تائید و استرداد کا حق آپ کو بہرحال حاصل ہے لیکن یہ مختلف مکتبہ ہائے فکر کی بات ہے۔ مختلف النوع نظریات کی بات ہے کہ کس کے نزدیک وہ بات اندر تھی اور کس کے نزدیک وہ باہر تھی۔
مثال کے طور پر جو آپ نے فرمایا کہ مشاہدے کا محرک اور قانون بنانے کا علم اندر سے آیا ، میں اس سے اختلاف رکھتا ہوں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مشاہدے کا محرک اندر سے کیسے آیا اور یہ کون طے کرے گا کہ مشاہدے کے لیے محرک ضروری بھی ہے یا نہیں؟ سائنسی انداز فکر یہ کہتا ہے کہ اگر علم اندر نہ ہونے سے باہر کچھ نہ ہونا لازم آئے تو علم کہاں سے آئے گا؟ باہر تو پھر کچھ بھی نہ ہوا؟
قانون بنانے کا علم اندر سے نہیں آسکتا کیونکہ قانون انسان ایسے ہی نہیں بنا سکتا جیسے ہم بیٹھے بیٹھے شعر کہہ دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے اندر سے آیا ہے۔ شعر بھی اس میں داخل ہے اور قانون بھی کہ یہ چیزیں اندر سے نہیں آتیں بلکہ باہر سے جو مشاہدہ اندر تک آگیا تھا، اس نے جو علم دیا، اس کا ذہن نے تجزیہ کیا اور جس نتیجے تک پہنچا، آپ اس کو کبھی قانون کہتے ہیں، کبھی شعر مانتے ہیں۔ یہ بھی آپ کا حسنِ نظر ہے۔ اب ہم اس سے ایک قد م آگے چلتے ہیں اور اند ر اور باہر کے بارے میں ایک اور نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو خواجہ شمس الدین عظیمی کا ہے۔ جو کچھ میں نے ان سے سیکھا، وہ غلط فہمی پر مبنی بھی ہوسکتا ہے لیکن میرے ۔مطابق پتھر آپ نے دیکھا اور آپ کو علم ہوگیا کہ وہ سخت ہے۔ آپ کو کیسے پتہ چلا کہ وہ سخت تھا؟ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ آپ کے اندر ہے۔ پوری کائنات آپ کے اندر ہے ، اسی لیےآپ کو اس کا علم ہے اور آپ آنکھیں بند کرکے بھی اس کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ فرق صرف حواس کا ہے۔ حواس ظاہری بھی ہیں اور باطنی بھی۔ وجدان کوئی الگ حس نہیں ہے جسے چھٹی حس کہا جائے۔ بلکہ دیکھنا، سونگھنا، چکھنا، سننا اور محسوس کرنا ، سب کا سب ظاہری بھی ہے اور باطنی بھی۔ یعنی پانچ حواس ظاہری ہیں۔ پانچ باطنی۔ اب یہ آپ پر ہے کہ آپ ان حواس کو کیسے کام میں لاتے ہیں۔ مزیدتفصیلات اس کی بعد میں عرض کروں گا، اگر ضرورت ہوئی۔۔۔۔
آپ کا شکریہ کہ حسن اختلاف آپ کی خوبی ہے اور جوہر گفتگو بھی !
اندر، باہر کے حوالے سے بات گوکہ آف ٹاپک ہے مگر خیر اس سے ملحق بھی ہے ۔۔سائنسی فکر میں اجتماعی فکر کے بجائے انفرادی فکر لے آئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ مجھے بتائیں کہ آپ نے کسی بھی شے کو اپنی باطنی قوت سے دیکھا مگر وہ اس دنیا میں وجود نہیں رکھتی اسی حوالے سے جان ناش کی بات کی تھی ، حساب کے جتنے جدید قوانین بنائے گئے وہ جان ناش نے اپنے اندر کی دنیا سے تخلیق کیے ۔۔۔۔ چلیں یہ کہا جاسکتا ہے علم موجود ہے اندر بھی باہر بھی مگر اس کا ادراک کون کرے ۔۔وہ جو ادراک کرپاتے ہیں ان کی قوت متخیلہ تیز ہوتی ہے یعنی بصیرت ۔۔۔
ضروری نہیں اندر کچھ نہیں تو باہر کچھ نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ اس کو لازم مت کریں ۔اس سے اتنا ظاہر ہوتا ہے کہ مفکر ، موجد ، اور انقلابی علم کا باطنی سمندر رکھتے دنیا کو دے جاتے ہیں جبکہ جو اندر کی وسعت نہیں رکھتے وہ اس مستعار سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔۔سائنس تو دو جمع دو ۔۔۔چار کا فارمولا ہے زندگی دو نفی دو چار بھی ہوسکتی ہے ۔۔۔
خواجہ عظیم الدین شمسی کی بات مجھے مکمل لگی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔آپ اس بارے آگہی دیجیے کہ وجدان کیا ہے اور کیون چھٹی حس نہیں ہے