نماز کا طریقہ صحیح احادیث کی روشنی میں

قارئین کرام! معذرت چاہتا ہوں کہ ان صاحب کی بے جا مداخلت کی وجہ سے مجھے اپنے مرتب کردہ خاکے کے برخلاف نماز کی ترتیب والی حدیث پہلے ذکر کرنی پڑ رہی ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
[arabic]إِنَّهُ لَا تَتِمُّ صَلَاةٌ لِأَحَدٍ مِنْ النَّاسِ حَتَّى يَتَوَضَّأَ فَيَضَعَ الْوُضُوءَ يَعْنِي مَوَاضِعَهُ ثُمَّ يُكَبِّرُ وَيَحْمَدُ اللَّهَ جَلَّ وَعَزَّ وَيُثْنِي عَلَيْهِ وَيَقْرَأُ بِمَا تَيَسَّرَ مِنْ الْقُرْآنِ ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ أَكْبَرُ ثُمَّ يَرْكَعُ حَتَّى تَطْمَئِنَّ مَفَاصِلُهُ ثُمَّ يَقُولُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَائِمًا ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ أَكْبَرُ ثُمَّ يَسْجُدُ حَتَّى تَطْمَئِنَّ مَفَاصِلُهُ ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ أَكْبَرُ وَيَرْفَعُ رَأْسَهُ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَاعِدًا ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ أَكْبَرُ ثُمَّ يَسْجُدُ حَتَّى تَطْمَئِنَّ مَفَاصِلُهُ ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ فَيُكَبِّرُ[/arabic]
"لوگوں میں سے کسی کی نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک وہ
اچھی طرح وضو نہ کرلے
پھر تکبیرکہے اور اللہ جل و عز کی حمد اور تعریف بیان کرے۔
اور آسانی سے جو قرآن پڑھ سکتا ہو وہ پڑھے
پھر اللہ اکبر کہہ کر رکوع کرے یہاں تک کہ اس کے جوڑ قرار پا جائیں (یعنی جو اعضاء حرکت میں تھے وہ اپنی اپنی جگہ ٹھہر جائیں)
پھر "سمع اللہ لمن حمدہ" کہہ کر بالکل سیدھا کھڑا ہو جائے
پھر اللہ اکبر کہہ کر سجدہ کرے یہاں تک کہ اس کے جوڑ قرار پکڑ لیں۔
پھر اللہ اکبر کہے اور اپنے سر اٹھا کر بالکل سیدھا ہو کر بیٹھ جائے
پھر اللہ اکبر کہہ کر سجدہ کرے یہاں تک کہ اس کے جوڑ اطمینان پا جائیں (یعنی سکون سے اپنی اپنی جگہ ٹھہر جائیں)
پھر اپنا سر اٹھائے اور تکبیر کہے۔

سابقہ تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے گمان ہوتا ہے کہ اب کوئی نیا اعتراض پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:
[arabic]طالب الحق يكفيه دليل وصاحب الهوي لا يكفيه الف دليل[/arabic]
"طالب حق کے لیے ایک دلیل بھی کافی ہوتی ہے اور صاحب ھوی کو ہزار دلیلیں بھی مطمئن نہیں کر سکتیں"
سو طالبین حق کے لیے اس حدیث کے بیس حوالہ جات فراہم کیے جاتے ہیں۔ اللہ نے جس کی قسمت میں ہدایت لکھی ہو گی اسے سمجھ آ جائے گی اور جو کوئی امریکی گود میں پرورش پانے والی فکر اپنانا چاہے تو اس تفصیل کے بعد اس کے لیے ہم دعا سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔
حوالہ جات:
1۔ صحیح البخاری کتاب الاستئذان باب من رد فقال علیک السلام
2۔ مسند احمد باقی مسند المکثرین مسند ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ
3۔ مسند الطیالسی، مسند رفاعۃ البدری
4۔ مصنف عبد الرزاق کتاب الصلاۃ باب الرجل یصلی صلاۃ لا یکملھا
5۔ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ باب فی الرجل ینقص صلاتہ۔ ۔۔
6۔ سنن الدارمی کتاب الصلاۃ باب فی الذی لا یتم الرکوع و السجود
7۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ
8۔ سنن ابن ماجہ کتاب الصلاۃ والسنۃ فیھا باب اتمام الصلاۃ
9۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع و السجود
10۔ سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی وصف الصلاۃ
11۔ مسند البزار مسند ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ
12۔ سنن النسائی الصغرٰی کتاب السھو باب اقل ما یجزی من عمل الصلاۃ
13۔ مسند ابی یعلی مسند شھر بن حوشب عن ابی ھریرۃ حدیث اذا قمت الی الصلاۃ فکبر۔ ۔ ۔
14۔ صحیح ابن خزیمہ جلد اول صفحہ 235 حدیث نمبر 461
15۔ مستخرج ابی عوانہ باب فی الصلاۃ بین الاذان و الاقامۃ فی صلاۃ المغرب و غیرہ
16۔ صحیح ابن حبان کتاب الصلاۃ باب صفۃ الصلاۃ
17۔ المعجم الکبیر للطبرانی حدیث نمبر 4396 جلد دوم ص 414
18۔ سنن الدار قطنی کتاب الطھارۃ باب وجوب غسل القدمین و العقبین
19۔ المستدرک للحاکم کتاب الامامۃ و صلاۃ الجماعۃ
20۔ شعب الایمان للبیہقی کتاب الصلاۃ باب تحسین الصلاۃ


عبداللہ حیدر سلام،
بھائی آپ کو اعتراضات کے لئے تیار رہنا چاہئیے اور خوش اسلوبی سے اپنے نکات کو پیش کرنا چاہئیے۔ اگر معلومات مکمل ہے تو سب دیکھ لیں گے اور اگر نہیں تو بھی سب دیکھ لیں گے۔

آپ نے درج ذیل معلومات فراہم کیں‌۔ آپ سے سوال ہے کہ کیا یہ درج ذیل طریقہ رسول اکرم نے خود سے ایجاد کیا تھا یا پھر اس کی ہدایت اللہ تعالی نے دی تھی؟

نیلے رنگ سے وہ ان آیات کا حوالہ دے دے دیا ہے جو رسول اکرم کی اس حدیث کا ماخذ ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جو لوگ اس حدیث میں دئے ہوئے احکامات کے قرآن میں واقف نہیں ، ان کی معلومات مین کچھ نہ کچھ فرق ہے ۔

ہم صاف صاف دیکھ سکتے ہیں کہ یہ حدیث نبوی ، نبی اکرم کی خود ساختہ نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالی کے احکامات کی ترسیل ہے۔ الحمد للہ۔ اللہ تعالی کے وہ احکامات جو نبی اکرم کے عمل یعنی سنت نبوی کے بغیر مکمل نہیں ہیں۔ بنیادی طور پر یہ دعوی کہ حدیث قرآن سے آزاد ہے اور پھر اس کے ثبوت میں نماز کا طریقہ کتب روایات سے فراہم کرنا ، ایک خام کوشش ہے کہ اس طرح ان کتب میں موجود خلاف قرآن فلسفوں کو بھی درست ثابت کیا جائے ایک بے معانی کوشش ہے۔


[arabic]إِنَّهُ لَا تَتِمُّ صَلَاةٌ لِأَحَدٍ مِنْ النَّاسِ حَتَّى يَتَوَضَّأَ فَيَضَعَ الْوُضُوءَ يَعْنِي مَوَاضِعَهُ ثُمَّ يُكَبِّرُ وَيَحْمَدُ اللَّهَ جَلَّ وَعَزَّ وَيُثْنِي عَلَيْهِ وَيَقْرَأُ بِمَا تَيَسَّرَ مِنْ الْقُرْآنِ ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ أَكْبَرُ ثُمَّ يَرْكَعُ حَتَّى تَطْمَئِنَّ مَفَاصِلُهُ ثُمَّ يَقُولُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَائِمًا ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ أَكْبَرُ ثُمَّ يَسْجُدُ حَتَّى تَطْمَئِنَّ مَفَاصِلُهُ ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ أَكْبَرُ وَيَرْفَعُ رَأْسَهُ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَاعِدًا ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ أَكْبَرُ ثُمَّ يَسْجُدُ حَتَّى تَطْمَئِنَّ مَفَاصِلُهُ ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ فَيُكَبِّرُ[/arabic]
"لوگوں میں سے کسی کی نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک وہ
اچھی طرح وضو نہ کرلے -- [AYAH]5:6[/AYAH]
پھر تکبیرکہے اور اللہ جل و عز کی حمد اور تعریف بیان کرے۔ --- [AYAH]2:185 [/AYAH]
اور آسانی سے جو قرآن پڑھ سکتا ہو وہ پڑھے --- [AYAH]15:87[/AYAH] --- [AYAH]17:110[/AYAH]

پھر اللہ اکبر کہہ کر رکوع کرے یہاں تک کہ اس کے جوڑ قرار پا جائیں (یعنی جو اعضاء حرکت میں تھے وہ اپنی اپنی جگہ ٹھہر جائیں) --- کبریائی بیان کیجئے [AYAH]2:185[/AYAH] ---- رکوع : [AYAH]22:77[/AYAH]
پھر "سمع اللہ لمن حمدہ" کہہ کر بالکل سیدھا کھڑا ہو جائے
پھر اللہ اکبر کہہ کر سجدہ کرے یہاں تک کہ اس کے جوڑ قرار پکڑ لیں۔ کبریائی بیان کیجئے : [AYAH] 2:185[/AYAH] اور سجدہ کیجئے [AYAH]22:77 [/AYAH]
پھر اللہ اکبر کہے اور اپنے سر اٹھا کر بالکل سیدھا ہو کر بیٹھ جائے کبریائی بیان کیجئے [AYAH] 2:185[/AYAH] اور بیٹھ جائیے [AYAH]2:125[/AYAH]
پھر اللہ اکبر کہہ کر سجدہ کرے یہاں تک کہ اس کے جوڑ اطمینان پا جائیں (یعنی سکون سے اپنی اپنی جگہ ٹھہر جائیں) کبریائی بیان کیجئے : [AYAH] 2:185[/AYAH] اور سجدہ کیجئے [AYAH]22:77 [/AYAH]
پھر اپنا سر اٹھائے اور تکبیر کہے۔
[/COLOR] کبریائی بیان کیجئے :[AYAH]2:185[/AYAH]


