عدنان عمر
محفلین
اس کتاب کو http://ia801008.us.archive.org/11/items/Aina-e-Parwaiziat/Aina-e-Parwaiziat.pdfسے اُتارا جاسکتا ہےکتاب: آئینۂ پرویزیت
مصنف: عبدالرحمٰن کیلانی
پبلشر: مکتبۃُ السلام، لاہور
ڈسٹری بیوٹر: دارالسلام
اس کتاب کو http://ia801008.us.archive.org/11/items/Aina-e-Parwaiziat/Aina-e-Parwaiziat.pdfسے اُتارا جاسکتا ہےکتاب: آئینۂ پرویزیت
مصنف: عبدالرحمٰن کیلانی
پبلشر: مکتبۃُ السلام، لاہور
ڈسٹری بیوٹر: دارالسلام
کیا ان کے تائب ہونے کی وجہ معاشرتی دباو تھا ؟ویسے ڈاکٹر برق صاحب کے’ متقدین ‘یہ کہتے ہیں کہ وہ آخری عمر میں اپنے دو اسلام والے نظریے سے تائب ہو گئے تھے۔ اس پر کئی گرما گرم مباحث پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا میں بھی ہو چکے ہیں
علامہ پرویز پر انکار حدیث کا جو الزام لگایا گیا اس کے جواب میں انہوں نے ایک کتاب "منکرِ حدیث کون؟" لکھی تھی۔ وہ بھی پڑھی آپ نے؟کتاب: آئینۂ پرویزیت
مصنف: عبدالرحمٰن کیلانی
پبلشر: مکتبۃُ السلام، لاہور
ڈسٹری بیوٹر: دارالسلام
جی میرا مبلغ علم برق صاحب کے بارے میں اتنا ہی تھا جتنا عرض کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب اٹک کے تھے اور اٹک ہی سے اردو محفل کے ایک پرانے رکن سید شاکر القادری صاحب ہیں، انہوں نے شاید اس موضوع پر کوئی مضمون بھی لکھا تھا۔کیا ان کے تائب ہونے کی وجہ معاشرتی دباو تھا ؟
یہاں تائب بھی عجیب لگتا ہے کہ جیسے مذہب کا علم اور تحقیق کوئی گناہ کبیرہ ہے ، کیا مذہب کا بیک گراونڈ جاننا یا اسے سمجھنے کی کوشش کرنا اس عقل کے تحت جو رب کی دی ہوئی ہے اور آپ کو پہلا سبق ہی اقرا کا دے وہاں ایسی تھیوری کا رکھنا یا اس پر ریسرچ کرنا کوئی گناہ ہے ؟ پھر اس سے دستبردار ہوجانا کس کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے ؟
یہ سوال صرف اپنی کم علمی دور کرنے کے لیے پوچھ رہی ہوں جانتی ہوں آپ اسے صرف سوال سمجھ کر ہی جواب دیں گے اس میں کچھ اور نہیں ڈھونڈیں گے ۔
بہت شکریہ وارثجی میرا مبلغ علم برق صاحب کے بارے میں اتنا ہی تھا جتنا عرض کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب اٹک کے تھے اور اٹک ہی سے اردو محفل کے ایک پرانے رکن سید شاکر القادری صاحب ہیں، انہوں نے شاید اس موضوع پر کوئی مضمون بھی لکھا تھا۔
باقی جو تائب والی بات ہے، تو اس کا پس منظر ذرا گہرا ہے۔ مسلمانوں میں ہمیشہ ہی سے ایک طبقہ ایسا رہا ہے اور اب بھی ہے کہ جو حدیث کی آئینی حیثیت کا انکار کرتے ہیں یوں سمجھیے کہ وہ کہتے ہیں کہ اسلامی قوانین کی بنیاد میں حدیث کا کوئی حصہ نہیں ہونا چاہیے اور واحد اساس قرآن ہے۔ دوسری طرف باقی سارے مسلم طبقات ہیں وہ چاہے اہلحدیث ہوں، احناف، شوافع، مالکی، حنبلی یا جعفری ہوںوہ سب قرآن کے ساتھ ساتھ حدیث کواسلامی قوانین کا بنیادی جز مانتے ہیں قطع نظر اس کے کہ ان کااحادیث کا منبع کیا ہے یا وہ فقط احادیث ہی لیتے ہیں یا آثار بھی (صحابہ کے اقوال اور افعال آثار کہلاتے ہیں اور خاص طور پر احناف کے ہاں آثار بھی قانون کا جزو ہیں، جعفریوں کے ہاں بالکل نہیں ہیں)۔ یا وہ قیاس کو بھی اسلامی قانون کا جزو مانتے ہیں یا نہیں(یہاں بھی احناف کے ہاں قیاس کی بڑی اہمیت ہے اور اہلحدیث اور جعفریوں کے ہاں بالکل بھی نہیں ہے)۔ مذکورہ طبقے کو باقی مسلمانوں نے مختلف نام دے رکھے ہیں، سب سے پہلا نام شاید معتزلہ تھا اور اب عام طور (طنز کے طور پر) منکر ِ حدیث کہتے ہیں۔
