ریاست ڈبر کے پاکستان میں شامل ہونے کی کہانی،خود اکبر چچا کی زبانی سنیے۔​
”چھوٹے بھائی1950ءمیں کراچی پہنچے اور 1951ءمیں صوبہ سرحدگئے۔ یاغستان پہنچ کرمولٰنا امیر الدین شنکر گل ، انکے خاندان اور پورے قبیلے سے ملے۔ مولانا شنکر گل نے کہا کہ تمہیں نواب صاحب ڈبر نے بلایا ہے۔ حضرت وہاں پہنچے، نواب صاحب نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔​
رات گئے خصوصی اجلاس ہوا جس میں نواب صاحب نے بھائی صاحب سے مشورہ لیا کہ پاکستان کیا ہے ، اسکا مستقبل کیا ہے ، یہ کیوں بنا اور اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ حضرت بھائی صاحب نے پاکستان کے اغراض و مقاصد، جد و جہد اور تشکیل کی تاریخ بیان کی اور کہا کہ پاکستانقیامت تک قائم رہے گا، اس میں ترقی ہوگی، کشمیر پاکستان کا حصہ بنے گا۔ اور یہ دنیا کا پہلا ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا ہے۔ اسلام کا سنہری دور واپس لانا پاکستانی حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔ جسے وہ پورا کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ ریاست ڈبر کو فوری طور پر پاکستان میں شامل ہونے کا اعلان کردینا چاہیے۔ قبایئلی عوام کو انگریز کی نگرانی سے نجات ملے گی۔ قبائلی فطری سپاہی ہیں، انھوں نے کشمیر کو مکمل غلام بننے سے بچایا ہے۔ قبائلی محنت کش بھی ہیںوہ کراچی ، حیدر آباد ،، راولپنڈی، لاہور، ڈھاکہ اور چٹاگانگ وغیرہ میںتعمیری کام کریں گے، مستقبل میں قائم ہونے والی صنعتوں میں ملازم ہوں گے۔ قبائلی وادیوں میں مورچوں کے بجائے سڑکیں، ڈاک خانے، ہسپتال تارگھر اورٹیلیفون ایکسچینج قائم ہوں گے، ریل چلائی جائے گی۔ انھوں نے جب شب قدر جیسے مبارک دن پاکستان کی تشکیل کا واقعہ سنایا تو قاضیصاحب سمیت پوری مجلس خوشی سے سرشار ہوگئی۔​
اتنے میں نواب صاحب کے خادم خاص نے حاضر ہوکر بتلایا کہ چھوٹی بچی کی طبیعت ناساز ہے اور اسے ڈاکٹر صاحب کے پاس پشاور لیجانا ضروری ہے۔ نواب صاحب نے بادلِ ناخواستہ مجلس برخواست کی ، بھائی صاحب کو واپسی تک رکنے کی ہدایت کی اور ماتحت عملہ کو مہمان کا خاص خیال رکھنے کے حکم کے ساتھ وہ رخصت ہوئے۔​
ادھر ڈبر میں متعلقین نواب صاحب کی بچی کی صحت یابی اور ریاست ڈبر کے اچھے مستقبل کے لیے دعا کرتے رہے اور اس طرح رات گزری اور صبح ہوئی۔ دوسرے دن صبح آٹھ بجے کی خبریں ریڈیو پر نشر ہوئیں تو ان میں ریاست ڈبر کی پاکستان میں شمولیت کی خبر کو نمایاں طور پر جگہ دی گئی۔ ساتھ ہی گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کی دعوت اور نواب صاحب کی تقریر کا کچھ حصہ بھی سنایا گیا۔ فکر مند لوگ خوشی سے سرشار ہوگئے۔ پورے علاقے میں جشن کا سا سماں تھا۔​
نواب صاحب واپس تشریف لائے تو بھائی صاحب کے بے حد شکر گزار ہوئے۔ ریاست ڈبر کی پاکستان میں شمولیت بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئی ، اس کے بعد پورا قبائیلی علاقہ اور حکمران حضرات نے پاکستان سے وابستگی کا اعلان کیا اور پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔ بھائی صاحب کی ایک ایک بات پوری ہوکر رہی۔ اس علاقے کی دس فیصد آبادی کراچی اور حیدر آباد میں آباد ہوگئی۔ ان لوگوں نے محیر العقل تعمیراتی کارنامے انجام دیئے۔ شہر کراچی کو اسکے کارخانوں ، سڑکوں ، بجلی اور اونچی اونچی عمارتوں کی تعمیر سے نیویارک بنا دیا۔ پاکستان ٹیکسٹائل کنگ بن گیا۔​
بھائی صاحب کا مشن پورا ہوچکا تھا۔ نواب صاحب اور علاقے کے سرداروں کے روکنے کے باوجودبھائی صاحب پشاور واپس آگئے۔ بھابیجان صاحبہ اور ننھا حبیب الرحمان بھی اپنے نانا، نانی خالواور خالاﺅں کے ساتھ پشاور آچکے تھے ۔ بھائی صاحب کی یہاں سے متعلق واقفیت کام آئی اور شہر کی ایک بلڈنگ ان مبلغین کے نام الاٹ ہوگئی جس میں ان خانماں آبادوں کو سر چھپانے جگہ میسر آئی۔​
اچانک ایک دن بھائی صاحب کو پولیس نے گرفتار کرلیا، اور انھیں گورنر جنرل پاکستان ، وزیر اعظم پاکستان اور وزیر داخلہ کی تشویش سے آگاہ کیا جس میں سوال اٹھایا گیا تھا کہ سی آئی ڈی کے علم میں لائے بغیر مولانا کو قبایئلی ریاستوں سے متعلق اتنی اہم ذمہ داری کس نے دیتھی۔مذکورہ اتھارٹیوں نے گھبرا کر اسکی انکوائری کرکے فوری رپورٹ کا حکم دیا تھا۔ اس دوران بھائی صاحب کے دوست مولانا عبدالجبارشاہ صاحب بھی حوالات پہنچ گئے اور بھائی صاحب سے متعلق تفتیشی کمیٹی کو تفصیلی بیان دیا اور یوں بھائی صاحب کی گلو خلاصی ممکن ہوسکی۔ اب تو حکام نے بھائی صاحب پر زور دیا کہ وہ سی آئی ڈی پشاور کی ملازمت اختیار کرلیں ، انہیں اچھے عہدے کی بھی پیشکش کی گئی لیکنانھوں نے اس سے معذرت کرلی اور افسران کا شکریہ ادا کرکے واپس چلے آئے۔ مقامی افسر نے اس تمام سرگرمی کو اپنا کارنامہ قرار دیا اورفائل بند کردی۔ اگر حضرت چھوٹے بھائی صاحب قبلہ یہ ملازمت قبول کر لیتے تو ہم لوگ آج زیادہ ترقی یافتہ حالت میں ہوتے۔“​
سرحدی علاقوں میں اباجان کا مشن مکمل ہوچکا تھا لہٰذہ انھوں نے بوریا بستر سمیٹا، پشاور سے بیوی بچوں کو لیا اور وہاں سے روانہ ہوکر کراچی پہنچے۔ وہ علامہ اقبال کے شعر​
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے​
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر​
کے مصداق کہیں پر بھی اپنی خودی کو بیچنے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھے۔ پیر صاحب کی پیری کا ڈھونگ، ان کے نام نہادکشف وکرامات اور الہام کی اصل حقیقت کا راز اُن پر ظاہر ہوچکا تھا۔پیر صاحب نے ہندوستان ہی میں جیل کے حالات سے گھبرا کر خودکشی فرمالی تھی۔ادھر اس سے پہلے ہی قادیانیت کی بحث اور اس کے بعد جہاد کے لیے جمع کیے ہوئے پیسے سے اپنی کتاب چھاپنے کے واقعے سے بھی اباجان پیر صاحب کی طرف سے خاصے مایوس ہوئے تھے۔انھوں نے نہ صرف پیر صاحب اور ان کی جماعت کو الوداع کہا بلکہ اس مایوسی میں تبلیغی کام سے بھی دست بردار ہوگئے۔​
کراچی پہنچے توعلم کی پیاس اور کتابوں کی تلاش انھیں کشاں کشاں یہاں کے مشہور و معروف کتب خانوں تک لے گئی اور علامہ محمد طاسین صاحبؒ اور جناب خالد اسحاق ایڈوکیٹ صاحب اور ان کی لائبریریوں میں کھنچ کر آنے والے اکابرین و دیگر علم دوست ہستیوں سے ان کی ملاقات ہوئی۔ علامہ محمد طاسین مرحوم کی یاد میں لکھے ہوئے ایک مضمون میں حضرت لکھتے ہیں۔​
” تقسیمِ ہند کے وقت کراچی شہر ڈھائی لاکھ کی آبادی والا شہر تھا۔ اور یہاں مسلمان اقلیت میں تھے۔ کوئی بڑا دینی مدرسہ یا کتب خانہ یہاں نہیں تھا۔ ملک کے دارالخلافے کراچی میں دینی کتب خانے کے قیام کاکام مشیتِ الٰہی نے مولانا محمد میاں صاحب اور برادران سے لیا۔ یہ مولانا انور شاہ کشمیری کے شاگرد اور بڑے تاجر تھے اور دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل بڑے علماءمیں سے تھے۔ ان کے مالی تعاونسے مجلسِ علمی کا کتب خانہ قائم ہوا ، اور کچھ دنوں کے بعد حضرت مولانا یوسف بنوری کے مشورے سے مولانا طاسین اس کے مہتمم مقرر ہوئے اور اسی حیثیت سے آپ نے وفات پائی۔​
