غزل: پاتے نہیں چراغِ تمنّا سے سود ہم

الشفاء

لائبریرین
خوش تھے بہت عدم میں،جہانِ خراب میں
لائے گئے بہ سازشِ چرخِ کبود ہم
واہ۔ کیا بات ہے۔۔۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
آپ کی نثر بھی بہت جاندار ہے، کچھ اپنی نثری نگارشوں کے بارے میں بھی بتائیے گا۔
محمد یعقوب آسی صاحب، ذرّہ نوازی کا شکریہ۔

حقیقت یہ ہے کہ جو کلام اب تک اس فورم میں پیش کیا ہےبالاستثناء سب کا سب نوجوانی کے دور کا ہے۔ تعلیم کے زمانے کے بعد (سنہ2000) میں نے نثرکو تو فی الفور اور شعر کو آہستہ آہستہ مکمل طور پر ترک کر دیاتھا۔گزشتہ دس برس میں شاید پچاس یا اس سے بھی کم شعر کہے ہوں گے۔اور پچھلے پانچ برس میں شاید ایک آدھ ہی۔وجہ وہی معاشرے میں علم و ادب کی بے وقعتی اور مداریوں ،خوشامدیوں کی پذیرائی ۔جو قوم مشتاق احمد یوسفی سے نادرِ روزگار صاحبِ فن سے تمام عمر بنکاری کروائے وہ مجھ ایسوں کو شاید سڑک پرہی بٹھا دیتی۔یہ سب سوچ کر شعروادب سے تائب ہوا اور دل دوسرے کاموں میں لگا لیا۔ یہ تو چند روز قبل ہی جانے جی میں کیا سمائی کہ پرانا کلام نکال کر دیکھا اور انٹرنیٹ پر شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب آپ سب حضرات کی عزت افزائی کی بدولت شاید پھر سے کچھ کہنے لگوں۔ بہرحال اگر کہوں گا تو شعر ہی ہو گا۔ نثر لکھنے کاتو شاید اب دماغ ہی نہیں رہا۔ رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف۔
 

حسان خان

لائبریرین
"جدیدیت زدہ" یہ نہ بھولیں کہ فارسی سے دوری دراصل ایک عظیم ماضی سے دوری ہے۔ آج سے سو سال بعد کوئی میر و سودا و غالب و اقبال کو سمجھے گا بھی یا نہیں؟ فارسی میں خواجو اور حافظ سیکڑوں سال گزرنے کے بعد بھی آج کے شاعر معلوم ہوتے ہیں کیونکہ اہلِ فارس کو اپنے ماضی پر فخر کرنا آ تا ہے اور انہوں نے اپنی زبان کا (اب تک بہرحال) چہرہ مسخ ہونے سے بچایا ہوا ہے۔جبکہ ہماری جدیدیت زدگی زبان کا حلیہ بگاڑنے کے سوا کچھ نہیں کر رہی۔ میری نظر میں تو یہ جدیدیت نہیں سراسر سستی اور بغیر محنت کیے سب کچھ پا لینے کی خواہش ہے۔فرحت عبّاسیے ایک رات میں ایک دیوان نکالنے کو شاعری کی معراج سمجھتے ہیں۔ اگر بسیار گوئی ہی کمال ہوتا تو ذوق اور داغ آج دنیا کے سب سے بڑے شاعر ہوتے۔مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ ایک اچھوتا خیال اچھوتے انداز میں پیش کرنے کے لیے جگر خون کرنا پڑتا ہے۔جب کوتاہ نظری کا یہ عالم ہو کہ محض موزونیت ہی کو شعر کہا اور سمجھا جائے تو پھر کہاں کی زباں اور کہاں کی شاعری؟ بلکہ اب تو موزونیت کو بھی لازم نہیں سمجھا جاتا۔ یہ تو شاید پھر بھی قابلِ قبول ہوتا مگر خیال کے بغیر شاعری؟ گویا روح کے بغیر جسم! ایسے مردار کو تو گاڑ دینا ہی بہتر ۔ کم سے کم تعّفن تو نہ پھیلے۔

