اگر یہ مان لیا جائے کہ " قطب تکوین " ھمارے مسائل کی تدبیر کرتے ھیں ،اگرچہ ان کے مدبر الامر ھونے کی کوئی دلیل کتاب و سنت میں نہیں ملتی ! پھر بھی بات یہاں ختم نہیں ھوتی !
قطب کو کیسے پتہ چلے گا کہ میں فلاں مشکل پڑنے والی ھے اور تم نے اسے بچانے کی تدبیر کرنی ھے ؟
طاھر ھے وحی کے ذریعے ! اور شرعاً یہ بات قابلِ قبول نہیں کیونکہ اھل سنت نبی کریم ﷺ کے بعد وحی کے سلسلے کے ھمیشہ کے لئے موقوف ھو جانے کے قائل ھیں !
مگر اصحابِ تصوف نے اس کا نیا حل پیش کیا ھے کہ بواسطہ جبریل وحی کا انقطاع ھو گیا ھے ! البتہ اصحاب تکوین براہ راست وھاں سے پاتے ھیں جہاں سے فرشتے پاتے ھیں ،،یعنی self service کا نظام شروع ھو گیا ھے اور جبرئیل اس ذمہ داری سے سبکدوش ھو گئے ھیں ،، وہ اب ایکس سروس مین کی طرح پریڈ والے دن لیلۃ القدر کی رات اتر کر مدینے میں ان گلیوں کو حسرت سے دیکھتے ھیں جہاں وہ سرکاری حیثیت میں دن رات نازل ھوا کرتے تھے !
جبکہ اصحاب تکوین میں کچھ ایسے ھیں جن کی نظریں ایک پل لوح محفوظ سے ھٹتی نہیں ھیں !
گویا لوح محفوظ نہ ھوئی کوئی نیوز چینل ھو گیا ! کیا ان کی اس آنکھ مچولی کے باوجود وہ محفوظ کہلا سکتا ھے ؟
ھوئے تم دوست جس کے !
قطب التکوین کو اپنا قطب ھونا معلوم ھونا چاھئے کیونکہ قطب تکوین عہدہ ھے جس کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ھونا ھوتا ھے اسے ! مثلاً حسن میمندی کو معلوم ھونا ضروری ھے کہ وہ غزنوی کا وزیر ھے کیونکہ اس نے وزارت سے متعلق ذمہ داریاں ادا کرنی ھیں ! جبکہ ایاز محبوب ھے اور اسے معلوم ھونا ضروری نہیں کہ وہ کسی کا محبوب ھے ،،کیونکہ محبوبیت قرب کی قسم ھے کوئی عہدہ نہیں ( شریعت و طریقت341 )
اس کتاب کا یہ صفحہ 341 ھی بتا دیتا ھے کہ ھمیں اور ھماری عورتوں کو ننگ دھڑنگ بابوں کی خدمت اقدس میں کون بھیجتا ھے ! اور العزیز الحکیم، السمیع البصیر اور علی کل شئ قدیر اللہ کا دامن چھڑا کر ھمیں پاگلوں کے قدم چومنے کون بھیجتا ھے ؟؟
مصنف لکھتے ھیں کہ ! شیخ ابن عربی لکھتے ھیں کہ ھر بستی میں خواہ وہ کفار ھی کی بستی ھو ایک قطب ھوتا ھے ! پھر اس قول کی وضاحت میں لکھتے ھیں کہ " اس کے دو مطلب ھو سکتے ھیں ، ایک تو یہ کہ وہ باطن میں مسلمان ھو اور کسی خاص وجہ سے اخفا سے کام لے پھر خود اس کی تردید فرما دیتے ھیں کہ " یہ ھونا تو بعید ھے ،،کہ مسلمان ھو اور پتہ نہ چلے ! دوسرا یہ کہ وہ اس بستی کا ( نظم و نسق چلانے ، لوگوں کے رزق نہیں بلکہ ارزاق (each and every provision ) جس میں اولاد اور آنکھوں کی بصارت کانوں کی سماعت سمیت انسان کو ملنے والی ھر صلاحیت ھے ) میں مکین نہ ھو بلکہ باھر سے تصرف فرما رھا ھو ،جیسے تھانیدار جس کا تعلق تھانے میں رھتے ھوئے دیہات سے رھتا ھے ! اب تیسری صورت جو ابن عربی کے کلام سے ظاھر ھو رھی ھے وہ یہ ھے کہ ممکن ھے اس میں عقل نہ ھو لہذا وہ شریعت کا مکلف ھی نہ ھو ( اللہ پاک بھی ھمیں پیدا کر کے کن وختوں میں پڑ گیا ھے ) وہ صحیح الحواس ھو مگر عدیم العقل ھو جیسے حیوانات اور صبیان کہ پاگل نہیں ھوتے مگر عقل نہیں رکھتے !( اللہ جیسے الحکیم سے بھاگو گے تو پھر ایسے بےعقلوں کے پاس ھی جاؤ گے ) اس قطب کی اگرچہ وہ بطاھر کافر ھی ھو ،،اھل باطن کا معاملہ دیکھنا چاھئے ،، اگر وہ اس کا ادب کرتے ھوں تو وہ بھی اس کا ادب کرے اور ان کے خلاف کف لسان کرے یعنی اس کی توھین نہ کرے ! مگر ھر کافر کا معتقد نہ بنے !
خواتین ایک قطب کو کھلانے کے بعد نہایت گریا زاری سے سوال کرتے ھوئے جبکہ قطب کو اپنے آگے پیچھے کا پتہ نہیں ،،
ایک ذرا سا سوال ھے ،،
قرآن سارے مسلمان پڑھتے ھیں ، آپ بھی پڑھتے ھونگے !
رمضان میں تو ضرور ھی پڑھتے ھونگے !
کہیں آپ کو احساس ھوا ھو ،، کوئی آیت نظر سے گزری ھو کہ نبیوں اور رسولوں میں سے بھی کسی کو غوث و قطب ھونے کی سعادت نصیب ھوئی ھو ؟ انہوں نے بھی لوگوں کو رزق و اولاد مافوق الاسباب فراھم کیا ھو ؟ کہیں کسی کی مصیبیتیں دور کی ھوں ،،تقدیریں بدلی ھوں ؟؟؟؟؟
ھم نے تو یہ پڑھا ھے !
1- سارے قلمدان اللہ کے ھاتھ میں ھیں !
2 - وہ جسے چاھتا ھے دیتا ھے !
3- جسے چاھتا ھے محروم رکھتا ھے !
4- انبیاء خود مانگ مانگ کر لیتے تھے !
5- انبیاء ذوق و شوق اور آہ و زاری کے ساتھ مانگتے رھتے تھے !
6- انبیاء اور رسول بندے بن کر رھنے میں فخر محسوس کرتے تھے، ھتک محسوس نہیں کرتے تھے !
7 - نبیوں کے سردار محمد مصطفی ،احمد مجتبی ، حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم معراج کے لامحدود تقرب کے بعد پلٹے بھی تو غوث اور قطب بن کر نہیں ،، عبدہ " بن کر !
8- زکریا علیہ السلام اپنے سفید سر اور کھوکھلی ھڈیوں کے واسطے دے کر گڑگڑاتے ھیں !ھب لی من لدنک ذریۃً طیبہ !
9- 8 نبیوں کو چھوڑ کر باقی سارے نبیوں کے باپ ابراھیم خلیل اللہ دعائیں کر کر کے اولاد مانگتے ھیں اور
ملنے پر فرماتے ھیں ،الحمد للہ الذی وھب لی علی الکبر اسماعیل و اسحاق ان ربی لسمیع الدعا ! ابراھیم
10 - اللہ کے خلیل کے پاس فرشتے آئے تو پہچان نہ پائے بچھڑا تل کر لے آئے !
11- اللہ کے نبی لوط علیہ السلام کے پاس فرشتے آئے تو پہچان نہ پائے !
12- جب رب نے غیب کا بٹن بند کیا ھوا تھا تو کنعان کے کنوئیں میں پڑا یوسف ،، یعقوب علیہ السلام کو خوشبو نہ آئی ! جب میرے رب نے سوئچ آن کیا تو کرتا مصر سے چلا ھے اور یعقوب علیہ السلام فلسطین پکاراٹھے ، انی لاجد ریح یوسف ،، مجھے یوسف کی خوشبو آ رھی ھے !
13 - رب نے جب سوئچ آف کیا تو ساتھ کے اونٹ پر خالی ڈولے کے ساتھ باتیں کرتے جا رھے ھیں اللہ کے محبوب ﷺ اور پتہ نہ چلا کہ عائشہؓ پیچھے چھوڑ آیا ھوں ،، جب سوئچ آن ھوتا ھے تو جعفر طیاؓر کو جنت میں پرندے کی طرح پرواز کرتا دیکھ لیتے ھیں !
14- ایوب جیسا صابر نبی ،،اللہ کو فریاد کرتا ھے ،، انی مسنی الضر و انت ارحم الراحمین !
15- نوح علیہ السلام جیسا اولو العزم رسول فریاد کرتا ھے،،انی مغلوب فانتصر ،میں مغلوب ھو گیا تو میرا بدلہ لے !
16- یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں فریاد کرتے ھیں ،،لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین ،، فستجبنا لہ و نجیناہ من الغم ،، ھم نے اس کی فریاد سنی اور اس کو غم سے نجات دی ، و کذالک ننجی المومنین ،، اور ھم اسی طرح مومنوں کو بھی نجات دیں گے !
17- اللہ پاک سوہ الانبیاء میں تمام رسولوں کی مشکلات پھر ان کی دعا پھر ان کی نجات کا ذکر فرماتا ھے اور بات کو کچھ یوں سمیٹتا ھے کہ توحید کا جلال ٹپکتا ھے ! کانوا یدعوننا رغباً و رھباً و کانوا لنا خاشعین ! یہ سارے ھمیں کو پکارتے رھتے تھے رغبت کے ساتھ یعنی دل لگا کر اور اور ڈرتے ڈرتے اور ھمارے سامنے لرزاں و ترساں رھا کرتے تھے !
18 - پھر موسی علیہ السلام جیسا رسول جس کی شریعت پر ھزاروں نبی مبعوث ھوئے ،،وہ پردیس میں بے یار ومددگار ایک درخت تلے کھڑا ھو کر دعا کرتا ھے،، رب انی لما انزلت الی من خیرٍ فقیر ! میرے رب تو جو خیر بھی میری طرف بھیج دے میں تو فقیر ھوں !!!
پھر اور کون داتا ،غوث ،قطب ھو سکتا ھے ؟
لوگ کہتے ھیں جلدی نہ کرو ،،، کیا کوئی اور رسول آنا ھے یا کوئی اور کتاب نازل ھونی ھے جو فیصلہ کرے گی !
قاری صاحب کی اور باتیں،،، ابوظہبی پاکستان کونسلیٹ مسجد
بعض لوگ بڑے دور کی کوڑی لاتے ھیں تا کہ ان کے بزرگوں کا بھرم قائم رھے اور ان کا دامن ھاتھ سے نہ چھوٹے !
کہ قاری صاحب ! اللہ کے حکم کے بغیر کوئی کچھ نہیں کرتا ! یہ غوث و قطب جو بھی کرتے ھیں اللہ کا حکم پا کر کرتے ھیں !
میں یہ کہتا ھوں کہ اللہ سے اب براہ راست حکم پانے کا عمل انسانوں کی حد تک ختم ھو گیا ھے کیونکہ یہ حکم پانے کے لئے وحی اور نبوت ضروری ھے ،، آخری نبی ﷺ کے بعد وحی کا سلسلہ اختتام پذیر ھو چکا ھے، جو لوگ غوث و قطب کے اللہ سے احکامات پانے کا دعوی کرتے ھیں وہ ختمِ نبوت کے منکر ھیں ،، پھر یہ حکم شیعہ کے اماموں کو کیوں نہیں مل سکتا ؟ ان کو ختم نبوت کا منکر کس دلیل سے قرار دیتے ھو ؟
آخر اللہ کا یہ حکم اس وقت کیوں نہ آیا جب امت کے بہترین انسان ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے سلسلے میں صحابہؓ آپس میں تو تکار کر رھے تھے اور نبی ﷺ کا جسد مبارک ابھی ان کے حجرے میں چارپائی پر پڑا تھا ؟
اللہ کا یہ حکم جو آج ھرمتصوف ھندوستانی پاکستانی پر نازل ھو رھا ھے وہ اسی وقت نازل کیوں نہ ھوا جب خلیفہ راشد دامادِ رسول عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ کا سر کاٹا جا رھا تھا اور حضرت نائلہ کے ھاتھ کی انگلیاں ؟ آخر یہ حکم طلحہؓ و زبیرؓ پر اس وقت نازل کیوں نہ ھوا جب حضرت علیؓ ان کو بیعت کی دعوت دے رھے تھے ؟ آخر یہ حکم اس وقت نازل کیوں نہ ھوا جب اس کی شدت سے ضرورت تھی کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور نبی ﷺ کا چچازاد داماد آمنے سامنے لشکر لیئے کھڑے تھے اور نبی ﷺ کے صحابیؓ اللہ اکبر کے نعروں کے ساتھ ایک دوسرے کی گردنیں مار رھے تھے ،، ؟
آخر اسی وقت کوئی غوث کیوں نہ ھوا اور اللہ کا حکم نازل کیوں نہ ھوا جب امیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ اور امیر معاویہؓ کی فوجیں ایک دوسرے کو تہہ تیغ کر رھی تھیں اور ایک دن میں 30 ھزار " شہید " کر دیئے گئے ؟
کیا یہ غوث جن انڈوں سے نکلتے ھیں وہ انڈے دینے والی مرغیاں صرف ھندوستان اور ایران میں پائی جاتی ھیں ؟
آپ کی تحریر نفرت اور تمسخر سے بھرپور ہے ۔ ۔ کیا کسی سے نفرت کا اظہار کیے بغیر اپنا موقف بتانا ممکن نہیں ۔ ۔؟؟
یہ تبھی ہوتا ہے جب آپ کے پاس آپ کے موقف کو ثابت کرنے کے لئے دلائل نہ ہوں اور اگر ہوں تو بہت کمزور ہوں۔ یہ تحریر ایک خوفزدہ ذہنیت کی عکاس ہے جو اسلام کی عالمگیریت سے حد درجہ ناواقف ہے۔
آپ کی تحریر نفرت اور تمسخر سے بھرپور ہے ۔ ۔ کیا کسی سے نفرت کا اظہار کیے بغیر اپنا موقف بتانا ممکن نہیں ۔ ۔؟؟
یہ تبھی ہوتا ہے جب آپ کے پاس آپ کے موقف کو ثابت کرنے کے لئے دلائل نہ ہوں اور اگر ہوں تو بہت کمزور ہوں۔ یہ تحریر ایک خوفزدہ ذہنیت کی عکاس ہے جو اسلام کی عالمگیریت سے حد درجہ ناواقف ہے۔
آپ کی تحریر نفرت اور تمسخر سے بھرپور ہے ۔ ۔ کیا کسی سے نفرت کا اظہار کیے بغیر اپنا موقف بتانا ممکن نہیں ۔ ۔؟؟
یہ تبھی ہوتا ہے جب آپ کے پاس آپ کے موقف کو ثابت کرنے کے لئے دلائل نہ ہوں اور اگر ہوں تو بہت کمزور ہوں۔ یہ تحریر ایک خوفزدہ ذہنیت کی عکاس ہے جو اسلام کی عالمگیریت سے حد درجہ ناواقف ہے۔
اللہ پاک نے قرآنِ حکیم میں کہیں بھی معجزے کا ذکر " معجزے " کے لفظ سے نہیں کیا ! بلکہ آیت کے لفظ سے کیا ھے ، یعنی نبوت اور رسالت کی نشانی ! وما کان لنبیٍ ان یأتی بآیتٍ الا باذن اللہ ،، اور کسی نبی کے بس میں نہیں کہ آیت یعنی معجزہ دکھا دے مگر اللہ کے اذن سے ! جب قریش کے ایک وفد کے اس اصرار پر کہ اگر اسے فلاں معجزہ دکھا دیا جائے تو وہ ایمان لے آئیں گے جب کہ اللہ پاک جانتا تھا کہ وہ جھوٹے ھیں،نیز اس قسم کے معجزے کے دکھانے کے باوجود کوئی قوم ایمان نہیں لاتی تو پھر لازماً اس کو عذابِ الٰہی کا سامنا کرنا پڑتا ھے ،، چنانچہ نبی ﷺ کا رجحان اس طرف تھا کہ معجزہ دکھا دیا جائے ،، اور جب اللہ نے انکار فرما دیا اور وہ وفد اٹھ گیا اور اس کا جانا نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی پہ گراں گزرا تو اللہ پاک نے فرمایا ،، و ان کان کبرَ علیک اعراضھم ، فان استطعت ان تبتغی نفقاً فی الارضِ او سلماً فی السماء فتاتیھم بآیۃٍ، ولوا شاء اللہ لجمعھم علی الھدی فلا تکونن من الجاھلین ( الانعام 35 ) اگر ان کا منہ پھیر کر چل دینا آپ کو گراں گزرا ھے ،، تو پھر آپ اگر استطاعت رکھتے ھیں تو زمین میں خندق کھود کر یا آسمان سے سیڑھی لگا کر معجزہ لے جایئے ( اور انہیں دکھا دیجئے ) اور اگر آپ کا اللہ چاھے تو انہیں ( جبراً ) ھدایت پر جمع کر دے ، پس آپ ناواقف لوگوں کی سی بات مت کریں !
