میرِ محفل کی اجازت سے
سب سے پہلے تو اس ہوائی مشاعرہ کے بانیان اور منتظمین کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے نہ صرف مشاعرہ میں شرکت کی دعوت دی بلکہ مہمان خصوصی کے منصب پر فائز کر کے میری عزت افزائی بھی فرمائی ورنہ من آنم کہ من دانم
اس کے بعد یہ وضاحت کرتا چلوں کہ فن شعر گوئی میں میرا اصل میدان نعت نبی مختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور زیادہ تر اسی صنف سخن میں طبع آزمائی کرتا ہوں اور اسی کو وسیلہ نجات جانتا ہوں تاہم کبھی کبھار غزل ،نظم، تاریخ گوئی، تضمین اور اسی طرح کی دیگر اصناف سخن کے ساتھ چھیڑ خانی ہو جاتی ہے میں چاہتا تو تھا کہ یہاں کوئی نعت پیش کروں لیکن مشاعرے کے مزاج کے پیش نظر اسے خلاف ادب سمجھتا ہوں چنانچہ تعمیل ارشاد کے طور پر ایک دو قطعات اور ایک آدھی غزل پیش کرتا ہوں:
﴿﴿﴿﴿﴿﴿قطعہ﴾﴾﴾﴾﴾﴾
شب سیاہ کے اژدر کو زیر دام کریں
اٹھو! کہ صبحِ نگاراں کا اہتمام کریں
کتاب دھر کی تدوین کا تقاضا ہے
جو نا تمام ہیں قصے انہیں تمام کریں
قیامِ صبحِ الف میم نون کی خاطر
محبتوں کے تقاضوں کا احترام کریں
==============
﴿﴿﴿﴿﴿﴿قطعہ﴾﴾﴾﴾﴾﴾
صدائے نالہء پیہم نہیں ہے
طبیعت عشق میں محکم نہیں ہے
یہ نغمہ حاصلِ مضراب جاں ہے
محبت کا کوئی سرگم نہیں ہے
گلوں کی عمر گرچہ کم ہے لیکن
گلوں میں زندگانی کم نہیں ہے
﴿﴿﴿﴿﴿﴿قطعہ﴾﴾﴾﴾﴾﴾
مر گئے مٹ گئے تباہ ہوئے
آپ جن جن کے خیر خواہ ہوئے
پگڑیوں کو اچھالنے والے
صاحب جبّہ و کلاہ ہوئے
نور افشاں ہوئے وہی تارے
جو رہینِ شب سیاہ ہوئے
رحمتین جن پہ ناز کرتی ہیں
ہم سے ایسے بھی کچھ گناہ ہوئے
﴿﴿﴿﴿﴿﴿غزل﴾﴾﴾﴾﴾﴾
گر تجھ کو نازِ حسن، غرورِ جمال ہے
مجھ کو مآلِ خندہء گل کا خیال ہے
اک شرح آرزو کی تمنا لیے ہوئے
مدت ہوئی لبوں پہ میرے اک سوال ہے
سوز دروں کی بات کروں بھی تو کس سے میں
یارب ترے جہان میں قحط الرجال ہے
میں جی رہا ہوں فرقت قربت کے درمیاں
حاصل سکونِ ہجر نہ کیف وصال ہے
وہ جس کو بھول کر بھی نہ آیا مرا خیال
اس بے وفا سے ترک محبت محال ہے
شاکر طلوع مہر بدن کی تمازتین
اب دامن نگاہ بچانا محال ہے
﴿﴿﴿﴿﴿﴿غزل﴾﴾﴾﴾﴾﴾
اک لطف نا تمام بڑی دیر تک رہا
وہ مجھ سے ہمکلام بڑی دیر تک رہا
میں تشنہء وصال تھا پیتا چلا گیا
گردش میں آج جام بڑی دیر تک رہا
تا دیر میکدے میں رہی ہے مری نماز
ساقی مرا امام بڑی دیر تک رہا
کل بارگاہِ حسنِ تقدس مآب میں
دل محو احترام بڑی دیر تک رہا
میں نے دعا کو ہاتھ اٹھائے ہیں جب کبھی
لب پہ کسی کا نام بڑی دیر تک رہا
قابل توجہ
الجھا رہا وہ زلف پریشاں میں دیر تک
آئینہ زیر دام بڑی دیر تک رہا
مقطع عرض ہے
کل رات اس کا قرب تھا،صہبا تھی جام تھا
شاکر یہ اہتمام بڑی دیر تک رہا
شکریہ