کاشف عمران صاحب، یقین مانیے مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ آپ اس محفل سے وابست ہوئے ہیں۔ آپ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
حسان خان صاحب،خوشی کا میری بھی کوئی ٹھکانا نہیں کہ اس فورم کے توسّط سے آپ جیسےکتنے ہی ہم ذوق افراد سے ملاقات ہوئی۔اپنی کوتاہی کا اعتراف بھی کرتا ہوں کہ پروگرامر ہونے کے باوجود کبھی جاننے کی کوشش نہ کی کہ انٹرنیٹ پر اُردو سے متعلق کیا کام ہو رہا ہے۔بنیادی وجہ تو میری طویل تر عرصے تک شعر و ادب سے دوری اور کسی حد تک تنہائی پسند طبیعت ہی ہے۔اب زمانوں بعد شعر و شاعری کی دنیا کی طرف لوٹا تو گوگل نے فوراً یہاں پہنچا دیا۔
 

الف عین

لائبریرین
واہ واہ کاشف بلکہ کامل ہی کہنا چاہئے، کیا کامل غزل ہے۔ استادانہ کلام۔ لیکن افسوس کہ بلاگ تصویری شکل میں ہونے کی وجہ سے گوگل نے کبھی کرم نہیں فرمایا، ورنہ کوئی دن نہیں جاتا جب میں گوگل میں تین چار لفظ تلاش نہ کرتا ہوں، اور اس میں بہشتر اردو تھریری بلاگز سے واقفیت ہو جاتی ہے۔ ایسا کریں کہ اپنا کلام مکمل فائل میں بھیج دیں، میں برقی اشاعت کر دوں گا۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
الف عین صاحب ،میری خوش قسمتی ہے کہ یہ غزل آپ کو پسند آئی۔ میرا بلاگ محض دو چار دن پرانا ہے۔ یونی کوڈ اردو میں ہوتا تب بھی مجھے آپ سے محفل ہی میں ملنا نصیب ہوتا! جیسا کہ اوپر عرض کر چکا ہوں کہ کم و بیش دس برس بعد اقلیمِ شعر و ادب میں واپسی ہوئی ہے۔جب شعر کہتا تھا تب بھی بہت کم گو تھا۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد بوجوہ اس کام کے لیے وقت نکال ہی نہ سکا ( تفصیل اوپر بیان کر چکا) ۔ اب سوچ رہا ہوں کہ "محفل والوں" کی مدد لے کر یونی کوڈ اردو میں ایک ویب سائٹ اور بلاگ شروع کر ہی دوں۔ ویسے محفل سے 'پہلی نظر کی محبت' کے بعد اصل ٹھکا نہ تو یہیں رہے گا!

آدھے سے زیادہ کلام محفل میں اَپ لوڈ کر چکا ہوں۔باقی جیسے آپ فرمائیں۔کیا اپنا کلام محفل میں ہی اپلوڈ کرتا رہوں یاآپ کو "ان پیج" فائل بھجوا دوں؟ کچھ غزلیں ابھی نا مکمل ہیں۔ اب جبکہ پھر سے اس جانب متوجہ ہوا ہوں تو یقینًا شعر کہنا بھی شروع کروں گا۔ دیکھتے ہیں طبیعت کب حاضر ہوتی ہے۔ دیوان تو بہر حال اب مکمل کرنا ہی پڑے گا!

آپ کی پسندیدگی اور اس سے بڑھ کر فراخدِلانہ پیشکش کاتہِ دل سے شکریہ! اس کام کو پایہءِ تکمیل تک پہنچانے کے لیے آپ اور دیگر ساتھیوں کی مدد کی بہت ضرورت پڑے گی۔
 

شیزان

لائبریرین
دے کر ادھار ہجر کو سرمایۂِ حیات
پاتے رہے بہ رنگِ غم و درد سود ہم

زبردست ہے کاشف عمران کامل جی
 
حقیقت یہ ہے کہ جو کلام اب تک اس فورم میں پیش کیا ہےبالاستثناء سب کا سب نوجوانی کے دور کا ہے۔ تعلیم کے زمانے کے بعد (سنہ2000) میں نے نثرکو تو فی الفور اور شعر کو آہستہ آہستہ مکمل طور پر ترک کر دیاتھا۔گزشتہ دس برس میں شاید پچاس یا اس سے بھی کم شعر کہے ہوں گے۔اور پچھلے پانچ برس میں شاید ایک آدھ ہی۔وجہ وہی معاشرے میں علم و ادب کی بے وقعتی اور مداریوں ،خوشامدیوں کی پذیرائی ۔جو قوم مشتاق احمد یوسفی سے نادرِ روزگار صاحبِ فن سے تمام عمر بنکاری کروائے وہ مجھ ایسوں کو شاید سڑک پرہی بٹھا دیتی۔یہ سب سوچ کر شعروادب سے تائب ہوا اور دل دوسرے کاموں میں لگا لیا۔ یہ تو چند روز قبل ہی جانے جی میں کیا سمائی کہ پرانا کلام نکال کر دیکھا اور انٹرنیٹ پر شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب آپ سب حضرات کی عزت افزائی کی بدولت شاید پھر سے کچھ کہنے لگوں۔ بہرحال اگر کہوں گا تو شعر ہی ہو گا۔ نثر لکھنے کاتو شاید اب دماغ ہی نہیں رہا۔ رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف۔