پورے قرآن میں ایسی مثالیں جگہ جگہ مل جائیں گی !
نبی چونکہ اللہ کا نمائندہ ھوتا ھے اور اس پر ایمان لانا اخروی نجات کی پہلی شرط ھے ،لہذا لوگوں کا حق ھے کہ وہ معجزہ طلب کریں اور اللہ ان کا اخلاصِ نیت دیکھ کر معجزہ دکھاتا بھی ھے،،مگر اس وفد پر اتمام حجت ھو چکا تھا اور وہ اپنی ھٹ دھرمی پہ قائم تھا ،بس وہ چاھتا تھا کہ صبح صبح روزانہ اٹھ کر نبی سے ایک آدھ معجزہ بطور انٹرٹینمنٹ دیکھ کر اپنے اپنے کاموں پر جایا کریں !
تو نبی پہ ایمان لانا ضروری ھے اور اس سے معجزہ اللہ اتمام حجت کے لئے دکھاتا ھے ،، نبی اللہ کا نمائندہ ھے اور اس پر ایمان لانے کے بعد احکامت کے اس سارے سلسلے کو ماننا ضروری ھوتا ھے جو اس نبی کے ذریعے ملتا ھے ،،
مگر کسی کو ولی ماننے نہ ماننے سے کسی کی جنت جہنم کا کوئی معاملہ نہیں ،، اگر ولی ھے اور آپ نے نہیں مانا تو اس کی ولایت پر ایمان لانا جنت میں جانے کے لئے ضروری بھی نہیں تھا اور نہ کسی کی ولایت کا انکارکرنا کفر ھے ! لہذا معجزے اور نام نہاد کرامت کا آپس میں کسی طرح بھی تعلق نہیں ھے !
پھر آپ دیکھتے ھیں کہ اللہ کی مرضی کے بغیر نبی معجزہ نہیں دکھا سکتا ،یہ اس کے بس میں نہیں ھے !
مگر دوسری جانب ولی کرامتوں کی ٹوکری بھرے گلی گلی ھاکرا لگا رھے ھیں کہ ۔۔ کرامت ویکھ لو ،، کرامتاں ویکھ لووووووووو ! پھر کرامت ولی کے بس میں کیوں ھے ؟ کیا ولی نبی سے بھی اوپر کی چیز ھے جو اللہ کی اجازت کے بغیر اسٹور سے کرامت ڈاؤن لؤڈ کر لیتا ھے ؟
پہلی بات یہ کہ نبی تو اللہ کی طرف سے بھیجے جاتے ھیں ، وہ اس دنیا میں ھو کر بھی اللہ کی بیوروکریسی کا حصہ ھوتے ھیں جس طرح عدالت کا پورا عملہ سمن کی تعمیل کرانے والے ھرکارے سے لے کر اھلمد اور جج سارے عدالتی عملہ کہلاتا ھے ،، جہاز میں سوار ھونے کے باوجود جہاز کا عملہ مسافر نہیں کہلاتا بلکہ الگ اصطلاح کریو ممبرز کے تحت آتا ھے ! اسی طرح نبی ھم میں ھونے کے باوجود ربانی عدالت کے عملے سے تعلق رکھتے ھیں ،، اور ھر نبی اپنی امت کا حساب بحیثیت پبلک پراسیکیوٹر کروائے گا ،، خود نبی کریم نے اپنے آپ کو اس دنیا سے الگ بیان فرمایا ھے،،حُبِۜب الی من " دنیاکم " ثلاث ،، میرے لئے تمہاری دنیا میں سے تین چیزیں پسند کی گئ ھیں ،،، !
اللہ ھر مومن کا ولی ھے اور ھر مومن اللہ کا ولی ھے ،، اللہ ولی الذین آمنوآ۔۔۔ اللہ دوست ھے ایمان والوں کا ،، جب اللہ دوست ھے تو ظاھر ھے مومن اللہ کے دوست ھی ھونگے ،، دشمن تو نہیں ،، اگر ایک شخص آپ سے ایک میٹر دور ھے تو آپ بھی تو اس سے ایک میٹر دور ھیں ،، لہذا صدق دل سے ایمان رکھنے والا ھر مومن اللہ کا ولی ھے ،، اور اللہ ان کا ولی ھے !
البتہ یہ جو ولیوں کے نام پر ایک الگ نسل تیار کر لی گئ ھے ،، جو فلاں فلاں مجاھدہ کر لے یا کپڑے اتار دے وہ اللہ کا ولی ھو جاتا ھے ، اسکی کوئی دلیل کتاب و سنت میں نہیں ملتی ،، البتہ جس مٹی کی ھم پیدائش ھیں اس مٹی میں یہ وائرس کثرت سے پایا جاتا ھے ! اور تپسیا کے ذریعے بھگوان بننے کا فارمولا بھی ادھر ان میں ھی پایا جاتا ھے،،صحابہ میں ھمیں کوئی اس فارمولے پہ عمل کرتا دکھائی نہیں دیتا ! وھاں تو ان کے بقول عمر فاروق کو بھی نفاق کا خدشہ تھا اور یہاں ولی نہ صرف اپنے اپنے مقام سے آگاہ ھیں بلکہ دوسروں کو معزول کر کے نئے بھرتی کرنے والے ابدال بھی ھیں !
کرامت ، سائیکو میٹری اور غیر مسلم قطب !
جب ھمارے صوفیاء نے یوگا کی مختلف مشقوں کا ایک جیسا نتیجہ دیکھا اور جو طاقت اپنے اندر محسوس کی وھی شکتی بھگوان داس اور چرن داس میں پائی تو وہ کنفیوز ھو گئے اور اسی کنفیوژن میں تمام مذاھب کو ایک بنا کر بیٹھ گئے کہ مذھب کا خدا کے قرب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں جو بھی گیان دھیان سے کام لے وہ رب کی معرفت حاصل کر لیتا ھے ،، وہ یہ نہ سمجھ پائے کہ یہ فن ھے ،اور فن کا کسی مذھب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ھوتا ،، بلکہ ریاضت کے ساتھ ھوتا ھے ! اس کا نتیجہ آپ صوفیانہ کلام کی شکل میں دیکھتے ھیں چاھے وہ فارسی کلام ھو اردو ھو یا پنجابی ،، بلکہ پنجابی صوفیانہ کلام تو ایسا میٹھا زھر ھے کہ سات سروں کے ساتھ انسانی باطن کے سات دروازے " لطیفے " ٹیون کر کے سیدھا اندر جا کر انسٹال ھو جاتا ھے ،، بدعات اور بد عقیدگی سنجیدہ بحث مباحثے سے نہیں بلکہ قوالی اور شاعری کی ھلکی پھلکی فضا میں ھمارے اندر انسٹال ھوئی ھے،مناظرے میں انسان اپنے دل و دماغ کو بند کر کے اور کنڈیاں تالے لگا کر بیٹھتا ھے،،مگر قوالی میں وہ نیم غنودگی اور ما بین الیقظۃ والنوم کی کیفیت میں سب کچھ کھا پی کر ھضم کر لیتا ھے !
میں پہلے غیر مسلم قطب کے واقعات بیان کر دوں تا کہ آپ پہ اس نام نہاد کرامت کی حقیقت واضح ھو !
بی بی سی ھندی سروس نے ایک پروگرام دیا تھا ایک ھندوستان کے ایک قبیلے کے بارے میں کہ اس قبیلے کا پیشہ چوری ھے ،مگر پولیس جب ان کو پکڑ کر تشدد کرتی ھے تو وہ مر جاتے ھیں اور بعد میں زندہ ھو جاتے ھیں ،، پولیس والے گھبرا کر لاش کہیں پھینک دیتے ھیں تو وھی بندہ کسی اور واردات مین پکڑا گیا ،،جب اس قسم کے تیرہ واقعات ھو چکے تو پولیس نے پھر ان کا کھوج لگایا اور بی بی سی کے نمائندے نے ان سے انٹرویو کیا ، انہوں نے بتایا کہ ھم تین سال کی عمر سے بچے کو مشقیں کرانا شروع کرتے ھیں اور چھ سات سال کی عمر تک ھمارا بچہ اپنی آتما نکال لیتا ھے ،، وہ اپنے خون اور نبض کا دوران اتنا آئستہ کر لیتے ھیں کہ مردہ لگتے ھیں ،،مگر پھر خود ھی دوران خون بڑھا کر حرکت میں آ جاتے ھیں ! یہی صلاحیت ھندو یوگی ، اچاریہ ،تنتری وغیرہ پیدا کرتے ھیں اور یہی سب کچھ ھر مذھب والا کر سکتا ھے،،یہ اکتسابی قوت ھے ،، اس کا ولایت سے کوئی تعلق نہیں !
یہ قوت بعض لوگوں میں بلا تفریق مذھب پیدائشی ھوتی ھے تو بعض اس کو مشقوں سے حاصل کرتے ھیں ! امریکہ میں ایک شخص کی ڈاکومنٹری دستیاب ھے ،جس نے مشقوں سے اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کر لی تھی کہ وہ سفارتی تھیلوں والے سیکشن میں امریکی سی آئی ائے کی جانب سے متعین تھا ، جہاں وہ اپنے ھاتھوں کی مقناطیسی طاقت سے روس کے سفارتی تھیلوں میں موجود ریکارڈنگ کو Demagnetize کر دیتا تھا یعنی صاف کر دیتا تھا،، امریکی اور روسی صدور کے درمیان ایک معائدے پر دستخط کی تقریب اسے واشگنٹن میں ٹی وی پہ دکھائی گئ اور اسے کہا گیا کہ وہ روسی صدر سے دستخط کروائے ،، روسی صدر دستخط کرنے سے ھچکچا رھا تھا مگر یہ مسلسل اسے کمانڈ دے رھا تھا سائن اٹ ، سائن اٹ ،، اور روسی صدر نے سائن کر دیئے ،، فرار ھونے والے جاسوسوں کی کشتی کا تعاقب کرتے ھوئے اسے کہا گیا کہ کیا وہ یہ کشتی رکوا سکتا ھے؟ اس نے آگے جانے والی کشتی کے انجن کے پنکھے کے پر ھاتھوں کی حرکت سے موڑ دیئے اور کشتی رک گئ ! کشتی کے انجن کا ملاحظہ کیا گیا تو اس کا دعوی سچ نکلا انجن کے پر مڑے تڑے ھوئے تھے ! اپنی اس طاقت کو بحال رکھنے کے لئے وہ 25 کلومیٹر روزانہ جوگنگ کرتا تھا !
گزرے واقعات کو کشف سے دیکھنا سائیکومیٹری کہلاتا ھے ! یہ لوگ یوں واقعہ بیان کرتے ھیں گویا موقعے پر موجود ھیں !
امریکہ میں ایک خاتون ڈورتھی ایلی سن ایک ایسی خاتون تھی جسے اس کی کارکردگی پر پولیس اور محکمہ داخلہ کی جانب سے کئ تمغے دیئے گئے تھے ! اسے خود معلوم نہیں تھا کہ اس میں یہ صلاحیت کیسے پیدا ھوئی ( پیدائشی ولی )
بین القوامی سائیکومیٹری میں دو بھائیوں کے کارنامے بے حد شہرت کا سبب بنے ! ان کو انسانی ریڈار اور جادوگر قرار دیا گیا ! Gerard Croist 1909 میں پیدا ھوا ، وہ غریب والدین کا چشم و چراغ تھا اور محتاج خانوں میں پلا بڑھا مگر اس میں کشف کی صلاحیت بچپن میں ھی پیدا ھو گئ تھی !
ایک روز اسکول کا ایک استاد ایک دن کی غیر حاضری کے بعد اسکول آیا تو کروائیسٹ نے اسے بتایا کہ وہ گزشتہ روز ایک لڑکی سے ملنے بہت دور گیا تھا ، اس لڑکی نے سرخ گلاب لگا رکھا تھا ، اور استاد اس لڑکی سے شادی کرنے والا ھے، استاد حیران رہ گیا کیونکہ بات 100٪ درست تھی ،
اس کی اس صلاحیت کو دیکھتے ھوئے تاریخ مین پہلی دفعہ کسی ایسی ھستی کو ملازمت دی گئ جو پراسرار طاقت سے کام لے سکتا ھو ! اس نے کئ گتھیاں سلجھا کر پولیس کو حیران کر دیا ! مثلاً 1945 میں ایک جرم کے تمام ملزمان کو اکٹھا کیا گیا ، مگر پولیس کو اصل مجرم نہ مل سکا ،،کروائیسٹ کو بلایا گیا ،، اور اسے ایک پیکٹ دیا گیا ! اس نے بغیر کھولے بتا دیا کہ پیکٹ میں تمباکو کا ڈبہ ھے ، پھر اس پیکٹ کو پکڑ کر اس نے دماغ کے گھوڑے دوڑانے شروع کیئے اور بتایا کہ ملزمان میں سے دو بھائی ھیں جو درمیانی عمر کے ھیں ! پھر ان کے مکان کی تفصیل بتائی ،پھر بتایا کہ یہ دونوں ایک لڑکی کو پکڑ کر بھینسوں کے باڑے مین لے گئے ،، لڑکی ذھنی معذور ھے ،، پھر اسے بھینسوں پر ڈالنے والے کمبل میں بند کر کے مارنے کے مشورے کر رھے ھیں مگر پھر لڑکی کو چھوڑ دیا ،،کروائیسٹ نے ان بھائیوں کے دیگر جرائم بھی بتائے اور یہ بھی بتایا کہ اعتراف کے بعد ایک بھائی خودکشی کر لے گا ،، ملزمان میں سے دو بھائی ثابت ھوئے جنہوں نے اعتراف جرم کر لیا اور ٹھیک دو ھفتے بعد ایک بھائی نے خودکشی کر لی !
