حسان خان

لائبریرین
کسی به فهم‌ِ کمالم دگر چه پردازد
ز فرق تا به قدم عیبم این هنر دارم
(بیدل دهلوی)
کوئی شخص میرے کمال کو فہم کرنے پر اب کیا توجہ کرے؟ میں سر سے پا تک عیب ہوں، میرا ہنر یہ ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دعویِ مَردانِ این عصر اِنفِعالی بیش نیست
شیر می‌غُرّند و چون وامی‌رسی بُزغاله‌اند
(بیدل دهلوی)
اِس زمانے کے مَردوں کا دعویٰ شرمندگی سے زیادہ نہیں ہے؛ شیر غُرّا رہے ہیں لیکن جب تم غور سے دیکھو تو وہ بُزغالہ ہیں۔
× بُزغالہ = بکری کا بچّہ
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بر زبان حَرفِ نَسَب راندن دلیلِ ابلهی‌ست
لافِ عزت چون نگین تا کَی ز نام دیگران
(بیدل دهلوی)

زبان پر نَسَب کا حَرف لانا حماقت کی دلیل ہے؛ نگین کی طرح کب تک دوسروں کے نام سے عزّت کی لاف؟
× لاف = ڈینگ


شعر کا مأخذ
 

محمد وارث

لائبریرین
لذتِ دردِ محبت را ز بیدرداں مپرس
قدرِ صحت را نہ داند ہر کہ اُو بیمار نیست


زیب النسا مخفی

دردِ محبت کی لذت بیدردوں سے مت پوچھ کہ جو بیمار ہی نہیں ہے وہ صحت کی قدر نہیں جانتا۔
 

مژگان نم

محفلین
جمال ہمنشیں درمن اثر کرد
وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم
ترجمہ:
ہمنشیں کے جمال نے مجھ پر بھی اثر کر دیا ہے
گرنہ میری ہستی تو محض خاک ہے


شیخ سعدی
 

حسان خان

لائبریرین
ضیاءالدین خُجندی پارسی کے ایک مدحیہ قصیدے سے ایک بیت:
زمانه کرده ز ناکُشتنِ مخالفِ تو

همان گناه که از کُشتنِ حُسین یزید
(ضیاءالدین خُجندی پارسی)
[اے امیر!] زمانے نے تمہارے مخالف کو قتل نہ کر کے وہی گناہ کیا ہے جو حُسین (رض) کو قتل کر کے یزید نے کیا تھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ای دل ز دردِ ماتم اگر خون شوی سزاست
کامروز روزِ ماتمِ اولادِ مصطفاست
(ضیاءالدین خُجندی پارسی)
اے دل! دردِ ماتم سے اگر تم خون ہو جاؤ تو سزاوار ہے، کیونکہ اِمروز اولادِ مصطفیٰ (ص) کے ماتم کا روز ہے۔

× یہ بیت جس مرثیے سے لی گئی ہے وہ شاعر نے امیر سید تاج الدین بن امیر علاءالدین خُجندی کی وفات پر کہا تھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تا شهر پُر از فتنه نگردد ز جمالش
از خانه همان بِه که به بازار نیاید
(ضیاءالدین خُجندی پارسی)

یہی بہتر ہے کہ وہ [اپنے] خانے سے بازار کی طرف نہ آئے تاکہ اُس کے جمال کے باعث شہر فتنے سے پُر نہ ہو جائے۔
× خانہ = گھر
 

حسان خان

لائبریرین
مجروح کند آن بُتِ گُل‌رُوی دلم را
با آنکه ز گُل خاصیتِ خار نیاید
(ضیاءالدین خُجندی پارسی)
وہ بُتِ گُل چہرہ میرے دل کو زخمی کرتا ہے؛ باوجود اِس کے کہ گُل میں خار کی خاصیت نہیں ہوتی۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دوستان کامروز بهرِ آشنا جان می‏‌دهند
گر بیفتد احتیاج از خویش هم بیگانه‏‌اند
(بیدل دهلوی)
جو دوست اِمروز آشنا کی خاطر جان دے رہے ہیں، اگر حاجت پیش آ جائے تو وہ خود سے بھی بیگانہ ہو جائیں گے۔
 

