نیرنگ خیال

لائبریرین
ایک بہت پرانا دور تھا

ایک بہت پرانا دور تھا۔ اتنا پرانا کہ پرانے لوگ بھی اس کو پرانا کہتے تھے۔ ایسے ہی ایک دور میں دو دوست کہیں جا رہے تھے۔ اس دور کی خاص بات یہ بھی تھی کہ کہیں بھی جایا جا سکتا تھا۔ کوئی پوچھتا نہ تھا کہ کہیں سے کیا مراد ہے؟ آج کے دور کی طرح سوال جواب نہیں ہوتے تھے کہ کہیں بھی جاؤ تو بتا کر جاؤ ، کہاں جا رہے ہو۔ بس کہیں کا مقصد کہیں ہوتا تھا۔ ایسے جانے والے دوست کبھی تو چند دن میں لوٹ آیا کرتے تھے۔ اور کبھی مدتوں نہیں لوٹا کرتے تھے۔ بس راہ جانے والوں کو لوٹا کرتے تھے۔ اور اس رقم سے سرائے بنوا کر غریبوں کو مفت دعائیں اور امیروں کو روپے لے کر کھانا دیا کرتے تھے۔ یہ دو دوست بھی حالات سے ننگ، گھر والوں کے ہاتھوں تنگ کہیں کو چل پڑے۔ کہیں تو کوئی بھی جا سکتا تھا۔ اس کے لیے اسبابِ راہ و سواری وغیرہ کی کوئی ضرورت نہ ہوتی تھی۔ یا اگر ہوتی تھی تو پرانے حکایت بیان کرنے والے اس کو اضافی سمجھتے تھے۔ سو ہم بھی طول نہیں کھینچتے۔
ہاں تو ہم تذکرہ کر رہے تھے ان دوستوں کا۔ جو کہیں نکل پڑے تھے۔ راہ میں ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کرتے وقت کٹ رہا تھا کہ مذاق کرتے کرتے دونوں سنجیدہ ہوگئے۔اورتاریخ شاہد ہے کہ جب جب لوگ سنجیدہ ہوئے ہیں۔ لڑے ہیں۔ سو اسی روایت کو قائم رکھنے کو یہ دونوں بھی لڑ پڑے۔ جب ایک نے دیکھا کہ دوسرا زبانی اس پر بھاری پڑ رہا ہے تو اس نے دوسرے کے منہ پر ایک شاندار قسم کا طمانچہ رسید کر دیا۔ گاؤں یا محلہ ہوتا تولڑائی خوب بڑھ جاتی تاوقتیکہ کوئی تیسرا آکر سمجھاتا، یا پھر فوراً کوئی بیچ بچاؤ کرانے آ پہنچتا۔لیکن وہاں پر کوئی بھی نہیں تھا اور اس بات کا دونوں کو بخوبی ادراک تھا۔ لہذا دوسرے دوست نےجو صحت میں بھی کمزور تھا لڑ کر خود کو تھکانے اور مزید مار کھانے کی بجائے ریت پر لکھ دیا ۔ آج میرے کمینے، رذیل اور منحوس دوست نے میرے منہ پر تھپڑ مارا۔ باقی دل پر کیا لکھاکیا نہیں۔ اس کو پڑھنے یا جاننے کا راوی کے پاس کوئی وسیلہ نہیں۔ گرچہ کچھ پرانے حکایتی بیان کرتے ہیں کہ اس نے یہ بات دل پر پکی ووٹروں والی سیاہی سے لکھ لی تھی۔ لیکن محض ایک مبہم تاریخی حوالے کی وجہ سےہم کسی کے دل میں جھانکنے کا دعواٰ کرنا نہیں چاہتے۔
اس کے بعد دونوں آگے چل پڑے۔ کچھ دیر خاموش رہےلیکن کب تک خاموش رہتےکہ بات کرنے کو تیسرا تو کوئی تھا نہیں۔ سو انہوں نے سوچا کہ بجائے منہ خراب کر کے پڑے رہنے کے کیوں نہ بات چیت کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ وہ دوست جس نے تھپڑ مارا تھا۔اس نے کہا یار دیکھ! ارادہ تھپڑ مارنے کا نہیں تھا۔ لیکن تو ایک غصیلی بیگم کی طرح بےتکان بولے چلا جا رہا تھا اور تجھے تو یہ بھی معلوم ہے کہ تو زبان دراز ہے اور میں ہتھ چھٹ ہوں۔ اور ہاتھ قابو میں نہیں رکھ سکتا۔ سو تجھےچپ کرانے کو ایک لگانی پڑی۔ اس بات پر دل میلا نہ کر۔ اپنے پاس تو کپڑے دھونے کو کوئی چیز نہیں۔ دل کہاں سے دھوتے پھریں گے۔ دوسرے دوست نے بظاہر ایک مسکان اور چند مغلّظات اس کے قصیدے میں پڑھ کر ظاہر کیا کہ وہ ناراض نہیں ہے۔
آگے جاتے جاتے دونوں ایک دریا کنارے تک جا پہنچے۔ تھپڑ کھانے والا دوست طبیعت بحال کرنے کو دریا میں اتر گیا۔ بیوقوف آدمی تھا۔ جب تیرنا نہیں آتا۔ تو دریا میں اترنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی تھی۔ لیکن اتر گیا۔ ایک شوخ و چنچل لہر اس پر عاشق ہوگئی اور اس نے فورا سے پہلے اس کو آغوش میں آچھپایا یوں کہ وہ اس کے وجود میں یوں ڈوب جائے کہ اس کے سوا نہ کچھ دیکھ سکے اور نہ سوچ سکے۔ اور حقیقت میں نہ سانس لے سکے نہ آہ بھر سکے۔ عجب بیگم مزاج لہر تھی۔ وہ اس کی شوخی کی تاب نہ لا سکا۔ اور لگا اس کی آغوش میں ڈبکیاں لگانے لگا گویا فنا فی اللہر کی منازل طے کر رہا ہو۔دوسرے دوست نے جب اس کو ڈبکیاں کھاتے دیکھا۔ توایک نعرہ مارا۔ اوئے مریں نا۔ میں آیا۔ چھلانگ ماری اور اس کوسر کے بالوں سے پکڑ کر کنارے کی طرف کھینچنے۔ اور آخر کار اس کو باہر کھینچ لانے میں کامیاب ہوگیا۔
کچھ دیر بعد جب ڈوبتے دوست کے حواس درست ہوئے۔ تو اس نے ہتھوڑی اور کیل کی تلاش شروع کی۔ لیکن اس بیابان میں کیل ہتھوڑی کہاں سے آتی۔ آخر ایک گھوڑے کی نعل اس کے ہاتھ لگ گئی۔ اور اس نے اسی کی مدد سے ایک پتھر پر لکھ دیا۔ کہ آج میرے سب سے کمینے دوست نے میری جان بچائی۔ دل والی بات پر ہم دوبارہ کوئی بیان دینے سے خود کو معذور پاتے ہیں۔
پہلا ہتھ چھٹ دوست یہ حرکت دیکھ کر مسکرایا اور کہنے لگا کہ پہلی بار تو نے ریت پر لکھالیکن تیرے دل کاغبار ہلکا نہیں ہوا۔ بلکہ تو اب مجھے سب کے سامنے گالیوں سے نوازنے کا منصوبہ بنائے بیٹھا ہے خیر! مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ دوسری بار تو نے پتھر پر لکھ دیا۔ لیکن اس بات کا تذکرہ تو سب کے سامنے بےعزت کرنے کے بعد گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کو کرے گا۔ یہ پرانی حکایتوں والی ڈرامہ بازی کر کے تو کیا ثابت کرنا چاہ رہا ہے۔ یہ بات سن کر دوسرا دوست ہنسنے لگ پڑا۔ اور کہنے لگا کہ آہ! تو کتنا ٹھنڈا کمینہ ہے۔ یہ بات سن کر پہلا بھی ہنسنے لگ پڑا اور کہنے لگا کہ جب تجھے معلوم ہے کہ مجھے سب معلوم ہے تو بلاوجہ سائنسدان کیوں بن رہا ہے۔ اور وہ دونوں ہنسی خوشی "کہیں" کے راستے پر گامزن ہوگئے۔
اخلاقی سبق: یہ دو دوستوں کی روزمرہ بکواس کی داستان ہے۔ اس میں سے اخلاقی سبق ڈھونڈنا دورجدید کی اداکاراؤں کے جسم پر لباس ڈھونڈنے کے مترادف ہے۔ سو بلاوجہ زحمت مت کیجیے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ایک بہت پرانا دور تھا