ارے، یار کاشف عمران صاحب۔
اتنی بھی کیا مایوسی! وہ زمانہ تو گیا، جب نوابوں، راجاؤں اور بادشاہوں کا بہت غلغلہ تھا ۔۔ اہلِ قلم کی ’’قدر دانی‘‘ کا! قصے کہانیوں میں سنتے ہیں کہ غالب ہمہ وقتی سے بھی زیادہ شاعر تھا، اور نوابوں کی سی زندگی گزارتا تھا۔ استاد ذوق کی سواری کو تب کے دلی والے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے اور ڈرتے بھی کہ اس بگھی کو کوئی غریب ہاتھ چھو گیا تو خود پتھر کا ہو جائے گا۔ اندر کی بات تو یہ بھی ہے کہ ’’قدر دان‘‘ اپنے ’’قصیدے‘‘ بھی لکھواتے! محسوسات کی باتوں پر دل بہت دُکھتا ہے، سو اِن داستانوں کو جانے دیجئے۔

اب تو یہی ہے کہ صاحب کمائیے بھی خود، لکھئے بھی خود، چھپائی کا خرچہ بھی خود کیجئے اور پھر ایک ایک ’’دکان‘‘ پر اپنے ’’اعزازئیے‘‘ کی ’’بھیک‘‘ بھی خود جا کر مانگئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج کا عام ادیب (اگر وہ سچ مچ ادیب ہے تو) بہت بڑا مجاہدہ کر رہا ہے، خواص کی باتیں خواص جانیں۔ میں نے اپنے حلقے میں دیکھا ہے کہ یار لوگ اپنے ساتھ دوسروں کی چائے کا خرچہ بھی اپنی تنخواہ سے دیتے ہیں اور محفلیں بھی برپا کرتے ہیں۔ پروفیسر احسان اکبر نے ایک بار مجھ سے کہا تھا ’’آسی بھائی! یہ تو گھر پھونک تماشا ہے۔‘‘ بڑی تلخ اور بڑی سچی بات ہے کہ یہ گھر پھونک تماشا ہے؛ دل کی دولت سے دنیا کی دولت تک جو جتنا کچھ جلا سکے جلا کر لطف لے! ۔

اس لئے بھی تری تصویر جلا دی میں نے​
اور کچھ تھا ہی نہیں دل کو جلانے کے لئے​
۔۔۔۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
ارے، یار کاشف عمران صاحب۔
اتنی بھی کیا مایوسی! وہ زمانہ تو گیا، جب نوابوں، راجاؤں اور بادشاہوں کا بہت غلغلہ تھا ۔۔ اہلِ قلم کی ’’قدر دانی‘‘ کا! قصے کہانیوں میں سنتے ہیں کہ غالب ہمہ وقتی سے بھی زیادہ شاعر تھا، اور نوابوں کی سی زندگی گزارتا تھا۔ استاد ذوق کی سواری کو تب کے دلی والے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے اور ڈرتے بھی کہ اس بگھی کو کوئی غریب ہاتھ چھو گیا تو خود پتھر کا ہو جائے گا۔ اندر کی بات تو یہ بھی ہے کہ ’’قدر دان‘‘ اپنے ’’قصیدے‘‘ بھی لکھواتے! محسوسات کی باتوں پر دل بہت دُکھتا ہے، سو اِن داستانوں کو جانے دیجئے۔