ضیاءالقمر

محفلین
کاش سنجیدے کہ بہر قتل معنی یک قلم
جلوہء کلک و رقم دار و رسن خواہد شدن

غالبؔ
کاش اُسے یہ اندازہ ہوتا کہ معانی کو یکسر ختم (قتل)کرنے کے لیے قلم اور تحریر، دار و رسن کی حیثیت اختیار کر لیں گے
یعنی شاعری فکر و معانی سے نکل کر لفاظی پر آ جائے گی اور وہ لفظ آرائیاں، ہنگامہ آرائیاں بن جائیں گی۔
(مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
گلِ مراد در آغوشِ خویش می‌یابی
چو غنچه دانی اگر دارد انتظار چه حظ
(بیدل دهلوی)
اگر تم غنچے کی طرح جان لو کہ انتظار کیسی لذت و بہرہ مندی رکھتا ہے تو تمہیں اپنی آغوش میں گُلِ مراد مل جائے گا۔

شعر کا مأخذ
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
آدمی را دشمنی بدتر نمی‌باشد ز مال
مغز آخر بر شکستن می‌دهد بادام را
(سرخوش لاهوری)

انسان کا مال سے بدتر کوئی دشمن نہیں ہے؛ مغز آخرکار بادام کے توڑے جانے کا باعث بنتا ہے۔


شعر کا مأخذ
 

حسان خان

لائبریرین
به هر چمن که رسیدی گُلی بچین و برو
به پایِ گُل منشین آن قدر که خار شوی
(عبدالعزیز ازبک)
تم جس چمن میں بھی پہنچو، ایک گُل چُنو اور چلے جاؤ۔۔۔ گُل کے پاؤں کے پاس اِس قدر مت بیٹھو کہ خار بن جاؤ۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دردِ عاشق را دوایی بهتر از معشوق نیست
شربتِ بیماریِ فرهاد را شیرین کنید
(عصری تبریزی)

عاشق کے درد کے لیے معشوق سے بہتر کوئی دوا نہیں ہے؛ فرہاد کے شربتِ بیماری کو 'شیریں' کر دیجیے۔
 

حسان خان

لائبریرین
گویند نخُستین سخن از نامهٔ پازند
آن است که: با مردمِ بداصل مپیوند
(لبیبی)
کہتے ہیں کہ نامۂ پازند کا اولین سخن یہ ہے کہ: بداَصل انسان سے تعلق مت قائم کرو۔
× پازَنْد = زرتشتیوں کی دینی کتاب 'زَنْد' کی تفسیر
 

حسان خان

لائبریرین
اهلِ دنیا عاشقِ جاهند از بی‌دانشی
آتشِ سوزان به چشمِ کودکِ نادان زر است
(بیدل دهلوی)

اہلِ دنیا بے دانشی کے باعث عاشقِ جاہ و منزلت ہیں؛ آتشِ سوزاں طفلِ ناداں کی چشم میں زر ہوتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
غزنوی دور کے شاعر فرّخی سیستانی کی وفات پر 'لبیبی' نے مندرجۂ ذیل قطعہ کہا تھا جس میں اُنہوں نے فرّخی کی وفات پر اظہارِ تأسّف کے ہمراہ ایک دیگر شاعر 'عنصری' کو ہَجْو کا نشانہ بنایا تھا:
گر فرخی بمرد چرا عنصری نمرد

پیری بماند دیر و جوانی برفت زود
فرزانه‌ای برفت و ز رفتنْش هر زیان
دیوانه‌ای بماند و ز ماندنْش هیچ سود
(لبیبی)
اگر فرّخی مر گیا تو عنصری کیوں نہیں مرا؟ ایک پیرمرد تا دیر رہ گیا اور ایک جوان زود چلا گیا۔ ایک دانشمند چلا گیا اور اُس کے جانے سے زیاں ہی زیاں ہے۔ ایک دیوانہ رہ گیا اور اُس کے رہ جانے سے کوئی فائدہ نہیں۔
× پِیرمَرد = بوڑھا
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
به یک اشکِ ندامت جُرمِ عالَم می‌توان شُستن
به چشمِ خویش دیدم وسعتِ دریایِ رحمت را
(محسن تتّوی)

ایک اشکِ ندامت سے جُرمِ عالَم کو دھویا جا سکتا ہے؛ میں نے اپنی چشم سے دریائے رحمت کی وسعت کو دیکھا۔
 
Top