ساتویں سالگرہ محفلِ مشاعرہ 10 جولائی 2012

السلامُ علیکم، احباب۔
مدعو کرنے کا نہایت شکریہ۔ ایک غزل آپ سب کے ذوق کی نذر!

ہونے والی ہے بزمِ نو آغاز​
بج اٹھے ہیں سبھی سنے ہوئے ساز​
عشق اکیسویں صدی میں ہے​
وہی راہیں، وہی نشیب و فراز​
اس نے پھر سنگِ آستاں بدلا​
ہم نے رکھ دی وہی جبینِ نیاز​
دور تھا ہر کسی سے ہر کوئی​
دی کسی نے قریب سے آواز​
بندہ پرور کو یہ نہ تھا معلوم​
بندے مانگیں گے بندگی کا جواز​
عشق کرتے ہیں لوگ بھی راحیلؔ​
ہم روایت شکن، روایت ساز​
والسلام۔​
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
عشق اکیسویں صدی میں ہے​
وہی راہیں، وہی نشیب و فراز​
اس نے پھر سنگِ آستاں بدلا​
ہم نے رکھ دی وہی جبینِ نیاز​


یہ تھے جناب محترم راحیل فاروق صاحب جو اپنا کلام پیش فرما رہے تھے۔ ان کے بعد اب میں دعوت کلام دوں گا جناب محترم @مہدی نقوی حجاز صاحب کو۔ جناب سے گذارش ہے کہ وہ تشریف لائیں اور اپنے کلام سے نوازیں۔جناب کی آمد سے قبل حجاز صاحب کے ہی دو اشعار آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔​
ابھی تو شہر محبت مرا بسا ہی نہ تھا
کہ قہر و یاس یہ بستی اجاڑنے آئے
اسی کہ گال پہ مہر رقیب دیکھی ہے
بچھائے نظریں جسے آپ دیکھنے آئے​
جناب محترم مہدی نقوی حجاز صاحب​
 
پہلے تو محترم خرم شہزاد صاحب کا بیحد شکریہ اور ساتھ ہی تمام منتظمین کا کہ یہ رنگ بھرا مشاعرہ برگزار کیا۔۔۔۔۔
ایک تازہ غزل اسی تازہ مشاعرے کی خاطر آمادہ کی ہے۔۔۔ ویسے تو ہم یہ بتاتے چلیں کہ ہم غزل کہنے کے معاملے میں خود مختار نہیں ہیں۔۔
سو غزل پیش سماعت احباب، اساتذہ اور محترم اعجاز عبید صاحب اور شاکری صاحب ہے۔۔۔
غزل
کمال عاشقی دیکھو شکوہ حسن ظن دیکھو
کہ میرا بِین اور اس پر حسینوں کا چلن دیکھو
مُصر ہے جاں نکلنے پر، بدن کو خواہش جاں ہے
کہ آج اس حشر ساماں میں جدال جان و تن دیکھو
کمر تو ہے نہیں اس کی، جو ہے سو وہ بھی خاکی ہے
صنم کو دیکھ کر بے جا جلال بت شکن دیکھو
کلام شوق سے میرے جہان سوز خنداں ہے
کہ عرش و ماہ و کوہ و دشت و دریا و چمن دیکھو
اگر ہم بزم میں آئیں، نہ دیکھو تم حجاز ہم کو
سر محفل کھڑے سد ہا خدایان سخن دیکھو
یہ ایک اور تازہ غزل ملاحظہ ہو۔۔۔
غزل
سال ہا بیت گئے خوشبوئے یاری نہ گئی
پھول مرجھا گئے پر باد بہاری نہ گئی
ہفت قلزم کا ہوا صاحب و مالک لیکن
بر سر بزم مری کاسہ شماری نہ گئی
سوچ سے نوچ نہیں پایا اسے اور اسکی
طاق دیوار سے تصویر اتاری نہ گئی
جرس قافلہِ دربدری سن کر بھی
دل سے اٹھ کر بہ زباں محمل زاری نہ گئی
وقت گزرا تو سبھی تند نشے ٹوٹ گئے
پر مئے عشق بے رحم خماری نہ گئی
رات دن دشت میں صحرا میں پھرے ہیں لیکن
در یاراں پہ حجاز اپنی سواری نہ گئی
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
وقت گزرا تو سبھی تند نشے ٹوٹ گئے
پر مئے عشق بے رحم خماری نہ گئی
رات دن دشت میں صحرا میں پھرے ہیں لیکن
در یاراں پہ حجاز اپنی سواری نہ گئی
یہ تھے محترم مہدی نقوی حجاز صاحب جو اپنا کلام پیش فرما رہے تھے۔ ان کے کلام کے بعد اب میں دعوت دوں گا جناب @محترم مزمل شیخ بسمل کو اور ان سے گذارش کروں گا کہ وہ اپنا کلام پیش فرمائیں ان کی آمد سے قبل ان کے دو اشعار ان کے استقبال کے لیے​
حاجت دوا کی تھی نہیں وہ اپنا حال تھا
غیرت میں مر رہا تھا یوں اتنا نڈھال تھا
اب تک ہے یاد مجھ کو جو وقتِ وصال تھا
وہ ماہِ چار دہ تھا کہ سن چودہ سال تھا
جناب محترم مزمل شیخ بسمل​
 