کروائیسٹ کی شہرت بیرون ملک تک پھیل گئ ! جون 1958 میں امریکی پولیس نے امریکی تاریخ کے سب سے متنازعہ جرائم میں سے ایک میریلن شیفرڈ قتل کیس کے سلسلے میں کروائیسٹ کو مقتولہ کے دو سرخ بوٹوں کا جوڑا بھیجا ،، کراوئیسٹ نے بتایا کہ یہ ایک حسین عورت کے جوتے ھیں جو قتل کر دی گئ ھے اور قاتل ایک جھاڑ جھنگاڑ بالوں والا شخص ھے،،میری لن شیفرڈ کے قتل کا شبہ اس کے شوھر پر کیا جا رھا تھا ،،جبکہ اس کا بیان تھا کہ اسے ایک جھاڑ جھنگاڑ بالوں والے شخص نے سر پہ ضرب لگا کر قتل کیا ھے،، کروائیسٹ کی تصدیق کے بعد امریکی عدالت نے اسے بری کر دیا !
فروی 1961 میں کروائیسٹ کو 4 سالہ بچی گوگل کی گمشدگی کے سلسلے میں نیویارک پولیس نے مدد مانگی ! کراویسٹ نیدر لینڈ کا باشندہ تھا اور کبھی امریکہ نہیں آیا تھا مگر وہ فون پر نیویارک پولیس کو گائیڈ کرتا رھا یہاں تک انہیں ایک گھر کے صحن میں اس جگہ لا کھڑا کیا جہاں گوگل کو قتل کر کے دفن کیا گیا تھا ،،گھدائی پر گوگل کی لاش مل گئ !
کروائیسٹ نے قدیم مخطوطوں کی تصدیق میں بھی اھم رول ادا کیا اور مزے کی بات یہ کہ کئ کئ دن اس کی یہ قوت کام نہیں کرتی تھی بلکہ خوابیدہ رھتی تھی کروائیسٹ اسے خدا کا تحفہ کہتا تھا اور اس نے تمام خدمات کے عوض ایک فلس معاوضہ نہیں لیا اگرچہ وہ غریب آدمی تھا !
کروائیسٹ کے پانچ بچوں میں سے ایک بچے جیرارڈ کروائیسٹ کے اندر اپنے باپ والی قدرتی صلاحیت موجود تھی ،، اس نے نیدر لینڈ مین رھتے ھوئے امریکی پولیس کو دو بہنوں کی تلاش کے لئے فون پر نقشہ بنوایا اور دونوں بہنوں کی لاشیں تنگ قبروں سے برآمد کر لی گئیں انہیں قتل کر دیا گیا تھا !
پیٹروان ڈرھرکجسے دنیا ھرکوس کے نام سے جانتی ھے دوسری جنگ عظیم کے زمانے کا شخص تھا جس نے تہلکہ مچا کر رکھ دیا ،، وہ چمنیاں صاف کیا کرتا تھا ،، ایک دن بارش کے دوران ایک چمنی سے پھسلا تو دھڑام سے زمین پر جا لگا اور اس کی کھوپڑی مین فریکچر ھو گیا ،ھوش آیا تو پیٹر کی دنیا تبدیل ھو چکی تھی وہ لوگوں کے ذھن پرھ سکتا تھا ،، اپنی نبض چیک کرنے والی نرس کو اس نے کہا کہ وہ احتیاط سے کام لے ورنہ اپنے دوست کا سوٹ کیس کھو دے گی، تب نرس کو یاد آیا کہ وہ اپنی دوست کا سوٹ کیس گاڑی میں بھول گئ ھے ! ھرکوس کسی بھی چیز کو پکڑ کر اس کے مالک کی ساری زندگی کا پول کھول دیتا تھا ،جس کی وجہ سے اس کی اپنی زندگی خطروں میں گر گئ ! اسپتال سے فارغ ھونے والا ایک مریض ھرکوس سے ھاتھ ملانے آیا تو اس کا ھاتھ تھامتے ھی ھرکوس نے کہا کہ اسے اسپتال سے نکلتے ھی گولی مار دی جائے گی،،جانے والا مسکرا کر چلا گیا ،،مگر باھر نکلتے ھی ایک گلی میں اسے گولی مار دی گئ ! مقتول نازی مزاحمتی تحریک کا رکن تھا ، جو زیرِ زمین کام کر رھا تھا،، تحریک نے ھرکوس کو نازی ایجنٹ سمجھ کر مارنے کے لئے آدمی بھیجا مگر ھرکوس بروقت اسپتال سے نکل کر چھپنے میں کامیاب ھو گیا !
ھرکوس سے پولیس نے بھی استفادہ کیا ایک شخص کو گھر کے دروازے پہ قتل کر دیا گیا،،ھرکوس نے مقتول کے کوٹ کو پکڑ کر بتایا کہ اسے ایک بوڑھے شخص نے قتل کیا ھے ،، آلہ قتل چھت پہ ھے اور بوڑھے کی مونچھیں ھیں جبکہ دونوں ٹانگیں مصنوعی ھیں ،، قاتل پکڑا گیا جو کہ اسی حلیئے کے مطابق تھا !
1950 میں برطانیہ میں ویسٹ منسٹر ایبے سے ایک بیش قیمت ھیرا چوری ھو گیا ، سکاٹ لینڈ یارڈ کی سر توڑ تلاش کے باوجود چور کا پتہ نہ چلا ! ناچار ھرکوس کو آزمانے کا فیصلہ کیا گیا اور اسے لندن بلا لیا گیا !
ھرکوس کو ایک گاڑی اور ایک ھتھیار دیا گیا جو مجرم بھاگنے وقت چھوڑ گئے تھے ! ھرکوس کو لندن کا ایک نقشہ دیا گیا اور ھرکوس نے آئستہ ائستہ اس نقشے پہ لکیر کھینچنا شروع کی حالاںکہ اس سے قبل اس نے لندن نہیں دیکھا تھا ،مگر وہ حرت انگیز طور پر چوری کے روٹ کی تمام عمارتوں کی ٹھیک نشاندھی کرتا آگے بڑھتا رھا ،،اس نے بتایا مجرم ایک نہیں تین ھیں جن میں ایک عورت ھے ! تین ماہ بعد تینوں مجرم ھیرے سمیت گرفتار کر لیئے گئے !
کیسے کیسے جاہل لوگ مسلمانوں کی امامت اور وعظ و تذکیر کے منصب پر فائز ہوگئے ہیں ۔ ۔۔۔ (یہ بھی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے)۔ نام نہاد قاری صاحب کے ذہن میں کئی امور باہم مختلط ہیں اور کہیں کی اینٹ کو کہیں کا روڑا ملا کر ایک عجیب و غریب بدہئیت اور بے روح مجموعہ تراش رکھا ہے اوہام و وساوس کا جسکا نام اپنے تئیں "دین" رکھا ہوا ہے۔۔۔
سمجھنے والوں کیلئے تو سورہ کہف میں موسیٰ علیہ السلام اور اس علم لدنی کے حامل اس بندے کے واقعات میں بھی ہدایت کا کافی سامان ہے (اگر دلوں پر قفل نہ پڑے ہوں تو)۔۔۔ ۔
مسخرے مولوی نے کیا ہوشیاری سے خلط مبحث پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ "اب اللہ کی طرف سے براہِ راست حکم پانے کا عمل ختم ہوگیا ہے"۔۔تو یہاں کون کہہ رہا ہے کہ اولیاء و صلحاء کے دل میں نورِ بصیرت کے تحت پیدا ہونے والا داعیہ اور کسی عام مسلمان کے دل میں استخارے کے نتیجے مییں پیدا ہونے والا رحجان و میلان انبیاء کے قلوب پر نازل ہونے والی وحی کے مترادف ہے۔۔۔ ۔
اور جہاں تک انڈوں والی بکواس کی گئی ہے اسکے لئے یہی شعر کافی ہے کہ:
حضرت کی یاوہ گوئی، کچھ مستند نہیؔں ہے
کہنے کی حد ہے لیکن، بکنے کی حد نہیں ہے
لوگ بار بار ذکر کرتے ھیں کہ ھندوستان میں اسلام پھیلانے کا سہرا صوفیاء کے سر ھے،،مگر میں کہتا ھوں کہ کاش اسلام محمد بن قاسم کے ھاتھوں پھیلا ھوتا ! آج جس شرک و بدعت کے طوفان سے ھم نبرد آزما ھیں وہ انہی بزرگوں کا لایا اور پھیلایا ھوا ھے !
نظام الدین اولیاء کے بارے میں کہا جاتا ھے کہ وہ مریدوں سے خود کو سجدہ کرواتے تھے ،سیر الاولیاء میں لکھا ھے ایک بار جب ایک نووارد بزرگ زادہ کی موجودگی میں نظام الدین اولیاء کے ایک مرید وحید الدین قریشی نے ان کو سجدہ کیا تو یہ نو وارد مہمان بہت حیران اور برافروختہ ھوا ،،اس سے سجدے کی یہ بےحرمتی دیکھی نہ گئ اور اس نے اس پر اعتراض کیا مگر نظام الدین اولیاء نے اس اعتراض کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ سجدہ تعظیمی مباح ھے ! انہوں نے دلیل دی کہ جس طرح سابقہ امتوں کے فرائض تو منسوخ ھو گئے مگر مباحات برقرار رھے جس طرح عاشورے کا روزہ ، اسی طرح سابقہ امتوں میں لوگ باھم اپنے سے بلند مراتب لوگوں کو سجدہ کرتے تھے ،، شاگرد استاد کو ، امتی نبی کو ، رعایا بادشاہ کو ،، اب نئ شریعت میں سجدہ تعظیمی کی حیثیت مباح کی ھے ،، انہوں نے یہ دلیل بھی دی کہ میرے مرشد فرید الدین گنج شکر بھی سجدہ کرنے سے منع نہیں کرتے تھے، اس لئے میں لوگوں کو اس فعل سے منع نہیں کر سکتا کیونکہ اس سے تجہیلِ مشائخ کا الزام مجھ پہ آئے گا ،،مزید تفصیل دیکھ لیجئے سیر الاولیاء صفحہ 350 پر !
جادوگر اپنی نفسانی قوت سے متعلقہ شخص کو بیمار دیکھتا ھے یا اس کےکسی مخصوص عضو کو نقص زدہ اور درد زدہ محسوس کرتا ھے اور پھر اس شخصیت پر اس کا پرنٹ نکال دیتا ھے یوں وہ کیفیفت اس شخصیت پر مستقل کر دیتا ھے !اس کے لئے اس آدمی کا جسم کا وہ جزو جس میں پروٹین ھو استعمال کیا جاتا ھے،مثلاً بال یا ناخن ! یہ ایک دوسرا موضوع ھے مگر میں نے طریقہ کار واضح کر دیا ھے !
یونیورسٹی آف کولوریڈو میڈیکل سکول کے ڈاکٹر جول آئزن ھیڈ مائر نفسیات تھا ،اسے کسی نے اطلاع دی کہ شکاگو میں ایک ٹرک ڈرائیور ٹیڈ سریئوس کا دعوی ھے کہ وہ اپنی ذھنی قوت سے وہ تصویر جو اس کے دماغ میں ھو پوپلو رائیڈ کیمرے میں تصویر کی صورت میں نکال سکتا ھے ! ڈاکٹر ایک تھیسس لکھ چکا تھا کہ خوارق عادات واقعات کو دھرانا ناممکن ھے ،، اب سے بات کے سامنے آ جانے کے بعد اس کے تھیسس کا بیڑہ غرق ھونا لازم تھا ، ڈاکٹر نے اس شخص سے ملنے اور اسے آزمانے کا ارادہ کر لیا ،، وہ ٹیڈ سے ملا اور ٹیڈ نے پولورائیڈ کیمرے کے لینس پہ توجہ مرتکز کی اور اسے اشارہ کیا ، کیمرے کا بٹن کلک کرنے کے بعد تیڈ کے چہرے کی بجائے کسی شہر کی دھندلی سی تصویر عمارتوں کی تصویر نکلی ! ایسے بہت سارے واقعات ڈاکٹر آئزن ھڈ نے اپنی تصنیف " دا ورلڈ آف ٹیڈ سیریوس "میں پیش لکھے ھیں !
تیسری آنکھ یا بند آنکھوں سے دیکھنا !
خدا بخش نام کا ایک آدمی تھا جو k.B Duke کے نام سے مشہور تھا، وہ 1906 میں کشمیر میں پیدا ھوا !وہ ایک سرکس میں کام کرتا تھا جہاں وہ ایک مشہور کرتب باز بن گیا، اس دوران اس کی ملاقات ایک گرو سے ھوئی ، اس گرو نے اسے توجہ اور ارتکاز کی مشقیں کرانا شروع کیں ، 11 برس کے طویل عرصے کی مشقت نے خدا بخش کو کندن بنا کر رکھ دیا ،، وہ آگ پر بغیر جلے چل لیتا تھا مگر سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ وہ آنکھیں بند کر کے بھی اسی طرح دیکھ سکتا تھا جیسے کھلی آنکھوں سے دیکھا جاتا ھے،، دماغی ارتکاز نے اس کی تیسری آنکھ کھول دی تھی ،، اب دونوں آنکھوں کے پپوٹے بند ھوں یا کھلے اس کے لئے کوئی اھمیت نہیں رکھتے تھے ! برطانیہ کے مشہور روحانی محقق Harry Price نے اپنے ساتھی سائنسدانوں کے ساتھ مل کر خدا بخش کے کئ ٹیسٹ لئے اور سب نے مجبور ھو کر تسلیم کیا کہ خدا بخش کے پاس کوئی غیر معمولی بصارتی حس ھے ! اس کی آنکھوں پہ آٹے کے دو پیڑے رکھے جاتے جن پر دھاتی پرت رکھ دیا جاتا اور پھر روئی رکھ کر باندھ دیا جاتا ،، اس کے بعد اس کے سامنے کوئی کتاب رکھی جاتی اور وہ اسے فرفر پڑھنا شروع کر دیتا ،، سائیکل پہ سوار ھو کر ٹریفک سے بھری سڑک پہ نارمل سے بھی تیز انداز میں گزرتا ،بس پہ سوار لوگوں کو اشارے سے سلام کرتا رستے میں آنے والی رکاوٹوں اور چوکوں سے بھی دائیں بائیں ھو کر گزر جاتا !
ان تجربات کے بعد خدا بخش کو عالمی شہرت ملنے لگی اور اس کے تجربات بھی خطرناک ھونے لگے ،مثلا 1937 میں اس نے لیورپول میں ایک 200 فٹ بلند تنگ رستے کو جہاں کھلی آنکھوں والے بھی چلنے سے دھل جاتے ھیں بند آنکھوں کے ساتھ نہایت آرام سے پار کر لیا !
سہہ پہر کا وقت تھا ،مانچسٹر کے ایک اسپتال میں ڈاکٹروں نے خدا بخش کی آنکھوں پہ میڈیکل پٹیوں کی موٹی تہہ رکھ کر انہیں بینڈیج کر دیا اور تماشائیوں کو یقین دلایا گیا کہ اب یہ شخص کچھ بھی نہیں دیکھ سکتا ! مگر لوگوں کے سامنے خدا بخش مزے سے اسپتال سے نکلا سائیکل پر سوار ھوا اور سیٹی بجاتا ھوا سڑکوں پر سے گزرنے لگا،،جہاں کوئ موڑ آتا وہ دائیں یا بائیں ھاتھ کا اشارہ کر کے موڑ مڑتا ، ڈاکٹر اس کی توجیہہ کرنے میں ناکام ھو گئے خود خدا بخش کہتا ھے یہ توجہ اور ارتکاز کا نتیجہ ھے کہ آپ کی تیسری آنکھ کھل جاتی ھے اور محنت سے جو چاھے اسے حاصل کر سکتا ھے !
