زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

حسان خان

لائبریرین
میں نے اپنے ماسکو کے ایک ہفتہ قیام میں کچھ الفاظ سیکھے تھے، پی کو این اور آر کو پی بولنا اور سمجھنا، دماٍغ خراب ہو جاتا ہے :)
روسی خط دو بازنطینی مسیحی عالموں نے یونانی رسم الخط کو سامنے رکھ کر بنایا تھا۔ اُس میں بھی 'پی' کی آواز کو 'این' اور 'آر' کی آواز کو 'پی' سے لکھتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
برادر محمد ریحان قریشی نے ایک سوال پوچھا تھا:

اگر مرزا غالب کا مقصود واقعاً وہی تھا جو صوفی تبسم صاحب نے بیان فرمایا ہے تو میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے 'به' کا یہ استعمال پہلے نہیں دیکھا، یا اگر دیکھا بھی تھا تو توجہ نہیں دی۔ لغت نامۂ دہخدا سے تو مجھے زیادہ مدد نہیں ملی، البتہ ماوراءالنہری فارسی کی لغت 'فرہنگِ تفسیریِ زبانِ تاجیکی' میں 'به' کے مندرجۂ ذیل تین معانی نظر آئے ہیں، جن سے غالب کے اِس استعمال اور صوفی تبسم کی اِس تفسیر کی درستی کی تائید ہوتی ہے:

"۶. به درجهٔ...، به حالتِ...، تا حدِّ...؛ کُرته‌اش به دریدن رسیده‌است.
۷. در ترکیبِ پیوندک‌های ترکیبیِ تابع‌کنندهٔ مقدار و درجه، طرزِ عمل و خلافی می‌آید: به اندازهٔ که...، به حدّی که...، به قدری که...، به جای آن که...؛ به طرزِ... // به طریقِ... // به طورِِ...، همچون، چون.
۸. موافقِ... مطابقِ...؛ برابرِ...، مثلِ...، مانندِ..."


یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ 'به معشوقی' در اصل 'به طورِ معشوقی' ہے، لیکن قرینۂ معنوی اور عروضی مجبوری کی بنا پر 'طورِ' مصرعے میں محذوف ہے۔


'به' فارسی کا سب سے زیادہ پیچیدہ حرفِ جر ہے۔

صوفی غلام مصطفیٰ تبسم نے اِس موردِ ذکر شعر کی تشریح یوں بیان کی ہے:
سراسر غمزه‌هایت لاجوردی بود و من عمری
به معشوقی پرستیدم بلای آسمانی را

لاجوردی = نیلگوں
چونکہ چرخِ لاجورد کی گردش کے ساتھ ہر طرح کی آفتوں کو منسوب کیا جاتا ہے اور اُن کا انداز ہر لحظہ بدلتا رہتا ہے، اس لیے شاعر نے معشوق کے ناز و ادا کو لاجوردی کہا۔ کہتا ہے کہ تیرے ناز و انداز سرتاپا آفت تھے۔ اسی لیے میں عمر بھر آسمان سے ہر نازل ہونے والی بلا کو اس طرح پوجتا رہا جیسے کوئی معشوق ہو۔


ویسے کیا آپ کو یہ کتاب دستیاب ہو گئی ہے؟
ابھی ایک مقالہ پڑھ رہا ہوں جس میں داتارام برہمن کی کتاب 'صَرفِ پارسی' (سالِ اشاعت: ۱۲۵۱ھ) کا تعارف اور اُس کتاب کے چند اقتباسات پیش کیے گئے ہیں۔ کتابِ مذکور میں ایک مقام پر مؤلف نے 'ب/به' کے مختلف استعمالات ذکر کیے ہیں۔ اُن میں سے ایک استعمال مندرجۂ ذیل ہے:
"برای تشبیه؛۔۔۔۔: به صورتِ تو به عالم نیافریده خدا؛ یعنی چون صورتِ تو"

