کم علم کی بحث
میں مسجد میں تحیۃ المسجد ادا کر رہا تھا۔ اس ذکر سے نمودونمائش ہرگز مقصود نہیں۔ کیوں کہ اگر یہی مقصد ہوتا تو میں تہجد، اشراق، چاشت، اوابین اور تحیتہ الوضو کا بھی لازمی ذکر کرتا۔ مگر الحمداللہ چونکہ طبیعت ریاکاری سے بالکل پاک ہے تو صرف واقعہ بیان کرنا مقصد ہے۔ ہاں کوئی اسے نیکی کی ترغیب سمجھے تو اپنی نیک نیتی کا صلہ پائے گا۔
ہاں تو میں بات کر رہا تھا کہ دوران نماز سگریٹ کی ناگوار بدبو نے مجھے بے چین کر کے رکھ دیا۔ عرصہ ہوا جب حج سے واپس آیا تو پکے سے توبہ کر چکا تھا۔ لیکن آج یہ بدبو دوبارہ اعصاب پر سوار ہو گئی۔ خشوع و خضوع قائم رکھنا تو دور کی بات تھی بدبو کی شدت سے نماز پوری کرنا بھی محال لگ رہا تھا۔ بس جلد از جلد سجدے ٹیکے کے یہ آدمی بناء نصیحت کہیں بےہدایتا ہی نہ نکل جائے۔ دوبارہ بتاتا چلوں کہ یہاں بھی اپنی نیکی کا ڈھنڈورا پیٹنا اور خود کا حاجی بتانا مقصود نہیں۔ ورنہ لوگ تو میرے سے کئی کرامات بھی منسوب کرتے ہیں۔ بس جی انکی دل شکنی کے ڈر سے انکار نہیں کیا کبھی کہ سچ ہیں یا غلط۔ ہمیشہ خاموش رہنا ہی پسند کیا اس ضمن میں۔ خیر سلام پھیر کر دیکھا تو قریب ہی ایک آدمی نماز ادا کر رہا تھا۔ سگریٹ نوشی کی کثرت سے اس کے ہونٹ سیاہ پڑ چکے تھے۔ میں نے سوچا یہ نماز سے
فارغ ہو چکے تو اس سے بات کرونگا، شاید میری نصیحت سے اس پر کوئی مثبت اثر پڑ جائے۔ اور دل ہی دل میں اثر انگیز قسم کے جملے سوچنے لگا۔ اور اک مدلل گفتگو کا خاکہ ذہن میں ترتیب دینے لگا۔لیکن مجھے اس وقت اک کرب کا سامنا کرنا پڑا جب اس شخص کے ساتھ بیٹھے ایک نوجوان نے اسکی نماز سے فراغت پر مجھ سے پہلے ہی اس سے گفتگو کرنا شروع کی، اب میں نے اپنی نماز بھول بھال کر انکی گفتگو سننے کیلئے یکسوئی سے اس طرف کان لگا دیئے کہ دیکھیں یہ کم علم اور کم تجربہ کار کیا کر پائے گا۔ تو کچھ اس قسم کی بات چیت ہو رہی تھی:
نوجوان: السلام و علیکم، چچا آپ کون ہیں؟
وہ آدمی: چچا کہ خطاب پر اک برا سا منہ بناتے ہوئے۔ میں ۔۔۔ ۔۔ ہوں۔ (اسے ڈیش نہ پڑھا جائے۔ بلکہ اس جگہ نام سمجھا جائے)
نوجوان جو کم علمی کی بنیاد پر اسکے چہرے کے تاثرات پڑھنے سے قاصر تھا۔ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے۔
نوجوان: چچا، کیا آپ نے شيخ عبدا لحميد كشك کا نام سنا ہے؟
وہ آدمی: جی نہیں۔
نوجوان:
اچھا تو آپ شيخ جاد الحق کو جانتے ہیں؟
وہ آدمی: جی نہیں انکا نام بھی آج ہی سن رہا ہوں۔
نوجوان تھوڑا مایوس ہوتے ہوئے: تو آپ شيخ محمد الغزالی کو بھی جانتے ہیں؟
وہ آدمی: امام غزالی کا نام تو سن رکھا ہے۔ لیکن شیخوں سے واقف نہیں۔ہمارے علاقے میں شیخ نہ ہونے کے برابر ہیں۔
نوجوان چہ بچیں ہوتے ہوئے: آپ علماء کی کیسٹیں اور فتاویٰ جات سنتے ہیں؟
وہ آدمی: بچپن میں کیسٹیں ہوتیں تھیں سونک میگا ڈانس کے ایڈیشن آتے تھے۔ کیا یاد کروا دیا ظالم۔ لیکن علماء کو بس جمعے کے خطبے کے علاوہ سننے کا اتفاق نہیں ہوا۔ فتاوٰی سے بھی کوئی خاص رغبت نہیں۔ بس جو اچھا لگتا ہے کر لیتا ہوں۔ آجکل اک پریشانی ہے۔ تو اس سلسلے میں ذرا نمازوں کی پابندی جاری ہے۔ وگرنہ ہم کہاں اور مسجد کہاں۔ فصلی بٹیرا سمجھیئے ہمیں تو۔
اب مجھے دل ہی دل میں نوجوان پر غصہ آنے لگا۔ کہ یہ ادھر ادھر کی بیکار باتیں کر کے بندہ بھگا دے گا۔
نوجوان: آپ جانتے ہیں ناں یہ سارے شیوخ سگریٹ کو حرام کہتے ہیں، تو پھر آپ کیوں پیتے ہیں سگریٹ؟
