محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
ریاست ڈبر کے پاکستان میں شامل ہونے کی کہانی،خود اکبر چچا کی زبانی سنیے۔
”چھوٹے بھائی1950ءمیں کراچی پہنچے اور 1951ءمیں صوبہ سرحدگئے۔ یاغستان پہنچ کرمولٰنا امیر الدین شنکر گل ، انکے خاندان اور پورے قبیلے سے ملے۔ مولانا شنکر گل نے کہا کہ تمہیں نواب صاحب ڈبر نے بلایا ہے۔ حضرت وہاں پہنچے، نواب صاحب نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
رات گئے خصوصی اجلاس ہوا جس میں نواب صاحب نے بھائی صاحب سے مشورہ لیا کہ پاکستان کیا ہے ، اسکا مستقبل کیا ہے ، یہ کیوں بنا اور اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ حضرت بھائی صاحب نے پاکستان کے اغراض و مقاصد، جد و جہد اور تشکیل کی تاریخ بیان کی اور کہا کہ پاکستانقیامت تک قائم رہے گا، اس میں ترقی ہوگی، کشمیر پاکستان کا حصہ بنے گا۔ اور یہ دنیا کا پہلا ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا ہے۔ اسلام کا سنہری دور واپس لانا پاکستانی حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔ جسے وہ پورا کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ ریاست ڈبر کو فوری طور پر پاکستان میں شامل ہونے کا اعلان کردینا چاہیے۔ قبایئلی عوام کو انگریز کی نگرانی سے نجات ملے گی۔ قبائلی فطری سپاہی ہیں، انھوں نے کشمیر کو مکمل غلام بننے سے بچایا ہے۔ قبائلی محنت کش بھی ہیںوہ کراچی ، حیدر آباد ،، راولپنڈی، لاہور، ڈھاکہ اور چٹاگانگ وغیرہ میںتعمیری کام کریں گے، مستقبل میں قائم ہونے والی صنعتوں میں ملازم ہوں گے۔ قبائلی وادیوں میں مورچوں کے بجائے سڑکیں، ڈاک خانے، ہسپتال تارگھر اورٹیلیفون ایکسچینج قائم ہوں گے، ریل چلائی جائے گی۔ انھوں نے جب شب قدر جیسے مبارک دن پاکستان کی تشکیل کا واقعہ سنایا تو قاضیصاحب سمیت پوری مجلس خوشی سے سرشار ہوگئی۔
اتنے میں نواب صاحب کے خادم خاص نے حاضر ہوکر بتلایا کہ چھوٹی بچی کی طبیعت ناساز ہے اور اسے ڈاکٹر صاحب کے پاس پشاور لیجانا ضروری ہے۔ نواب صاحب نے بادلِ ناخواستہ مجلس برخواست کی ، بھائی صاحب کو واپسی تک رکنے کی ہدایت کی اور ماتحت عملہ کو مہمان کا خاص خیال رکھنے کے حکم کے ساتھ وہ رخصت ہوئے۔
ادھر ڈبر میں متعلقین نواب صاحب کی بچی کی صحت یابی اور ریاست ڈبر کے اچھے مستقبل کے لیے دعا کرتے رہے اور اس طرح رات گزری اور صبح ہوئی۔ دوسرے دن صبح آٹھ بجے کی خبریں ریڈیو پر نشر ہوئیں تو ان میں ریاست ڈبر کی پاکستان میں شمولیت کی خبر کو نمایاں طور پر جگہ دی گئی۔ ساتھ ہی گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کی دعوت اور نواب صاحب کی تقریر کا کچھ حصہ بھی سنایا گیا۔ فکر مند لوگ خوشی سے سرشار ہوگئے۔ پورے علاقے میں جشن کا سا سماں تھا۔