بہت شکریہ ۔

والسلام
 
قراءت کا بیان
دعائے استفتاح کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب فرماتے تھے۔ اسے تعوذ کہتے ہیں اور اس کی دعا یہ ہے:
[arabic] أعوذ بالله من الشيطان الرجيم؛ من هَمْزِه، ونَفْخِه، ونَفْثِه[/arabic]
(ارواء الغلیل جلد 2 ص 53۔ اصل صفۃ صلاۃ جلد 1 ص 273)
اسے اس طرح پڑھا بھی ثابت ہے:
[arabic] أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ[/arabic]
(صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 775، سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من رای الاستفتاح بسبحانک اللھم و بحمدک)

اس کے بعد آہستہ آواز کے ساتھ [arabic] بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ [/arabic]پڑھنی چاہیے۔
(صحیح البخاری کتاب الاذان باب ما یقول بعد التکبیر)

قراءت کا مسنون طریقہ
تعوذ اور بسملہ (بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ) کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سورۃ الفاتحۃ کی تلاوت فرماتے تھے۔ تلاوت کا سنت طریقہ یہ ہے کہ قراءت کرتے وقت ہر آیت پر وقف کیا جائے ۔مثال کے طور پر سورۃ الفاتحۃ پڑھتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم [arabic] بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ[/arabic] پڑھ کر وقف کرتے، پھر [arabic]الحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَالَمِينَ [/arabic] پڑھ کر ٹھہر جاتے۔ پھر [arabic]الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ [/arabic] پڑھتے اور ٹھہر جاتے۔ پھر[arabic]مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ [/arabic] پڑھتے اور اس پر وقف فرماتے تھے اور اسی طرح ایک ایک آیت پر رک کر سورت پوری کرتے تھے۔یہ معمول صرف سورۃ الفاتحہ پڑھنے کے لیے ہی نہ تھا بلکہ دوسری سورتوں کی تلاوت کرتے وقت بھی یہی طریقہ ہوتا تھا کہ آیت کے اختتام پر وقف کرتے اور اسے اگلی آیت سے نہیں ملاتے تھے۔
(سنن الترمذی کتاب القراءات باب فی فاتحۃ الکتاب۔ صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 2927)

آج کل اکثر قاری اور امام مسجد اس سنت سے ناواقف یا لاپرواہ ہیں بلکہ سامعین بھی اسی قاری کو پسند کرتے ہیں‌جو گلا پھلا کر ایک ہی سانس میں متعدد آیات پڑھ سکتا ہو۔
("قراءت کا بیان" جاری ہے)
 
سورۃ الفاتحہ کی فضیلت اور بطور رکن نماز میں اس کی اہمیت


سورۃ الفاتحہ قرآن مجید کی عظیم الشان سورتوں میں سے ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےاس کی بڑی اہمیت اور فضیلت بیان فرمائی ہے۔
عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ
(صحیح البخاری کتاب الاذان باب وجوب القراءۃ للامام و الماموم فی الصلوات کلھا فی الحضر، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ و انہ اذا لم یحسن الفاتحۃ)
اس شخص کی کوئی نماز نہیں جس نے (اس میں) فاتحۃ الکتاب نہیں پڑھی”
ایک اور حدیث میں اس سورت کی اہمیت یوں بیان ہوئی ہے:
لاَ تُجْزِئُ صَلاَةٌ لاَ يَقْرَأُ الرَّجُلُ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ
(سنن دار قطنی کتاب الصلاۃ باب وجوب قراءۃ أم الکتاب فی الصلاۃ و خلف الأمام، ارواء الغلیل جلد 2 ص 10)
"وہ نماز درست نہیں ہوتی جس میں آدمی فاتحۃ الکتاب نہ پڑھے"
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ
(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وجوب القراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ)
جس نے أم القرآن ( یعنی سورۃ الفاتحہ) پڑھے بغیرنماز ادا کی تو وہ (نماز) ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے، نا مکمل ہے”
اس حدیث میں سورۃ فاتحہ کے بغیر پڑھی جانے والی نماز کو "خداج" کہا گیا ہے جس کا مطلب ناقص اور خراب ہے۔ یہ لفظ اونٹنی کے اس بچے کے لیے مستعمل ہے جو قبل از وقت ناتمام اور خراب حالت میں پیدا ہو جائے۔ اس سے بعض علماء کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز ہو تو جاتی ہے لیکن نامکمل رہتی ہے۔ لیکن اوپر صحیح البخاری اور سنن دار قطنی کی جو حدیثیں بیان کی گئی ہیں ان کی روشنی یہ موقف درست معلوم نہیں ہوتا اس لیے کہ ان میں صراحت سے کہا گیا ہے کہ سورۃ الفاتحہ نہ پڑھنے والے کی کوئی نماز نہیں۔خود اسی حدیث کے آخر میں ایسی نماز کو نامکمل کہا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ جب نماز مکمل ہی نہ ہو گی تو درست کیسے ہو سکتی ہے۔ ائمہ اربعہ میں سے امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا موقف بھی سورۃ فاتحہ پڑھنے کی فرضیت کا ہے۔
نماز میں اس کی اہمیت کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے ایک فرمان میں اسے "الصلاۃ" یعنی نماز کے نام سے ذکر فرمایا ہے۔
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ فَنِصْفُهَا لِي وَنِصْفُهَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اقْرَءُوا يَقُولُ الْعَبْدُ [font=al_mushaf]{ [/font]الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ [font=al_mushaf]} [/font]يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ حَمِدَنِي عَبْدِي يَقُولُ [font=al_mushaf]{ [/font]الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ [font=al_mushaf]} [/font]يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي يَقُولُ الْعَبْدُ [font=al_mushaf]{ [/font]مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ [font=al_mushaf]} [/font]يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَجَّدَنِي عَبْدِي يَقُولُ الْعَبْدُ [font=al_mushaf]{ [/font]إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ [font=al_mushaf]} [/font]يَقُولُ اللَّهُ هَذِهِ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ يَقُولُ الْعَبْدُ [font=al_mushaf]{ [/font]اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ [font=al_mushaf]}[/font]يَقُولُ اللَّهُ فَهَؤُلَاءِ لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من ترک القراءۃ فی صلاتہ بفاتحۃ الکتاب، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 779۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وجوب القراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ فرماتاہے "میں نے نماز (یعنی سورۃ الفاتحہ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کر دیا ہے۔پس اس کا نصف حصہ میرا ہے اور نصف میرے بندے کا ہے۔ اور میرے بندے نے جو سوال کیا وہ اسے ملے گا۔"
(پھربات جاری رکھتے ہوئے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
"(سورۃ فاتحہ) پڑھو، جب بندہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کہتا ہے تو اللہ عز و جل فرماتا ہے " میرے بندے نے میری حمد بیان کی"
(بندہ) کہتا ہے الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تو اللہ عز و جل فرماتا ہے "میرے بندے نے میری ثنا بیان کی"۔
بندہ کہتا ہے مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ تو اللہ عز و جل فرماتا ہے "میرے بندے نے میری عظمت بیان کی"
بندہ کہتا ہے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تو اللہ فرماتا ہے "یہ (حصہ) میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے نے جو سوال کیا وہ اسے ملے گا"
بندہ کہتا ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا[font=al_mushaf] الضَّالِّينَ تو اللہ فرماتا ہے [/font]"یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کو وہ ملے گا جس کا اس نے سوال کیا"۔
قرآن مجید میں سورۃ الفاتحہ کی فضیلت اس آیت میں بیان ہوئی ہے۔
وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ (سورۃ الحجر آیت 87)
(اے نبی!) ہم نے آپ کو السبع المثانی اور قرآنِ عظیم عطا کیا"
اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا:
مَا أَنْزَلَ اللَّهُ فِي التَّوْرَاةِ وَلَا فِي الْإِنْجِيلِ مِثْلَ أُمِّ الْقُرْآنِ وَهِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي
(سنن ترمذی کتاب التفسیر باب تفسیر سورۃ الحجر صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 3125)
"اللہ تعالیٰ نے أم القرآن (یعنی سورۃ فاتحہ) جیسی ( عظیم الشان سورت) نہ تورات میں اتاری اورنہ انجیل میں۔ یہی السبع المثانی (بار بار دہرائے جانے والی آیات ) ہیں۔
دوسری روایت میں ہے کہ:
هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُوتِيتُهُ
(صحیح البخاری کتاب التفسیر باب قولہ و لقد آتیناک سبعا من المثانی والقرآن العظیم)
"یہی السبع المثانی (بار بار دہرائی جانے والی آیات) اور قرآنِ عظیم ہے جو مجھے دیا گیا"
(سورۃ الفاتحہ کو "السبع المثانی" کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی سات آیات ہیں جنہیں نماز کی ہر رکعت میں دہرایا جاتا ہے جبکہ قرآنِ عظیم کا نام بھی اس کی اہمیت اور فضیلت کے بیان کے لیے دیا گیا ہے ورنہ قرآن مجید کی ہر شئے ہی عظیم ہے۔ جیسے کعبہ کو تعظیمًا بیت اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ تمام مساجد اللہ کا گھر یعنی بیوت اللہ ہیں)
ٹھیک طرح سے نماز ادا نہ کرنے والے ایک صحابی کو درست طریقہ سکھاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا قُمْتَ فَتَوَجَّهْتَ إِلَى الْقِبْلَةِ فَكَبِّرْ ثُمَّ اقْرَأْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر حدیث نمبر804 ، 805)
"جب تو (نماز کے لیے ) کھڑا ہو تو قبلے کی طرف منہ کر کے تکبیر (تحریمہ) کہہ، پھر(دعائے استفتاح کے بعد) أم القرآن (یعنی سورۃ الفاتحہ) پڑھ"
لیکن اگر کسی کو سورۃ فاتحہ اور دوسری کوئی سورت یاد نہ ہو تو اسے جلد از جلد انہیں سیکھنا اور یاد کرنا چاہیے، تب تک ان کی بجائے وہ اللہ تعالیٰ کی تحمید، کبریائی اور تہلیل پر مشتمل یہ کلمات نماز میں پڑھ سکتا ہے۔
سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ
(صحیح ابن حبان کتاب الصلاۃ باب صفۃ الصلاۃ ، صحیح و ضعیف سنن نسائی حدیث نمبر 1068، ارواء الغلیل 303)
انہیں پڑھنے کی اجازت اس حدیث میں بھی دی گئی ہے :
فَإِنْ كَانَ مَعَكَ قُرْآنٌ فَاقْرَأْ بِهِ وَإِلَّا فَاحْمَدْ اللَّهَ وَكَبِّرْهُ وَهَلِّلْهُ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع و السجود، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 807)
"اگر تجھے قرآن میں سے کچھ یاد ہو تو اسے پڑھ، ورنہ اللہ کی تحمید، کبریائی اور تہلیل بیان کر"
اہلِ سنت و الجماعت کے تمام مکاتب فکر نماز میں سورۃ فاتحہ کی اہمیت کے قائل ہیں۔ فقہاء کا اصل اختلاف امام کے پیچھے اسے پڑھنے کے مسئلے پر ہے جس کا ذکر آئندہ آئے گا ان شاء اللہ۔
 
امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کا مسئلہ ائمہ اور فقہاء میں مختلف فیہ چلا آتا ہے ۔ اس بارے میں فقہاء کے تین گروہ ہیں:
1۔امام مکحول، امام اوزاعی، امام شافعی اور امام ابو ثور رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ امام کے پیچھے سری اور جہری تمام نمازوں میں سورۃ فاتحہ پڑھی جائے گی۔دور حاضر میں الشیخ بن باز سمیت کچھ عرب علماء نے اسی کو اختیار کیا ہے۔
2۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ ، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے اصحاب الرائے سری یا جہری کسی بھی نماز میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے قائل نہیں ہیں۔
3۔ امام زہری، امام مالک، عبداللہ بن مبارک، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق رحمہم اللہ کا کہنا ہے کہ اگر امام بلند آواز سے تلاوت کر رہا ہو تو مقتدی کو سورۃ فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے اور سری نمازوں (یعنی جن میں امام آہستہ آواز میں پڑھتا ہے جیسے ظہر اور عصر وغیرہ) میں پڑھنی چاہیے۔دور حاضر کے مشہور محدث الشیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "اصل صفۃ صلاۃ النبی" میں اس کے حق میں بہترین دلائل دیے ہیں جبکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا فتویٰ بھی اس کی موافقت میں ہے اور
دلائل کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی موقف درست،قرین انصاف اور اعتدال والا ہے یعنی یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ابتداء میں جہری نماز میں امام کے پیچھے سورۃ پڑھ لینے کی اجازت دی تھی جو بعد میں منسوخ کر دی گئی۔ ان دونوں واقعات کو امام ابو داؤد سمیت کئی محدثین نے روایت کیا ہے۔ پہلا واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک دن فجر کی نماز پڑھاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے لیے قراءت کرنا مشکل ہو گیا۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم سے دریافت فرمایا:
لَعَلَّكُمْ تَقْرَءُونَ خَلْفَ إِمَامِكُمْ
"شاید تم لوگ اپنے امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟"
انہوں نے عرض کیا:
"جی ہاں، اے اللہ کے رسول! ہم جلدی جلدی ایسا کر لیتے ہیں"
فرمایا:
لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا
"تم ایسا مت کرو، سوائے اس کے کہ تم میں سے کوئی فاتحہ الکتاب پڑھ لیا کرے، کیوں کہ جس نے اسے نہ پڑھا اس کی نماز نہیں ہوئی"
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من ترک القراءۃ فی صلاتہ بفاتحۃ الکتاب، امام البانی نے کثرت طرق کی بناء پر اسے حسن کہا، دیکھیے اصل صفۃ صلاۃ جلد1 ص 331، اور مشکاۃ المصابیح تلخیص الالبانی حدیث نمبر854)
بعد ازاں یہ اجازت واپس لے لی گئی اور امام کے بلند آواز میں پڑھنے کی صورت میں مقتدیوں کو قراءت سے بالکل منع فرما دیا گیا۔ یہ واقعہ بھی فجر کی نماز کے بعد پیش آیا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے اور صحابہ سے دریافت فرمایا:
هَلْ قَرَأَ مَعِيَ أَحَدٌ مِنْكُمْ آنِفًا
"کیا تم میں سے کوئی ابھی میرے ساتھ ساتھ پڑھتا رہا ہے؟"
ایک شخص نے عرض کیا :
"جی ہاں، اے اللہ کے رسول! میں (پڑھتا رہا ہوں)"
فرمایا:
إِنِّي أَقُولُ مَالِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَ
"میں بھی خیال کر رہا تھا کہ قرآن پڑھنے میں مجھے کیا چیز پریشان کر رہی ہے"
ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ یہ بات سننے کے بعد صحابہ کرام جہری نمازوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ساتھ قراءت کرنے سے رک گئے اور جن نمازوں میں امام بلند آواز سے قراءت نہیں کرتا ان میں آہستہ آواز سے پڑھا کرتے تھے۔
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من کرہ القراءۃ بفاتحۃ الکتاب اذا جہر الامام، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 781)
خاموشی کے ساتھ امام کی قراءت سننا درحقیقت اس کی امامت قبول کرنے کا تقاضا اور اقتداء کی تکمیل کا مظہر ہے، جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے:
إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا
(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 918۔ارواء الغلیل جلد 2 ص 120)
"امام اسی لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو"
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورۃ الفاتحہ کی اہمیت والی جو احادیث پیچھے بیان کی گئی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ جس نے اسے نہ پڑھا اس کی نماز درست نہیں اور اس حدیث میں خاموشی سے امام کی قراءت سننے کا کہا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہری نمازوں میں امام کی قراءت مقتدیوں کے لیے کافی ہوتی ہے ،امام سورۃ فاتحہ پڑھ لے تو مقتدیوں کو خود سے پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ
(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب اذا قرأ لامام فأنصتوا، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 850 )
"جس کا امام (نماز پڑھا رہا ) ہو تو امام کی قراءت ہی اس (مقتدی) کی قراءت (کے لیے کافی) ہے۔
غیرمناسب نہ ہو گا اگر یہ بات بھی بیان کر دی جائے کہ اس مسئلے میں فقہاء کاا ختلاف احادیث کی تطبیق، تضعیف اور ناسخ و منسوخ کا اختلاف ہے اس میں "انکارِ حدیث" کا کوئی دخل نہیں ہے۔
(سری نمازوں میں قراءت خلف الامام کا بیان آگے آ رہا ہے ان شاء اللہ)
 
جن نمازوں میں امام آہستہ آواز سے تلاوت کرتا ہے انہیں سِرّی نمازیں کہا جاتا ہے جیسے ظہر اور عصر کی نماز۔ ان میں امام کے پیچھے آہستہ آواز میں قراءت کرنی چاہیے۔ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
كُنَّا نَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ خَلْفَ الْإِمَامِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ وَفِي الْأُخْرَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ
(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب القراءۃ خلف الامام، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 915، ارواء الغلیل جلد 2 ص 288)
"ہم ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ اور کوئی دوسری سورت اور آخری دورکعت میں (صرف) سورۃ الفاتحہ پڑھا کرتے تھے"
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے سری نمازوں میں آواز بلند کرنے کو ناپسند فرمایا ہے۔ ایک دن ظہر کی نماز میں کسی شخص نے " سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى یعنی سورۃ الاعلیٰ بلند آواز سے پڑھنی شروع کر دی۔ سلام پھیرنے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے دریافت فرمایا:
أَيُّكُمْ قَرَأَ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى؟
"تم میں سے کس نے سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى پڑھی ہے؟"
اس آدمی نے کہا: "میں نے (پڑھی ہے) اور اس سے میرا ارادہ خیر کے سوا کچھ نہ تھا"
- تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
قَدْ عَرَفْتُ أَنَّ رَجُلا خَالَجَنِيهَا
"مجھے محسوس ہوا کہ کوئی شخص میرے لیے (میری قراءت میں) پریشانی کا سبب بن رہا ہے"
(المعجم الکبیر للطبرانی، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب نھی المأموم عن جھر بالقراءۃ خلف امامہ)
دوسری روایت میں ہے کہ کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پیچھے بلند آواز سے پڑھا کرتے تھے تو ان سے مخاطب ہو کر فرمایا:
خَلَطْتُمْ عَلَيَّ الْقُرْآنَ
(مسند احمد مسند المکثرین من الصحابۃ مسند عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، بخاری فی جزء القراءۃ)
"تم نے مجھ پر قرآن خلط ملط کر دیا "
آہستہ آواز سے قراءت کرنے کا حکم نہ صرف سری نمازوں کے لیے ہے بلکہ نوافل میں بآوازِ بلند قراءت کرنے سے دوسروں کو تکلیف ہو تو بھی آہستہ پڑھنا چاہیے۔ ایسے ہی ایک واقعے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا تھا:
إِنَّ الْمُصَلِّيَ يُنَاجِي رَبَّهُ فَلْيَنْظُرْ بِمَا يُنَاجِيهِ بِهِ وَلَا يَجْهَرْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ بِالْقُرْآنِ
(موطا امام مالک کتاب استقبال القبلۃ باب وجوب القراءۃ فی السریۃ، السلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ حدیث نمبر 1603)
"نمازی اپنے رب کے ساتھ سرگوشی کرتا ہے تو اسے خیال کرنا چاہیے کہ اس سےکیا سرگوشی کر رہا ہے اور تم آپس میں ایک دوسرے پر بلند آواز سے قرآن مت پڑھو(تاکہ ساتھ کے نمازیوں کو تکلیف نہ ہو)۔
قرآن مجید کی قراءت بڑے اجرو ثواب والاکام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا لَا أَقُولُ الم حَرْفٌ وَلَكِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِيمٌ حَرْفٌ
(سنن ترمذی کتاب فضائل القرآن باب ما جاء فیمن قرأ حرفا من القرآن ما لہ من الأجر، صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 2910)
"جس نے کتاب اللہ میں سے ایک حرف پڑھا اس کے لیے ایک نیکی ہے اور نیکی کا اجر دس گنا ہوتا ہے۔ میں نہیں کہتا کہ "الم" حرف ہے بلکہ الف حرف ہے اور لام حرف ہے اور میم حرف ہے"
ائمہ اور فقہاء میں سے امام زہری، امام مالک بن انس، عبداللہ بن مبارک، امام احمد بن حنبل ، امام ابن تیمیہ رحمہم اللہ اجمعین اور محدثین کی ایک جماعت سری نماز میں امام کے پیچھے قراءت کرنے کی قائل ہے جبکہ احناف میں امام محمد رحمۃ اللہ علیہ اور ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ سمیت کچھ دوسرےحنفی علماء بھی اسے درست کہا ہے۔
 