اس کتب خانے میں تفسیر، حدیث، فقہ ، احادیث کی شرحیں، فقہ کے تمام علوم ، سیرت و تاریخ اور تصوف پر مشتمل ذخیرہ تھا۔ اور الحمد للہ اب تک ہے۔ جب اسلامی دستور کی تدوین ہورہی تھی اس وقت بھی اراکین نے اس کتب خانے سے اپنے مباحث کے لیے فائدہ اٹھایا۔خاص طور پر اس وقت مولانا اکرم خان صاحب کتب خانے میں تشریف لایا کرتے تھے ۔ 56ءکے دستور میں قرآن و سنت کی بالا دستی کی منظوری ہوئی تو مولانا اکرم خان نے بہ نفسِ نفیس تشریف لاکر مولانا طاسین کو تمام کارروائی سنائی۔“​
آگے مزید لکھتے ہیں۔​
” مصنفین اور محققین آپ کے کتب خانے مجلس علمی میں آتے رہتے اور کتابوں سے استفادہ کرتے۔ ہم نے مولانا عبداللہ المسدوسی ، مولانا محمود احمد عباسی ، مولانا ماہر القادری، کو مولانا سے ملاقات کے لئے آنے والوں میں دیکھا ہے۔ مفتی سیاح الدین کاکاخیل اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن تھے ، وہ مولانا کے پاس تشریف لاتے اور فقہی مسائل پر گفتگو ہوتی۔ انتہاءیہ ہے کہ بعض لوگ فون پر مولانا سے حوالہ جات پوچھتے اور مولانا اپنا کام ترک کرکے حوالہ جات سائل کو کتابوں سے لکھواتے۔ کراچی میں ملک کی سب سے بڑی پرائیویٹ لائبریری کے مالک خالد اسحاق ایڈوکیٹ سے مولانا کی گہری دوستی تھی ، اور ان کے یہاں کی علمی محفلوں میں مولانا شریک ہوتے تھے اور مولانا کے علاوہ حضرت جعفر شاہ پھلواروی اور مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی صاحب کی موجودگی میں یہ محفل علم و تحقیق کا نادر مرقع ہوتی۔“​
(از ” دیو بند کی کہکشاں کا درخشاں ستارہ“ از مولانا محمد اسمٰعیل آزاد صفحہ ۸۴۲، ماہنامہ تعمیرِ افکار۔ اشاعتِ خاص بیادِ علامہ محمد طاسین ؒاز زوار اکیڈمی پبلیکیشنز، جون جولائی اگست ۶۰۰۲ئ)​
اسی طرح ایک اور مضمون” نبی کریم ﷺ کے احوال و اوصاف“ میں ایک ہستی ’ بابا خلیل داس‘ کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں۔​
” البتہ غیر منقسم ہندوستان کی ایک شخصیت بابا خلیل داس چترویدی گزری ہے، انھوں نے ۸۴۹۱ءمیں بنارس میں وفات پائی۔ اللہ کی توحید، نبی اکرم ﷺ کی رسالت پر اور اسلام کی تبلیغ میں یہ سب سے بڑا نام تھا۔ لیکن ان سے کوئی کتاب ہم تک نہیں پہنچی۔ یہ امرتسر کے مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے والدین کی وفات کے بعد بچپن میں سردی کے زمانے میں گھر سے بھاگے اور ریل میں سوار ہوئے۔ بنارساترے، سردی میں ٹھٹھر رہے تھے کہ ایک ہندو مہنت جو لاولد تھے، اس بچے کو اٹھا کر گھر لے گئے ، پالا پوسا، اور چاروں ویدوں کا قاری اور عالم بنایا۔ بچے کو بچپن کی یادوں نے اسلام یاد دلایا ۔ مہنت جی اور ان کی پتنی نے اس گود لیے ہوئے بچے کو ہی اپنا بیٹا بنا لیا۔ صرف اس کا داخلہ رسوئی میں بند تھا۔ راقم الحروف نے مولانا جعفرشاہ پھواروی، غلام محمد بٹ مرحوم، شاگرد مولانا ثناءاللہ امرتسری ، ماسٹر کریم بخش، خالد ایم اسحاق ایڈوکیٹ مرحوم کے پرائمری کے استاد اور ان کی لائبریری کے لائبریرین سے بابا خلیل داس چترویدی کی یہ داستان سنی تھی۔ ممکن ہے بنارس کے کسی اہل قلم کے ذریعے نبی کریم ﷺ کے نام کی تبلیغ کرنے والے اس محقق کے علم سے بھی مستفید ہونے کا موقع ملے“۔​
(نبی کریم ﷺ کے احوال و اوصاف ، اقوامِ عالم کی مذہبی کتب میں، از مولانا محمد اسمعیٰل آزاد، ششماہی عالمی السیرہ شمارہ نمبر ۴۱، رمضان المبارک۶۲۴۱ھ مطابق اکتوبر ۵۰۰۲ئ)​
ان دونوں اقتباسات کو بین السطور پڑھیے تو اندازہ ہوگا کہ اباجان کی کسرِ نفسی اورخودداری انھیں یہ لکھنے سے مانع ہے کہ یہ پیاری پیاری ہستیاں جن کا تذکرہ اباجان ان سطور میں کررہے ہیں، اباجان کے گہرے دوست بن گئے اور ان علمی بحثوں میں نہ صرف اباجان شرکت کرتے رہے بلکہ عملی طور پر بھی ان مباحث میں شریک ہوا کرتے۔ادھر خالد اسحاق صاحب نے اباجان کو یہ خصوصی اجازت دے رکھی تھی کہ وہ کسی بھی وقت ان کی لائبریری سے استفادہ حاصل کرسکتے ہیں۔کوئی نئی کتاب خریدتے تو سب سے پہلے اباجان کو دکھاتے اور ان سے اس بارے میں رائے طلب کرتے۔دراصل اباجان کی شخصیت فقر اور خودداری کا حسین امتزاج تھی۔ وہ علامہ اقبال کے تصور خودی کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔ اس داستان کا ایک حصہ” سوئے منزل چلے“ راقم الحروف اباجان کی زندگی ہی میں مکمل کرچکا تھا۔ مرض الموت میں جب انھیں پڑھ کر سنایا تو خاصے ناراض ہوئے تھے کہ ” ابے اپنے باپ کو خواہ مخواہ اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔“ لیکن واقعاتی طور پر صرف ایک دو غلطیوں کی نشاندھی کی تھی۔​
اس سلسلے میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اباجان باباخلیل داس کوغالباً پہلے سے جانتے تھے۔ ہم نے اپنے بچپن میں اباجان اور چچاﺅں کو بابا خلیل داس چترویدی کا نام لیتے ہوئے سناہے۔وللہ اعلم بالصواب۔​
کراچی آکر آوارہ طبیعت کو قرار نصیب ہوا تو بیوی بچوں کے ساتھ گھریلو زندگی اختیار کی۔ اس نئی زندگی کے تقاضوں سے مجبور ہوکر ملازمتکی تلاش میں سڑکوں کی خاک چھانی۔انھی دنوں راقم الحروف ٹایئفایڈ جیسی موذی بیماری میں مبتلا ہوا ۔اِدھر اماں اس بیمار اور بے چین بچے کوگود میں لیکر رات رات بھر بیٹھی رہتیں کہ شاید اس طرح بچے کو کچھ دیر کے لیے قرار آجائے، اُدھر اباجان کو میری دوا کی فکر لاحق ہوئی تو وہ فوراً لالو کھیت( لیاقت آباد) میں واقع ایک خیراتی شفا خانے پہنچے اور لائن میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کیا۔ جب انکی باری آئی تو انھوں نے بچےکی طبیعت کا حال بتایا اور دوائی کے طلبگار ہوئے ۔ کاﺅنٹر پر بیٹھے ہوئے کمپاﺅنڈر صاحب نے انتہائی سکون کے ساتھ دوا بنائی، اور اسکے ساتھ ایک مذہبی سیاسی تنظیم کا پمفلٹ بھی اباجان کو تھمایا اور یہ مژدہ سنا یا کہ یہ دوائی اس خاص جماعت کی جانب سے بطور ہمدردی عطافرمائی جارہی ہے ( تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے)۔​
یہ سننا تھا کہ اباجان نے اسی وقت دوائی زمین پر انڈیل دی اور پمفلٹ شکریئے کے ساتھ کمپاﺅنڈر صاحب کو واپس کیا اور سکون کے ساتھچلتے ہوئے ٹینٹ سے باہر آگئے۔دوائی پھینکتے وقت اباجان نے سوچا۔” کوئی بات نہیں۔ بچہ مرتا ہے تو مرجائے لیکن میں اللہ کے نام کے علاوہ کسی اور کے نام کی دوا اپنے بچے کوہرگز نہیں پلاﺅں گا۔“​
گھر کی طرف چلے ہیں تو پریشانی اپنے عروج کو پہنچی ہوئی تھی۔ یہ میں نے کیا کردیا۔ اب بچے کی دوائی کا کیا ہوگا۔ بچے کی بیماری کیسے ختمہوگی۔ یا اللہ ، یا مالک و مختارِ کل، تو ہی کچھ بند و بست فرمادے۔ گھر پر بیمار بچہ تڑپ رہا ہے اور جیب میں ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے۔ دنیا والے اپنا احسان جتانے پر تلے بیٹھے ہیں۔ یا اللہ مجھے ا ن کا احسان نہیں چاہیئے، مجھے صرف تیری رضا اور تیری مدد چاہیئے۔​
قبولیتِ دعا کی گھڑی تھی، گھر پہنچے تو اللہ کی مدد آچکی تھی۔ اباجان کے ایک دوست جنہیں ہم آج بھی کمپاﺅنڈر صاحب کے نام سے یاد کرتے ہیں گھر کے سامنے موجود تھے اور اباجان کا انتظار کر رہے تھے۔ آئے تو اباجان سے ملنے کے لیے تھے لیکن بچے کی بیماری کا سنا توذرا دیر کو بیٹھے بھی نہیں ، فوراًبیمار کا معاینہ کیا اور دوا لینے کے لیے نکل گئے اوراس دن کے بعدسے میری صحت یابی تک روزآنہ دوائی لاکر دیتے رہے۔اباجان حیرت کیا کرتے تھے کہ آخر اس دن کمپاﺅنڈر صاحب کو ہمارے گھر کس نے بھیجا تھا۔یہ ایک ایسا معمہ ہے جو آج تک حل نہ ہوسکا۔​
٭٭٭٭٭​
 

