تین کی کسوٹی

نیلم

محفلین
افلاطون اپنے ﺍُﺳﺘﺎد سقراط کے ﭘﺎﺱ ﺍٓﯾﺎ ﺍﻭﺭ کہنے ﻟﮕﺎ ’’ﺍٓﭖ ﮐﺎ
ﻧﻮﮐﺮ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍٓﭖ کے ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮨﺮﺯﮦ ﺳﺮﺍﺋﯽ ﮐﺮ
ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ‘‘
ﺳﻘﺮﺍﻁ نے ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ ’’ﻭﮦ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ‘‘
ﺍﻓﻼﻃﻮﻥ ﻧﮯ جذباتی لہجے ﻣﯿﮟ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ’’ﺍٓﭖ کے ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ
ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ‘‘.....…
ﺳﻘﺮﺍﻁ ﻧﮯ ﮨﺎتھ کے ﺍﺷﺎﺭﮮ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮐﺮﻭﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ’’ﺗﻢ
ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺳﻨﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺳﮯ ﺗﯿﻦ ﮐﯽ ﮐﺴﻮﭨﯽ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﻮ، ﺍﺱ ﮐﺎ
ﺗﺠﺰﯾﮧ ﮐﺮﻭ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮﻭ ﮐﯿﺎ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ مجھے
ﺑﺘﺎﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔ ‘‘
ﺍﻓﻼﻃﻮﻥ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ’’ﯾﺎ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺗﯿﻦ ﮐﯽ ﮐﺴﻮﭨﯽ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟ ‘‘
ﺳﻘﺮﺍﻁ ﺑﻮﻻ ’’ ﮐﯿﺎ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﮯ ﺗﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﮨﻮ
یہ ﺑﺎﺕ ﺳﻮﻓﯿﺼﺪ ﺳﭻ ﮨﮯ؟ ‘‘
ﺍﻓﻼﻃﻮﻥ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﺍﻧﮑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﮨﻼ ﺩﯾﺎ،
ﺳﻘﺮﺍﻁ ﻧﮯ ﮨﻨﺲ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ’’ ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ
ﮐﯿﺎ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﮨﻮ ﮔﺎ؟ ‘‘
ﺍﻓﻼﻃﻮﻥ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺳﻘﺮﺍﻁ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ،
ﺳﻘﺮﺍﻁ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ’’ یہ ﭘﮩﻠﯽ ﮐﺴﻮﭨﯽ ﺗﮭﯽ، ﮨﻢ ﺍﺏ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﮐﺴﻮﭨﯽ
ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍٓﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ’’ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺟﻮ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﮨﻮ ﮐﯿﺎ یہ
ﺍﭼﮭﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ؟ ‘‘
ﺍﻓﻼﻃﻮﻥ ﻧﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﮨﻼ ﮐﺮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ۔ "ﺟﯽ ! ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ
ﺑُﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ۔ ‘‘
ﺳﻘﺮﺍﻁ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ’’ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﯾﮧ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﻮ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ
ﺍُﺳﺘﺎﺩ ﮐﻮ ﺑُﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ؟ ‘‘
ﺍﻓﻼﻃﻮﻥ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﮨﻼ ﺩﯾﺎ،
ﺳﻘﺮﺍﻁ ﺑﻮﻻ ’’ ﮔﻮﯾﺎ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﮐﺴﻮﭨﯽ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﭘﻮﺭﺍ ﻧﮩﯿﮟ
ﺍﺗﺮﺗﯽ۔ ‘‘
ﺍﻓﻼﻃﻮﻥ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺭﮨﺎ،
ﺳﻘﺮﺍﻁ ﻧﮯ ﺫﺭﺍ ﺳﺎ ﺭﮎ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ’’ ﺍﻭﺭ ﺍٓﺧﺮﯼ ﮐﺴﻮﭨﯽ، ﯾﮧ ﺑﺘﺎو ﻭﮦ
ﺑﺎﺕ ﺟﻮ ﺗﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﮨﻮ ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﻣﻨﺪ
ﮨﮯ؟ ‘‘
ﺍﻓﻼﻃﻮﻥ ﻧﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﺮﮨﻼﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ’’ﯾﺎ ﺍُﺳﺘﺎﺩ ! یہ
بات ﮨﺮﮔﺰ ﮨﺮﮔﺰ ﺍٓﭖ کے لیے ﻓﺎﺋﺪﮦ ﻣﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ۔ ‘‘
ﺳﻘﺮﺍﻁ ﻧﮯ ﮨﻨﺲ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ’’ﺍﮔﺮ یہ ﺑﺎﺕ ﻣﯿﺮﮮ لیے ﻓﺎﺋﺪﮦ ﻣﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ،
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ؟ ‘‘
ﺍﻓﻼﻃﻮﻥ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔
ﺳﻘﺮﺍﻁ ﻧﮯ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﮯ یہ ﺗﯿﻦ ﺍﺻﻮﻝ ﺍٓﺝ ﺳﮯ ﭼﻮﺑﯿﺲ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﻗﺒﻞ
ﻭﺿﻊ ﮐﺮﺩﯾﮯ ﺗﮭﮯ، ﺳﻘﺮﺍﻁ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺷﺎﮔﺮﺩ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﺗﮯ
ﺗﮭﮯ۔ ﻭﮦ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﺗﯿﻦ ﮐﺴﻮﭨﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﭘﺮﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ،
ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺳﻮ ﻓﯿﺼﺪ ﺩﺭﺳﺖ ﮨﮯ، ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺍﭼﮭﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﯿﺎ
ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺳﻨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻔﯿﺪ ہے؟ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺑﺎﺕ ﺗﯿﻨﻮﮞ
ﮐﺴﻮﭨﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﺍﺗﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ،ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮯ ﺩﮬﮍﮎ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺩﯾﺘﮯ
ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﮐﺴﻮﭨﯽ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﻧﮧ ﺍﺗﺮﺗﯽ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ
ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﮏ ﻋﻨﺼﺮ ﮐﻢ ﮨﻮﺗﺎ،ﺗﻮ ﻭﮦ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮجاتے تھے۔
 