ایک بہت پرانا دور تھا۔ اتنا پرانا کہ پرانے لوگ بھی اس کو پرانا کہتے تھے۔ ایسے ہی ایک دور میں دو دوست کہیں جا رہے تھے۔ اس دور کی خاص بات یہ بھی تھی کہ کہیں بھی جایا جا سکتا تھا۔ کوئی پوچھتا نہ تھا کہ کہیں سے کیا مراد ہے؟ آج کے دور کی طرح سوال جواب نہیں ہوتے تھے کہ کہیں بھی جاؤ تو بتا کر جاؤ ، کہاں جا رہے ہو۔ بس کہیں کا مقصد کہیں ہوتا تھا۔ ایسے جانے والے دوست کبھی تو چند دن میں لوٹ آیا کرتے تھے۔ اور کبھی مدتوں نہیں لوٹا کرتے تھے۔ بس راہ جانے والوں کو لوٹا کرتے تھے۔ اور اس رقم سے سرائے بنوا کر غریبوں کو مفت دعائیں اور امیروں کو روپے لے کر کھانا دیا کرتے تھے۔ یہ دو دوست بھی حالات سے ننگ، گھر والوں کے ہاتھوں تنگ کہیں کو چل پڑے۔ کہیں تو کوئی بھی جا سکتا تھا۔ اس کے لیے اسبابِ راہ و سواری وغیرہ کی کوئی ضرورت نہ ہوتی تھی۔ یا اگر ہوتی تھی تو پرانے حکایت بیان کرنے والے اس کو اضافی سمجھتے تھے۔ سو ہم بھی طول نہیں کھینچتے۔
ہاں تو ہم تذکرہ کر رہے تھے ان دوستوں کا۔ جو کہیں نکل پڑے تھے۔ راہ میں ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کرتے وقت کٹ رہا تھا کہ مذاق کرتے کرتے دونوں سنجیدہ ہوگئے۔اورتاریخ شاہد ہے کہ جب جب لوگ سنجیدہ ہوئے ہیں۔ لڑے ہیں۔ سو اسی روایت کو قائم رکھنے کو یہ دونوں بھی لڑ پڑے۔ جب ایک نے دیکھا کہ دوسرا زبانی اس پر بھاری پڑ رہا ہے تو اس نے دوسرے کے منہ پر ایک شاندار قسم کا طمانچہ رسید کر دیا۔ گاؤں یا محلہ ہوتا تولڑائی خوب بڑھ جاتی تاوقتیکہ کوئی تیسرا آکر سمجھاتا، یا پھر فوراً کوئی بیچ بچاؤ کرانے آ پہنچتا۔لیکن وہاں پر کوئی بھی نہیں تھا اور اس بات کا دونوں کو بخوبی ادراک تھا۔ لہذا دوسرے دوست نےجو صحت میں بھی کمزور تھا لڑ کر خود کو تھکانے اور مزید مار کھانے کی بجائے ریت پر لکھ دیا ۔ آج میرے کمینے، رذیل اور منحوس دوست نے میرے منہ پر تھپڑ مارا۔ باقی دل پر کیا لکھاکیا نہیں۔ اس کو پڑھنے یا جاننے کا راوی کے پاس کوئی وسیلہ نہیں۔ گرچہ کچھ پرانے حکایتی بیان کرتے ہیں کہ اس نے یہ بات دل پر پکی ووٹروں والی سیاہی سے لکھ لی تھی۔ لیکن محض ایک مبہم تاریخی حوالے کی وجہ سےہم کسی کے دل میں جھانکنے کا دعواٰ کرنا نہیں چاہتے۔
اس کے بعد دونوں آگے چل پڑے۔ کچھ دیر خاموش رہےلیکن کب تک خاموش رہتےکہ بات کرنے کو تیسرا تو کوئی تھا نہیں۔ سو انہوں نے سوچا کہ بجائے منہ خراب کر کے پڑے رہنے کے کیوں نہ بات چیت کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ وہ دوست جس نے تھپڑ مارا تھا۔اس نے کہا یار دیکھ! ارادہ تھپڑ مارنے کا نہیں تھا۔ لیکن تو ایک غصیلی بیگم کی طرح بےتکان بولے چلا جا رہا تھا اور تجھے تو یہ بھی معلوم ہے کہ تو زبان دراز ہے اور میں ہتھ چھٹ ہوں۔ اور ہاتھ قابو میں نہیں رکھ سکتا۔ سو تجھےچپ کرانے کو ایک لگانی پڑی۔ اس بات پر دل میلا نہ کر۔ اپنے پاس تو کپڑے دھونے کو کوئی چیز نہیں۔ دل کہاں سے دھوتے پھریں گے۔ دوسرے دوست نے بظاہر ایک مسکان اور چند مغلّظات اس کے قصیدے میں پڑھ کر ظاہر کیا کہ وہ ناراض نہیں ہے۔
آگے جاتے جاتے دونوں ایک دریا کنارے تک جا پہنچے۔ تھپڑ کھانے والا دوست طبیعت بحال کرنے کو دریا میں اتر گیا۔ بیوقوف آدمی تھا۔ جب تیرنا نہیں آتا۔ تو دریا میں اترنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی تھی۔ لیکن اتر گیا۔ ایک شوخ و چنچل لہر اس پر عاشق ہوگئی اور اس نے فورا سے پہلے اس کو آغوش میں آچھپایا یوں کہ وہ اس کے وجود میں یوں ڈوب جائے کہ اس کے سوا نہ کچھ دیکھ سکے اور نہ سوچ سکے۔ اور حقیقت میں نہ سانس لے سکے نہ آہ بھر سکے۔ عجب بیگم مزاج لہر تھی۔ وہ اس کی شوخی کی تاب نہ لا سکا۔ اور لگا اس کی آغوش میں ڈبکیاں لگانے لگا گویا فنا فی اللہر کی منازل طے کر رہا ہو۔دوسرے دوست نے جب اس کو ڈبکیاں کھاتے دیکھا۔ توایک نعرہ مارا۔ اوئے مریں نا۔ میں آیا۔ چھلانگ ماری اور اس کوسر کے بالوں سے پکڑ کر کنارے کی طرف کھینچنے۔ اور آخر کار اس کو باہر کھینچ لانے میں کامیاب ہوگیا۔
کچھ دیر بعد جب ڈوبتے دوست کے حواس درست ہوئے۔ تو اس نے ہتھوڑی اور کیل کی تلاش شروع کی۔ لیکن اس بیابان میں کیل ہتھوڑی کہاں سے آتی۔ آخر ایک گھوڑے کی نعل اس کے ہاتھ لگ گئی۔ اور اس نے اسی کی مدد سے ایک پتھر پر لکھ دیا۔ کہ آج میرے سب سے کمینے دوست نے میری جان بچائی۔ دل والی بات پر ہم دوبارہ کوئی بیان دینے سے خود کو معذور پاتے ہیں۔
پہلا ہتھ چھٹ دوست یہ حرکت دیکھ کر مسکرایا اور کہنے لگا کہ پہلی بار تو نے ریت پر لکھالیکن تیرے دل کاغبار ہلکا نہیں ہوا۔ بلکہ تو اب مجھے سب کے سامنے گالیوں سے نوازنے کا منصوبہ بنائے بیٹھا ہے خیر! مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ دوسری بار تو نے پتھر پر لکھ دیا۔ لیکن اس بات کا تذکرہ تو سب کے سامنے بےعزت کرنے کے بعد گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کو کرے گا۔ یہ پرانی حکایتوں والی ڈرامہ بازی کر کے تو کیا ثابت کرنا چاہ رہا ہے۔ یہ بات سن کر دوسرا دوست ہنسنے لگ پڑا۔ اور کہنے لگا کہ آہ! تو کتنا ٹھنڈا کمینہ ہے۔ یہ بات سن کر پہلا بھی ہنسنے لگ پڑا اور کہنے لگا کہ جب تجھے معلوم ہے کہ مجھے سب معلوم ہے تو بلاوجہ سائنسدان کیوں بن رہا ہے۔ اور وہ دونوں ہنسی خوشی "کہیں" کے راستے پر گامزن ہوگئے۔
اخلاقی سبق: یہ دو دوستوں کی روزمرہ بکواس کی داستان ہے۔ اس میں سے اخلاقی سبق ڈھونڈنا دورجدید کی اداکاراؤں کے جسم پر لباس ڈھونڈنے کے مترادف ہے۔ سو بلاوجہ زحمت مت کیجیے۔

:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:

ٹھنڈا کمینہ :laughing:

کیا بات ہے۔ سبق ہی سبق بھرے ہوئے ہیں اس داستان میں ۔ :)

واہ جی واہ ۔۔۔۔! کیا بات ہے۔ :thumbsup:
 

فلک شیر

محفلین
ایک بہت پرانا دور تھا

ایک بہت پرانا دور تھا۔ اتنا پرانا کہ پرانے لوگ بھی اس کو پرانا کہتے تھے۔ ایسے ہی ایک دور میں دو دوست کہیں جا رہے تھے۔ اس دور کی خاص بات یہ بھی تھی کہ کہیں بھی جایا جا سکتا تھا۔ کوئی پوچھتا نہ تھا کہ کہیں سے کیا مراد ہے؟ آج کے دور کی طرح سوال جواب نہیں ہوتے تھے کہ کہیں بھی جاؤ تو بتا کر جاؤ ، کہاں جا رہے ہو۔ بس کہیں کا مقصد کہیں ہوتا تھا۔ ایسے جانے والے دوست کبھی تو چند دن میں لوٹ آیا کرتے تھے۔ اور کبھی مدتوں نہیں لوٹا کرتے تھے۔ بس راہ جانے والوں کو لوٹا کرتے تھے۔ اور اس رقم سے سرائے بنوا کر غریبوں کو مفت دعائیں اور امیروں کو روپے لے کر کھانا دیا کرتے تھے۔ یہ دو دوست بھی حالات سے ننگ، گھر والوں کے ہاتھوں تنگ کہیں کو چل پڑے۔ کہیں تو کوئی بھی جا سکتا تھا۔ اس کے لیے اسبابِ راہ و سواری وغیرہ کی کوئی ضرورت نہ ہوتی تھی۔ یا اگر ہوتی تھی تو پرانے حکایت بیان کرنے والے اس کو اضافی سمجھتے تھے۔ سو ہم بھی طول نہیں کھینچتے۔
ہاں تو ہم تذکرہ کر رہے تھے ان دوستوں کا۔ جو کہیں نکل پڑے تھے۔ راہ میں ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کرتے وقت کٹ رہا تھا کہ مذاق کرتے کرتے دونوں سنجیدہ ہوگئے۔اورتاریخ شاہد ہے کہ جب جب لوگ سنجیدہ ہوئے ہیں۔ لڑے ہیں۔ سو اسی روایت کو قائم رکھنے کو یہ دونوں بھی لڑ پڑے۔ جب ایک نے دیکھا کہ دوسرا زبانی اس پر بھاری پڑ رہا ہے تو اس نے دوسرے کے منہ پر ایک شاندار قسم کا طمانچہ رسید کر دیا۔ گاؤں یا محلہ ہوتا تولڑائی خوب بڑھ جاتی تاوقتیکہ کوئی تیسرا آکر سمجھاتا، یا پھر فوراً کوئی بیچ بچاؤ کرانے آ پہنچتا۔لیکن وہاں پر کوئی بھی نہیں تھا اور اس بات کا دونوں کو بخوبی ادراک تھا۔ لہذا دوسرے دوست نےجو صحت میں بھی کمزور تھا لڑ کر خود کو تھکانے اور مزید مار کھانے کی بجائے ریت پر لکھ دیا ۔ آج میرے کمینے، رذیل اور منحوس دوست نے میرے منہ پر تھپڑ مارا۔ باقی دل پر کیا لکھاکیا نہیں۔ اس کو پڑھنے یا جاننے کا راوی کے پاس کوئی وسیلہ نہیں۔ گرچہ کچھ پرانے حکایتی بیان کرتے ہیں کہ اس نے یہ بات دل پر پکی ووٹروں والی سیاہی سے لکھ لی تھی۔ لیکن محض ایک مبہم تاریخی حوالے کی وجہ سےہم کسی کے دل میں جھانکنے کا دعواٰ کرنا نہیں چاہتے۔
اس کے بعد دونوں آگے چل پڑے۔ کچھ دیر خاموش رہےلیکن کب تک خاموش رہتےکہ بات کرنے کو تیسرا تو کوئی تھا نہیں۔ سو انہوں نے سوچا کہ بجائے منہ خراب کر کے پڑے رہنے کے کیوں نہ بات چیت کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ وہ دوست جس نے تھپڑ مارا تھا۔اس نے کہا یار دیکھ! ارادہ تھپڑ مارنے کا نہیں تھا۔ لیکن تو ایک غصیلی بیگم کی طرح بےتکان بولے چلا جا رہا تھا اور تجھے تو یہ بھی معلوم ہے کہ تو زبان دراز ہے اور میں ہتھ چھٹ ہوں۔ اور ہاتھ قابو میں نہیں رکھ سکتا۔ سو تجھےچپ کرانے کو ایک لگانی پڑی۔ اس بات پر دل میلا نہ کر۔ اپنے پاس تو کپڑے دھونے کو کوئی چیز نہیں۔ دل کہاں سے دھوتے پھریں گے۔ دوسرے دوست نے بظاہر ایک مسکان اور چند مغلّظات اس کے قصیدے میں پڑھ کر ظاہر کیا کہ وہ ناراض نہیں ہے۔