پہلے تو مشاعرے کے صدر، سرپرست اور منتظمین صاحبان کا بے حد شکر گذار ہوں انہوں نے مجھے اجازت دی کے یہاں آکر کچھ کہنے کی ہمت کروں ورنہ تو من آنم کہ من دانم۔
اسکے بعد چند اشعار جو کہ ایک معزز دوست کی خواہش پے میر کی مشہور زمین پے کہنے کی کوشش کی کیونکہ میں شاعر نہیں بس بے تکی تک بندیوں کی کوشش کرتا ہوں تو امید بھی یہی ہے کہ نادان کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کرینگے۔

غزل​
(مزمل شیخ بسمل)​
جو کل تھی آج ہم میں وہ سیرت نہیں رہی​
وہ دبدبہ وہ ہوش وہ شوکت نہیں رہی​
جو کل تھی آج ہم میں وہ جرات نہیں رہی​
وہ حوصلہ وہ جوش وہ ہمت نہیں رہی​
جو کل تھی آج ہم میں وہ حشمت نہیں رہی​
وہ مال وہ منال وہ عزت نہیں رہی​
جو کل تھی آج ہم میں وہ دولت نہیں رہی​
وہ عقل وہ حواس وہ نیت نہیں رہی​
جو کل تھی آج ہم میں وہ غیرت نہیں رہی​
وہ سوچ و فکراور وہ عادت نہیں رہی​
جو کل تھی آج میری وہ طاعت نہیں رہی​
وہ پیروی وہ نقل وہ حرکت نہیں رہی​
جو کل تھی آج مجھ میں وہ میں وہ جرات نہیں رہی​
وہ شوق و ولولے وہ طبیعت نہیں رہی​
جو کل تھی آج دل میں وہ الفت نہیں رہی​
وہ میل جول اور وہ ملت نہیں رہی​
جو کل تھی آج مجھ میں وہ زینت نہیں رہی​
وہ روپ وہ شباب وہ رنگت نہیں رہی​
جو کل تھی آج اپنی وہ صورت نہیں رہی​
وہ ملک و نظام اور وہ حکومت نہیں رہی​
جاناں کے رخ پہ جب سے صباحت نہیں رہی​
دل تو وہی ہے اپنی وہ چاہت نہیں رہی​
خالی پڑا ہے جرات و جدت نہیں رہی​
خوش ہوں کہ دل میں اب کوئی حسرت نہیں رہی​
سمجھا ہے تو کہ رنج و مصیبت نہیں رہی​
بسمل ترے نصیب کی راحت نہیں رہی​
 