10 جنوری 1993 کو پاکستان ٹیلی ویژن کراچی سنٹر نے صبح کی نشریات میں کراچی کے ایک نوجوان احمد غفار کا مظاھرہ دکھایا اس نوجوان کی آنکھوں پر آٹے کے پیڑے اور پٹیاں باندھ کر ایک سیاہ لفافہ سر سے گردن تک ڈال دیا گیا ! یہ نوجوان ٹی وی سنٹر سے لے کر کراچی کی مصروف ترین سڑکوں پر موٹر سائیکل چلاتا ھوا نہایت رتیز رفتاری سے گزرا ، گاڑیوں کو اووٹیک بھی کیا اور دوسری گاڑیوں کو رستہ بھی دیا اور دائیں بائیں بھی گھوما ،، اس کے بقول اس نے 6 سال کی توجہ اور ارتکاز سے یہ صلاحیت حاصل کی تھی !
جاری ھے
کرامات اور سائیکومیٹری - پارٹ 4
خدا بخش K .B Duke جس کے بارے میں آپ نے پڑھا کہ وہ آنکھیں بند کر کے بھی دیکھتا تھا اسی کے مزید واقعات بھی پڑھ لیجئے !
آگ کا قطب ! یا آگ کا دیوتا ؟
1934 کا زمانہ تھا ،برطانیہ کے مشہور روحانی محقق ھیری پرائس نے اخبار دی ٹائمز کی 23 اکتوبر 1934 کی اشاعت میں اشتہار دیا کہ وہ برطانیہ میں آتش قدمی کی ابتدا کرنا چاھتا ھے اگر کوئی شخص پیدائشی طور پر حرارت جذب کرنے کی صلاحیت کے ساتھ پیدا ھوا ھو یا مشقوں سے اس کہ مہارت پیدا کی ھو تو اس سے رابطہ کرے ، کافی دن گزر گئے اور کسی نے رابطہ نہ کیا ،، ھیری پرائس اس منصوبے کو ترک کرنے والا تھا کہ اسے کشمیر میں پیدا ھونے والے ایک شخص خدا بخش کا پیغام ملا کہ وہ اس سلسلے میں اس کی مدد کرنے کو تیار ھے ! خدا بخش کی عمر اس وقت 29 سال تھی !
9 ستمبر 1935 کو سرےSurrey کے مقام پر ایک مظاھرے کا بندوبست کیا گیا ! ایک فٹ گہرے 25 فٹ لمبے اور تین فٹ چوڑے گڑھے کو 300 گیلیوں ،10 گیلن پیرافین اور لکڑی کے ڈبوں سے بھر کر ٹائمز کے 25 عدد پرانے شماروں سے آگ لگا دی گئ ،خدا بخش نے کچھ توقف کیا اور کہا کہ آگ کو خوب گرم ھونے دیا جائے ! پونے دو گھنٹے بعد جب خندق تپ کر انگارہ ھو چکی تھی اور اس کی حدت سے باھر پڑا کوئلہ تک بھڑک اٹھا تھا ،،خدا بخش آگے بڑھا اور نہایت اطمینان سے ننگے پاؤں گرم خندق کے اندر سے ڈگ بھرتا ھوا پار نکل گیا ! پھر پلٹ کر آیا اور پھر پلٹ کر گیا ،،یوں تین مرتبہ مسلسل یہ کرتب دکھا دیا ! موقع پر موجود ایک سائنسدان کو بھی جوش آگیا اور وہ بھی انگاروں کو روندنے کے لئے ان میں داخل ھونے کی حماقت کر بیٹھا مگر چیخیں مارتا ھوا پلٹ کر بھاگا ،،اس کے پاؤں پر بڑے بڑے آبلے پڑ گئے تھے ! اس واقعے نے خدا بخش کو دنیا بھر میں مشہور کر دیا ،، ایک دن وہ راک فیلر پلازا میں 1400 ڈگری گرم بھٹی میں جا گھسا اور صحیح سلامت باھر نکل آیا ،، وہ کہتا تھا یہ صرف حوصلے اور یقین کا کھیل ھے !
عیسائی مبلغ Monsignon Desparturers نے جس زمانے میں میسور کا دورہ کیا تو مہاراجہ نے ایک عجب تماشے کا اھتمام کیا ! ڈسپارچر نے دیکھا کہ ایک 13 فٹ لمبا اور 6 فٹ چوڑا گڑھا کھودا گیا، اس ایک فٹ گہرے گڑھے میں اس قدر تیز آگ دھکائی گئ کہ جس کی تپش تماشائی 25 فٹ دور محسوس کر رھے تھے ! تب ایک مسلمان شخص جو شمالی ھندوستان سے تعلق رکھتا تھا آیا اور گڑھے کے عین کنارے آ کر کھڑا ھو گیا اور مہاراجہ کے ایک ملازم کو آگ میں جانے کا حکم دیا مگر اس ملازم کی گھگی بندھ گئ مسلمان نے اسے پکڑ کر آگ میں دھکا دے دیا،، آگ میں گرنا تھا کہ وہ ملازم جو خوف سے مرا جا رھا تھا ،اچانک پرسکون اور شانت ھو گیا ،،پتہ چلا کہ آگ اسے نہیں جلا رھی،، اس کی دیکھا دیکھی دس مزید ملازم بھی آگ پر سے گزر گئے ، اسکے بعد مہاراجہ کے بینڈ کا عملہ ساز بجاتا ھوا آگ پر سے گزر گیا مگر کسی کو آبلہ تک نہ پڑا ،، دو انگریز بھی گزرے اور 200 تماشائی بھی،جب مہاراجہ نے تماشہ ختم کرنے کا اشارہ کیا تو مسلمان دھڑام سے زمین پر گرا اور پانی پانی چلانے لگا ، اسے خوب پانی پلایا گیا تو تھوڑی دیر میں اسے چین آیا ،، مہاراجہ نے ڈسپارچر کو بتایا کہ یہ کوئی مذھبی تقریب نہیں تھی ، ایک ھندو برھمن نے توجیہہ پیش کی کہ یہ مسلمان آگ کے کنارے کھڑے ھو کر آگ کی ساری تپش کو خود میں جذب کیئے ھوئے تھا جو کہ دوسروں کو جلا سکتی تھی ،،ھندو اسے آگ کا دیوتا اور مسلمان اسے آگ کا قطب کہتے تھے !
مزید دو واقعات اس آتش قدمی کے باقی ھیں ،، پھر بحث کو سمیٹا جائے گا !
توبہ نامے !
شیخ نصیر الدین ،،خلیفہ مجاز خواجہ نظام الدین اولیاء !
نظام الدین اولیاء کی وفات کے بعد 1356 ء میں شیخ نصیر الدین نے ان کی گدی سنبھالی !
اپنی وفات سے پہلے شیخ نصیر الدین صاحب نے مندرجہ ذیل نصیحت کی !
خلافت کا نشان یا سلسلہ اور دیگر تبرکات وغیرہ جو خلافت کے نشان کے طور پر مجھے خواجہ ںظام الدین اولیاء سے ملے ھیں وہ میرے ساتھ ھی دفن کر دیئے جائیں !
چنانچہ ایسا ھی ھوا اور انہوں نے کسی کو بھی خلیفہ نہ بنایا یوں اللہ کا یہ باضمیر بندہ اس دکان کو بند کر کے رخصت ھوا ! ان مریدوں کی فوج ظفر موج اور اپنی اولاد کی روٹیوں اور جاگیروں پہ لات مارنے کے لئے ھمالیہ جتنا ایمان چاھئے ھوتا ھے ،جس کا ثبوت شیخ نصیر الدین نے عملی طور پر دیا !
ایک سوال !
اللہ کے حق پہ ڈاکا پڑے ! جنت ،دوزخ اس کے قبضے سے لے کر بانٹ دی جائے ،، مجال جو کسی کے کان پر جوں بھی رنیگے ! اس کے کیے ھوئے کاموں پر کسی دوسرے کے نام کی تختی لگا دی جائے ،،حرام جو کوئی زبان کھلے !
مگر ذرا بزرگوں کے ھاتھ سے یہ چوری کردہ اختیارات چھین کر دیکھئے ،، ذرا نفی کر کے دیکھئے کہ ،، ما یملکون من قطمیر ،، یہ تو تل برابر چیز کے مالک نہیں ،، ذرا سارے اختیارات کو رب کی ذات میں بیان کر کے دیکھئے !
ھم لھم جندۤ محضرون ،، کی طرح اولیاء کے لشکر ٹوٹ پڑیں گے اور اپنے بزرگوں کا دفاع کریں گے،،ھم ان کو بزرگ مان لیتے ھیں ،،مگر پھر بھی راضی نہیں ھوتے جب تک ان کو خدا نہ مان لیں ! اذا ذکر اللہُ وحدہ اشمأزت قلوب الذین لا یومنون بالآخرۃ، و اذا ذکرالذین من دونہ اذا ھم یستبشرون ،، جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل سکڑ جاتے ھیں اور جب اس کے ساتھ دوسروں کا ذکر کیا جائے تو ان کے چہرے کھل اٹھتے ھیں !
یہ سارے کمالات مقامات ،کرامات و تصرفات ھمیں ان میں تو نظر نہیں آتے جن کا ایمان قیامت تک نموذج و نمونہ ،، فان آمنوا بمثلِ ما آمنتم بہ فقد اھتدوا،، اب قیامت تک آنے والے انسان اگر اس طرح ایمان لائیں جس طرح تم ایمان لائے ھو تو ھدایت پا گئے ( البقرہ ) اسی آیت کے مصداق ھم ان ولا رستہ اور ھدایت ھر نماز کی ھر رکعت میں مانگتے ھیں ،، صراط الذین انعمت علیھم ،،،،
یارو ! وہ سارے ان کمالات سے تہی دست کیوں رھے ،،، یہ خدا نما انسانوں کی دریافت کب ھوئی ،، کہاں سے اور کب سے اسلام نے Semi Gods تخلیق کرنے شروع کر دیئے ؟؟؟؟
میں زھرِ ھلاھل کو کبھی کہہ نہ سکا قند !
میرے عزیز دوستوں نے فرمایا ھے کہ " صوفیاء کو سائیکومیٹری سے نہ ملائیں ،، فرق کلمے کا ھے !
جواب عرض ھے !
کہ سعید انور اور ٹنڈلکر میں بھی فرق کلمے کا ھے ،،مگر اس سے کرکٹ کے اصول و ضوابط پہ کیا فرق پڑتا ھے ؟ کیا مسلمان غیرمسلموں کے کوچ نہیں اور غیر مسلم پاکستانی ٹیم کے کوچ نہیں ؟ فساد تب پھیلتا ھے جب ایک فن کو لے کر لوگ دین کے فیصلے کرنے لگ جاتے ھیں حالانکہ اس فن کا دین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ھوتا ،، ھندوؤں نے ٹنڈلکر کو بھگوان بنا لیا،ھم بھی سعید انور کو قطب بنا لیں ؟
چشم کشا حقیقت یہ ھے کہ ھندوستان میں نہ کسی کو توحید کی تلاش کبھی تھی اور نہ ھی کوئی انہیں توحید دینے آیا تھا اور نہ کسی نے توحید دی ! مسلمان حملہ آور بھی آئے تو اس سونے کی چڑیا کو لوٹنے آئے ،،اور لوٹ مار کر کے واپس اپنے اپنے ملکوں کو سدھار گئے ،کسی کو اسلام کی فکر نہیں تھی اور نہ کسی نے کبھی ھند میں مسلم حکومت بنانے کی فکر کی ! سومنات کا بت توڑ دیا گیا کیونکہ اس میں سونا بھرا ھوا تھا ،، مگر سینوں کے بت کسی نے نہ توڑے اور نہ ان بتوں کو توڑنے کا کوئی بندوبست کیا ! افغان اور مغل دونوں مسلمان تھے مگر ھندو جرنیلوں کی قیادت میں اپنے لشکر بھیج کر ایک دوسرے کے شہروں کو پامال کرتے تھے ،، احمد شاہ ابدالی نے جو دلی کے ساتھ کیا ،، کیا وہ اسلام کی خدمت تھی ؟ ھم صرف کسی کا نام مسلمان دیکھ کر اس کے ھر کرتوت کو اسلام کے گلے میں ڈال دیتے ھیں !
رہ گئے صوفیاء تو میرے عزیزو ! وہ بھی انسانوں کو چرن داس سے چھڑا کر خواجہ صاحب کے بندے بنانے آئے تھے ،، چمتکار اور شکتیوں کی جنگ تھی ،، جو زیادہ شکتی مان ھوتا تھا بندے اس کے در پر سجدہ ریز ھو جاتے تھے ! ایک طوائف کو اس سے کیا فرق پڑتا ھے کہ اس کا گاھک کلمہ گو ھے یا ھندو ،! اللہ کی تلاش کسی کو بھی نہیں تھی ،سب دیوتاؤں کی تلاش میں تھے اور دیوتا آج گلی گلی ملتے ھیں ،، اللہ سے نہ کوئی مانگنے والا نہ ماننے والا ،، وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ، آج کا دور گزشتہ ادوار سے ھزار گنا زیادہ بہتر ھے کہ ایسے ذرائع پیدا ھوئے کہ لوگوں کے علم میں اضافہ ھوا اور سوچ کی نئ راھیں پیدا ھوئیں !
آج پتہ چلتا ھے کہ ھمیں سب نے دھوکے دیئے ،،مذھبی راھنماؤں نے مذھب کے نام پر اور اسکول والوں نے تاریخ کے نام پر !
بخدا ھم فریب خوردہ قوم ھیں !
جو قرآن کی توحید سے دور ھے - جو محمد عربی ﷺ کی سنت اور طریقے پہ مطمئن نہیں ،،
ویسے میری خوش قسمتی ھے کہ اللہ پاک نے مجھے بہت بہترین دوستوں سے نوازا ھے ! اچھا دوست بھی اللہ کی نعمتوں میں سے ھوتا ھے ! آپ تمام حضرات کے علم و معرفت کا مجھے اعتراف ھے ،،ھم سارے مسلمان اور دین کا درد رکھنے والے لوگ ھیں ،مذاکرے سے ذرا منزل واضح ھو جاتی ھے اور اھداف ریفریش ھو جاتے ھیں،مجھے کبھی بھی تصوف کو بحیثیت علم یا فن تسلیم کرنے سے کوئی تکلیف نہیں ھوئی ،،مگر اس کی بنیاد پر اللہ پاک کے اختیارات چھین کر کچھ انسانوں کو دے دینے سے سخت اختلاف رھا ھے ،،سابقہ ادوار میں یا صوفیاء کے ادوار میں قرآن عام نہیں تھا،،قرآن کو دیکھ لینا بھی کسی کی خوش قسمتی تھی ،،دین وھی تھا جو مولوی صاحب یا پیر صاحب کے منہ شریف سے نکل گیا ،، تصدیق کے لئے قرآن کہیں سے مل بھی جائے تو ترجمہ ندارد ،،قرآن ایک ایسی کتاب تھی جو محترم تھی ،چومی جاتی تھی ،سینے سے لگائی جاتی تھی ،،مگر سمجھی نہ جا سکتی تھی ،، شاہ ولی اللہ دھلوی کا یہ احسان ھے پاک و ھند کے مسلمانوں پر کہ انہوں نے ترجموں کی ابتدا کی اور عام لوگوں کی رسائی قرآن تک ممکن بنائی ،،مگر سابقہ ادوار میں قرآن کی عدم دستیابی جو ستم ڈھا چکی تھی اور امت جس کینسر میں مبتلا ھو چکی تھی ،اس کا علاج آج تک نہیں کیا جا سکا،، اس کے لئے قرآن و سنت کی کیموتھراپی کی ضرورت ھے،، وہ سب کچھ جو اللہ نے اپنے لئے دعوی کیا ھے وہ سب کچھ اللہ میں مانا جائے اور دوسروں سے اس کی نفی کی جائے ،، کیونکہ دوسروں کو بھی ساتھ رکھ کر اثبات کرنا ھی شرک ھے ! میں نے دیکھا ھے کہ قران کے خلاف تاویل کرنے میں تو لوگ نہایت جری ھیں ،،مگر بزرگوں کے اقوال کی تاویل کر کے انہیں قران کے مطابق بنانے کی کسی کو جرأت نہیں ! قرآن میزان ھے اسے میزان سمجھا جائے ،،یہ حق و باطل کے درمیان فرقان ھے اور اسی کے ذریعے حق و باطل کا فرق کیا جائے ،، یہ امام ھے اور اسی کو امام سمجھا جائے ھر اللہ اکبر کہنے والا امام نہیں ھوتا ! قرآن سے بچنے کے لئے پنڈی باھرو باھر کا رواج ختم کیا جائے ! ابھی سورہ فاتحہ ھی شروع ھوتی ھے کہ جو قران کا دیباچہ ھے کہ ھمارے علماء کو خلجان ھونے لگتا ھے کہ کہیں لوگ قرآن کی ماننا ھی نہ شروع کر دیں ،، تیسری آیت پہ ھی اشارہ کرتے ھیں کہ ذرا پرائیویٹ کلینک یعنی حاشیے پہ ملو ! ایاک نعبد و ایاک نستعین جیسی صاف اور دوٹوک آیت میں ڈنڈی ماری جاتی ھے کہ " اللہ والوں سے مانگنا عین اللہ ھی سے مانگنا ھے کوئی غیر سے مانگنا نہیں ھے لہذا ھمارے بزرگوں کا در چھوڑ نہ دینا !