سید زبیر

محفلین
رب کریم انھیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ان کے درجات بلند فرمائے اور اپ کو راہ حق پر ثابت قدم رکھے
باپ کا سبق اگر بیٹے کو نہ ازبر ہو
پھر پسر قابل میراث پدرکیوںکر ہو
 
رب کریم انھیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ان کے درجات بلند فرمائے اور اپ کو راہ حق پر ثابت قدم رکھے
باپ کا سبق اگر بیٹے کو نہ ازبر ہو
پھر پسر قابل میراث پدرکیوںکر ہو
جزاک اللہ جناب! اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔ آمین۔
 
باب یازدہم۔فسانہ آزاد
خدا کے بندوں سے پیار
محمد خلیل الر حمٰن
اللہ کی مدد نہ صرف بچے کے لیے دوا کی شکل میں آئی بلکہ اباجان کے لئے اندھوں کے ایک اسکول میں استادی کا مژدہ بھی لے کر آئی۔ ابتک تو اباجان اللہ کے سپاہی تھے اور اس کے لئے بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑاتے پھر رہے تھے ، اب اس طرز حیات کو چھوڑا تو اس کے بندوں کی خدمت ان کے حصے میں آئی۔ خدا کے بندوں سے پیار تو تھا ہی اور ابتک کی جد و جہد اس لیے تھی کہ ان کی عاقبت سنور جائے۔ اب معاشرے کے معذوروں کی خدمت کا موقع ملا۔پرانی نمائش پر گونگے بہروں اور اندھوں کا اسکول ، جو اب بھی IDA REU کے نام سے موجود ہے وہاں پراباجان کو انٹرویو کے لیے بلا یاگیااور ان کی علمی قابلیت اور انسان دوستی سے متاثر ہوکر انھیں اندھوں کے استاد کے طور پر نوکری کی پیشکش کی گئی۔
ابتک اباجان اردو، انگریزی، عربی، فارسی، پشتو، سنسکرت ہندی اور مرہٹی تو جانتے ہی تھے گویا ہفت زبان تو تھے ہی، اب انہیں ایک اور زبان سکھانے کی پیشکش کی گئی توانھوں نے اس پیشکش کو بھی فراخ دلی کے ساتھ قبول کیا اور اس طرح پہلے انھوں نے اسکول میں رہتے ہوئے ہی اندھوں کے پڑھنے کے لیے استعما ل ہونے والی خاص زبان بریلBRAILLEبھی سیکھ لی اور اس میں بھی مہارت بہم پہنچائی اور پھر فوراً نابیناءافراد کو پڑھانا شروع کردیا۔اور یوں نابیناءافراد کے ساتھ اباجان کی ایک لمبی دوستی اوراس محبت بھرے رشتے کا آغاز ہوا جو انھیں ساری زندگی سب سے پیارارہا ۔وہاںپران کی پرنسپل حبیب اللہ صاحب سے دوستی ہوئی جو حبیب اللہ صاحب کی وفات تک ایک گہری دوستی کی شکل میں باقی رہی۔ ایک لمبے عرصے تک ہمیں جب بھی کبھی اپنی تعلیمی دستاویزات کی تصدیق کی ضرورت پڑی ہم حبیب اللہ صاحب کے پاس ہی جاتے رہے۔مجھے جب کالج میں داخلے کے لیے تصدیق کی ضرورت پڑی تو میں حبیب اللہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ انھوں نے نہ صرف میری دستاویزات کی تصدیق کی بلکہ اپنی طرف سے ایک تعریفی خط بھی لکھ دیا جس میں میرے کردار کی تصدیقی سند کے علاوہ خاصی تعریف بھی کی گئی تھی ۔ یہ خط آج بھی میرے دستاویزات کے خزانے میں موجود ہے۔
انھی دنوں اباجان کے ماموں سسر جناب ڈاکٹر صمد شاہین نے جو تین سال کی ڈیپوٹیشن پر ترکی جارہے تھے، انھیں اس عرصہ میں بندر روڈ پلازہ پر واقع گپتا مینشن میںاپنے فلیٹ میں رہنے کی دعوت دی جسے اباجان نے بخوشی قبول کیا۔ڈاکٹر صمد شاہین اور انکی بیگم مشہور و معروف افسانہ نگار اور نقاد محترمہ ممتاز شیریں صاحبہ، جو تقسیم سے پہلے بنگلور سے اردو کا مشہور ماہنامہ ” نیا دور“ نکالا کرتے تھے، پاکستان آئے تو یہ رسالہ بھی اپنے ساتھ لے آئے اور کراچی سے اس کا اجراءکیا۔ دونوں میاں بیوی اباجان کی علمیت اور علم دوستی کی وجہ سے ان کی بہت عزت کرتے تھے ، ادھر اباجان بھی صمد شاہین صاحب کی علمی قابلیت کے اتنے ہی معترف تھے۔ ماموں جان کی اباجان کو اس حد تک چاہنے اور پسند کرنے کی ایک اوربڑی وجہ اباجان کی قناعت پسندی اور فقیرانہ انداز بھی تھا۔ ماموں جان جب تک کراچی میں رہے اباجان کی خراب مالی حالت کو دیکھ کر ان کی مدد کرنا چاہتے تھے لیکن انھیں اباجان کی طبیعت کا اچھی طرح اندازہ تھا کہ امداد قبول نہیں کریں گے لہٰذا اپنے دونوں لڑکوں پرویز بھائی اور گلریز بھائی کو پڑھانے کی درخواست کی جسے اباجان نے قبول کیا اور ایک عرصہ تک دونوں بھائیوں کو ٹیوشن پڑھاتے رہے۔
ماموں جان کو کتابوں کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ کسی نے ان کے متعلق لکھا تھا کہ ہندوستان میں رہتے ہوئے جب وہ اپنے علاقے سے بنگلور جاتے تھے تو ڈھیروں کتابیں اس طرح خرید کر لاد لے آتے تھے جس طرح جہیز۔ ممتاز شیریں صاحبہ اردو کی صاحب طرز افسانہ نگار ہونے کے علاوہ مشہور نقاد بھی تھیں۔ ان کے افسانوں کے کئی مجموعے جن میں اپنی نگریا اور میگھ ملہار وغیرہ شامل ہیں شایع ہوئے۔ اس کے علاوہ ان کی کتابوں میں ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے، JOHN STIENBECK کے ایک انگریزی ناول THE PEARLکا اردو ترجمہ ”درشہوار“ کے نام سے ، جس میں ناول کی صنف سے متعلق ان کا ایک قابل قدر تنقیدی مضمون بھی شامل تھا، فسادات پر ان کاجمع کیا ہوا افسانوں کا مجموعہ ” ظلمتِ نیم روز“، منٹو کی افسانہ نگاری سے متعلق مضامین کا مجموعہ ” منٹو نوری نہ ناری“( جو ان کی قفات کے بہت سال بعد شائع ہوا) ، وغیرہ شامل ہیں۔کراچی میںماموں جان کا چار کمروں کا فلیٹ کیا تھا، گویا ایک بہت بڑی اور قابلِ قدر لائبریری تھی، جس میں ہزاروں قیمتی اور اعلیٰ درجے کی اردو اور انگلش کتابیں بھری ہوئی تھیں۔ اس فلیٹ میں اپنے پانچ سالہ قیام کے دوران اباجان نے ماموں جان کے گھر کے سامان ، فرنیچر اور کراکری وغیرہ کو تو نہ چھیڑا ، البتہ وہاں پر موجود کتابوں سے خوب استفادہ کیا۔ایک مرتبہ خالو جان ہمارے گھر تشریف لائے تو ان کی تواضع میں گھر میں استعمال ہونے وا لی کراکری استعمال کی گئی اور انھوں نے الماریوں میں سجی ہوئی قیمتی کراکری کو دیکھا تو اباجان کے فقیرانہ انداز اور امانت داری کو بہت سراہا۔
تقریباً پانچ چھ سال بعد جب دوبارہ ماموں جان کو اپنے فلیٹ کی ضرورت پڑی اور انھوں نے اس سلسلے میں اباجان سے رجوع کیا تو اباجان نے ایک لمحہ توقف کیے بغیرفلیٹ خالی کرنے کی حامی بھر لی اور چند دن کے اندر ہی فلیٹ خالی کردیا ، اونٹ گاڑی پر اپنا گھر کا سارا سامان لادا اور خاموش کالونی کے ایک کرائے کے مکان کی طرف چل پڑے۔ماموں جان جو اس سے پہلے اپنا ایک گھر اور کچھ اور اثاثا اسی طرح لوگوں کوعاریتاً دے کر گنوا چکے تھے، ان کے لیے یہ ایک انوکھا واقعہ تھا۔
