عنیزہ سید

قیصرانی

لائبریرین
ضرور پڑھیئے گا لیکن احتیاط سے۔ عین ممکن ہے کہ جلد ہی بور ہو جائیں۔ خصوصاً جب جانوروں کا دربار لگتا ہے تو سیمرغ کا تذکرہ آنے تک بندہ کئی بار عزیزامین کو یاد کر چکا ہوتا ہے :)
 

نیلم

محفلین
ضرور پڑھیئے گا لیکن احتیاط سے۔ عین ممکن ہے کہ جلد ہی بور ہو جائیں۔ خصوصاً جب جانوروں کا دربار لگتا ہے تو سیمرغ کا تذکرہ آنے تک بندہ کئی بار عزیزامین کو یاد کر چکا ہوتا ہے :)
:rollingonthefloor:
کیا خوب مثال دی ہے آپ نےعزیز بھائی آتے ہی ہوں گے آپ کی طرف :p
 

زبیر مرزا

محفلین
"سرگذرتے وقت کے ساتھ انسانوں نے ترقی کی مزلیں طے کی ہیں- انسان کی سوچ نے ترقی کی ہے - اس کے رہن سہن نے
اس کے علم نے، اس کی زبان وثقافت نے- آپ نے جدید لاہور کے اسکائی اسکریپرزنہیں دیکھے- ملٹی نیشنل کمپنیوں کے فرنچائیز اورسرمایہ کاری نہیں دیکھی-
آپ نے ترقی کے سارے نشان دیکھے بغیریہ کہہ دیا کہ آپ کو قدیم لاہوردیکھنا ہے- قدیم تو قدیم ہی ہوتا ہے نا پُرانا اوربوسیدہ اس کی جتنی بھی دیکھ بھال کرو
وہ نیا تو نہیں رہ سکتا-"
صفدر چڑکر بول اُٹھا
"تمھارا کیا خیال ہے پچھلے انسانوں نے ترقی نہیں کی تھی یہ جوعمارتیں آج بھی کھڑی ہیں اپنی بنیادوں پر صدیاں گذرجانے کے بعد بھی تمھارا کیا خیال ہے
یونہی بن گئیں تھیں"
بیگم صاحبہ نے دانت پیستے ہوئے کہا
" یہ مان لو کہ تم لوگوں نے ترقی کی منزلیں طے کرتے کرتے وضع داری اورخودداری کے سارے سبق بھُلا دیئے"

" آٹوگراف " سے اقتباس
 

نیلم

محفلین
پچھتاوے ،دکھ اور افسوس اپنے وقت پہ ہی اچھے لگتے ہیں ۔وقت نکل جائے تو انسان کو ہر حال میں خوش رہنے کی عادت ڈال لینی چایئے ورنہ بڑا نقصان ہوجاتا ہے ۔
(شام شہر یاراں )
 

نیلم

محفلین
تجسس۔۔۔۔۔ اگر انسانی زندگی میں سے اس ایک لفظ کا عنصر نکال دیا جائے تو انسانی زندگیاں سکون پذیر ہو جائیں۔۔
(عنیزہ سید کے ناول ’’شب گزیدہ‘‘ سے اقتباس)
 

زبیر مرزا

محفلین
"گھر۔۔" وہ مسکرایا۔۔ "آپ کو پتا ہے، میں اپنی ملکیت میں کچھ گھر ہوتے ہوئے بھی، اپنے پاس دو مختلف ملکوں کی دوہری شہریت رکھتے ہوئے بھی، اپنے پاس دنیا کے کئی ملکوں میں جاسکنے کا اختیار رکھتے ہوئے بھی' "اس پوری کائنات میں جلا وطن ہوں۔۔"

(جو رُکے تو کوہ گراں تھے ہم)

ظفری بھائی آپ کی توجہ اور تبصرے کا انتظار رہے گا اس پر
 
آخری تدوین:

زبیر مرزا

محفلین
" کتنی بار کہا ہے کہ صبر کرنا سیکھو،صبر دنوں کا نہیں سالوں کا چکر ہے ! اور کبھی کبھی تو صدیوں پہ محیط ہوجاتا ہے' دس نسلیں صبر کرتی ہیں، تب جا کر ایک نسل کو اس کا میٹھا پھل ملتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "
(جورُکے تو کوہِ گراں تھے ہم سے اقتباس)
 

نیلم

محفلین
ملنا اور بچھڑنا زندگی کا حصّہ ہے، لیکن بچھڑنے کے بعد ملنا زندگی کی امید کہلاتا ہے، فاصلہ کسی رشتے کو جدا نہیں کر سکتا اور وقت کسی نئے رشتے کی تخلیق نہیں کرتا- اگر جذبات سچے ہوں تو رشتے ہمیشہ قائم رہتے ہیں- محبّت ایک عام سا جذبہ نہیں، یہ ایک ایسا سمندر ہے جس میں اگر کوئی ڈوب جائے تو وہ مدد کے لیے کسی کو نہیں پکارتا کیونکہ وہ یہ خودکشی ایک نئی اور پہلے سے خوبصورت زندگی گزارنے کے لیے کرتا ہے-

