شمشاد
لائبریرین
صفحہ ۲۱
یہ غزلیں بھی ملاحظہ ہوں جو انجم فوقی صاحب کی انقلابی و تعمیری فکر کا آئینہ ہیں۔
پُھونک دو میرے آشیانے کو
روشنی تو ملے زمانے کو
ہم تو بھٹکے قدم قدم لیکن
راستہ دیدیا زمانے کو
لوگ کیوں ایک دوسرے سے ملیں
سن رہے ہیں مرے فسانے کو
اتنے ٹھہراؤ سے نہ دیکھ مجھے
رُخ بدلنا پڑے زمانے کو
مصلحت ساز، رو بھی لیتے ہیں
وقت کیساتھ مسکرانے کو
اپنی تصویر سامنے رکھکر
دیکھتا ہوں ترے زمانے کو
لوگ سبکی خوشی سمجھتے ہیں
چند کلیوں کے مسکرانے کو
ہر طرف ہے اب ایک سناٹا
اور آواز دو زمانے کو
خود نہ تاریخِ وقت بن انجمؔ
اپنی تاریخ دے زمانے کو
ذرا ان سلگتے ہوئے تیوروں پر بھی ایک نگاہ۔
جبتک موسم بیت نہ جائے
چہروں پر کیا سُرخی آئے
دل اب اُن کے ناز اُٹھائے
پیار کیا ہے چوٹ بھی کھائے
لوٹ، جہاں تک لوٹا جائے
شاید پھر یہ دور نہ آئے
آب بھی برسے، ابر بھی چائے
موسم کیا جو تنہا آئے
عشق میں یہ لمحات بھی آئے
سمٹی دھوپ نہ پھیلے سائے
پہلے دُنیا چوٹ تو کھائے
پھر دیکھیں غم راس نہ آئے
در در اُنکو ڈھونڈنے والا
ہو سکتا ہے خود کھو جائے
سایہ تو ہے دھوپ کا ٹکڑا
چھاؤں کہاں جو ٹھہرا جائے
اب تک منزل ایک تصور
آگے جو کچھ وقت بتائے
یہ غزلیں بھی ملاحظہ ہوں جو انجم فوقی صاحب کی انقلابی و تعمیری فکر کا آئینہ ہیں۔
پُھونک دو میرے آشیانے کو
روشنی تو ملے زمانے کو
ہم تو بھٹکے قدم قدم لیکن
راستہ دیدیا زمانے کو
لوگ کیوں ایک دوسرے سے ملیں
سن رہے ہیں مرے فسانے کو
اتنے ٹھہراؤ سے نہ دیکھ مجھے
رُخ بدلنا پڑے زمانے کو
مصلحت ساز، رو بھی لیتے ہیں
وقت کیساتھ مسکرانے کو
اپنی تصویر سامنے رکھکر
دیکھتا ہوں ترے زمانے کو
لوگ سبکی خوشی سمجھتے ہیں
چند کلیوں کے مسکرانے کو
ہر طرف ہے اب ایک سناٹا
اور آواز دو زمانے کو
خود نہ تاریخِ وقت بن انجمؔ
اپنی تاریخ دے زمانے کو
ذرا ان سلگتے ہوئے تیوروں پر بھی ایک نگاہ۔
جبتک موسم بیت نہ جائے
چہروں پر کیا سُرخی آئے
دل اب اُن کے ناز اُٹھائے
پیار کیا ہے چوٹ بھی کھائے
لوٹ، جہاں تک لوٹا جائے
شاید پھر یہ دور نہ آئے
آب بھی برسے، ابر بھی چائے
موسم کیا جو تنہا آئے
عشق میں یہ لمحات بھی آئے
سمٹی دھوپ نہ پھیلے سائے
پہلے دُنیا چوٹ تو کھائے
پھر دیکھیں غم راس نہ آئے
در در اُنکو ڈھونڈنے والا
ہو سکتا ہے خود کھو جائے
سایہ تو ہے دھوپ کا ٹکڑا
چھاؤں کہاں جو ٹھہرا جائے
اب تک منزل ایک تصور
آگے جو کچھ وقت بتائے