آگے جاتے جاتے دونوں ایک دریا کنارے تک جا پہنچے۔ تھپڑ کھانے والا دوست طبیعت بحال کرنے کو دریا میں اتر گیا۔ بیوقوف آدمی تھا۔ جب تیرنا نہیں آتا۔ تو دریا میں اترنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی تھی۔ لیکن اتر گیا۔ ایک شوخ و چنچل لہر اس پر عاشق ہوگئی اور اس نے فورا سے پہلے اس کو آغوش میں آچھپایا یوں کہ وہ اس کے وجود میں یوں ڈوب جائے کہ اس کے سوا نہ کچھ دیکھ سکے اور نہ سوچ سکے۔ اور حقیقت میں نہ سانس لے سکے نہ آہ بھر سکے۔ عجب بیگم مزاج لہر تھی۔ وہ اس کی شوخی کی تاب نہ لا سکا۔ اور لگا اس کی آغوش میں ڈبکیاں لگانے لگا گویا فنا فی اللہر کی منازل طے کر رہا ہو۔دوسرے دوست نے جب اس کو ڈبکیاں کھاتے دیکھا۔ توایک نعرہ مارا۔ اوئے مریں نا۔ میں آیا۔ چھلانگ ماری اور اس کوسر کے بالوں سے پکڑ کر کنارے کی طرف کھینچنے۔ اور آخر کار اس کو باہر کھینچ لانے میں کامیاب ہوگیا۔
کچھ دیر بعد جب ڈوبتے دوست کے حواس درست ہوئے۔ تو اس نے ہتھوڑی اور کیل کی تلاش شروع کی۔ لیکن اس بیابان میں کیل ہتھوڑی کہاں سے آتی۔ آخر ایک گھوڑے کی نعل اس کے ہاتھ لگ گئی۔ اور اس نے اسی کی مدد سے ایک پتھر پر لکھ دیا۔ کہ آج میرے سب سے کمینے دوست نے میری جان بچائی۔ دل والی بات پر ہم دوبارہ کوئی بیان دینے سے خود کو معذور پاتے ہیں۔
پہلا ہتھ چھٹ دوست یہ حرکت دیکھ کر مسکرایا اور کہنے لگا کہ پہلی بار تو نے ریت پر لکھالیکن تیرے دل کاغبار ہلکا نہیں ہوا۔ بلکہ تو اب مجھے سب کے سامنے گالیوں سے نوازنے کا منصوبہ بنائے بیٹھا ہے خیر! مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ دوسری بار تو نے پتھر پر لکھ دیا۔ لیکن اس بات کا تذکرہ تو سب کے سامنے بےعزت کرنے کے بعد گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کو کرے گا۔ یہ پرانی حکایتوں والی ڈرامہ بازی کر کے تو کیا ثابت کرنا چاہ رہا ہے۔ یہ بات سن کر دوسرا دوست ہنسنے لگ پڑا۔ اور کہنے لگا کہ آہ! تو کتنا ٹھنڈا کمینہ ہے۔ یہ بات سن کر پہلا بھی ہنسنے لگ پڑا اور کہنے لگا کہ جب تجھے معلوم ہے کہ مجھے سب معلوم ہے تو بلاوجہ سائنسدان کیوں بن رہا ہے۔ اور وہ دونوں ہنسی خوشی "کہیں" کے راستے پر گامزن ہوگئے۔
اخلاقی سبق: یہ دو دوستوں کی روزمرہ بکواس کی داستان ہے۔ اس میں سے اخلاقی سبق ڈھونڈنا دورجدید کی اداکاراؤں کے جسم پر لباس ڈھونڈنے کے مترادف ہے۔ سو بلاوجہ زحمت مت کیجیے۔
عجب بیگم مزاج لہر تھی۔۔۔۔۔۔:LOL:۔۔۔۔۔۔میرا خیال ہے، یہ جملہ حاصل حکایت ہے بہت سے احباب کے لیے :LOL::p
بہت عمدہ لکھا نین بھائی حسب روایت :)
مزا آگیا، ویسے اخلاقی سبق والی سطر میں شافی سبق ہے کافیوں کے لیے:D
 