ڈاکٹر برق صاحب تحقیق وغیرہ سے تائب ہوئے تھے یا نہیں وہ تو میں نے نہیں جانتا لیکن میں نے جو تائب ہونا لکھا تھا اور جو تائب ہونا ان کا مشہور ہے وہ یہی ہے کہ وہ حدیث کی آئینی حیثیت کے قائل نہیں تھے بعد میں تائب ہو کر قائل ہو گئے تھے۔
میں نے پرویز صاحب کی دو کتابیں ’’اسباب زوال امت‘‘ اور ’’تصوف کی حقیقت‘‘ پڑھی تھیں۔ ’’منکرِ حدیث کون؟‘‘ پڑھی تو نہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ انھوں نے اس کتاب میں اس الزام کی تردید کی تھی۔ میں چونکہ ان کی دوکتابیں پڑھ چکا تھا اور اس دورانیے میں میرا پرویز صاحب کے پیروکاروں میں اٹھنا بیٹھنا بھی تھا اور پرویز صاحب کی تعلیمات کے حوالے سے ان سے تبادلہِ خیال اور بعض اوقات مباحثہ بھی ہوتا تھا، اس لیے میں پرویز صاحب کی فکر اور بنیادی تعلیمات سے واقف ہوچکا تھا۔ میں اب بھی پرویز صاحب کی فکر کو انکار حدیث اور عقل پرستی پرمبنی سمجھتا ہوں۔ کبھی یہ کتاب (منکر حدیث کون؟) دستیاب ہوئی تو تفصیلاً پڑھ کر اپنے تاثرات پیش کروں گا۔علامہ پرویز پر انکار حدیث کا جو الزام لگایا گیا اس کے جواب میں انہوں نے ایک کتاب "منکرِ حدیث کون؟" لکھی تھی۔ وہ بھی پڑھی آپ نے؟
اس بات کا کھوج لگانے کو میں نے ڈاکٹر غلام جیلانی برق صاحب کی تین کتب ڈاؤن لوڈ کر کے ان کا بیشتر حصہ پڑھا ہے۔ویسے ڈاکٹر برق صاحب کے’ متقدین ‘یہ کہتے ہیں کہ وہ آخری عمر میں اپنے دو اسلام والے نظریے سے تائب ہو گئے تھے۔ اس پر کئی گرما گرم مباحث پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا میں بھی ہو چکے ہیں
محترم جناب فاروق سرور خان صاحب! میں نے اس لڑی میں پیش کردہ آپ کی دونوں تحاریر کا مطالعہ کیا ہے۔ ان تحریروں کو پڑھ کر ذہن میں چند سوالات اٹھے ہیں۔ اگر آپ ان سوالات کے جوابات دینا پسند کریں تو میں آپ کا ممنوں ہوں گا۔یہ درست ہے کہ بہت سے افراد "کتب روایات " کی آئینی حیثیت کے قائیل ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ ان کتب میں سب کچھ صحیح ہے ۔ یعنی کوئی بھی روایت اس لئے رد نہیں کی جاسکتی کہ وہ قرانی احکامات کے مخالف ہے۔ ایسا کیوں؟
ایسا ااس لئے کہ رسول اکرم کبھی بھی قرآن حکیم کے مخالف کوئی حکم دے ہی نہیں سکتے تھے۔ لیکن مذہبی سیاسی بازیگر ایسا نہیں مانتے۔ منطقی طور پر دیکھئے، اگر آپ قرآن حکیم کے مخالف روایات ہٹا دیں تو باقی تو پھر قرآن حکیم کے احکامات ہی بچتے ہیں۔ اس طرح ان مذہبی سیاسی بازیگروں کو اپنی من مانی کرنے کا موقع نہیں ملتا ہے۔
گو کہ فرداً فرداً ان موضوعات کی ایک بہت طویل فہرست ہے، جہاں روایات ، قرآن کے مطابق نہیں ہیں اور ان سب پر بحث یہاں پر ممکن نہیں ہے لیکن ہم بآسانی ایسے موضوعات کے گروپ بنا سکتے ہیں جہاں قرآن حکیم کا پیغام و حکم بالکل الگ ہے اور ان کتب روایات یا ان سے بنے ہوئے قوانین کا حکم بالکل الگ۔