اس کسوٹی پر عمل کیا جائے تو دنیا کے تمام نشریاتی ادارے اور چھاپہ خانے بند ہوجاویں
شاید محفل کو بھی بند کرنا پڑجاوے
 

بھلکڑ

لائبریرین
او ر حاضرین و ناظرین !!نیلی آپی ایک بار پھر نہایت عمدہ شراکت کے ساتھ حاضر!!!!
اُمید ہے وہ آئندہ بھی بغیر غائب ہوئے آتی رہیں گی ۔۔۔ اور ہمارے ساتھ اچھی باتیں شئیر کرتی رہیں گی!!!
آج اسی خوشخبری کے ساتھ اجازت!!!

:) :) :p;):)
 

نیلم

محفلین
او ر حاضرین و ناظرین !!نیلی آپی ایک بار پھر نہایت عمدہ شراکت کے ساتھ حاضر!!!!
اُمید ہے وہ آئندہ بھی بغیر غائب ہوئے آتی رہیں گی ۔۔۔ اور ہمارے ساتھ اچھی باتیں شئیر کرتی رہیں گی!!!
آج اسی خوشخبری کے ساتھ اجازت!!!

:) :) :p;):)
:LOL::love:
بہت شکریہ چھوٹے بھیا :love::notworthy:
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ ( 6 ) حجرات - الآية 6
 
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا اَنۡ تُصِیۡبُوۡا قَوۡمًۢا بِجَہَالَۃٍ فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰی مَا فَعَلۡتُمۡ نٰدِمِیۡنَ ﴿۶﴾
﴿049:006﴾