کوئی پوچھے سرکار ایمان کی امان پاؤں تو سوال کروں کہ ،اگر ایاک نستعین میں غیر اللہ سے مانگنے میں ایمان کو کوئی نقصان نہیں عین اللہ سے مانگنا ھے تو پھر ایاک نعبد میں بھی اولیاء اللہ کی عبادت عین اللہ کی عبادت ھے کسی غیر کی نہیں ،، ؟ کیا اسی تأویل کے نتیجے میں قبروں کا طواف نہیں ھوتا ؟ جانور منی کی طرح چلا کر استہانوں تک نہیں لائے جاتے ؟
حقیقت میں دیکھو تو خواجہ خدا ھیں !
ھمیں ان کی چوکھٹ کے سجدے روا ھیں !
اسی ھر ھر وچ صورت رب دی اے کا نتیجہ نہیں ؟
کیا قرآن پڑھنے والے کو اللہ کی غیرت کا اندازہ نہیں ھوتا کہ شراکت کے نام پر اس کا غضب سنبھالے نہیں سنبھالا جاتا ،،جب وہ عیسی ابن مریم علیہما السلام کی شراکت برداشت نہیں کرتا تو خواجگان کو کیونکر اپنا شریک خدا مان لے گا ؟ جب وہ ان دونوں کے لئے دھمکی دیتا ھے ،قل فمن یملک من اللہ شئیاً ان اراد ان یھلک مسیح ابن مریم و امہ و من فی الارض جمیعاً ؟ ان سے پوچھو کون اختیار رکھتا ھے کہ اللہ کو روک سکے اگر وہ فیصلہ کر لے مسیح ابن مریم اور اس کی ماں کو ھلاک کر دے اور جو بھی زمین میں بستے ھیں ان سب کو بھی ؟ للہ ملک السموات والارض وما بینھما ،یخلق ما یشاء ، اللہ علی کل شئ قدیر،، اللہ ھی کا ھے جو کچھ کہ آسمانوں میں ھے اور زمین میں ھے اور جو ان دونوں کے درمیان ھے ،، وہ جو چاھے جیسے چاھے پیدا کرے اللہ ھر چیز پر قدرت رکھتا ھے ( المائدہ )
اللہ نے انسانوں کو چاھے وہ عرب کے ھوں یا عجم کے ھوں ، گورے ھوں یا کالے ،، نبی اور رسول ھوں یا امتیں ،، سب کو اپنی عبادت کے لئے تخلیق کیا ھے ،، شراکت کے لئے نہیں ،، ان میں سے کسی نے بھی خدا کے ساتھ ایک ٹکے کی بھی انویسٹمنٹ نہیں کی ،، وہ کل نہیں تھے ،پھر ھوئے اور پھر نہیں رھے ،،
یہ ھے سیدھی سادھی توحید ،، جب اللہ نے رسولوں کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ لوگوں کو اپنے بندے بنائیں تو دو چار دن الٹے سیدھے وظیفے کرنے والوں کو کیونکر اپنی مخلوق ٹھیکے پر دے سکتا ھے ،،کہ فلاں ایریا فلاں قطب سنبھال لے اور فلاں فلاں علاقے کے لوگوں کی حاجات پوری کرے ،،کیا وہ پیدا کر کے تھک گیا ھے کہ پالنے کے لئے دوسروں کو دے گا ؟
بندے کی سانس میں سے بھی کفر کشید کر لینے والے علمائے کرام اور بندے کے الفاظ سونگھ کر اس کی نیت کا تعین کر لینے والے مفتیانِ عظام کو یہ سب کچھ نظر نہیں آتا ؟
دُوئی دور کرو کوئی شور نہیں ! ( دوسروں کو اپنے سے الگ سمجھنا چھوڑ دو تو کوئی جھگڑا فساد نہیں )
ایہہ تُرک ھندو کوئی ھور نہیں !( یہ مسلمان ترک اور ھندو کوئی غیر نہیں )
سب سادھ کہو کوئی چور نہیں ! ( سب کو نیک کہو کوئی بھی بد نہیں )
ھر گھٹ وچ آپ سمایا ھے ! ( ھر روپ یعنی مذھب میں وھی سمایا ھوا ھے )
بلہے شاہ
اک لازم بات ادب دی اے ! ( ایک بات کہنا ضروری ھے کیونکہ ادب کا تقاضا ھے کہ یہ سب کے مدنظر رھے !
سانوں بات ملومی سب دی اے ! ( ھم سے کچھ چھپا ھوا نہیں ،ھم سب جانتے ھیں )
ھر ھر وچ صورت رب دی اے !( ھر ھر روپ میں اللہ ھی ھے )
کِتے ظاھر تے کِتے چھَپدی اے ! ( کہیں ظاھر نظر آتا ھے اور کہیں پوشیدہ ھے )
بلہے شاہ !
کیوں اوئلے بہہ بہہ جھاکی دا ؟ ( خاک کے پردے کے پیچھے سے چھپ چھپ کر کیوں جھانکتے ھو )
ائے پردہ کیں تو راکھی دا ؟ ( سرکار یہ پردے کس سے کیئے جا رھے ھیں ؟)
تُسی آپے آپ ھی سارے ھو ! ( پوری کائنات آپ خود ھی تو ھو )
کیوں کہندے اسیں نیارے ھو!( کیوں کہتے ھو کہ ھم جیسا کوئی نہیں )
آئے اپنے آپ نظارے ھو ! ( خود کو بنا کر پھر دوسرے میں بیٹھ کر اپنا نظارہ خود کرتے ھو)
وچ برزخ رکھیا خاکی دا ! ( بس خاک کا پردہ ڈال کر سمجھتے ھو کہ تم ھم سے چھپ گئے ھو ؟ )
واہ سوھنیاں تیری چال عجب ! ( واہ سوھنیاں خوب چال چلتے ھو !)
لٹکاں نال چلیندے او ! ( لٹکارے لے لے کر چلتے ھو )
آپے ظاھر، آپے باطن !
آپے لُک لُک بہندے او !
آپے ملاں ، آپے قاضی !
آپے علم پڑھیندے او !
ھن کس تھیں آپ چھپائی دا ؟
کِتے ملاں ھو بلیندے او !
کِتے سنت فرض دسیندے او !
کِتے متھے تلک لگائی دا !
ھن کس تھِیں آپ چھپائی دا ؟
اس رباعی میں شریعت کا مذاق اڑایا گیا ھے کہ ایک طرف تو ملا بن کر سنت فرض سمجھاتے ھو ،دوسری جانب مندر میں تلک لگا کر بھی بیٹھے ھوئے ھو،یہ تم چھپ کر کس سے بیٹھے ھو !
جس جا نظر آتے ھو ، سجدے وھیں کرتا ھوں !
اس سے نہیں کچھ مطلب، کعبہ ھو یا بُت خانہ !
وید پراناں پڑھ پڑھ تھکے، سجدے کر کر گھِس گئے متھے !
نہ رب تیرتھ نہ رب مکے ، جس پایا اس نور انوار !
عشق دی نویوں نویں بہار !
یعنی رب جس کو ملا ھے چاھے وہ ھندو سادھو ھو یا مسلم صوفی ، اسے وہ نور کی شکل میں ھی نظر آیا ھے !
ثنائی کا فارسی شعر سنیئے
در مذھب عاشقاں یک رنگ - ابلیس و محمد یک سنگ !
عاشقوں کے مذھب میں ایک ھی رنگ ھے،، محمد ﷺ اور ابلیس اکھٹے نظر آتے ھیں !
بتایئے ھم تصوف کی توھین کر رھے ھیں اور ھمارے متین بھائی ھمیں ملامت کرتے ھیں کہ ھم حدِ اعتدال سے گزر جاتے ھیں،، مگر محمدﷺ کو ابلیس کے ساتھ کھڑا کرنے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ھو گا ،، کیونکہ صوفی کو سب معاف ھے !
ھم کہیں کہ تصوف غلط تو بے ادب کہلائیں - وہ کہیں کہ قرآن جھوٹے قصوں سے بھرا پڑا ھے تو وہ اللہ کے ولی اور غوث اور قطب !
بس اب دل پہ ھاتھ رکھیں اور یہ رباعی سنیں ،،یہ بابا فرید کی رباعی ھے !
سب صورت وچ " ذات " سنجھانی ! ( ھر صورت میں چاھے وہ ھندو یا عیسائی یا سکھ ،، ابلیس یا آدم ھو صرف اللہ کو ھی پہچاننا ھے !
ھر صورت وچ ذات سنجھانی !
حق باھجوں کوئی غیر نہ جانی ! ( اللہ کی ذاتِ حق کے سوا کسی غیر کو نہیں جاننا )
نہ کوئی آدم نہ کوئی شیطان ! ( نہ کوئی آدم ھے اور نہ شیطان ،سب کی صورت میں اللہ ھے )
بن گئ سب کوڑ کہانی ! ( یہ قصہ آدم و ابلیس ایک جھوٹ کہانی بنا لی گئ ھے،، انسانوں میں نفرت ڈالنے کے لئے ) اب یہ بن گئ سب کُوڑ کہانی ،، اساطیر الاولین ،، وھی مکے والوں والا الزام ھے اور قرآن کو جھوٹ کہنا ھے کیونکہ قرآن اسی قصے کے گرد گھومتا ھے !
ھم ھی بے ادب ھیں ،، صوفیاء نے تو ادب کے کوہ ھمالیہ کھڑے کر دیئے ھیں !
جیسا کہ میرے پرانے ساتھی جانتے ھیں اور میں نے مخلتف مواقع پہ بیان کیا ھے کہ مجھے بچپن سے ھی پراسرار علوم کا شوق تھا ! یہ شوق شاید میرے خون میں شامل ھے کیونکہ میرے دادا جان اس سلسلے میں بہت سرگرم تھے، والد صاحب دبئ سے واپس گئے تو بہت سارا ھندو تانترک لٹریچر ساتھ لے گئے جو کہ میں نے صرف پڑھا نہیں بلکہ حفظ کر لیا ! میں نے بچپن سے ھی کئ چلے ان کے ساتھ بیٹھ کر کیے ،دادا جان موھڑہ شریف کے مرید تھے جبکہ مجھے 9 سال کی عمر میں بھنگالی شریف بیعت کروایا گیا ،، ھر خطرناک جگہ جہاں دن کو بھی لوگ جانے سے ڈرتے تھے مجھے چلے کروائے گئے ،جس میں ھندوؤں کے مردے جلانے کی شمشان گھاٹ بھی تھی ! کئ دفعہ چلے کے دوران دادا جان سے ملنے دادی جان آئیں کچھ باتیں ھوئیں اور چل دیں ،، ان کے جانے کے بعد دادا نے بتایا کہ یہ " باھر کی چیز" تھی ! میری چھوٹی دادی جو کہ سگی دادی تھیں وہ دادا کے ساتھ جانے سے سختی سے منع کرتی تھیں ان کے بقول دادا ایک ایسا عمل کر رھے ھیں جس میں انہیں اپنے پہلوٹھی کے بیٹے کی قربانی دینی پڑے گی ، ان کا بڑا بیٹا یعنی میرے تایا جان اسی خوف سے تقریباً 6 سال گھر سے بھاگے رھے ،، دادا جان نے بڑے پوتے کا انتخاب کر لیا تھا اپنے عمل کی تکمیل کے لئے ! خیر مجھے دادی جان کی بات کا اتنا یقین نہیں تھا -، ایک دن دادا جان نے قبرستان میں جاری چلے کا کافی اھتمام کیا اور مجھے بار بار تسلی دی کہ اگر تمہیں کوئی ایسی چیز نظر آئے جس کے پاؤں زمین پر اور سر آسمانوں تک نظر آئے تو ، بالکل نہیں ڈرنا اور نہ ھی بھاگنا ،، ھم نے بھی ان کو بڑی تسلی دی کہ جب آپ یہاں ھیں تو میں کیوں ڈروں گا ؟
غالباً یہ وھی چلہ تھا جس کے بارے میں ھمیں دادی جان خبردار کرتی تھیں اور یقیناً یہ وھی بلا تھی جس کو میرے خون کی بھینٹ دینا مقصود تھا ! مگر اللہ کا کرنا ایسا ھوا کہ رات تیسرے پہر کا عالم تھا اور مجھ پر غنودگی طاری ھو رھی تھی کہ میں نے دادا جان کی دردناک چیخ سنی ،، ان کی چیخ اتنی بلند اور خوفناک تھی کہ یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ کسی انسان کے چھوٹے سے منہ سے اس طرح کی ڈکرانے کی آواز نکل سکتی ھے ! دادا کی اس چیخ نے مجھ پر مکمل سکتہ طاری کر دیا اور میں بے حس ھو کر رہ گیا ،،میں نے دادا کو گرتے پڑتے بھاگتے دیکھا مگر میں نہ تو گردن موڑ سکتا تھا کہ دیکھوں وہ کیا دیکھ کر بھاگے ھیں اور نہ ھی خود بھاگ سکتا تھا ،، مگر میرا شعور مکمل طور پر بیدار تھا ،، میں خوف محسوس کرنے کی حالت میں بھی نہیں تھا ! بس ایک کیمرے کی طرح سب دیکھے چلا جا رھا تھا ،، دادا روتے دھوتے شور مچاتے گھر پہنچے تو سارے گھر والے جاگ گئے اور آئستہ آئستہ سارے بیٹے اور بہویں اکٹھا ھونا شروع ھو گئے ! جبکہ میری دادی جان سیدھی قبرستان کی طرف دوڑیں ،، میں بے حس و حرکت بیٹھا ھوا تھا ،، دادی جان نے مجھے ھلا کر پہلے تو میرے زندہ ھونے کا یقین کیا ،، پھر مجھے کہا کہ اٹھو گھر چلیں ،،مگر میں تو بول بھی نہیں سکتا تھا ،، انہوں نے مجھے اٹھایا اور گھر لے آئیں ! دادا جان تو تقریباً مہینہ بیمار رھے ،،غالباً اس طرح چیخنے سے ان کے مثانے کو کوئی نقصان پہنچا تھا کیونکہ ان کا مثانے کا آپریشن بھی اسی دوران ھوا تھا ،،مگر میں اگلے دن ھلکا ھلکا بولنا چالنا شروع ھو گیا تھا !
یہ صرف تمہیدی گفتگو تھی آپ کو یہ باور کرانے کی کہ یہ چلۜوں کی دنیا ھمارے لئے کبھی نئ نہیں رھی تھی !