یہ گروپ کچھ اس طرح ہیں۔ 1۔ غلامی کے ذریعے اور تعلیم سے محروم رکھ کر، مردوں کا استحصال، 2۔ مذہب کو بطور سیاست استعمال کرکے پبلک وسائیل پر قبضہ اور ذاتی خواہشات کی تکمیل، 3۔ لونڈی بنا کر، اور تعلیم سے محروم رکھ کر عورتوں کا استحصال۔ ۔ ایک مخصوص طبقہ، کسی نا کسی طرح اس قسم کے نظریات کا قائیل ہے۔ میں اس کو "ملا ازم " یا "مذہبی سیاسی بازیگری" کا نام دیتا ہوں آپ کہیں گے کہ میں نے بہت ہی بڑے الزامات عائید کردیے ہیں۔ تو میں اس کے لئے آپ کو ہر مد میں ایک مثال دیتا ہوں۔ کہ عام طور پر مذہبی سیاسی بازیگروں کی جانب سے کیا سمجھایا جاتا ہے اور قرآن حکیم کا صاف ، سیدھا اور واضح بیان کیا ہے۔
عورتوں کو لونڈی بنا کر استحصال،
یہ تعلیم بہت ہی عام دی جاتی ہے کہ ۔۔ لونڈی بنانا جائز ہے یا متع کرنا جائز ہے۔ بہت سے طبقے عورتوں کی تعلیم کے خلاف ہیں۔ ان کے مساوی حقوق کے خلاف ہیں۔ حکومت میں ان کی مساوی شراکت کے خلاف ہیں اور قانون سازی میں ان کی شرکت کے خلاف ہیں۔ اس نکات و نظریات کے تانے بانے "کتب روایات " سے ملتے ہیں۔
جبکہ قرآن حکیم بہت ہی واضح طور پر غلامی یا لونڈی بنانے کے خلاف ہے۔ انصاف کی غیر موجودگی میں صرف ایک شادی کا حکم دیتا ہے۔ اور صرف بے سہارا اور یتیم عورتوں سے انصاف کی شرط پر سہارا دینے کے لئے ایک سے ذائید شادی کا آپشن رکھتا ہے تاکہ معاشرے میں استحکام رہے۔ اور مائیں قوم کی تعمیر میں حصہ لیتی رہیں۔ قرآن حکیم ، ہر شعبے میں تعلیم کا حکم دیتا ہے۔ مردوں اور عورتوں کے قانون سازی میں مساوی شراکت کی ضرورت کو واضح کرتا ہے ۔
بیشتر ملاء شرعی مہر کے نام پر ٹکوں میں عورت کے حصول کے قائیل ہیں جبکہ قرآن حکیم حضرت موسیٰ جیسے جلیل القدر نبی کے مہر کی مقدار آٹھ یا دس سال کی خدمت قرار دیتا ہے۔ جس کو یہ ٹولہ شریعت موسوی قرار دے کر رد کرتا ہے۔ اور شریعت محمدی کے نام پر شرعی مہر کے تعین بتیس روپے آٹھ آنے کی گردان کرتا نظر آتا ہے۔ قرآن حکیم شادی کو ایک بھاری معاہدہ قرار دیتا ہے اور معاہدے کے لئے ذہنی بلوغت کی شرط عائید کرتا ہے۔ جبکہ کتب روایات بچیوں کی شادی کو جائز قرار دیتی نظر آتی ہیں۔ قرآن حکیم طلاق کی صورت میں مرد کو گھر چھوڑ جانے کی اجازت دیتا ہے اور عورتوں کو گھر سے نا نکالنے کا حکم دیتا ہے ( تازہ ترین حقوق نسواں کی حفاظت کا قانون، پنجاب میں یہی قرآنی قانون موجود ہے) جبکہ کتب روایات، طلاق (اعلان اور عدت کی تکمیل) پر عورت کا اس کے گھر پر حق تسلیم نہیں کرتی ہیں۔ ملاء اس لئے بھی اس قانون کے خلاف ہیں۔
مردوں کی غلامی اور استحصال