سورۃ الفاتحہ ختم کرنے کے بعد آمین کہنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جب سورۃ الفاتحہ کی قراءت سے فارغ ہوتے تو بلند آواز سے آمین کہتے تھے اور مقتدیوں کو بھی ایسا ہی کرنے کا حکم دیا۔ فرمایا:
إِذَا قَالَ الإِمَامُ (غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ) فَقُولُوا آمِينَ ، فَإِنَّ الْمَلاَئِكَةَ تَقُولُ آمِينَ وَإِنَّ الإِمَامَ يَقُولُ آمِينَ ، فَمَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلاَئِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ
(سنن الدارمی کتاب الصلاۃ باب فی فضل التامین، صحیح و ضعیف سنن النسائی حدیث نمبر 1071۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب جھر الماموم بالتامین)
"جب امام غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ کہے تو تم آمین کہو، کیونکہ (اس وقت) فرشتے آمین کہتے ہیں اور امام بھی آمین کہتا ہے، تو جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل گئی اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں"
اس یعنی مقتدی امام سے پہلے یا بعد میں آمین نہ کہے بلکہ اس کے ساتھ ہی کہے۔ اکثر نمازی اس میں تقدیم یا تاخیر کرتے ہیں جو درست نہیں ہے۔
اسی مضمون کی دوسری حدیث ہے :
إِذَا قَالَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ آمِينَ وَالْمَلَائِكَةُ فِي السَّمَاءِ آمِينَ فَوَافَقَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ
(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب التسمیع والتحمد و التامین، صحیح البخاری کتاب الاذان باب فضل التامین)
"جب تم میں سے کوئی نماز میں آمین کہتا ہے اور (اس وقت) فرشتے آسمان میں آمین کہتے ہیں۔ پھر (اگر) ان دونوں کی آمین میں موافقت ہو جائے تو اس (آمین کہنے والے) کے پہلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں"
صحیح مسلم کی حدیث میں ہے:
فَقُولُوا آمِينَ يُجِبْكُمْ اللَّهُ
(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب التشھد فی الصلاۃ)
"(جب امام سورۃ فاتحہ ختم کرے تو) تم آمین کہو اللہ تمہاری دعا قبول فرمائے گا"
اللہ تعالیٰ نے اس امت کو آمین کے جو فضائل اور برکتیں عطا فرمائی ہیں یہود اس کی وجہ سے جلتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
مَا حَسَدَتْكُمْ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ مَا حَسَدَتْكُمْ عَلَى السَّلَامِ وَالتَّأْمِينِ
(سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب الجھر بآمین، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 691)
"یہودی جس قدر سلام اور آمین کی وجہ سے تم پر حسد کرتے ہیں اتنا کسی دوسری چیز پر نہیں کرتے"
 
سورۃ فاتحہ کے بعد قراءت کا بیان
(نماز میں قرأت کی ترتیب یوں ہے کہ)سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد کوئی دوسری سورت پڑھنی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم عام طورپر لمبی قراءت فرماتے تھے لیکن کسی عذر جیسے سفر، کھانسی یا بیماری کے سبب سے مختصر تلاوت بھی فرمائی ہے، علاوہ ازیں دورانِ نماز کسی بچے کے رونے کی آواز آ جاتی تو قراءت مختصر کر کے رکوع میں چلے جاتے تا کہ اس کی ماں کو تکلیف نہ ہو کیونکہ اس وقت عورتیں بھی مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے آیا کرتی تھیں۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ایک دن فجر کی نماز دو چھوٹی سورتیں پڑھ کر نہایت اختصار کے ساتھ پڑھائی۔ صحابہ نے عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! آپ نے (آج)ہلکی نماز کیوں پڑھائی؟"
فرمایا:
سَمِعْتُ بُكَاءَ صَبِيٍّ فَظَنَنْتُ أَنَّ أُمَّهُ مَعَنَا تُصَلِّي فَأَرَدْتُ أَنْ أُفْرِغَ لَهُ أُمَّهُ
"میں نے ایک بچے کے رونے کی آواز سنی تو خیال کیا کہ اس کی ماں ہمارے ساتھ نماز پڑھ رہی ہو گی تو میں چاہا کہ اس کے لیے اس کی ماں کو جلد فارغ کر دوں"
(مسند احمدمسند انس بن مالک، )
دوسری حدیث میں ہے:
إِنِّي لَأَدْخُلُ فِي الصَّلَاةِ وَأَنَا أُرِيدُ إِطَالَتَهَا فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلَاتِي مِمَّا أَعْلَمُ مِنْ شِدَّةِ وَجْدِ أُمِّهِ مِنْ بُكَائِهِ
میں نماز شروع کرتا ہوں اور اسے طول دینا چاہتا ہوں، پھر کسی بچے کا رونا سن کر اپنی نماز کو مختصر کر دیتا ہوں کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ اس کے رونے سے اس کی ماں کتنی سخت غمگین ہوجاتی ہے"
(صحیح البخاری کتاب الاذن باب من اخف الصلاۃ عند بکاء الصبی)
ضمنًا اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کو مسجد میں لانا جائز ہے ۔
چھوٹے بچوں کو مسجد میں لانے کے بارے میں جو حدیث عام طور پرمشہور ہے کہ "بچوں کو مسجدسے دور رکھو" وہ بالاتفاق ضعیف ہے۔ اسے ضعیف قرار دینے والوں میں امام ابن جوزی، امام منذری، امام ہیثمی، حافظ ابن حجر عسقلانی ، اور بوصیری شامل ہیں اور عبدالحق اشبیلی نے اسے بے اصل قرار دیا ہے۔
، لیکن افضل یہی ہے کہ انہیں مسجد میں نہ لایا جائے کیونکہ نہ تو انہیں حوائج ضروریہ پر قابو ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں مسجد ، نمازیوں اور عبادت کرنے والوں کے آداب کا کچھ پتہ ہوتا ہے ، اور وہ اپنی فطری حرکات کی بنا پر بسا أٔوقات مسجد میں ناپاکی کا سبب بھی بن سکتے ہیں اور نمازیوں اور عبادت کرنے والوں کے لیے پریشانی کا سبب بھی ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا عام معمول یہ تھا کہ جب کوئی سورت شروع کرتے تو اسی رکعت میں اسے مکمل فرماتے تھے۔ ایک رکعت میں مکمل سورت پڑھنا اور ہر رکعت کو ایک سورت تک محدود رکھنا افضل ہے اگرچہ اس کا کچھ حصہ پڑھ لینے سے بھی نماز ہو جاتی ہے۔ حدیث میں ہے:
أَعْطُوا كُلَّ سُورَةٍ حَظَّهَا مِنْ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ
"ہر سورۃ کو رکوع و سجود (یعنی نماز) میں سے اس کا حصہ دو"
(مسند احمد مسند البصریین حدیث من سمع النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم، صحیح و ضعیف الجامع الصغیر حدیث نمبر 1934)
(
دوسری حدیث میں ہے:
لِكُلِّ سُورَةٍ رَكْعَةٌ
"ہر ایک سورت ایک رکعت کے لیے ہے"
(شرح معانی الآثار للطحاری کتاب الصلاۃ باب جمع السور فی الرکعۃ)
یعنی ہر رکعت میں ایک مکمل سورت پڑھو تا کہ اس کے ذریعے اس رکعت کا حصہ پورا ہو جائے۔
لیکن یہ حکم صرف استحباب کے لیے ہے کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے ثابت ہے کہ انہوں نے ایک ہی سورت دو رکعتوں میں مکمل کی اور کبھی ایسا بھی ہوا کہ جو سورت پہلی رکعت میں پڑھی دوسری رکعت میں بھی اسی کی تلاوت فرمائی جبکہ ایک رکعت میں ایک سے زائد سورتیں پڑھنابھی ثابت ہے۔
اس سلسلے میں ایک انصاری صحابی کا واقعہ ملتا ہے جو مسجد قباء میں جماعت کروایا کرتے تھے ۔ ان کا معمول تھا کہ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد کوئی بھی دوسری سورت پڑھنے سے قبل "قل ھو اللہ احد" یعنی سورۃ الاخلاص پڑھا کرتے تھے۔ ان کے ساتھیوں نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا "کیا آپ کے خیال میں صرف اس (سورۃ الاخلاص) کی تلاوت کافی نہیں کہ آپ اسے پڑھنے کے بعد کوئی دوسری سورت ملانا ضروری سمجھتے ہیں؟ اسی کو پڑھا کریں یا پھر اسے چھوڑ کر کوئی دوسری سورت پڑھ لیا کریں۔" انہوں نے کہا "میں تو اس کو نہیں چھوڑ سکتا، تمہیں اسی حالت میں میری امامت اگرپسند ہے تو ٹھیک ورنہ میں امامت چھوڑ دیتا ہوں"۔ مقتدی انہیں اپنے میں سب سے افضل سمجھتے تھے اور کسی دوسرے کی امامت انہیں ناپسند تھی۔ لہٰذا معاملہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پاس لے جایا گیا تو انہوں نے اس صحابی سے دریافت فرمایا:
يَا فُلَانُ مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَفْعَلَ مَا يَأْمُرُكَ بِهِ أَصْحَابُكَ وَمَا يَحْمِلُكَ عَلَى لُزُومِ هَذِهِ السُّورَةِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ
"اے فلاں! تم اپنے ساتھیوں کی بات کیوں نہیں تسلیم کرتے اور کیوں ہر رکعت میں اس سورت کو لازمی پڑھتے ہو"؟
انہوں نے عرض کیا:
"مجھے اس (سورت) سے محبت ہے"
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
حُبُّكَ إِيَّاهَا أَدْخَلَكَ الْجَنَّةَ
" اس (سورت) سے تیری محبت تجھے جنت میں داخل کر دے گی"
(صحیح البخاری کتاب الاذان باب الجمع بین السورتین فی الرکعۃ۔ ۔ ۔۔)
 
