محمد یعقوب آسی صاحب، ذرّہ نوازی کا شکریہ۔آپ کی نثر بھی بہت جاندار ہے، کچھ اپنی نثری نگارشوں کے بارے میں بھی بتائیے گا۔
"جدیدیت زدہ" یہ نہ بھولیں کہ فارسی سے دوری دراصل ایک عظیم ماضی سے دوری ہے۔ آج سے سو سال بعد کوئی میر و سودا و غالب و اقبال کو سمجھے گا بھی یا نہیں؟ فارسی میں خواجو اور حافظ سیکڑوں سال گزرنے کے بعد بھی آج کے شاعر معلوم ہوتے ہیں کیونکہ اہلِ فارس کو اپنے ماضی پر فخر کرنا آ تا ہے اور انہوں نے اپنی زبان کا (اب تک بہرحال) چہرہ مسخ ہونے سے بچایا ہوا ہے۔جبکہ ہماری جدیدیت زدگی زبان کا حلیہ بگاڑنے کے سوا کچھ نہیں کر رہی۔ میری نظر میں تو یہ جدیدیت نہیں سراسر سستی اور بغیر محنت کیے سب کچھ پا لینے کی خواہش ہے۔فرحت عبّاسیے ایک رات میں ایک دیوان نکالنے کو شاعری کی معراج سمجھتے ہیں۔ اگر بسیار گوئی ہی کمال ہوتا تو ذوق اور داغ آج دنیا کے سب سے بڑے شاعر ہوتے۔مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ ایک اچھوتا خیال اچھوتے انداز میں پیش کرنے کے لیے جگر خون کرنا پڑتا ہے۔جب کوتاہ نظری کا یہ عالم ہو کہ محض موزونیت ہی کو شعر کہا اور سمجھا جائے تو پھر کہاں کی زباں اور کہاں کی شاعری؟ بلکہ اب تو موزونیت کو بھی لازم نہیں سمجھا جاتا۔ یہ تو شاید پھر بھی قابلِ قبول ہوتا مگر خیال کے بغیر شاعری؟ گویا روح کے بغیر جسم! ایسے مردار کو تو گاڑ دینا ہی بہتر ۔ کم سے کم تعّفن تو نہ پھیلے۔
حقیقت یہ ہے کہ جو کلام اب تک اس فورم میں پیش کیا ہےبالاستثناء سب کا سب نوجوانی کے دور کا ہے۔ تعلیم کے زمانے کے بعد (سنہ2000) میں نے نثرکو تو فی الفور اور شعر کو آہستہ آہستہ مکمل طور پر ترک کر دیاتھا۔گزشتہ دس برس میں شاید پچاس یا اس سے بھی کم شعر کہے ہوں گے۔اور پچھلے پانچ برس میں شاید ایک آدھ ہی۔وجہ وہی معاشرے میں علم و ادب کی بے وقعتی اور مداریوں ،خوشامدیوں کی پذیرائی ۔جو قوم مشتاق احمد یوسفی سے نادرِ روزگار صاحبِ فن سے تمام عمر بنکاری کروائے وہ مجھ ایسوں کو شاید سڑک پرہی بٹھا دیتی۔یہ سب سوچ کر شعروادب سے تائب ہوا اور دل دوسرے کاموں میں لگا لیا۔ یہ تو چند روز قبل ہی جانے جی میں کیا سمائی کہ پرانا کلام نکال کر دیکھا اور انٹرنیٹ پر شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب آپ سب حضرات کی عزت افزائی کی بدولت شاید پھر سے کچھ کہنے لگوں۔ بہرحال اگر کہوں گا تو شعر ہی ہو گا۔ نثر لکھنے کاتو شاید اب دماغ ہی نہیں رہا۔ رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف۔
کیا خوب نقشہ کھینچا ہے آپ نے۔ سبحان اللہ۔ نثر میں ہی شہر آشوب لکھ ڈالی۔ارے، یار کاشف عمران صاحب۔
اتنی بھی کیا مایوسی! وہ زمانہ تو گیا، جب نوابوں، راجاؤں اور بادشاہوں کا بہت غلغلہ تھا ۔۔ اہلِ قلم کی ’’قدر دانی‘‘ کا! قصے کہانیوں میں سنتے ہیں کہ غالب ہمہ وقتی سے بھی زیادہ شاعر تھا، اور نوابوں کی سی زندگی گزارتا تھا۔ استاد ذوق کی سواری کو تب کے دلی والے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے اور ڈرتے بھی کہ اس بگھی کو کوئی غریب ہاتھ چھو گیا تو خود پتھر کا ہو جائے گا۔ اندر کی بات تو یہ بھی ہے کہ ’’قدر دان‘‘ اپنے ’’قصیدے‘‘ بھی لکھواتے! محسوسات کی باتوں پر دل بہت دُکھتا ہے، سو اِن داستانوں کو جانے دیجئے۔