اسکے بعد چند تجزیات جو کافی عرصہ نثر کی صورت میں اپنی ڈائیری میں لکھ رکھے تھے آج کچھ اشعار میں بدلنے کی کوشش کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:​
بتوں بسمل سے کہتے ہو مسلماں ہم نہیں ہونگے​
سرِ محشر تم ہی ہوگے پشیماں ہم نہیں ہونگے​
جلا دیگا جہاں کو حسنِ عریاں ہم نہیں ہونگے​
دھواں بن جائینگی زلفِ پریشاں ہم نہیں ہونگے​
بنیں گے کل یہاں انسان حیواں ہم نہیں ہونگے​
رقیبِ آدمیت ہونگے انساں ہم نہیں ہونگے​
رہیںگے حسن و الفت پا جولاں ہم نہیں ہونگے​
دلِ ناشاد ہونگے سنگِ طفلاں ہم نہیں ہونگے​
تکے گی ماجرا پھر چشمِ حیراں ہم نہیں ہونگے​
یہی منظر رہیںگے اب نمایاں ہم نہیں ہونگے​
جہاں ہوجائیگا سب کافرستاں ہم نہیں ہونگے​
بنینگے دل اسیرِ زلفِ پیچاں ہم نہیں ہونگے​
صنم خانے بنینگے سب دبستاں ہم نہیں ہونگے​
مدرّس صرفِ محوِ دیدِ جاناں ہم نہیں ہونگے​
اب عالم علم پر خود ہونگے نازاں ہم نہیں ہونگے​
بیاں ہونگے خلافِ حکمِ یزداں ہم نہیں ہونگے​
دلِ واعظ بنینگے بحرِ عصیاں ہم نہیں ہونگے​
خیالِ خود غرض اب ہوںگے طوفاں ہم نہیں ہونگے​
کہیں گے چور اب خود کو نگہباں ہم نہیں ہونگے​
ہوا کھوئینگے اپنی جب سلیماں ہم نہیں ہونگے​
رہوگے ہم سے تم کب تک گریزاں ہم نہیں ہونگے​
حسینوں در بدر تم ہوگے ارزاں ہم نہیں ہونگے​
رہے گر کفر سے مل کر مسلماں ہم نہیں ہونگے​
کسی تدبیر سے بھی پاک داماں ہم نہیں ہونگے​
اگر تائب غریقِ بحرِ عصیاں ہم نہیں ہونگے​
حبیبِ کبریا کے زیرِ داماں ہم نہیں ہونگے​
کہیں گے خود کو ہم مسلم مسلماں ہم نہیں ہونگے​
بمع اب اعتمادِ اہلِ برہاں ہم نہیں ہونگے​
آپ کی توجہ کا بہت شکریہ​
والسلام​
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
جناب مزمل شیخ بسمل صاحب کیا خوب فرما رہے تھے۔ کہ
رہوگے ہم سے تم کب تک گریزاں ہم نہیں ہونگے
حسینوں در بدر تم ہوگے ارزاں ہم نہیں ہونگے
رہے گر کفر سے مل کر مسلماں ہم نہیں ہونگے
کسی تدبیر سے بھی پاک داماں ہم نہیں ہونگے
یہ تھے جناب بسمل صاحب جنوں نے اپنے کلام سے نوازا جناب کے بعد میں دعوت کلام دوں گا محترم جناب عمران شناور صاحب کو جو فرماتے ہیں۔​
ہو رہا ہے کیا یہاں کچھ عقدہء محشر کھلے
اب فصیلِ تیرگی میں روشنی کا در کھلے

بزمِ یاراں سج گئی ہے بس یہی ارمان ہے
کوئی تو ساحر ہو ایسا جس پہ وہ ازور کھلے
انہی اشعار کے ساتھ میں درخواست کروں گا عمران شناور صاحب سے کہ وہ آئیں اور آپنے کلام سے مشاعرے کی رونق کو بڑھائیں۔ جناب عمران شناور صاحب​
 
