اللہ کا فضل
آج کل ہمارے ارد گرد جو باتیں بڑی شدت سے ہونے لگی ہیں کہ یہ دنیا بڑی Materialistic ہو گئی ہے، ہم مادی زندگی میں داخل ہو گئے ہیں، لالچی ہو گئے ہیں اور ہماری توجہ روپے پیسے کی طرف زیادہ ہے۔ پہلے شائد ایسا زمانہ نہیں تھا، لیکن میں سوچتا ہوں اور اپنے بچپن کی طرف لوٹتا ہوں اور اس مسئلے پر غور کرتا ہوں، تو مجھے یوں لگتا ہے کہ بڑی دیر سے ہماری Material اور مادے کے ساتھ وابستگی چلی آ رہی ہے اور ہم لوگوں کے ساتھ جو اتنی وابستگی نہیں ہونی چاہیے تھی، پھر بھی موجود ہے، پتا نہیں کیوں؟
اس وابستگی کی بیشمار وجوہات ہوں گی، لیکن میں جس نتیجے پر پہنچا ہوں، وہ بڑا عجیب ہے اور میں اسے آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں کہ آپ بھی اس پر غور کریں اور سوچیں۔ جب ہم بچپن میں لڑکپن میں جمعہ کی نماز پڑھنے جاتے تھے، تو اپنے اباجی کے خوف کے باعث جاتے تھے۔ وہ تیار ہو کر کپڑے بدل کر ہمیں بھی نئے صاف کپڑے پہنا کر جمعہ پڑھانے لے جاتے تھے۔ میٹرک تک ہم نے تقریباً ایسا ہی جمعہ پڑھا ہے، زور زبردستی۔ لیکن جب میں فرسٹ ایئر میں آیا اور یہاں آ گی، بڑے شہر میں تعلیم حاصل کرنے کے لیئے، تو پھر عجیب بات ہے کہ جمعہ مجھے اچھا لگنے لگا اور میں اس میں اپنی مرضی ایما اور دل کی خوشی سے داخل ہو گیا اور جمعہ پڑھتا رہا۔ پڑھائی کا دور ختم ہوا۔ نئی زندگی میں داخل ہوئے، میں نے نوکری شروع کر دی۔ پھر بھی جمعہ کا چلن ویسے ہی رہا اور جمعہ کے بارے میں اللہ کا یہ حکم ہے‘ اس کا مفہوم بیان کرتا ہوں :
“ اے مومنو ! جب نماز کی اذان دے جائے، تو جمعہ کی طرف دوڑو اور خریدوفرخت بند کر دو اور جب نماز ادا کر چکو تو پھر دُور دُور پھیل جاؤ اور اپنے اللہ کے فضل کا تلاش شروع کر دو۔“
اس میں اللہ کے فضل کا جو بریکٹوں میں ترجمہ عام طور پر دیا جاتا ہے، وہ یہی ہے کہ تم پھر اپنی روزی کی تلاش کی طرف لگ جاؤ۔ ہم بھی یہی سمجھتے رہے اور اب تک بھی یہی سمجھا جاتا رہا ہے۔ پچھلے چند سال کی بات ہے میرے ساتھ ایک اور صاحب بھی قریب قریب اکثر جمعہ پڑھنے آتے تھے۔ میری ہی عمر کے تھے، لیکن میں نے ان سے کبھی کچھ پوچھا ہی نہیں۔ کبھی علیک سلیک بھی نہیں ہوئی۔ لیکن ہم ایک دوسرے کی طرف مقناطیسی طور پر ضرور متوجہ ہوتے تھے۔ ایک دن جب وہ نماز ادا کر چکے اور نکلنے لگے اور ہم جوتے پہن رہے تھے، تو میں نے کہا، صاحب ! آپ کیا کرتے ہیں اور کہاں رہتے ہیں؟ اس نے کہا میں سکول ٹیچر ہوں اور ریٹائرڈ ہو چکا ہوں۔ میں نے کہا میں بھی ریٹائرڈ ہوں۔ جو آدمی ریٹائرڈ ہوتا ہے وہ بہت بے چین ہو جاتا ہے۔ نئی نوکری تلاش کے نے کے لیئے۔ اس میں اتنا خوف پیدا ہو جاتا ہے ریٹائرمنٹ کے قریب کہ وہ گھر کے کام کا نہیں رہتا اور لڑائیاں کرتا ہے اور جلدی فوت ہونے کی کوشش کرتا ہے، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ میرا نوکری کا کام تو ختم ہو گیا، گھر والے بھی اسے بڑا نالائق سمجھتے ہیں کہ یہ خوامخواہ ریٹائرڈ ہو کر گھر بیٹھ گیا ہے۔