مردوں کو غلام بنانے کے تانے بانے بھی کتب روایات میں ملتے ہیں۔ کسی بھی قوم کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ مناسب ٹیکس وصول کرکے اس کو فلاح و بہبود کے لئے استعمال کرے۔ جسمانی مظبوطی مردوں کو مزدوری اور جسمانی مشقت کے کام کرنے میں مدد دیتی ہے لیکن اس کے لئے دولت کی مناسب روانی ضروری ہے۔ اس مناسب روانی کے لئے قرآن حکیم معیشیت کو جاری رکھنے کے لئے ہر آمدن ، ہر اضافہ اور ہر بڑھوتری پر 20 فی صد ٹیکس تجویز کرتا ہے۔ لیکن روایات اور ان کی بنیاد پر ہوئی قانون سازی نے اس پالیسی کو سالانہ بچت کے ڈھائی فی صد تک محدود کردیا ہے تاکہ امیر افراد صرف ڈھائی فی صد ٹیکس ادا کریں ۔ دولت کی روانی کی اس کمی کی وجہ سے مرد اور عورت دونوں معیشیت میں اپنے جائز حصے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جبکہ قرآن تو صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ دولت کی روانی کو صرف امیر لوگوں کے درمیان امارت کا سرکٹ نا بناؤ۔
قوم کی دولت پر قبضہ :
تاریخ گواہ ہے کہ زیادہ تر مذہبی سیاسی بازیگری کا مقصد صرف قوم کی دولت پر قبضہ رہا۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ طرح طرح کی روایات تراشی جائیں اور پھر ان سے دلیل لائی جائے کہ کس طرح صرف ایک فرد کی بادشاہت ہو تاکہ اس کو دباؤ دے کر قوانین بنائے جاسکیں، سزائیں دی جاسکے۔ ہم کو مسلمان تاریخ کے تاریک ادوار میں کبھی "باہمی مشورے سے فیصلے یا قانون سازی" کی مثال نہیں ملتی۔ کسی بنکاری نظام کی مثال نہیں ملتی، فصلوں کی بڑھوتری کے لئے نہری نظام کی مثال نہیں ملتی ، عوام الناس کے علم کے اضافے کے لئے کسی تعلیلمی نظام کی مثال نہیں ملتی ۔
لیکن اس کے برعکس ، آپ کو "تارک الحدیث " قرار دے کر قتل کئے جانے کے فتوے ضرور ملیں گے۔ مذہبی سیاسی بازیگر صرف اور صرف دہشت سے عوام پر قابو پاتے ہیں باہمی مشورے کی حکومت سے نہیں۔ اللہ تعالی نے صرف دو جرائم کی سزا موت رکھی ، ایک قتل اور دوسرا فساد فی الارض اللہ۔ قتل تو سب جانتے ہیں کہ کیا ہے۔ فساد فی الارض اللہ کیا ہے؟ قتل و غارتگری کو آسان اور مرغوب سمجھنا ، قرار دینا اور عمل کرنا۔ مذہبی سیاسی بازیگر اپنی من گھڑت کتب رویات کی مدد سے ارتداد یعنی دین سے پھر جانے کی سزا بھی موت قرار دیتے ہیں۔ تاکہ کوئی بھی ان مذہبی سیاسی بازیگروں کی مخالفت نا کرسکے کہ جونہیں ایسی کوئی مخالفت کی یہ لوگ اپنی مخالفت کو دین کی مخالفت قرار دے کر ، اچھے بھلے مسلمان کو مرتد قرآر دے دیتے ہیں اور سزا قتل رکھتے ہیں تاکہ ان مذہبی سیاسی بازیگروں مخالفت نا ہوسکے۔ جبکہ اللہ تعالی تو صاف صاف فرما چکا ہے کہ نیکی بدی سے الگ ہوگئی ہے جو چاہے قبول کرے جو چاہے انکار کردے۔
تو یہ ضروری ہے کہ قرآن کو پڑھا اور سمجھا جائے، یہ قصے کہانیوں کی کتاب نہیں ہے۔ اس کو اسی عقل سے سمجھا جائے جس کے لئے اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ یہ کتاب اور احکامات علم والوں اور غور کرنے والوں کے لئے ہیں ، بار بار اللہ تعالی دریافت فرماتے ہیں کیا تم عقل نہیں رکھتے ۔ ؟
والسلام
مذہبی طبقہ دو الگ الگ گروپس پر مشتمل ہے۔ ایک علماء اور دوسرے مذہبی سیاست دان۔ میرا اشارہ واضح طور پر مذہبی سیاسی ٹولے کی طرف ہے۔کیا آپ کے خیال میں مذہبی طبقہ کتبِ روایات یعنی احادیث و آثار کی غلط تعبیر پیش کر کے عوام کا استحصال کررہا ہے؟