میں فی الحال نہیں جانتا کہ دورِ حاضر کی فارسی میں اِس استعمال کو رائج مانا جاتا ہے یا متروک۔ لیکن، یہ ضرور یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ معاصر فارسی میں یہ استعمال کم از کم نثر میں نظر نہیں آتا۔ شاید شاعری میں کہیں نظر آ جاتا ہو۔
ایرانی فرہنگوں میں تو نہیں، لیکن ایک ماوراءالنہری فرہنگ میں 'به' کا یہ معنی درج ہے۔
تشبیہ کے لیے یہ حرف فارسیِ کہن میں بھی شاید صرف شاعری میں، اور وہ بھی نُدرتاً، استعمال ہوا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
امروز ایک تاجکستانی ورزشکار 'دلشاد نظروف' نے اولمپک میں طلائی تمغا حاصل کیا ہے، جو تاجکستان کا اولین اولمپک طلائی تمغا بھی ہے۔ اُس نے جس بازی میں یہ تمغا حاصل کیا ہے اُسے انگریزی میں 'ہیمر تھرو' کہتے ہیں۔ اِسی بہانے سے معلوم ہوا ہے کہ ایران میں اِس بازی کے لیے 'پرتابِ چَکُّش' (چَکُّش = ہتھوڑا)، جبکہ تاجکستان میں 'گُرزاندازی' رائج ہے۔ ایرانی فارسی کی پیروی کرنے والے تاجکستانی اہلِ قلم شاید 'پرتابِ چکش' کے استعمال پر مُصِر ہوں گے، لیکن مجھے شخصاً 'گُرزاندازی' کی اصطلاح زیادہ بہتر لگی ہے۔
تاجکستانی اخبارات میں 'گُرزپرتایی' کی اصطلاح بھی نظر آئی ہے۔
از طرفِ دیگر، پاکستانی اردو اخبارات 'ہیمر تھرو' ہی استعمال کرتے نظر آئے ہیں۔ یعنی یہاں بھی صوبۂ سندھ جتنے اور لاہور سے کم آبادی والے تاجکستان کی زبان پاکستان کی زبان سے آگے ہے۔
بہر حال، تاجکستانیوں کو یہ طلائی تمغا مبارک ہو!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
امروز یہ پُرمزاح حکایت ترکی زبان میں پڑھنے کو ملی:

ملّا نصرالدین ایک گفتگو میں شامل ہوا۔ یہاں وہاں کی اور آب و ہوا کی باتیں ہونے لگیں۔ گفتگو کے دوران وہاں موجود ایک شخص نے اُس سے کہا:
"خواجۂ من، آپ کی خواجگی پر ہمیں کوئی کلام نہیں۔ لیکن افسوس کہ آپ فارسی نہیں جانتے! اِسی باعث مسجد میں دیے جانے والے آپ کے وعظ اِس قدر پُرکیف و پُرلذت نہیں ہوتے!"

جب دیگر افراد بھی اِن سخنوں کی تائید کرنے لگے تو ملّا نے پوچھا:
"آپ نے کیسے فیصلہ کر لیا کہ میں فارسی نہیں جانتا؟"
وہاں موجود مردم نے کہا:
"اگر جانتے ہیں تو کوئی فارسی بیت سنائیے!"
ملّا نے فوراً یہ دو سطریں پڑھیں:
"Mor menekşe boynun eğmiş uyurest
Kafir soğan kat kat urba giyirest!"
(بنفشی گُلِ بنفشہ کی گردن خمیدہ ہے اور وہ سویا ہوا ہے؛ کافر پیاز نے تہ بہ تہ جامہ پہنا ہوا ہے۔)
جب ملّا یہ شعر سنا چکا تو سامعین نے اعتراضں کرتے ہوئے پوچھا:
"خواجہ، اِس میں فارسی کہاں ہے؟"
ملّا نے ہنستے ہوئے یہ جواب دیا:
"آخر میں آپ کو 'است' نظر نہیں آ رہے؟"