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تمہارے پاس اگر کوئی بدکردار کوئی خبر لائے تو (اس کی) چھان بین کرلیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم جہالت سے کسی قوم کو نقصان پہنچا بیٹھو پھر تمہیں اپنے کئے پر پشیمان ہونا پڑے۔
‏ [جالندھری]‏ مومنو! اگر کوئی بدکردار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کرلیا کرو (مبادا) کہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا دو پھر تم کو اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے ‏
‏ [محمودالحسن‏] اے ایمان والو اگر آئے تمہارے پاس کوئی گناہ گار خبر لے کر تو تحقیق کر لو کہیں جا نہ پڑو کسی قوم پر نادانی سے پھر کل کو اپنے کئے پر لگو پچھتانے ف٢‏
‏[جوناگڑھی]‏ اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو (۱) ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے لئے پریشانی اٹھاؤ۔‏
تفسیر ابن كثیر
فاسق کی خبر پر اعتماد نہ کرو
اللہ تعالٰی حکم دیتا ہے کہ فاسق کی خبر کا اعتماد نہ کرو جب تک پوری تحقیق و تفتیش سے اصل واقعہ صاف طور پر معلوم نہ ہو جائے کوئی حرکت نہ کرو ممکن ہے کہ کسی فاسق شخص نے کوئی جھوٹی بات کہدی ہو یا خود اس سے غلطی ہوئی ہو اور تم اس کی خبر کے مطابق کوئی کام کر گذرو تو اصل اس کی پیروی ہو گی اور مفسد لوگوں کی پیروی حرام ہے اسی آیت کو دلیل بنا کر بعض محدثین کرام نے اس شخص کی روایت کو بھی غیر معتبر بتایا ہے جس کا حال نہ معلوم ہو اس لئے کہ بہت ممکن ہے یہ شخص فی الواقع فاسق ہو گو بعض لوگوں نے ایسے مجہول الحال راویوں کی روایت لی بھی ہے ، اور انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں فاسق کی خبر قبول کرنے سے منع کیا گیا ہے اور جس کا حال معلوم نہیں اس کا فاسق ہونا ہم پر ظاہر نہیں ہم نے اس مسئلہ کی پوری وضاحت سے صحیح بخاری شریف کی شرح میں کتاب العلم میں بیان کر دیا ہے فالحمد للہ ۔ اکثر مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ بن ابو معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قبیلہ بنو مصطلق سے زکوٰۃ لینے کے لئے بھیجا تھا ۔ چنانچہ مسند احمد میں ہے حضرت حارث بن ضرار خزاعی جو ام المومنین حضرت جویریہ کے والد ہیں فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے مجھے اسلام کی دعوت دی جو میں نے منظور کر لی اور مسلمان ہو گیا ۔ پھر آپ نے زکوٰۃ کی فرضیت سنائی میں نے اس کا بھی اقرار کیا اور کہا کہ میں واپس اپنی قوم میں جاتا ہوں اور ان میں سے جو ایمان لائیں اور زکوٰۃ ادا کریں میں انکی زکوۃٰ جمع کرتا ہوں اتنے اتنے دنوں کے بعد آپ میری طرف کسی آدمی کو بھیج دیجئے میں اس کے ہاتھ جمع شدہ مال زکوۃ آپ کی خدمت میں بھجوا دوں گا۔ حضرت حارث نے واپس آکر یہی کیا مال زکوۃ جمع کیا ، جب وقت مقررہ گذر چکا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی قاصد نہ آیا تو آپ نے اپنی قوم کے سرداروں کو جمع کیا اور ان سے کہا یہ تو ناممکن ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وعدے کے مطابق اپنا کوئی آدمی نہ بھیجیں مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں کسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے ناراض نہ ہوگئے ہوں ؟ اور اس بنا پر آپ نے اپنا کوئی قاصد مال زکوۃ لے جانے کے لئے نہ بھیجا ہو اگر آپ لوگ متفق ہوں تو ہم اس مال کو لے کر خود ہی مدینہ شریف چلیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیں یہ تجویز طے ہوگئی اور یہ حضرات اپنا مال زکوۃ ساتھ لے کر چل کھڑے ہوئے ادھر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولید بن عقبہ کو اپنا قاصد بنا کر بھیج چکے تھے لیکن یہ حضرت راستے ہی میں سے ڈر کے مارے لوٹ آئے اور یہاں آ کر کہدیا کہ حارث نے زکوۃ بھی روک لی اور میرے قتل کے درپے ہو گیا ۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے اور کچھ آدمی تنبیہ کے لئے روانہ فرمائے مدینہ کے قریب راستے ہی میں اس مختصر سے لشکر نے حضرت حارث کو پا لیا اور گھیر لیا ۔ حضرت حارث نے پوچھا آخر کیا بات ہے ؟ تم کہاں اور کس کے پاس جا رہے ہو؟ انہوں نے کہا ہم تیری طرف بھیجے گئے ہیں پوچھا کیوں ؟ کہا اس لئے کہ تو نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد ولید کو زکوۃ نہ دی بلکہ انہیں قتل کرنا چاہا ۔ حضرت حارث نے کہا قسم ہے اس اللہ کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا رسول بنا کر بھیجا ہے نہ میں نے اسے دیکھا نہ وہ میرے پاس آیا چلو میں تو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو رہا ہوں یہاں آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ تو نے زکوۃ بھی روک لی اور میرے آدمی کو بھی قتل کرنا چاہا ۔ آپ نے جواب دیا ہرگز نہیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قسم ہے اللہ کی جس نے آپ کو سچا رسول بنا کر بھیجا ہے نہ میں نے انہیں دیکھا نہ وہ میرے پاس آئے۔ بلکہ قاصد کو نہ دیکھ کر اس ڈر کے مارے کہ کہیں اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ناراض نہ ہوں گئے ہوں اور اسی وجہ سے قاصد نہ بھیجا ہو میں خود حاضر خدمت ہوا، اس پر یہ آیت (حکیم ) تک نازل ہوئی طبرانی میں یہ بھی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد حضرت حارث کی بستی کے پاس پہنچا تو یہ لوگ خوش ہو کر اس کے استقبال کیلئے خاص تیاری کر کے نکلے ادھر ان کے دل میں یہ شیطانی خیال پیدا ہوا کہ یہ لوگ مجھ سے لڑنے کے لئے آرہے ہیں تو یہ لوٹ کر واپس چلے آئے انہوں نے جب یہ دیکھا کہ آپ کے قاصد واپس چلے گئے تو خود ہی حاضر ہوئے اور ظہر کی نماز کے بعد صف بستہ کھڑے ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ نے زکوۃ وصول کرنے کے لئے اپنے آدمی کو بھیجا ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں ہم بیحد خوش ہوئے لیکن اللہ جانے کیا ہوا کہ وہ راستے میں سے ہی لوٹ گئے تو اس خوف سے کہ کہیں اللہ ہم سے ناراض نہ ہو گیا ہو ہم حاضر ہوئے ہیں اسی طرح وہ عذر معذرت کرتے رہے عصر کی اذان جب حضرت بلال نے دی اس وقت یہ آیت نازل ہوئی، اور روایت میں ہے کہ حضرت ولید کی اس خبر پر ابھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سوچ ہی رہے تھے کہ کچھ آدمی ان کی طرف بھیجیں جو ان کا وفد آگیا اور انہوں نے کہا آپ کا قاصد آدھے راستے سے ہی لوٹ گیا تو ہم نے خیال کیا کہ آپ نے کسی ناراضگی کی بنا پر انہیں واپسی کا حکم بھیج دیا ہوگا اس لئے حاضر ہوئے ہیں ، ہم اللہ کے غصے سے اور آپ کی ناراضگی سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں پس اللہ تعالٰی نے یہ آیت اتاری اور اس کا عذر سچا بتایا ۔ اور روایت میں ہے کہ قاصد نے یہ بھی کہا تھا کہ ان لوگوں نے تو آپ سے لڑنے کے لئے لشکر جمع کر لیا ہے اور اسلام سے مرتد ہوگئے ہیں چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید کی زیر امارت ایک فوجی دستے کو بھیج دیا لیکن انہیں فرما دیا تھا کہ پہلے تحقیق و تفتیش اچھی طرح کر لینا جلدی سے حملہ نہ کر دینا ۔ اسی کے مطابق حضرت خالد نے وہاں پہنچ کر اپنے جاسوس شہر میں بھیج دئیے وہ خبر لائے کہ وہ لوگ دین اسلام پر قائم ہیں مسجد میں اذانیں ہوئیں جنہیں ہم نے خود سنا اور لوگوں کو نماز پڑھتے ہوئے خود دیکھا ، صبح ہوتے ہی حضرت خالد خود گئے اور وہاں کے اسلامی منظر سے خوش ہوئے واپس آکر سرکار نبوی میں ساری خبر دی ۔ اس پر یہ آیت اتری۔ حضرت قتادہ جو اس واقعہ کو بیان کرتے ہیں کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ تحقیق و تلاش بردباری اور دور بینی اللہ کی طرف سے ہے ۔ اور عجلت اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے ۔ سلف میں سے حضرت قتادہ کے علاوہ اور بھی بہت سے حضرات نے یہی ذکر کیا ہے جیسے ابن ابی لیلیٰ ، یزید بن رومان، ضحاک ، مقاتل بن حیان وغیرہ ۔ ان سب کا بیان ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے کہ جان لو کہ تم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں ان کی تعظیم و توقیر کرنا عزت وادب کرنا ان کے احکام کو سر آنکھوں سے بجا لانا تمہارا فرض ہے وہ تمہاری مصلحتوں سے بہت آگاہ ہیں انہیں تم سے بہت محبت ہے وہ تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتے ۔ تم اپنی بھلائی کے اتنے خواہاں اور اتنے واقف نہیں ہو جتنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں چنانچہ اور جگہ ارشاد ہے آیت (النبی اولیٰ بالمومنین من انفسھم ) یعنی مسلمانوں کے معاملات میں ان کی اپنی بہ نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے زیادہ خیر اندیش ہیں ۔ پھر بیان فرمایا کہ لوگو تمہاری عقلیں تمہاری مصلحتوں اور بھلائیوں کو نہیں پاسکتیں انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پا رہے ہیں ۔ پس اگر وہ تمہاری ہر پسندیدگی کی رائے پر عامل بنتے رہیں تو اس میں تمہارا ہی حرج واقع ہو گا ۔ جیسے اور آیت میں ہے (ولو اتبع الحق اھوائھم لفسدت السموات والارض ومن فیھن بل اتیناھم بذکرھم فھم عن ذکرھم معرضون ) یعنی اگر سچا رب ان کی خوشی پر چلے تو آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز خراب ہو جائے یہ نہیں بلکہ ہم نے انہیں ان کی نصیحت پہنچا دی ہے لیکن یہ اپنی نصیحت پر دھیان ہی نہیں دھرتے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ نے ایمان کو تمہارے نفسوں میں محبوب بنا دیا ہے اور تمہارے دلوں میں اس کی عمدگی بٹھا دی ہے مسند احمد میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اسلام ظاہر ہے اور ایمان دل میں ہے پھر آپ اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ کرتے اور فرماتے تقویٰ یہاں ہے پرہیز گاری کی جگہ یہ ہے ۔ اس نے تمہارے دلوں میں کبیرہ گناہ اور تمام نافرمانیوں کی عداوت ڈال دی ہے اس طرح بتدریج تم پر اپنی نعمتیں بھرپور کر دی ہیں ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے جن میں یہ پاک اوصاف ہیں انہیں اللہ نے رشد نیکی ہدایت اور بھلائی دے رکھی ہے مسند احمد میں ہے احد کے دن جب مشرکین ٹوٹ پڑے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درستگی کے ساتھ ٹھیک ٹھاک ہو جاؤ تو میں نے اپنے رب عزوجل کی ثنا بیان کروں پس لوگ آپ کے پیچھے صفیں باندھ کر کھڑے ہوگئے اور آپ نے یہ دعا پڑھی (اللھم لک الحمد کلہ اللھم لا قابض لما بسطت ولا باسط لما قبضت ولا ھادی لمن اضللت ولا مضل لمن ھدیت ولا معطی لما منعت ولا مانع لما اعطیت ولا مقرب لما باعدت ولا مباعد لما قربت ۔ اللھم ابسط علینا من برکاتک ورحمتک وفضلک ورزقک۔ اللھم انی اسألک النعیم المقیم الذی لا یحول ولا یزل اللھم انی اسألک النعیم یوم العلیۃ ولا امن یوم الخوف اللھم انی عائذبک من شر ما اعطیتنا ومن شر ما منعتنا اللھم حبب الینا الایمان وزینہ فی قلوبنا وکرہ الینا الکفر والفسوق والعصیان واجعلنا من الراشدین اللھم توفنا مسلمین واحینا مسلمین والحقنا بالصالحین غیر خزایا والا مفتونین اللھم قاتل الکفرۃ الذین یکذبون رسلک ویصدون عن سبیلک واجعل علیھم وجزک وعذابک اللھم قاتل الکفرۃ الذین اوتوا الکتاب الہ الحق(نسائی ) یعنی اے اللہ تمام تر تعریف تیرے ہی لئے ہے تو جسے کشادگی دے اسے کوئی تنگ نہیں کر سکتا اور جس پر تو تنگی کرے اسے کوئی کشادہ نہیں کر سکتا تو جسے گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور جسے تو ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا جس سے تو روک لے اسے کوئی دے نہیں سکتا اور جسے تو دے اس سے کوئی باز نہیں رکھ سکتا جسے تو دور کر دے اسے قریب کرنے والا کوئی نہیں اور جسے تو قریب کر لے اسے دور ڈالنے والا کوئی نہیں اے اللہ ہم پر اپنی برکتیں رحمتیں فضل اور رزق کشادہ کر دے اے اللہ میں تجھ سے وہ ہمیشہ کی نعمتیں چاہتا ہوں جو نہ ادھر ادھر ہوں ، نہ زائل ہوں ۔ اللہ فقیری اور احتیاج والے دن مجھے اپنی نعمتیں عطا فرمانا اور خوف والے دن مجھے امن عطا فرمانا ۔ پروردگار جو تو نے مجھے دے رکھا ہے اور جو نہیں دیا ان سب کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔ اے میرے معبود ہمارے دلوں میں ایمان کی محبت ڈال دے اور اسے ہماری نظروں میں زینت دار بنا دے اور کفر بدکاری اور نافرمانی سے ہمارے دل میں دوری اور عداوت پیدا کر دے اور ہمیں راہ یافتہ لوگوں میں کر دے ۔ اے ہمارے رب ہمیں اسلام کی حالت میں فوت کر اور اسلام پر ہی زندہ رکھ اور نیک کار لوگوں سے ملا دے ہم رسوا نہ ہوں ہم فتنے میں نہ ڈالے جائیں ۔ اللہ ان کافروں کا ستیاناس کر جو تیرے رسولوں کو جھٹلائیں اور تیری راہ سے روکیں تو ان پر اپنی سزا اور اپنا عذاب نازل فرما ۔ الہی اہل کتاب کے کافروں کو بھی تباہ کر ، اے سچے معبود ۔ یہ حدیث امام نسائی بھی اپنی کتاب عمل الیوم واللہ میں لائے ہیں ۔ مرفوع حدیث میں ہے جس شخص کو اپنی نیکی اچھی لگے اور برائی اسے ناراض کرے وہ مومن ہے پھر فرماتا ہے یہ بخشش جو تمہیں عطا ہوئی ہے یہ تم پر اللہ کا فضل ہے اور اس کی نعمت ہے اللہ مستحقین ہدایت کو اور مستحقین ضلالت کو بخوبی جانتا ہے وہ اپنے اقوال و افعال میں حکیم ہے ۔
 