ان کتب روایات میں دو طرح کی روایات شامل ہیں۔ ایک جو صاف اوار واضح طور پر قرآن حکیم کے مطابق احکامات رکھتی ہیں۔ ان احادیث پر کوئی شبہ نہیں ۔ اور دوسری وہ جو قرآن حکیم کے احکامات کے واضح طور پر خلاف ہیں ، جس کے لئے کوئی بہت بڑی تاویل نہیں چاہیے۔ ایک عام قاری کو بآسانی نظر آنے والا فرق۔ ہر شخص کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا وہ اس کتاب کے احکامات پر یقین رکھے گا جو رسول اکرم پر نازل ہوئی تو درست تعبیر قرآن حکیم سے ہی ملے گی کہ وہ روایات جو مخالف قران احکام رکھتی ہیں ان پر آپ قرآن حکیم کا حکم مانیں گے یا نہیں ؟اگر یہ طبقہ کتب روایات کی غلط تعبیر پیش کررہا ہے تو آپ کے خیال میں درست تعبیر کہاں سے ملے گی؟
کتب روایات میں جیسا کہ میں نے عرض کیا کتب روایات کی وہ احادیث جو قرآن حکیم کے مطابق ہیں ۔ ان پر عمل کیا جانا چاہئے۔ اور جو قرآنی احکامات کے مخالف ہیں ان پر ہر فرقہ اپنی اپنی رائے رکھتا ہے۔یا آپ کے خیال میں کتب روایات بذاتِ خود ناقابل اعتبار ہیں اور ان پر عمل نہ کیا جانا چاہیے؟
اگر صرف قرآن پاک سے ہی ہدایت اور عملی رہنمائی ملے گی تو کلامِ الٰہی کی درست تعبیر کے لیے کن شخصیات یا جماعتوں پر بھروسہ کیا جانا چاہیے؟
یا پھر ہر فرد اپنی عقل کے مطابق قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے؟
اگر صرف قرآن پاک سے ہی ہدایت اور عملی رہنمائی ملے گی تو کلامِ الٰہی کی درست تعبیر کے لیے کن شخصیات یا جماعتوں پر بھروسہ کیا جانا چاہیے؟
یا پھر ہر فرد اپنی عقل کے مطابق قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے؟
سوشل میڈیا پر اس ضمن میں جو مباحثہ چھڑا تھا، اس میں پہلے جاوید چودھری نے دو اسلام کے بارے میں لکھا۔ اس کے بعد اوریا مقبول جان نے اس کے خلاف لکھا اور بیان کیا کہ خود ڈاکٹر برق اس سے تائب ہو چکے تھے۔ اس کے جواب میں جاوید چودھری نے پھر لکھا اور (میری نظر میں) صحافیانہ بددیانتی یا کم علمی کا ثبوت دیتے ہوئے دلائل میں یہ تو لکھا کہ ڈاکٹر برق اگر تائب ہو گئے تھے تو من کی دنیا نامی کتاب میں یا میری آخری کتاب میں اس کا ذکر کیوں نہیں کیا، جبکہ "تاریخِ حدیث" کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا
اس بات کا کھوج لگانے کو میں نے ڈاکٹر غلام جیلانی برق صاحب کی تین کتب ڈاؤن لوڈ کر کے ان کا بیشتر حصہ پڑھا ہے۔
من کی دنیا ۔ یہ 1960 میں لکھی گئی۔ یہ روحانیات اور تصوف سے متعلق ہے
تاریخِ حدیث ۔ یہ کتاب 1969 میں لکھی گئی۔ یہ حدیث کے موضوع پہ ہے اور دو اسلام کے موضوع کے قریب ترین ہے۔
میری آخری کتاب ۔ یہ برق صاحب کی آخری کتاب ہے، اور 1976 سے 77 تک لکھی گئی۔ یہ کتاب قرآن میں موجود سائنسی انکشافات کے بارے میں ہے۔
دیکھا جائے تو "دو اسلام" سے رجوع کرنے کے ضمن میں من کی دنیا یا میری آخری کتاب کی بجائے تاریخِ حدیث نامی کتاب کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ اور یہ کتاب واقعی اپنے سابقہ بیانات سے یکسر متضاد دکھائی دیتی ہے۔ اسی بابت ڈاکٹر برق ابتدائیے میں ہی لکھتے ہیں کہ