سب سے پہلے دعوت دینے کا شکریہ۔ دوسری بات کہ مجھے بلانے کے لیے جو اشعار لکھے گئے ہیں وہ سرور ارمان صاحب کے ہیں جو میں نے پسندیدہ کلام میں ان کے نام کے ساتھ پوسٹ کیے تھے۔ خیر صاحبِ صدر کی اجازت سے
ستارے سب مرے‘ مہتاب میرے
ابھی مت ٹوٹنا اے خواب میرے
ابھی اڑنا ہے مجھ کو آسماں تک
ہوئے جاتے ہیں پر بے تاب میرے
میں تھک کر گر گیا‘ ٹوٹا نہیں ہوں
بہت مضبوط ہیں اعصاب میرے
ترے آنے پہ بھی بادِ بہاری!
گلستاں کیوں نہیں شاداب میرے
بہت ہی شاد رہتا تھا میں جن میں
وہ لمحے ہو گئے نایاب میرے
ابھی آنکھوں میں طغیانی نہیں ہے
ابھی آئے نہیں سیلاب میرے
سمندر میں ہوا طوفان برپا
سفینے آئے زیرِ آب میرے
تُو اب کے بھی نہیں‌ ڈوبا شناور
بہت حیران ہیں‌ احباب میرے
ایک اور غزل پیش خدمت ہے
لوگ پابندِ سلاسل ہیں مگر خاموش ہیں
بے حسی چھائی ہے ایسی گھر کے گھر خاموش ہیں
دیکھتے ہیں ایک دوجے کو تماشے کی طرح
ان پہ کرتی ہی نہیں آہیں اثر‘ خاموش ہیں
اپنے ہی گھر میں نہیں ملتی اماں تو کیا کریں
پھر رہے ہیں مدتوں سے دربدر‘ خاموش ہیں
ہم حریفِ جاں کو اس سے بڑھ کے دے دیتے جواب
کوئی تو حکمت ہے اس میں ہم اگر خاموش ہیں
ٹوٹنے سے بچ بھی سکتے تھے یہاں سب آئنے
جانے کیوں اس شہر کے آئینہ گر خاموش ہیں
پیش خیمہ ہے شناور یہ کسی طوفان کا
سب پرندے اڑ گئے ہیں اور شجر خاموش ہیں
ایک نظم کے ساتھ اجازت چاہوں گا
خلا میں‌ غور سے دیکھوں
تو اک تصویر بنتی ہے
اور اس تصویر کا چہرہ
ترے چہرے سے ملتا ہے
وہی آنکھیں‘ وہی رنگت
وہی ہیں‌ خال و خد سارے
مری آنکھوں سے دیکھو تو
تجھے اس عکس کے چہرے پہ
اک تل بھی دکھائی دے
جو بالکل تیرے چہرے پہ
سجے اُس تل کے جیسا ہے
جو گہرا ہے
بہت گہرا
سمندر سے بھی گہرا ہے
کہ اس گہرائی میں اکثر
شناور ڈوب جاتا ہے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ستارے سب مرے‘ مہتاب میرے
ابھی مت ٹوٹنا اے خواب میرے
ابھی اڑنا ہے مجھ کو آسماں تک
ہوئے جاتے ہیں پر بے تاب میرے
کلامِ عمران شناور آپ نے پڑھا۔ عمران شناور صاحب اپنا خوبصورت کلام پیش فرما رہے تھے ان کے کلام کے بعد اب درخواست گزار ہوں اس شاعر سے کہ جن کا کلام سننے اور پڑھنے والے ان کے حصار میں قید ہو جاتے ہیں کلام ملاحظہ فرمائیں۔
نیتِ ترکِ مراسم بے سبب کرتے رہے
نام کچھ ایسے بھی تھے جو دھڑکنوں میں قید تھے
واہموں کے کیسے زنداں تھے ہمارے چار سُو
رونقِ محفل تھے اور تنہائیوں میں قید تھے
اور ان کے حصار میں ایک دفعہ پھر قید ہونے کے لیے میں دعوت دوں گا جناب محترم نویدظفرکیانی صاحب کو کہ وہ آئیں اور اپنے کلام سے ہمیں اپنے حصار میں قید فرمائیں جناب نوید ظفر کیانی صاحب
 
جنابِ صدر اور معزز سامعین : السلام علیکم

سب سے پہلے میں آپ کو شکرگزار ہوں کہ آپنے مجھے مدعو کیا۔ اپنے کلام کا آغاز میں ایک نظم سے کرتا ہوں۔ عنوان ہے "اُف یہ یادیں"۔ عرض کیا ہے

میں کتبہ ہوں گزری ہوئی ساعتوں کا
جسے میں نے گاڑا ہے ہر راستے پر
میں نوحہ ہوں بھولی ہوئی صحبتوں کا
جو لیتا ہو سانس آج بھی میرے اندر

میں جو بات کرتا ہوں اُس میں وہ بولے
میں جو لفظ لکھتا ہوں اس میں وہ چیخے

مری زندگی میں بڑے موڑ آئے
عجب سرگرانی میں چلتا رہا ہوں
بہر گام رستہ بدلتا رہا ہوں
بدلتا رہا ہوں میں گو اپنا رستہ
مگر جب کبھی میں نے دیکھا پلٹ کر
تو آتا ہے مجھ کو نظر سیدھا رستہ

وہ ماضی تھا یہ حال ہے‘ مانتا ہوں
مگر خود کو کیسے یہ بتلا سکوں گا
میں یادوں سے بچ کر کہاں جا سکوں گا