ایک عرصہ نابیناءافراد کو پڑھانے کے بعد اباجان کو نیشنل فیڈریشن فار دی ویلفئر آف دی بلائنڈ کی جانب سے بریل پریس کے مینجر کے طور پر نوکری کی پیشکش ہوئی تو انھوں نے اسے بخوشی قبول کیا۔
تھک کر بیٹھنے ،تبلیغ کاکام چھوڑنے اور نوکری اختیار کرنے کے سالہا سال بعدجب اباجان اپنے آفس کے دوستوں تجمل صاحب ، ائر مارشل(ائر مین)نور محمد صاحب ، نابینارحمان گل بھا ئی ، نابینا غلام محمد بھائی اور نابینا معین بھائی وغیرہ کے سامنے اپنی زندگی کے گزرے ہوئے عجیب و غریب واقعات کو دہرا رہے ہوتے ، تو ان حضرات کو اباجان کے ان محیر العقل واقعات پر یقین نہ آتا۔ مولوی صاحب یہ واقعات اپنی طرف سے گھڑ کر سناتے ہیں، شایدکبھی کبھی تووہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہوں گے۔اسی دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے دفتر والوں کی نظر میں اباجان کے وقار اور عزت میں بے پناہ اضافہ کردیا۔ انھیں پتا چل گیا کہ اباجان کے سنائے ہوئے واقعات کا ایک ایک لفظ سچا اور حقیقت پر مبنی ہے۔ اس واقعے کے بعد تو اباجان کی زبان سے نکلے ہوئے ہرہر لفظ پر ان کے ان تمام دوستوں کا آمنا اور صدقنا کہنا لازمی ہوجاتا تھا۔تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے۔
غالباً اباجان کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ ان کا بریل میں نابیناءافراد کے لیے قرآن شریف کی تیاری اور بریل پریس سے طباعت تھا۔ اس سے پہلے اردن اور سعودی عرب سے بریل قرآن شائع ہوچکا تھا لیکن اردن والے نسخے میں Punctuations انگلش والے استعمال ہوئے تھے اور سعودی نسخے میں سرے سے اعراب ہی نہیں تھے جبکہ ابا جان والے نسخے میں اردو بریل کے اعراب استعمال کیے گئے۔ ۰۷۹۱ئ میںاباجان بریل قرآن مکمل کرچکے تھے جسکی تصحیح مولانا احتشام الحق تھانوی صاحب نے فرمائی تھی۔ چونکہ بریل قرآن شریف کی طباعت خود نیشنل فیڈریشن فار دی ویلفئر آف دی بلائنڈ کے لیے بھی ایک بہت بڑا اعزاز تھا لہٰذہ ادارے والے اکثر ہی اس کوشش میں لگے رہتے کہ کسی بڑی شخصیت کو بلا کر اس نادر اور مقدس نسخے کا دیدار کروایا جائے۔
اسی طرح دن گزررہے تھے کہ ایک دن بیگم جسٹس طیب جی اور بیگم نرگس جیونجی گھبرائی ہوئی آفس میں داخل ہوئیں اور اعلان کیا کہ کچھ ہی دیر میں پاک فوج سے ایک معزز مہمان، جناب میجر جنرل احیاءالدین صاحب دفتر کا معائنہ کرنے اور نابینا افراد کے لیے بنائے ہوئے بریلBraille قرآن کا مشاہدہ کرنے کے لیے بنفسِ نفیس تشریف لانے والے ہیں۔
آفس اور ملحقہ پریس کی خاطر خواہ صفائی کروائی گئی اور سب لوگ اس معائنہ کے لیے تیار ہوکر بیٹھ گئے۔ بریل قرآن شریف کی کاپیاں، پریس سے شائع شدہ دیگر بریل کی کتابوں کے ساتھ سامنے میز پر سجادی گئیں۔ رحمان گل بھائی اور معین بھائی ان میزوں کے پیچھے ادب سے کھڑے ہوگئے کہ معززمہمان کو یہ کتابیں پڑھ کر سنا سکیں۔ انتظار کی گھڑیاں جو عام طور پر لمبی ہوتی ہیں، اس روز کچھ زیادہ ہی لمبی ہوگیئں اور صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو تھا کہ معزز مہمان ، بیگم جسٹس طیب جی اور بیگم نرگس جیونجی کی معیت میں تشریف لے آئے۔
معائنہ شروع ہوا۔بریل میں شائع شدہ قرآن اور دیگرکتابیں مہمان کو دکھائی گیئں ۔ دونوں نابینا افراد نے فوراً ان کتابوں سے پڑھ کر معزز مہمان کو سنایا۔بعد میں مہمان نے بریل پریس ملاحظہ فرمایا اور نابیناءافراد کو اس پر کام کرتے ہوئے دیکھا۔مہمانِ گرامی نیشنل فیڈریشن فار دی ویلفئر آف دی بلایئنڈ کی نابیناءافراد کے لیے ان کاوشوں کو دیکھ کر خاطر خواہ متاثر ہوئے اور جی بھر کر اس کارِ خیر کی تعریف کی۔ اسی اثناءمیں اباجان نے جو اپنی جگہ پر باادب کھڑے ہوئے تھے ، اپنی افسر، بیگم جسٹس طیب جی سے آہستہ سے کہا۔
” بیگم صاحبہ! براہِ کرم ان مہمان سے میرا تعارف کروائیے۔ یہ مجھے جانتے ہیں۔“
” یعنی آپ ان کو جانتے ہیں۔“
” بیگم صاحبہ! یہ مجھے جانتے ہیں۔“
بیگم صاحبہ نے معزز مہمان سے ان کے کان میں عرض کی کہ ہمار ے بریل پریس کے مینجر صاحب آپ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں۔جنرل صاحب نے اباجان کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا۔”ضرور۔“ اور رسمی طور پر اباجان سے دوبارہ مصافحہ کیا۔
” جی میرا نام محمد اسمٰعیل آزاد ہے۔“ اباجان نے ان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا اور خاموش ہوکر ان کی طرف دیکھنے لگے۔
” ماشاءاللہ۔ جی فرمائیے؟“
”میں آپ سے پہلے بھی مل چکا ہوں۔“
” ضرور ملے ہوں گے ۔ نابیناءافرادکے لیے آپ کی خدمات یقیناً قابل قدر ہیں۔“
” جناب! میری اور آپ کی ملاقات اب سے کئی سال پہلے ستھانہ نامی ایک گاﺅں میں ہوئی تھی، جہاں پر آپ کے حملے سے پہلے میں نے آپ سے ایک دن کی مہلت لی تھی۔“اباجان نے کچھ خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
ایک لمحے کوجنرل صاحب چونکے اور پھرنہایت بے تکلفی اور گر م جوشی کے ساتھ اباجان سے لپٹ گئے۔
” ابے مولوی تم؟“
پھر انھوں نے دونوں خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔” اُس دن اِس مولوی نے مجھے بہت گالیاں دی تھیں۔اس کے خیال میں میں نے بہت سے بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا۔“
پھر انھوں نے مختصراً سارا واقعہ سنایاکہ کس طرح پاکستانی افواج نے ستھانہ کا گھیراﺅ کیا ہوا تھا کہ اچانک اس وقت اباجان نے اس منظر نامہ میں دخل در معقولات کرتے ہوئے انھیں پیشکش کی کہ وہ اس صورتحال کو بغیرکسی خون ریزی کے حل کرواسکتے ہیں۔پھر انھوں نے اباجان کا اس گاﺅں میں جانا اور ان لوگوں کی جان بچانے کے لیے اپنی پوری کوشش کرنا بیان کیا اور آخر میں پاک فوج کی کارروائی وغیرہ اور یوں اس انتہائی رسمی قسم کی محفل میں گویا جان سی پڑگئی۔سب لوگ خوش تھے اور ہنس رہے تھے۔اس دن اباجان کے آفس کے دوستوں کو اندازہ ہوا کہ اس قلندر آدمی نے کتنی عجیب و غریب زندگی گزاری ہے اور اپنی زندگی میں کتنے محیر العقل کارنامے سر انجام دیے ہیں۔ابا جان کی بے پناہ عزت تو وہ پہلے بھی کرتے تھے، اس دن انکی نظروں میں اباجان کی عزت و وقار کچھ اور ہی بڑھ گئے۔
میجر جنرل احیاءالدین صاحب اس کے کئی سال بعد قاہرہ میں پی آئی اے کے طیارے کو پیش آنے والے حادثے میں جاں بحق ہوئے۔ستھانہ گاﺅں آج کئی ہزار فٹ پانی میں ڈوبا ہوا ہے اور تربیلا جھیل کا ایک حصہ ہے۔لیکن اباجان کے کارنامے آج بھی زندہءجاوید ہیں۔