"جو لوگ اس موضوع پر میری پہلی تحریروں سے آشنا ہیں، وہ یقیناً یہ اعتراض کریں گے کہ میرا موجودہ موقف پہلے موقف سے متصادم ہو رہا ہے۔ ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ انسانی فکر ایک متحرک چیز ہے، جو کسی ایک مقام پر مستقل قیام نہیں کرتی اور سدا خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتی ہے۔ جس دن فکرِ انسان کا یہ ارتقاء رک جائے گا، علم کی تمام راہیں مسدود ہو جائیں گی۔ ۔۔۔۔۔الخ"
کتاب میں موجود تمام مواد بھی گزشتہ کتاب سے یکسر مختلف ہے۔ اس حد تک کہ انسان کو گماں ہونے لگتا ہے کہ کیا واقعی یہ بھی ڈاکٹر برق کی ہی کتاب ہے۔
سوشل میڈیا پر اس ضمن میں جو مباحثہ چھڑا تھا، اس میں پہلے جاوید چودھری نے دو اسلام کے بارے میں لکھا۔ اس کے بعد اوریا مقبول جان نے اس کا جواب لکھا اور انکشاف کیا کہ خود ڈاکٹر برق اس سے تائب ہو چکے تھے۔ اس کے جواب میں جاوید چودھری نے پھر لکھا اور (میری نظر میں) صحافیانہ بددیانتی یا کم علمی کا ثبوت دیتے ہوئے دلائل میں یہ تو لکھا کہ ڈاکٹر برق اگر تائب ہو گئے تھے تو من کی دنیا نامی کتاب میں یا میری آخری کتاب میں اس کا ذکر کیوں نہیں کیا، جبکہ "تاریخِ حدیث" کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا۔
اسکے علاوہ مذہبی حلقے کی ایک تکنیکی یہ بھی ہے کہ کہ ان اس اٹھائے گئے گئے سوالات اور دلائل کا کا جواب نہیں دیا جاتا کتا بلکہ صاحب تنقید کو اس کے مرنے کے بعد بعد تائب مزید مشہور کردیا جاتا ہے ۔ بھائی اگر کوئی تائب بھی ہو گیا ہو تو اس کے اٹھائے گئے دلائل سوالات تو اب بھی موجود ہیں ہیں ان کا جواب تو نہیں دیا آپ نے۔جب بھی کوئی شخص کسی بھی روایت پر شبہ کا اظہار کرتا ہے تو اس کو ساری احادیث کا منکر کہہ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ اب واجب القتل ہے۔ غلام جیلانی برق کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ لگتا ہے۔
اسکے علاوہ مذہبی حلقے کی ایک تکنیکی یہ بھی ہے کہ کہ ان اس اٹھائے گئے گئے سوالات اور دلائل کا کا جواب نہیں دیا جاتا کتا بلکہ صاحب تنقید کو اس کے مرنے کے بعد بعد تائب مزید مشہور کردیا جاتا ہے
بھائی اگر کوئی تائب بھی ہو گیا ہو تو اس کے اٹھائے گئے دلائل سوالات تو اب بھی موجود ہیں ہیں ان کا جواب تو نہیں دیا آپ نے۔
مذہبی حلقوں کی جانب سے عام طور پر یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ جب کوئی بھی مروجہ مذہبی سوچ پر تنقید کرتا ہے تو اس کی زندگی میں اس کے اٹھائے گئے دلائل کا جواب نہیں دیا جاتا۔ اور جب وہ وفات پا جاتا ہے تو مشہور کر دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے خیالات سے تائب ہو گیا تھا۔ بھئی اگر وہ تائب بھی ہو جائے لیکن اس کے اٹھائے گئے سوالات کا تو جواب دو، ان سوالات و دلائل کو کیوں گول کر رہے ہو۔
اسکے علاوہ مذہبی حلقے کی ایک تکنیکی یہ بھی ہے کہ کہ ان اس اٹھائے گئے گئے سوالات اور دلائل کا کا جواب نہیں دیا جاتا کتا بلکہ صاحب تنقید کو اس کے مرنے کے بعد بعد تائب مزید مشہور کردیا جاتا ہے ۔ بھائی اگر کوئی تائب بھی ہو گیا ہو تو اس کے اٹھائے گئے دلائل سوالات تو اب بھی موجود ہیں ہیں ان کا جواب تو نہیں دیا آپ نے۔