اور اب میں ایک غزل کے چند اشعار پیش کرتا ہوں۔ عرض کیا ہے

غم ہستی کے عنواں بانٹ دوں گا
یہ اوراقِ پریشاں بانٹ دوں گا

مرے نزدیک خوشیاں ہیں امانت
الٹ دوں گا میں داماں بانٹ دوں گا

تھما دوں گا دئے سب کو چمن میں
نئے موسم کے ارماں بانٹ دوں گا

مری مشکل بڑھاتی جائے دنیا
میں اس کو کر کے آساں بانٹ دوں گا

کسی منظر کو دھندلانے نہ دوں گا
میں اپنا سب چراغاں بانٹ دوں گا

صبا کی ایک تھپکی مل گئی تو
بہارِ نو کے عنواں بانٹ دوں گا

بکھر جاوں گا میں چہرہ بہ چہرہ
جو مجھ میں ہے وہ انساں بانٹ دوں گا

خزاں کو گھیر لوں گا ہر طرف سے
ظفر خوابِ بہاراں بانٹ دوں گا
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
جناب نوید ظفر کیانی صاحب فرما رہے تھے۔
مرے نزدیک خوشیاں ہیں امانت
الٹ دوں گا میں داماں بانٹ دوں گا
تھما دوں گا دئے سب کو چمن میں
نئے موسم کے ارماں بانٹ دوں گا
نوید ظفر کیانی صاحب کے خوبصورت کلام کے بعد محفل کو آگے بڑھانے کے لیے میں دعوتِ کلام دیتا ہوں جناب محترم ایس فصیح ربانی صاحب کو جن کے کلام سے دو اشعار منتخب کر کے آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ کہتے ہیں
اپنی وضعداری کی لاج ہم کو رکھنا ہے
اب بھی ناز والوں کے ناز ہم اُٹھائیں گے
جو ازل سے بزدل ہیں اور جفا کے قائل ہیں
کس طرح محبت کا وہ الم اُٹھائیں گے
گذارش کروں گا جناب شاہین فصیح ربانی صاحب سے وہ تشریف لائیں اور اپنا کلام پیش فرمائے جناب ایس فصیح ربانی صاحب
 

محمداحمد

لائبریرین
حاضرین و ناظرینِ مشاعرہ۔۔۔۔! شاہین فصیح ربانی صاحب شاید کسی وجہ سے یہاں تشریف نہیں لا سکے سو ہم مشاعرے کو آگے بڑھاتے ہوئے اردو محفل کی ایک ایسی شاعرہ کو دعوتِ کلام دے رہیں ہیں جو محفل کی دیرینہ رکن ہیں اور خوبصورت لب ولہجے میں شعر کہتی ہیں:
ستارہء سرِ مژگاں سنبھال کر رکھنا
بنے گا کل یہی تمہید داستاں کے لیے
اتر رہی ہے دریچہءِ خواب میں اب شام
کہ آرزو نہ رہی اب تو سائبا ں کے لیے
گئے دنوں کی رفاقت ہے اور ہم تنہا
تمام سود تھے شائد اسی زیاں کے لیے
جی ہاں اب دعوتِ کلام دی جاتی ہے محترمہ زھرا علوی کو کہ وہ آئیں اور اپنے خوبصورت کلام سے محفل کو رونق بخشیں۔
محترمہ زھرا علوی
 

زھرا علوی

محفلین
اتنی تاخیر سے آنے پر بے حد معذرت کے ساتھ !!!!


ہے فکر و تدبر و فقاہت یہ سیاست
کہتے ہیں خدا کی ہے نیابت یہ سیاست

اب دیکھو تو بس طمع و تحریصِ زر و زور
لگتی ہے فقط ان سے عبارت یہ سیاست

پہنچائے یہ تختے پہ تو بخشے ہے کبھی تخت
سب دیکھو تو کیسی ہے کرامت یہ سیاست

لو حسرت و افلاس زدہ میرے وطن پر
پھر اتری ہے اک بن کے قیامت یہ سیاست


ڈھل گئی شام، رات آ پنہچی
کھل گئی آنکھ چند خوابوں کی

چاند پہلو میں میرے آ بیٹھا
چاندنی چار سوُ بکھرنے لگی

خشک ہونٹوں پہ آ کے دھیرے سے
پیاس کی چاشنی مہکنے لگی

زرد آنکھوں میں تیرتی شبنم
خواب کے نقشِ پا کھرچنے لگی

خامشی کا فسوں سمٹنے لگا
تری تصویر بات کرنے لگی



"خواہشِ جستجو ،ہو تم شاید
حاصلِ آرزو ،ہو تم شائد

نیم تاریک شب کی خاموشی
شام کی گفتگو ،ہو تم شاید

یا مری ذات کا ہے یہ پرتو
یا تو پھر ہو بہ ہو ،ہو تم شاید

آج پھر حرف سانس لینے لگے
آج پھر رو برو ،ہو تم شاید

جو بہاروں کی رخ کی ہے لالی
اسی رت کی نمو ،ہو تم شاید

اور آخر میں ایک شعر!