عبد الرحمن

لائبریرین
اس سنہرے اصول کو اگر پلے باندھ لیا جائے تو بہت سے لڑائی جھگڑے شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوسکتے ہیں۔
جزاکِ اللہ خیرا! بہت عمدہ شراکت ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
بہت عمدہ لکھا چوہدری صاحب۔ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا زکواۃ انفرادی فعل ہے کہ اجتماعی؟ یعنی ہر انسان اپنی زکواۃ خود کسی کو دینے میں آزاد ہے یا سنت سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہےکہ زکواۃ مرکزی حکومت کو ہی دی جائے؟ اس سوال کا محرک یہ ہے کہ عام طور نیکی، مدد اور بھلائی کے لئے اپنے رشتہ دار اور قرابت داروں کو چننا عام فہم بات ہے اور اسے اسلامی طور پر بھی پسند کیا گیا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
منصور بھائی زکوٰۃ اکٹھی کرنا اور اس کی تقسیم ریاست کی ہی ذمہ داری ہے۔ جو کہ قرآن کے مطابق 8 مد میں خرچ کی جانی چاہیے۔ اب چونکہ ریاست نہ تو زکوۃ اکٹھی کرتی ہے اور نہ ہی تقسیم کرتی ہے، تو یہ انفرادی طور پر بھی دی جا سکتی ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
منصور بھائی زکوٰۃ اکٹھی کرنا اور اس کی تقسیم ریاست کی ہی ذمہ داری ہے۔ جو کہ قرآن کے مطابق 8 مد میں خرچ کی جانی چاہیے۔ اب چونکہ ریاست نہ تو زکوۃ اکٹھی کرتی ہے اور نہ ہی تقسیم کرتی ہے، تو یہ انفرادی طور پر بھی دی جا سکتی ہے۔
شکریہ :)
 

ابن رضا

لائبریرین
منصور بھائی زکوٰۃ اکٹھی کرنا اور اس کی تقسیم ریاست کی ہی ذمہ داری ہے۔ جو کہ قرآن کے مطابق 8 مد میں خرچ کی جانی چاہیے۔ اب چونکہ ریاست نہ تو زکوۃ اکٹھی کرتی ہے اور نہ ہی تقسیم کرتی ہے، تو یہ انفرادی طور پر بھی دی جا سکتی ہے۔
جی صرف ریاست کی نہیں بلکہ اسلامی ریاست کی۔جو کہ ناپیدہے یہاں
 

قیصرانی

لائبریرین
جی صرف ریاست کی نہیں بلکہ اسلامی ریاست کی۔جو کہ ناپیدہے یہاں
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ پوری دنیا میں اسلامی ریاست اس وقت کہیں بھی موجود نہیں۔ جہاں ہے تو وہاں بادشاہت کی قباحت موجود ہے یا پھر جمہوریت کے نام پر مذاق
 
بہت عمدہ لکھا چوہدری صاحب۔ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا زکواۃ انفرادی فعل ہے کہ اجتماعی؟ یعنی ہر انسان اپنی زکواۃ خود کسی کو دینے میں آزاد ہے یا سنت سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہےکہ زکواۃ مرکزی حکومت کو ہی دی جائے؟ اس سوال کا محرک یہ ہے کہ عام طور نیکی، مدد اور بھلائی کے لئے اپنے رشتہ دار اور قرابت داروں کو چننا عام فہم بات ہے اور اسے اسلامی طور پر بھی پسند کیا گیا ہے