نواب صاحب واپس تشریف لائے تو بھائی صاحب کے بے حد شکر گزار ہوئے۔ ریاست ڈبر کی پاکستان میں شمولیت بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئی ، اس کے بعد پورا قبائیلی علاقہ اور حکمران حضرات نے پاکستان سے وابستگی کا اعلان کیا اور پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔ بھائی صاحب کی ایک ایک بات پوری ہوکر رہی۔ اس علاقے کی دس فیصد آبادی کراچی اور حیدر آباد میں آباد ہوگئی۔ ان لوگوں نے محیر العقل تعمیراتی کارنامے انجام دیئے۔ شہر کراچی کو اسکے کارخانوں ، سڑکوں ، بجلی اور اونچی اونچی عمارتوں کی تعمیر سے نیویارک بنا دیا۔ پاکستان ٹیکسٹائل کنگ بن گیا۔
بھائی صاحب کا مشن پورا ہوچکا تھا۔ نواب صاحب اور علاقے کے سرداروں کے روکنے کے باوجودبھائی صاحب پشاور واپس آگئے۔ بھابیجان صاحبہ اور ننھا حبیب الرحمان بھی اپنے نانا، نانی خالواور خالاﺅں کے ساتھ پشاور آچکے تھے ۔ بھائی صاحب کی یہاں سے متعلق واقفیت کام آئی اور شہر کی ایک بلڈنگ ان مبلغین کے نام الاٹ ہوگئی جس میں ان خانماں آبادوں کو سر چھپانے جگہ میسر آئی۔
اچانک ایک دن بھائی صاحب کو پولیس نے گرفتار کرلیا، اور انھیں گورنر جنرل پاکستان ، وزیر اعظم پاکستان اور وزیر داخلہ کی تشویش سے آگاہ کیا جس میں سوال اٹھایا گیا تھا کہ سی آئی ڈی کے علم میں لائے بغیر مولانا کو قبایئلی ریاستوں سے متعلق اتنی اہم ذمہ داری کس نے دیتھی۔مذکورہ اتھارٹیوں نے گھبرا کر اسکی انکوائری کرکے فوری رپورٹ کا حکم دیا تھا۔ اس دوران بھائی صاحب کے دوست مولانا عبدالجبارشاہ صاحب بھی حوالات پہنچ گئے اور بھائی صاحب سے متعلق تفتیشی کمیٹی کو تفصیلی بیان دیا اور یوں بھائی صاحب کی گلو خلاصی ممکن ہوسکی۔ اب تو حکام نے بھائی صاحب پر زور دیا کہ وہ سی آئی ڈی پشاور کی ملازمت اختیار کرلیں ، انہیں اچھے عہدے کی بھی پیشکش کی گئی لیکنانھوں نے اس سے معذرت کرلی اور افسران کا شکریہ ادا کرکے واپس چلے آئے۔ مقامی افسر نے اس تمام سرگرمی کو اپنا کارنامہ قرار دیا اورفائل بند کردی۔ اگر حضرت چھوٹے بھائی صاحب قبلہ یہ ملازمت قبول کر لیتے تو ہم لوگ آج زیادہ ترقی یافتہ حالت میں ہوتے۔“
سرحدی علاقوں میں اباجان کا مشن مکمل ہوچکا تھا لہٰذہ انھوں نے بوریا بستر سمیٹا، پشاور سے بیوی بچوں کو لیا اور وہاں سے روانہ ہوکر کراچی پہنچے۔ وہ علامہ اقبال کے شعر
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
کے مصداق کہیں پر بھی اپنی خودی کو بیچنے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھے۔ پیر صاحب کی پیری کا ڈھونگ، ان کے نام نہادکشف وکرامات اور الہام کی اصل حقیقت کا راز اُن پر ظاہر ہوچکا تھا۔پیر صاحب نے ہندوستان ہی میں جیل کے حالات سے گھبرا کر خودکشی فرمالی تھی۔ادھر اس سے پہلے ہی قادیانیت کی بحث اور اس کے بعد جہاد کے لیے جمع کیے ہوئے پیسے سے اپنی کتاب چھاپنے کے واقعے سے بھی اباجان پیر صاحب کی طرف سے خاصے مایوس ہوئے تھے۔انھوں نے نہ صرف پیر صاحب اور ان کی جماعت کو الوداع کہا بلکہ اس مایوسی میں تبلیغی کام سے بھی دست بردار ہوگئے۔