ہم دونوں تقریباً اسی کیٹیگری میں تھے۔ میں نے کہا آب آپ کیا کرتے ہیں؟ اس نے کہا، میں جمعہ کی نماز پڑھ کر پھیل جاتا ہوں اور اللہ کے فضل کی تلاش میں نکل جاتا ہوں۔ میں نے کہا، اللہ کے فضل کی تلاش تو یہ ہے کہ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ میں جمعہ پڑھ کے میں اس زمانے میں ریڈیو میں ملازم تھا، دور دور تک تو نہیں پھیلتا تھا، کیونکہ میرا کام ہی لاہور میں ہوتا تھا۔ میں امریکن سفارتخانے کو جمعہ کے دن انگریزی سے اردو اور اردو سے انگریزی سے تراجم کر کے دیتا تھا اور معقول معاوضہ حاصل کرتا تھا۔ پھر انہیں وائس آف امریکہ میں کچھ ریکارڈنگز کی ضرورت تھی، تو ظاہر ہے کہ میں وہ کام بطریق احسن کرتا رہا۔ میں جمعہ پڑھنے کے بعد اللہ کے فضل کا سہارا لیتا تھا اور جمعہ سے قبل خریدوفرخت بند کر دیتا تھا۔
میں نے اس سے کہا آپ نے کچھ طے نہیں کیا ہوا، پہلے سے پتا ہونا چاہیے کہ آپ کو جا کر کیا کرنا ہے۔ آڑھت منڈی جانا ہے، اکبری منڈی جانا ہے یا سوتر منڈی میں جا کر کام کرنا ہے۔ انہوں نے کہا میں تو بس فضل کی تلاش میں نکل جاتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ جب میں نے جمعہ کے حوالے سے یہ قرآنی آیات پڑھیں تو میرے دل پر یہ وارد ہوا کہ اللہ کا فضل خالی روزی ہی نہیں اور رزق خالی کھایا جانے والا، ماش کی دال، چھلکے والی، بغیر چھلکے والی، گرم مصالحہ “ لون “ (نمک) مرچ ہی نہیں، اللہ کے فضل کے بڑے روپ ہیں۔ اس نے کہا کہ جب میری شادی ہوئی اور میری ماں نے کڑکی کو تلاش کیا تو میں نے اسے پہلے نہیں دیکھا تھا، کیونکہ پہلے دیکھنے کا اس وقت رواج ہی نہیں تھا۔ میں نے کہا اماں ! کیسی ہے ؟ اس نے کہا کہ بس ٹھیک ہے۔ تھوڑی سی اس میں کسر ہے، ذرا بھینگی ہے۔ تم اسے برداشت کرنا کہ یہ اللہ کا رزق ہے اور تمہیں اس میں اللہ کا فضل تلاش کرنا ہے۔ لڑکی کی شکل صورت میں کچھ ڈھونڈنے کی کوشش نہ کرنا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، مجھے منظور ہے۔
جب میں نے اپنی بیوی کو دیکھا تو اس کی شکل تقریباً نورجہاں سے ملتی تھی۔ بہت خوبصورت تھی اور اس کی آنکھوں میں کوئی “ٹیڑھ ویڑھ“ (بھینگا پن) بھی نہیں تھا۔ وہ کہنے لگا کہ اس سے مجھے بڑا شاک ہوا کہ اماں نے میرے ساتھ اچھا مذاق کیا ہے۔ میں نے کہا، اماں وہ تو ٹھیک ٹھاک ہے۔ کہنے لگی، یہ تو تجھ پر اللہ کا فضل ہو گیا اور وہ تیری بیوی نہیں، وہ اللہ کا فضل ہے۔
