
منصُور

وہ کیا خطا تھی؟
کہ جس کی پاداش میں ابھی تک
میں قرن ہا قرن سے شکارِ عبودیت
طوق در گلو۔۔۔پا بہ گِل رہا ہوں
وہ جرم کیا تھا؟
کہ زندگی بھر تو میں
ترے آستاں پہ سجدوں کی نذر گزرانتا رہا ہوں
اور اس کا ثمرہ ملے
تو بس کاسۂ گدائی۔ عذابِ عالم
تو کیا مری بے طلب ریاضت۔۔۔ مجاہدت کا یہی صلہ ہے
مجھے گلہ ہے
خدائے تنّور و آبِ سادہ مجھے گلہ ہے
مجھے تری بندگی کے صدقے میں کیا مِلا ہے؟
کہاں ہے وہ ترا دستِ فیّاض
جس کے جُود و سخا کے قصّے
سنہرے حرفوں میں ہر صحیفے کے
حاشیے بن کے رہ گئے ہیں
کہاں ہیں وہ تری جنّتیں جن کی داستانیں
بڑے تکلّف سے عرش سے فرش پر اُتاریں
کہاں ہیں وہ تیرے شیر و شہد شکر کے بے انتہا ذخیرے
کہ جن کی کاذب جھلک سے تُو نے
گرسنہ مخلوق کو ازل سے غلام رکھا
کہاں ہیں اُن واہمی کھلونوں کے
اُونچے بازار کس طرف ہیں
میں اِن روایات کی حقیقت سے با خبر ہوں
یہ سب وہ رنگین دام تھے جن کے بل پہ تُو نے
زمیں پہ بغض و عناد و ظلم و فساد و حرص و ہوس کے ایسے دُھوئیں اُڑائے
کہ نسلِ آدم کروڑ فرقوں میں بٹ گئی ہے
یہ وحدہٗ لاشکر یک دُنیا ہزار خطّوں میں کٹ گئی ہے
اگرچہ روزِ الست سے لے کے اب تلک
بے شمار صدیوں کے فاصلے ہیں
مگر یہ تاریخ کی کہن سالہ راہبہ، جو
ترے کلیساؤں بتکدوں اور حرم سراؤں کے مجرمانہ
رموز سے آشنا رہی ہے
ہر اک خرابے کی خاک اُڑانے کے بعد آئی
تو کہہ رہی ہے
"سنو نشیبوں کے باسیو!
یہ جہاں تمہارا ہے
یہ زمیں یہ فلک یہ خورشید و ماہ و انجم فقط تمہارے ہیں
دوسرا ماسوا تمہارے کوئی نہیں ہے
خدا و بندہ کی تلخ تفریق بے حقیقت ہے بے سبب ہے
الوہیت کا وجود تم میں سے ہی کسی خود فریب انساں کا واہمہ تھا
یہ واہمہ اِس قدر بڑھا پھر
کہ رفتہ رفتہ تمام کونین کا خداوند بن گیا ہے
اور اس خداوند
اس تصوّر کے آسرے پر
تمہارے کچھ ہم نفس رفیقوں نے
تم کو محکوم و پا بہ زنجیر کر دیا ہے
یہی وہ پہلا گناہ پہلا فریب پہلا فسوں ہے جس نے
مزاجِ انساں کو غاصبانہ شعور بخشا"
اگر یہ سچ ہے!
اگر یہ سچ ہے خدائے تنّور و آبِ سادہ
تو یہ من و تو کی پست و بالا فصیل مسمار کیوں نہ کر دوں
کہ اِن مراتب کی کشمکش سے ہی
آج میں اور میرے ہم جنس
اِس طرح ایک دوسرے کے غنیم ہیں
جس طرح زمستاں کی برفباری کے بعد گرگانِ گرسنہ
بھوک کی شقاوت سے تنگ آ کر
اُس ایک لمحے کے منتظر ہوں
جب ان کا کوئی نحیف ساتھی
غنودگی کا شکار ہو
اور سب کے سب اس پہ ٹوٹ کے چیر پھاڑ ڈالیں
کہ اس شکم کے مہیب دوزخ سے بڑھ کے
کوئی نہیں جہنّم
نہ اِس جہاں میں
نہ اُس جہاں میں
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
مشورہ