قراءت سے متعلق کچھ مزید سنتوں کا بیان
ہم معنی سورتوں کو اکٹھا پڑھنا
سنت مطہرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کبھی کبھارنماز میں ان سورتوں کو ایک ہی رکعت میں پڑھا کرتے تھے جو معانی اور ٕمضمون میں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے "مفصل" سورتوں میں سے درج ذیل دو دو سورتیں ایک ہی رکعت میں پڑھیں۔ سورۃ ق یا اس سے اگلی سورۃ الحجرات سے لے کر سورۃ الناس تک کی سورتیں "مفصل" کہلاتی ہیں۔
{ الرَّحْمَن } (55 : 78 ) اور { النَّجْم } (53 : 62)
{ اقْتَرَبَتِ } (54 : 55) اور { الحَاقَّة } (69 : 52)
{ الطُّور } (52 : 49) اور { الذَّارِيَات } (51: 60)
{ إِذَا وَقَعَتِ } (56 : 96) اور { ن } (68 : 52)
{ سَأَلَ سَائِلٌ } (70 : 44) اور { النَّازِعَات } (79 : 46)
{ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ } (83 : 36) اور { عَبَسَ } (80 : 42)
{ المُدَّثِّر } (74 : 56) اور { المُزَّمِّل } (73 : 20)
{ هَلْ أَتَى } (76 : 31) اور { لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ القِيَامَةِ } (75 : 40)
{ عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ } (78 : 40) اور { المُرْسَلَات } (77 : 50)
{ الدُّخَان } (44 : 59) اور { إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ } (81 : 29)
(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین و قصرھا باب ترتیل القراءۃ و اجتناب الھذ ، سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب تخریب القرآن، صحیح سنن ابی داؤدحدیث نمبر 1262)
ترتیب مصحف کا خیال رکھنا افضل ہے، ضروری نہیں:
اس فہرست میں سورت کے نام کے بعد دائیں جانب سورت نمبر اور بائیں جانب اس سورت میں آیات کی تعداد لکھی گئی ہے جس پر غور کرنے سے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےانہیں مصحف میں موجود ترتیب کے مطابق نہیں پڑھا جس سے ترتیب کے خلاف پڑھنے کا جواز معلوم ہوتا ہے، لیکن ترتیب کا خیال رکھنا افضل اور بہتر ہے۔ اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جس میں ذکر ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے تہجد پڑھتے ہوئے سورۃ البقرۃ، سورۃ النساء اور سورۃ آل عمران کو اسی ترتیب سے ایک ہی رکعت میں پڑھا تھا، یعنی سورۃ آل عمران کو سورۃ النساء کے بعد پڑھا جبکہ مصحف میں وہ سورۃ النساء سےپہلے آتی ہے ۔
لمبے قیام کی فضیلت
نماز میں لمبا قیام کرنا اور قرآن مجید کی زیادہ سے زیادہ قراءت کرنا افضل ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےفرمایا:
أَفْضَلُ الصَّلَاةِ طُولُ الْقِيَامِ
(شرح معانی الآثار کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی رکعتی الفجر، صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب افضل الصلاۃ طول القنوت)
"افضل نماز وہ ہے جس میں لمبا قیام کیا جائے"
آیات کا جواب دینا
نماز میں کچھ آیات کا جواب دینا بھی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ مثلا:
جب سورۃ القیامۃ کی آخری آیت پڑھی جائے کہ أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ المَوْتَى (تو کیا وہ (اللہ) اس پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کرے؟" تو اس کے جواب میں کہا جائے "سبحانك فَبَلى
(السنن الکبرٰی للبیہقی، صحیح سنن ابن داؤد حدیث نمبر 827)
سورۃ الاعلی میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى کے جواب میں سبحان ربي الأعلى پڑھنا چاہیے۔
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب الدعاء فی الصلاۃ، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر826)
اس حدیث کے الفاظ مطلق ہیں جب بھی یہ آیات پڑھی جائیں تو ان کا جواب دینا چاہیے چاہے انہیں نماز میں پڑھا جائے یا نماز سے باہر، اور نماز خواہ نفلی ہو یا فرض۔ابن ابی شیبہ نے ابو موسٰی اشعری اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہےکہ وہ دونوں جب فرض نماز میں ان کی تلاوت کرتے تو جواب میں یہ کلمات کہتےتھے اور عمر رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ سے مطلقًا منقول ہے۔
 
السلام علیکم
جزاک اللہ
جاری رکھیں اور نماز کی صفت پر جاری رکھیں۔ کہ نمازی تو سلام کا جواب بھی نہ دے۔ سترا رکھ لیں تاکہ آگے سے گذرنے والوں سے دھیان نہ بٹے۔
 
کیا صرف سورۃ فاتحہ پر اقتصار کرنا جائز ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سورۃ الفاتحہ کے بعد قرآن مجید کی کوئی سورت پڑھا کرتے تھے۔ ایک صحابی کو نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے بھی سورۃ الفاتحہ کے بعد قرآن میں سے جو آسان لگے اسے پڑھنے کا حکم ارشاد فرمایا لیکن اگر کوئی شخص صرف فاتحہ الکتاب پڑھ لے تو بھی اس کی نماز درست ہے اگرچہ اسے معمول بنا لینا صحیح نہیں ہے۔ اس کی دلیل معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے واقعے میں ملتی ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ساتھ عشاء کی نماز ادا کرتے، پھر واپس (اپنے محلہ میں آ کر) اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے۔ ایک دن انہوں نے واپس آ کر نماز پڑھانی شروع کی تو ان کے قبیلے بنی سلمہ کا سلیم نامی نوجوان بھی نماز میں شریک تھا۔ (معاذ رضی اللہ عنہ نے لمبی قراءت شروع کر دی) تو اس نے اکتا کر (جماعت چھوڑ دی اور) مسجد کے ایک کونے میں نماز ادا کی، پھر مسجد سے نکل کر اپنے اونٹ کی نکیل پکڑی اور چل دیا۔جماعت ختم ہونے کے بعد معاذ رضی اللہ عنہ سے اس واقعے کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے کہا "اس شخص میں ضرور نفاق ہے، میں اس کی حرکت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو آگاہ کروں گا"۔(ادھر اس) نوجوان نے کہا "میں بھی ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو معاذ کی حرکت سے مطلع کروں گا"۔ صبح دونوں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے ۔ معاذ رضی اللہ عنہ نے نوجوان کی شکایت کی تو اس نے (اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے) کہا:
"اے اللہ کے رسول، یہ رات دیر گئے تک آپ کے پاس ٹھہرے رہتے ہیں، پھر وہاں سے واپس آ کر طویل قراءت شروع کر دیتے ہیں"
اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے (معاذ رضی اللہ عنہ پر ناراضگی کا اظہار فرماتے ہوئے) کہا:
يَا مُعَاذُ أَفَتَّانٌ أَنْتَ
"اے معاذ کیا تو(لوگوں کو) فتنے میں مبتلا کرنے والاہے؟"
پھر نوجوان سے فرمایا:
كَيْفَ تَصْنَعُ يَا ابْنَ أَخِي إِذَا صَلَّيْتَ
"بھتیجے! جب تو نماز ادا کرتا ہے تو کیا (قراءت) کرتا ہے؟"
اس نے کہا:
"میں فاتحۃ الکتاب پڑھتا ہوں اور (پھر نماز کے آخر میں تشھداور نبی صلی اللہ و علی آلہ وسلم پر صلاۃ پڑھنے کے بعد) اللہ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور جہنم سے پناہ مانگتا ہوں۔مجھے نہیں معلوم کہ آپ اور معاذ (اس وقت ) آہستہ آواز میں کیا پڑھتے ہیں۔"
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
إِنِّي وَمُعَاذًا حَوْلَ هَاتَيْنِ أَوْ نَحْوَ هَذَا
میں اور معاذ انہی دو کے ارد گرد (بات کرتے ہیں) یا اسی طرح کی بات کرتے ہیں”
(اس سے سورۃ فاتحہ پر اقتصار کا جواز معلوم ہوتا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس صحابی کے صرف سورۃ فاتحہ پڑھنے پر خاموشی کا اظہار فرمایا اور انہیں سورت ملانے کا حکم نہیں دیا)
(ان دنوں دشمن کے حملے کی خبر گرم تھی اور صحابہ جنگ احد کی تیاری کر رہے تھے) تو اس نوجوان نے کہا:
جب دشمن آ پہنچے گا اور لوگوں کواس کے آنے کی خبر ہو جائے گی تو معاذ کو بھی معلوم ہو جائے گا (کہ میں منافق نہیں ہوں)۔
پھر (میدانِ اُحد میں)دشمن سے سامنا ہوا اور یہ نوجوان صحابی اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے شہید ہو گیا۔ بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:
مَا فَعَلَ خَصْمِي وَخَصْمُكَ ؟
مجھ سے اور تجھ سے جھگڑا کرنے والے نے کیا کیا”؟
تو معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول، اس نے اللہ کی تصدیق کی اور میں نے جھٹلایا، وہ تو شہید ہو گیا ہے”
حوالہ جات:
سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی تخفیف الصلاۃ، صحیح سنن ابی داؤد ، 757، 758
صحیح ابن خزیمہ جلد سوم ص 65 المکتب الاسلامی بیروت،
سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب ما یقال بعد التشھد و الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم
 

طالوت

محفلین
حضور والا روایتوں سے تو آپ نماز کا کوئی ایک طریقہ قیامت تک ثابت نہیں کر سکتے اور نہ ہی امت مسلمہ کو کسی ایک طریقہ نماز پر متفق کر سکتے ہیں ۔ کیونکہ دیگر طریقوں سے نماز ادا کرنے والوں کے پاس آپ سے بہتر نہیں تو اتنے ہی وزنی دلائل موجود ہیں وگرنہ مسلک تو ہیں ہی الگ الگ ۔ اور ازراہ کرم جب آپ کہیں کہ اس پر علماء کا اتفاق ہے تو ان علماء کا مسلک بھی لکھ دیا کریں کیونکہ دنیا بھر میں اکثریتی مسلمانوں کا یا علماء کا اتفاق مختلف نماز کے طریقوں پر ہے ۔ عقیدت مندوں کے لئے اچھی معلومات ہے مگر یہ ایک مضحکہ خیز بات ہو گی کہ رسول اللہ نماز میں کبھی کوئی ایک طریقہ اختیار فرماتے اور کبھی کوئی دوسرا طریقہ ۔ آپ نے اس سلسلہ میں جو مختلف نمازوں میں ادل بدل کر مختلف طریقے اختیار کرنے کا ذکر کیا ہے اس کا حوالہ پیش کریں میں آپ کی بات کو ایسا ہی سمجھا ہوں اگر غلطی پر ہوں تو تصحیح فرمائیے ۔
وسلام
 
حضور والا روایتوں سے تو آپ نماز کا کوئی ایک طریقہ قیامت تک ثابت نہیں کر سکتے اور نہ ہی امت مسلمہ کو کسی ایک طریقہ نماز پر متفق کر سکتے ہیں ۔ کیونکہ دیگر طریقوں سے نماز ادا کرنے والوں کے پاس آپ سے بہتر نہیں تو اتنے ہی وزنی دلائل موجود ہیں وگرنہ مسلک تو ہیں ہی الگ الگ ۔ اور ازراہ کرم جب آپ کہیں کہ اس پر علماء کا اتفاق ہے تو ان علماء کا مسلک بھی لکھ دیا کریں کیونکہ دنیا بھر میں اکثریتی مسلمانوں کا یا علماء کا اتفاق مختلف نماز کے طریقوں پر ہے ۔ عقیدت مندوں کے لئے اچھی معلومات ہے مگر یہ ایک مضحکہ خیز بات ہو گی کہ رسول اللہ نماز میں کبھی کوئی ایک طریقہ اختیار فرماتے اور کبھی کوئی دوسرا طریقہ ۔ آپ نے اس سلسلہ میں جو مختلف نمازوں میں ادل بدل کر مختلف طریقے اختیار کرنے کا ذکر کیا ہے اس کا حوالہ پیش کریں میں آپ کی بات کو ایسا ہی سمجھا ہوں اگر غلطی پر ہوں تو تصحیح فرمائیے ۔
وسلام
جناب، میں جو کچھ پیش کر سکتا ہوں وہ کر رہا ہوں۔ حوالہ جات کی مکمل فراہمی کا التزام بھی کیا جا رہا ہے۔ فیصلہ کرنے سے قبل متعلقہ کتب اور شروح کی جانب رجوع کیجیے۔ کوئی علمی دلیل ہو تو پیش کریں، عدیم الفرصتی نے فضول بحثوں میں شامل ہونے کا دووازہ بند کر رکھا ہے اس لیے بحث برائے بحث سے معذرت چاہتا ہوں۔
 