اب تو یہی ہے کہ صاحب کمائیے بھی خود، لکھئے بھی خود، چھپائی کا خرچہ بھی خود کیجئے اور پھر ایک ایک ’’دکان‘‘ پر اپنے ’’اعزازئیے‘‘ کی ’’بھیک‘‘ بھی خود جا کر مانگئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج کا عام ادیب (اگر وہ سچ مچ ادیب ہے تو) بہت بڑا مجاہدہ کر رہا ہے، خواص کی باتیں خواص جانیں۔ میں نے اپنے حلقے میں دیکھا ہے کہ یار لوگ اپنے ساتھ دوسروں کی چائے کا خرچہ بھی اپنی تنخواہ سے دیتے ہیں اور محفلیں بھی برپا کرتے ہیں۔ پروفیسر احسان اکبر نے ایک بار مجھ سے کہا تھا ’’آسی بھائی! یہ تو گھر پھونک تماشا ہے۔‘‘ بڑی تلخ اور بڑی سچی بات ہے کہ یہ گھر پھونک تماشا ہے؛ دل کی دولت سے دنیا کی دولت تک جو جتنا کچھ جلا سکے جلا کر لطف لے! ۔
اس لئے بھی تری تصویر جلا دی میں نےاور کچھ تھا ہی نہیں دل کو جلانے کے لئے۔۔۔ ۔
ہم میر کے وقتوں میں بھی ہوتے تو رضا جیکیا خوب نقشہ کھینچا ہے آپ نے۔ سبحان اللہ۔ نثر میں ہی شہر آشوب لکھ ڈالی۔
ویسے میں اگر راجوں کے دور میں بھی ہوتا تو قصیدہ گوئی پر مر جانے کو ترجیح دیتا کہ طبیعت میں ہر طرح کی غلامی سے بغاوت کا مادّہ ہے۔ میں تو اِس زمانے میں سرکاری نوکری نہ کر سکا اور "تیس برس کی عمر" میں پرو گرامنگ سیکھ کر بیوروکریسی چھوڑ سافٹ ویئر کی دنیا میں آ یا تا کہ جو جی میں آئے کر سکوں (یہ سارا قصہ میں نے تعارف میں گول کیا، کہ بات لمبی ہو چلی تھی)۔ آزادی کی ایسی لگن کتنے لوگوں میں ہوتی ہو گی!
شکر کرتا ہوں کہ آج دو دو ٹکے کے وفاقی وزیروں، اسمبلی ممبروں، سینیٹروں، سیکر ٹریوں اور دیگر بیوروکریٹوں کی شکلیں نہیں دیکھنی پڑتیں۔ ان کی شکل تو ٹی وی پر دیکھ کر ابکائی سی آتی ہے۔ "لائیو" دیکھنا تو ایک قیامت سے کم نہ تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں سب سے ناپسندیدہ جملہ ہے : "صاحب یاد کر رہے ہیں"۔ "صاحب" کون ہوتے ہیں مجھے یاد کرنے والے؟ میں تو ایک "خیال" سے باتیں کرنا چاہ رہا ہوں۔
ویسے آپ کے اس تبصرے سے شرحِ قلب کاایک عجیب احساس ہوا۔ایک طرح کی راحت بھی ہوئی کہ نوجوانی میں کیا گیا ایک مشکل ترین فیصلہ کچھ ایسا غلط بھی نہ تھا۔ آج کم از کم خود کو ایک کامیاب پروگرامر تو کہہ سکتا ہوں! رہی شاعری، تو مجھ سے جانے کتنے آئے اور آگے بھی آئیں گے۔ شاعری کے علاوہ بچپن سے "ریاضِیانہ منطق" (یونانی منطق نہیں) میں بھی دلچسپی تھی۔ اسی کے "4=2+2" جیسے فارمولوں کو نظر میں رکھ کر "دنیاوی" علوم کی طرف مائل ہوا تھا۔
آخرمیں جو آپ نے بات "مجاہدہ" کی کی ہے۔ اس پر تو اتنا ہی کہوں گا کہ "جہاد و مجاہدہ" مجھ ایسے دنیا دار کے بس کی بات نہیں۔ یہ تو صوفیوں کے کام ہیں۔ میں تو راحت کا طلبگار ہوں۔
پاتے نہیں چراغِ تمنّا سے سود ہملیتا ہے نور غیر سمیٹے ہیں دود ہممطلع نے ہی چونکا دیا اسلوب بہت منفرد لگاالفاظ کا چناؤ سلاست اور روانی ترنم کیا ہی کہنےخوش تھے بہت عدم میں،جہانِ خراب میںلائے گئے بہ سازشِ چرخِ کبود ہممصرعِ ثانیہ میں فارسی تراکیب نے بہت لطف دیاماشاللہ بہت آپ کے کلام میں پختگی اور گہرائی ہےپڑھ کربہت لطف آیاشاد و آباد رہیں
ان کے بلاگ پر پیغام دے کر دیکھیںکیا کسی کے علم میں ہے کاشف عمران کاملؔ کدھر گئے؟