سیما علی

لائبریرین
اس کو سمجھے کہ نہ سمجھے لیکن
گردشِ دہر تجھے جان گئے

تیری اک ایک ادا پہچانی
اپنی اک ایک خطا مان گئے

اس جگہ عقل نے دھوکا کھایا
جس جگہ دل ترے فرمان گئے

(زہرہ نگاہ)
 

سیما علی

لائبریرین
غزہ
مَوت کی نیند سے بچّوں کو جگایا جائے
عید کا چاند انہیَں بھی تَو دِکھایا جائے
کوئی اندھوں کو دِکھائے تَو یہ سَیلابِ لہو
شور ان لہروں کا بَہروں کو سُنایا جائے
جب تلک غَزہ میں یہ رَقصِ اَجَل خَتم نہ ہو
عید کا جَشنِ طَرَب خاک مَنایا جائے
دَستِ صہیون ہے دَر پَردۂ خدّامِ حَرَم
وَطَنِ شافعِ محشر کو چھُڑایا جائے
دولتِ زیرِ زمیں پر جو ہیں ظالم قابض
ضامنؔ اَب زیرِ زمیں ان کو بَسایا جائے
ضامن جعفری
 

سیما علی

لائبریرین
شام
میانِ روز و شب چھوٹی سی بستی
بھلا میں کیا ہُوں اُور کیا میری ہستی
تھکی ماندی ،امیدِ صبحِ فردا
سفر سے رایگانی کے بالآخر
مری آغوش میں سر اپنا رکھ کے
اَبھی فردا سے بالکل بیخبر ہے
اور اِس امّید کے معصوم رُخ پر
جمی ہیں مستقل میری نگاہیں
اَگر کچھ دیر کو یہ آنکھ کھولے
کسی طرح سے میں اِس کو بتادوں
مگر اِس کو یقیں آئے نہ آئے
ابھی اِک اور بھی منزل کڑی ہے
نئی امّید کے فردا سے پہلے
ابھی تَو ایک پوری شب پڑی ہے
ضامن جعفری
 

سیما علی

لائبریرین

حفظِ مراتب​

احباب و اقربا کا کرم مانتا ہُوں دوست
کس کس کے زیربار ہُوں سب جانتا ہُوں دوست
آئینہ دارِ حفظِ مراتب ہیں زخمِ دل
ہر دست وسنگ و خشت کو پہچانتا ہُوں دوست
بادہ پیماؤں میں نے بادیہ پیماؤں میں
بادہ پیماؤں میں نے بادیہ پیماؤں میں
ہُوں اکیلا ہی میں اَب اَپنے شناساؤں میں
فَرطِ وحشَت میں یہ میری ہی اُڑائی ہوئی ہے
خاک ناپید ہُوا کرتی تھی صحراؤں میں
قحطِ اقدار کے اِس دَور میں حیَرَت کیسی
دھُوپ جیسی ہی تَمازَت ہو اَگَر چھاؤں میں
اِک نظر ڈال دِیا کیجے بَس آتے جاتے
کتنی ترمیم کروں اب میں تمنّاؤں میں
خُود سے بہتر کی نہ تحسیِن پہ مائل ہونا
ناتَوانی کی عَلامَت ہے تَواناؤں میں
ہَم سے مِل لینا کبھی دِل جو پریشان کرے
اُٹّھے بیٹھے ہیں بہت ہَم بھی مسیحاؤں میں
مِل تَو لیتے تھے کَم اَز کَم یُونہی آتے جاتے
ایک پَگڈَنڈی ہُوا کرتی تھی بَس گاؤں میں
مُجھ کو مَنزِل کی لَگَن رُکنے نہ دے گی ضامنؔ
اَب اَگَر پَڑتے ہیں چھالے تَو پَڑیَں پاؤں میں
ضامن جعفری
 
Top