مزمل شیخ بسمل
محفلین
کچھ مختصراً ہی بتادیں۔۔۔ ۔
شعر کے اجزا کیا ہیں؟ شعر کن کن عناصر سے وجود میں آتا ہے۔ شعر میں وزن، بحرقافیہ اور ردیف وغیرہ کی کیا اہمیت ہے اور اسی طرح کی دیگر چیزیں جنہیں ہم اکثر مباحث میں بطور موضوع زیر بحث لاتے رہتے ہی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے یہ تمام اجزا ایسے ہیں جو کسی خاص زبان کے شعر کے لیے ضروری اجزا ہوسکتے ہیں، تمام زبانوں پر ان کا اطلاق نہیں ہوتا۔ مثلاً اگر ہم کہیں کہ شعر میں بحر کا ہونا ضروری ہے تو یہ بات اردو یا چند دوسری زبانوں کے لیے تو درست ہوگی مگر ہر زبان پر اس کا اطلاق ممکن نہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ شعر ہر زبان میں کہا جاتا ہے تو اس میں چند ایسے عناصر بھی موجود ہیں جنہیں ہر زبان سے تعلق رکھنے والے قبول کرتے ہیں اور ان سے اتفاق بھی کرتے ہیں۔ علمائے فن نے لکھا ہے کہ شعر اصل میں دو چیزوں سے مل کر بنتا ہے:
۱) محاکات
۲) تخیل
یہاں میں اپنی فطرت کو غالب جان کر یہ بات واضح طور پر لکھ دوں کہ میرے نزدیک محاکات اور تخیل دو مختلف نہیں بلکہ ایک ہی چیز ہے۔ کیونکہ محاکات تخیل کے بنا اسی طرح معدوم ہوجاتا ہے جس طرح عقل دماغ کے بنا۔ بالفاظ دیگر تخیل محاکات کی ماں ہے۔ تخیل محاکات کو جنم نہ دے تو محاکات کا اپنا وجود کوئی نہیں۔ تو باقی جو رہ جاتا ہے وہ محض تخیل ہے۔ اور اس بات پر علمائے فن بھی متفق ہیں کہ شعر میں اگر محاکات نہ ہو تو بھی وہ شعر کہلائے گا۔ تو میں یہ بات کہنے میں حق بجانب ہوا کہ شعر کا اصل عنصر تخیل کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔
محاکات
لفظ محاکات حکایت سے تعلق رکھتا ہے اور لغوی معنی بھی داستان گوئی یا کسی چیز کی نقل کرنا وغیرہ کے ہیں۔ اصطلاح فن میں اسے کہتے ہیں کہ کسی چیز کا ذکر اس انداز میں کرنا کہ اس کی تصویر دماغ میں جگہ کرلے۔ کسی واقعے یا کسی منظر کو ان الفاظ میں بتانا کہ اس سے منظر کے ایک ایک حصے کی تصویر عریاں ہو کر اور کھل کر سامنے آجائے۔
یعنی ایک بات یہ بھی واضح ہو گئی کہ محاکات کو تعلق لفظوں سے ہے جبکہ مصوری ایک الگ شعبہ ہے۔ ایک مصور کسی تصویر کو چاہے جتنا بہترین اور واضح اور ہو بہو کیوں نہ بنا لے وہ محاکات کے کمال کو (جو الفاظ سے حاصل ہوتا ہے) نہیں پہنچ سکتا۔ بے شک محاکات میں تخلیق کار در حقیقت کوئی تصویر نہیں دکھاتا لیکن وہ اپنے الفاظ اور محاکات کے ذریعے سے ایک ایسے جذبے کی تخلیق کرتا ہے جو تصویر میں ممکن نہیں۔ یاس یگانہ چنگیزی نے لکھا ہے کہ مصور جو تصویر بناتا ہے اس تصویر میں کوئی عمق نہیں ہوتا۔ کیونکہ تصویر جس کاغذ پر بنائی گئی اس میں ہی عمق نہیں لیکن دیکھنے والا بالکل واضح طور پر دیکھ کر جان لیتا ہے کہ تصویر کسی موٹے آدمی کی ہے یا دبلے آدمی کی۔ کیونکہ تصویر میں طول عرض موجود ہوتا ہے، یہی طول عرض الفاظ میں ہوتا ہے تو محاکات کا کام کرتا ہے۔ اسی طرح مولانا شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ تصویر میں ایک اچھا مصور کسی انسان کی ایسی تصویر بھی بنا سکتا ہے کہ دیکھنے والے کو تصویر میں موجود انسان کی شکل سے غم، رنج، خوشی، غصہ وغیرہ محسوس ہوسکتا ہے۔ تاہم تصویر ہر جگہ محاکات کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ اسی وجہ سے سیکڑوں واقعات، حالات اور واردات ایسے بھی ہیں کہ انہیں تصویری صورت میں پیش کرنا محال ہے۔ چناچہ مثال سے واضح ہے۔ قا آنی:
نرمک نرمک نسیم،زیر گلاں می خزد
غبغب ایں می مکد ،عارض آں می مزد