اب تو یہی ہے کہ صاحب کمائیے بھی خود، لکھئے بھی خود، چھپائی کا خرچہ بھی خود کیجئے اور پھر ایک ایک ’’دکان‘‘ پر اپنے ’’اعزازئیے‘‘ کی ’’بھیک‘‘ بھی خود جا کر مانگئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج کا عام ادیب (اگر وہ سچ مچ ادیب ہے تو) بہت بڑا مجاہدہ کر رہا ہے، خواص کی باتیں خواص جانیں۔ میں نے اپنے حلقے میں دیکھا ہے کہ یار لوگ اپنے ساتھ دوسروں کی چائے کا خرچہ بھی اپنی تنخواہ سے دیتے ہیں اور محفلیں بھی برپا کرتے ہیں۔ پروفیسر احسان اکبر نے ایک بار مجھ سے کہا تھا ’’آسی بھائی! یہ تو گھر پھونک تماشا ہے۔‘‘ بڑی تلخ اور بڑی سچی بات ہے کہ یہ گھر پھونک تماشا ہے؛ دل کی دولت سے دنیا کی دولت تک جو جتنا کچھ جلا سکے جلا کر لطف لے! ۔

اس لئے بھی تری تصویر جلا دی میں نے​
اور کچھ تھا ہی نہیں دل کو جلانے کے لئے​
۔۔۔ ۔
کیا خوب نقشہ کھینچا ہے آپ نے۔ سبحان اللہ۔ نثر میں ہی شہر آشوب لکھ ڈالی۔

ویسے میں اگر راجوں کے دور میں بھی ہوتا تو قصیدہ گوئی پر مر جانے کو ترجیح دیتا کہ طبیعت میں ہر طرح کی غلامی سے بغاوت کا مادّہ ہے۔ میں تو اِس زمانے میں سرکاری نوکری نہ کر سکا اور "تیس برس کی عمر" میں پرو گرامنگ سیکھ کر بیوروکریسی چھوڑ سافٹ ویئر کی دنیا میں آ یا تا کہ جو جی میں آئے کر سکوں (یہ سارا قصہ میں نے تعارف میں گول کیا، کہ بات لمبی ہو چلی تھی)۔ آزادی کی ایسی لگن کتنے لوگوں میں ہوتی ہو گی!

شکر کرتا ہوں کہ آج دو دو ٹکے کے وفاقی وزیروں، اسمبلی ممبروں، سینیٹروں، سیکر ٹریوں اور دیگر بیوروکریٹوں کی شکلیں نہیں دیکھنی پڑتیں۔ ان کی شکل تو ٹی وی پر دیکھ کر ابکائی سی آتی ہے۔ "لائیو" دیکھنا تو ایک قیامت سے کم نہ تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں سب سے ناپسندیدہ جملہ ہے : "صاحب یاد کر رہے ہیں"۔ "صاحب" کون ہوتے ہیں مجھے یاد کرنے والے؟ میں تو ایک "خیال" سے باتیں کرنا چاہ رہا ہوں۔

ویسے آپ کے اس تبصرے سے شرحِ قلب کاایک عجیب احساس ہوا۔ایک طرح کی راحت بھی ہوئی کہ نوجوانی میں کیا گیا ایک مشکل ترین فیصلہ کچھ ایسا غلط بھی نہ تھا۔ آج کم از کم خود کو ایک کامیاب پروگرامر تو کہہ سکتا ہوں! رہی شاعری، تو مجھ سے جانے کتنے آئے اور آگے بھی آئیں گے۔ شاعری کے علاوہ بچپن سے "ریاضِیانہ منطق" (یونانی منطق نہیں) میں بھی دلچسپی تھی۔ اسی کے "4=2+2" جیسے فارمولوں کو نظر میں رکھ کر "دنیاوی" علوم کی طرف مائل ہوا تھا۔

آخرمیں جو آپ نے بات "مجاہدہ" کی کی ہے۔ اس پر تو اتنا ہی کہوں گا کہ "جہاد و مجاہدہ" مجھ ایسے دنیا دار کے بس کی بات نہیں۔ یہ تو صوفیوں کے کام ہیں۔ میں تو راحت کا طلبگار ہوں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کیا خوب نقشہ کھینچا ہے آپ نے۔ سبحان اللہ۔ نثر میں ہی شہر آشوب لکھ ڈالی۔

ویسے میں اگر راجوں کے دور میں بھی ہوتا تو قصیدہ گوئی پر مر جانے کو ترجیح دیتا کہ طبیعت میں ہر طرح کی غلامی سے بغاوت کا مادّہ ہے۔ میں تو اِس زمانے میں سرکاری نوکری نہ کر سکا اور "تیس برس کی عمر" میں پرو گرامنگ سیکھ کر بیوروکریسی چھوڑ سافٹ ویئر کی دنیا میں آ یا تا کہ جو جی میں آئے کر سکوں (یہ سارا قصہ میں نے تعارف میں گول کیا، کہ بات لمبی ہو چلی تھی)۔ آزادی کی ایسی لگن کتنے لوگوں میں ہوتی ہو گی!