زیست کی تلخیوں سے گھبرا کر
اپنا دامانِ عجز پھیلا کر
آسماں کی طرف نگاہ کیے
اپنے ربِّ کریم کے در سے
موت کی بھیک مانگنے والے!
دیکھ اس زرنگار مسجد کو
آبِ زرّیں کی جھلملاہٹ سے
جس کے مینار جگمگاتے ہیں
تیرے ربِّ کریم کا گھر ہے
اور اس خانۂ مقدّس میں
مئے کوثر کے خم لنڈھائے ہوئے
شوخ غلماں لگائے سینے سے
ملک الموت نیم خوابیدہ
یادِ ربِّ کریم میں گم ہیں

چھوڑ انداز یہ دعاؤں کا
تابہ کے آسرا خداؤں کا
ہاں فقط ایک نعرۂ وحشت
بڑھ فقط اک قدم بغاوت کا
یا تو یہ خیر و شر کے رکھوالے
موت کی بھیک تجھ کو دے دیں گے
یا پھر ان کے مہیب پنجوں سے
چھین کر اپنی زندگی پا لے
موت کی بھیک مانگنے والے
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
آگ میں پھول

میں تو شعلوں کا پُجاری ہوں مرے پاس نہ آ
اپنے دامن میں محبت کے حسیں پھول لیے
ان دلآویز بہاروں سے مجھے ربط نہیں

جب کوئی تازہ کلی نکہت و رنگت کی پلی
شبنمی حسن کے سیمین لبادے اوڑھے
مست پلکوں پہ لیے صبحِ جوانی کی پھوار
میرے تپتے ہوئے ماحول میں در آتی ہے
تو مرے سرد ارادوں سے دھواں اٹھتا ہے
میری آنکھوں میں الاؤ سے دہک جاتے ہیں
اور اس آتش و ظلمت کے گھنے لاوے میں
مسکراتی ہوئی شاداب کلی کی سانسیں
چند ہی لمحوں میں رک جاتی ہیں پھک جاتی ہیں
تو کہ تو بھی ہے کسی ذوقِ نمو سے سرشار
مست پلکوں پہ لیے صبحِ جوانی کی پھوار

ایک انجان سی منزل کو بڑھے آتی ہے
دیکھ اس شعلوں کی بستی کو ذرا غور سے دیکھ
ہر قدم پر جہاں انگارے ہی انگارے ہیں
تو یہاں رہ کے کبھی پھول نہیں بن سکتی
لوٹ جا پیشتر اس کے کہ ترے ہونٹوں میں
احمریں رس کی جگہ تند شرر گھل جائیں
ان مہکتے ہوئے رخساروں کے زرخیز کنول
آگ کے حلقۂ بے باک میں جھلسے جائیں

میں تو شعلوں کا پجاری ہوں۔۔۔
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جانشیں
(1952ء میں کراچی میں طلباء پر فائرنگ سے متاثر ہو کر لکھی گئی)
علم و دانش کے سوداگروں نے کہا
جاہلو!
تم اندھیروں کی دُنیا کے باسی
جہالت کے تاریک غاروں کے مُردے
کہاں جا رہے ہو، کہاں؟
تم تہی دست ہو
تم تہی جیب ہو
تم تہی دامنوں سے ہمیں کوئی لالچ نہیں
تم نہیں جانتے
تم نہیں مانتے
ہم تمہارے لئے
کب سے تہذیب و حکمت کی نایاب اجناس کو
منڈیوں میں سجائے ہوئے ہیں
تم نہیں دیکھتے
تم کہ شب کو رہو
ہم نے دن کے اُجالے میں بھی بس تمہارے لیے
اِس تمدّن کے فانوس روشن کیے
جن کی شفّاف کِرنوں سے سارا جہاں بقعۂ نُور ہے
عالمِ طُور ہے
پاگلو!
تم نہیں جانتے
تم نہیں مانتے
ہم ارسطو ہیں شاہوں کے اُستاد ہیں
ہم فلاطوں ہیں ہم کو ہر اک علم و حکمت کے گُر یاد ہیں
ہم ہی سقراط ہیں
ہم ہی بقراط ہیں
ہم ہی بے مثل شخصیتوں کے خردمند فرزند ہیں
ہم ہی کون و مکاں کے خداوند ہیں
سر پھرو!
تم کو ہم سے گلہ ہے کہ ہم نے تمہیں
خاک و خوں کے سمندر میں نہلا دیا
صرف اپنے تسلّط کی خاطر
ہم نے اپنوں کے ہاتھوں سے کٹوا دیا
چاند سورج تو اپنے لیے رکھ لیے
اور تم کو کھلونوں سے بہلا دیا
تم کو اس کی مگر کچھ خبر ہی نہیں
یہ تسلّط یہ جا ہ و حشم یہ زمیں
بس تمہارے لیے ہے تمہارے لیے
دَورِ فردا کے فرمانروا ہو تمہیں
تم کو ہونا ہے اجداد کا جانشیں
پاگلو!۔۔۔ہم سے عالی نظر دیدہ ور
تم سے جو بھی کہیں مان لو
اپنے اپنے مراتب کو پہچان لو
تم نہیں جانتے تم کہ مردہ رہے سالہا سال سے
بھیڑیوں اور درندوں کی ارواحِ بد تم میں در آئی ہیں
اور جہل و جنوں کی نجس مشعلیں دے کے تم کو
بغاوت پہ اُکساتی ہیں
اپنے اجداد سے، اپنے فرمانرواؤں سے، آقاؤں سے
جاہلو!
پاگلو!!
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
سیلاب

