حماد
محفلین
شاہ حمورابی نے شہر بابل کو تہذیب و تمدن، صنائع بدائع،فنون لطیفہ اور تجارت کا سب سے بڑا مرکز بنا دیا۔ حمورابی کا سب سے بڑا کارنامہ اسکا ضابطہء قوانین ہے جو دراصل شاہ اورنگر سمیری کے اسی نوع کے ضابطے پر مبنی تھا۔ اس کا اصل اصول ہے "دانت کے بدلے دانت، آنکھ کے بدلے آنکھ" البتہ حمورابی کی تعزیرات سمیریوں سے زیادہ سخت ہیں۔ مثلاً سمیری قانون اجازت دیتا ہے کہ زانیہ کا خاوند دوسری شادی کرلے اور زانیہ دوسری بیوی کی کنیز بن کر رہے۔
حمورابی نے اسکیلئے موت کی سزا رکھی ہے، جس کا طریقہ یہ تھا کہ زانیہ کو دریائے فرات کی منجدھار میں پھینک دیتے تھے۔ وہ بچ نکلتی تو بے گناہ سمجھی جاتی تھی۔ زنا بالجبر، اغواء، قزاقی، چوری، محرمات سے زنا، بھگوڑے غلاموں کو پناہ دینے اور میدان جنگ میں بزدلی دکھانے کی سزا موت تھی۔ وہ طبیب جس کے علاج سے کسی شخص کی آنکھ ضائع ہو جاتی، مجرم سمجھا جاتا تھا اور اسکے ہاتھ کی انگلیاں کاٹ دی جاتی تھیں۔ ڈاکو کو موت کی سزا دی جاتی تھی۔ اگر ڈاکو پکڑے نہ جاسکتے تو جس شخص کا مال لوٹا جاتا وہ دیوتا کے سامنے اپنے سامان مسروقہ کی فہرست بنا کر رکھ دیتا اور شہر یا علاقے کے حاکم کو اس نقصان کی تلافی کرنا پڑتی تھی۔ مقدمہ بازوں کی حوصلہ افزائ نہیں کرتے تھے۔
ضابطہء حمورابی کا پہلا قانون ہے " اگر کوئ شخص کسی پر جرم کے ارتکاب کا الزام لگائے لیکن اسے ثابت نہ کرسکے تو الزام لگانے والے کو جان سے مار دیا جائے گا۔" اس ضابطے میں دو سو پچاسی قوانین ہیں، جنہیں ذاتی املاک، تجارت، کاروبار، خاندان، محنت کشی وغیرہ عنوانات کے تحت مرتب کیا گیا ہے۔ ان قوانین کی رو سے فرد کی جگہ ریاست کو انتقام کا حق دیا گیا ہے۔
قانون کی تاریخ میں یہ ایک انقلاب آفریں اقدام تھا۔ بحثیت مجموعی اسے عہد قدیم کا جامع ترین ضابطہء قوانین سمجھا جا سکتا ہے۔
آغاز تمدن سے ہی سلاطین اور روساء غلاموں اور زیردستوں پر تشددکرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے رہے ہیں۔ حمورابی کی روشن خیالی اور بیدار مغزی اس کی عظمت پر دلالت کرتی ہے۔
مغربی علماء کے خیال میں یہودیوں کی شریعت کے احکام عشرہ اسی ضابطے سے ماخوذ ہیں۔
(اقتباس از روایات تمدن قدیم، علی عباس جلالپوری)
حمورابی نے اسکیلئے موت کی سزا رکھی ہے، جس کا طریقہ یہ تھا کہ زانیہ کو دریائے فرات کی منجدھار میں پھینک دیتے تھے۔ وہ بچ نکلتی تو بے گناہ سمجھی جاتی تھی۔ زنا بالجبر، اغواء، قزاقی، چوری، محرمات سے زنا، بھگوڑے غلاموں کو پناہ دینے اور میدان جنگ میں بزدلی دکھانے کی سزا موت تھی۔ وہ طبیب جس کے علاج سے کسی شخص کی آنکھ ضائع ہو جاتی، مجرم سمجھا جاتا تھا اور اسکے ہاتھ کی انگلیاں کاٹ دی جاتی تھیں۔ ڈاکو کو موت کی سزا دی جاتی تھی۔ اگر ڈاکو پکڑے نہ جاسکتے تو جس شخص کا مال لوٹا جاتا وہ دیوتا کے سامنے اپنے سامان مسروقہ کی فہرست بنا کر رکھ دیتا اور شہر یا علاقے کے حاکم کو اس نقصان کی تلافی کرنا پڑتی تھی۔ مقدمہ بازوں کی حوصلہ افزائ نہیں کرتے تھے۔
ضابطہء حمورابی کا پہلا قانون ہے " اگر کوئ شخص کسی پر جرم کے ارتکاب کا الزام لگائے لیکن اسے ثابت نہ کرسکے تو الزام لگانے والے کو جان سے مار دیا جائے گا۔" اس ضابطے میں دو سو پچاسی قوانین ہیں، جنہیں ذاتی املاک، تجارت، کاروبار، خاندان، محنت کشی وغیرہ عنوانات کے تحت مرتب کیا گیا ہے۔ ان قوانین کی رو سے فرد کی جگہ ریاست کو انتقام کا حق دیا گیا ہے۔
قانون کی تاریخ میں یہ ایک انقلاب آفریں اقدام تھا۔ بحثیت مجموعی اسے عہد قدیم کا جامع ترین ضابطہء قوانین سمجھا جا سکتا ہے۔
آغاز تمدن سے ہی سلاطین اور روساء غلاموں اور زیردستوں پر تشددکرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے رہے ہیں۔ حمورابی کی روشن خیالی اور بیدار مغزی اس کی عظمت پر دلالت کرتی ہے۔
مغربی علماء کے خیال میں یہودیوں کی شریعت کے احکام عشرہ اسی ضابطے سے ماخوذ ہیں۔
(اقتباس از روایات تمدن قدیم، علی عباس جلالپوری)