ماخذ


× ملّا کا پورا شعر ترکی میں ہے، صرف دونوں مصرعوں کے آخر میں 'است' فارسی کا ہے۔
× بَنَفشی = وائلٹ
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
برادر اریب آغا، مولانا رومی کے اِس شعر کا مفہوم بیان کیجیے:
با وسعتِ ارض الله بر حبس چه چفسیدی

ز اندیشه گره کم زن تا شرحِ جنان بینی
 
آخری تدوین:
برادر اریب آغا، مولانا رومی کے اِس شعر کا مفہوم بیان کیجیے:
با وسعت ارض الله بر حبس چه چفسیدی

ز اندیشه گره کم زن تا شرحِ جنان بینی
لفظی مطلب جو سمجھ آیا ہے وہ یہ ہے کہ زمینِ خدا کی (بےپناہ) وسعت کے باوجود تنگی سے کیوں جُڑا ہے؟ اضطراب سے کم وابستہ رہو تاکہ تو جنتوں کی تفسیر دیکھے۔
 

حسان خان

لائبریرین
لفظی مطلب جو سمجھ آیا ہے وہ یہ ہے کہ زمینِ خدا کی (بےپناہ) وسعت کے باوجود تنگی سے کیوں جُڑا ہے؟ اضطراب سے کم وابستہ رہو تاکہ تو جنتوں کی تفسیر دیکھے۔
آفرین! آپ کو مفہوم درست سمجھ آیا ہے۔ :)

میں نے اِس بیت کا یہ ترجمہ کیا ہے:
ارضِ خدا کی وسعت کے ہوتے ہوئے قیدخانے سے کیوں چپکے ہوئے ہو؟۔۔۔ فکر کی گرہ کم لگاؤ تاکہ جنّتوں/دل کی کشادگی و وسعت دیکھو۔

اگر 'جِنان' خوانا جائے تو مفہوم 'جنّتیں' ہیں، اور اگر 'جَنان' خوانا جائے تو مفہوم 'دل، قلب، باطن' ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مولانا عبدالرحمٰن جامی اپنی کتاب 'بہارستان' میں فردوسی طوسی کے بارے میں فرماتے ہیں:
"کسی را که چون شاهنامه نظمی بُوَد چه حاجت به مدح و تعریفِ دیگران؟"
ترجمہ: جس شخص کی شاہنامہ جیسی کوئی نظم ہو اُسے دیگروں کی مدح و تعریف کی کیا حاجت؟
 

حسان خان

لائبریرین
معاصر فارسی میں ماضیِ تداوُمی کے استعمالات:
ماضیِ تداوُمی = می + بُنِ ماضیِ فعل، مثلاً می‌رفت، می‌کرد، می‌خواندم، می‌گفتی وغیرہ


مندرجۂ ذیل دو جملے دیکھیے:
۱) حسن نامه نوشت.
۲) حسن نامه می‌نوشت.


جملۂ (۱) میں صیغۂ فعلی 'نوشت' ایک ایسے مکمل و تامّ عمل پر دلالت کر رہا ہے جو ماضی میں واقع ہوا تھا۔ اِس جملے میں ایک مفہومِ تامّ بیان ہو رہا ہے کیونکہ جو فعل واقع ہوا تھا وہ ہمیشہ ایک منفرد اور ناقابلِ تجزیہ عمل کے طور پر ذہن میں خطور کرتا ہے۔ اردو میں اِس کا ترجمہ ہو گا: حسن نے خط لکھا۔


صیغۂ فعلی 'کشید' کے برخلاف، 'می‌کشید' کو مختلف طریقوں سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ صیغہ ذیل میں درج کسی ایک مفہوم کا بیان گر ہوتا ہے:
ا) عادتی تکرار ب) غیرعادتی تکرار ج) اِستِمرار

اگرچہ عادت کی ایک خصوصیت تکرار بھی ہے، لیکن ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہر تکرار لازماً عادت کو بیان نہیں کرتی۔ ممکن ہے کہ ایک کوتاہ مدت میں کوئی کام دسیوں بار تکرار کیا جائے بغیر اِس کے کہ وہ تکرار عادت کی بیان گر ہو۔ اِس نوع کے مفہوم کو 'می' اور موردِ ذکر فعل کو استمعال کر کے بیان کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً

دیشب علی زیاد سُرفه می‌کرد.
(کل شب وہ بہت کھانستا رہا/کھانس رہا تھا۔)
یہاں یہ کہا جا رہا ہے کہ شبِ گذشتہ علی مکرّر کھانستا رہا، اگرچہ 'سُرفہ کردن' یعنی 'کھانسنا' علی کی یومیہ عادت نہیں ہے۔

چونکہ جملۂ (۲) میں انجام شدہ عمل کے بارے میں قرائن محدود ہیں، لہٰذا اِس جملے سے (ا)، (ب)، اور (ج) تینوں تعبیروں کا استنباط کرنا ممکن ہے۔ البتہ، ایرانی فارسی میں فعلِ کُمکی 'داشتن' کو استعمال کر کے تعبیرِ (ج) کو ابہام کے بغیر بیان کیا جا سکتا ہے:

حسن داشت نامه می‌نوشت۔
(حسن خط لکھ رہا تھا۔)

معنائی ابہام کو رفع کرنے کے لیے سیاق و سباق کا استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً مندرجۂ ذیل تین جملے بالترتیب (ا)، (ب)، اور (ج) تعبیروں پر منطبق ہو رہے ہیں:

عادتی تکرار:

حسن سابقاً نامه می‌نوشت.
(حسن سابقاً خط لکھتا تھا۔)
خط لکھنا حسن کی عادت تھی۔

غیرعادتی تکرار:

حسن امروز پیوسته نامه می‌نوشت.
(حسن امروز مسلسل خط لکھتا رہا/لکھ رہا تھا۔)
ضروری نہیں کہ خط لکھنا حسن کی عادت بھی ہو۔

استمرار:

حسن یک دقیقه پیش نامه می‌نوشت.
(حسن ایک دقیقہ قبل خط لکھ رہا تھا۔)
ایک دقیقہ قبل خط لکھنے کا فعل جاری تھا۔


[ماخذ: نقش‌های پیشوندِ فعلیِ می- در زبانِ فارسیِ امروز، دکتر جلال رحیمیان]