سری اور جہری قراءت کن نمازوں میں کرنی چاہیے


سنت مطہرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم (جماعت کرواتے ہوئے)نماز فجر کی دونوں رکعتوں اور مغرب اور عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں بلند آواز سے قراءت فرماتے تھے جبکہ ظہر و عصر کی تمام رکعتوں، مغرب کی تیسری اور عشاء کی آخری دو رکعتوں میں سری قراءت کرنا سنت ہے۔ اس پر امت مسلمہ کا اجماع ہے جیسا کہ امام نوویؒ نے بیان کیا ہے اور اس بارے میں کثرت سے احادیث بھی موجود ہیں جن کا بیان آگے مسنون(یعنی سنت کے مطابق) قراءت کے ذیل میں آئے گا ان شاء اللہ۔ نیز نمازِ جمعہ[1]، نماز عیدین[2]، نماز استسقاء[3] اور نماز کسوف[4]میں بلند آواز سے قراءت کرنا سنت ہے۔​

صحابہ کوسری قراءت کا علم کیسے ہوتا تھا
سری قراءت کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی داڑھی مبارک ہلا کرتی تھی جس سے صحابہ کرام کو معلوم ہو جاتا کہ وہ قراءت فرما رہے ہیں[5]، جبکہ کبھی کبھار ایسا ہوتا کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم درمیان میں کوئی آیت بلند آواز سے پڑھ دیا کرتے جس سے سننے والے جان لیتے کہ وہ کون سی سورت پڑھ رہے ہیں[6]۔​

رات کے نوافل (تہجد) میں قراءت کیسے کی جائے
رات کے نوافل (تہجد) میں نمازی کو اختیار ہے چاہے بلند آواز سے پڑھے یا آہستہ آواز میں، دونوں طریقے سنت سے ثابت ہیں [7]، لیکن آواز اتنی بلندنہیں ہونی چاہیے جس سے دوسروں کو تکلیف ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم رات کو اپنے گھر میں درمیانی آواز میں قراءت فرماتے تھے جسے حجرے میں موجود شخص ہی سن سکتا تھا[8]۔(یہاں حجرہ سے مراد وہ دیوار یا آڑ ہے جو گھر کے دروازے کے سامنے بنائی جاتی ہے ، جیسا کہ گھر کی بیرونی چار دیواری)، لیکن کبھی کبھارمعمول سے ہٹ کر اتنی بلند آواز میں بھی پڑھا ہے کہ حجرے سے باہر موجود افراد کو سنائی دے سکے[9]۔​

تہجد وغیرہ میں سری اور جہری میں کونسا طریقہ افضل ہے
یہاںسوال پیدا ہوتا ہے کہ سری اور جہری میں افضل طریقہ کون سا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس آدمی کو ریاکاری اور دکھاوے کا اندیشہ ہواس کے لیے آہستہ آواز میں پڑھنا افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ہے:
الْجَاهِرُ بِالْقُرْآنِ كَالْجَاهِرِ بِالصَّدَقَةِ وَالْمُسِرُّ بِالْقُرْآنِ كَالْمُسِرِّ بِالصَّدَقَةِ
"قرآن کی جہری قراءت کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جو اعلانیہ صدقہ کرتا ہے اور پست آواز سے قرآن پڑھنے والا چھپا کر صدقہ کرنے والے کی مانند ہے"
اور جب ریاکاری کا ڈر نہ ہوتو درمیانی آواز سے پڑھنا افضل ہے کیونکہ ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کو ایسا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ آہستہ آواز سے نماز پڑھ رہے ہیں، پھر عمر رضی اللہ عنہ پر سے گزر ہوا تو انہیں بآواز بلند قراءت کرتے پایا۔ بعد میں جب وہ دونوں حاضر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
يَا أَبَا بَكْرٍ مَرَرْتُ بِكَ وَأَنْتَ تُصَلِّي تَخْفِضُ صَوْتَكَ
"اے ابو بکر! میں (رات کو) آپ کے (گھر کے) پاس سے گزرا تو (دیکھا کہ) آپ آہستہ آواز میں نماز پڑھ رہے ہیں"
ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول!(اس کی وجہ یہ ہے کہ )میں جس (رب) سے سرگوشی کر رہا تھا وہ تو (ہلکی آواز بھی) سنتا ہے"۔
پھر عمر رضی اللہ عنہ سے کہا:
مَرَرْتُ بِكَ وَأَنْتَ تُصَلِّي رَافِعًا صَوْتَكَ
"میرا گزر جب آپ پر ہوا تو آپ نماز میں بلند آوا زسے قراءت کر رہے تھے"
انہوں نے جواب دیا:
"یا رسول اللہ! میرا ارادہ سوئے ہوئے کو جگانے اور شیطان کو بھگانے کا تھا"
اس پر نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
يَا أَبَا بَكْرٍ ارْفَعْ مِنْ صَوْتِكَ شَيْئًا
"اے ابوبکر، آپ اپنی آواز کچھ بلند کر لیا کریں"
اور عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
اخْفِضْ مِنْ صَوْتِكَ شَيْئًا
"آپ اپنی آواز کچھ پست کیا کریں"
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی رفع الصوت بالقراءۃ فی صلاۃ اللیل، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 1329)​

دن کے نوافل میں قراءت کیسے ہو:
دن میں پڑھے جانےو الے نوافل کے بارے میں صحیح سند کے ساتھ کچھ بھی مروی نہیں ہے لیکن بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سری قراءت کرنی چاہیے۔ البتہ ایک ضعیف حدیث میں ہےکہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ وہ نفل پڑھتے ہوئے اونچی آواز میں قراءت کر رہے ہیں تو ان سے فرمایا :
يا عبد الله ! سمِّع الله ولا تُسْمِعنا
"اے عبداللہ! اللہ کو سنا ہمیں نہ سنا"

حوالہ جات:
[1] ۔ صحیح مسلم کتاب الجمعۃ باب ما یقرأ فی صلاۃ الجمعۃ

[2] ۔ سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب ما جاء فی القراءۃ فی صلاۃ العیدین

[3] ۔ صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب کیف حول النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ظھرہ الی الناس

[4] ۔ سنن ابن داؤد کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی صلاۃ الکسوف۔ صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 1188)

[5] ۔ صحیح البخاری کتاب الأذان باب رفع البصر الی الأمام فی الصلاۃ

[6] ۔ صحیح البخاری کتاب الأذان باب یقرأ فی الأخریین بفاتحۃ الکتاب

[7] ۔ سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی قراءۃ اللیل۔ صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 449)

[8] ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی رفع الصوت بالقراءۃ فی صلاۃ اللیل، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 1327)

[9] ۔ سنن ابن ماجہ کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی القراءۃ فی صلاۃ اللیل، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1349)
 
احادیث صحیحہ میں کچھ ایسی سورتوں کا بیان ہے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے مختلف اوقات میں مختلف نمازوں میں پڑھا۔ ذیل میں ان کی تفصیل دی جا رہی ہے تا کہ جن لوگوں کو یہ سورتیں یاد ہیں وہ انہیں متعلقہ نمازوں میں پڑھیں اور جنہیں یاد نہیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے طریقےپر عمل پیرا ہونے کی نیت سے انہیں سیکھنے کی کوشش کریں۔ واضح رہے کہ اس تحقیق کے پیچھے اتباع رسول کا جذبہ ہے ورنہ قرآن مجید کی کوئی بھی سورت نماز میں پڑھی جا سکتی ہے۔

نماز فجر میں مسنون قراءت
نماز فجر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے درج ذیل سورتیں پڑھنا منقول ہے۔( مصحف میں تلاش کی آسانی کی خاطر نام کے بعد قوسین کے اندر سورت کا نمبر لکھ دیا گیاہے)

1۔ طوال مفصل کی سورتیں[1]( چھبیسویں پارے میں سورۃ ق (50) سے آخر قرآن تک کی سورتیں طوال مفصل کہلاتی ہیں)۔ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ان میں سے سورۃ الطور(52) کی تلاوت فرمائی تھی[2]۔ سورۃ الواقعہ (56) کو فجر کی دورکعتوں میں[3] اور سورۃ ق (50) کو پہلی رکعت میں پڑھنا بھی ثابت ہے[4]۔

2۔ سورۃ التکویر (81) (اذا الشمس کورت)[5]

3۔ سورۃ الزلزال (99) (اذا زلزلت الأرض زلزالھا)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےایک دفعہ دونوں رکعتوں میں یہی سورت پڑھی تھی۔ اس حدیث کے راوی صحابی کہتے ہیں "مجھے نہیں معلوم کہ (دونوں رکعتوں میں ایک ہی سورت) پڑھنا بھولنے کی وجہ سے تھا یا نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے عمدًا ایسا کیا تھا"[6]۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مقصود دونوں رکعتوں میں ایک ہی سورت پڑھنے کی مشروعیت اور جواز بتانا تھا۔

4۔ ایک سفر میں نماز فجرپڑھاتے وقت "قل اعوذ برب الفلق" اور "قل اعوذ برب الناس" یعنی سورۃ الفلق (113) اور سورۃ الناس (114) کی تلاوت فرمائی۔ ان دونوں سورتوں کونماز میں پڑھنے کا حکم ایک دوسری حدیث میں بھی ملتا ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے عقبہ بن معاذ رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا؛
" اقرأ في صلاتك المعوذتين
"اپنی نماز میں معوذتین پڑھا کرو[7]
فما تَعَوَّذَ مُتَعَوِّذٌ بمثلهما
" ان جیسی کوئی (شئے ایسی) نہیں ہے جس کے ساتھ کسی پناہ لینے والے نے پناہ لی ہو"[8]