اباجان کے اس قابل فخر کارنامےِ یعنی بریل قرآن شریف کا معائنہ کرنے کی سعادت حاصل کرنے والوں میں ملکہ افغانستان ، شاہ ظاہر شاہ کی بیگم صاحبہ بھی شامل تھیں۔
 

یوسف-2

محفلین
ماشا ء اللہ
خلیل بھائی۔ پڑھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔ ایک تو آپ کے والد ماجد کے کارہائے نمایاں اور دوسرے آپ کا انداز تحریر۔ سبحان اللہ۔ آپ کو تو” اَب بیتی“ مکمل لکھنی چاہئے۔
 
یوسف ثانی بھائی آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ یہ ’’ اب بیتی‘‘ یعنی ابا جان کی ہنگامہ خیز زندگی کے احوال پر مبنی یہ انتہائی دلچسپ داستان ’’ فسانہ ء آزاد‘‘ ماہنامہ تعمیرِ افکار کراچی ( زوّار پبلیکیشنز) کی اشاعتِ خاص بیادِ مولانا محمد اسماعیل آزاد جنوری ۔فروری ۲۰۱۱ء کا حصہ ہے۔
Picture.jpg
 
اباجان کے دوست عبدالصمد سراج الدین صاحب ہر سال تھیو سو فیکل ہال بالمقابل ریڈیو پاکستان کراچی، سیرت کانفرنس منعقد کیا کرتے اور خاص مقرر کے طور پر اباجان کو تقریر کی دعوت دیا کرتے تھے۔ان کے سیرت کانفرنس کے بڑے بڑے پوسٹر آج بھی راقم الحروف کی یادداشت میں محفوظ ہیں۔

اباجان کو نوکری کا سکون ہوا اور تو طبیعت کا انوکھا پن اور تخلیق کی جدت انھیں تقریر سے تحریر کی طرف لے گئے اور انھوں نے تنقیدی اور تحقیقی مضامین لکھنا شروع کیے۔ اس وقت تک اردو میں بریل کا کوئی قاعدہ موجود نہیں تھا لہٰذہ سب سے پہلے اباجان نے اردو میں بریل کے قاعدے کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ” معیاری اردو بریل کا قاعدہ “ کے نام سے ایک کتابچہ ترتیب دیا جو ان کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ غالباً یہ کتابچہ یونیسکو کے ذخیرے میں بھی شامل ہے جو نابیناﺅں پر لکھے گئے مواد پر مشتمل ہے۔


اباجان نے اپنی زندگی کے اس نئے موڑ پر ان حیرت انگیز صلاحیتوں کے مالک لوگوںکی نفسیات کا بغور مطالعہ کیا اور انھیں پڑھاتے ہوئے یا ان سے معاملات کرتے ہوئے انھیں معذور نہیں جانا اور ان کے ساتھ وہی سلوک اور برتاﺅکیا جو وہ دیگر لوگوں کے ساتھ روا رکھتے تھے۔ اس برتاﺅمیں اباجان کی ان کے ساتھ کی ہوئی وہ تمام شرارتیں بھی شامل ہیں جو وہ ان کے ساتھ کیا کرتے اور ساری محفل کو زعفران زار بنا دیتے جن میں وہ نابیناءافراد بھی انکے ساتھ شامل ہوتے۔نابیناﺅں کو بہت قریب سے دیکھنے اور ان کی نفسیات کا گہرا مطالعہ کر نے کے ساتھ ساتھ اباجان نے اسلامی تاریخ کو اس حوالے سے ٹٹولا تو ایک اور معرکتہ الآراءمقالہ ” اسلامی معاشرہ اور نابیناءافراد“ وجود میں آیا جس میں اباجان نے معذوروں ، خاص طور پر نابیناﺅں کی طرف اسلام کے خاص اور محبت آمیز سلوک کو اجاگر کیا۔بعد میں ادبی رسالہ نقوش نے اپنے سیرت نمبر میں اس کتابچے کو شامل کیا۔ان نابیناءافراد کی غیر معمولی صلاحیتوں کا ادراک ہم بھایﺅں نے بھی اکثر کیا۔ جب کبھی یہ ہمیں کہیں راستے میں یا بازار میں مل جاتے تو ہمارے تعارف کروانے سے پہلے ہی السلام علیکم کہنے کے انداز اور ہمارے ہاتھوں کے لمس سے ہمیں پہچان جاتے ، گرم جوشی کے ساتھ ملتے اور نام لے لے کر تمام بھائیوں کی خیریت دریافت کیا کرتے۔غلام محمد بھائی، رحمان گل بھائی سرفراز بھائی وغیرہ اکثر ہمارے گھر آیا کرتے اور اباجان کے علاوہ گھنٹوں ہم بچوں سے باتیں کرتے رہتے۔ ہم انھیںبریل کے قلم اور سلیٹ سے بر۔سرفراز بھائی بی اے کے امتحان کی تیاری کرہے تھے اور ہم لوگوں سے تاریخ کی کتابیں پڑھوا کر سنا کرتے تھے۔ ہم بچے ان سے اور ’ ’معیاری اردو بریل کا قاعدہ “ سے مدد لے کر بریل کی تختی ، اسٹینسل اور قلم سے بریل لکھنے کی مشق کیا کرتے ،انھیںبریل لکھ کردکھاتے تو وہ بہت خوش ہوتے۔کیا اچھے دن تھے وہ بھی۔


ایک دن حسبِ معمول دفتر میں بیٹھے ہوئے اباجان نے نابینا رحمان گل بھائی سے پوچھا کہ وہ دوپہر کے کھانے کے لیے گھر سے کیا لائے ہیں۔ انھوں نے فورااً اپنے خالص پشتولہجے میں اعلان کیا کہ وہ” آلاو “لائے ہیں ۔پھر اباجان نے اپنی کارروائی کا آغاز کیا اورچپکے سے رحمان گل بھائی کا توشہ چیک کیا۔ وہ آلو گوشت کا سالن لائے تھے۔اباجان نے ان کے گھر سے آئے ہوئے سالن سے گوشت نکال کر چپکے سے کھا لیا۔ رحمان گل بھائی کھانے کے لیے بیٹھے اور پہلا ہی نوالہ لیا تھا کہ گھبرا کر اپنی پلیٹ ٹٹولنے لگے اور جب پلیٹ میںچاروںطرف ہاتھ مار کر بھی گوشت نہ پایا توبہت جز بز ہوئے اور فوراً سمجھ گئے کہ ہونہ ہو یہ اباجان ہی کی شرارت ہے۔ اباجان لاکھ انہیں سمجھاتے رہے کہ ” ابے تو اپنے گھر سے آلو ہی لایا ہوگا جیسا کہ تو نے سب کے سامنے اعلان کیا تھا ، اب یہ گوشت کا کیا قصہ ہے۔ تیری بیوی نے تجھے آلوکے علاوہ اور کیا دیا ہوگا ، ہیں؟ “


مگر انہیں یقین تھا کہ ان کی بیگم نے انھیں گوشت کا سالن دیا تھا جس میں سے مولوی صاحب نے گوشت نکال کر ہضم کرلیا ہے۔بعدمیں جب دفتروالوں کے سامنے یہ مقدمہ پیش ہوا توتجمل صاحب، ائر مارشل نور محمد صاحب معین بھائی اور غلام محمد بھائی وغیرہ پر مشتمل گرینڈ جیوری نے متفقہ طور پر فیصلہ دیا کہ رحمان گل بھائی کی بیوی نے انھیں آلو کی ترکاری ہی پکا کر توشہ میں دی ہوگی ورنہ اباجان بھلا اس قسم کی حرکت کرسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔اور پھرجبکہ دفتر میں اتنے سارے لوگ موجود ہیں،رحمان گل نے اباجان ہی پر کیوں شبہ ظاہر کیا ہے۔خبر دار!آیئندہ اس قسم کی حرکت ہرگزنہ ہونے پائے۔ بیچارے رحمان گل بھائی جو خود جھوٹ بول کر دل ہی دل میں شرمندہ ہورہے تھے، اپنی بیچارگی میں سوائے کھسیانی سی ہنسی ہنسنے کے اور کیا کر سکتے تھے۔ اس قسم کی پریکٹیکل شرارتیں اباجان ہی کا خاصہ تھیں جو سب دفتر والوں کے محظوظ ہونے کا سامان مہیا کرتی تھیں۔


انھی دنوں اباجان نے اسلامیات میں ایم اے کا امتحان دیا اور فرسٹ ڈویژن میں کامیابی حاصل کی۔بقول ڈاکٹر مولاناسیدعزیز الرحمٰن صاحب،


”علم تعلیم و تعلم ، کتاب اور ” اہلِ کتاب“، یہی ان کی زندگی تھی، یہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ کراچی یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم اے کیا ، پی ایچ ڈی کرنا چاہتے تھے، آپ نے موضوع بڑا ٹیڑھا منتخب کیا، بر اعظم کی الہامی تحریکیں، ان تحریکوں میںآپ نے قادیانیت، بہائیت اور ذکریوں کو بھی شامل کیاتھا۔ اس وقت جامعہ کراچی میں اسلامیات کے صدرِ شعبہ ڈاکٹر مفتی محمد مظہر بقا تھے۔ انھوں نے اس موضوع پر آزاد صاحب کا پی ایچ ڈی کا داخلہ قبول کرنے سے انکار کردیا۔ آزاد صاحب کا مقصد بھی ان تحریکوں کی تردید کرنا ہی تھا، مگر ان کا راستہ ٹیڑھا تھا۔ وہ مفتی صاحب کو قائل نہ کرسکے۔ مفتی صاحب آزاد صاحب سے واقف نہیں تھے، اس لیے ” اسلوبِ آزاد“ میں کہی گئی بات وہ قبول نہ کرسکے ، یوں یہ معرکہ آغاز سے پہلے ہی دم توڑ گیا۔“