شکر کرتا ہوں کہ آج دو دو ٹکے کے وفاقی وزیروں، اسمبلی ممبروں، سینیٹروں، سیکر ٹریوں اور دیگر بیوروکریٹوں کی شکلیں نہیں دیکھنی پڑتیں۔ ان کی شکل تو ٹی وی پر دیکھ کر ابکائی سی آتی ہے۔ "لائیو" دیکھنا تو ایک قیامت سے کم نہ تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں سب سے ناپسندیدہ جملہ ہے : "صاحب یاد کر رہے ہیں"۔ "صاحب" کون ہوتے ہیں مجھے یاد کرنے والے؟ میں تو ایک "خیال" سے باتیں کرنا چاہ رہا ہوں۔

ویسے آپ کے اس تبصرے سے شرحِ قلب کاایک عجیب احساس ہوا۔ایک طرح کی راحت بھی ہوئی کہ نوجوانی میں کیا گیا ایک مشکل ترین فیصلہ کچھ ایسا غلط بھی نہ تھا۔ آج کم از کم خود کو ایک کامیاب پروگرامر تو کہہ سکتا ہوں! رہی شاعری، تو مجھ سے جانے کتنے آئے اور آگے بھی آئیں گے۔ شاعری کے علاوہ بچپن سے "ریاضِیانہ منطق" (یونانی منطق نہیں) میں بھی دلچسپی تھی۔ اسی کے "4=2+2" جیسے فارمولوں کو نظر میں رکھ کر "دنیاوی" علوم کی طرف مائل ہوا تھا۔

آخرمیں جو آپ نے بات "مجاہدہ" کی کی ہے۔ اس پر تو اتنا ہی کہوں گا کہ "جہاد و مجاہدہ" مجھ ایسے دنیا دار کے بس کی بات نہیں۔ یہ تو صوفیوں کے کام ہیں۔ میں تو راحت کا طلبگار ہوں۔
ہم میر کے وقتوں میں بھی ہوتے تو رضا جی
مر جاتے مگر شاعرِ دربار نہ ہوتے
 
پاتے نہیں چراغِ تمنّا سے سود ہم
لیتا ہے نور غیر سمیٹے ہیں دود ہم
مطلع نے ہی چونکا دیا اسلوب بہت منفرد لگا​
الفاظ کا چناؤ سلاست اور روانی ترنم کیا ہی کہنے​
خوش تھے بہت عدم میں،جہانِ خراب میں
لائے گئے بہ سازشِ چرخِ کبود ہم
مصرعِ ثانیہ میں فارسی تراکیب نے بہت لطف دیا​
ماشاللہ بہت آپ کے کلام میں پختگی اور گہرائی ہے​
پڑھ کربہت لطف آیا​
شاد و آباد رہیں​
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
پاتے نہیں چراغِ تمنّا سے سود ہم
لیتا ہے نور غیر سمیٹے ہیں دود ہم
مطلع نے ہی چونکا دیا اسلوب بہت منفرد لگا​
الفاظ کا چناؤ سلاست اور روانی ترنم کیا ہی کہنے​
خوش تھے بہت عدم میں،جہانِ خراب میں
لائے گئے بہ سازشِ چرخِ کبود ہم
مصرعِ ثانیہ میں فارسی تراکیب نے بہت لطف دیا​
ماشاللہ بہت آپ کے کلام میں پختگی اور گہرائی ہے​
پڑھ کربہت لطف آیا​
شاد و آباد رہیں​

نوازش ہے جناب کی۔

آپ کی دلچسپی کے لیے۔ اس رباعی میں بھی آپ کےپسند کیے دوسرے شعر والا مضمون ایک نئے پہلو سے پیش کیا ہے۔ اسے آپ میرا پسندیدہ مضمون کہہ لیجے۔ جیسے غالب کو "رشک و حسد" اور اقبال کو "خودی" سے دلچسپی تھی، ویسے مجھے "ہستی و عدم" اور "ذات کی تنہائی" کے مضامین سے رغبت ہے۔ اُن سا قادر الکلام ہو جاؤں، تو اور کئی پہلو ان مضا مین کے میرے ذہن میں باقی ہیں۔ پورا فلسفہ ہی کہہ لیجے!
 
Top