وہ آدمی: (جو اب اس ساری گفتگو سے بیزاری سی محسوس کر رہا تھا) میں نے آپکو پہلے بھی بتایا میں شیخ نہیں۔ وہ اپنی برادری میں کیا کرتے ہیں کیا نہیں اس سے مجھے کچھ دلچسپی نہیں۔
نوجوان ذرا ضدی انداز میں: نہیں، سگریٹ حرام ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی تو یہی ہے ناں کہ (پلید چیزوں کو تم پر حرام کر دیا گیا ہے)۔ کیا کبھی سگریٹ شروع کرتے وقت آپ نے بسم اللہ پڑھی ہے یا سگریٹ ختم ہونے پر الحمدللہ کہی ہے؟
وہ آدمی: (تقریبا بھناتے ہوئے) میاں! تم مفتی ہو؟ اور پلید پاک کا فیصلہ کرنے والے تم کون ہو؟ اور ہر وہ چیز جس پر بسم اللہ یا الحمداللہ نہ پڑھی جائے تم اسے پلید کہو گے۔ احمق آدمی یہ کونسا معیار مقرر کر رکھا ہے تم نے۔ اور اسلام کی بات کرتے ہو تو مجھے یہ بتاؤ کہ پلید کا معیار اسلام نے کیا مقرر کر رکھا ہے۔ حلال حرام کی طرف تو میں بعد میں آؤں گا۔اور قرآن میں ایسا کوئی حکم نہیں
جس میں کہا گیا ہو کہ (ويحرم عليكم الدخان) اور ہم نے تم پر سگریٹ نوشی حرام قرار دی ہے۔
میرا اندیشہ یقین میں بدلنے لگا کہ یہ نوجوان اپنی احمقانہ باتوں سے معاملے بگاڑ دے گا۔
نوجوان بھی باقاعدہ جذباتی انداز میں تمام زمینی حقائق کو پس پشت ڈالتے ہوئے: چچا یقین کیجیئے اسلام میں سگریٹ نوشی بالکل ویسے ہی حرام ہے جس طرح سیب حرام ہے۔
اس آدمی کا صبر کا پیمانہ لبریز ہی ہو چکا تھا، اسکے چہرے سے ظاہر تھا کہ وہ اس بات پر میری طرح یقین کر چکا ہے کہ یہ نوجوان پاگل ہے۔ اور گفتگو کرنے کے فن سے بالکل ہی فارغ۔ جھلاتے ہوئے خونخوار لہجے میں بولا اوئے لڑکے، تو ہوتا کون ہے کہ جس چیز کو چاہے حرام قرار دے اور جس چیز کو چاہے حلال قرار دیدے؟
وہ نوجوان نہایت ہی بپھرے لہجے میں بولا کہ پھر لایئے اک آیت جس میں لکھا ہو کہ (ويحل لکم التفاح) اور ہم نے تم پر سیب کو حلال کر دیا ہے۔
آدمی مسکراتے ہوئے بولا! تو تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ اللہ کے مقرب لوگ اور قرون اولی کے لوگ حرام کھاتے رہے اور انکو اس بات کا ادراک تک نہ تھا۔ دیکھو بیٹا جذباتیت یا کسی چیز سے نفرت اپنی جگہ مگر ہر چیز میں اسلام کو نہیں لاتے۔ اور یہ ضروری بھی نہیں کہ ہر چیز پر اسلام کو بنیاد بنا کر ہی بحث کی جائے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ تمہیں زندگی میں ابھی بہت کچھ دیکھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اور اپنوں سے بڑوں سے بحث کے لیئے جس مدلل انداز گفتگو اور علم کی ضرورت ہے۔ اس کی تم میں شدید کمی ہے۔
اس آدمی کی گفتگو نے
نوجوان کو ششدر ہی کر کے رکھ دیا تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ اب رویا کہ تب، مسجد میں اقامت کی آواز گونج اٹھی تھی اور لوگ جماعت کیلیئے کھڑے ہو رہے تھے۔ نماز کے بعد وہ آدمی میری طرف متوجہ ہوا اور بولا آپ جیسے نیک لوگوں کا ہی فیض ہے۔ آپکے اک شاگرد کے ساتھ مہینےمیں اک آدھی ملاقات ہو جاتی ہے تو بس یہی اثر ہے جو زباں میں ہے۔
اس بات سے میری یہ حیرانگی بھی جاتی رہی کہ یہ تو کبھی میری مجلس اور شاگردوں میں نہیں رہا تو یہ انداز بیاں اس کے اندر کہاں سے آگیا۔ بالکل میرے والا تو نہیں لیکن کچھ سیکھنے کی صلاحیت تھی اس آدمی میں۔ اور نوجوان پر تو مجھے ازحد غصہ آرہا تھا۔ اس سے تو بہتر تھا کہ صبر کرتا اور مجھے بات کرنے دیتا۔ یقیناً میں اسکو سمجھانے میں کامیاب ہو جاتا۔