میں ساتویں یا آٹھویں کلاس میں پڑھتا تھا جب گرمیوں کی چھٹیوں میں کھوئیرٹہ آزاد کشمیر اپنی پھوپھو کے پاس گیا ،جن کا گزشتہ دنوں انتقال ھوا ھے اور وہ شارجہ سے پاکستان گئ ھوئی تھیں ،، انہوں نے مجھے بچپن سے پالا تھا ،، کھوئیرٹہ بس اسٹینڈ کی بیک سائڈ پہ اور نیچے جہاں اس وقت لڑکیوں کا کالج ھے یہ ساری زمینیں اور گھر ڈار برادری کے ھیں !
وھاں سائیں جی جنہوں نے مجھے اپنے گاؤں " آھدی " میں پہلا چلہ کرایا تھا ، وہ کھوئیرٹہ کے رھنے والے تھے اور رشتے کی پھوپھو ان کے گھر تھیں ،یعنی میرے والد صاحب کے ماموں یا خالہ کی بیٹی تھیں ! ان کا نام سائیں رحم دین تھا اور وہ سائیں رحما کہلاتے تھے، ان کا انتقال بھی غالباً پچھلے ایک دو سالوں میں ھوا ھے ! جبکہ وہ سائیں رکن دین کے مرید تھے !
انہوں نے مجھے ایک ایسی جگہ چلا شروع کرایا جہاں پہاڑی کے اوپر چڑھ کر پریوں کے کوٹھے نامی جگہ تھی جسے " کوٹ " کہتے تھے ،، وھاں 6 غار کھلے ھوئے تھے اور ساتواں بند تھا جس کے منہ پر گھاس اگی ھوئی تھی ! وھاں ایک چھوئی موئی کا پودا تھا ،جس کے پاس چلہ کرنا تھا ! اب چلے کی تفصیل میں نہیں لکھوں گا کیونکہ میرا کزن طارق ڈار جو کھوئیرٹہ میں ھے اور صحافی بھی ھے اور میرا فیس بک فرینڈ بھی ھے کہیں پریکٹس نہ شروع کر دے !
خیر چلہ کچھ اس شان سے پورا ھوا کہ چھوئی موئی کے پودے نے مجھے اپنی فیملی میں سے تسلیم کر لیا ،، میرے پاس جانے سے وہ ری ایکٹ نہیں کرتا تھا ،، اور اس کی صفات میرے ھاتھوں میں منتقل ھو گئ تھیں !
پجاس دن کے بعد میں واپس اپنے گاؤں تحصیل گوجرخان واپس آ گیا ،، وھاں ھمارے قریبی گاؤں " ڈھونگ " میں میلا چل رھا تھا ، ھمیں بھی میلے کا شوق چرایا کیونکہ پچھلے پچاس دن تو چلے کی بوریت چلتی رھی تھی !
مگر مصیبت یہ تھی کہ میرے پاس میلے میں جانے کے پیسے نہیں تھے ، دس روپے کی کوھاٹی چپل گھر والوں نے خرید کر دی تھی وہ بھی اگلی فصل تک ادھار ،،مزید بوجھ ڈالنے کی میں نے ھمت نہیں کی اور خالی ھاتھ میلے کو چل پڑا ! نئ نئ چپل تھی اس نے پاؤں جگہ جگہ سے زخمی کر دیئے یوں چپل اٹھا کر ننگے پاؤں چلنا ھمیں زیادہ آرام دہ لگا ،، اور ھم اسی شان سے میلے میں وارد ھوئے !
حاجی ابوذر جعفری جو ان دنوں جعفری نہیں تھے ،، ان کا سردئ کا اسٹال لگا ھوا تھا ،،یہ جعفری صاحب ابوظہبی میں اپنے ریسٹورنٹس کا ایک نیٹ ورک رکھتے تھے،، آج کل ایک ھی ریسٹورنٹ رہ گیا ھے ! یہ سردئ کے اسٹال پہ کھڑے تھے ،لنگری ان کے سامنے تھی ، ھاتھ میں گھنگھروں سے سجا گھوٹنا تھا ،جس کے ساتھ گلابی رنگ کی جھنڈی بھی لگی ھوئ تھی ،، وہ جب گھنگھرو والا ڈنڈا لنگری میں مارتے تو ساتھ ایک جملہ گاتے تھے ، ان کی آواز اور گھنگھرو کی آواز مل کر وجد طاری کر دیتے تھے ،،" مالٹے مسمیاں دے جِشو ولا جِشو ولا ،مالٹے مسمیاں دے جشو آلہ جشو آلہ ،، یہ ان کا شعر تھا ،،، بس جناب ھم نے اس موسیقی کے ساتھ اپنے سارے لطیفے گرم کیئے اور اگلے سیگمنٹ کی تلاش میں چل پڑے !
آگے ایک مجمع لگا ھوا تھا جہاں ایک جادوگر نے ایک لڑکے کے دونوں ھاتھوں کی انگلیاں پھنسا کر اور دونوں انگوٹھوں سے اس کی ناک پکڑوا کر یرغمال بنایا ھوا تھا ، جبکہ لڑکا اس کی منتیں کر رھا تھا کہ وہ اس کو آزاد کر دے !
جاری ھے !
مجھے اس وقت تو اندازہ نہیں تھا کہ یہاں ظالم کون ھے اور مظلوم کون ھے ؟ کیونکہ میں بالکل درمیان میں پہنچا تھا ،،بعد میں پتہ چلا کہ یہ نورا کشتی ٹائپ سیگمنٹ ھوتا ھے،، پہلے سے ایک آدمی سے طے کیا جاتا ھے کہ اس نے کیا ایکٹنگ کرنی ھے ! یہ سب کچھ جب پاکستان سنٹر کے ایڈیٹوریم میں ھونے والے شعبدہ بازی کے پروگرام کی ریہرسل چل رھی تھی تو مجھے پتہ چلا ! خیر وہ لڑکا خواہ مخواہ مظلوم بن کر رونی صورت بنائے منتیں کر رھا تھا ،، شعبدہ باز نے اعلان کیا کہ مجمعے میں سے کوئی شخص میرا معمول بنے گا ،، لڑکے نے کہا کہ میں بنوں گا ،،جادوگر نے کہا کہ سوچ لو ! لڑکے نے کہا کہ میرا مرشد کامل ھے جو کرنا ھے کر لو ! مجمع جوش سے بھرا لڑکے کی ھمت کی داد دے رھا ھے ! جادوگر نے اسے کہا کہ انگلیوں میں انگلیاں ڈالو ،، جوان نے دونوں ھاتھ ملا کر انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسا لیں ! اب جادوگر نے کہا کہ ،پیر ومرشد والے ھو تو نکال کر دکھاؤ ،،لڑکے نے ( مصنوعی ) زور لگایا مگر بار بار کے زور لگانے کے باوجود انگلیاں جدا نہ ھوئیں ! جادوگر نے کہا کہ انگوٹھوں سے ناک پکڑ لو تو انگلیاں کھل جائیں گی ،، اب انگلیاں تو کھل گئیں مگر ناک پکڑی گئ ! اور لڑکا منتیں کرنے لگا ! یہاں پہ میری انٹری ھوئی ! میں نے لڑکے کی آہ و زاری دیکھی تو دیکھا نہ گیا ،،میں نے دایاں ھاتھ ہتھیلی والی طرف سے جادوگر کی طرف کیا اور آئستہ آئستہ اپنی انگلیاں بند کرنا شروع کر دیں ، جونہی میری انگلیاں بند ھوئیں ،،جادوگر نامرد ھو گیا ،، اس کے جنسی اعضاء کو فالج ھو گیا اور اسے یوں لگا گویا اس کے پاس کچھ نہیں ھے ! میں نے شعبدہ باز کو چونکتے دیکھا ! اسے احساس ھو گیا تھا کہ اس کے ساتھ سچی واردات ھو گئ ھے ! اس نے آئستہ آئستہ مجمعے کا بغور جائزہ لینا شروع کیا اور مجھ پر آ کر اس کی نظر تھم گئ، میری ھیئت مکمل طور پر ایک مجذوب کی سی بنی ھوئی تھی ،، خون آلود ننگے پاؤں ،، بھوک پیاس اور سفر کی تھکاوٹ سے کملایا ھوا چہرہ اور ایک ھاتھ میں پکڑے ھوئے دو جوتے ،، سختی سے بھنچی ھوئی مٹھی پر اس کی نظر تھی ،، وہ بڑے آرام کے ساتھ میرے پاس آیا اور کہنے لگا " بابا جی " آپ خفا ھو گئے ھیں ؟ میں نے اسے کہا کہ اس لڑکے کو آزاد کرو ! وہ کہنے لگا ،بابا جی وہ آزاد ھی ھے ،اس سے پوچھ لیں ،، ساتھ ھی اس نے اس لڑکے کو اشارہ کیا جو ھاتھ ناک پہ رکھے رکھے ھمارے پاس آ گیا ! یہ گفتگو نہایت آئستہ چل رھی تھی ! لوگ بھی متجسس ھو کر سننے کی کوشش کر رھے تھے کہ ھمارے درمیان کیا ھو رھا ھے ! اس نے لڑکے کو کہا کہ ھاتھ چھوڑ دے ،، لڑکے نے جھٹ ھاتھ نیچے گرا دیئے ،، اب وہ شعبدہ باز کہنے لگا کہ بابا جی اب آپ بھی مٹھی کھول دیں ،، میں نے لڑکے سے پوچھا کہ یہ کیا تھا ؟ اس نے کہا کہ بس ایویں ھی کر رھے تھے ! میں نے اپنی جوتیاں لڑکے کو پکڑائیں اور دوسری مٹھی بند کر کے اس کو بھی قابو کر لیا ،، اب وہ دونوں نامرد تھے ! میں نے جادوگر سے کہا کہ اپنا سامان تھیلے میں ڈالو اور میرے پیچھے پیچھے آؤ ! میں ان دونوں کو لے کر ابوذر والے ٹھیلے کے سامنے ایک درخت کے نیچے لے آیا ،، وھاں میں نے لڑکے سے کہا کہ وہ میلے میں گھوم پھر کر خوبانی کی گٹھلیاں چن کر لائے اور اسے خبردار کیا کہ اگر وہ بھاگا تو زندگی بھر نامرد رھے گا ،، جبکہ جادو گر سے حساب کتاب شروع کیا کہ کتنا کمایا ھے ،، غالباً اس نے ابھی تازہ تازہ ھی شو شروع کیا تھا ،کوئی 6 یا 7 روپے ھوئے تھے ، وہ میں نے اس سے لئے اور اس کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ خوبانی کی گٹھلیاں توڑ توڑ کر مجھے کھلاتا جائے ،یوں لڑکا چن چن کر لاتا رھا اور شعبدہ باز پتھر سے توڑ توڑ کر مجھے کھلاتا رھا ،، جی بھر گیا تو میں نے پیسے اس کو واپس کیئے اور وعدہ لیا کہ آئندہ وہ اس میلے پر نہیں آئے گا ! اس کے بعد میں نے مٹھیاں کھول دیں ،، وہ لڑکا جو ڈھونگ کے جڑواں گاؤں تراٹی کا تھا مجھے دبئ میں ملا جہاں وہ الصفا ڈیری کمپنی میں سپروائزر تھا ،، ھم بہترین دوست رھے پانچ سال پہلے ان کا انتقال ھو گیا جگر کے کینسر کی وجہ سے !
بس یہ میرا مردوں پر پہلا اور آخری استعمال تھا !
اس کے علاوہ ایک عورت پر اسے استعمال کیا تھا وہ بھی اس کی بیٹی کی ھمدردی میں ! میں گزر رھا تھا کہ ایک خاتون اپنی بیٹی کو جو کوئی تیرہ چودہ سال کی ھو گی گلی میں ھی پیٹ رھی تھی ، پاس ھی ھوٹل تھا جس کی دیواروں پہ بھی لوگ بیٹھے ھوئے تھے جیسا کہ دیہات کا رواج ھوتا ھے ،مجھے اس عورت کی جہالت پر بہت غصہ آیا جو اپنی جوان بیٹی کو تماشہ بنائے ھوئے تھی !
میں نے ھاتھ اس کی طرف کر کے مٹھی بند کر لی اور خاتون " ناخاتون" ھو گئ ،، اس نے بیٹی کو چھوڑ جھٹ دوپٹہ اپنے سینے پہ کیا مگر سینہ تھا ھی کہاں ،، وہ بار بار ھاتھ مارتی اور دوپٹہ آگے پیچھے گھسیٹ کراپنی کیفیت کے اضطرار کو چھپانے کی کوشش کرتی ،، وہ ھماری پڑوسن تھی اور میری والدہ سے بڑی تھی جبکہ اس کی بیٹی میری کلاس فیلو تھی ،اسکول الگ تھا مگر ھماری کلاس ایک ھی تھی ،، جب اس نے لڑکی کو چھوڑا تو لڑکی جھٹ اپنے گھر کو چلی گئ اور میں نے بھی مٹھی کھول دی ! اس کے علاوہ میں زندگی بھر اس صلاحیت کو استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی ! اور اب تو عرصہ گزر گیا سب کچھ ختم ھو گیا ،، اس قسم کی صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لئے سالانہ چلہ ضروری ھوتا ھے ! جس کی طرف کبھی دھیان ھی نہیں دیا
قاری صاحب کی باتیں:
میں بنیادی طور پر بریلوی حنفی خاندان سے تعلق رکھتا ھوں ،، میرے کچھ کزنز اب بھی متعصب بریلوی ھیں ،جو ھمارے جنازے پڑھنے کے روادار بھی نہیں ،، ھم دیوبندیت کی طرف نکلے ،، تو بھی کسی حد تک لوگوں کے لئے اچھنبے کی بات نہیں تھی کیونکہ آفٹر آل ساتھ حنفیت کا لاحقہ لگا ھوا تھا ! الحمد للہ آدھے سے زیادہ گاؤں توحید کی طرف لگ گیا اور گاؤں میں پردے کو رواج ھوا نیز شادی بیاہ اور ماتم داری کی رسوم ختم ھو گئیں ! مگر میرے چچا زاد مسلسل شرک و بدعت کا چکا چلانے میں مصروف ھیں !
پھر تیسرا چچا زاد اھلِ حدیث ھو گیا ! ایک تو ھوتا ھے خاندانی اھل حدیث ،، یہ متعدی نہیں ھوتا اور نہ ھی زیادہ collateral Damage کرتا ھے،، مگر یہ جو رستے سے اھلِ حدیث بنتے ھیں ،چونکہ یہ خاندانی نہیں ھوتے لہذا ان کا رویہ بھی خاندانی نہیں ھوتا ،، چونکہ ان کی کوئی مسجد گاؤں میں نہیں ھے لہذا یہ اپنی نماز کبھی گھر تو کبھی کسی کھیت کے " بنے " پہ پڑھ کر جھٹ پٹ ھماری مسجد کے باھر آ کر کھڑا ھو جاتا اور نکلنے والے نمازیوں کو پکڑ پکڑ کر بتاتا کہ ان کی نماز نہیں ھوئی کیونکہ رفع یدین نہیں کیا ،،نیز تم مشرک ھو گئے ھو کیونکہ تم نبیﷺ کی بجائے ابوحنیفہ پر ایمان لائے ھو ! یہ سلسلہ ھم نے برداشت کیا اور اپنے امام صاحب کو بھی سمجھایا کہ اشتعال انگیز کوئی بات نہ کی جائے !
اب گاؤں کے تالاب پر کپڑے دھونے والی عورتیں ،،،،، کافی زوردار گالی دے کر کہتی ھیں " سنا ھے پیراندتہ کا تیسرا پوتا کوئی نیا مذھب لے آیا ھے "
ایک صاحب ھیں انڈیا سے تعلق ھے ،، انہوں نے مجھے پیش کش کی کہ وہ میری ویب سائٹ بنا دیں گے ! میں نے عرض کیا کہ جناب ضرور بنا دیں ،، دین کا کام ھے اپنا حصہ ڈال دیں !!
