شمشاد
لائبریرین
آپ مغل بھائی کی فیاضی میںروڑے نا اٹکایئں ان پا جی
ان کے زمانے میں تو روڑے ہوتے ہی نہیں تھے، یہ تو سیدھا سیدھا دیوار میں چنوا دیتے تھے۔
آپ مغل بھائی کی فیاضی میںروڑے نا اٹکایئں ان پا جی
انیس صاحب! ان کی ہم سے ملاقاتیں تو چار سے بھی زائد ہوئیں لیکن اب انھوں نے جان چھڑا لی ہمارے کراچی چھوڑنے کا عذر پیش کر کے تو کیا کیا جا سکتا ہے۔ہائیں پر جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے پہلے آپ نے کہا تھا کہ ابھی دوسری اور تیسری ملاقات کا قصہ باقی ہے جبکہ آپ کی چوتھی ملا قات بھی ہوچکی تھی۔ اب کہاں کہا تھا یہ یاد نہیں ہے
ہاہاہاقصہ ” فاتح“ سے ” مفتوح “ کی پہلی ملاقات کا(مفتوح کی وضاحت آگے چل کر ہوگی )
شام ۵ بجے کے قریب لوحِ برقیات پر دستک ہوئی ، ہم نے ناب گھما کر رابطہ استوار کیا تو دوسری جناب ” فاتح الدین بشیر “ تھے ، دعا سلام کے بعد معلوم ہو ا کہ جناب شہرِ خرابی ( کراچی) میں سکونت پزیر ہوچکے ہیں پہلے تو خبر ہوئی کہ جناب مرکزی کتب خانہ ( ڈیفنس سینٹرل لائبریری) کے سامنے ہی کہیں معاشی جنگ لڑنے کیلیے موجود ہیں مجھے دفتر سے نکلنے میں دیر تھی سو طے ہوا کہ جناب کے دولت کدے پر ملاقات ہوگی سعودی سفارتخانہ سے ساحلِ سمندر جاتے ہوئے ” کھڈہ مارکیٹ “ کے بعد جناب کی رہائش گاہ ہے ۔ خیر۔ اللہ اللہ کرکے شام چھ بجے ہم اپنے دفتر سے نکلے سردی کا زور زیادہ تھا لہذا خود کو اونی کپڑوں میں باندھ کر ہم باہر آئے رفیقہِ سفر ” بلیلہ “ کی باگیں تھامے ہوئے لات رسید کرنے کے بعد ایڑھ لگائی اور چل میرے گھوڑے ٹک ٹک ٹخ، کرتے ہوئے ہم کورنگی ایکسپریس وے سے خراماں خراماں چل پڑے راستے میں دو ایک بار جناب نے پھر رابطہ کی کوشش کی ایک لمحے کو ہم نے سوچا کہ بھئی ہم تو ہوگئے بڑے آدمی کہ فاتح جیسی شخصیت ہم سے ملنے کو اتنی بے صبری کا مظاہرہ کررہی ہے ۔بہر کیف سب میرین (آبدوز) چورنگی سے ہم نے بلیلہ کو گزری کالونی کی طرف موڑ لیا کہ راستہ بند تھا بعد میں خبر ہوئی کہ آج ۸ محرم ہے اور جلوس نکل رہا ہے ۔ خیر جناب جیسے تیسے ہم فاتح صاحب کے گھر کے سامنے رکے اور جناب کو فون کیا ہم نے کہا کہ جناب ہم آپ کے دروازے پر کھڑی لمبی ی ی ی ی ی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ سی سفید کرولا کے قریب ہیں ۔ جناب لمبے لمبے ڈگ بھرتے سیڑھیوں سے اترنے لگے تو پوری گلی ان کے ” فوجی “ جوتوں کی دھمک سے لرز اٹھی اریب قریب کے درختوں پر آرام کرتے ہوئے پرندوں نے زلزلے کی آمد جان کر شور مچا نا شروع کردیا (یہ توبعد میں ہمیں معلوم ہو اکہ گارڈ آف آنر تھا)۔ ہلکی سی چرچراہٹ کے ساتھ ایک بڑے سے سیاہ آہنی دروازے سے ایک صوفی منش نوجوان جس کی عقابی سیاہ آنکھوں میں بجلیاں تیرتی نظر آتی تھی،ستواں ناک ، تراشیدہ ہونٹ ،ہلکی ہلکی چنگیزی مونچھیں اور تھور زدہ داڑھی ،کانوں کی لویں بالوں سے ڈھکی ہوئی ، سخت کھردرے ہاتھ ، ایک کلائی میں قیمتی گھڑی، خیر اس لمبے تڑنگے نوجوان سے جب ہم بغلگیر ہوئے تو پتہ چلا سینے میں ایک نازک سادل ہے جو احساس کی آنچ پر ہمک رہا ہے اور اس سے مسلسل من وتو کی صدائیں آرہی ہیں ۔اسی لمحے فراز کا شعر یاد آیا تو سر جھٹک کر ہم بغلی دروازے سے اندر داخل ہوئے ” فاتح الدین بشیر“ سکندرِ اعظم کی طرح فاتحانہ چال سے آگے چلتے ہوئے رہنمائی فرما رہے تھے ۔ زینے اور راہداری عبور کرکے ہم ایک ” کابکِ کبوتراں “ میں داخل ہوئے سامنے ایک بھاری بھرکم سی میز جس کے دو طرف کرسیاں بچھی ہوئی تھیں۔میز پر لیپ ٹاپ اور ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر بے شمار تاروں سے منسلک تھے ۔میرے دائیں جانب کتابوں کی ایک الماری تھی جس میں اسالیب ِ شعری اور دیگر موضوعاتی کتب ” میبل اور میں “ کی یاد لاتی تھیں۔رسمی گفتگو کے بعد کچھ ادبی گفتگو رہی اسی دوران سیالکوٹ سے محمد وارث صاحب بھی ہمارے ساتھ شریک ہوئے ۔۔ فاتح صاحب کی اہلیہ گھر نہ تھیں ۔سو موصوف کی دیکھا دیکھی ہم نے بھی خو ب خوب دھویں کے مرغولے اڑائے۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ (باقی آئندہ)