ماں

عمراعظم

محفلین
حضرت ! کسی ایک کے تجربے کو معیار تو نہیں بنایا جا سکتا۔آپ تمام تر تلخی کے باوجود والدین کے لیے دعا کیا کریں ،کہ یہی اللہ کا حکم ہے۔
 

نیلم

محفلین
زاویہ دوم "خوشی کا راز" از اشفاق احمد سے اقتباس


ماں خدا کی نعمت ہے اور اس کا پیار کا انداز سب سے الگ اور نرالا ہوتا ہے۔ بچپن میں‌ایک بار بادو باراں کا سخت طوفان تھا اور جب اس میں بجلی شدت کے ساتھ کڑکی تو میں خوفزدہ ہو گیا۔ ڈر کے مارے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ میری ماں‌نے میرے اوپر کمبل ڈالا اور مجھے گود میں بٹھا لیا، تو محسوس ہوا گویا میں امان میں ‌آگیا ہوں۔
میں‌ نے کہا، اماں! اتنی بارش کیوں‌ہو رہی ہے؟‌اس نے کہا، بیٹا! پودے پیاسے ہیں۔ اللہ نے انہیں پانی پلانا ہے اور اسی بندوبست کے تحت بارش ہو رہی ہے۔ میں‌ نے کہا، ٹھیک ہے! پانی تو پلانا ہے، لیکن یہ بجلی کیوں بار بار چمکتی ہے؟ یہ اتنا کیوں‌کڑکتی ہے؟ وہ کہنے لگیں، روشنی کر کے پودوں کو پانی پلایا جائے گا۔ اندھیرے میں تو کسی کے منہ میں، تو کسی کے ناک میں‌ پانی چلا جائے گا۔ اس لئے بجلی کی کڑک چمک ضروری ہے۔
میں ماں کے سینے کے ساتھ لگ کر سو گیا۔ پھر مجھے پتا نہیں چلا کہ بجلی کس قدر چمکتی رہی، یا نہیں۔ یہ ایک بالکل چھوٹا سا واقعہ ہے اور اس کے اندر پوری دنیا پوشیدہ ہے۔ یہ ماں‌کا فعل تھا جو ایک چھوٹے سے بچے کے لئے، جو خوفزدہ ہو گیا تھا۔ اسے خوف سے بچانے کے لئے، پودوں کو پانی پلانے کے مثال دیتی ہے۔ یہ اس کی ایک اپروچ تھی۔ گو وہ کوئی پڑھی لکھی عورت نہیں تھیں۔ دولت مند، بہت عالم فاضل کچھ بھی ایسا نہیں تھا، لیکن وہ ایک ماں تھی۔
 

عمراعظم

محفلین
ماں کے حوالے سے ایک اور سچا نیز دلچسپ واقعہ آپ لوگوں سے شیئر کرنا چاہوں گا۔
یہ ’ان دنوں کی بات ہے جب میں اپنی بیگم اور ایک سالہ بیٹی کے ساتھ ایران کے شہر "گر گان " میں مقیم تھا۔قریبی قصبے کے سرکاری ہسپتال میں کام کرنے والے دو میاں بیوی ڈاکٹروں سے ہماری اچھی خاصی دوستی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کو حج مشن کے ساتھ سعودی عرب جانا پڑا تو وہ اپنی بیگم کو ہمارے ہاں چھوڑ گئے۔یاد رہے کہ ڈاکٹر صاحبہ اچھی خاصی تجربہ کار ڈاکٹر تھیں اور شادی سے قبل کئی سال تک پاکستان کے ایک ملٹری ہسپتال میں ملازمت کر چکی تھیں۔’ان کی شادی کو چند ماہ ہی گزرے تھے۔ایک شام جب ہم کھانا کھانے کے لئے اکٹھا ہوئے تو میری بیگم نے ہنستے ہوئے مجھ سے کچھ کہنا چاہا لیکن ڈاکٹر صاحبہ نے کہنی کی ضرب سے ’انہیں خاموش کر دیا۔کھانے کے بعد جب میں اور بیگم تنہا ہوئے تو میری بیگم نے مجھے بتایا کہ ڈاکٹر صاحبہ مجھ سے پوچھ رہی تھیں کہ کیا میں اسپرین کھا سکتی ہوں؟ ( میری بیگم صاحبہ کا میڈیکل کے شعبے سے کوئی تعلق نہیں ہے ) البتہ وہ ڈاکٹر صاحبہ سے اس لحاظ سے سینئر تھیں کہ وہ ایک بیٹی کی ماں تھیں۔دراصل ماجرہ یہ تھا کہ ڈاکٹر صاحبہ ماں بننے والی تھیں اور اس بات کو یقینی بنانا چاہتی تھیں کہ ’ان کے اسپرین کھانے سے بچے کی صحت پر کوئی منفی اثر تو نہیں پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں کی عظمت کو سلام۔
 

نیلم

محفلین
میں چھوٹی سی اک بچی تھی
تیری انگلی تھام کے چلتی تھی
تو دور نظر سے ہوتی تھی
میں آنسوں آنسو روتی تھی

خوابوں کا اک روشن بستا
تو روز مجھے پہناتی تھی
جب ڈرتی تھی میں رات کو
تو اپنے ساتھ سلاتی تھی

ماں تو نے کتنے برسوں تک
اس پھول کو سینچا ہاتھوں سے
جیون کئی گہرے راز کو
میں سمجھی تیری باتوں سے

میں تیری یاد کے تکیہ پر
اب بھی رات کو سوتی ہوں
ماں میں چھوٹی سی اک بچی
تیری یاد میں اب بھی روتی ہوں
 
Top