انہوں نے ایک صاحب سے بات کی جو ان کے دوست تھے ،، ویب سائٹ بن گئ ،، جب مواد اپ لؤڈ کرنے کی باری آئی تو وہ صاحب خاموش ھو گئے ،، چھ ماہ بعد پوچھا بھائی کیا بات ھے ؟
فرمانے لگے ،،میں سلفی ھوں اور صرف سلفی پؤائنٹ آف ویو کو پروموٹ کرتا ھوں ،،میں آپ کو سلفی سمجھا تھا ،، مگر آپ کے مواد کو چیک کر کے پتہ چلا کہ آپ سلفی نہیں ھیں ،، اس لئے میں یہ کام نہیں کر سکتا ،اب اس ویب سائٹ کا نام بھی ان کے پاس یرغمال ھے !
اس قدر پڑھے لکھے سوفٹ ویئر انجینئر کے اندر اس قدر زھر کس نے بھرا ھو گا ؟
دوسری طرف وہ جس ادارے میں کام کرتے ھیں وہ سر سے پاؤں تک سود میں لتھڑا ھوا ھے مگر وھاں ان کی سلفیت کو کوئی خطرہ نہیں
نبئ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو خیبر میں زھر دیا گیا تھا ،جس کے اثرات کو اللہ پاک نے نبی کریم ﷺ کا مشن مکمل ھونے تک مؤخر کر دیا !مگر آپ اس زھر کی وجہ سے جوڑوں کے درد میں مبتلا ھو گئے ،جو کبھی خفیف ھوتا تو کبھی شدت اختیار کر لیتا ،یہانتک کہ آخری نماز میں آپﷺ کو مصلے تک اس حالت میں لایا گیا کہ دوصحابہ نے آپ کو شانوں سے سہارا دیا ھوا تھا اور آپکے قدم مبارک زمین پر گھسٹ رھے تھے ! مگر جب کام مکمل ھو گیا تو وہ درد شدت کے ساتھ حملہ آور ھوا اور آپ ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہؓ سے فرمایا کہ خیبر میں دیا جانے والا زھر میری رگِ جاں کاٹ رھا ھے !
نبی پاک کے پرانے ساتھی جن کو نبی پاک ﷺ نام لے لے کر بلاتے اور اپنے پیچھے کھڑا کرتے تھے ، ھر ایک کو ان اصحاب کی جگہ معلوم تھی کوئی ان کی موجودگی میں ان کی جگہ کھڑا نہیں ھوتا تھا،، اگر کوئی نیا شخص وھاں کھڑا ھو جاتا تو حضورﷺ خود اس کو پیچھے ھٹا کر اس فقیہہ صحابی کو اس کی جگہ کھڑا کرتے ! جس دن نبی کریم کا درد شدت سے حملہ آور ھوتا تو آپ التحیات میں اپنے روٹین کے طریقے سے نہ بیٹھ سکتے اور پاؤں اپنے نیچے سے کھسکا کر بوجھ سے آزاد کر دیتے !
آپ کے واقفِ حال صحابہؓ جان لیتے کہ آج نبی کریم ﷺ کا درد شدت اختیار کر گیا ھے۔، مگر وہ اسی سنت طریقے پر بیٹھے رھتے جو کہ نبی پاک کی عادت مبارکہ تھی،،مگر کوئی نیا مسافر جب آتا تو وہ اس کو سنت سمجھ لیتا ،، اور انہی سے پھر محدثین نے اسے سنت کے نام سے لیا - جبکہ خلفائے راشدین سے اس طرح کا بیٹھنا ثابت نہیں ھے ! جب انسان پر اپنے پاؤں پر کھڑا ھونا واجب ھے تو اپنی ھی ٹانگوں پہ بیٹھنا بھی سنت ھے ،، دوسروں کی گود میں نہیں !
نبی کریمﷺ تو امام تھے آپﷺ کے دائیں بائیں کوئی نہیں ھوتا تھا لہذا حضورﷺ کے اس طرح پاؤں نکال کر سائڈ پر ھو کر بیٹھنے سے کسی کو تکلیف نہیں ھوتی تھی ! مگر مقتدی تو نمازیوں کے درمیان پھنسا ھوتا ھے ، وہ تو لازم نکل کر بیٹھے گا تو دوسرے کی جگہ مارے گا یا اس کے پاؤں پر جا بیٹھے گا ،، جب اس بیٹھنے کو سنت کہا جانے لگا تو پھر اس کا حل بھی نکالنا پڑا ! ھر نمازی دو آدمیوں کی جگہ گھیر کر کھڑا ھوتا ھے ،ایک آدمی کی جگہ قیام کے لئے اور دوسرے آدمی کی جگہ اپنے بیٹھنے کے لئے !
یوں ٹانگیں چوڑی کر کے دو آدمیوں کی جگہ گھیرنا ایک خاص ٹریڈ مارک بن گیا ،،جب کہ نبی کریمﷺ اور صحابہؓ سے اس طرح چوڑی ٹانگیں کر کے کھڑا ھونا ثابت نہیں ھے ! مگر ان چوڑی ٹانگوں کا بھی سائڈ ایفیکٹ نکل آیا ،،
ٹانگیں چوڑی کر کے ایریا تو زیادہ کور کر لیا مگر پھر ساری نماز اس ایریئے کو کور کرنے میں خرچ ھو جاتی ھے اور بندہ نماز میں دائیں بائیں پاؤں چلاتا ھی رھتا ھے ،،اگر فطری انداز میں کھڑا ھو تو پاؤں خود بخود اپنی فطری جگہ پر ھی کھڑے ھوتے ھیں اور توجہ نماز کی طرف مبذول رھتی ھے !
اس کے نام جسے خدا کی تلاش ھے ! مگر وہ اپنے آپ کو دہریہ کہتا ھے !
اگر آپ کو دھریت پہ یقین ھے تو پھر تلاش کیسی ؟
اور اگر تلاش ھے تو پھر دھریت پہ ایمان کیسا ؟
اگر اللہ کی ذاتِ اقدس کے بارے میں شک پیدا ھو جائے تو یقین نکل جاتا ھے،، جب تک یقین ھو ، شک پیدا نہیں ھوتا ! یہ دو اضداد ھیں ،، جن کا ایک جگہ جمع ھونا نہ عقل تسلیم کرتی ھے نہ منطق اور نہ سائنس !
پھر دھریت کے بارے میں شک پیدا ھو جائے تو اس پر یقین و ایمان کیسا ،، کیسے اور کس طرح لوگ اپنا تعارف دھریت کے حوالے سے کرا لیتے ھیں !
اگر آپ مومن نہیں تو آپ دھریئے بھی نہیں ،، آپ تلاش میں ھیں ! آپ سب سے پہلے اپنے موقع و محل کا ٹھیک ٹھیک جائزہ لیں ،،یہیں سے خدا کی تلاش شروع ھوتی ھے ! جب بھی آپ کسی سے رستہ پوچھتے ھیں تو وہ آپ سے پہلا سوال یہ کرتا ھے کہ آپ ھو کس جگہ ؟
آپ ھو کس جگہ ؟
جو شخص یہ تک نہ بتا سکے کہ اس کی لوکیشن کیا ھے ،، وہ کس مقام پہ کھڑا ھے ،، اس کے قریب کوئی بڑی اور اھم عمارت ،،کوئی مشہور اسپتال ،،کوئی فارمیسی ،،کوئی پارک کوئی بینک ،، ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ایسے شخص کی مدد کوئی بھی نہیں کر سکتا - ایسے بندے شہر کا میئر بھی رستہ نہیں بتا سکتا،، جو اپنے مقام سے غافل ھو !
گویا گھوم پھر کر بات انسان کی اپنی ذات پر آ جاتی ھے ! جو اپنے آپ کو پہچانے گا ، اپنے مقام اور اسٹیٹس کو پہچانے گا ،، بس پلٹ کر دیکھے گا تو رب کو سامنے پائے گا ،،
کائنات میں اپنا مقام دیکھو ؟ ایک دن سر سجدے میں رکھ کر اسے اپنی مادری زبان میں بتا دو کہ تم کہاں کھڑے ھو ؟ چھوڑ گئے ھو تو بھی بتا دو ،،کوئی نوٹس دے دو اسے ،، کسی ادارے کو بھی بندہ چھوڑتا ھے تو کوئی الزام لگاتا ھے ،، کوئی عذر پیش کرتا ھے ،، جتنی اعلی پوسٹ پہ ھوتا ھے اتنا قوی سبب بیان کرنا پڑتا ھے تو لوگ یقین کرتے ھیں ،، رب کی نیابت کو ترک کرنے کا سبب تو بتاتے جاؤ اسے ،، چلو الزام ھی لگا دو ،، میں یقین سے کہتا ھوں کہ جس دن تم نے سر سجدے میں رکھ اس سے اپنی مادری زبان میں گفتگو شروع کی - بات تمہید سے آگے بڑھ ھی نہیں سکے گی ،، وہ تمہیں اس طرح اپنی طرف کھینچے گا جس طرح سمندر قطرے کو کھینچ لیتا ھے تم اپنی بات مکمل نہیں کر پاؤ گے ،،
افسوس یہ ھے کہ اللہ کے کلام کو ھم سمجھتے نہیں ،، اور اپنی زبان میں اس سے بات کرتے نہیں ،،نہ ھمیں نماز میں خدا ملتا ھے ،نہ نیاز میں خدا ملتا ھے،، نہ راز ونیاز ھوتے ھیں نہ دل ھلکے ھوتے ھیں ،، انسان اگر عربی سے واقف ھو تو اللہ کا طرز تخاطب ھی انسان کو اللہ کے پیار سے اس طرح بھر دیتا ھے جیسے شہد کا چھتہ شہد سے بھرا لِچ لِچ کرتا ھے ! انسان الفاظ کی بھول بھلیوں میں کھو جاتا ھے ،، الفاظ پیار کھا جاتے ھیں ،،بعض دفعہ کہنے سے زیادہ چپ کر کے اپنے آپ کو اللہ کے آگے ڈال دینا زیادہ سودمند ھوتا ھے ،، جذبوں کو بےلگام چھوڑ دینا زیادہ اچھا ھوتا ھے،، الفاظ رب کی طرف سے آتے ،وہ الفاظ زندگی ھوتے ھیں وھی روح ھوتے ھیں ،، فتلقی آدم من ربہ کلماتٍ ،، فتاب علیہ ،،، آدم علیہ السلام نے صرف آنسو دیئے تھے ،، الفاظ رب نے دیئے تھے !
چلئے میں حسن ظن رکھتا ھوں کہ آپ نے اپنے آپ کو اللہ کے حضور پیش کر دیا ،، اس نے پوچھا کہاں سے رستہ بھولے تھے ؟ تو آپ کے پاس کیا جواب ھو گا ؟ بتانا پڑتا ھے ناں کہ میں نے فلاں جگہ سے دائیں یا بائیں ٹرن لے لیا ھے تا کہ اگلے کو پتہ چلے کہ آپ کس رخ پہ ھیں ؟ یہ سوال اللہ پاک ھر بھولنے والے سے کرتا ھے !
یا ایہا الانسان ! مَا غَرَۜک بِرَبِک الکریم ؟ ائے حضرتِ انسان تمہیں اپنے رب جیسی کریم ھستی کے بارے میں دھوکا کہاں سے لگا ؟ الذی خلقک ،فسواک ،فعدلک ،، فی ائ صورۃٍ ما شاء رکبک؟؟؟
وہ تمہیں سیدھا مسٹر وائی نام کے اس دُمدار کیڑے کے سامنے لا کھڑا کرتا ھے ،، یہاں سے تو چلا تھا ناں ؟ افرأیتم ما تمنون ؟ جو تم ٹپکاتے ھو اسے کبھی غور سے دیکھا ھے؟ یہاں سے تو چلا تھا ،، اسی گندگی سے نکلا تھا تو ،،تو جس کپڑے کو لگا وہ کپڑا چھونے کا روادار بھی کوئی نہ تھا ،اسے پاؤں کی ٹھوکر سے ھینڈل کیا جاتا تھا ،، ھم نے تمہیں اٹھا لیا ،، اپنی جسامت کو دیکھ ! یہ 6 فٹ والی نہیں وہ نمک کے دانے کے پچاسویں حصے والی جو کھلی آنکھ سے نظر بھی نہیں آتی تھی ،، تیرے اس حجم کے حساب سے رحم مادر تک تجھے جانے میں 25 ھزار کلومیٹر کا سفر کرایا گیا،تیرے دائیں بائیں محافظ لگائے گئے رستے میں ھر کیمیکل تجھے کھانے اور مارنے کو کافی تھا ،مگر ھم تمہیں لے گئے تیری منزل تک،، تیری والدہ میں جو تیرا آدھا حصہ رکھا تھا تجھے اس سے جا ملایا ،،
أانتم تخلقونہ ام نحن الخالقون ؟ اب اس مسٹر وائی کو ھم نے تخلیق کے مراحل سے گزارا یا تم نے پیدا کیا یا وہ کیڑا خود ھی فیصلے کر رھا تھا ؟
چلئے آ پ کہتے ھیں کہ وہ تو جینز فیصلے کر رھے تھے ، بفرض محال ھم بھی مان لیتے ھیں کہ بقول آپ کے جینز شکل و صورت کے فیصلے کر رھے تھے، اور ان جینز کے پیچھے کسی بڑے کا ارادا نہیں تھا !!
مگر باپ بھی وھی ھے ،، پھر ایک مسٹر وائی بھی وھی ھے ،، تیری ماں بھی وھی ھے ،، فیمیل ایگ بھی وھی ھے ،، ڈی این ائے بھی وھی ھے !
پھر تیرے بھائی کی شکل کیوں اور ھے ؟ تیری اپنی تھیوری کے مطابق اسے تیرے جیسا ھونا چاھئے تھا ناں ،،
بدلا کیا ھے جو تیرے بھائی کی شکل بدل گئ ھے ؟ فی ای صورۃٍ ما شاء رکبک ! یہ کسی اور کا ارادہ بدلا ھے کہ تیرے بھائی کی شکل تجھ سے الگ بنائی جائے !! بس وھی خدا ھے ،، وھی جو یخلقکم فی بطون امہاتکم خلقاً من بعد خلقٍ فی ظلماتٍ ثلاث ،، جو تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ میں ایک کے بعد ایک شکل دیئے چلے جاتا ھے ،، اور وہ بھی تین اندھیروں کے اندر !!! وہ تو تمہیں اندھیروں میں ڈیویلپ کر کے روشنیوں میں لایا تھا ،، اور تم پلٹ کر پھر اندھیروں میں جا پھنسے ھو ! توبوا الی اللہ ،، پلٹو اللہ کی طرف،،، اللہ ھی کائنات میں روشنی کا واحد سورس ھے ،، باقی سارے ذرائع اس کی مخلوق ھیں،، اللہ نور السماوات والارض ،، روشنی کا سورس آسمان پر ھو یا تمہاری اپنی ذات کے اندر کا Visual System ھو اس کا خالق صرف اور صرف اللہ ھے،، وھی اللہ جو آج تمہیں نظر نہیں آتا حالانکہ وہ ھر چیز کے پیچھے سے جھانکتا ھے،،
کھول آنکھ زمیں دیکھ ، فلک دیکھ ، فضا دیکھ !
مشرق سے ابھرتے ھوئے سورج کو ذرا دیکھ !
پرانے زمانے میں حکیم لوگ جب کسی کو دوا دیتے تھے تو فرمایا کرتے تھے !
اسے نہار منہ مکھن میں رکھ کر کھا لینا !
دوا کام کرے یا نہ کرے ،، مکھن کام کر جاتا تھا !