جستجو پہنچی ہے ان آنکھوں تلک پھیلائے پر
اور اب اک رائیگانی کا سفر درپیش ہے !!!
 

محمداحمد

لائبریرین
خواہشِ جستجو ،ہو تم شاید
حاصلِ آرزو ،ہو تم شائد
نیم تاریک شب کی خاموشی
شام کی گفتگو ،ہو تم شاید
یا مری ذات کا ہے یہ پرتو
یا تو پھر ہو بہ ہو ،ہو تم شاید

یہ تھیں محترمہ زھرا علوی اور اب مشاعرے کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اب شمع محفل @سیدہ سارہ غزل صاحبہ کے روبرو پیش کی جاتی ہے۔ لیکن اس سے پیشتر سیدہ سارہ غزل کے کچھ اشعار آپ کی ذوق کی نظر:
غم پلے سینے میں ہونٹوں پر ہنسی ہے رقص میں
کس دوراہے پر مری خود آگہی ہے رقص میں
خشک آنکھوں پر برستی ہی نہیں دل کی گھٹا
بہتے دریا کے لبوں پر تشنگی ہے رقص میں
آرزو کے بند دروازوں پہ دستک دے ذرا
کس لئے کمروں میں قیدی روشنی ہے رقص میں
تیرگی ایسی کہ روشن کر گئی آنکھیں غزل
اور منور شہرِ دل کی ہر گلی ہے رقص میں

محترمہ سیدہ سارہ غزل صاحبہ
 
احباب کی خدمت میں سارا غزل کا سلام و آداب۔ اردو محفل کی سالگرہ پر محفل کی انتظامیہ اور ممبران کو ڈھیروں مبارک اور اس مشاعرہ کے انعقاد کے لئے سر خلیل الرحمن بھیا خرم شہزاد، بھیا محمد احمد، بھیا بلال اور دیگر دوستوں کو بہت بہت مبارک ۔ بھیا جانی سعود، بھیا جانی محمود مغل اور بابا جانی عبید صاحب کے لئے بہت ساری دعائیں۔
 
غزل سے پہلے بحضور آقائے نامدار ،سرورِ کونین،خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نعتیہ اشعار

جُھلستے دہر میں تُو نے ہی انساں کو بچایا ہے
مکان و لا مکاں تک تُو ہی تو رحمت کا سایہ ہے

غزل! تن من سخن صدقے تری ناموس پر تُو نے
زمانے میں تھے ہم کافر ہمیں مومن بنایا ہے
 
سب سے پہلے دو اشعار اپنے اپنے مجازی خدا سید زوہیب ہاشمی جی کے نام کیونکہ یہ اہم ہے ناں ورنہ وہ ناراض ہو جائیں گے :)

۔
چاند مجھ کو وہ غزل ماہ جبیں کہتا ہے
مجھ سی صورت کو زمانے سے حسیں کہتا ہے
پیار میں اس کے خدا بھولوں تو کافر ٹھہروں
بھولوں سجدے میں اسے، حجرہ نشیں کہتا ہے

یہ پہلی غزل پیارے بھیا جانی سعود اور بھیا جانی محمود مغل کے نام کرتی ہوں

مقفل ہی سہی لیکن نظر کے اسم ِ اعظم سے
کھلے ہیں وقت کے زنداں میں دروازے کئی ہم سے

طلوعِ صبح کے منظر تراشے ہیں نگاہوں نے
ہیولے ظلمتوں کے ہر طرف پھرتے ہیں برہم سے

ہم اپنے جسم کی سرحد سے بھی آگے نکل آئے
کبھی رکتی نہیں ہے بوئے گل دیوارِ شبنم سے

پریشانی مرے چاروں طرف ہے گرد کی صورت
بیابانِ بلا میں حشر برپا ہے مرے دم سے

یہ میری ذات کا صحرا نہ گم کردے کہیں مجھ کو
عجب ڈر ہے کہ خود کو دیکھتی ہوں چشمِ عالم سے

ہری شاخوں سے لپٹی ہے پرانے موسموں کی باس
ابھی فارغ نہیں ہوں میں گئے لمحوں کے ماتم سے