پھر تم ہاتھوں کو پھیلاؤ ،آیا ہے سیلاب
ناچو گاؤ جشن مناؤ، آیا ہے سیلاب
قدرت کے سب کھیل نیارے
اس میں کسی کو دخل نہیں ہے
جس کو ڈبوئے جس کو ابھارے
چھوڑو ناؤ، خوف نہ کھاؤ، دور نہیں گرداب
ناچو گاؤ جشن مناؤ، آیا ہے سیلاب
مال مویشی سب کچھ چھوڑو
نام خدا کا رہ جانے دو
ہاتھ اُٹھاؤ، ڈوبے جاؤ، چھوڑو مال اسباب
ناچو گاؤ جشن مناؤ، آیا ہے سیلاب
پھٹے پرانے کپڑے پہنو
اپنا مقدّر۔ اپنا نصیبہ
دیکھتی جاؤ۔ ننگی بہنو
ننگی ماؤ۔ بُنتی جاؤ اطلس اور کمخواب
ناچو گاؤ جشن مناؤ، آیا ہے سیلاب
تم ہو جیون بھر کے روگی
یہ جگ چھوڑو، اُس دنیا میں
تم پہ خدا کی رحمت ہو گی
پھول اُگاؤ، پتھر کھاؤ، گندم ہے نایاب
ناچو گاؤ جشن مناؤ، آیا ہے سیلاب
ہنس ہنس کر اے غربت زادو
اَن داتاؤں کے چرنوں میں
اپنی جانیں بھینٹ چڑھا دو
بڑھتے آؤ، روگ مٹاؤ، ہو جاؤ غرقاب
ناچو گاؤ جشن مناؤ، آیا ہے سیلاب
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
23 مارچ
(جشنِ جمہوریہ پاکستان کے موقع پر لکھی گئی)

"خوشا یہ ساعتِ رنگیں خوشا یہ روزِ طرب
ستم کشو! نئی منزل کا احترام کرو
اداس چہروں سے گردِ ملال دھو ڈالو
ملول روحوں کو ہنس ہنس کے شاد کام کرو
درونِ خانہ گھنی ظلمتیں سہی لیکن
بڑے خلوص سے تزئینِ سقفِ و بام کرو
چراغ ہوں کہ لہو ہو کہ آنسوؤں کی لکیر
پھر آج جشنِ بہاراں کا اہتمام کرو
شبِ الم کی حکایات کا یہ وقت نہیں
اٹھو اور اُٹھ کے نئی صبح کو سلام کرو"