(از روشن چہرے، اجلے لوگ۔ مولانا آزاد از مولانا سید عزیز الرحمٰن۔ ماہنامہ تعمیرِ افکار کراچی اپریل ۰۱۰۲ئ)


انھی دنوں امین بھائی کی شادی کے سلسلے میںاباجان بارات لے کر ہمارے خالوجان جناب احسان الحق صاحب کے گھر پشاور پہنچے۔ احسان صاحب انھیں اپنے ایک دوست کے پاس ملوانے کے لیے پہنچے۔ یہ صاحب جو قاضی حسین احمد صاحب کے بڑے بھائی تھے اور اس وقت پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے، اباجان سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ باتوں باتوں میں اباجان نے اپنے پی ایچ ڈی کی خواہش اور مقالے کے بارے میں بتلایا۔ انھوں نے استفسار کیا کہ اس سلسلے میں اباجان کے پاس حوالہ جات وغیرہ موجود ہیں اور اباجان نے انھیں اس سلسلے میں اپنے جمع کیے ہوئے حوالہ جات کے متعلق انھیں آگاہ کیا تو حضرت پھڑک گئے اور اسی وقت اباجان کو پشاور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے کی پیشکش کرڈالی۔ اباجان نے نہایت ادب سے کراچی چھوڑنے سے معذوری ظاہر کی ۔


اباجان کے دیگر تحریری کارناموں میں ” خلیفہ بلا فصل حضرت ابوبکر الصدیق ؓ “ اور” حضرت ابوذر غفاری ؓ “ کے علاوہ اور کئی صحابہ سے متعلق کتابچے اور ایک بڑے کام کی صورت میں سیرت النبی ﷺ پر ان کی کتاب ” سیرتِ خیر البشر ﷺ“ شامل ہے۔


جنرل ایوب خان نے پاکستان کی لولی لنگڑی جمہوریت کا گلہ گھونٹ کر پاکستان پر قبضہ کیا تو اس کے سخت خلاف ہوگئے اور نظریاتی طور پر اگلے انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کے ہمدرد رہے۔


اباجان کو گھر کے لیے کوئی بھی خریداری کرنی ہوتی تو وہ اپنے دوست جناب” ائرمارشل “ نور محمد صاحب کو ضرور اپنے ساتھ رکھتے اور ان کے مشورے اور رائے کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے یہ خریداری کی جاتی۔ اپنے گھر کا پہلا مرفیMORPHY ریڈیو اباجان نے انھی کے ساتھ جاکر خریدا۔ اس ریڈیو نے ہمیں آواز کی ایک انوکھی دنیا سے متعارف کروایا۔ ہر ہفتے کی رات نو بجے اسٹوڈیو نمبر نو کے ڈرامے، اتوار کی صبح ” حامد میاں کے ہاں“ پھر دس بجے بچوں کا پروگرام اور پھر سارا دن ”آپکی فرمائش“ ۔یہ وہ آوازیں ہیں جنھیں سن کر ہم بڑے ہوئے اور جو آج بھی ہماری یادوں کو گرماتی ہیں۔


اسی زمانے میںجب ایوب خان کے دس سالہ’ ’سنہری دور‘ ‘ کا جشن منایا جارہا تھا، راقم الحروف نے ایوب خان کی تعریف میں ایک نظم لکھی اور اباجان کو دکھائی تو انھوں نے باوجود ایوب خان سے سخت نفرت کرنے کے، میری نظم کو بغور دیکھا، اس کی تصحیح کی اور پیار سے میرا مذاق اڑایا کہ میں ایوب خان کا چمچہ ہوں۔ میں نے ریڈیوپاکستان پر بچوں کے پروگرام میں شرکت کے لیے آڈیشن دیا اور اپنی نظم پیش کرنے کے لیے منتخب کرلیا گیا۔ اس زمانے میں ریڈیو سے ظفر صدیقی صاحب (بھائی جان) اور منی باجی بچوں کا پروگرام کیا کرتے تھے۔ پروگرام ہر اتوار کے روز صبح دس بجے پیش کیا جاتا تھا۔ ہم بھی اس روز بڑے ٹھسے کے ساتھ ریڈیو اسٹیشن پہنچے اور پروگرام میں” بچوں کا تعارف “میں بلوائے گئے اور ایوب خان کی تعریف میں اپنی نظم پیش کی جسے بہت سراہا گیا۔ اس دن کے بعد سے اباجان اپنے دوستوں سے میرا تعارف اس طرح کروایا کرتے تھے۔

” یہ دیکھیے جناب !یہ میرا بیٹا خلیل ہے جو ایوب خان کا خاص الخاص چمچہ ہے۔“ دوست بھی اس صورتحال سے خوب محظوظ ہوتے۔


اسی دور میں ایک نظریاتی تحریک کا اجراءکیا جس کا نام تحریکِ احیائے نظریہ ِ پاکستان تھا۔ ہمارے گھر میں ہر ماہ اس تحریک کا اجلاس ہوا کرتا

جس میں نظریہ پاکستان سے متعلق دلچسپ قسم کی بحثیں ہوا کرتیںاور ہم چھوٹے نہایت غور اور دلچسپی کے ساتھ ان بحثوں کو سنا کرتے۔ ان اجلاسوں کی ساری کارروائی اگرچہ ہمارے لیے ناقابلِ فہم ہوتی لیکن خاصی دلچسپی کا باعث ہوا کرتی۔ اس تحریک کے تحت ممبروں نے ایک سوالنامہ بھی ترتیب دیا جو پاکستان کے قابل قدر سیاست دانوں اور دیگر سیاسی، سماجی اور دیگر مذہبی لیڈروں کو بھجوائے گئے اور جواب کی استدعا کی گئی لیکن جواب ندارد۔ اس دور کے اباجان کے دوستوں میں خاص طور پر غلام محمد بٹ صا حب ( بٹ جی) بھی شامل تھے۔ غلام محمد بٹ صاحب کراچی سے اردو کا ایک اعلیٰ پائے کا ماہنامہ ادبِ لطیف نکالا کرتے تھے۔ بڑے بھائی سناتے ہیںکہ انھیں آج بھی ۰۷۹۱ءکے الیکشن سے پہلے اباجان ، بٹ صاحب ، اختر مسلم صاحب اور تحریکِ احیائے نظریہ پاکستان کی مجلس عاِ ملہ کے دیگر اراکین کے ساتھ ۰۷ کلفٹن جاکر بھٹو صاحب سے ملا قات ، ان سے حالات ِ حاضرہ پر ہلکی پھلکی بات چیت اور انھیں اپنا یہ سوالنامہ پیش کرنے کے واقعات یاد ہیں۔ بھٹو صاحب نے اسی وقت معراج محمد خان کو بلا کر یہ دستاویز لینے اور اسے دیکھنے کی ہدایت کی تھی۔


انھی دنوں کی بات ہے، کسی نے اباجان کا تعارف کرنل محمدی کے والد جناب شاکر محمدی سے کروایا۔ شاکر محمدی نابینا تھے اور کسی صاحب کی تلاش میں تھے جو انھیں کتابیں پڑھ کر سنا سکیں۔ انھوں نے اباجان کو اسکی پیشکش کی جسے اباجان نے بخوشی قبول کرلیا اور یوں کئی سال تک اباجان اس ٹیوشن پر جاتے رہے۔ وہ صاحب ایک انٹلیکچول آدمی تھے اور ادھر اباجان بھی کچھ کم نہ تھے لہٰذا یہ جوڑی خوب جمی اور کئی سال تک اباجان جاکر انھیں کتابیں پڑھ کر سنایا کیے۔ اکثر کرنل صاحب کی زوجہ محترمہ کوئی خالص حیدرآبادی ڈش تیار کرتیں تو اباجان سے خاص طور پر کھانے پر رکنے کی فرمائش کرتیں۔کتابوں کے پڑھنے کے دوران جہاں کوئی جملہ معترضہ آیا دونوں بزرگوں میں ایک علمی بحث چھڑ جاتی اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہا۔ شاکر محمدی مسلکً اہل تشیع سے تعلق رکھتے تھے ۔جب کبھی موقع آتا دونوں ایک دوسرے پر اس سلسلے میں ہلکی پھلی بھپتیاں بھی کستے اور بات آئی گئی ہوجاتی۔ ایک دن معاملہ بڑھ گیا۔کسی معاملے پر اباجان اور شاکر محمدی دونوں نے اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کا فیصلہ کرلیا اور اسی دوران شاکر صاحب نے اباجان پر بھپتی کسی کہ یہ بات اباجان نہیں بلکہ ان کے اندر کا مولوی کہہ رہا ہے، اباجان نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ ”شاکر صاحب یہ باتیں بھی آپ نہیں بلکہ آپ کے اندر کا چھپاہوا شیعہ بول رہا ہے۔ آپ کتنے بھی آزاد