کراچی پہنچے توعلم کی پیاس اور کتابوں کی تلاش انھیں کشاں کشاں یہاں کے مشہور و معروف کتب خانوں تک لے گئی اور علامہ محمد طاسین صاحبؒ اور جناب خالد اسحاق ایڈوکیٹ صاحب اور ان کی لائبریریوں میں کھنچ کر آنے والے اکابرین و دیگر علم دوست ہستیوں سے ان کی ملاقات ہوئی۔ علامہ محمد طاسین مرحوم کی یاد میں لکھے ہوئے ایک مضمون میں حضرت لکھتے ہیں۔
” تقسیمِ ہند کے وقت کراچی شہر ڈھائی لاکھ کی آبادی والا شہر تھا۔ اور یہاں مسلمان اقلیت میں تھے۔ کوئی بڑا دینی مدرسہ یا کتب خانہ یہاں نہیں تھا۔ ملک کے دارالخلافے کراچی میں دینی کتب خانے کے قیام کاکام مشیتِ الٰہی نے مولانا محمد میاں صاحب اور برادران سے لیا۔ یہ مولانا انور شاہ کشمیری کے شاگرد اور بڑے تاجر تھے اور دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل بڑے علماءمیں سے تھے۔ ان کے مالی تعاونسے مجلسِ علمی کا کتب خانہ قائم ہوا ، اور کچھ دنوں کے بعد حضرت مولانا یوسف بنوری کے مشورے سے مولانا طاسین اس کے مہتمم مقرر ہوئے اور اسی حیثیت سے آپ نے وفات پائی۔
اس کتب خانے میں تفسیر، حدیث، فقہ ، احادیث کی شرحیں، فقہ کے تمام علوم ، سیرت و تاریخ اور تصوف پر مشتمل ذخیرہ تھا۔ اور الحمد للہ اب تک ہے۔ جب اسلامی دستور کی تدوین ہورہی تھی اس وقت بھی اراکین نے اس کتب خانے سے اپنے مباحث کے لیے فائدہ اٹھایا۔خاص طور پر اس وقت مولانا اکرم خان صاحب کتب خانے میں تشریف لایا کرتے تھے ۔ 56ءکے دستور میں قرآن و سنت کی بالا دستی کی منظوری ہوئی تو مولانا اکرم خان نے بہ نفسِ نفیس تشریف لاکر مولانا طاسین کو تمام کارروائی سنائی۔“
آگے مزید لکھتے ہیں۔
” مصنفین اور محققین آپ کے کتب خانے مجلس علمی میں آتے رہتے اور کتابوں سے استفادہ کرتے۔ ہم نے مولانا عبداللہ المسدوسی ، مولانا محمود احمد عباسی ، مولانا ماہر القادری، کو مولانا سے ملاقات کے لئے آنے والوں میں دیکھا ہے۔ مفتی سیاح الدین کاکاخیل اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن تھے ، وہ مولانا کے پاس تشریف لاتے اور فقہی مسائل پر گفتگو ہوتی۔ انتہاءیہ ہے کہ بعض لوگ فون پر مولانا سے حوالہ جات پوچھتے اور مولانا اپنا کام ترک کرکے حوالہ جات سائل کو کتابوں سے لکھواتے۔ کراچی میں ملک کی سب سے بڑی پرائیویٹ لائبریری کے مالک خالد اسحاق ایڈوکیٹ سے مولانا کی گہری دوستی تھی ، اور ان کے یہاں کی علمی محفلوں میں مولانا شریک ہوتے تھے اور مولانا کے علاوہ حضرت جعفر شاہ پھلواروی اور مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی صاحب کی موجودگی میں یہ محفل علم و تحقیق کا نادر مرقع ہوتی۔“
