قرۃالعین اعوان
لائبریرین
افسوس ناک حقیقت!
جیاس عہد کاالمیہ ہے یہ کہ مادی چیزوں سے لگاؤ اور انسانوں سے دوری
یسافسوس ناک حقیقت!
بالکل بجا فرمایا آپ نےنلیم میں نے آج صبح جس وقت میرا بھائی اور اُس کے بچے باغبانی میں مصروف تھے اس دھاگے کا ذکرکیا تو اُس نے اس کو بہت سراہا
وہ صرف ایک گھنٹے کے لیے ٹی وی آن کرتا ہے اپنے بچوں کے لیے اور ٹی وی کے بارے میں اُس کا کہنا یہ ہے کہ بچوں کے ٹائم پاس
اورتفریح کے لیئے قدرتی اور صحت مند ذرائع ہونے چاہیے نا کہ مشینں جن سے یک طرفہ کمیونی کیشن ہوتی ہے اوراحساسات اور
مشاہدات بے حدمحدود ہوجاتے ہیں - کچھ عرصہ قبل امریکہ میں زیادہ ٹی وی دیکھنے والے افراد اور بلخصوص بچوں کی ذہنی صلاحتوں
پر اس کے منفی اثرات پرریسرچ کی گئی تھی اور بتایا گیا کہ اس کے کس قدرمضُراثرات ہیں-
ہم نے انسانوں سے بات کرنے ، اس سے مل کرخوشیاں بانٹنے اور احساسات کو شئیر کرنے کی بجائے خود کو مشینوں کے حوالے کردیا ہے
جوہمیں وقتی تفریح اور سہولیات تو فراہم کردیتی ہیں لیکن مروت، اخلاق، ہمدردی، بھائی چارے اوردوستی جیسے جذبوں اور دیرپا رفیقوں
سے محروم کردیتی ہیں
آپ اپنا شمارانسانوں میں کرتے ہیں یا مشینوں میں آپ کی باتیں سن کر مجھے لگتا ہے آپ عام انسان نہیں خدا نے آپ سے خاص کام لینا ہےانسان دکھ دیتے ہیں پرابلمز پیدا کرتے ہیں اور انسان ہی سب برائی کی جڑ ہیں مادی چیزیں کبھی کبھار تنگ کرتی ہیں پھر ٹھیک ہو سکتی ہیں یا نئی خریدی جا سکتی ہیں
جی بھیا،،میں نےبھی سُناہے ،،لیکن آج کل بہت سے لوگ بچوں سے اپنی جان چھڑانےکےلیےبھی ٹی وی کے حوالےکردیتےہیں کہ جاو جاکےکارٹون دیکھواور ایک آج کل کےکارٹونز کااللہ ہی حافظ ہےنلیم میں نے آج صبح جس وقت میرا بھائی اور اُس کے بچے باغبانی میں مصروف تھے اس دھاگے کا ذکرکیا تو اُس نے اس کو بہت سراہا
وہ صرف ایک گھنٹے کے لیے ٹی وی آن کرتا ہے اپنے بچوں کے لیے اور ٹی وی کے بارے میں اُس کا کہنا یہ ہے کہ بچوں کے ٹائم پاس
اورتفریح کے لیئے قدرتی اور صحت مند ذرائع ہونے چاہیے نا کہ مشینں جن سے یک طرفہ کمیونی کیشن ہوتی ہے اوراحساسات اور
مشاہدات بے حدمحدود ہوجاتے ہیں - کچھ عرصہ قبل امریکہ میں زیادہ ٹی وی دیکھنے والے افراد اور بلخصوص بچوں کی ذہنی صلاحتوں
پر اس کے منفی اثرات پرریسرچ کی گئی تھی اور بتایا گیا کہ اس کے کس قدرمضُراثرات ہیں-
ہم نے انسانوں سے بات کرنے ، اس سے مل کرخوشیاں بانٹنے اور احساسات کو شئیر کرنے کی بجائے خود کو مشینوں کے حوالے کردیا ہے
جوہمیں وقتی تفریح اور سہولیات تو فراہم کردیتی ہیں لیکن مروت، اخلاق، ہمدردی، بھائی چارے اوردوستی جیسے جذبوں اور دیرپا رفیقوں
سے محروم کردیتی ہیں
یعینی اب ٹام جیری اور میکی ماؤس کا بھی اللہ حافظ ہےجی بھیا،،میں نےبھی سُناہے ،،لیکن آج کل بہت سے لوگ بچوں سے اپنی جان چھڑانےکےلیےبھی ٹی وی کے حوالےکردیتےہیں کہ جاو جاکےکارٹون دیکھواور ایک آج کل کےکارٹونز کااللہ ہی حافظ ہے