مذھب میں مسلمان کو زھر کھلانا ھو تو اسے کچھ اس طرح بیان کیا جاتا ھے !
اسے قوالی کے ساتھ رکھ کر کھا لینا !
زھر کام کرے نہ کرے قوالی اپنے ڈرائیورز انسٹال کر لیتی تھی !
پھر جو چاھو کھلا دو ،، مومن صوفی میراں کی بھینس کی طرح سر ھلاتے ھلاتے کھا لیتا ھے ( واضح رھے یہ صوفی میراں مرحوم ھمارے گاؤں کے تھے جن کی بھینسیں تھیں ) !
یا اسے اس کے کسی بزرگ کی سوانح عمری میں رکھ کر پڑھا دو یا چٹا دو !
پھر چاھے اس کے بزرگ کو خدا بنا دو ،، وہ بڑے آرام کے ساتھ مان لے گا !
مگر سب سے بڑا معجزہ یہ ھو گا کہ وہ پھر بھی مؤحد رھے گا !
سلمان تأثیر کو پاکستانی قانون کی ایک شق کو کالا قانون کہنے پر توھین رسالت کے نام پر قتل کرنے والے نبئ کریم کی ذاتِ اقدس کے بارے میں کتنی بڑی گستاخی کو شیرِ مادر سمجھ کر کس طرح پیتے ھیں ؟
یہ قوالی تقریباً ھر بس ، ویگن اور ٹیکسی میں آپ کو مل جائے گی !
" میں جانا جوگی دے نال ،میں جانا جوگی دے نال نال !
میں جوگی دے نال نال ، جوگی میرے نال نال !
متھے تلک لگا کے کنیں مندراں پا کے میں جانا جوگی دے نال !
جوگی نئیں اے روپ ھے رب دا !
بھیس جوگی دا اینہوں پھبدا !
ایدا پایا کسے نہ پایا !
دو جگ اُتے اس دا سایہ !
سچ آکھاں میں قسم قرآن اے !
جوگی میرا دین ایمان اے !
ایہہ جوگی ،جوگی متوالا !
ہتھ وچ الا اللہ دی مالا !
نام ھے اس دا کملی والا !
نی میں جانا جوگی دے نال !
یہ بات کون نہیں جانتا کہ ھر مذھب کے مذھبی شعائر ،الگ الگ نام اور شناخت رکھتے ھیں !
کوئی شخص مسجد کو مندر کہے گا تو وہ اسلام کی توھین کرے گا !
گیتا کو قرآن کہے گا تو اسلام و قرآن کی توھین کرے گا !
جوگی ھندو مذھبی لیڈر کو کہا جاتا ھے،،!
نبی کریم ﷺ کو جوگی کہنا ھی آپﷺ کو ھندو کہنا ھے ،،معاذاللہ ،، ثمہ معاذاللہ مگر لوگ پاؤں ھلا ھلا کر اس زھر کو پیتے اور گنگناتے ھیں !
ایسا نہیں ھے کہ علماء میں سب برابر ھیں - 70٪ سے زیادہ علماء اس قسم کی دیومالائی کرامات کو نہیں مانتے ، مگر مدارس نیٹ ورک پر گرفت اقلیت کی ھے ،جس کی وجہ سے یہ اکثریت اپنی روزی روٹی کے لئے ان مدارس میں زبان بند کیئے پڑھا رھی ھے - میرا ان باکس ایسے علماء کے پیغامات سے بھرا پڑا ھے جو اس بات کے حامی ھیں کہ توحید کے بارے میں ھمارے قول و فعل میں تضاد پایا جاتا ھے !
مگر !!
جو کوئی ان اکابر کی طلسمی دنیا سے بغاوت کرے یا ان کی کرامات کا انکار کرے !
انڈر گراؤنڈ رہ کر جینے پر مجبور کر دیا جاتا ھے !
نہ کوئی مسجد والا اس کو امام یا خطیب رکھتا ھے ! نہ کوئی اس کے درسِ قرآن میں بیٹھتا ھے
نہ اس کی کتاب بکنے دی جاتی ھے !
اور ایک باطنی تحریک کی طرح سینہ بسینہ اس کے راندہ درگاہ ھونے کی بات نہ صرف پورے ملک بلکہ بیرون ملک بھی پہنچا دی جاتی ھے ! ھر بستر اور لوٹے کے ساتھ تیسری چیز وہ سینہ گزٹ ھوتی ھے !
اس کے خلاف کوئی کتاب نہیں چھاپی جائے گی !
کیونکہ کتاب کے لئے دلیل چاھئے ھوتی ھے !
کوئی مناظرہ اور مجادلہ نہیں ھوتا !
بس سسٹم کو کمانڈ دے دی جاتی ھے اور سسٹم کا چکا چل پڑتا ھے اور اور وہ بندہ اس درخت کی طرح مرجھا کر مر جاتا ھے جسے پانی ملنا بند ھو جائے ،، یا اس شخص کی طرح معاشی موت کا شکار ھو جاتا ھے ،جس کے آکسیجن پائپ پر کوئی پاؤں رکھ کر نہایت معصومیت سے سورہ یاسین پڑھتا رھے !
سفاکی اتنی ھے کہ اس میں اپنے بھائی بھتیجے یا بیٹے تک کو معاف نہیں کیا جاتا ،، جس طرح بنو امیہ نے بڑے بڑے جرنیل خود اپنے ھاتھوں مار دیئے ھیں ،، اسی طرح نہایت اعلی درجے کے مؤحد ذھن ،، نہایت بے رحمی سے محصور کر کے سسک سسک کر مرنے پر مجبور کر دیئے گئے !
اسے جڑانوالہ قصبے سے اپنے گاؤں جانا تھا ، یہ قصبہ منڈی ھونے کی وجہ سے بارونق تھا ،مگر لوگ سرِ شام ھی واپس دیہات کو سدھار جاتے تھے اور قصبے میں شام کو ھی رات اتر آتی تھی !
جڑانوالہ سے جانے والی آخری بس اڈے میں کھڑی تھی ، پوری بس میں صرف سات سواریاں تھیں اس لئے ڈارئیور بھی ٹکٹ دینے والے کلرک کے برابر میں بینچ پر جا کر بیٹھ گیا تھا ،، سواریوں کے دل وسوسوں میں گرے تھے ، بس جائے گی بھی یا نہیں ؟ تمام سواریاں دیہات کی تھیں، اس لئے اس تاخیر کا ایک ایک لمحہ انہیں اندیشوں میں مبتلا تھا ،خود اسے یہ خیال ستائے جا رھا تھا کہ چار میل کا وہ ٹکرا جہاں سے اسے پیدل جانا تھا کیسے طے کرے گا ! اکا دکا چائے کی دکانیں کھلی تھیں باقی بازار بند ھو چکا تھا- بس کے قریب ھی ایک چھابڑی فروش چھابڑی پر لالٹین رکھے وقفے وقفے سے آواز لگاتا تھا،، اس چھوٹے سے قصبے میں کوئی ھوٹل بھی نہیں تھا کہ جاہں رات گزاری جا سکے ! اور دیہاتی تو اس کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے انہیں بس اپنے گھر جانا تھا چاھے رات آدھی گزر جائے !
ایک سواری نے سر شیشے سے نکال کر ڈرائیور سے پوچھا بھائی جاؤ گے نہیں ؟ ڈارئیور نے کہا کہ جائیں گے کیوں نہیں بس ایک آدھ سواری آ جائے تو چلتے ھیں،،کیا خالی بس لے جاؤں ؟ ڈارئیور کے جواب سے امید کی کرن جاگی تو ایک سواری نے مڑا تڑا مسلا ھوا سگریٹ نکالا اور دوسرے آدمی سے ماچس لے کر جلایا اور ایک لمبا کش لے کر امید کا دھواں بس میں پھیلا دیا !
اچانک بس کے قریب سے اندھیرے میں سے کسی فقیر کے اکتارے کی آواز گونجی !
ایمان سلامت ھر کوئی منگے ، عشق سلامت کوئی ھُ۔و !
ایمان منگن شرماون عشقوں ، دل نوں غیرت کوئی ھ۔ُو !
آواز میں عجیب سی لوچ اور لذت تھی، اندھیری رات میں اکتارے کی آواز ٹپا کھا کر دل کے تاروں کو چھو رھی تھی ! آواز قریب آتی جا رھی تھی، اس نے شیشے سے باھر دیکھا تو چھابڑی والے کی لالٹین کی روشنی میں ایک فقیر کندھے پہ اپنی گُدڑی رکھے اکتارے کو شانے سے ٹکا کر بجاتا ھوا بس کی طرف آ رھا تھا ! فقیر عین اس کے شیشے کے سامنے آ کر کھڑا ھو گیا تھا ، گویا اسے اسی سوٹڈ بوٹڈ بابو سے کچھ ملنے کی توقع تھی ! اس نے اکتارے کے تاروں پہ شہادت کی انگلی رکھی اور اپنا پیغام شروع کر دیا !
جس منزل نوں عشق پہنچائے ، ایمانوں خبر نہ کوئی ھُو !
میرا عشق سلامت رکھیں ، ایمانوں دیاں دھروئی ھ۔۔ُو !
اکتارے والے کے بول اگرچہ اس کے من کے تار ھلا رھے تھے مگر انگریزی ،فرانسیسی ،اور روسی ادب میں ماسٹر کرنے والا ،ایک مدعئ شریعت شخص ایک دیہاتی بھک منگے کو غیر شرعی اک تارے پر پنجابی بیت کی داد کیسے دے سکتا تھا؟ اس نے منہ دوسری طرف کر لیا گویا کہہ رھا ھو کہ بابا جاؤ معاف کرو ،مگر بابا بھی شاید آیا نہین بھیجا گیا تھا کہ آج عشق کا پودا اس کے اندر لگا کر جانے کا تہیہ کیئے بیٹھا تھا ، اس کے اکتارے کی ھر ضرب کے ساتھ اسے یوں لگتا تھا جیسے ستارے بھی جنجھنا اٹھتے ھیں ساتھ اس کا دل بھی جھول رھا تھا ،،اس نے اپنے آپ سے سوال کیا یہ عشق کیا ھے ؟ یہ کیسی آرزو ھے کہ رومی ،حافظ ، اقبال سبھی اس کے آرزومند رھے ھیں ؟!اس سے پہلے کہ اس کا دل کوئی جواب دیتا اکتارے والے نے پھر تان اٹھائی !
اندر وی ھ۔۔ُو ، باھ۔۔۔۔۔ر وی ھُ۔۔۔۔و ، باھُ۔۔۔۔۔و کتھے سبھیوے ھ۔۔ُو ؟
ریاضتاں ک۔۔۔ر ک۔۔۔۔۔۔ر آھ۔۔۔اں ت۔۔۔وڑے، خون جگر دا پیوے ھ۔ُو !
لک۔۔۔ھ ھ۔۔۔۔۔۔زار کتاباں پڑھ کے ، دانشمن۔۔د سدِیوے ھُ۔۔و !
نام فق۔۔۔یر تن۔۔ہاں دا باھ۔۔۔ُو ، ق۔۔۔بر جنہ۔۔اں دی جی۔۔وے ھ۔ُو !
اندر بھی وھی ھے باھر بھی وھی ھے،پھر باھو کے لئے کونسی جگہ بچی ھے ۔فقیر تو اندر باھر اسے دے کر خود قبر میں جا کر جیتے ھیں تب ھی فقیر کہلاتے ھیں !
کرسی پر بیٹھے ڈرائیور نے اکتارے والے کو آواز دی ،اے بابا ادھر آؤ،،
اکتارے والا اپنی نپی تلی رفتار سے چلتا ھوا ڈرائیور کی طرف چلا گیا گویا کوئی اسے تیز قدم اٹھانے پہ مجبور نہیں کر سکتا تھا ! ڈرائیور نے جیب سے کچھ نکال کر اسے دیا اور مزید لمبا ھو گیا ،، اس پر ایک سواری نے پھر پوچھا استاد جاؤ گے نہیں ؟ استاد نے ایک فلسفیانہ جواب دیا ،، ھم چلنے ھی کے لئے تو آئے ھیں ، بس وقت آنے پہ چل دیں گے ،، گاڑی میں ایک لڑکا ،ایک بوڑھا اور ایک نوجوان رہ گیا تھا ،وہ بھی گاڑی سے اتر آیا اور بس کے الٹے رخ منہ کر کے کھڑا ھو گیا گویا وہ دوسروں سے کوئی الگ تھلگ مخلوق تھا ! مگر باھو کے ابیات مسلسل اس کے اندر بج رھے تھے ! اور اس کی عقل اس کے دل سے سوال کر رھی تھی کہ عشق کیا ھوتا ھے !
اچانک اس نے جو سر اٹھایا تو اکتارے والا بالکل اس کے سامنے کھڑا اسے گھور رھا تھا ! اس کا جی چاھا کہ وہ اکتارے والے کا دامن پکڑ لے اور اسے کہے کہ بابا وہ ابیات پھر سناؤ،مگر اس کے اندر کا ثقافت یافتہ (Civilized ) بابو ایک دفع پھر آڑے آ گیا ،، اس نے اس کو یہ سوال کرنے سے روک دیا ۔۔اس نے اپنی جیب کی طرف ھاتھ بڑھایا اور اچانک یوں لگا جیسے اس پر سے علم و ادب کے وقار ،خودداری ،علمی برتری سب برف بن کر پگھل رھے ھیں ،، اچانک وہ سوال اس کے لبوں سے پھسل گیا،، بابا آپ نے عشق کی سلامتی مانگی ھے ، یہ عشق کیا ھوتا ھے ؟
فقیر بڑھاپے کی دہلیز پہ کھڑا تھا اس کی داڑھی میں کہیں کہیں کالا بال تھا، گودڑی اس کے بائیں کندھے پر تھی اور لالٹین کی لو اس کی آنکھوں میں ٹمٹما رھی تھی ! اس نے آئستہ سے کہا ۔، میاں جی بھوک کیا ھوتی ھے ؟ اس نے کوئی جواب دینا چاھا ،، مگر الفاظ اس کے ھونٹوں پہ آ آ کر ٹوٹ رھے تھے ، فقیر نے یہ کیا بات کر دی تھی ،، بھوک تو ایک کیفیت ھے ،کیفیت کیسے بتائی جا سکتی ھے ،،convey کی جا سکتی ھے،،بھوک تو بس لگ کر ھی بتاتی ھے کہ میں یہ ھوں ! کیا فقیر یہ کہنا چاھتا ھے کہ بابو جی عشق میں مبتلا ھوئے بغیر عشق کا پتہ نہیں چلتا ،،نہ عشق عشق کرنے سے عشق منتقل ھوتا ھے ،، نہ آگ اگ کرنے سے آگ لگتی ھے ،، ایک خیال آرھا تھا اور جا رھا تھا کہ اچانک فقیر نے ھولے سے کہا !
میاں جی بھوک نہ ھو تو روٹی بھی نہیں کھائی جا سکتی ! یہ کلائمیکس تھا ،، اندر پندار کے بت چھن چھن ٹوٹ رھے تھے،، عشق نہ ھو تو ایمان بھی بوجھ بن جاتا ھے لوگ جان چھڑاتے پھرتے ھیں اس بےعشق کے ایمان سے ،، عشق ایمان کا قلعہ ھے ،، وھی اس کا دفاع کرتا اور اس کی خاطر جان دینے کا حوصلہ دیتا ھے ،،بے محبت کا ایمان صرف عبداللہ ابن ابئ پیدا کرتا ھے !
زندگی بھر کے پڑھے گئے سارے فلسفے آج اس ایک جملے کے سامنے ھاتھ باندھے کھڑے تھے !
بابو جی بھوک نہ ھو تو روٹی بھی نہیں کھائی جاتی ، کھانا بوجھ بن جاتا ھے !