5۔ کبھی کبھار ان متوسط اور چھوٹی سورتوں کی بجائے ساٹھ آیات یا اس سے کچھ زیادہ کی قراءت بھی فرمائی ہے[9]۔ ( اس حدیث کے ایک راوی کا کہنا ہے کہ "میں نہیں جانتا اتنی قراءت دونوں رکعتوں میں ہوتی تھی یا ایک رکعت میں۔)

6۔ سورۃ الروم (30)[10]، سورۃ یس (36) [11] ، سورۃ الصافات (37)[12] اور سورۃ المومنون (23)۔ سورۃ المومنون کی قراءت مکہ مکرمہ میں صبح کی نماز پڑھاتے ہوئے فرمائی تھی، پھر اس سورت میں موسیٰ و ہارون علیہما السلام یا پھر عیسیٰ علیہ السلام (راوی کو شک ہے) کے ذکر پر پہنچے تو کھانسی آ جانے کی وجہ سے رکوع میں چلے گئے[13]۔

8۔ جمعے کے دن نماز فجر کی پہلی رکعت میں "الم ، تنزیل" یعنی سورۃ السجدۃ (32) اور دوسری رکعت میں "ھل اتی علی الانسان" یعنی سورۃ الدھر (76) کا پڑھنا مسنون ہے[14]۔(لیکن ائمہ مساجد کو چاہیے کہ کبھی کبھار ان کی بجائے کوئی دوسری سورت پڑھا کریں تا کہ کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اس دن انہی سورتوں کو پڑھنا لازم ہے)
سنت مطہرہ کےعمومی قاعدہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز پڑھتے ہوئے دوسری رکعت کوپہلی رکعت کی نسبت مختصر رکھنا چاہیے[15]۔



[1] ۔ سنن نسائی الکبرٰی جلد 1 ص 338، صحیح و ضعیف سنن نسائی حدیث نمبر 982 ۔ حدیث حسن

[2] ۔ سنن ابی داؤد کتاب المناسک باب الطواف واجب، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 1882)

[3] ۔ صحیح ابن خزیمہ جلد 1 ص 265 ناشر المکتب الاسلامی بیروت، مسند احمد مسند البصریین حدیث جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ

[4] ۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی الصبح

[5] ۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی الصبح

[6] ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب الرجل یعید سورۃ واحدۃ فی الرکعتین، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر 816

[7] ۔ ۔ مسند احمد مسند البصریین حدیث رجل رضی اللہ عنہ

[8] ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی المعوذتین۔ صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر 1462

[9] ۔ سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی القراءۃ فی صلاۃ الصبح۔ صحیح و ضعیف سنن ترمذی حدیث نمبر 306

[10] ۔ رواہ البزار

[11] ۔ المعجم الکبیر للطبرانی جلد 2 ص 361 حدیث 2019

[12] ۔ مسند احمد مسند المکثرین من الصحابہ مسند عبداللہ بن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ

[13] ۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی الصبح

[14] ۔ صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب ما یقرأ فی صلاۃ الفجر یوم الجمعۃ

[15] ۔ صحیح البخاری کتاب الأذان باب یقرأ فی الأخریین بفاتحۃ الکتاب
 
نماز فجر کی سنتوں میں ہلکی قراءت کرنا منسون ہے۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم صبح کی نماز کی دوسنتیں اتنی ہلکی پڑھتے تھے کہ میں سوچتی تھی کہ انہوں نے سورۃ الفاتحہ بھی پڑھی ہے یا نہیں؟[1]۔ فجر کی سنتوں میں درج ذیل آیات اور سورتوں کا پڑھنا سنت سے ثابت ہے۔
1۔ پہلی رکعت میں سورۃ البقرۃ کی آیت 136 اور دوسری رکعت میں سورۃ آل عمران کی آیت 64[2]۔ یہ دونوں آیات درج ذیل ہیں۔
قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِنْ رَبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (البقرۃ136)
قُلْ يَا أَهْلَ الكِتَابِ تَعَالَوا إِلَى كَلَمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلاَ نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ فَإِن تَوَلَّوا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (آل عمران 64)
دوسری رکعت میں اس کی بجائے سورۃ آل عمران کی یہ آیت پڑھنا بھی مسنون ہے [3]:
فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَى مِنْهُمُ الكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّهِ آمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (آل عمران 52)
2۔ پہلی رکعت میں قل یایھا الکافرون اور دوسری رکعت میں قل ھو اللہ احد [4]۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے انہیں فجرکی سنتوں میں پڑھنے کی ترغیب دی ہے اور فرمایا ہےکہ:
نِعْمَ السُّورَتَانِ هُمَا يُقْرَأُ بِهِمَا فِي رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَقُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ
"دو بہترین سورتیں وہ ہیں جنہیں فجر کی دو رکعت (سنت) میں پڑھا جاتا ہے (یعنی) قل ھو اللہ احد اور قل یا ایھا الکافرون"[5]
ایک دفعہ کسی صحابی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے سامنے فجر کی سنتوں کی پہلی رکعت میں قل یایھا الکافرون پڑھی تو فرمایا:​
هَذَا عَبْدٌ آمَنَ بِرَبِّهِ
"یہ بندہ اپنے رب پر ایمان لایا"
پھر دوسری رکعت میں اس نے قل ھو اللہ احد پڑھی تو فرمایا:​
هَذَا عَبْدٌ عَرَفَ رَبَّهُ
"اسے بندے نے اپنے رب کو پہچان لیا"[6]
یہ دونوں سورتیں ذیل میں دی جا رہی ہیں:​
سورة الكافرون
بسم الله الرحمن الرحيم
قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ (1) لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ (2) وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ (3) وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَا عَبَدْتُمْ (4) وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ (5) لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ
سورة الإخلاص
بسم الله الرحمن الرحيم
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (1) اللَّهُ الصَّمَدُ (2) لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (3) وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ (4)
حوالہ جات:
[1]۔ صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب ما یقرأ فی رکعتی الفجر
[2] ۔ صحیح مسلم صلاۃ المسافرین و قصرھا باب استحباب رکعتی الفجر و الحث علیھما و تخفیفھما
[3] ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب رکعتی الفجر و فی تخفیفھما، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد 1260)
[4]
۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب رکعتی الفجر و فی تخفیفھما، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد 1256)
[5] ۔ سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ 1150)
[6] ۔ شرح معانی الآثار للطحاوی کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی رکعتی الفجر
 
نماز ظہر و عصر میں قراءت کیسے کی جائے
نماز ظہر و عصر میں قراءت کیسے کی جائے
ظہر اور عصر کی نمازوں میں آہستہ آواز سے یعنی سری قراءت کرنی چاہیے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلی رکعت میں دعائے استفتاح (سبحانک اللھم و بحمدک ۔ ۔۔)، تعوذ اور بسملہ کے بعد آہستہ آواز میں سورۃ الفاتحہ پڑھی جائے، پھر قرآن مجید کی کوئی سی دوسری سورت ملائی جائے اور اسے بھی آہستہ آواز ہی میں پڑھا جائے۔ دوسری رکعت پہلی رکعت کے مثل ہے یعنی اس میں تعوذ، بسملہ، فاتحہ اور ملائی جانے والی سورت پڑھی جائے گی فرق صرف یہ ہے کہ اس میں دعائے استفتاح نہیں پڑھی جاتی[1]۔تیسری اور چوتھی رکعت کا آغاز تعوذ اور بسملہ سے کرنے کے بعدنمازی کو اختیار ہے چاہے تو سورت الفاتحہ کے فورًا بعد رکوع میں چلا جائے[2] اور چاہے تو اس کے بعد کوئی دوسری سورت پڑھ کر رکوع کر لے لیکن اگر وہ سورت ملانا چاہے تو اس کا سنت طریقہ یہ ہے کہ آخری دو رکعتوں کو پہلی دونوں رکعتوں کی نسبت مختصر پڑھا جائے، یعنی اگر پہلی رکعتوں میں تیس آیات کے بقدر تلاوت کی ہے تو آخری دونوں میں پندرہ آیات کے قریب کی جائے[3]۔ واضح رہے کہ آیات کو اس مقدار کے مطابق پڑھے جانے کو اتباع سنت کے جذبے سے دیکھا جانا چاہیے ورنہ قرآن مجید میں سے جو بھی اور جس قدر بھی آسان لگے اس کی تلاوت کی جا سکتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ظہر و عصر میں عمومًا سری قراءت فرماتے تھے لیکن کبھی کبھار بیچ میں کوئی آیت بلند آواز سے بھی پڑھ دیا کرتے تھے جس سے سننے والوں کو معلوم ہو جاتا کہ آپ کون سی سورت پڑھ رہے ہیں[4] نیز قراءت کرتے ہوئے آپ کی ریش مبارک ہلا کرتی تھی جس سے دیکھنے والے جان لیتے تھے کہ آپ قراءت فرما رہے ہیں[5]۔​
ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ظہر کی نماز میں بعض دفعہ اتنا لمبا قیام فرمایا کرتے تھے کہ نماز شروع ہونے کے بعد کوئی شخص بقیع میں جا کر اپنی ضرورت پوری کر کےگھر میں آتا، پھر وضو کرنے کے بعد مسجد میں پہنچتا تو ابھی پہلی رکعت جاری ہوتی تھی [6]۔ نماز کو لمبا کرنے کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ نمازی پہلی رکعت جماعت کے ساتھ پا لیں [7]۔ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کے اندازے کے مطابق ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں قیام کی مقدار اتنی ہوتی تھی جس میں تیس آیات بشمول سورۃ الفاتحہ بقدر سورۃ السجدہ پڑھی جا سکیں اورآخری دونوں رکعتوں میں اس سے نصف یعنی پندرہ آیات پڑھنے کے بقدر قیام فرماتے تھے۔جبکہ عصر کی نماز ظہر سے مختصر ہوتی تھی جس کی پہلی دو رکعتوں میں پندرہ آیات اور آخری دو رکعتوں میں اس سے نصف کے بقدر قیام ہوتا تھا[8]۔​
دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے درج ذیل سورتیں بھی ظہر یا عصر کی نماز میں پڑھی ہیں:
1۔سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى(سورت نمبر 87 کل آیات 17) اور هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الغَاشِيَةِ (سورت نمبر 88 کل آیات 26)[9]
السَّمَاءِ ذَاتِ البُرُوجِ (سورت نمبر 85 کل آیات 22) اور وا لسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ (سورت نمبر 86 کل آیات 17) [10]
واللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى (سورت نمبر 92 کل آیات 21) [11]، إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ(سورت نمبر 84 کل آیات 25) [12] اور ان جیسی دوسری سورتیں​
سری نمازوں کی ہر رکعت میں سورت فاتحہ پڑھنی لازم ہے[13] اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ایک صحابی کو نماز کی پہلی رکعت پڑھنے کا طریقہ سکھاتے ہوئےاس میں قرآن (یعنی فاتحہ) پڑھنے کا حکم دیا اور پھر فرمایا:
ثُمَّ افْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلَاتِكَ كُلِّهَا[14]
"پھر اپنی (باقی کی) تمام نماز میں بھی ایسا ہی کر"
دوسری روایت میں ہے:​
ثُمَّ اصْنَعْ ذَلِكَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ[15]
"پھر ہر رکعت میں ایسا ہی کر"
چنانچہ جن لوگوں نے آخری دو رکعت میں خاموش کھڑے رہنے یا تسبیح و تہلیل کو کافی قرار دیا ہے ان کی بات درست نہیں ہے۔