گیسوئے ایں می کشد،گردن آں می گزد
گہ بہ چمن می چمد، گہ بہ سمن می وزد
گاه بہ شاخ درخت،گہ بہ لب جویبار
محاکات کی مثالوں میں یہ اعلی سے اعلی مثال ہے۔ یعنی ہوا کا دھیرے دھیرے سے آنا، پھر پھولوں میں گھسنا۔ کسی پھول کا گال چوم لینا۔ کسی پھول کی ٹھوڑی چوس لینا کسی پھول کے بال نوچ لینا اور پھر درخت کی ٹہنیوں سے ہوتے ہوئے نہر کے کنارے پہنچ جانا۔ یہ خیال کسی تصویر میں ادا کرنا کیوں ناممکن ہے؟ اس کا جواب آپ جانتے ہی ہیں مجھے وضاحت کی ضرورت نہیں۔
پھر یہ ایک ایسا خیال ہے جسے مادّی اشیا سے کافی تعلق ہے لیکن ایسے خیالات جو غیر مرئی (abstract) ہوں انہیں کیسے تصویر میں پیش کیا جاسکے گا؟ مثلاً ناصر کاظمی کی مثال لیجئے:
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
یہ بھی محاکات کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اب سوچیں کوئی مصوّر اداسی کو کس طرح تصویر میں کسی کے گھر کی دیواروں پر بال کھول کر سُلا پائے گا ؟ لیکن شاعری اور خصوصاً اردو اور فارسی شاعری میں یہ آزادی بڑی وسعت سے دیکھی گئی ہے کہ ہمارے یہاں شعرا محاکات کی خوبصورتی کو بہت وضع و قطع کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ایسے ایسے الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں کہ سننے والا سن کر اور پڑھنے والا پڑھ کر خیالوں میں بنی ایک کائنات میں کھو کر واپس آنے کی تمنا ہی نہیں کرتا۔ محاکات میں الفاظ کے چناؤ کا کردار بھی ایک بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ورنہ تصویر کی وضاحت غیر فصیح الفاظ کی دھند میں دھندلی ہوجاتی ہے۔
خواہاں تھے زھر گلشن زھرا جو آب کے
شبنم نے بھر دیے تھے کٹورے گلاب کے
دوسرے مصرعے میں لفظ "شبنم" کی جگہ "اوس" کردو تو مصرع بے وزن ہوجائے گا لیکن یہ ضرور واضح ہوجائے گا کہ اوس کے بھرے گلاب کے کٹورے کس قدر غیر فصیح ہے اور محاکات کی اس عمدہ مثال کو صرف ایک لفظ کا فرق پایۂ فصاحت سے کتنا نیچے گرا دیتا ہے، اور ساتھ ہی جو منظر شاعر کو دکھانا مقصود ہے وہ بھی حاصل نہیں ہو پاتا۔
چلنا وہ بادِ صبح کے جھونکوں کا دم بدم
مرغانِ باغ کی وہ خوش الحانیاں بہم
وہ آب و تابِ نہر وہ موجوں کا پیچ و خم
سردی ہوا میں بر نہ زیادہ بہت، نہ کم
الفاظ کا اثر محاکات پر واضح ہے۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ ایسے مناظر کسی تصویر سے حاصل نہیں ہوسکتے، تصویر چاہے کتنے ہی خوبصورت ہوں لیکن تاثر وہ نہیں ملے گا جو شاعرانہ مصوری سے ہمیں حاصل ہوا۔ جو جذبہ، جو اثر یہ الفاظ چھوڑتے ہیں وہ چیز تصویر سے حاصل ہونا ممکن نہیں۔ بادِ صبح کے جھونکے۔ اس پر مرغانِ باغ کی خوش الحانی، موجوں کے پیچ و خم وغیرہ یہ سب محاکات کی کارفرمائی ہے۔
کھا کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا
تھا موتیوں سے دامن صحرا بھرا ہوا
اس مثال سے یہ واضح ہے کہ بعض اوقات شاعر اپنے فن میں اس قدر آگے ہوتا ہے کہ وہ لفظوں سے ایسا منظر تخلیق کر دیتا ہے جو ہمیں تصویر یا بعض اوقات اصل منظر کو دیکھ کر بھی محسوس نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ سبزہ پر شبنم کو دیکھ کر وہ تاثر نہیں پیدا ہوگا جو یہ شعر پیدا کر رہا ہے۔ محاکات کی یہ مثالیں میرے خیال میں کافی ہیں اس بات کے لیے کہ محاکات کی حقیقت کو سمجھا جا سکے۔ ورنہ گفتگو تو بہت طویل بھی ہوسکتی ہے جس کی ضرورت مجھے محسوس نہیں ہوتی۔
تخیل