واہ جی واہ :)
جدتِ تراکیب میں تو آپ کا کوئی ثانی نہیں
ٹھنڈا کمینہ کی ترکیب بہت شاندار ہے :applause:
اخلاقی سبق: یہ دو دوستوں کی روزمرہ بکواس کی داستان ہے۔ اس میں سے اخلاقی سبق ڈھونڈنا دورجدید کی اداکاراؤں کے جسم پر لباس ڈھونڈنے کے مترادف ہے۔ سو بلاوجہ زحمت مت کیجیے۔
یہ سطر تو تحریر کی جان ہے
اللہ آپ کے قلم کی روانی کو یوں ہی قائم رکھے آمین
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:

ٹھنڈا کمینہ :laughing:

کیا بات ہے۔ سبق ہی سبق بھرے ہوئے ہیں اس داستان میں ۔ :)

واہ جی واہ ۔۔۔۔! کیا بات ہے۔ :thumbsup:
ہاہاہاہااااا۔۔۔۔ ایک اور رمز بھی ہیں۔ پھر کسی حکایت میں وہ بھی سہی۔۔۔ :p
شکریہ احمد بھائی۔۔ :)

عجب بیگم مزاج لہر تھی۔۔۔۔۔۔:LOL:۔۔۔۔۔۔میرا خیال ہے، یہ جملہ حاصل حکایت ہے بہت سے احباب کے لیے :LOL::p
بہت عمدہ لکھا نین بھائی حسب روایت :)
مزا آگیا، ویسے اخلاقی سبق والی سطر میں شافی سبق ہے کافیوں کے لیے:D
بڑی عارفانہ نظر ہے آپ کی۔۔۔ :p
شکریہ فلک شیر بھائی۔۔۔۔ اخلاقی سبق سے سبق لازمی ملنا چاہیے۔ ورنہ بغیر سبق کے حکایت نیلم کی لکھی حکایت لگتی ہے۔۔ :p

زبردست۔ ایک اور چوندا چوندا شاہکار :)
شکریہ قیصرانی بھائی۔۔۔ :)

واہ جی واہ :)
جدتِ تراکیب میں تو آپ کا کوئی ثانی نہیں
ٹھنڈا کمینہ کی ترکیب بہت شاندار ہے :applause:
اخلاقی سبق: یہ دو دوستوں کی روزمرہ بکواس کی داستان ہے۔ اس میں سے اخلاقی سبق ڈھونڈنا دورجدید کی اداکاراؤں کے جسم پر لباس ڈھونڈنے کے مترادف ہے۔ سو بلاوجہ زحمت مت کیجیے۔
یہ سطر تو تحریر کی جان ہے
اللہ آپ کے قلم کی روانی کو یوں ہی قائم رکھے آمین
شکریہ شاہ جی۔۔۔ :)
اظہار خیال اور حوصلہ افزائی پر ممنون ہوں۔ (یاد رہے کہ یہ صدارتی نہیں)

شکریہ نیلم۔ بہت عرصہ بعد آنا ہوا۔ کیسی ہو۔

شکریہ مانو ۔۔۔ :)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ٹھنڈا کمینہ
بیگم مزاج لہر
یہ دو دوستوں کی روزمرہ بکواس کی داستان ہے۔ اس میں سے اخلاقی سبق ڈھونڈنا دورجدید کی اداکاراؤں کے جسم پر لباس ڈھونڈنے کے مترادف ہے۔ سو بلاوجہ زحمت مت کیجیے۔
واہ واہ واہ
قبلہ کیا شاہکار لائنیں ہیں بلکہ punch lines ہیں ۔
مزہ آ گیا۔
ہنس ہنس کے میرا برا حال ہو گیا ہے۔
:) :) :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
عدل زنجیری
(عدل و انصاف کی تاریخ، مثالوں کے جھروکوں سے)​

پرانے دور کی بات ہے۔جب ملوکیت کا رواج عام تھا۔ ویسے تو آج کل بھی ملوکیت ہے۔ خاندان در خاندان حکومت چلتی ہے۔ لیکن اس دور میں خاندان بھی نہ بدلا جاتا تھا۔ اور ایک ہی خاندان حکومت میں رہتا تھا۔ ملوکیت بڑی ظالم چیز ہوتی تھی۔شہزادوں کی چالاکی اور سازباز کاامتحان ہوتی تھی۔ چاہے بادشاہت میں کسی کو دلچسپی ہو یا نہ ہو۔ لیکن بادشاہ بننا بہت ضروری ہوتا تھا کیوں کہ یہ زندگی کی ضمانت تھا۔ یہ روایت بھی تھی اور ضرورت بھی، سو کوئی بھی اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایکبار ایک شہزادے نے والد یعنی بادشاہ کے مرنے کے بعد اپنے بھائی سے بہت کہا کہ مجھے بادشاہت میں کوئی دلچسپی نہیں۔ لیکن بڑے بھائی نے کہا کہ دلچسپی ہو یا نہ ہو۔ میں پرکھو ں کی روایت سے منہ نہیں موڑ سکتا۔ اور یہ کہہ کر چھوٹے بھائی کا منہ اس کی کمر کی طرف موڑ دیا۔ جبکہ بعض روایات کے مطابق یہ کوئی سوچا سمجھا قتل نہ تھا بلکہ چھوٹا بھائی کمزور تھا۔ جب یہ بات سن کر بڑے بھائی نے خوشی سے اس کو بھینچا تو اس کی ناتواں پسلیوں نے بھی آپس میں معانقہ کر لیا۔ واللہ اعلم