اب میرے ذہن میں یہ آیا کہ میں اللہ کے فضل کی تلاش میں نکلوں۔ میں نے اس سے کہا کہ میں بھی آپ کے ساتھ نکل سکتا ہوں۔ اس نے کہا ذرا دور تک آپ پیدل چلیں گے؟ میں نے کہا ہاں - وہ پیدل چلتا رہا، مجھے تو اتنی پریکٹس نہیں تھی اس لیئے میں منہ میں گولی رکھ کے چلتا رہا۔ یہ جو عمران خان کا ہسپتال ہے، ہمارے لاہور میں شوکت خانم یہ کھلی جگہ ہے، وہاں قریب ہی بہت ساری جھگیاں ہیں چنگڑوں کی اور ان کے بچے جو ہیں وہ پرانے لفافے اکٹھے کرتے ہیں۔ ہم وہاں پہنچے ان کے چودہ پندرہ سولہ سال کے بڑے اچھے کڑیل قسم کے لڑکے جو لفافے اکٹھے کرنے کا پیشہ کرتے تھے، بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے ہمیں دیکھ کر ہاتھ ہلا کر کہا “ آ گئے، آ گئے، آ گئے، “ اور خوشی کا نعرے مارے۔ میرے ساتھ جانے والے نے اپنی جیب سے نکال کر سیٹی بجائی۔ وہ سارے آٹھ لڑکے قطار میں کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے کہا پچ تیار ہے۔ لڑکوں نے کہا ٹھیک ہے۔ انہوں نے کہا وکٹیں لگاؤ اور پھر وہاں کرکٹ کا میچ شروع ہو گیا اور یہ امپائر بن کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے، یہ کئی مہینوں سے کرکٹ کھیلتے تھے اور ان بیچاروں کو کوئی امپائر نہیں ملتا تھا، تو لڑتے تھے۔ میں جب اللہ کے فضل کی تلاش میں نکلا تو میں نے دیکھا وہ تو یہاں پڑا ہے۔
وہ بڑے سخت امپائر تھے اور بڑی سختی کے ساتھ فیصلہ دیتے۔ جب انہوں نے ایک لڑکے کو ایل بی ڈبلیو دیا تو میرے اندازے میں وہ غلط تھا، لیکن جب انہوں نے انگلی اٹھائی تو بیٹسمین وہیں بلا چھوڑ کر چلا گیا۔ انہوں نے ایسے ڈسپلن والے بچے تیار کیئے ہوئے تھے، کیونکہ وہ جو انہیں کھلانے والے تھا، وہ کسی اور پچ پر کھیل رہا تھا اور وہ پچ کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ اس نے کہا کہ میں ہر جمعہ یہاں آ جاتا ہوں۔ میرا ان کے ساتھ وعدہ ہے اور اس طرح میں اللہ کے فضل کی تلاش میں نکلتا ہوں اور مجھے اس کا فضل کثیر صورت میں نصیب ہوتا ہے۔
اب میں ان سے بڑا شرمندہ ہوا کہ میں تو جا کر ترجمے کرتا تھا اور پیسے کماتا تھا، کیونکہ بریکٹ میں یہی لکھا ہوا ہے۔ اس نے کہا کہ جب میں نے آیات کے ترجمے میں پھیل جانا پہلی بار پڑھا تو مجھے اس پھیلنے کا یہی مطلب ملا کہ چلتے جاؤ، چلتے جاؤ۔ سو اشفاق صاحب میں چلتا گیا چلتا گیا اور ریلوے سگنل کے پاس پہنچ گیا، جہاں پر میرے رشتے کی ایک بھانجی رہتی تھی اور وہ بیچارے غریب لوگ تھے۔ تھی تو وہ میری چچازاد بہن کی بیٹی، لیکن چونکہ وہ امیر نہیں تھے اور ہم نے ان کی جانب توجہ نہیں دی تھی اور کبھی ملے ہی نہیں۔ جب چلتے چلتے اس کا گھر آ گیا تو میں اندر چلا گیا، تو اس نے خوشی سے چیخیں ماریں کہ “ ماما جی آ گئے، ماما جی آ گئے “ اور اپنی دونوں بیٹیوں کو بلا لیا کہ یہ میرے ماما جی ہیں۔ وہ بھی میرے ساتھ لپٹ گئیں اور کہنے لگیں “ ماما جی ! آپ ہمارے پاس آتے کیوں نہیں؟ میں نے کہا، میں جمعہ پڑھنے کے بعد اس کے فضل کی تلاش میں نکلا ہوں، تو آج مجھے یہ فضل نصیب ہوا ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ اسے اپنی بھانجی کے گھر جا کر پتا چلا کہ میری بھانجی کی بیٹیاں اور وہاں کی پانچ لڑکیاں پرائیویٹ کالج سے ایف ایس سی کر رہی تھیں اور کسی بڑے کالج نے انہیں جمعہ کی شام کو پریکٹیکل کرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ وہ چونکہ سب اکیلی ہوتی تھیں اور علاقہ بہت دور کا تھا، تو وہ ڈرتی تھیں اور جاتی نہیں تھیں۔ لٰہذا جب مجھے پتا چلا تو میں ان کا سپاہی بن کر ہر جمعہ انہیں کالج لے بھی جاتا تھا اور لے کر بھی آتا تھا۔ یہ میری ڈیوٹی مجھے اس آیت کی وجہ سے لگی رہی۔ میں خوش رہا۔ میں زندگی میں اتنا خوش کبھی نہیں ہوا، جتنا کہ اللہ کا فضل ملنے کے بعد رہا۔
ایک دن میری بھانجی نے کہا کہ ماما جی! آپ آتے تو رہیں گے یہاں کہ نہیں؟ میں نے کہا، میں یہاں ضرور آتا رہوں گا۔ بھانجی نے کہا کہ عقیلہ اور سجیلہ کا بندوبست ہو گیا ہے اور کالج نے کچھ چندہ کے عوض ایک وین کی سہولت دے دی ہے۔ میں نے کہا نہیں پھر بھی آتا رہوں گا۔ لیکن ظاہر ہے کہ ایسے ربط کے ساتھ نہیں آ سکوں گا۔ مجھے کوئی نوکری یعنی اللہ کا فضل تلاش کرنا پڑے گا۔ یہ فضل کی نوکری بڑے مزے کی ہوتی ہے۔ یہ بیٹھے بیٹھائے ہر کسی کو نہیں ملتی۔ کہنے لگے کہ یہ بھی اللہ کی بڑی مہربانی رہی کہ میں بھانجی کو ملنے وہاں جاتا رہا اور مجھے ایک کھوئی ہوئی بھانجی مل گئی۔ بھانجی نے کہا کہ ماما جی ! یہاں قریب ہی ایک خاتون ہیں، جو معذور ہیں۔ چلنے پھرنے سے اور اکیلی رہتی ہیں۔ انہیں سودا وغیرہ لانے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ یہ ڈیوٹی ذرا سخت تھی۔ تو میں جمعہ کے بعد اس کے پاس گیا۔ وہ پڑھی لکھی خاتون تھیں، لیکن طبیعت کی سخت تھیں۔ کہنے لگے، میں نے ان سے کہا کہ جی سودا میں لا دیا کروں گا۔ اس خاتون نے پہلے میری شکل غور سے دیکھی اور کہنے لگی، دیکھو ! تم مجھ پر مہربانی کرنے آئے ہو، لیکن میں تمہیں پہلے پیسے نہیں دوں گی۔ تم سودا لا دیا کرو اور حساب کر دیا کرو، تو پھر میں پیسے دوں گی، کیونکہ کئی لوگ دھوکہ کرتے ہیں۔ میں نے کہا نہیں جی، یہ تو میری توہین ہے۔ میں کیوں بےایمانی کروں گا آپ کے ساتھ۔ میں تو پہلے پیسے لوں گا۔
