آخری تدوین:
”ثلاثی“ ، ”ہائیکو“ ، ”مثلث“ ، ”ماہیا“ اور ”سہ برگہ“ میں فرق:
’’ثلاثی‘‘ اور ہے ، ’’ہائیکو‘‘ اور ہے، ’’مثلث‘‘ اور ہے، ’’ماہیا‘‘ اور ہے، ’’سہ برگہ‘‘ اور ہے۔ مختصر تفصیل بھی بیان کر دوں:
ان سب میں تین تین مصرعے ہوتے ہیں۔
ثلاثی، خماسی، سباعی (3، 5، 7 مصرعے) یہ رباعی کے اوزان پر ہوتی ہیں۔
نوٹ: انگریزی میں ’’سانیٹ‘‘ چودہ مصرعوں کی نظم ہوتی ہے، سباعی سے دگنی۔ تاہم میٹر اُن کے اپنے ہیں۔
ہائیکو جاپانی صنف کی نقل ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ’’سہ برگہ‘‘ ہی ہے جس کے دوسرے مصرعے کا وزن بدل دیا گیا ۔
مثلث میں قوافی کی تراتیب کی کچھ بات ہوتی ہے، تفصیل کا یہ موقع نہیں۔
ماہیا پنجابی سے آیا ہے، یہ اصولی طور پر ’’ٹپہ‘‘ ہے اور ڈیڑھ مصرعے کا ہوتا ہے۔ اردو میں پہلے مصرعے کو دو مصرعوں میں ڈھال لیا گیا۔
سہ برگہ یوں کہہ لیجئے کہ تین مصرعوں کی معرٰی نظم ہے۔ نام کا لفظی ترجمہ: تین پتوں والا، جیسے گلاب کے تین تین پتے اکٹھے ہوتے ہیں۔
 
آزاد نظم کسے کہتے ہیں؟
جناب @مہدی نقوی حجاز کے ارشاد پر صرف اتنا اضافہ کروں گا کہ:
آزاد نظم کے ہر مصرعے کے لئے ارکان کی تعداد معین نہیں ہوتی تاہم پوری نظم میں ایک رکن یا ارکان کی ترتیب کا مسلسل اعادہ ہوتا ہے۔ اسی لئے ہم ان کو مصرعے نہیں سطریں کہتے ہیں۔ رکنِ مکرر یا ترتیبِ مکرر کو ٹوٹنا نہیں چاہئے۔
 
جناب @مہدی نقوی حجاز کے ارشاد پر صرف اتنا اضافہ کروں گا کہ:
آزاد نظم کے ہر مصرعے کے لئے ارکان کی تعداد معین نہیں ہوتی تاہم پوری نظم میں ایک رکن یا ارکان کی ترتیب کا مسلسل اعادہ ہوتا ہے۔ اسی لئے ہم ان کو مصرعے نہیں سطریں کہتے ہیں۔ رکنِ مکرر یا ترتیبِ مکرر کو ٹوٹنا نہیں چاہئے۔

یہیں ایک نکتہ اور ہے کہ ۔۔۔
نظمِ معرٰی میں قافیہ کی پابندی نہیں ہوتی (ردیف تو شعر میں ویسے ہی اختیاری ہوتی ہے) اس کے باوجود وہ متعینہ وزن کی پابند ہوتی ہے۔
 
غزل کی دو حیثیتیں ہیں:

ایک صنف یا ہیئت کے حوالے سے۔

یہ ایسی نظم ہے جومندرجہ ذیل ہیئت کے حامل دو دو مصرعوں کے متعدد اشعار یا ابیات پر مشتمل ہوتی ہے۔
الف : تمام مصرعوں کا عروضی وزن مشترک ہوتا ہے (مروجہ شرائط اور رعایات کے ساتھ)۔
باء: تمام ابیات کے مصرع ہائے ثانی ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ ردیف اختیاری ہے اور جب یہ اختیار کر لی جائے تو اس کو بھی نبھانا ہو گا جیسے قافیے کو نبھاتے ہیں۔
شذرہ: وزن ردیف اور قافیے کے مجموعے کو عرفِ عام میں ’’زمین‘‘ کہتے ہیں۔
جیم: غزل کا آخری شعر جس میں شاعر اپنا نام یا تخلص التزاماً لاتا ہے، مقطع کہتے ہیں۔
دال: غزل کے پہلے شعر کو جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں، مطلع کہتے ہیں۔