امیرِ شہر کے فرمان سب بجا لیکن
فقیرِ شہر بھی کچھ عرضِ حال کرتے ہیں
خطا معاف بصد احترام عہدِ وفا
سسکتے ہونٹ، دکھے دل سوال کرتے ہیں
کہ ہم تو وہ ہیں جو با وصفِ ضعفِ تشنہ لبی
مزاج پیرِ مغاں کا ملال کرتے ہیں
ہر ایک تیر کو خوش آمدید کہتے ہیں
دو چند اہلِ حشم کو جلال کرتے ہیں
ہمیں تو جاں سے زیادہ عزیز دردِ وطن
مگر حضور بھی ایسا خیال کرتے ہیں

چمن میں جشنِ ورودِ بہار جب بھی ہوا
وطن میں جب بھی فروزاں ہوئے خوشی کے دیے
رہی ہے بوالہوسوں کے سبو میں بادۂ ناب
بلا کشانِ وفا نے لہو کے گھونٹ پئے
مہ و نجوم رہے بزمِ شہر یاراں میں
نگاہِ خلق ترستی رہی کرن کے لیے
ادھر عبا و قبا کا خیال دامن گیر
ادھر یہ فکر کہ کوئی جگر کے چاک سیئے
تو کیا یہی غمِ جمہور کے تقاضے ہیں
نظر اُٹھا کے نہ دیکھیں کوئی مرے کہ جئے

زہے نصیب کہ جو اب بھی غمِ مآل رہے
یہ دورِ نو ہے مبارک اگر سنبھل کے چلیں
یہ چند سانسوں کی فرصت بڑی غنیمت ہے
کسے خبر ہے کہ پھر حادثے ٹلیں نہ ٹلیں
خدا وہ وقت نہ لائے کہ گردشوں کے طفیل
حضور اپنی جفا کیشیوں پہ ہاتھ ملیں
جو ہو سکے تو مٹا دیں یہ فاصلے ورنہ
کہیں یہ ذرّے ستاروں سے انتقام نہ لیں
بجھے ہوں دل تو اندھیرے کبھی نہیں مٹتے
یہ قمقمے تو کجا لاکھ آفتاب جلیں
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
تفاوت

تو کیوں ہے اُداس مسکرا دے
کیوں تجھ کو غمِ وفا نے گھیرا
زنگارِ الم سے دُور ہی رہ
آئینہ صفت جمال تیرا
کتنی ہی سیاہ شب ہو لیکن
کب چاند پہ چھا سکا اندھیرا
کب موجۂ روشنی تھمی ہے
دریاؤں پہ دُھول کب جمی ہے

میں کیسے ہنسوں کو دردِ ہستی
ہے میرے شعور کا تقاضا
حالات کی دھوپ میری قسمت
آلام کی ریگ میری دنیا
میں سایۂ نخل کو بھی ترسوں
صحرا کی طرح وجود میرا
صحراؤں میں پھول کب کھلے ہیں
ہم دونوں میں کتنے فاصلے ہیں
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
تسلسل

کب سے سنسان خرابوں میں پڑا تھا یہ جہاں
کب سے خوابیدہ تھے اِس وادئ خارا کے صنم
کس کو معلوم یہ صدیوں کے پُر اسرار بھرم
کون جانے کہ یہ پتھر بھی کبھی تھے انساں
صرف لب دوختہ پربت ہیں جہاں نوحہ کناں

نہ در و بام نہ دیوار و دریچہ کوئی
کوئی دہلیزِ شکستہ نہ حریمِ ویراں
شہر کے شہر ہیں پاتال کے دامن میں نہاں
کون پہچانتا ظلمت میں سیاہی کے نشاں
جو نظر ڈھونڈنے اٹھی وہ نظر بھی کھوئی
چشمِ مہتاب بھی شبنم کی جگہ خوں روئی

یہ خرابے تھے ان ادوار کے مدفن جن میں
ارضِ مشرق کے جہاں تاب اجالوں کی نمود
جگمگاتی رہی تاریخ کا تاریک وجود
رات ہوتی رہی تبدیل چمکتے دن میں
ان گنت صدیوں کی تہذیب دبی تھی ان میں

علم نے آج کریدے ہیں وہ ظلمات کے ڈھیر
وقت نے جس پہ بٹھائے تھے فنا کے پہرے
جاگ اُٹھے صورِ سرافیل سے گونگے بہرے
تا ابد جن کے مقدّر میں تھی دنیا اندھیر
یہ مگر عظمتِ انساں ہے کہ تقدیر کے پھیر؟