(از ” دیو بند کی کہکشاں کا درخشاں ستارہ“ از مولانا محمد اسمٰعیل آزاد صفحہ ۸۴۲، ماہنامہ تعمیرِ افکار۔ اشاعتِ خاص بیادِ علامہ محمد طاسین ؒاز زوار اکیڈمی پبلیکیشنز، جون جولائی اگست ۶۰۰۲ئ)
اسی طرح ایک اور مضمون” نبی کریم ﷺ کے احوال و اوصاف“ میں ایک ہستی ’ بابا خلیل داس‘ کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں۔
” البتہ غیر منقسم ہندوستان کی ایک شخصیت بابا خلیل داس چترویدی گزری ہے، انھوں نے ۸۴۹۱ءمیں بنارس میں وفات پائی۔ اللہ کی توحید، نبی اکرم ﷺ کی رسالت پر اور اسلام کی تبلیغ میں یہ سب سے بڑا نام تھا۔ لیکن ان سے کوئی کتاب ہم تک نہیں پہنچی۔ یہ امرتسر کے مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے والدین کی وفات کے بعد بچپن میں سردی کے زمانے میں گھر سے بھاگے اور ریل میں سوار ہوئے۔ بنارساترے، سردی میں ٹھٹھر رہے تھے کہ ایک ہندو مہنت جو لاولد تھے، اس بچے کو اٹھا کر گھر لے گئے ، پالا پوسا، اور چاروں ویدوں کا قاری اور عالم بنایا۔ بچے کو بچپن کی یادوں نے اسلام یاد دلایا ۔ مہنت جی اور ان کی پتنی نے اس گود لیے ہوئے بچے کو ہی اپنا بیٹا بنا لیا۔ صرف اس کا داخلہ رسوئی میں بند تھا۔ راقم الحروف نے مولانا جعفرشاہ پھواروی، غلام محمد بٹ مرحوم، شاگرد مولانا ثناءاللہ امرتسری ، ماسٹر کریم بخش، خالد ایم اسحاق ایڈوکیٹ مرحوم کے پرائمری کے استاد اور ان کی لائبریری کے لائبریرین سے بابا خلیل داس چترویدی کی یہ داستان سنی تھی۔ ممکن ہے بنارس کے کسی اہل قلم کے ذریعے نبی کریم ﷺ کے نام کی تبلیغ کرنے والے اس محقق کے علم سے بھی مستفید ہونے کا موقع ملے“۔
(نبی کریم ﷺ کے احوال و اوصاف ، اقوامِ عالم کی مذہبی کتب میں، از مولانا محمد اسمعیٰل آزاد، ششماہی عالمی السیرہ شمارہ نمبر ۴۱، رمضان المبارک۶۲۴۱ھ مطابق اکتوبر ۵۰۰۲ئ)
ان دونوں اقتباسات کو بین السطور پڑھیے تو اندازہ ہوگا کہ اباجان کی کسرِ نفسی اورخودداری انھیں یہ لکھنے سے مانع ہے کہ یہ پیاری پیاری ہستیاں جن کا تذکرہ اباجان ان سطور میں کررہے ہیں، اباجان کے گہرے دوست بن گئے اور ان علمی بحثوں میں نہ صرف اباجان شرکت کرتے رہے بلکہ عملی طور پر بھی ان مباحث میں شریک ہوا کرتے۔ادھر خالد اسحاق صاحب نے اباجان کو یہ خصوصی اجازت دے رکھی تھی کہ وہ کسی بھی وقت ان کی لائبریری سے استفادہ حاصل کرسکتے ہیں۔کوئی نئی کتاب خریدتے تو سب سے پہلے اباجان کو دکھاتے اور ان سے اس بارے میں رائے طلب کرتے۔دراصل اباجان کی شخصیت فقر اور خودداری کا حسین امتزاج تھی۔ وہ علامہ اقبال کے تصور خودی کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔ اس داستان کا ایک حصہ” سوئے منزل چلے“ راقم الحروف اباجان کی زندگی ہی میں مکمل کرچکا تھا۔ مرض الموت میں جب انھیں پڑھ کر سنایا تو خاصے ناراض ہوئے تھے کہ ” ابے اپنے باپ کو خواہ مخواہ اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔“ لیکن واقعاتی طور پر صرف ایک دو غلطیوں کی نشاندھی کی تھی۔
