محفلِ مشاعرہ (17 جولائی 2008)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
یہ تھی محترمہ زرقا مفتی صاحبہ جو اپنا کلام پیش کر رہیں تھی بہت اچھی غزل پیش کی بہت خوب زرقا صاحبہ۔ اب میں دعوتِ کلام دیتا ہوں جناب محترم احمد صاحب کو کہ وہ آئیں اور اپنا کلام پیش کرے جناب محمد احمد صاحب!
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت شکریہ خرم بھائی!

یہ پہلا مشاعرہ دیکھا ہے جس میں واہ واہ کی بجائے "شکریہ شکریہ" ہورہی ہے وہ بھی صرف بٹن دبا کر :grin: اور بہت عرصے کے بعد ہمیں بھی سمجھ آگیا کہ "مجبوری کا نام شکریہ" کیوں کہا جاتا ہے۔ :) سو ہم بھی اس پیشکش سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے تمام احباب کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے بہت عمدہ کلام پیش کیا ۔

اور اب کوشش کرتے ہیں کہ صاحب صدر اور Internal Server Error 500 کی اجازت سے (کہ آج نہ جانے کیوں‌ یہ مسئلہ بار بار آرہا ہے-) کچھ شعر آپ کی نظر کیے جائیں۔ ( صرف ازراہِ مذاق کہ رہا ہوں)


غزل

شکستہ پر ، شکستہ جان و تن ہوں
مگر پرواز میں اپنی مگن ہوں

خود اپنی دھوپ میں جلتا رہا ہوں
خود اپنی ذات پر سایہ فگن ہوں

میں دیواروں سے باتیں کر رہا ہوں
وہ کہتے ہیں میں کتنا کم سخن ہوں

وہ کب کا منزلوں کا ہو چکا ہے
میں جس کا منتظر ہوں خیمہ زن ہوں

بلا کی دھوب نے چٹخا دیا ہے
میں جیسے کچی مٹی کا بدن ہوں

ستمگر ہو کہ بھی شکوہ کناں وہ
یہ میں ہوں کہ جبینِ بے شکن ہوں

یہ میں کیا ہو گیا ہوں تجھ سے مل کر
کہ خوشبو ہوں، ستارہ ہوں، پون ہوں

جنوں کی اک گرہ مجھ پر کھلی ہے
تو سرشاری کے خط پہ گامزن ہوں

رہی ہجرت سدا منسوب مجھ سے
وطن میں ہو کے احمد بے وطن ہوں

محمد احمد
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
میں دیواروں سے باتیں کر رہا ہوں
وہ کہتے ہیں میں کتنا کم سخن ہوں



ستمگر ہو کہ بھی شکوہ کناں وہ
یہ میں ہوں کہ جبینِ بے شکن ہوں


کیا خوب ہے جناب کون کون سا شعر کاپی کرؤں تمام کی تمام غزل کمال کی ہے

یہ میں کیا ہو گیا ہوں تجھ سے مل کر
کہ خوشبو ہوں، ستارہ ہوں، پون ہوں

یہ تھے جناب محمد احمد صاحب جنوں نے شکریہ کے ساتھ اپنی غزل پیش کی۔ جناب محمد احمد صاحب کے بعد میں دوتِ کلام دیتا ہون جناب محترم فاتح الدیں بشیر صاحب کو کہ وہ آئیں اور اپنا کلام پیش کریں فاتح الدین بشیر صاحب
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
محترم فاتح الدیں بشیر صاحب کسی ضروری کام کی وجہ سے اپنا کلام پیش نہیں‌کر سکے آپ دوستوں سے انتظار کے لیے معزرت چاہتا ہوں اب میں اگلے شاعر جناب محترم نوید صادق صاحب سے درخواست کروں گا کہ وہ آئیں‌اور اپنا کلام پیش کرے جناب نوید صادق صاحب!
 

نوید صادق

محفلین
ایک غزل پیشِ خدمت ہے

کبھی ہوا تو کبھی روشنی پہ ٹالا ہے
مجھے اذیتیں دے دے کے مار ڈالا ہے

مرا بھی حق ہے کوئی تیرے ان خزانوں پر
مرا وجود ترا گم شدہ حوالہ ہے

سنو! قبیلے کے سردار سے یہ کہہ دینا
مری شکست کسی فتح کا اذالہ ہے

غریقِ نغمہء فردا ہیں شہرِ دل کے لوگ
مگر میں چپ کہ یہاں کون آنے والا ہے

یہ رنج میرا حوالہ، یہ زخم میری حیات
مرے لہو سے ترے شہر میں اجالا ہے

مرے دماغ نے گمراہ کر رکھا تھا مجھے
اب آ کے دل نے کہیں راستے پہ ڈالا ہے

میں جانتا ہوں، مگر زندگی کا ہے کیا ٹھیک
وہ آج کل میں ہمیں چھوڑ جانے والا ہے

(نوید صادق)
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
کبھی ہوا تو کبھی روشنی پہ ٹالا ہے
مجھے اذیتیں دے دے کے مار ڈالا ہے

غریقِ نغمہء فردا ہیں شہرِ دل کے لوگ
مگر میں چپ کہ یہاں کون آنے والا ہے

یہ رنج میرا حوالہ، یہ زخم میری حیات
مرے لہو سے ترے شہر میں اجالا ہے

یہ تھے جناب محترم نوید صادق صاحب جو اپنا کلام پیش کر رہے تھے اب ان کے بعد میں دعوتِ کلام دیتا ہوں جناب محترم خاور چودھری صاحب کو کہ وہ آئیں اور اپنا کلام پیش کرے۔ جناب خاور چودھری صاحب!
 

خاورچودھری

محفلین
چوں کہ اعجاز عبید صاحب نے اجازت دے رکھی ہے ۔اس لیے میں‌یہاں‌اپنے چند دوہے پیش کرتا ہوں

سن ری کوئل باوری ہردے آج سمائی
میٹھے سُر میں کوک تو میں رووں سودائی

باجے سیٹی ریل کی ہردے منہ کو آئے
آشاوں کی گور پر خاور نیر بہائے

ماریں پاتھر بالکے کھویا اپنا ہوش
کڑوے شبد ہیں ساچ کے اور نا کوئے دوش

اجیارے کی آس ماں جیون مورا ماند
دھن والوں کی بھور ہے دھن والوں کا چاند

جگ جگ اندر جال ہے سیتلتا بھی آگ
سُر سچا ہے بھیرویں نا ہی دیپک راگ

درش دکھائے مادھوی من بھیتر ماں‌اور
اندر جالک مادھری کھویا مورا ٹھور

سن ری چنچل مادھوی میں خاور سودائی
توری میٹھی واسنا روں روں آج سمائی
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
سن ری چنچل مادھوی میں خاور سودائی
توری میٹھی واسنا روں روں آج سمائی

بہت خوب جناب یہ تھے خاور چودھری صاحب جو اپنا کلام پیش کر رہے تھے اب میں دعوتِ کلام دیتا ہوں مشہور شاعرہ محترمہ فرزانہ نیناں صاحبہ کو کہ وہ آئیں اور اپنا کلام پیش کرے فرزانہ نیناں صاحبہ!
 

F@rzana

محفلین
تھوڑی سی دانائی

مشاعرے کے انعقاد پر اہلِ محفل کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتی ہوں ساتھ ہی خرم شہزاد صاحب کی نوازش جنہوں نے مجھ سے رابطہ کر کے دعوت کلام دی، ایک غزل پیش خدمت ہے۔

کبھی تھوڑی سی دانائی بہت بےچین کرتی ہے
وہ لڑکی جو ہے سودائی بہت بے چین کرتی ہے

نجانے کس لیئے دل میں مسلسل کرب ٹہرا ہے
سمندر سی یہ گہرائی بہت بے چین کرتی ہے

محل میں کوئی شہزادی کبھی زندہ نہیں دیکھی
مجھے میری یہ بینائی بہت بے چین کرتی ہے

لکیروں پر لکھے ہو تم نہ قسمت کے ستاروں میں
مقدر کی یہ تنہائی بہت بے چین کرتی ہے

ہوا کی موج ہر جانب تری تشہیر کر آئی
مراسم کی پذیرائی بہت بے چین کرتی ہے

نجانے لے اڑیں دیکھو کہاں یہ مہرباں جھونکے
مجھے یہ نرم پروائی بہت بے چین کرتی ہے

کسے معلوم تھا کھوجائیں گے اس راہ میں نیناں
حقیقت سے شناسائی بہت بے چین کرتی ہے


بہت شکریہ۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
یہ تھیں محترمہ فرزانہ نیناں صاحبہ جو اپنا کلام پیش کرے رہی تھی۔ اب میں جس ہستی کو دعوتِ کلام دینے جا رہا ہوں وہ ہستی میرے لیے اور اس محفل کے لیے بہت اہم ہے میرے پاس ایسے الفاظ نہیں ہیں جن کو ادا کر کے میں اس ہستی کو دعوت دے سکوں۔ جی ہاں میری مراد جناب عزت مآپ استادِ محترم محمد وارث صاحب سے ہے۔ میں بہت عزت و اخترام سے درخواست کرتا ہوں جناب استادِ محترم محمد وارث صاحب سے کہ وہ آئیں اور اپنے کلام سے نوازے۔ جناب محترم محمد وارث صاحب!
 

محمد وارث

لائبریرین
السلام علیکم،

بہ اجازت و بہ عنایت جنابِ صدر و جنابِ مہمانِ خصوصی۔

ایک بحر کے ساتھ تجربہ کرنے کی کوشش کی ہے، اشعار حاضر ہیں:

عجب کرشمہ بہار کا ہے
نظر نظر جلوہ یار کا ہے

ہم آئے ہیں کشتیاں جلا کر
ڈر اب کسے نین کٹار کا ہے

شجر کٹا تو جلا وہیں پر
یہ قصہ اس خاکسار کا ہے

رہے گی نم آنکھ عمر بھر اب
معاملہ دل کی ہار کا ہے

تپش میں اپنی ہی جل رہا ہوں
عذاب دنیا میں نار کا ہے

اسد جو ایسے غزل سرا ہے
کرم فقط کردگار کا ہے


دو رباعیاں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں:

شکوہ بھی لبوں پر نہیں آتا ہمدَم
آنکھیں بھی رہتی ہیں اکثر بے نَم
مردم کُش یوں ہوا زمانے کا چلن
اب دل بھی دھڑکتا ہے شاید کم کم

اور

بکھرے ہوئے پھولوں کی کہانی سُن لے
ہے چار دنوں کی زندِگانی سُن لے
پیری میں تو ہوتے ہیں سبھی وقفِ عشق
کرتا ہے خراب کیوں جوانی، سُن لے

نوازش
والسلام
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بکھرے ہوئے پھولوں کی کہانی سُن لے
ہے چار دنوں کی زندِگانی سُن لے
پیری میں تو ہوتے ہیں سبھی وقفِ عشق
کرتا ہے خراب کیوں جوانی، سُن لے

یہ تھے جناب استادِ محترم محمد وارث صاحب جو اپنے کلام سے نواز رہے تھے ان کے بعد اب میں جس ہستی کو دعوت دینے جا رہا ہوں بہت اچھے لہجے کے شاعر ہیں۔ افسانہ نگار ،کالم نگار اور پتہ نہیں کیا کیا ہیں بہت کمال کا لکھتے ہیں ان کی وجہ سے ہی یہ مشاعرہ منعقد کیا گیا ہے جی ہاں میری مراد اس مشاعرے کے مہمانِ اعزازی جناب م م مغل صاحب ہی ہیں۔ اب میں دعوت دیتا ہوں اس مشاعرے کے مہمانِ اعزازی جناب م م مغل صاحب کو کہ وہ آئیں اور اپنے کلام کے ساتھ ساتھ اپنے خیالات کا بھی اظہار کریں۔جناب م م مغل صاحب!
 

مغزل

محفلین
بہت شکریہ خرم صاحب۔
گوکہ یہ میرا مقام نہیں بلکہ مقامِ شرمندگی ہے کہ کئی ایک سینئر شعراءاپنا کلام پیش کرچکے ہیں۔
بہر کیف چونکہ حکم ادب پر فوقیت رکھتا ہے لہذا۔۔۔صاحبِ صدرکی اجازت سے چند شعر ملاحظہ کیجئے۔

ضبطِ تحریر میں نہیں آیا
درد لکھّا نہیں گیا مجھ سے
خواب میرے سرہانے رکھے تھے
رات ، سویا نہیں گیا مجھ سے
تھا مُیّسر لباس ِ آئینہ
اس کو پہنا نہیں گیا مجھ سے
رات آنکھوں میں اک سمندر تھا
پھر بھی رویا نہیں گیا مجھ سے
بارِ تعبیر کون اٹھائے گا
خواب دیکھا نہیں گیا مجھ سے
قافیے باندھتا رہا محمود
شعر لکھّا نہیں گیا مجھ سے

اور غزل کہ یہ شعر خرم شہزاد خرم کی نذر ، کہ ایک مراسلے میں ان سے وعدہ کیا تھا ۔
مطع گزارش ہے کہ :

اعتبارِ نظر کچھ اور بھی ہے
آسماں سے ادھر کچھ اور بھی ہے
یہ ہواتھی جو سر پٹکتی رہی
تیرا دریوزہ گر کچھ اور بھی ہے
کتنے تاروں کا خون کرتی ہے
اختیارِ سحر کچھ اور بھی ہے
آپ کہتے ہیں عشق ہے فرصت
لاکھ کہیئے ، مگر کچھ اور بھی ہے
رفت چہرے پہ گرد کی صورت
ورنہ رختِ سفر کچھ اور بھی ہے
تابہ حدّ ِ نظر خلا ہے میاں
تابہ حّدِ نظر کچھ اور بھی ہے
تک رہا ہوں میں خالی آنکھوں سے
کچھ نہیں ہے مگر، کچھ اور بھی ہے
شاعری وقت مانگتی ہے مغل
ورنہ کارِ ہنر ، کچھ اور بھی ہے


آپ کی اعلی بصارتوں اور سماعتوں کا بہت بہت شکریہ
 

مغزل

محفلین
اظہارِ خیال کیلیے میں گزارش کروں گا کہ صاحبِ صدر اپنے کلامِ بلاغت نظام کے ساتھ گراں قدر ارشادات سے مشکور ہوں۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
خواب میرے سرہانے رکھے تھے
رات ، سویا نہیں گیا مجھ سے

رات آنکھوں میں اک سمندر تھا
پھر بھی رویا نہیں گیا مجھ سے

قافیے باندھتا رہا محمود
شعر لکھّا نہیں گیا مجھ سے

اور یہ شعر خاص طور پر میرے لیے

شاعری وقت مانگتی ہے مغل
ورنہ کارِ ہنر ، کچھ اور بھی ہے

بہت خوب م م مغل صاحب
یہ تھے جناب م م مغل صاحب جو اپنا کلام پیش کر رہے تھے اب میں مہمانِ اعزازی کے بعد دعوتِ کلام دیتا ہوں اس مشاعرے کے مہمانِ حصوصی جناب شاکرالقادی صاحب کو کہ وہ آئیں اور اپنے کلام سے نوازے۔ جناب شاکرالقادی صاحب!
 

شاکرالقادری

لائبریرین
میرِ محفل کی اجازت سے
سب سے پہلے تو اس ہوائی مشاعرہ کے بانیان اور منتظمین کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے نہ صرف مشاعرہ میں شرکت کی دعوت دی بلکہ مہمان خصوصی کے منصب پر فائز کر کے میری عزت افزائی بھی فرمائی ورنہ من آنم کہ من دانم
اس کے بعد یہ وضاحت کرتا چلوں کہ فن شعر گوئی میں میرا اصل میدان نعت نبی مختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور زیادہ تر اسی صنف سخن میں طبع آزمائی کرتا ہوں اور اسی کو وسیلہ نجات جانتا ہوں تاہم کبھی کبھار غزل ،نظم، تاریخ گوئی، تضمین اور اسی طرح کی دیگر اصناف سخن کے ساتھ چھیڑ خانی ہو جاتی ہے میں چاہتا تو تھا کہ یہاں کوئی نعت پیش کروں لیکن مشاعرے کے مزاج کے پیش نظر اسے خلاف ادب سمجھتا ہوں چنانچہ تعمیل ارشاد کے طور پر ایک دو قطعات اور ایک آدھی غزل پیش کرتا ہوں:

﴿﴿﴿﴿﴿﴿قطعہ﴾﴾﴾﴾﴾﴾
شب سیاہ کے اژدر کو زیر دام کریں
اٹھو! کہ صبحِ نگاراں کا اہتمام کریں
کتاب دھر کی تدوین کا تقاضا ہے
جو نا تمام ہیں قصے انہیں تمام کریں
قیامِ صبحِ الف میم نون کی خاطر
محبتوں کے تقاضوں کا احترام کریں
==============
﴿﴿﴿﴿﴿﴿قطعہ﴾﴾﴾﴾﴾﴾
صدائے نالہء پیہم نہیں ہے
طبیعت عشق میں محکم نہیں ہے
یہ نغمہ حاصلِ مضراب جاں ہے
محبت کا کوئی سرگم نہیں ہے
گلوں کی عمر گرچہ کم ہے لیکن
گلوں میں زندگانی کم نہیں ہے
﴿﴿﴿﴿﴿﴿قطعہ﴾﴾﴾﴾﴾﴾
مر گئے مٹ گئے تباہ ہوئے
آپ جن جن کے خیر خواہ ہوئے
پگڑیوں کو اچھالنے والے
صاحب جبّہ و کلاہ ہوئے
نور افشاں ہوئے وہی تارے
جو رہینِ شب سیاہ ہوئے
رحمتین جن پہ ناز کرتی ہیں
ہم سے ایسے بھی کچھ گناہ ہوئے
﴿﴿﴿﴿﴿﴿غزل﴾﴾﴾﴾﴾﴾
گر تجھ کو نازِ حسن، غرورِ جمال ہے
مجھ کو مآلِ خندہء گل کا خیال ہے
اک شرح آرزو کی تمنا لیے ہوئے
مدت ہوئی لبوں پہ میرے اک سوال ہے
سوز دروں کی بات کروں بھی تو کس سے میں
یارب ترے جہان میں قحط الرجال ہے
میں جی رہا ہوں فرقت قربت کے درمیاں
حاصل سکونِ ہجر نہ کیف وصال ہے
وہ جس کو بھول کر بھی نہ آیا مرا خیال
اس بے وفا سے ترک محبت محال ہے
شاکر طلوع مہر بدن کی تمازتین
اب دامن نگاہ بچانا محال ہے
﴿﴿﴿﴿﴿﴿غزل﴾﴾﴾﴾﴾﴾
اک لطف نا تمام بڑی دیر تک رہا
وہ مجھ سے ہمکلام بڑی دیر تک رہا
میں تشنہء وصال تھا پیتا چلا گیا
گردش میں آج جام بڑی دیر تک رہا
تا دیر میکدے میں رہی ہے مری نماز
ساقی مرا امام بڑی دیر تک رہا
کل بارگاہِ حسنِ تقدس مآب میں
دل محو احترام بڑی دیر تک رہا
میں نے دعا کو ہاتھ اٹھائے ہیں جب کبھی
لب پہ کسی کا نام بڑی دیر تک رہا

قابل توجہ

الجھا رہا وہ زلف پریشاں میں دیر تک
آئینہ زیر دام بڑی دیر تک رہا

مقطع عرض ہے

کل رات اس کا قرب تھا،صہبا تھی جام تھا
شاکر یہ اہتمام بڑی دیر تک رہا

شکریہ
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
صدائے نالہء پیہم نہیں ہے
طبیعت عشق میں محکم نہیں ہے
یہ نغمہ حاصلِ مضراب جاں ہے
محبت کا کوئی سرگم نہیں ہے
گلوں کی عمر گرچہ کم ہے لیکن
گلوں میں زندگانی کم نہیں ہے

سوز دروں کی بات کروں بھی تو کس سے میں
یارب ترے جہان میں قحط الرجال ہے


تا دیر میکدے میں رہی ہے مری نماز
ساقی مرا امام بڑی دیر تک رہا


کل رات اس کا قرب تھا،صہبا تھی جام تھا
شاکر یہ اہتمام بڑی دیر تک رہا

کیا خوب ہے جناب
یہ تھے اس مشاعرے کے مہمانِ اعزازی اب ان کے بعد میں دعوتِ کلام دیتا ہوں اس مشاعرے کے صدر میرے استادِ محترم عزت مآپ جناب اعجاز عبید صاحب کو کہ وہ آئیں اور اپنے کلام اور اپنے خیالات سے نوازے مکرمی و محترم جناب عزت مآپ اعجاز عبید صاحب!
 

الف عین

لائبریرین
عزیزانِ محفل
بندہ حاضر ہے ایک سرکاری دورے کے بعد۔ بیاض مل گئی دفتر میں ہی تو سوچا کہ آپ احباب کو انتطار نہ کرواؤں اور اپنی شاعری سے ابھی سمع خراشی ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔
اردو محفل اس معاملے میں واقعی خوش قسمت ہے کہ یہاں نہ صرف کئی اچھے شعراء پہلے سے رکنیت لئے ہوئے ہیں بلکہ ہماری ’آبادی‘ میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اور واقعی یہ ایک اچھا قدم تھا کہ محفل کی سالگرہ کے موقع پر یہ مشاعرہ آن لائن منعقد کیا جائے۔
م م مغل نہ صرف اس وجہ سے خوش قسمت ہیں کہ ان کو محفل نے بہترین شاعر کے خطاب سے نوازا بلکہ اس لحاظ سے بھی کہ ان کے اعزاز میں یہ اردو دنیا کا پہلا آن لائن مشاعرپ منعقد ہو سکا ہے۔ میں خرم شہزاد کا بھی شکریہ واجب سمجھتا ہوں جنہوں نے اچھے ڈھنگ سے اس کی نظامت سنبھالی۔
اور اس کا شکریہ تو سب سے پہلے ادا کرنا تھا کہ مجھے اس کی عزت بخشی کہ میں اس کی غیر مرئی کرسیِ صدارت پر بیٹھوں۔۔ اور اب کیوں کہ اٹھنے کا وقت ہو رہا ہے چنانچہ یہی کہوں کہ
اب تو چلتے ہیں مے کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
اور اس یاد میں میر کے لیجے کی ہیہ دو گزلیں پیش کرتا ہوں جو شاید ارکان نے نہ پڑھی ہوں اب تک:
عرض ہیں:

تجھ چشم نمی گواہ رہیو
مجھ دل کی لگی گواہ رہیو
اُن آنکھوں کی سازشیں عجب ہیں
اے سادہ دلی ۔ گواہ رہیو
آنکھیں بھی ہیں خشک ، چپ بھی ہوں میں
شائستہ لبی ، گواہ رہیو
مجھ لب پہ نہ اس کا نام آیا
اے نزع دمی ، گواہ رہیو
ٹھہروں بھی تو کیا زمیں رکے گی؟
پیہم سفری ، گواہ رہیو
تم بِن نہ کبھی قرار آیا
بستر شکنی ، گواہ رہیو
اوروں سا تمہیں بھی میں نے چاہا
تم خود بھی کبھی گواہ رہیو

ایک مزید اسی لب و لہجے کی غزل۔۔

اشک تھا یا شرار تھا ۔ کیا تھا
کچھ سرِ چشمِ یار تھا کیا تھا
لب تلک نام بھی نہ آیا کبھی
دل میں کچھ پاسِ یار تھا۔ کیا تھا
ہم تھے تنہا کہ قافلہ بھی تھا
اپنے آگے غبار تھا ۔ کیا تھا
اک دیا سا کہیں چمکتا تھا
کچھ سرِ رہگزار تھا۔ کیا تھا
لو نہتّی ہوئی سپاہ تمام
ایک تنہا سوار تھا۔ کیا تھا
اب بھی امید تم کو کیا تھی عبیدؔ
دل میں کچھ اعتبار تھا۔ کیا تھا

ایک بار پھر ذرہ نوازی کا شکریہ۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
یہ تھے جناب صدرِ مشاعرہ اعجاز عبید صاحب‌‌ جو اپنا کلام پیش کر رہے تھے اس کے ساتھ ہی مشاعرے اپنے اختتام کو پونچا ان شاءاللہ پھر کبھی کسی مشاعرے میں آپ کی خدمت میں پیش ہونگے مجھے بھی اجازت دے شکریہ
خرم شہزاد خرم
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top