ہاں تو روایت و ولایت پسندی کے اس دور میں ایک شہزادہ تھا۔ بہت نیک، دیندار اور محنتی۔ حقوق العباد میں قرابت داروں اور والدین کے حقوق کو چھوڑ کر باقی سب پر انتہائی سختی سے عمل پیرا رہا کرتا تھا۔ بادشاہ بننے کا شوق تھا، اورچونکہ تاریخ کا یعنی اپنے ہی خاندان کا مطالعہ وسیع تھا؛ اس لیے اس بات سے بھی آشنا تھا کہ اگر لمبی عمر چاہتے ہو تو بھائیوں کی عمر مختصر کردو۔ لیکن اس کی زندگی میں ایک اور بڑا مسئلہ تھا۔ اور وہ تھا کہ اس کے باپ کے نہ مرنے کا۔ شہزادہ اس غم میں دبلا ہو رہا تھا کہ اگر باپ یوں ہی زندہ رہا تو وہ خود ضرور علیل ہو کر دنیا سے رخصت ہوجائے گا۔آخر دن رات کی عبادات رنگ لائیں اور خبر ملی کہ باپ بہت علیل ہے۔ دل غم سے اور ذہن باقی بھائیوں کے خاتمے کے متعلق منصوبوں سے بھر گیا۔ اُدھر بڑا بھائی معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے لگا، یہ دیکھ کر دل بھر آیا۔ اور اپنے ایک ہم نوا سے کہا کہ دین کی سربلندی کے لئے اور بہتر امور مملکت چلانے کے لیے بھائی کو چند مشورے دینے بہت ضروری ہو گئے ہیں۔ چند احباب کے ساتھ جب بھائی کو ملنے پہنچا تو وہ کم فہم اسے کوئی سازش سمجھا اور اس کو خود پر لشکرکشی تصور کیا۔ اس غلط فہمی کی وجہ سے اس نے صفیں درست کر لیں جس کی وجہ سے مجبوراً لڑائی کا ماحول بن گیا۔ احباب کچھ زیادہ تھے سو چھوٹے بھائی کو فتح نصیب ہوگئی۔ اس چھوٹی سی لڑائی کے بعد جب دارالحکومت پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ باپ تو ابھی زندہ سلامت ہے۔ جوان بھائی موت اخترامی کا زخم ابھی تازہ تھا کہ باپ کی نربل حالت دیکھ کر دل اور آزردہ ہوگیا۔ یہ رنجور غم سے مخمور سہہ نہ پایا۔ اور کہا کہ باپ کو آنکھوں سے دور لے جاؤ۔ موقع پرستوں نے اس کو زندان میں ڈال دیا۔ اور اس کو کہہ دیا کہ اب وہ آپ کے سامنے نہ آئے پائے گا۔ بعد میں آنے والے مؤرخوں نے اس واقعے پر بہت زبان درازی کی۔ لیکن سچ یہ ہے کہ بادشاہ کو تو معلوم بھی نہ تھا۔تاہم بعد میں جب اس کو باپ کے شغیل رکیک کی بابت علم ہوا تو موقع پرستوں کی دور اندیشی کی داد دی۔

عوام کے حالات سے باخبر رہنے کے لیے بھیس بدل کر سفید ہاتھی پر بازاروں میں گھوما کرتا تھا۔ بادشاہ سلامت ایک دن ایسے ہی بھیس بدل کر بازار میں گھوم پھر رہے تھے کہ کیا دیکھتے ہیں۔ ایک بڑھیا زاورقطار ہنس رہی ہے۔ بادشاہ نے ماجرا پوچھا۔ تو لوگوں نے بتایا کہ اس کا بیٹا مر گیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ زاروقطار ہنستی رہتی ہے۔ معاملے کی تحقیقات کرنے پر اس لڑکے کے قتل میں چند بااثر افراد ملوث پائے گئے۔ اور مزید پتا چلا کہ بڑھیا نے بہت کوشش کی دربار تک رسائی کی۔ لیکن نہ پہنچ سکی۔ یہاں تک کہ دماغی توازن کھو بیٹھی۔ اس واقعے کا بادشاہ پر بہت اثر ہوا۔ اور اس نے سوچا کہ ایسی ترکیب سوچی جائے کہ ہر عام و خاص کی رسائی بادشاہ تک ممکن ہو سکے۔ سو تاریخ کا دوبارہ مطالعہ کرنے سے پتا چلا کہ پہلے ایک بزرگ بادشاہ گزرے ہیں۔ جنہوں نے ایک زنجیر لٹکا رکھی تھی۔ اور اس تک ہر خاص وعام کی رسائی تھی۔ لہذا زنجیر کو جدت بخشتے ہوئے اس نے ایک ساڑھے تین کلومیٹر لمبی سونے کی زنجیر بنوائی۔ جس پر اہل دربار کو گماں گزرا کہ بادشاہ بھی توازن سے گزر گیا ہے۔ آج کا دور ہوتا تو روز دو دو کڑیاں چوری چوری ہوتے ہوتے زنجیر ساڑھے تین میٹر بھی نہ رہتی۔ لیکن وہ انصاف پسند بادشاہ کا دور حکومت تھا جس میں پرندہ پر اور درندہ در تک نہیں مار سکتا تھا۔ اب معاملہ تھا اس کو بجانے کا۔ عام آدمی بجانا تو درکنار اس کو ہلانے سے بھی قاصر تھا۔ لہذا انصاف کی راہ میں ایک تین کلومیٹر زنجیر حائل ہوگئی۔ لیکن بادشاہ بڑا سیانا تھا۔ اس نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا کہ زنجیر کو بڑے بڑے ستون بنوا کر اس کے ساتھ معلق کر دیا گیا۔ بعض غیر مستند روایات کے مطابق یہ چھوٹی چھوٹی زنجیریں تھیں۔ جو ساڑھے تین کلومیٹر کے دائرہ میں لگائی گئی تھیں۔جب بھی کوئی شخص ہلاتا۔ ناقوس بج اٹھتے۔ لیکن اس میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ منطق کے پجاری کہتے کہ اس طرح تو گھنٹیاں دن رات ہوا سے بجتی ہوں گی۔ جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ "Chimes" کا رواج اس کے بعد ہی پڑا تھا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ حسن دیکھنے والی کی آنکھ، سر سننے والے کے کان اور انصاف کرنے والے کی نیت میں چھپا ہوتا ہے۔ لہذا یہاں جملہ "اعمال کا نیتوں پر دارومدار" ہی سب کا منہ بند کرنے کے لیے کافی ہے۔ بلندی کی خاص خیال رکھا گیا۔ تاکہ چھوٹے قد کے لوگ کسی احساس کمتری کا شکار ہوئے بغیر انصاف تک اپنی رسائی کو ممکن بنا سکیں۔ یہاں یہ پہلو بڑا قابل غور ہے کہ اس دور میں بچے شرارتی نہیں ہوتے تھے وگرنہ بادشاہ کا پورا دن تو گھنٹی بجانے والے کی تلاش ہی میں گزر جاتا۔مظلوم آتے اور اگر گھنٹی بجانے میں کامیاب ہوجاتے تو انصاف بھی پاتے۔ ایک دن بادشاہ سلامت محوِ استراحت تھے کہ زنجیر سے اٹھنے والا بےادب شور کسی بیگم مسلسل کی طرح بجنے لگا۔ بادشاہ سلامت فوراً بستر کو خیر آباد کہہ کر مظلوم کی داد رسی کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ چلتے چلتے ساڑھے تین کلومیٹر محل سے دور آگئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بیل کے سینگوں سے زنجیر الجھی ہے۔ اور بیچارہ اس سے جان نہیں چھڑا پا رہا۔ بیل کی حالت دیکھی تو دل غم و غصے سے بھر گیا۔ جس بیل سے ایک سونے کی زنجیر نہ ٹوٹے وہ کاہے کا بیل ہوا۔ فوراً اس کے مالک کو بلا بھیجا۔ اور جانوروں کے حقوق ادا نہ کرنے پر اس کی خوب درگت بنوائی۔ بیل کو چارہ پانی ڈالا۔ اور واپس آگئے۔ ایک انگریز شکاری جو اس وقت وہاں شکار کے لیے آیا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر بہت متاثر ہوا۔ کہتے ہیں کہ جانوروں کے تحفظ کی تنظیمیں بھی اس کے بعد وجود میں آئی تھیں۔

