روسی خط دو بازنطینی مسیحی عالموں نے یونانی رسم الخط کو سامنے رکھ کر بنایا تھا۔ اُس میں بھی 'پی' کی آواز کو 'این' اور 'آر' کی آواز کو 'پی' سے لکھتے ہیں۔میں نے اپنے ماسکو کے ایک ہفتہ قیام میں کچھ الفاظ سیکھے تھے، پی کو این اور آر کو پی بولنا اور سمجھنا، دماٍغ خراب ہو جاتا ہے
ابھی ایک مقالہ پڑھ رہا ہوں جس میں داتارام برہمن کی کتاب 'صَرفِ پارسی' (سالِ اشاعت: ۱۲۵۱ھ) کا تعارف اور اُس کتاب کے چند اقتباسات پیش کیے گئے ہیں۔ کتابِ مذکور میں ایک مقام پر مؤلف نے 'ب/به' کے مختلف استعمالات ذکر کیے ہیں۔ اُن میں سے ایک استعمال مندرجۂ ذیل ہے:برادر محمد ریحان قریشی نے ایک سوال پوچھا تھا:
اگر مرزا غالب کا مقصود واقعاً وہی تھا جو صوفی تبسم صاحب نے بیان فرمایا ہے تو میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے 'به' کا یہ استعمال پہلے نہیں دیکھا، یا اگر دیکھا بھی تھا تو توجہ نہیں دی۔ لغت نامۂ دہخدا سے تو مجھے زیادہ مدد نہیں ملی، البتہ ماوراءالنہری فارسی کی لغت 'فرہنگِ تفسیریِ زبانِ تاجیکی' میں 'به' کے مندرجۂ ذیل تین معانی نظر آئے ہیں، جن سے غالب کے اِس استعمال اور صوفی تبسم کی اِس تفسیر کی درستی کی تائید ہوتی ہے:
"۶. به درجهٔ...، به حالتِ...، تا حدِّ...؛ کُرتهاش به دریدن رسیدهاست.
۷. در ترکیبِ پیوندکهای ترکیبیِ تابعکنندهٔ مقدار و درجه، طرزِ عمل و خلافی میآید: به اندازهٔ که...، به حدّی که...، به قدری که...، به جای آن که...؛ به طرزِ... // به طریقِ... // به طورِِ...، همچون، چون.
۸. موافقِ... مطابقِ...؛ برابرِ...، مثلِ...، مانندِ..."
یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ 'به معشوقی' در اصل 'به طورِ معشوقی' ہے، لیکن قرینۂ معنوی اور عروضی مجبوری کی بنا پر 'طورِ' مصرعے میں محذوف ہے۔
'به' فارسی کا سب سے زیادہ پیچیدہ حرفِ جر ہے۔
صوفی غلام مصطفیٰ تبسم نے اِس موردِ ذکر شعر کی تشریح یوں بیان کی ہے:
سراسر غمزههایت لاجوردی بود و من عمری
به معشوقی پرستیدم بلای آسمانی را
لاجوردی = نیلگوں
چونکہ چرخِ لاجورد کی گردش کے ساتھ ہر طرح کی آفتوں کو منسوب کیا جاتا ہے اور اُن کا انداز ہر لحظہ بدلتا رہتا ہے، اس لیے شاعر نے معشوق کے ناز و ادا کو لاجوردی کہا۔ کہتا ہے کہ تیرے ناز و انداز سرتاپا آفت تھے۔ اسی لیے میں عمر بھر آسمان سے ہر نازل ہونے والی بلا کو اس طرح پوجتا رہا جیسے کوئی معشوق ہو۔
ویسے کیا آپ کو یہ کتاب دستیاب ہو گئی ہے؟
لفظی مطلب جو سمجھ آیا ہے وہ یہ ہے کہ زمینِ خدا کی (بےپناہ) وسعت کے باوجود تنگی سے کیوں جُڑا ہے؟ اضطراب سے کم وابستہ رہو تاکہ تو جنتوں کی تفسیر دیکھے۔برادر اریب آغا، مولانا رومی کے اِس شعر کا مفہوم بیان کیجیے:
با وسعت ارض الله بر حبس چه چفسیدی
ز اندیشه گره کم زن تا شرحِ جنان بینی
آفرین! آپ کو مفہوم درست سمجھ آیا ہے۔لفظی مطلب جو سمجھ آیا ہے وہ یہ ہے کہ زمینِ خدا کی (بےپناہ) وسعت کے باوجود تنگی سے کیوں جُڑا ہے؟ اضطراب سے کم وابستہ رہو تاکہ تو جنتوں کی تفسیر دیکھے۔
ایرانی فارسی میں لفظِ 'اردو' کے استعمال کی ایک مثال:لفظِ اردو، کہ پاکستان کی قومی زبان کا نام بھی ہے، افغان و تاجک فارسی میں 'سپاہ و لشکر'، جبکہ ایرانی فارسی میں 'کیمپ' یا 'خیمہ' یا 'خیمہ گاہ' کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ تاجکستان میں بھی یہ لفظ 'خیمہ' اور 'خیمہ گاہ' کے معنوں میں استعمال ہوتا نظر آیا ہے جو شاید ایرانی فارسی کا اثر ہے۔ مثالیں بعد میں پیش کروں گا۔
ایرانی فارسی کے برخلاف، افغان فارسی میں لفظِ 'اردو' یوں استعمال ہوتا ہے:ایرانی فارسی میں لفظِ 'اردو' کے استعمال کی ایک مثال:
"هر سال در چنین روزهایی منیژه دخترِ افراسیاب در آن دشتِ سرسبز اردو میزند و چند روزی را با ندیمان و اطرافیانِ خود به خوشی میگذراند. منیژه دخترِ بسیار زیبایی است. بهتر این است که به طرفِ اردوگاهِ او برویم و از دور اردویِ زیبارویانِ تورانی را ببینیم."
ترجمہ: ہر سال اِس طرح کے ایّام میں افراسیاب کی دختر منیژہ اُس سرسبز دشت میں خیمہ زن ہوتی ہے اور اپنے ندیموں اور اطرافیوں کے ہمراہ چند روز بہ خوشی گذارتی ہے۔ منیژہ ایک بسیار زیبا دختر ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ہم اُس کی خیمہ گاہ کی طرف جائیں اور دور سے تُورانی زیبارُویوں کے خیمے کو دیکھیں۔
اگرچہ لغتنامۂ دہخدا میں کسی لفظ کے ذیل میں قدیم مثالوں کی عدم موجودگی کا لزوماً یہ معنی نہیں ہے کہ وہ لفظ قدیم دور میں استعمال نہیں ہوا ہو گا، لیکن آپ کی بات درست معلوم ہوتی ہے کہ یہ متأخرتر دور میں رائج ہونے والا لفظ ہے۔ کیونکہ گنجور پر یہ لفظ تلاشنے پر جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ سب بعد کے ادوار کے شاعروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ نیز، اگر وحید قزوینی سے قبل کسی معروف شاعرِ پیشین نے یہ لفظ استعمال کیا ہوتا تو لغتنامۂ دہخدا میں ضرور اُسے بھی مثال کے طور پر لایا جاتا۔لغت نامہء دہخدا میں لفظ "لبخند" تلاشتے ہوئے یہ امر نگاہ میں آیا کہ گذشتہ کلاسیکی فارسی شاعری میں سوائے وحید قزوینی نے کسی بھی اور شاعر نے استعمال نہیں کیا۔ اسے ایران کے جدید کلاسیکی شاعروں نے استعمال کیا۔
کیا اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لفظ بعد میں فارسی میں بنایا گیا؟