یہ عمارات، یہ مینار، یہ گلزار، یہ کھیت
تودۂ خاک سے ہستی نے لیا تازہ جنم
جی اُٹھے وادئ خاموش کے بے جان صنم
پر کوئی چیرے کا ذرّے کا جگر قطرۂ یم
دفن کر دے گا جو خالق کو بھی مخلوق سمیت
اور یہ آبادیاں بن جائیں گی پھر ریت ہی ریت
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ہلالِ عید

ہلالِ عید! نویدِ طرب ہے دید تری
تری نمود خوشی کا پیام لاتی ہے
بجھی نگاہوں میں کرنوں کی جوت بھرتی ہے
ملول روحوں کی افسردگی مٹاتی ہے
روائتیں ہیں کہ اس دن ہر ایک دل کی کلی
وفورِ نشۂ راحت سے جھوم جاتی ہے
بلند و پست کے ہر تفرقے مٹاتے ہوئے
ہر اک محل میں ہر اک گھر میں عید آتی ہے

ہلالِ عید! مگر میں نے ہر برس دیکھا
کہ تیری ضو بھی نشیبوں میں مسکراتی نہیں
روائتوں پہ مجھے بھی یقیں تو ہے لیکن
یہ خوش عقیدگی کیا کیجیے راس آتی نہیں
خدا کے گھر میں برابر سہی غریب و غنی
یہ رسم ملکِ خدا میں رواج پاتی نہیں
طلوع ہوتا رہا تو ہر ایک سال مگر
مرے وطن کی جبیں پھر بی جگمگاتی رہی

ہلالِ عید! تفاوت کی آتشیں آندھی
جھلس رہی ہے مرے دیس میں خوشی کے چمن
کہیں تو جسم پہ ریشم کے ڈھیر بارِ نظر
کہیں بدن پہ ہیں عریانیاں ہی پیراہن
کہیں تو کجکلہی وجہِ نخوت و تمکیں
کہیں فلاکت و افلاس زندگی کے کفن
کہاں وہ دن کہ غریب الدیار روتے ہیں
یہ حال ہو تو وطن میں ستم ہے عیدِ وطن

ہلالِ عید! تجھے غمزدوں سے کیا نسبت
کہ خواجگانِ جہاں ہی ترے چہیتے ہیں
جو تیرے نام کے ساغر فضا میں لہرا کر
تری کمان کی قوسوں کو موڑ دیتے ہیں
فغاں، کہ تجھ کو بے کسوں سے ربط نہیں
جو اپنے دل کے سفینے لہو میں کھیتے ہیں
تری ضیا بھی ہے گویا کٹی پتنگ جسے
بلند بام خلا ہی میں لُوٹ لیتے ہیں

ہلالِ عید! طرب زا سہی یہ شام مگر
چراغِ شوق جلاتے ہوئے لرزتے ہیں
دلوں پہ کل جو قیامت گزرنے والی ہے
اب اس کا دھیان بھی لاتے ہوئے لرزتے ہیں
ہم اہلِ غم تجھے خوش آمدید کیسے کہیں
جو اپنے دکھ بھی سناتے ہوئے لرزتے ہیں
اگرچہ تجھ پہ نگاہیں جمی ہوئی ہیں مگر
دعا کو ہاتھ اُٹھاتے ہوئے لرزتے ہیں
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
واہمہ

تو ہر اک بات پہ ہنس دیتی ہے
اور میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں
یہ تری سادہ و معصوم ہنسی
آنکھ کی بھول سماعت کا فسوں
تیری عادت ترا انداز نہ ہو
بے تکلّف ترے ہونٹوں کی چٹک
میری خوش فہمی کا اعجاز نہ ہو
میں سرابوں کو بھی دریا سمجھوں
تو فقط شوق کی پرواز نہ ہو

تو ہر اک بات پہ ہنس دیتی ہے
اور میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں
یہ تری سادہ و بیباک ہنسی
میں جسے خواب سے تعبیر کروں
وہ حقیقت میں کوئی راز نہ ہو
تیرے بے ساختہ ہنسنے کی ادا
تیری تنہائی کی آواز نہ ہو
میں جسے حسنِ طبیعت جانوں
تیرے جذبات کی غماز نہ ہو

تو ہر اک بات پہ ہنس دیتی ہے
اور میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں
یہ تری سادہ و پرکار ہنسی
میری دنیا مری ہستی کا سکوں
کسی طوفان کا آغاز نہ ہو
میں محبت کی طلب کا مارا
تو فقط حسنِ نظر باز نہ ہو
یہ نہ ہو میں تو سوئمبر جیتوں
اور ترے قصر کا در باز نہ ہو
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کنیز

حضور آپ اور نصف شب مرے مکان پر
حضور کی تمام تر بلائیں میری جان پر
حضور خیریت تو ہے حضور کیوں خموش ہیں
حضور بولیے کہ وسوسے وبالِ ہوش ہیں
حضور، ہونٹ اِس طرح کپکپا رہے ہیں کیوں
حضور آپ ہر قدم پہ لڑکھڑا رہے ہیں کیوں
حضور آپ کی نظر میں نیند کا خمار ہے
حضور شاید آج دشمنوں کو کچھ بخار ہے
حضور مسکرا رہے ہیں میری بات بات پر
حضور کو نہ جانے کی گماں ہے میری ذات پر
حضور منہ سے بہہ رہی ہے پیک صاف کیجیے
حضور آپ تو نشے میں ہیں معاف کیجیے
حضور کیا کہا، مَیں آپ کو بہت عزیز ہوں
حضور کا کرم ہے ورنہ مَیں بھی کوئی چیز ہوں
حضور چھوڑیے ہمیں ہزار اور روگ ہیں
حضور جائیے کہ ہم بہت غریب لوگ ہیں
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
آتشِ عجم

شبِ سیہ کے اُمڈتے ہوئے اندھیروں میں
دل و نظر نے اُمیدوں کے کتنے خواب بُنے
خرد کے ہاتھ میں جب آخری چراغ بجھا
جنوں نے عزم کے ذرّوں سے آفتاب چُنے

ہوس کی تیرہ نگاہوں کے رینگتے سائے
بڑھے تو بجھتے شراروں نے آگ برسائی
فضا نے جب بھی ارادہ کیا کچلنے کا
تو ڈوبتی ہوئی نبضوں میں برق لہرائی

خیال تا کہ اگر تند آندھیاں بھی اُٹھیں
تو ذرّے سُرخ بگولوں کا روپ لے لیں گے
ہزار بادِ مخالف کا زور ہو لیکن
سفینے شدّتِ طوفاں کو مات دے دیں گے

حیات دست و گریباں ہوئی قضا سے مگر
ہزار سانپ نِکل آئے آستینوں سے
بہت قریب تھی ساحل کی روشنی لیکن
سفینے جھوم کے ٹکرا گئے سفینوں سے

اس اختلافِ بہم کی کڑی کشا کش میں
وہ ولولے وہ شرر سرد ہو گئے آخر
وہ ذرّے جن کو فضاؤں میں رقص کرنا تھا
بگولے بن نہ سکے گرد ہو گئے آخر

بہ ایں ہمہ نہ رُکے گی اس انقلاب کی رو
اس انقلاب کی ضو تیرگی مٹائے گی
جو آگ تیل کے چشموں کو چھو کے گزری ہے
سمندروں کی تہوں کو بھی چِیر جائے گی
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اور وہ پچھلی فائل کی درستگی ہوئی۔ جو کرپٹ ہو گئی تھی۔ اس کی ٹیکسٹ فائل ہی دے دو۔


اگر آپ شب خون کی بات کر رہے ہیں تو اس کا لنک یہ ہے
اور یہ رہا محفل پہ پوسٹ کی گئی غزلوں کے دھاگے کا لنک
اور


اگر آپ اے عشق جنوں پیشہ کی بات کر رہے ہیں تو اس کا لنک یہ ہے
اور یہ رہا محفل پہ پوسٹ کی گئی غزلوں کے دھاگے کا لنک
 

الف عین

لائبریرین
عشق جنوں پیشہ کی یہ ورڈ فائل تو کرپٹ ہی ہے، کیا تم دوبارہ بنا سکتے ہو محفل سے کاپی کر کے!! یا ٹیکسٹ فائل بھی محفوظ ہو تو اسے بھی کہیں اپ لوڈ کر دو، یا مجھے ای میل کر دو۔
 
Top