انصاف کا یہ عالم تھا کہ شہزادوں کو بھی کوئی استثنیٰ حاصل نہ تھا۔ہر کوئی اپنے کیے کی سزا پاتا۔ایک دن بادشاہ کا بیٹا ہاتھی پر بیٹھ کر شہر کی گلیوں سے گزر رہا تھا کہ ایک چھت پر اسے ایک لڑکی نہاتی نظر آئی۔ شہزادے نے جوانی کے نشے میں اس کو ایک پھول دے مارا۔ لڑکی نے روتے سارا ماجرا اپنے باپ کو سنایا۔ باپ بیچارہ اس زنجیر کے پاس پہنچا۔ اور ہلانے کی کوشش کرتا کرتا دہرا ہوگیا۔ آخر کار کسی صورت اس کو بجانے میں کامیاب ہوگیا۔ اور بادشاہ کے دربار تک رسائی ممکن ہوئی۔ وہاں سارا ماجرا بادشاہ کے سامنے کہا اور عرض کی۔ کہ حضور کا اقبال بلند ہو یہ حقیر اب انصاف کا طلبگار ہے۔ بادشاہ جو کہ پیکر انصاف تھا۔ اس واقعے کو سن کر گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ درباری بھی حیران پریشان کہ یاخیر، اب کیا معاملہ ہوگا! آخر بادشاہ نے بڑی دیر بعد سر اٹھایا اور کہا کہ انصاف کا تقاضا ہے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور کان کے بدلے کان۔ لہذا اس معاملے کا فیصلہ بھی انصاف اور قصاص کے تمام تقاضوں کو مدنظر رکھ کر کیا جائے گا۔ شہزادہ اب اسی چھت پر نہائے گا۔ اور لڑکی ہاتھی پر بیٹھ کر وہاں سے گزرے گی۔ اور نہاتے شہزادے کو پھول مارے گی۔ عدل وانصاف کا یہ منظر دیکھ کر اس آدمی کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اور اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ میں بدلہ لینے سے انکار کرتا ہوں۔ بادشاہ نے اس پر اس کو انعام و کرام سے نواز کر رخصت کیا۔

متعصب مؤرخین نے اس واقعے کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیا۔ جب کہ حقیقت میں فیصلہ صرف انصاف کے اصولوں کو سامنے رکھ کر کیا گیا تھا۔

اخلاقی سبق: ہمیشہ انصاف کرنا ہر مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔
 

نایاب

لائبریرین
حسب سابق اک کلاسیکل داستان ۔۔۔
اک بار پڑھنا شروع کرو تو دس بار پڑھ کر دل نہ بھرے ۔۔
ہر لفظ گویا کہ اک دبستان ۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سی دعاؤں بھری داد
 