جب میں اڑ گیا تو خاتون نے میرے چہرے سے بھانپ لیا کہ ماسٹر کریم شرارت کے طور پر ایسا کر رہے ہیں۔ اب اس خاتون نے پتوکی سے پھولوں کے بیج منگوائے۔ پتوکی جہاں بہت پھول ہوتے ہیں، پتوکی سے ہم پھول ایکسپورٹ بھی کرتے ہیں۔ یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ پتوکی جیسا علاقہ خشک بے آب و گیاہ۔ کڑوا پانی۔ وہاں اللہ نے اتنے پھول پیدا کر دیئے ہیں کہ ہم وہ ولایت کو ایکسپورٹ کر رہے ہیں۔ وہ خاتون ہر بار سودے اور چیزوں کا بغور جائزہ لیتی تھیں۔ کبھی کہتی یہ دارچینی تو انتنے کی نہیں ہوتی، تم تین آنے زیادہ دے آئے ہو، یہ سوکھا دھنیا جو بھی کچھ ہوتا تھا، ان کی قیمتوں کا سخت جائزہ لیتی تھیں اور اسے سخت طریقے سے بار بار چیک کرتی تھیں اور میں نے کئی دفعہ یہ ارادہ کیا۔ میں اس “ فضل “ کو چھوڑ دوں، لیکن جب جمعہ کی اذان ہوتی تو میں دوڑتا ہوا نماز کے لیئے آتا تھا اور نماز پڑھ لیتا تھا، تو میرے کانوں میں یہ گونجنے لگتا تھا کہ “ تم پھر اللہ کی زمین پر پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرؤ “ تو میں پھر رہ نہیں سکتا تھا اور اس سخت اور کڑوی خاتون کی خدمت میں حاضر ہو جاتا تھا۔
میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کے فضل کی ایک ہی شکل نہیں ہے، اللہ کا فضل تو وسیع ہے۔ یعنی میری اور آپ کی سانس سے لے کر کبھی کبھی آدمی ناشکرا ہوتا ہے کہ مجھے زندگی میں کیا ملا۔ یہ بیبیاں ہوتی ہیں کہ ذرا ذرا سے بات پر چڑ جاتی ہیں۔ میری پوتی ناراض ہو کر جب دروازے میں چابی ڈالتی ہے تو وہ کھلتا نہیں، پھر چڑ جاتی ہے اور کہتی ہے “بابا یہ مجھ سے کیوں نہیں کھلتا ہے؟ بس ذرا سی بات پر رنجیدہ ہو جاتی ہے۔ حالانکہ وہ بیچارہ کھل رہا ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ میں کہوں کھل جا سم سم تو یہ جھٹ سے کھل جایا کرے۔ میں نے کہا اللہ نے تم کو اتنی نعمتیں دی ہیں۔ کہنے لگی نہیں نہیں کوئی نعمتیں نہیں دیں۔ میرے پاس کون سے نعمت ہے بتائیں؟ اس نے کہا کہ ہم نے مرسیڈیز لینی ہے، یہ ٹویوٹا کرولا تو فضول چیز ہے۔ میں نے کہا، دیکھو یہ اللہ کی کتنی بڑی مہربانی ہے کہ تم کو سب سے قیمتی چیز مفت مل رہی ہے۔ وہ آکسیجن ہے۔ دنیا کی بیش قیمت چیز اگر تمہیں ہر صبح جا کر خریدنی پڑے تو کتنی مشکل ہو۔ قتل و غارت گری ہو، کچھ کنٹرول ہی نہ ہو۔ اللہ جو ہمیں پانی دیتا ہے اور میں پانی کو دیکھ کر سوچتا ہوں کہ یااللہ تعالٰی تو نے یہ کیسے بنایا اور ہمارے کتنے کام اس کے ساتھ وابستہ ہیں اور ہمارا کام مفتا مفت چلا جا رہا ہے۔ تو اللہ کے فضل کے بڑے رُوپ ہیں۔
یہ “زاویہ“ پروگرام تو آپ سے ملاقات کا ایک بہانہ ہے۔ میں اسی لیئے عرض کرتا ہوں اپنے آپ کو سمجھانے کے لیئے بھی۔ میرے اندر ایک چڑ رہتی ہے اور میں ایک سخت گیر آدمی ہوں اور ایک انسان میں لچک ہونے چاہئے۔ وہ میرے اندر نہیں ہے اور اپنے آپ کو سمجھانے کے لیئے میں آپ کا سہارا لیتا ہوں کہ اے اشفاق احمد ! اللہ کا فضل تو بڑے مختلف روپ میں پھیلا ہوا ہے۔ آپ نے تو کبھی غور نہیں کیا کہ جب آپ کرکٹ کا کوئی میچ دیکھنے بیٹھتے ہیں، تو بڑا فضل بڑی راحت محسوس ہوتی ہے۔ کبھی Tension میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ “ اوہ “ اگر اس کا چھکا لگ جاتا تو بڑی اچھی بات ہوتی۔ اچھا شوکت خانم کی جھگیوں کے پاس جو لڑکوں کی ٹیم ہے، وہاں چوکے تک کی تو اجازت ہے، چکھے کی نہیں ہے۔ اب دیکھئے امپائر نے کتنی سخت شرط لگائی ہوئی ہے، چھکے کی اجازت اس لیئے نہیں ہے کہ چوکے کے باہر اردگرد کوٹھیاں شروع ہو جاتی ہیں اور چھکے سے خطرہ ہوتا ہے کہ بال ان کے شیشوں میں جا نہ لگے، لیکن اگر کوئی چوکا چھکے کی اہمیت کا ہو تو امپائر جو پاکستان کا واحد امپائر ہے، جو دونوں ہاتھ کھڑے کر کے چھکے کا فیصلہ دے دیتا ہے اور اس کے فیصلے کو دونوں ٹیمیں تسلیم کرتی ہیں، کسی کو اعتراض نہیں ہوتا۔ سو، جناب اللہ کی مہربانیوں کے بڑے روپ ہیں۔ اگر ہم تھوڑی سی لچک پیدا کر کے چِڑنا چھوڑ دیں، جلنا بھننا چھوڑ دیں تو آسانیاں اور اللہ کا فضل حاصل ہو سکتا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر چِڑنا کہ بس لیٹ آتی ہے، دیر ہو جاتی ہے، فلاں کام ہماری مرضی سے نہیں ہوا۔
ایک نابینا بابا بس سے اترا اور میں نے ہی اسے مدد کر کے اتارا۔ عین اسی وقت جب نابینا بزرگ کو میں اترنے میں مدد دے رہا تھا، ان کے ساتھ ہی اترنے والے ایک صاحب کے Cell Phone پر فون آ گیا۔ انہوں نے کہا “ ہیلو!“ تو نابینا صاحب نے بھی کہا “ہیلو “ اس صاحب نے کہا “ کیسا حال ہے؟ نابینا صاحب کہنے لگے اللہ کا شکر ہے۔ وہ صاحب تو اپنی بات کر رہے تھے، لیکن نابینا صاحب اسے پورا ٹھیک جواب دے رہے تھے۔ وہ صاحب فون پر کہنے لگے، کل آپ آئے نہیں؟ نابینا صاحب کہنے لگے، کل آپ نے مجھے کب بلایا تھا۔ وہ کہنے لگے تم نے وعدہ کیا تھا، نابینا صاحب کہنے لگے، نہیں میں نے وعدہ نہیں کیا۔ اب میں درمیان میں کھڑا ہوں اور سوچ رہا ہوں زندگی میں کیسے کیسے عجیب و غریب واقعات سامنے آتے ہیں۔ آپ اگر غور سے سفر کریں تو ایسی عجیب و غریب چیزیں ملتی ہیں۔
میں جو آپ سے عرض کرتا ہوں یہ یہیں کہیں وہیں سے اکٹھی کی ہوئی باتیں ہوتی ہیں، لیکن ہم نے چونکہ ایک سخت قسم کا اور تنگ راستہ بنا لیا ہوا ہے اور ہم سارے سرنگ میں چلنے کے عادی ہیں۔ کھلے راستوں کے عادی نہیں رہے، اس لیئے یہ سارے واقعات اور اللہ کے فضل اور رحمتیں نظر نہیں آتیں، ورنہ اللہ کا فضل تو مسلسل جاری ہے۔ اب یہ بھی اللہ کا فضل ہے کہ ہماری آنکھیں سلامت ہیں اور ہم دیکھ سکتے ہیں۔
میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالٰی آپ کو فضل کی تلاش میں زیادہ آسانیاں فرمائے اور اتنی آسانیاں عطا فرمائے کہ آپ انہیں تقسیم کریں اور لوگ ان سے فائدہ حاصل کریں اور انہیں آگے تقسیم کر سکیں۔ اللہ حافظ۔