جی نہیں، فطرت سلیم میں کوئی بدروح گھس گئی ہے۔آپ اپنا شمارانسانوں میں کرتے ہیں یا مشینوں میں آپ کی باتیں سن کر مجھے لگتا ہے آپ عام انسان نہیں خدا نے آپ سے خاص کام لینا ہے
حرم شریف میں بیٹھ کرسوچنا تو قسمت والوں کوملتاہے ، اپنے پُرانے بیگجیز اُتار پھینکیں اور تلخ باتوں کو بُھلا کر دیکھیں روشن راہیں
آپ کے سامنے ہوں گی - میں ہرایک کو مشورہ نہیں دیتا نا مجھے مشورے پسند ہیں ہرانسان کے اندار اچھائی ، بُرائی اور بھلائی کو سمجھنے
کی حس موجود ہے بس غور کرنے کی ضرورت ہے اور میں آپ بھی فقط غور کرنے کی دعوت دے سکتاہوں کہ آپ مجھے ایک صالح روح لگتے
ہیں اس لیے
مجھےسمجھ نہیں آرہاکہ پرمزاح ریٹنگ کروں یازبردست،،فنی بھی ہےاورزبردست بھیایک پرائمری اسکول ٹیچر نے کلاس کے بچوں کو کلاس ورک دیا کہ وہ ایک مضمون لکھیں کہ وہ (بچے) کیا چاہتے ہیں کہ ان کا خدا ان کے لیے کرے۔
سب بچوں نے مضمون لکھا وہ تمام بچوں کے مضامین اپنے گھر پر چیک کرنے لگی اس دوران ایک مضمون نے اس کو آبدیدہ کردیا اور بے اختیاری میں اس کے آنسو نکل آئے
اس کا شوہر اس کے قریب ہی بیٹھا تھا اس کے آنسو دیکھ کر پوچھنے لگا کہ کیا ہوا؟
...
ٹیچر بولی یہ مضمون پڑھیے یہ ایک بچے نے مضمون لکھا ہے
شوہر نے مضمون لیکر پڑھنا شروع کیا اس میں لکھا تھا “اے خدا آج میں آپ سے بہت خاص مانگتا ہوں اور وہ یہ کہ مجھے آئی-پیڈ-III لے دے، میں بھی ایسے ہی جینا چاہتا ہوں کہ جیسے میرے امی ابو کی عیاشی لگی ہوئی۔ چلو ابو کا ٹیبلٹ تو آفیشل ہے پر امی نے جو دھوم مچائی ہوئی وہ۔ میں آئی-پیڈ-III لیکر بہت خاص بن جاؤں گا میرے ماں باپ، میرے بہن بھائی سب میرے ہی گرد بیٹھے رہیں گے۔ جب میں ٹیمپل-رن براوؤ کھیل رہا ہونگا تو سب کی نظر میری اچیومنٹس پر ہوگی۔ میں دی-کرس اور مشینیریم جیسی ذہنی گیمز کھیلوں گا تو سب دوست مجھ سے جلیں گے۔ میں تمام گھر والوں کی توجہ کا مرکز بنا رہوں گا۔ بہن بھائی جہاں بھی گیم میں اٹکیں گے تو مجھ ہی پکارا جائے گا۔دوست احباب پائریٹڈ گیمز کے لیئے میرے پیچھے پیچھے پھریں گے۔ ہر کوئی پوچھے گا مجھ سے کہ یہ جیل بریک کیسے ہوگا۔ امی جب ون ٹچ ڈرائنگ جیسی بچگانہ گیمز پر دو دو گھنٹے اٹکی رہیں گی تو میں دل کھول کر مذاق اڑاؤں گا۔
اور تو اورابو کی توجہ کا بھی ایسے ہی مرکز بن جاؤں گا جیسے کوئی بلیک بیری۔جتنے بھی تھکے ہونگے مجھے کہیں گے کہ میری ٹیبلٹ پر بھی یہ والی گیمز کر دو نہ۔ الغرض سب کو خوب ذلیل کر کے دل کی بھڑاس نکالوں گا۔
اے خدا میں نے تجھ سے زیادہ نہیں مانگا بس یہ مانگا ہے کہ مجھے اس نوکیا 1210کی جگہ آئی-پیڈ-III لے دے۔
ٹیچر کے شوہر نے افسوسناک انداز سے بیگم کو دیکھتے ہوئے کہا “ اے خدایا کتنا کمینہ بچہ ہے۔ اور اپنے ماں باپ کے پیسے کا کیسے اجاڑا کرنا چاہتا ہے۔
ٹیچر نے نظریں اٹھا کر اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ مضمون “ہمارے اپنے بچے“ کا لکھا ہوا ہے.