× تجزیہ = جزء جزء کرنا، پارہ پارہ کرنا
× دقیقہ = منٹ


ذہن میں کوئی سوال آئے تو پوچھ لیجیے گا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
لفظِ اردو، کہ پاکستان کی قومی زبان کا نام بھی ہے، افغان و تاجک فارسی میں 'سپاہ و لشکر'، جبکہ ایرانی فارسی میں 'کیمپ' یا 'خیمہ' یا 'خیمہ گاہ' کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ تاجکستان میں بھی یہ لفظ 'خیمہ' اور 'خیمہ گاہ' کے معنوں میں استعمال ہوتا نظر آیا ہے جو شاید ایرانی فارسی کا اثر ہے۔ مثالیں بعد میں پیش کروں گا۔
ایرانی فارسی میں لفظِ 'اردو' کے استعمال کی ایک مثال:
"هر سال در چنین روزهایی منیژه دخترِ افراسیاب در آن دشتِ سرسبز اردو می‌زند و چند روزی را با ندیمان و اطرافیانِ خود به خوشی می‌گذراند. منیژه دخترِ بسیار زیبایی است. بهتر این است که به طرفِ اردوگاهِ او برویم و از دور اردویِ زیبارویانِ تورانی را ببینیم."
ترجمہ: ہر سال اِس طرح کے ایّام میں افراسیاب کی دختر منیژہ اُس سرسبز دشت میں خیمہ زن ہوتی ہے اور اپنے ندیموں اور اطرافیوں کے ہمراہ چند روز بہ خوشی گذارتی ہے۔ منیژہ ایک بسیار زیبا دختر ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ہم اُس کی خیمہ گاہ کی طرف جائیں اور دور سے تُورانی زیبارُویوں کے خیمے کو دیکھیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ایرانی فارسی میں لفظِ 'اردو' کے استعمال کی ایک مثال:
"هر سال در چنین روزهایی منیژه دخترِ افراسیاب در آن دشتِ سرسبز اردو می‌زند و چند روزی را با ندیمان و اطرافیانِ خود به خوشی می‌گذراند. منیژه دخترِ بسیار زیبایی است. بهتر این است که به طرفِ اردوگاهِ او برویم و از دور اردویِ زیبارویانِ تورانی را ببینیم."
ترجمہ: ہر سال اِس طرح کے ایّام میں افراسیاب کی دختر منیژہ اُس سرسبز دشت میں خیمہ زن ہوتی ہے اور اپنے ندیموں اور اطرافیوں کے ہمراہ چند روز بہ خوشی گذارتی ہے۔ منیژہ ایک بسیار زیبا دختر ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ہم اُس کی خیمہ گاہ کی طرف جائیں اور دور سے تُورانی زیبارُویوں کے خیمے کو دیکھیں۔
ایرانی فارسی کے برخلاف، افغان فارسی میں لفظِ 'اردو' یوں استعمال ہوتا ہے:
"پس از پایانِ تحصیلاتش شاملِ اردویِ ملیِ افغانستان گردید تا با دیگر هم‌قطارانش مصدرِ خدماتِ ارزنده برایِ کشورش گردد."
ترجمہ: وہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد افغان ملّی فوج میں شامل ہو گئے تاکہ وہ اپنے دیگر ہم کاروں کے ہمراہ اپنے ملک کے لیے قیمتی خدمات کا سرچشمہ بن سکیں۔
ایرانی فارسی میں اِس معنی میں 'اُردو' کی بجائے 'ارتِش' مستعمَل ہے، جو افغانستان اور تاجکستان میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ البتہ، افغانستان میں لفظِ 'اُردو' ہی زیادہ رائج ہے، اور افغان ملّی فوج کو افغان فارسی میں رسمی طور پر 'اردویِ ملیِ افغانستان' کہا جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مصدرِ مُرَخَّم
مبتدیوں کو فارسی کا زمانۂ مستقبل سکھاتے ہوئے یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ زمانہ 'خواستن' کے مضارع اور موردِ نظر فعل کے بُنِ ماضی سے (مثلاً خواهد + شد) مل کر بنتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں استعمال ہونے والا صیغہ بُنِ ماضی نہیں، بلکہ مصدرِ مُرَخَّم (دُم بُریدہ) ہے۔ مصدرِ مرخّم اُس مصدر کو کہتے ہیں جس میں سے 'ن' کو حذف کر دیا گیا ہو اور یہ کسی بھی مصدر کی مُخفَّف شکل ہوتی ہے۔ 'آمد و رفت'، 'خواب و خورد'، 'گفت و شنید'، 'نشست و برخاست' وغیرہ میں مرخّم مصادر ہی کا استعمال ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تراکیب ماضی کا مفہوم نہیں، بلکہ مصدروں کا مفہوم دیتی ہیں۔ چونکہ مصدر کی یہ صورت بُنِ ماضی سے مشابہ ہوتی ہے، لہٰذا غلطی سے، یا پھر مبتدیوں کو الجھن سے دور رکھنے کے لیے، یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ زمانۂ مستقبل میں بُنِ ماضی استعمال ہوتا ہے۔ امّا، غیر مبتدیوں کے لیے مصدرِ مرخّم اور بُنِ ماضی کے درمیان فرق سمجھنا اہم ہے۔
فارسی کی کہنہ نثر میں مستقبل کے لیے 'خواستن' کے مضارع کے بعد مصدرِ کامل بھی استعمال ہوتے تھے، لیکن بعد کے ادوار میں اُن کا استعمال کم سے کمتر ہوتا گیا، اور پھر صرف شاعری ہی میں مستعمَل رہ گئے، ورنہ عموماً مصدرِ مرخّم ہی استعمال ہوتے ہیں۔ نثرِ کہن میں کہیں مثال نظر آئی تو ضرور پیش کروں گا۔
'بایستن' اور 'توانستن' کی مدد سے بننے والے افعال کا بھی یہی حکم ہے۔ اُن میں بھی بُنِ ماضی نہیں، بلکہ مصدرِ مرخّم استعمال ہوتا ہے۔ البتہ، شاعری میں مصدرِ کامل بھی استعمال ہوتے نظر آتے ہیں۔ شاعری سے مثالیں دیکھیے:

شمع را باید از این خانه بِِدر بُردن و کُشتن
تا به همسایه نگوید که تو در خانهٔ مایی
(سعدی شیرازی)

'باید بردن و کشتن' کی بجائے عموماً 'باید برد و کشت' استعمال ہوتا ہے۔

چون زلیخا هر که در عشقِ جوانان پیر شد
از ورق‌گردانیِ دوران جوان خواهد شدن
(صائب تبریزی)
در کمینِ شعلهٔ هر شمع داغی خُفته‌است
هر کجا تاجی‌ست آخر نقشِ پا خواهد شدن
(بیدل دهلوی)

'خواهد شدن' کی بجائے عموماً 'خواهد شد' استعمال ہوتا ہے۔

وصل را گرچه به کوشش نتوان یافت ولی
هجر را مانعِ سودای تو نتْوان کردن
(محتشَم کاشانی)

اِس شعر میں نتوان کے ساتھ مصدرِ مرخّم (یافت) اور مصدرِ کامل (کردن) دونوں کا استعمال ہوا ہے۔

میانِ بحر به یادِ گهر توان رفتن
هوایِ زهر به شوقِ شَکَر توان کردن
(فروغی بسطامی)

'توان رفتن' اور 'توان کردن' کی بجائے عموماً 'توان رفت' اور 'توان کرد' استعمال ہوتے ہیں۔

وعلیٰ ہذا القیاس۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اردو میں جب جمع عدد اور معدود کو ملا کر مرکّبِ عددی بنایا جاتا ہے تو عموماً معدود کو بھی جمع لایا جاتا ہے، مثلاً دو کتابیں، تین تحفے، چار صدیاں وغیرہ۔ انگریزی میں بھی یہی قاعدہ استعمال ہوتا ہے۔ لیکن فارسی میں اعداد کے بعد آنے والے اسمائے معدود ہمیشہ مفرد ہی رہتے ہیں۔ یعنی فارسی میں دو کتاب، سه تحفه اور چهار قرن وغیرہ ہی کو درست مانا جائے گا۔
"انتشاراتِ «دنیای اقتصاد» فردا پنج کتابِ جدید منتشر می‌کند."
 
آخری تدوین:
لغت نامہء دہخدا میں لفظ "لبخند" تلاشتے ہوئے یہ امر نگاہ میں آیا کہ گذشتہ کلاسیکی فارسی شاعری میں سوائے وحید قزوینی نے کسی بھی اور شاعر نے استعمال نہیں کیا۔ اسے ایران کے جدید کلاسیکی شاعروں نے استعمال کیا۔
کیا اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لفظ بعد میں فارسی میں بنایا گیا؟
 