عنیزہ سیّد کے ناول " شب آرزو کا عالم " سے اقتباس
 

نیلم

محفلین
وقت!" جو کبھی تو گزرنے میں ہی میں نہیں آتا اور کبھی یوں گزرتا ہے کہ پتہ تک نہیں چلتا... اور اس کے گزر جانے کے بعد انسان اس کے چھوڑے ہوئے خس و خاشاک چنتا رہ جاتا ہے۔
(اقتباس: عنیزہ سیّد کے ناول "جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم" سے)
 
آخری تدوین:

نیلم

محفلین
محرومی دو طرح کی ہوتی ہے، کسی چیز کا کبھی نہ ہونا ،اور کسی چیز کا مل کر کھو جانا زیادہ تلخ تجربہ ہوتا ہے اور جو اس تجربے سے گزرتا ہے وہ ایسی ہی باتیں کرتا ہے جو تمہاری سمجھ میں شاید کبھی نہ آئیں۔۔

(عنیزہ سید کے ناول " جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم " سے اقتباس)
 
آخری تدوین:

نیلم

محفلین
اس نے پریوں کی اور شہزادے شہزادیوں کی بہت سی کہانیاں پڑھ رکھی تھیں۔ اسے انکی دنیا میں رہنے میں مزہ آتا تھا اور عمر کے اس دور میں جب اس کی ہم عمرلڑکیاں پریوں کی کہانیوں سے آگے نکل کر رومانس کی کہانیاں پڑھتی تھیں ، وہ اس وقت بھی پریوں کی کہانیوں کے نئے ایڈیشنز خریدا کرتی تھی۔ اسے وہ کہانی تو بہت ہی پسند تھی جس میں شہزادی کو ایک اونچے مینار میں قید کر دیا جاتا تھا اور شہزادہ اسے ملنے کی خاطر مینار پر چڑھنے کے لئے اسکے دراز بالوں کا سہارا لیتا تھا۔ اس نے یہ کہانی اتنی مرتبہ پڑھی تھی کہ اس کا ایک، ایک لفظ اسے ازبر ہوچکا تھا۔ اب بھی جب وہ اس سنہرے محل میں قید ہوچکی تھی، اسے یہ کہانی بہت یاد آتی تھی مگر اسکا شعور اور سوچ کی پختگی اسے باور کراتی رہتی تھی کہ نہ تو اسے تلاش کرنے کے لیے کوئی شہزادہ آنے والا تھا اور نہ ہی اسکے بال اتنے دراز تھے کہ شہزادے کے اس تک پہنچنے کا وسیلہ بن سکتے۔
عنیزہ سیّدکے ناول ’’شامِ شہرِ یاراں‘‘ کی پہلی قسط سے اقتباس
 

نیلم

محفلین
جو لوگ اتنی دل آزاری کا باعث بنیں ان کو نہ بھلایا جاسکتا ہے نہ معاف کیا جاسکتا ہے اور جو منظر نظر کے سامنے نہیں ہوتا وہ ہمیشہ اس سے بہتر محسوس ہوتا ہے۔

(عنیزہ سید کے ناول " شبِ آرزو کا عالم " سے اقتباس
 

نیلم

محفلین
کیا کبھی اس راز پر سے پردہ اٹھ سکا ہے کہ غم کا پیمانہ کیا ہے ؟
کیا انسان کبھی یہ ماننے کو تیار ہوگا کے کسی دوسرے کا دکھ اسکے دکھ سے بڑا ہے ؟
نہیں کبھی نہیں....

اس نے خود کو بتایا
''غم میں گرے انسان کو اپنا دکھ ہی سب سے بڑا نظر آرہا ہوتا ہے- وہ سمجھتا ہے اس سے زیادہ دکھی تو کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا ''

مصنفہ: عنیزہ سید
ناول: جو رکے تو کوہ گراں تهے ہم
 

نیلم

محفلین
سب سے زیادہ درست چیز وقت ہے، وہی رفتہ رفتہ ہر غلط اور صحیح بات کو سامنے لے آتا ہے۔ اور وقت کا گزر جانا بہت بڑی نعمت ہے۔

(عنیزہ سیّدکے ناول ’’آؤ سچ بولیں‘‘ سے اقتباس)
 

نیلم

محفلین
زندگی کا اعتبار کوئی نہیں، آج محل میں بسنے والے کل کُٹیا میں رہنے پر مجبور ہو جائیں، بڑے بڑے بادشاہوں پر کڑا وقت آتا رہا ہے، اگر اس برے وقت کا تصور ذہن میں ہو تو انسان آپ سے آپ ہی ہر کام سیکھ لیتا ہے، نہ جانے کب کس ہنر کی ضرورت پڑ جائے۔‘‘

(عنیزہ سیّدکے ناول ’’شامِ شہرِ یاراں‘‘ کی دوسری قسط سے اقتباس)
 

نیلم

محفلین
برے دنوں میں کی گئی کمٹ منٹ کو اچھے دنوں میں بھول جانے والے کبھی کسی اچھے انجام سے دوچار نہیں ہوتے۔

مصنفہ: عنیزہ سیّد
ناول: شام فراق اب نہ پوچھ
 
Top