یہ آسیبِ تمنا روح کے اجڑے مکانوں سے
بدل کر صورتیں اب جھانکتے ہیں روزنِ غم سے

غزل اس عہد میں ایسے دلوں کے خشک ہیں چشمے
بدن کی پیاس بھی بجھتی نہیں ہے آنکھ کے نم سے
۔
آج ہی لکھی یہ دوسری غزل اپنے استاد گرامی سر فاروق درویش اور بابا جانی سر عبید کے نام

دلوں میں حبس کا عالم پرانی عادتوں سے ہے
لبوں پر تلخیوں کا زہر بگڑے ذائقوں سے ہے

جو اجڑا شہر خوابوں کا تو اپنے دل کا صحرا بھی
کسی سوکھے ہوئے دریا کی صورت مدتوں سے ہے

سمندر پار ظلمت میں مرا خورشید ڈوبا ہے
ہراساں صبح کے ساحل پہ دل تاریکیوں سے ہے

مہکتے پھول بھی ڈسنے لگے ہیں سانپ کی صورت
فضا گلشن میں بھی اپنے دلوں کے موسموں سے ہے

انہیں لمحوں کی آہٹ سے ملیں بیداریاں مجھ کو
مرے دریا کی جولانی سمے کے پانیوں سے ہے

وہ آنچ آنے لگی خود سے کہ دل ڈرنے لگا اپنا
جہنم روح کا بھڑکا ہوا خاموشیوں سے ہے

کھلیں آنکھیں تو سیلِ نور میں ڈوبا ہوا پایا
مرے سورج کی تابانی نظر کے شعبدوں سے ہے

غزل اس راہ میں صدیوں کی دیواریں بھی حائل ہیں
نئی دنیا ابھی تک اوٹ میں ان ظلمتوں سے ہے
۔
اس کے ساتھ ہی صدر مشاعرہ اور معزز احبابَ محفل سے اجازت چاہتی ہوں، آپ سب کے لئے ڈھیروں دعائیں اور نیک تمنائیں۔ اللہ دین و دنیا میں سرفرازیاں عطا فرمائیں۔ اللہ حافظ

سیدہ سارا غزل ہاشمی
 

محمداحمد

لائبریرین
دلوں میں حبس کا عالم پرانی عادتوں سے ہے
لبوں پر تلخیوں کا زہر بگڑے ذائقوں سے ہے
جو اجڑا شہر خوابوں کا تو اپنے دل کا صحرا بھی
کسی سوکھے ہوئے دریا کی صورت مدتوں سے ہے
بہت شکریہ سیدہ سارہ غزل صاحبہ
محترمہ سیدہ سارہ غزل صاحبہ کے خوبصورت اشعار کے بعد اب میں دعوتِ کلام دوں گا محترم محمود احمد غزنوی صاحب کو جو اردو محفل کے ہر دلعزیز اراکین میں شامل ہیں۔ جناب محفل کے ادبی سیکشن میں بہت کم لیکن شاندار کلام پیش کرتے ہیں۔ جناب محمود غزنوی صاحب کی آمد سے قبل اُن کے چند اشعار آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا۔
حاصل ہے ساری عمر کا اک سوزِ ناتمام
دستِ طلب میں کچھ نہیں ،بس ایک ترا نام
جس پر بہت ہی ناز کیا ہے تمام عمر۔ ۔ ۔ ۔
آخر پتہ چلا وہ محبّت تھی میری خام
جس مستقل کسک کو دیا نام عشق کا
اک آرزو کا کھیل تھا اور وہ بھی ناتمام
جناب محمود احمد غزنوی
 