خیال کیوں نہ ہوجائیں اندر سے بنیادی طور پر ایک کٹر شیعہ ہیں اور رہیں گے۔“ اس ڈائیلاگ کے بعد اباجان نے سلام کیا اور گھر سے باہر نکل گئے، کبھی نہ واپس لوٹنے کے لیے۔


تقریباً بیس سال نیشنل فیڈریشن فار دی ویلفیر آف دی بلائینڈ کے ساتھ وابستہ رہنے کے بعد ۹۷۹۱ئ میں نیشنل بک فاﺅنڈیشن میں بریل پریس کے مینیجر مقرر ہوئے۔ ۔ایک مرتبہ پریس کے لیے کاغذ کا آرڈر بھیجا، باہر سے جواب آیا کہ کک بیک Kick Backکے لیے بینک اکاﺅنٹ بھجوایا جائے۔ بہت حیران ہوئے کہ یہ کیا چیز ہے۔ ادھر ادھر لوگوں سے معلوم کیا تو پتا چلا کہ یہ اس آرڈرکے بھیجنے کا انعام ہے جو کسی بھی بینک اکاﺅنٹ میں ٹرانسفر کروایا جاسکتا ہے۔ بیرونی کمپنی کو اطلاع بھجوائی کہ اس پیسے سے بھی اضافی کاغذ ہی بھیج دیں۔


کاغذ کی کھیپ پاکستان پہنچی تو مطلوبہ کاغذ سے زیادہ کاغذ ملنے پر آفیسروں کا ماتھا ٹھنکا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ کمپنی کو لکھا تو پتا چلا کہ کک بیک کی رقم کے بھی کاغذ بھجوائے گئے ہیں۔ یہ بات اس سے پہلے کبھی دیکھی نہ سنی۔کوئی خواہ مخواہ ان کمپنیوں کی عادت کیوں خراب کرے۔ آفیسروں نے اباجان کو سخت تنبیہہ کی کہ آئیندہ سے آپ آرڈر نہیں بھجوائیں گے۔ جو آپ کی ضرورت ہو بتا دیجیے، منگوا کر دے دیا جائے گا۔انھی دنوں ایک صاحب نے صدرِ پاکستان کو ایک خط کے ذریعے مطلع کیا کہ نیشنل بک فاونڈیشن کے موجودہ مینیجر بریل پریس ( محمد اسمٰعیل آزاد صاحب)پاکستان پیپلز پارٹی کے آدمی ہیں ، جس پر ان کے ڈائریکٹرصاحب کو حکومت وقت کی جانب سے ایک محبت نامہ وصول ہوا اور اس امر کی وضاحت طلب کی گئی ۔ اس واقعہ کی تفصیل آگے چھوٹے بھائی حفیظ الرحمٰن کے لکھے ہوئے باب میں آرہی ہے۔خیر صاحب، اباجان نے جلد ہی سرکاری محکمہ جاتی کارروائیوں ، سرخ فیتہ کی کارستانیوں اور بد عنوانیوں سے تنگ آکر نوکری چھوڑدی اور مستقل طور پر مطالعہ اور لکھنے لکھانے سے وابستہ ہوگئے۔اس ادارے کی نوکری میں اباجان کی ملاقات ذہین عالم صاحب سے ہوئی جو اباجان کے گہرے دوست بن گئے۔
 