دوسری حیثیت مضامین کے حوالے سے:
غزل کے ہر شعر یا بیت میں ایک مضمون ، خیال، تاثر، پیغام، احساس، پورا پیش کرنا ہوتا ہے۔ غزل کے ہر شعر میں الگ الگ مضامین بھی لائے جا سکتے ہیں (ریزہ خیالی) اور ایک ہی مضمون یا موضوع بھی لایا جا سکتا ہے (غزل مسلسل)۔ بہ ایں ہمہ غزل مسلسل میں یہ اہتمام لازم ہے کہ ہر شعر اپنی جگہ پر (تخیل یا مضمون کے حوالے سے) ایک مکمل اکائی ہو اور اس کے مضمون کو پانے کے لئے کسی دوسرے شعر کی ضرورت نہ پڑے(تواتر نہ ہو)۔ نظم کی دیگر ہئیتوں میں ایک مضمون متواتر چلتا ہے اور اور شعر بہ شعر آگے بڑھتا ہے۔ اگر غزل کے اندر کہیں تواتر ناگزیر ہو جائے تو دو، تین چار پانچ اشعار نظم کے انداز میں ایک متواتر مضمون کے حامل ہو سکتے ہیں، ان کو ’’قطعہ‘‘ کہا جاتاہے۔ ایک اچھی غزل کی خاصیت یہ بھی ہے کہ ریزہ خیالی کے باوجود اس کی مجموعی فضا یا تاثر ایک جیسا رہے، اور یوں غزل کے اندر ایک زیریں رَو (مزاج کی وحدت) پائی جائے، جو اس کو وحدت بنائے۔ قوافی اور ردیف اس میں ممد و معاون ہوتے ہیں۔ غزل کی دیگر خوبیوں یا تقاضوں کا مذکور پھر کبھی سہی۔
حاصل یہ ہے کہ غزل اپنی ہیئت کے اعتبار سے ’’نظم‘‘ ہے اور اپنے مضامین کے اعتبار سے ایک خاص مزاج رکھتی ہے۔

از افادات استاد محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب۔
 
نظم اور غزل کی کچھ وضاحت:

نظم اور غزل کی تخصیص میں ایک تو ہیئت کی بات ہے۔
غزل کے لئے ’’زمین‘‘ کا ہونا ضروری ہے: بحر اور قافیہ (ردیف اختیاری چیز ہے ۔ تاہم جب اختیار کر لی تو پھر اس کو نبھانا لازم ہو گیا)۔ پھر اس میں مطلع اور مقطع کا اہتمام بھی راجح ہے۔ نظم کے لئے اس ہیئت کے علاوہ بہت سی ہیئتیں ہیں۔ مثنوی، مخمس، مسدس، قطعہ بند، ترجیع بند، ترکیب بند اور بہت ساری۔
دوسرا فرق ہے معنوی یا موضوعاتی ۔ یہ اہم تر ہے! ۔۔ غزل کا ہر شعر اپنی جگہ ایک مکمل معنوی اکائی ہوتا ہے، چاہے وہ اپنے آگے پیچھے والے اشعار سے مربوط ہو یا نہ ہو۔ نظم میں پوری نظم کا ایک موضوع ہوتا ہے (بڑا چھوٹا، وسیع خفیف ۔۔ یہ الگ بحث ہے) اور نظم کا ہر شعر یا ہر بند اس موضوع کو آگے بڑھاتا ہے۔
ہیئت اس میں کوئی منع نہیں، تاہم اس کو کسی نہ کسی ’’نظم‘‘ کے ماتحت ہونا چاہئے، نہ کہ مادر پدر آزاد۔
بات آ جاتی ہے ’’آزاد نظم‘‘ تک۔ اس میں بھی ایک ’’نظم‘‘ ہوتا ہے، کوئی رکن ہوتا ہے جو سطروں میں رواں ہوتا ہے۔
ایک اور شے بھی ہے جسے خواہ مخواہ شاعری قرار دیا جا رہا ہے، میں اس کو شاعری نہیں مانتا۔

از افاداتِ استاد محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب
 
1622302_615242291903106_5409037595461214412_o.jpg
 
Top