اس عزت افزائی کیلئے بیحد شکرگذار ہوں ۔ اگرچہ میں باقاعدہ شاعر تو نہیں ، اور نہ ہی کبھی کسی مشاعرے میں شرکت کا تفاق ہوا ہے۔بس کبھی کبھی کچھ تک بندی کرلیا کرتا ہوں۔ کافی عرصے سے کچھ نہیں لکھا۔ اسلئے باسی کلام پر ہی اکتفا فرمائیے۔۔۔ایک دو چھوٹی سی نظمیں احباب کی نظر۔۔(عین ممکن ہے کہ ان میں کچھ غلطیاں ہوں، اسلئیے پیشگی معذرت)۔۔ :)
تُو ہی تُو
سارے تیرے روپ گھنیرے​
گہرے رنگ ہیں تیرے۔۔۔​
جن کو اب تک دیکھ نہ پایا​
وہ منظر بھی تیرے۔۔۔​
جن کو سوچوں، جان نہ پاؤں​
سارے بھید وہ تیرے۔۔۔۔​
کیسی یہ خاموشی ہر دم​
گونجے چار چوفیرے۔۔​
جیسے گیت پہاڑی دُھن میں​
ان دیکھے نے چھیڑے۔۔۔​
جو خوشبو مں چھو نہ پاؤں​
کیوں مجھ کو وہ گھیرے​
جن پھولوں کی خاطر پاؤں​
زخمی ہوگئے میرے۔۔۔​
وہ سب پھول بھی تیرے تھے​
اور وہ کانٹے بھی تیرے۔۔۔​
میرے دشمن میرے ساجن​
ظاہر باطن میرے۔۔۔۔۔​
میری ذات کے سارےموسم​
پت جھڑ،ساون۔۔۔تیرے​
میرے سارے سانجھ سویرے​
میرے دھوپ، اندھیرے۔۔​
میرے سارے کنکر پتھر​
ہیرے موتی۔۔۔تیرے​
میرا مجھ میں کچھ بھی نہیں ہے​
تُو ہے، یہ سب تیرے۔۔۔۔​

خاموشیاں ، تنہائیاں
مری خاموشیوں میں گونجتا ہے​
تُو زیروبم میں جس کو ڈھونڈتا ہے​
میں اک بانگِ جرس کا منتظر ہوں​
سکوتِ شب میں صحرا اونگھتا ہے​
کسی محمل نشیں کا فیض ورنہ​
وجد میں کون ایسے جھومتا ہے​
یوں آنکھیں موند لیں دیکھا اسے جب​
کوئی چوکھٹ کو جیسے چومتا ہے۔۔۔​
مری تنہائیاں محفل بنی ہیں​
مرا نغمہ مجھی میں گونجتا ہے​
مسافر بھول مت جانا
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
بہت لمبی مسافت میں
تھکن سے چور راہی کو
پڑاؤ روک لیتے ہیں
کسی دریا کے دھارے کو
کنارے روک لیتے ہیں
پہاڑوں کی بلندی سے
زمیں کی گود میں جاتے ہوئے
جھرنوں کے نغموں کو
کئی رِم جِھم سے راگوں کو
بڑی خاموش باتوں کو
زمیں کی گود میں پنہاں سہارے
ٹوک دیتے ہیں۔۔۔۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
کہ جیون دھوپ چھاؤں میں
کسی راہی کی راہوں میں
کچھ ایسے جھوک آتے ہیں
جو خوشبو کے جزیروں کی
ہوا کو روک لیتے ہیں
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
کہ مدت کے تھکے ماندے
غبار آلود راہی کو
کچھ ایسے لوگ ملتے ہیں
بڑے فنکار ہوتے ہیں
مجسمہ ساز ہوتے ہیں
مصور کی طرح آکر
مسافر کی مسافت کو
کسی تصویر کی صورت
کئی رنگوں لکیروں میں
سمو کر باندھ لیتے ہیں
مسافر بھول جاتا ہے
اسے کس دیس جانا تھا
مسافر بھول مت جانا
سفر ہی زندگانی ہے
کہ دریاؤں کی قسمت میں
روانی ہی روانی ہے
مسافر بھول مت جانا
تمہیں کس دیس جانا ہے
 

محمداحمد

لائبریرین
جو خوشبو میں چھو نہ پاؤں
کیوں مجھ کو وہ گھیرے
جن پھولوں کی خاطر پاؤں
زخمی ہوگئے میرے۔۔۔
وہ سب پھول بھی تیرے تھے
اور وہ کانٹے بھی تیرے۔۔۔
خوبصورت گنگناتی نظمیں پیش کر رہے تھے جناب محمود احمد غزنوی اور اب اُن کے بعد میں دعوتِ کلام دوں گا محترم فرخ منظور صاحب کوکہ وہ اپنا کلام پیش کریں اور مشاعرے کی رونق بڑھائیں۔ محترم فرخ منظور بزمِ سخن کے جانے مانے رکن ہیں اور ادب و شاعری سے گہری وابستگی آپ کی پہچان ہے۔

فرخ منظور صاحب کے کچھ اشعار دیکھے

بیاں کریں نہ کریں اس سے ماجرائے عشق
ادھیڑ بُن میں ہمارا شباب غرق ہوا
رفاقتوں کے مہ و سال بن گئے لمحہ
وہ ایک لمحہ بھی بن کر حباب غرق ہوا

محترم فرخ منظور صاحب
 
Top