حسان خان

لائبریرین
لغت نامہء دہخدا میں لفظ "لبخند" تلاشتے ہوئے یہ امر نگاہ میں آیا کہ گذشتہ کلاسیکی فارسی شاعری میں سوائے وحید قزوینی نے کسی بھی اور شاعر نے استعمال نہیں کیا۔ اسے ایران کے جدید کلاسیکی شاعروں نے استعمال کیا۔
کیا اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لفظ بعد میں فارسی میں بنایا گیا؟
اگرچہ لغتنامۂ دہخدا میں کسی لفظ‌ کے ذیل میں قدیم مثالوں کی عدم موجودگی کا لزوماً یہ معنی نہیں ہے کہ وہ لفظ قدیم دور میں استعمال نہیں ہوا ہو گا، لیکن آپ کی بات درست معلوم ہوتی ہے کہ یہ متأخرتر دور میں رائج ہونے والا لفظ ہے۔ کیونکہ گنجور پر یہ لفظ تلاشنے پر جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ سب بعد کے ادوار کے شاعروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ نیز، اگر وحید قزوینی سے قبل کسی معروف شاعرِ پیشین نے یہ لفظ استعمال کیا ہوتا تو لغتنامۂ دہخدا میں ضرور اُسے بھی مثال کے طور پر لایا جاتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
اضافتِ تشبیہی
تشبیہ کیا ہے؟ ایک چیز کو دوسری چیز کی مانند کہنے کو تشبیہ کہتے ہیں۔ اس میں چار چیزوں کا ہونا ضرور ہے۔
(۱) مشبہ (۲) مشبہ بہ (۳) وجہِ تشبیہ (۴) حرفِ تشبیہ ۔
اضافت میں مشبہ بہ کو اول لاتے ہیں۔ فائدہ یہ ہے کہ فقط اضافت کی زیر سے حرفِ تشبیہ اور وجہِ تشبیہ اور حرفِ ربط کی کفایت ہو جاتی ہے۔ اور عقل خود بخود مطلب کو تاڑ جاتی ہے۔ مثلاً مارِ زلف۔ مطلب اس کا یہ ہے زلفے کہ در خم و پیچ ہمچو مار است۔ دیکھو چاروں چیزیں یہاں موجود ہیں۔ زلف مشبہ۔ مار مشبہ بہ۔ خم و پیچ وجہِ تشبیہ۔ ہمچو حرفِ تشبیہ۔ است حرفِ ربط۔ فقط ایک کسرۂ اضافت سے وجہِ تشبیہ، حرفِ تشبیہ اور حرفِ ربط کی ضرورت نہ رہی۔ اسی طرح کمانِ ابرو۔ صندوقِ سینہ۔

[جامع القواعد، شمس العلماء مولانا محمد حسین آزاد، ص ۱۰۱]

× مُشَبَّه = جسے تشبیہ دی جائے
× مُشَبَّه بِهِ = جس سے تشبیہ دی جائے
 

حسان خان

لائبریرین
تُرک نژاد آلِ سلجوق کی فارسی زبان و ثقافت کی خدمت:

"اپنے پیشروؤں غزنویوں کی طرح، سلجوقیوں اور اُن کے تُرک جنگجوؤں کو جلد ہی اُس فارسی ثقافت نے مسخَّر کر لیا جسے حال ہی میں فردوسی نے اپنی اوج پر پہنچایا تھا۔ اُنہوں نے سریعاً فارسی کو تعلیم یافتگان کی زبان کے طور پر، اور پھر بہ زودی روزمرہ زندگی کی زبان کے طور پر اپنا لیا۔ یہ خود اہلِ فارس نہیں، بلکہ آلِ سلجوق تھے جنہوں نے اِس زبان کو وہ وقار بخشا تھا جو سطحِ مرتفعِ فارس سے کہیں دورتر پھیل گیا اور جس نے بالآخر تُرک ثقافت کو ایک خاص خصوصیت عطا کی، جس کے آثار تا امروز نمایاں ہیں۔"
(کیمبرج تاریخِ اسلام، جلدِ اول الف: مرکزی اسلامی سرزمینیں زمانۂ قبل از اسلام سے جنگِ عظیمِ اول تک، صفحہ ۱۵۰)