اگر زکواۃ کا کوئی مرکزی نظام نہ ہو (جو کہ نہیں ہے کم از کم ہمارے ملکی نظام میں( جیسا کہ حقیقتاً ہونا چاہیئے)) تو آپ انفرادی طور پر بھی دے سکتے ہیں۔ لیکن یہ ایسا ہی ہے جیسے باجماعت نماز اور اکیلے نماز پڑھنا ہے۔ ایک اور بات ہے اور وہ بہت اہم ہے اپنے رشتہ داروں اور قرابت داروں کی مدد کرنا بہت احسن فعل ہےاور جس قدر ہوسکے کرنی چاہیئے۔ لیکن میری (انڈر اسٹینڈنگ) سمجھ کے مطابق یہ آپ کی ذمہ داریوں میں سے ہے جیسا کہ آپ اپنے ماں باپ جو آپ کے ساتھ رہتے ہوں یا نہیں ان کی دیکھ بھال اور اخراجات آپ کرتے ہیں اور یقیناً اسے زکواۃ نہیں سمجھتے ۔ زکواۃ کا اسلامی نظام بہت شاندار نظام ہے۔ اور جو شرح ہم سمجھتے ہیں وہ کم از کم شرح ہے۔ مختلف مد میں مختلف شرح ہے۔زکواۃ ٹیکس نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔۔۔۔
 
جزاک اللہ خیر چوہدری صاحب۔

جزاک اللہ خیر شمشاد بھائی ایک بات کرنے کو دل چاہتا ہے آپ کے ساتھ لیکن یہاں شاید مناسب نہیں کیونکہ مجھے شاید اچھے طریقہ سے بات کرنا اور میں اس بات کو کبھی نہیں سمجھ سکا کہ کسی ہسپتال کا عملہ ہمیں کٹھور کیوں لگتا ہے۔ جب کوئی ہمارا مریض ہسپتال میں ہوتا ہے تو عملہ ہمارے دکھ کو کیوں نہیں سمجھتا۔ ہمیں کیوں لگتا ہے کہ انہیں کچھ زیادہ ہمدردانہ رویہ رکھنا چاہیئے۔ ہمیں ان کی بات جو بظاہر شاید نارمل ہوتی ہے سخت کیوں لگتی ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
جزاک اللہ خیر شمشاد بھائی ایک بات کرنے کو دل چاہتا ہے آپ کے ساتھ لیکن یہاں شاید مناسب نہیں کیونکہ مجھے شاید اچھے طریقہ سے بات کرنا اور میں اس بات کو کبھی نہیں سمجھ سکا کہ کسی ہسپتال کا عملہ ہمیں کٹھور کیوں لگتا ہے۔ جب کوئی ہمارا مریض ہسپتال میں ہوتا ہے تو عملہ ہمارے دکھ کو کیوں نہیں سمجھتا۔ ہمیں کیوں لگتا ہے کہ انہیں کچھ زیادہ ہمدردانہ رویہ رکھنا چاہیئے۔ ہمیں ان کی بات جو بظاہر شاید نارمل ہوتی ہے سخت کیوں لگتی ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہسپتال کے عملے کے لئے مریض روز کا معمول ہے۔ جسے وہ ایک روٹین سمجھتے ہیں۔ جب کہ جب ہم بیمار ہوں یا ہمارا قریبی عزیز، تو ہمارے لئے جذبات الگ ہوتے ہیں۔ اب آپ یہ دیکھئے کہ جب عید قربان پر آپ خود جانور ذبح کرتے ہیں تو کیسا محسوس ہوتا ہے اور جب قصائی ذبح کرے تو قصائی کے کیا محسوسات ہوں گے؟
پسِ نوشت: طبی عملے اور قصائی میں ہرگز ہرگز کوئی مشابہت تلاش نہ کی جائے :)
 

شمشاد

لائبریرین
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ پوری دنیا میں اسلامی ریاست اس وقت کہیں بھی موجود نہیں۔ جہاں ہے تو وہاں بادشاہت کی قباحت موجود ہے یا پھر جمہوریت کے نام پر مذاق
سعودی عرب میں ڈنڈے کے زور پر زکوۃ وصول کی جاتی ہے۔

ہر کمپنی کو کسی نہ کسی معاملے میں حکومت سے اکثر واسطہ پڑتا ہے۔ اور اکثر معاملوں میں کاغذات کے ساتھ زکوۃ سرٍٹیفیکیٹ لازمی جمع کروانا ہوتا ہے۔ زکوۃ سرٹیفیکیٹ منسلک نہ ہو تو تمام کام ٹھپ ہو کر رہ جاتا ہے۔
 
Top