عمر سیف

محفلین
ایک بہت پرانا دور تھا

ایک بہت پرانا دور تھا۔ اتنا پرانا کہ پرانے لوگ بھی اس کو پرانا کہتے تھے۔ ایسے ہی ایک دور میں دو دوست کہیں جا رہے تھے۔ اس دور کی خاص بات یہ بھی تھی کہ کہیں بھی جایا جا سکتا تھا۔ کوئی پوچھتا نہ تھا کہ کہیں سے کیا مراد ہے؟ آج کے دور کی طرح سوال جواب نہیں ہوتے تھے کہ کہیں بھی جاؤ تو بتا کر جاؤ ، کہاں جا رہے ہو۔ بس کہیں کا مقصد کہیں ہوتا تھا۔ ایسے جانے والے دوست کبھی تو چند دن میں لوٹ آیا کرتے تھے۔ اور کبھی مدتوں نہیں لوٹا کرتے تھے۔ بس راہ جانے والوں کو لوٹا کرتے تھے۔ اور اس رقم سے سرائے بنوا کر غریبوں کو مفت دعائیں اور امیروں کو روپے لے کر کھانا دیا کرتے تھے۔ یہ دو دوست بھی حالات سے ننگ، گھر والوں کے ہاتھوں تنگ کہیں کو چل پڑے۔ کہیں تو کوئی بھی جا سکتا تھا۔ اس کے لیے اسبابِ راہ و سواری وغیرہ کی کوئی ضرورت نہ ہوتی تھی۔ یا اگر ہوتی تھی تو پرانے حکایت بیان کرنے والے اس کو اضافی سمجھتے تھے۔ سو ہم بھی طول نہیں کھینچتے۔
ہاں تو ہم تذکرہ کر رہے تھے ان دوستوں کا۔ جو کہیں نکل پڑے تھے۔ راہ میں ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کرتے وقت کٹ رہا تھا کہ مذاق کرتے کرتے دونوں سنجیدہ ہوگئے۔اورتاریخ شاہد ہے کہ جب جب لوگ سنجیدہ ہوئے ہیں۔ لڑے ہیں۔ سو اسی روایت کو قائم رکھنے کو یہ دونوں بھی لڑ پڑے۔ جب ایک نے دیکھا کہ دوسرا زبانی اس پر بھاری پڑ رہا ہے تو اس نے دوسرے کے منہ پر ایک شاندار قسم کا طمانچہ رسید کر دیا۔ گاؤں یا محلہ ہوتا تولڑائی خوب بڑھ جاتی تاوقتیکہ کوئی تیسرا آکر سمجھاتا، یا پھر فوراً کوئی بیچ بچاؤ کرانے آ پہنچتا۔لیکن وہاں پر کوئی بھی نہیں تھا اور اس بات کا دونوں کو بخوبی ادراک تھا۔ لہذا دوسرے دوست نےجو صحت میں بھی کمزور تھا لڑ کر خود کو تھکانے اور مزید مار کھانے کی بجائے ریت پر لکھ دیا ۔ آج میرے کمینے، رذیل اور منحوس دوست نے میرے منہ پر تھپڑ مارا۔ باقی دل پر کیا لکھاکیا نہیں۔ اس کو پڑھنے یا جاننے کا راوی کے پاس کوئی وسیلہ نہیں۔ گرچہ کچھ پرانے حکایتی بیان کرتے ہیں کہ اس نے یہ بات دل پر پکی ووٹروں والی سیاہی سے لکھ لی تھی۔ لیکن محض ایک مبہم تاریخی حوالے کی وجہ سےہم کسی کے دل میں جھانکنے کا دعواٰ کرنا نہیں چاہتے۔
اس کے بعد دونوں آگے چل پڑے۔ کچھ دیر خاموش رہےلیکن کب تک خاموش رہتےکہ بات کرنے کو تیسرا تو کوئی تھا نہیں۔ سو انہوں نے سوچا کہ بجائے منہ خراب کر کے پڑے رہنے کے کیوں نہ بات چیت کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ وہ دوست جس نے تھپڑ مارا تھا۔اس نے کہا یار دیکھ! ارادہ تھپڑ مارنے کا نہیں تھا۔ لیکن تو ایک غصیلی بیگم کی طرح بےتکان بولے چلا جا رہا تھا اور تجھے تو یہ بھی معلوم ہے کہ تو زبان دراز ہے اور میں ہتھ چھٹ ہوں۔ اور ہاتھ قابو میں نہیں رکھ سکتا۔ سو تجھےچپ کرانے کو ایک لگانی پڑی۔ اس بات پر دل میلا نہ کر۔ اپنے پاس تو کپڑے دھونے کو کوئی چیز نہیں۔ دل کہاں سے دھوتے پھریں گے۔ دوسرے دوست نے بظاہر ایک مسکان اور چند مغلّظات اس کے قصیدے میں پڑھ کر ظاہر کیا کہ وہ ناراض نہیں ہے۔
آگے جاتے جاتے دونوں ایک دریا کنارے تک جا پہنچے۔ تھپڑ کھانے والا دوست طبیعت بحال کرنے کو دریا میں اتر گیا۔ بیوقوف آدمی تھا۔ جب تیرنا نہیں آتا۔ تو دریا میں اترنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی تھی۔ لیکن اتر گیا۔ ایک شوخ و چنچل لہر اس پر عاشق ہوگئی اور اس نے فورا سے پہلے اس کو آغوش میں آچھپایا یوں کہ وہ اس کے وجود میں یوں ڈوب جائے کہ اس کے سوا نہ کچھ دیکھ سکے اور نہ سوچ سکے۔ اور حقیقت میں نہ سانس لے سکے نہ آہ بھر سکے۔ عجب بیگم مزاج لہر تھی۔ وہ اس کی شوخی کی تاب نہ لا سکا۔ اور لگا اس کی آغوش میں ڈبکیاں لگانے لگا گویا فنا فی اللہر کی منازل طے کر رہا ہو۔دوسرے دوست نے جب اس کو ڈبکیاں کھاتے دیکھا۔ توایک نعرہ مارا۔ اوئے مریں نا۔ میں آیا۔ چھلانگ ماری اور اس کوسر کے بالوں سے پکڑ کر کنارے کی طرف کھینچنے۔ اور آخر کار اس کو باہر کھینچ لانے میں کامیاب ہوگیا۔
کچھ دیر بعد جب ڈوبتے دوست کے حواس درست ہوئے۔ تو اس نے ہتھوڑی اور کیل کی تلاش شروع کی۔ لیکن اس بیابان میں کیل ہتھوڑی کہاں سے آتی۔ آخر ایک گھوڑے کی نعل اس کے ہاتھ لگ گئی۔ اور اس نے اسی کی مدد سے ایک پتھر پر لکھ دیا۔ کہ آج میرے سب سے کمینے دوست نے میری جان بچائی۔ دل والی بات پر ہم دوبارہ کوئی بیان دینے سے خود کو معذور پاتے ہیں۔
پہلا ہتھ چھٹ دوست یہ حرکت دیکھ کر مسکرایا اور کہنے لگا کہ پہلی بار تو نے ریت پر لکھالیکن تیرے دل کاغبار ہلکا نہیں ہوا۔ بلکہ تو اب مجھے سب کے سامنے گالیوں سے نوازنے کا منصوبہ بنائے بیٹھا ہے خیر! مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ دوسری بار تو نے پتھر پر لکھ دیا۔ لیکن اس بات کا تذکرہ تو سب کے سامنے بےعزت کرنے کے بعد گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کو کرے گا۔ یہ پرانی حکایتوں والی ڈرامہ بازی کر کے تو کیا ثابت کرنا چاہ رہا ہے۔ یہ بات سن کر دوسرا دوست ہنسنے لگ پڑا۔ اور کہنے لگا کہ آہ! تو کتنا ٹھنڈا کمینہ ہے۔ یہ بات سن کر پہلا بھی ہنسنے لگ پڑا اور کہنے لگا کہ جب تجھے معلوم ہے کہ مجھے سب معلوم ہے تو بلاوجہ سائنسدان کیوں بن رہا ہے۔ اور وہ دونوں ہنسی خوشی "کہیں" کے راستے پر گامزن ہوگئے۔
اخلاقی سبق: یہ دو دوستوں کی روزمرہ بکواس کی داستان ہے۔ اس میں سے اخلاقی سبق ڈھونڈنا دورجدید کی اداکاراؤں کے جسم پر لباس ڈھونڈنے کے مترادف ہے۔ سو بلاوجہ زحمت مت کیجیے۔
:) ۔۔ بہت اچھے ۔
 
Top