کچھ سال پہلے اباجان کی ملاقات ڈاکڑمولاناسید عزیز الرحمٰن صاحب سے ہوئی جنھوں نے اباجان کی تحریری کاوشوں کو قابلِ قدر نگاہوں سے دیکھا اور انھیں پیشکش کی کہ وہ ان کے تحقیقی رسالوں ششماہی السیرہ اور ماہنامہ تعمیر افکار کے لیے کچھ لکھیںاوریوں Comparative Religionجیسے اہم موضوع پرپر اباجان کے اس بڑے کام کا آغاز ہوا جو گزشتہ کئی سالوں سے مختلف عنوانات کے تحت مضامین کی شکل میں ششماہی السیرہ میں چھپتا رہا ہے۔ اس کی روداد خود مولاناعزیز الرحمٰن صاحب کی زبانی سنئے۔
” آزاد صاحب عرصے سے لکھنے پر آمادہ نہیں تھے، میں نے کوشش کرکے السیرہ کے لیے لکھنے پر آمادہ کیا، ان کا معرکةالآراءمضمون السیرہ کے شمارہ ۴۱ میں شائع ہوا، جو مذاہبِ عالم میں رسول اکرم ﷺ کی بابت پیشنگوئیوں سے متعلق تھا۔ اس تحریک میں ہمارے ساتھ برادرم محترم ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری بھی شریک تھے۔ انھیں جب علم ہوا کہ یہ مضمون السیرہ میں شائع ہو گیا ہے تو انھوں نے آزاد صاحب کو، ایک زوردار خط لکھا، جس میں ان کی اس کاوش پر انھیں بھرپور مبارکباد دی۔ حقانی صاحب ویسے بھی مبالغے میں یدِ طولیٰ کے حامل ہیں۔ اس واقعے کے بعد ایک روز میں آزاد صاحب کے پا س گیا تو دیکھا افسردہ بیٹھے ہیں، میں پریشان ہوا، پوچھا تو بولے حقانی کو کیا ہوگیا ہے، اسے سمجھاﺅ، میں سمجھا ، تفریح میں شاید حقانی صاحب نے کوئی ایسی بات لکھ دی ہے جو آزاد صاحب کی آزردہ خاطری کا باعث بنی ہے۔ میں نے تفصیل پوچھی تو خط میرے آگے رکھ دیا، اس میں صرف یہ تحریر تھاکہ آپ کا مضمون بہت عمدہ ہے اور یہ سلسلہ جاری رکھیے، ایسے مضمون روز روز نہیں لکھے جاتے، الفاظ کچھ اور تھے ، مفہوم یہی تھا۔ میں نے حیران ہوکر پوچھاکہ اس میں ایسی کیا بات ہے ؟ بولے ، دیکھو یہ میری اتنی تعریف لکھی ہے، میں عمر کی آخری منزل میں ہوں، خدا جانے کب بلاوہ آجائے، ساری عمر اپنے ایمان کی حفاظت کی ، اگر عمر کے اس حصے
میں یہ خیال آگیا کہ ہم بھی کچھ ہیں ، ہم نے بھی کچھ کیا ہے تو سب ہی کچھ اکارت نہیں چلاجائے گا؟میں پھر ساتھ لے کر کیا جاﺅں گا؟ خدا کو کیا منہ دکھاﺅں گا؟ اللہ اکبر۔“
(از روشن چہرے، اجلے لوگ۔ مولانا آزاد از مولانا سید عزیز الرحمٰن۔ ماہنامہ تعمیرِ افکار کراچی اپریل ۰۱۰۲ ئ)
سیرت النبی ﷺ پر لکھی ہوئی اباجان کی کتاب ” سیرتِ خیر البشر ﷺ“ ماہنامہ تعمیرِ افکار کے سیرت نمبر میں بھی شاملِ اشاعت ہوئی اور اس طرح اسے اور زیادہ پزیرائی ملی۔
۹۰۰۲ءمیں کراچی میں ایک دو روزہ مذاکرہ منعقد کیا گیا جس کا عنوان ” اتحاد بین المذاہب اور مذہبی یگانگت‘ ‘ تھا۔اس مذاکرے میں اباجان کے علاوہ دیگر مقررین میں پروفیسر عبدلجبار شاکر، ڈاکٹر محمود احمد غازی، ڈاکٹر سید عزیز الرحمٰن، مفتی منیب الرحمٰن وغیرہ شامل تھے۔ اس مذاکرے میں اباجان کا دیا ہوا لیکچر، جو ان کی زندگی کا آخری لیکچر تھا، جہاں ان کے مذہبی خیالات اور Comparative Religionپر ان کی تحقیق اور گرفت کا مظہر ہے وہیں اس بات کو بھی ثابت کرتا ہے کہ اتحاد بین المذاہب اور مذہبی یگانگت ایک ایسا موضوع ہے جسے اگر مسلمانوں کے درمیان پیش کرنے کی بجائے یورپ اور غیر مسلم معاشرے میں پیش کیا جائے تو بہتر ہوگا۔ انھوں نے
کہا۔
مذاہبِ عالم کو عام مروجہ تاریخوں میں دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
۱۔ سامی مذاہب ۲۔ آریائی مذاہب
سامی مذاہب کو ابراہیمی مذاہب بھی کہا جاتا ہے یعنی یہودیت، عیسائیت اور اسلام۔ یہ تمام مذاہب حضرت ابراہیم کو موحدِ اعظم قرار دیتے ہیںاور انھی سے ان کا سلسلہ چلتا ہے۔ ان مذاہب کے درمیان موجود رفاقت یا رقابت کے جذبات کو سمجھنے اور ان میں باہمی قربت پیدا کرنے اور اسے ترقی دینے کے لیے یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ حضرت ابراہیم سے تاریخ کے مختلف ادوار میں یہ سامی مذاہب کیسے وجود میں آئے۔ اس سلسلے میں تاریخی دستاویز عام طور پر تورات کو تسلیم کیا جاتا ہے، جو حضرت موسیٰ پر نازل ہوئی تھی اور ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ حضرت ابراہیم سے کوئی چار سو سال بعد تشریف لائے۔
حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل کو عرب میں آباد کیا ، خانہ کعبہ کی تعمیر کی اور خدا کے حکم کے مطابق حج کے طریقے ، قربانی طواف سعی کے طریقے تعلیم کیے۔ اس مذہب کو ملت ابراہیم کہا گیا ہے ، جو دو تین صدیوں کی دوری اور علیحدگی کی وجہ سے اسرائیلی روایات میں بیان نہیں ہوئیں۔ اس لحاظ سے ابراہیمی مذاہب تین نہیں چار تھے۔
۱۔ حضرت ابراہیم کا مذہب ملتِ ابراہیم ۲۔ حضرت موسیٰ کا مذہب
۳۔ حضرت عیسیٰ کا مذہب ۴۔ حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کا دین جس کو ملتِ ابراہیم کہا گیا ہے۔
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ” میں اللہ پرایمان لایا، اور اس کے فرشتوں پر، اور تمام کتابوں پر، اور اس کے رسولوں پر ، اور آخرت کے دن پراور اچھی بری تقدیر پر ، کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے اور موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر۔
اسلام نے یہودیوں اور عیسائیوں کو اہلِ کتاب کے لقب سے یاد فرمایا۔ یعنی یہ ایک ایسے مذہب کے ماننے والے ہیں جن کے پاس اللہ کی طرف سے نازل کردہ کتاب یعنی تورات اور انجیل ہے۔ اسلام کی ان دونوں ابراہیمی مذاہب کے ساتھ یگانگت کی اس سے بڑھ کر اور کیا صورت ہوگی کہ ایک شخص ایمان لانے کے بعد بھی اگر حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کا انکار کرے تو تو وہ مسلمان ہی نہیں رہ سکتا۔
بین المذاہب یگانگت کے لیے اسلام کا یہ اصول اور اس پر مسلمانوں کا عمل اس بات کا متقاضی ہے کہ تو رات اور انجیل کے ماننے والے نیکی کا بدلہ نیکی سے دیں اور دونوں قومیں نبی کریم ﷺ کے احترام و تقدیس کو اسی طرح اپنے اعمال میں شامل کریں ، جیسا مسلمان حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کے لیے کرتے ہیں، اور حضرت موسیٰ اور عیسیٰ اسلام کے پیغمبروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
یہ گویا ان لوگوں کے منہ پر تمانچہ تھا جو خود تو اپنے ملعونوں کی شیطانی حرکتوں کو جائز اور آزادیء رائے قرار دیتے ہیں اور مسلمانوں کو رواداری کا درس دیتے ہیں۔“
یہ سب کچھ بیان کرنے کے بعد اباجان نے نبی اکرم ﷺ کی آمد سے متعلق پیشن گوئیاں پڑھ کر سنائیں اور استدلال کیا کہ چونکہ سب ابراہیمی مذاہب میں نبی اکرم ﷺ کی آمد سے متعلق پیشن گوئیاں موجود ہیں ، لہٰذا بین المذاہب یگانگت کا سب سے بہترین حل یہ ہے کہ تمام مذاہب والے اپنی پیشن گوئیوں کے مطابق نبی اکرم ﷺ کو آخری نبی مان کر اسلام کے دائرے میں آجائیں۔
جنید صاحب اباجان کے ایک بہت گہرے دوست اور بڑے سیدھے سادے انسان تھے۔پچھلے کئی سال سے اباجان کا معمول تھا کہ ہفتہ یا اتوار کے دن امین بھائی (مرحوم) کو بلاتے اور ان کے ساتھ سب سے پہلے جناب عزیز الرحمٰن صاحب کے گھر جاتے، وہاں کچھ دیر بیٹھتے اور پھر وہاں سے سیدھے ڈاکٹر حبیب الرحمٰن صاحب کے گھر پہنچتے جہاں پر جنید صاحب پہلے سے موجود ہوتے۔ کچھ دیر یہاں پر محفل جمتی جس دوران سعدیہ باجی( دخترِ نیک اختر ڈاکٹر حبیب الرحمٰن صاحب) میزبانی کے فرائض بطریقِ احسن سرانجام دیتیں۔ یہاں سے واپس چلتے تو پہلے جنید صاحب کو ان کے گھر چھوڑا جاتا اور پھر امین بھائی اباجان کو واپس گھر لے آتے۔ ۸۰۰۲ءمیں کمپنی نے امین بھائی کو نئی ٹویوٹا کرولا موٹر کاردیدی تو امین بھائی اس گاڑی میں اباجان کو لینے کے لیے آنے لگے۔اباجان کی طبیعت میں سادگی اور فقیرانہ پن کچھ اس قدر زیادہ تھا کہ انھیں اس بڑی گاڑی میں بیٹھنا کچھ اچھا نہ لگتا۔ اکثر امین بھائی سے کہتے کہ ” ابے تو یہ بڑی گاڑی نہ لایا کر“۔ امین بھائی کے انتقال کے بعد کچھ ماہ یہ خوشگوار ڈیوٹی مجھے بھی سرانجام دینے کا موقع ملا۔
بڑے بھائی حبیب الرحمٰن کئی سال سعودی عرب میں نوکری کرتے رہے اور وہاں سے اباجان کو حج اور عمرے کے لیے دعوت دیتے رہے جسے اباجان نے درخور اعتناءنہیں جانا اور مختلف بہانے کرتے رہے۔ البتہ وفات سے چند سال قبل جب جنید صاحب نے ان سے عمرے پر ساتھ چلنے فرمائش کی تو فوراً تیار ہوگئے۔
دونوں عمر رسیدہ بزرگ، ایک دوسرے کو سہارہ دیتے ہوئے، ایک دوسرے کا سہارہ بنتے ہوئے، بالآخر عمرے کے لیے سعودی عرب پہنچ ہی گئے اور ’کامیابی‘ کے ساتھ وہاں پرعمرے کی ادائیگی کی۔ طواف کے دوران ایک مرتبہ ایسا زبردست دھکا لگا کہ دونوں ہی لڑکھڑاکر نماز کے لیے بیٹھی ہوئی عورتوں پر جاگرے۔ فوراً ہی اٹھ کر اپنے آپ کو سنبھالا اور پھر طواف میں یوں مشغول ہوگئے، جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ بعد میں گھر پہنچے تو خوب ہنس ہنس کر یہ واقعہ گھر والوں کو سنایا کیے۔
عمرہ ادا کرنے کے بعد مدینہ پہنچے اور مسجد نبوی میں حاضری کے بعد جب فارغ ہوگئے تو سیرت نبی ﷺ کے تعلق سے مدینہ کی سیر کی اور اس کے گرد و نواح کا مطالعاتی دورہ کیا، مدینے میں ایک صاحب کی تلاش ہوئی جو مدرسہ صولتیہ میں ہوتے ہیں، کافی تلاش کے بعد مدرسہ ملا تو بہت خوش ہوئے اور ان مولوی صاحب سے ملاقات کی اور کافی دیر تک باتیں کرتے رہے، اور ان سے سیرت اور مدینہ کے جغرافیہ سے متعلق سوالات کیے ۔یہ عمرہ اباجان کی زندگی کا یاد گار سفر بن گیا۔ سیرت نبوی پر پڑھتے اور لکھتے ہوئے جن مقامات کا تذکرہ آتا تھا، انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھا تو انھیں بہت لطف آیا۔
۴ جنوری ۹۰۰۲ءکو بریل زبان اور رسم الخط کے بانی لوئی بریل Louis Brailleکی دو سو ویںسالگرہ کی تقریبات سے سلسلے میں پاکستان ڈسیبلڈ فورم Pakistan Disabled Forumنے اردو اور عربی بریل کی ترویج و ترقی کے سلسلے میں اباجان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں ایک شیلڈ پیش کی جو کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے کی طرف سے ان کی خدمات کے اعتراف کا پہلا واقعہ تھا۔کوئی اور ہوتا تو فخر سے پھولا نہ سماتا اور جاکر یہ شیلڈ وصول کرتا ، اباجان نے جو اس قسم کی تعریف سے دور ہی رہتے تھے، منتظمین حضرات سے اپنی طبیعت کی ناسازی کا بہانہ کرتے ہوئے تقریب سے غیر حاضری کی اجازت چاہی اور یوں یہ ایوارڈ کسی اور صاحب نے وصول کیا اوراباجان کی خدمت میں ان کے گھر پہنچادیا گیا۔
٭٭٭٭٭
 

سید زبیر

محفلین
محمد خلیل الرحمٰن صاحب ! یہ آپ کے بخت ہیں کہ ایسے خانوادے میں آپ پیدا ہوئے اور ایسے ماحول میں پرورش ہوئی ۔ رب کریم مرحوم کے درجات بلند فرمائے (آمین)
کچھ ایسے بھی اس بزم سے اٹھ جا ئیں گے جن کو
تم ڈھونڈنے نکلوگے مگر پا نہ سکو گے ۔
اللہ آپ کو دونوں جہانوں کی سعادتیں نصیب فرمائے (آمین)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

بہت شکریہ محمد خلیل الرحمٰن بھائی
قیصرانی بھائی بہت شکریہ کہ آج آپ نے شام ساڑھے تین بجے سے لیکر سات بجے تک ایک ہی نشست میں ہمارے ابا جان کی اس زندگی کی کہانی کو پڑھا اور بیس زبردست کے ٹیگ اور ایک عدد دوستانہ کا ٹیگ ہمیں انعام میں دیا۔جزاک اللہ الخیر۔ سدا خوش رہیے محترم
 
Top