[1]۔ صحیح بخاری کتاب الاذان باب یقرأ فی الأخریین بفاتحۃ الکتاب

[2]۔ صحیح بخاری کتاب الاذان باب یقرأ فی الأخریین بفاتحۃ الکتاب

[3]۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی الظھر و العصر

[4]۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب اذا أسمع الامام الآیۃ

[5]۔ صحیح البخاری کتاب الأذان باب من خافت القراءۃ فی الظھر و العصر

[6]۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی الظھر و العصر

[7]۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی القراءۃ فی الظھر، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر 800

[8]۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی الظھر و العصر

[9]۔ صحیح ابن خزیمہ جلد اول ص 257۔ مطبوع المکتب الاسلامی بیروت حدیث نمبر 512

[10]۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب قدر القراءۃ فی صلاۃ الظھر و العصر، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر 805

[11]۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی الصبح

[12]۔ صحیح ابن خزیمہ جلد اول ص 257۔ مطبوع المکتب الاسلامی بیروت حدیث نمبر 511

[13]۔ سورت فاتحہ پڑھنے کے مسئلے کا بیان پیچھے گزر چکا ہے۔

[14]۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب امر النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم الذی لایتم رکوعہ

[15]۔ مسند احمد مسند الکوفیین حدیث رفاعۃ بن رافع الزرقی رضی اللہ عنہ
 
مغرب کی نماز میں مسنون قراءت

مغرب کی نماز میں مسنون قراءت
نماز مغرب میں بڑی سورتیں پڑھنے یا لمبی قراءت کرنے کوعمومًا ناپسند کیا جاتا ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی حیات مبارکہ اور خلفائے راشدین کے زمانہ خلافت میں اس نماز میں چھوٹی اور بڑی سورتیں دونوں قسم کی سورتیں پڑھی جاتی تھیں۔ مختصر سورتیں پڑھنے کا التزام سب سے پہلے مروان بن الحکم نے اپنے دور حکومت میں شروع کیا تھا۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اس کے اس فعل کو خلاف سنت سمجھتے تھے اور اس پر ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا کرتے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم مغرب کی نماز میں جو سورتیں پڑھا کرتے تھے ان کی کچھ تفصیل ذیل میں دی جا رہی ہے:[1]۔
1۔ قصار مفصل یعنی سورۃ البینہ سے سورۃ الناس تک کی سورتیں[2]۔ یہ تمام چھوٹی سورتیں ہیں، چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ان میں سے کوئی سورت پڑھتے تو نماز جلدی ختم ہو جاتی تھی اور ابھی اتنی روشنی باقی ہوتی تھی کہ تیر انداز اپنے تیر کے گرنے کی جگہ دیکھ سکتا تھا[3]۔
2۔ ایک مرتبہ دورانِ سفر مغرب کی دوسری رکعت میں سورۃ والتین والزیتون (سورت نمبر 95 کل آیات 8 ) کی تلاوت فرمائی[4]۔
3۔ سورۃ محمد (سورت نمبر 47 کل آیات 38 )[5]
4۔ سورۃ الطور (سورت نمبر 52 کل آیات 49)[6]
5۔ سورۃ المرسلات (سورت نمبر 77 کل آیات 50)۔ یہ وہ سورت ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے وفات سے قبل آخری نماز پڑھاتے ہوئے تلاوت فرمایا تھا[7]۔
6۔ ایک دفعہ سورۃ الاعراف کو دو رکعتوں میں پڑھا[8]۔
7۔ کبھی کبھار نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم مغرب کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ الانفال کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔[9]


[1] ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب القراءۃ فی المغرب

[2] ۔ صحیح و ضعیف سنن النسائی حدیث نمبر 983

[3] ۔ صحیح االبخاری کتاب مواقیت الصلاۃ باب وقت المغرب

[4] ۔ مسند الطیالسی مسند البراء بن عازب رضی اللہ عنہ، اصل صفۃ صلاۃ جلد 2 ص 475

[5] ۔ المعجم الکبیر للطبرانی حدیث نمبر 13399، اصل صفۃ صلاۃ جلد 2 ص 477

[6] ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب الجھر فی المغرب

[7] ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب القراءۃ فی المغرب

[8] ۔ صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر 812، سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب قدر القراءۃ فی المغرب

[9] ۔ المعجم الکبیر للطبرانی حدیث نمبر 3795، اصل صفۃ صلاۃ جلد 2 ص 787
 
عشاء کی نماز میں قراءت
عشاء کی نماز میں قراءت کے سلسلے میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا واقعہ بڑا سبق آموز ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ دور رسالت میں مسجد نبوی سے دور اپنے محلے میں امامت کروایا کرتے تھے۔ ایک رات عشاء کی نماز میں انہوں نے سورۃ البقرۃ پڑھنی شروع کر دی جو قرآن مجید کی سب سے بڑی سورت ہے۔ ان کی طویل قراءت سے تنگ آ کر ایک انصاری صحابی نے جماعت چھوڑی اور اپنی الگ نماز پڑھ کر گھر چلا گیا۔ نماز سے فراغت کے بعد مقتدیوں نے وقوعے سے آگاہ کیا تومعاذ رضی اللہ عنہ نے اس شخص کی حرکت کو سخت ناپسندکیا اور کہنے لگے "یہ شخص منافق ہے"۔ پھر دونوں فریق یہ معاملہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی خدمت میں لے گئے ۔دونوں کی بات سننے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر فرمایا:
أَتُرِيدُ أَنْ تَكُونَ فَتَّانًا يَا مُعَاذُ إِذَا صَلَّيْتَ بِالنَّاسِ فَاقْرَأْ بِالشَّمْسِ وَضُحَاهَا وَسَبِّحْ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى وَاقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ
(سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب من أم القوم فلیخفف، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ 986)
"اے معاذ! کیا تو (لمبی نماز پڑھا کر لوگوں کو) فتنے میں مبتلا کرنے والا بننا چاہتا ہے؟ جب تولوگوں کو نماز پڑھائے تو (اس میں) والشمس وضحاھا، سبح اسم ربک الاعلیٰ، واللیل اذا یغشٰی اور اقرأ باسم ربک (جیسی چھوٹی سورتیں) پڑھا کر"
اورفرمایا:
فَإِنَّهُ يُصَلِّي وَرَاءَكَ الْكَبِيرُ وَالضَّعِيفُ وَذُو الْحَاجَةِ
(صحیح البخاری کتاب الاذان باب من شکا امامہ اذا طول)
"کیوں کہ تیرے پیچھے عمر رسیدہ، کمزور اور ضرورت مند (ہر قسم کے) لوگ نماز پڑھتے ہیں"
اس واقعے میں ائمہ مساجد کے لیے اہم سبق پنہاں ہے کہ وہ لمبی لمبی نمازیں پڑھا کر لوگوں کو دین سے متنفر نہ کریں کیونکہ جماعت میں کمزور، مریض، بوڑھے اور کام کاج والے ہر قسم کے لوگ شامل ہوتے ہیں جو طویل قراءت برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے یا پھر اپنی معاشی و دنیاوی ذمے داریاں ادا کرنے کے لیے فریضہ نماز سے جلدی عہدہ برآ ہونا چاہتے ہیں۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ دین سے دوری، شیطانی وسوسوں یا دنیاوی مصروفیات میں حد سے زیادہ مشغولیت کی وجہ سے کچھ لوگوں کو چھوٹی سورتیں بھی طویل محسوس ہوتی ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ سے شدید محبت اور دین سے گہرا تمسک رکھنے والے لوگ عمومًا طویل قراءت کو پسند کرتے ہیں، موخر الذکر کے نزدیک قراءت کی جو مقدار تھوڑی ہوتی ہے مقدم الذکر کے ہاں وہ طوالت کے زمرے میں آتی ہے تو کس کے فہم کو معیار مانا جائے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا عمل اور ان کی بتائی ہوئی مقدار اور حد اصل معیار ہے، کسی کی ذاتی پسند یا ناپسند کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔ مسنون مقدار اور حد کی مثال اوپر گزر چکی ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو سورۃ الشمس، سورۃ الاعلٰی، سورۃ اللیل اور سورۃ العلق جیسی سورتیں پڑھنے کا حکم دیا گیا تھا۔ پس جس نے سنت کے مطابق نماز پڑھائی اس کی قراءت شرعی طور پر مختصرتصور کی جائے گی اور جس نے اس سے زیادہ کیا اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے حکم کی مخالفت کی اور نمازیوں کے لیے ممکنہ فتنے کا سبب بنا۔
اس موقف کوان احادیث سے تقویت ملتی ہے جن میں ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز عشاء میں اوساط مفصل (آخری پارے کے شروع سے لے کر سورۃ والضحٰی تک کی سورتیں) پڑھا کرتے تھے[1]، کچھ روایات میں اوساط مفصل کی جگہ"والشمس و ضحاھا" اور اس سے ملتی جلتی سورتیں" کے الفاظ ہیں[2] لیکن معنی کے لحاظ سے دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے کیونکہ والشمس و ضحاھا وغیرہ اوساط مفصل میں داخل ہیں۔ ایک دفعہ سفر کے دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے پہلی رکعت میں سورۃ والتین و الزیتون[3] کی تلاوت فرمائی تھی جبکہ سورۃ الانشقاق کا نماز عشاء میں پڑھنا اور اس میں سجدے کی آیت پر سجدہ کرنا بھی ثابت ہے[4]۔

حوالہ جات:
[1] ۔ مسند احمد باقی مسند المکثرین مسند ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ۔ صحیح و ضعیف سنن النسائی حدیث نمبر 982
[2] صحیح و ضعیف سنن النسائی حدیث نمبر 983
[3] ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب الجھر فی العشاء
[4] ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب الجھر فی العشاء
 
Top