ارےنہیں بھائی یہ تو واقعی دیکھنےوالےہیں کوئی پابندی نہیں ،،یعینی اب ٹام جیری اور میکی ماؤس کا بھی اللہ حافظ ہے
ہا ہا ہا شکریہ شکریہمجھےسمجھ نہیں آرہاکہ پرمزاح ریٹنگ کروں یازبردست،،فنی بھی ہےاورزبردست بھی
میں نے اسی لیئے ٹی-وی ہی نہیں خریداجی بھیا،،میں نےبھی سُناہے ،،لیکن آج کل بہت سے لوگ بچوں سے اپنی جان چھڑانےکےلیےبھی ٹی وی کے حوالےکردیتےہیں کہ جاو جاکےکارٹون دیکھواور ایک آج کل کےکارٹونز کااللہ ہی حافظ ہے
کمپیوٹر جو خرید لیا ہےمیں نے اسی لیئے ٹی-وی ہی نہیں خریدا
جب کہ ٹام اینڈ جیری مغرب میں ہمیشہ تنقید کا شاخسانہ بنے ہیں۔ارےنہیں بھائی یہ تو واقعی دیکھنےوالےہیں کوئی پابندی نہیں ،،
متفقواقعی آج کی دنیا میں مادی چیزیں اس حد تک اہم ہوگئی ہیں کہ رشتے ناطے ان کے بوجھ تلے دب کر رہ گئے ہیں، لہٰذا لوگوں کو ٹی وی، کمپیوٹر، موبائل اور ایسی ہی دیگر مشینوں سے نکل کر اپنے سے ملنے اور بات چیت کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ آج کل کے نفسا نفسی کے دور میں اگر کوئی شخص آپ کے لئے وقت نکال کر آپ سے مل اور بات کررہا ہے تو یقین مانیں، وہ آپ کے ساتھ بہت مخلص ہے۔
جی مجھےبھی پنک پینتھربہت پسندتھااورٹام اینڈجیری بھیجب کہ ٹام اینڈ جیری مغرب میں ہمیشہ تنقید کا شاخسانہ بنے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ان کارٹونز میں تشدد کا عنصر پایا جاتا ہے جو بچوں کی ذہنی نشونما میں منفی اثر ڈالتا ہے۔
اس کے برعکس یہ کارٹون، پنک پینتھر کے بعد سب سے مشہور کارٹون مانے جاتے ہیں۔
مگر افسوس اس وقت ہوتا ہے جب کوئی اپنا قیمتی وقت کسی کو دیتا ہے اور اگلا بندہ اسے بےوقوف سمجھنے لگتا ہے اور اپنے آپ کو ایسے سمجھتا ہے جیسے سرخاب کے پر لگے ہوں۔واقعی آج کی دنیا میں مادی چیزیں اس حد تک اہم ہوگئی ہیں کہ رشتے ناطے ان کے بوجھ تلے دب کر رہ گئے ہیں، لہٰذا لوگوں کو ٹی وی، کمپیوٹر، موبائل اور ایسی ہی دیگر مشینوں سے نکل کر اپنے سے ملنے اور بات چیت کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ آج کل کے نفسا نفسی کے دور میں اگر کوئی شخص آپ کے لئے وقت نکال کر آپ سے مل اور بات کررہا ہے تو یقین مانیں، وہ آپ کے ساتھ بہت مخلص ہے۔