"۔۔۔آلِ سلجوق وہ اوّلین حکمران تھے جنہوں نے ایرانی قوم کی ثقافت کو مافوقِ قومیت وقار بخشا تھا۔ یہ وقار بہ تدریج اُن ناموں میں بھی نمودار ہوا جو اِس تُرک شاہی سلسلے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے منتخب کیے گئے۔ سلجوقیوں میں، خصوصاً سلجوقیانِ رُوم میں، اب نام فارسی قہرَمانی افسانوں سے اخذ کیے جانے لگے تھے۔"
(کیمبرج تاریخِ اسلام، جلدِ اول الف: مرکزی اسلامی سرزمینیں زمانۂ قبل از اسلام سے جنگِ عظیمِ اول تک، صفحہ ۱۵۱)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دنیا میں جتنی بھی قدیم سلطنتی زبانیں گذری اور ایک وسیع قطعۂ زمین میں رائج رہی ہیں اُن کا اِس برتر مقام پر نائل ہونے کا سبب عموماً یہ رہا ہے کہ وہ زبانیں بولنے والے ایک خاص موقع پر عظیم سیاسی قوت سے بہرہ مند رہے ہیں۔ عربی اگر جزیرہ نمائے عرب سے نکل کر عراق سے مراکش تک پھیلی ہے تو اِس کا بنیادی سبب دورِ خلافتِ راشدہ اور اموی و عباسی دور کی فتوحات ہیں۔ اگر اسکندر دنیا فتح کرنے نہ نکلتا تو یونانی زبان و ثقافت بھی اِتنی رائج نہ ہوتی۔ اگر رومیوں کی عظیم الشان سلطنت قائم نہ ہوتی تو شاید لاطینی بھی ایک علاقائی زبان ہی رہتی، کبھی یورپی برِ اعظم کی مشترک علمی و تمدنی زبان اور کیتھولک مسیحیت کی عباداتی زبان نہ بنتی۔ سنسکرت اور چینی زبانیں بھی سنسکرت گویوں اور چینی گویوں کی سیاسی قوت کی وجہ سے وسیع و عریض منطقوں پر بالادست رہیں۔ جدید دور میں بھی جتنی نوآبادیاتی زبانیں مثلاً انگریزی، فرانسیسی، ہسپانوی، روسی وغیرہ ہیں اُنہوں نے بھی اپنی اپنی سیاسی حاکمیت کے باعث ممالکِ مستعمرہ پر غلبہ پایا ہے۔ امّا و صد امّا، بلقان سے بنگال اور دکن سے وولگا تک کے علاقوں میں صدیوں تک غالب رہنے والی فارسی زبان کو فارسی بولنے والوں نے نہیں، بلکہ ایک دیگر قوم یعنی ترکوں نے اپنی زبان کے طور پر اپنا کر اطراف و اکناف میں پھیلایا ہے۔ اگر سامانیوں سے قطعِ نظر کر لیا جائے تو دس صدیوں تک یہ تُرک سلطنتیں ہی تھیں جنہوں نے اِس زبان کی مسلسل ترویج و گُستَرِش کی تھی اور اِسے اپنی اپنی قلمروؤں میں واحد رسمی و درباری زبان کے طور پر نافذ کر رکھا تھا اور وہی سلطنتیں فارسی زبان و ثقافت کی برترین حامی تھیں۔ اگر تُرکوں کی شمشیر نہ ہوتی تو آج خود ایران کے بھی ایک کثیر حصے میں فارسیِ دری کا وجود نہ ہوتا، کیونکہ تُرک سلجوقی سلطنت ہی اِس نئی ادبی زبان کے ماوراءالنہر و خراسان سے ایران میں آنے اور وہاں رائج ہونے کا باعث بنی تھی۔ القصّہ، سلطنتی زبانوں کی فہرست میں فارسی اِس لحاظ سے منفرد ہے کہ اِس کے سیاسی پشت و پناہ وہ تھے جو خود ابتداءً فارسی نہیں بولتے تھے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"چونکہ تُرک سلجوقوں کی اپنی کوئی اسلامی روایت یا قوی ادبی میراث نہیں تھی، لہٰذا اُنہوں نے اپنے ایرانی اسلامی معلّموں کی ثقافتی زبان کو اپنا لیا۔ اِس طرح ادبی فارسی تمام ایران میں پھیل گئی، اور عربی زبان اُس ملک میں فقط دینی علوم کی کتابوں تک محدود رہ گئی۔"
(ماخذ: دانش نامۂ بریتانیکا)
 
آخری تدوین:
Top