تخیل خیال سے ہے۔ اور اس کے معانی بھی تصوّر یا قیاس وغیرہ کے ہیں۔ اصطلاح فن میں علماء نے تخیل کو قوت اختراع یا قوت تخلیق بتایا ہے۔ یعنی تخیل وہ قوت یا وہ قدرت ہے جس کے استعمال سے انسان کسی غیر موجود چیز کو وجود میں لے کر آئے۔ یا پھر تخیل وہ ہے جس سے انسان کسی ایسے خیال کو تخلیق کرے جو مطلق موجود نہ ہو۔ تخیل کی ایک اور تعریف جو کہ میرے نزدیک زیادہ معتبر اور منطقی ہے وہ یہ کہ غیر مرئی اشیاء یا وہ اشیاء جو ہمیں حواس کی کمی یا اجمالی محسوسات کی وجہ سے تفصیلی طور پر محسوس نہیں ہوتی انکو سامنے لانا یا انکو محسوس کرنا اور کروانا تخیل کہلاتا ہے۔
اب اس تعریف کے مطابق غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کائنات میں جس قدر ترقی ہوئی ہے وہ کسی نہ کسی راستے سے تخیل تک پہنچتی ہے۔ اگر کوئی سائنس دان سائنسی علوم میں سے کسی چیز کا معائنہ کرکے اس سے کچھ حاصل کرتا ہے اور لوگوں کو اس سے آگاہ کرتا ہے تو یہ بھی قوتِ تخیل کی وجہ سے ہے۔ کوئی فلسفی کسی مظہر قدرت کی تہہ تک پہنچنے کے لیے جس ہتھیار کا استعمال کرتا ہے وہ بھی قوت تخیل ہی ہے۔ اور شاعر بھی جذبات کو متحرک کرنے کے لیے تخیل ہی سے کام لیتا ہے۔ میرا یہاں ان مثالوں کو ذکر کرنے کا ایک مقصد یہ واضح کرنا بھی ہے کہ تخیل کے لیے پڑھا لکھا ہونے اور علم کا بہت ذخیرہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس اور فلسفے میں جو ترقی ہوئی ہے اس میں ہمیں معمولی اور واجبی علمی رکھنے والے بھی ایسے نظر آتے ہیں جنہوں نے سائنس اور فلسفے کی دنیا کو یک لخت متحرک کر دیا۔ یہی معاملہ شاعر کا بھی ہے کہ اچھی شاعری اور اچھی تخلیق کے لیے علم کی زیادتی ضروری نہیں بلکہ قوتِ تخیل ضروری ہے۔ لیکن یہ ماننا بھی ضروری ہے کہ اگر علم اور تخیل ساتھ ساتھ ہے تو شعر بہر حال اپنے مرتبے سے بہت بلند درجے پر پہنچ جائے گا۔
اب تخیل اور محاکات کو بالمقابل رکھو اور سوچو کہ کیا تخیل اور محاکات حقیقی طور پر الگ ہیں؟ محاکات میں لفظوں کا استعمال ہوتا ہے لیکن وہ لفظ کہاں سے آئے؟ کیا ایک عام آدمی جو قوت تخیل نہ رکھتا ہو وہ الفاظ کو اسی خوبی سے باندھ سکے گا کہ محاکات کا حق ادا ہوجائے؟ یہ تو واضح کیا جاچکا ہے کہ الفاظ کا چناؤ محاکات پر اثر انداز ہوتا ہے تو سوچو کہ ایک بھونڈا تخیل رکھنے والا انسان محاکات کے مدارج کو کیونکر درستی سے طے کر پائے گا؟ جو تصویر اسے شعر میں بنانی ہے اس کے لیے جو تخیل چاہیے وہ کہاں سے آئے گا؟ محاکات میں بیک وقت دو کام ہورہے ہوتے ہیں۔ ایک تو مضمون کی آمد۔ دوسرا مضمون کی وضع کی آمد۔ علماء مضمون کی آمد کو تخیل کی کارفرمائی کہتے ہیں جب کہ محاکات کو وضع سے منسوب کرتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت میں وضع قوتِ تخیل ہی کا فیضان نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ بات میری ناقص عقل سے بالاتر ہے۔ اسی لیے جو مثال محاکات کے لیے مناسب ہے وہ مثالیں تخیل کی بھی بھر پور عکاسی کرتی ہیں۔ بہر حال ذیل میں جودتِ تخیل پر چند مثالوں پر اکتفا کروں گا۔ کیونکہ اس پر جس قدر مثالیں دی جائیں کم ہیں۔
غالبؔ
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
جامِ جم سے تو مرا جام سفال اچھا ہے
دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں
ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
فرازؔ
شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فرازؔ
یہ بھی اک سلسلۂ کُن فیکوں ہے یوں ہے
رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں