ٹائپنگ مکمل مرثیہ: روشنی

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تھی روشنی ایمان کی طینت میں جو شامل
حُر ، حق کی طرف آ گیا خود چھوڑ کے باطل
شبّیر کے قدموں پہ گرا، مل گئی منزل
اب تک جو نہ پایا تھا وہ رُتبہ ہوا حاصل
تارے سے چٹکنے لگے بزمِ دل و جاں میں
پروانہ بنا شمع امامت کا جہاں میں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بارش ہوئی تیروں کی جو افواجِ ستم سے
انصارِ حسین ابنِ علی سینہ سپر تھے
تیر آئے اُدھر سے تو اِدھر سینوں پہ روکے
تکلیف کوئی شاہِ زمانہ کو نہ پہنچے
روشن ہوئے ایمان محبت کے چلن سے
زخموں سے لہو نکلا کہ لَو شمع بدن سے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جب چند جری ہو گئے قربان شہِ دیں
انصار کی لاشوں پہ گئے خود شہِ غمگیں
فرمایا، شہیدو! تمہیں جانبازی پہ تحسین
دنیا نے کہیں ایسی مثالیں نہیں دیکھیں
اس سوز پہ دل ہم سے سنبھالا نہیں جاتا
بُجھ کر بھی چراغوں کا اُجالا نہیں جاتا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
فی الجملہ یونہی ختم ہوا شاہ کا لشکر
قاسم بھی گئے سوئے جناں فوج سے لڑ کر
اک قلب تھا شبیر کا اور داغ بَہتّر
بس خیمے میں خود شاہ تھے ، عباس نہ اکبر
جو کچھ تھا لٹا بیٹھے وہ مولا رہِ دیں میں
اصغر سا ستارہ بھی دبا آئے زمیں میں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تھے لشکرِ اعدا میں خدنگ اور کمانیں
پہچانیں پیمبر کو نہ اللہ کو مانیں
سوکھی ہوئی تھیں پیاس سے بچّوں کی زبانیں
ہونٹوں پہ چلی آئی تھیں کِھچ کے سبھی جانیں
اطفال تھے سکتے میں کہیں اور کہیں غش میں
تھے ڈوبنے کو تارے یہ دریائے عطش میں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ناگاہ پکارا کوئی، شبّیر کہاں ہیں
ہیں کیسے جواں مرد کہ خیمے میں نہاں ہیں
میان میں آئیں اگر آسودہ جاں ہیں
پانی پئیں شمشیر کا گر تشنہ دہاں ہیں
اب روشنی زیست یہاں مل نہیں سکتی
بیعت نہ کریں گے تو اماں مل نہیں سکتی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
لٹوا دیئےمیدان میں بے فائدہ انصار
ساحل پہ ہے اب لاشہ عباسِ علمدار
اکبر کی جوانی کا بھی کیا غم نہیں زنہار
قاسم سا بھتیجا بھی فدا کر دیا ناچار
تا مرگ نہ دیکھو گے کبھی اپنے پسر کو
دانستہ گنوا بیٹھے ہو تم نورِ نظر کو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یہ ضد ہے کہ بیعت سے ہو بے وجہ گریزاں
خود اپنی تباہی کا کیے جاتے ہو ساماں
سرکش نہیں ہوتا کبھی ایسا کوئی انساں
اس ضد کو بغاوت کا دیا جائے گا عنواں
دیکھو گے پسِ مرگ جو تربت کا اندھیرا
چَھٹ جائے گا آنکھوں سے بغاوت کا اندھیرا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کس راستے پر تم نے اٹھایا ہے قدم کو
کیا سوچ کے میدان میں لائے ہو حرم کو
معلوم نہیں تھا تمہیں جانا ہے عدم کو
رحم اِن کی مصیبت پہ نہیں آئے گا ہم کو
ہاں سامنے اپنے کوئی حیلہ نہ چلے گا
اب تک جو جلا ہے چراغ وہ اب نہ جلے گا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
غوغا یہ سیہ کاروں کا سنتے رہے شبّیر
کیا رنگ دکھانے لگا تھا اب فلکِ پیر
خیموں میں تھیں سب بیبیاں سہمی ہوئی دلگیر
ہر ایک کا غم بانٹتی تھیں شاہ کی ہمشیر
کہتی تھیں مجھے دیکھ لو کیا کیا نہیں دیکھا
لیکن مری آنکھوں نے اندھیرا نہیں دیکھا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
معلوم تھا نکلی تھی مدینے سے میں جس دم
سہنے ہیں ستم لاکھوں اٹھانے ہیں بہت غم
کس صبر سے سنتے ہیں یہ باتیں شہ عالم
چاہیں تو ابھی نظم زمانہ کریں برہم
اصلاح جو مقصود ہے اب اہل زمیں کی
یہ روشنی لائے ہیں یہاں مشعل دیں کی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جب اور زیادہ ہوا غُل اہلِ ستم کا
پھر نورِ جبیں ، شاہ کا کچھ اور بھی چمکا
اب غیظ بڑھا سبطِ شہنشاہِ اُمم کا
دم سینے میں بل کھانے لگا تیغ دودم کا
رخصت جو حرم سے ہوئے سلطانِ امامت
طالع ہوا پھر نیّرِ تابانِ امامت
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
رہوارِ حسینی جو سحر ہی سے تھا تیار
جب اس کی طرف بڑھنے لگے سیّد ابرار
سر اپنا سلامی کو جھکانے لگا رہوار
یوں اپنی وفاداری کا کرنے لگا اظہار
جلوہ کیا خورشید امامت نے جو زیں پر
پھر پاؤں فرس کے نہیں ٹکتے تھے زمیں پر
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بجلی کی طرح کوند کے جھپٹا سوئے اشرار
ناری جو کوئی سامنے آیا ہوا فی النار
بے ہوش ہوئے اس کی روش دیکھ کے بدکار
پل بھر میں نکل جاتا تھا اس پار سے اس پار
پُھرتی جو قیامت تھی تو چال اس کی عجب تھی
تاریک دلوں کے لیے اک برق غضب تھی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
لاشے جو گرے فوج کے وہ ہو گئے پامال
مٹی میں ملی سب ہوسِ عزت و اقبال
تھا حال بُرا فوج کا افسر ہوئے بے حال
توبہ کی بھی مہلت نہیں پائے تھے بد اعمال
گھوڑا نہیں پھرتا تھا وہ پھیرا تھا اجل کا
اعدا کی نگاہوں میں اندھیرا تھا اجل کا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
گھوڑے کی وہ چھل بل وہ ترنگیں وہ طرارے
خود رُک گئی تھی موجِ ہوا شرم کے مارے
ٹاپوں سے اڑاتا ہوا میداں میں شرارے
گَرد اس کی تجلی سے ہوئے چاند ستارے
گرنے میں سر فوجِ عدو عار نہیں ہے
اک برقِ سُبک رو ہے یہ رہوار نہیں ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
طوفان کی صورت صفِ اعدا میں در آیا
جم گھٹ تھا جدھر اہلِ ستم کا اُدھر آیا
معلوم نہ ہوتا تھا کب آیا کدھر آیا
آنکھوں سے وہ اندھا ہوا جس کو نظر آیا
سمجھے کہ یہاں تھا ابھی دیکھا تو وہاں تھا
رہوارِ حسینی نہیں اک وہمِ رواں تھا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
پھر ہاتھ گیا شہ کا سوئے قبضہ شمشیر
لب پر ملک الموت کے تھا نعرہ تکبیر
زندہ ہوئی گویا اسداللہ کی تصویر
چلّائے یہ دشمن کہ دغا دے گئی تقدیر
ہم موم کے پتلوں کو پگھلنا ہی پڑے گا
یہ آگ نہیں بخشے گی جلنا ہی پڑے گا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
باہر جو ہوئی نیام سے شمشیر حسینی
خیرہ کُن لشکر ہوئی تنویر حسینی
تھی منزل والسیف کی تفسیر حسینی
مثل خط تنسیخ تھی تحریر حسینی
جو گھاٹیاں تھیں راہ میں سب پاٹ کے رکھ دیں
اک وار میں لاکھوں کی صفیں کاٹ کے رکھ دیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تلوار تھی یا جلوہ ناراضی معبود
نابود ہوئی سامنے جو فوج تھی موجود
اک راہ اجل کے سوا ہر راہ تھی مسدود
تلوار کا پھل بن گیا تھا شعلہ بے دود
تھا بند جو مدت سے وہ دَر کھول دیا تھا
تلوار نے خود بابِ سقر کھول دیا تھا
 
Top