تین کی کسوٹی

شمشاد

لائبریرین
جزاک اللہ خیر شمشاد بھائی ایک بات کرنے کو دل چاہتا ہے آپ کے ساتھ لیکن یہاں شاید مناسب نہیں کیونکہ مجھے شاید اچھے طریقہ سے بات کرنا اور میں اس بات کو کبھی نہیں سمجھ سکا کہ کسی ہسپتال کا عملہ ہمیں کٹھور کیوں لگتا ہے۔ جب کوئی ہمارا مریض ہسپتال میں ہوتا ہے تو عملہ ہمارے دکھ کو کیوں نہیں سمجھتا۔ ہمیں کیوں لگتا ہے کہ انہیں کچھ زیادہ ہمدردانہ رویہ رکھنا چاہیئے۔ ہمیں ان کی بات جو بظاہر شاید نارمل ہوتی ہے سخت کیوں لگتی ہے۔
خالد بھائی ہسپتال کا عملہ ہر وقت مریضوں میں گھرا رہتا ہے۔ ان کے احساسات بدل جاتے ہیں۔ کچھ لوگ خون دیکھ بھی نہیں سکتے اور ہسپتال والے چیر پھاڑ بھی ایسے کرتے ہیں جیسے کوئی دلچسپ کام کر رہے ہوں۔

میں آپ کو ایک واقعہ سناؤں، میں ایک ہسپتال میں آپریٹر تھا اور میری رات کی ڈیوٹی تھی۔ ہسپتال میں ایک چھوٹا سا بچہ لایا گیا، ایک سال سے کم عمر تھا۔ اسے سینے کی کوئی تکلیف تھی۔ ڈاکٹر نے آپریشن تجویز کیا۔ بچے کو ضروری ٹیسٹوں کے بعد آپریشن ٹھیٹر میں منتقل کیا گیا۔ آپریشن ٹھیٹر کے عملے نے ضروری انتظامات مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹر کو اطلاع دی۔ ڈاکٹر جب آپریشن کرنے آیا تو بچے کو سانس کی تکلیف ہو گئی۔ ڈاکٹر نے عملے کو مناسب ہدایات دیں اور کہا کہ جب بچے کا سانس نارمل ہو جائے تو مجھے بلا لیا جائے۔ ساری رات دو نرسیں بچے کے ساتھ آپریشن تھیٹر میں اس کے دائیں بائیں بیٹھی رہیں۔ ظاہر ہے آپس میں گپ شپ کرتی رہیں۔ اور بچے کے والدین ساری رات آپریشن تھیٹر کے باہر اس کی زندگی کی دعائیں مانگتے رہے۔ یہ ان کا اکلوتا بچہ تھا اور شادی کے کافی عرصہ بعد پیدا ہوا تھا۔ بچہ سانس کی تکلیف سے جانبر نہ ہو سکا اور صبح کے وقت اس کی وفات ہو گئی۔

آپ بچے کے والدین کی حالت کا اندازہ نہیں کر سکتے کہ ان پر کیا بیتی۔ بچے کا والد کچھ حوصلہ مند تھا لیکن ماں کا حال دیکھا نہیں جاتا تھا۔

دوسری طرف ہسپتال کا وہی عملہ بچے کی لاش کو ضروری کاروائی کے بعد ان کے حوالے کرنے کے بعد بالکل ایسے تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اس پوسٹ کو اپنے رسک پر پڑھیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ برداشت نہ کر سکیں

دوسری جنگِ عظیم میں جاپانیوں نے انسانوں پر تجربات کرنا شروع کئے تھے جو عموماً جنگی قیدیوں پر ہوتے تھے۔ ایک ڈاکٹر بتا رہا تھا کہ یہ سارے تجربات بشمول آپریشن بغیر کسی نشے کے ہوتے تھے اور جس پر آپریشن ہونا ہوتا تھا، اسے صرف باندھ دیا جاتا تھا۔ وہ ڈاکٹر کہتا ہے کہ پہلی بار اسے یہ کام کرتے انتہائی نفرت محسوس ہوئی لیکن دو یا تین بار کے بعد اس نے توجہ دینا چھوڑ دی تھی کہ جس پر آپریشن ہو رہا ہے، اسے کتنی تکلیف ہو رہی ہوگی یا اس کے کیا محسوسات ہوں گے۔ یعنی روٹین کا کام بن کر رہ گیا تھا۔ اسی طرح آج بھی چین اور چند دیگر ممالک میں زندہ کتوں اور دیگر جانوروں کی کھال اتاری جاتی ہے، انہیں زندہ بوری میں بند کر کے ابلتے پانی کے کڑھاؤ میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یو ٹیوب پر سوشی بنانے کے لئے ایک شیف کو دکھایا گیا کہ اس نے مچھلی کو پکڑا، اس کے ایک طرف کا سارا گوشت فلٹ کی شکل میں کاٹ کر اسے پھر اکویرئم میں ڈال دیا اور وہ بے چاری تیرنے لگ گئی اور پتہ نہیں کیا کیا۔ یہ فعل کرنے والے کی شکل سے ذرا بھی نہیں لگتا کہ وہ کوئی غیر انسانی فعل کر رہا ہے :(
 
Top