اس سلسلے میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اباجان باباخلیل داس کوغالباً پہلے سے جانتے تھے۔ ہم نے اپنے بچپن میں اباجان اور چچاﺅں کو بابا خلیل داس چترویدی کا نام لیتے ہوئے سناہے۔وللہ اعلم بالصواب۔
کراچی آکر آوارہ طبیعت کو قرار نصیب ہوا تو بیوی بچوں کے ساتھ گھریلو زندگی اختیار کی۔ اس نئی زندگی کے تقاضوں سے مجبور ہوکر ملازمتکی تلاش میں سڑکوں کی خاک چھانی۔انھی دنوں راقم الحروف ٹایئفایڈ جیسی موذی بیماری میں مبتلا ہوا ۔اِدھر اماں اس بیمار اور بے چین بچے کوگود میں لیکر رات رات بھر بیٹھی رہتیں کہ شاید اس طرح بچے کو کچھ دیر کے لیے قرار آجائے، اُدھر اباجان کو میری دوا کی فکر لاحق ہوئی تو وہ فوراً لالو کھیت( لیاقت آباد) میں واقع ایک خیراتی شفا خانے پہنچے اور لائن میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کیا۔ جب انکی باری آئی تو انھوں نے بچےکی طبیعت کا حال بتایا اور دوائی کے طلبگار ہوئے ۔ کاﺅنٹر پر بیٹھے ہوئے کمپاﺅنڈر صاحب نے انتہائی سکون کے ساتھ دوا بنائی، اور اسکے ساتھ ایک مذہبی سیاسی تنظیم کا پمفلٹ بھی اباجان کو تھمایا اور یہ مژدہ سنا یا کہ یہ دوائی اس خاص جماعت کی جانب سے بطور ہمدردی عطافرمائی جارہی ہے ( تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے)۔
یہ سننا تھا کہ اباجان نے اسی وقت دوائی زمین پر انڈیل دی اور پمفلٹ شکریئے کے ساتھ کمپاﺅنڈر صاحب کو واپس کیا اور سکون کے ساتھچلتے ہوئے ٹینٹ سے باہر آگئے۔دوائی پھینکتے وقت اباجان نے سوچا۔” کوئی بات نہیں۔ بچہ مرتا ہے تو مرجائے لیکن میں اللہ کے نام کے علاوہ کسی اور کے نام کی دوا اپنے بچے کوہرگز نہیں پلاﺅں گا۔“
گھر کی طرف چلے ہیں تو پریشانی اپنے عروج کو پہنچی ہوئی تھی۔ یہ میں نے کیا کردیا۔ اب بچے کی دوائی کا کیا ہوگا۔ بچے کی بیماری کیسے ختمہوگی۔ یا اللہ ، یا مالک و مختارِ کل، تو ہی کچھ بند و بست فرمادے۔ گھر پر بیمار بچہ تڑپ رہا ہے اور جیب میں ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے۔ دنیا والے اپنا احسان جتانے پر تلے بیٹھے ہیں۔ یا اللہ مجھے ا ن کا احسان نہیں چاہیئے، مجھے صرف تیری رضا اور تیری مدد چاہیئے۔
قبولیتِ دعا کی گھڑی تھی، گھر پہنچے تو اللہ کی مدد آچکی تھی۔ اباجان کے ایک دوست جنہیں ہم آج بھی کمپاﺅنڈر صاحب کے نام سے یاد کرتے ہیں گھر کے سامنے موجود تھے اور اباجان کا انتظار کر رہے تھے۔ آئے تو اباجان سے ملنے کے لیے تھے لیکن بچے کی بیماری کا سنا توذرا دیر کو بیٹھے بھی نہیں ، فوراًبیمار کا معاینہ کیا اور دوا لینے کے لیے نکل گئے اوراس دن کے بعدسے میری صحت یابی تک روزآنہ دوائی لاکر دیتے رہے۔اباجان حیرت کیا کرتے تھے کہ آخر اس دن کمپاﺅنڈر صاحب کو ہمارے گھر کس نے بھیجا تھا۔یہ ایک ایسا معمہ ہے جو آج تک حل نہ ہوسکا۔
٭٭٭٭٭