الف نظامی

لائبریرین
جو سانس ہے شعاع امید ہو گیا ہے

جو سانس ہے شعاعِ اُمید ہو گیا ہے
ذرہ تری نظر سے خورشید ہوگیا ہے

بزمِ وجود کس کی منت کشِ ‌کرم ہے
یہ کون زندگی کی تمہید ہوگیا ہے

کیفِ حضور میں‌ ہوں‌،کیسے سرور میں‌ہوں
دل کا سفال جامِِ جمشید ہوگیا ہے

دل میں بسا لیا ہے تیری گلی کا نقشہ
یہ بت کدہ بھی نذرِ توحید ہوگیا ہے

جب سے تری تمنا آنکھوں‌کی روشنی ہے
ہر دن مری نظر میں‌اب عید ہوگیا ہے

ہاں‌تیری آرزو میں‌جو بھی بسر ہوا ہے
وہ زندگی کا لمحہ جاوید ہوگیا ہے

دنیا کو اب تو تیری رحمت کا آسرا ہے
انسان تو بظاہر نومید ہوگیا ہے

دامانِ‌رحمت ان کا پھیلا ہے دوجہاں‌پر
یہ سایہ مغٍفرت کی اُمید ہوگیا ہے

تسکین کے پیالے آتے ہیں سرو اب تو
جب سے خیال وقفِ تحمید ہوگیا ہے

زخمہ دل از حکیم سید محمود احمد سرو سہارن پوری سے لی گئی نعت
 

الف نظامی

لائبریرین
السلام اے مرکز پرکارِِ عشق
السلام اے قافلہ سالاِر عشق

السلام اے عمر بر گردوں‌رکاب
السلام اے افضل ابنِ خطاب

السلام اے سیدہ زہرا بتول
السلام اے قراۃ‌عین رسول

السلام اے فرح‌قلب نور عین
السلام اے مادر حسن و حسین

یا محمد آسرا ہے آپ کا
اور کوئی بھی نہیں ہے تیرے سوا

چومنا قدموں‌کا تیرے اے حبیب
پھر بھی ہو جائے غریبوں‌کو نصیب

اپنے در پر پھر ہمیں‌بلوائیے
سبز گنبد پھر ہمیں‌دکھلائیے

آنا جانا ہو تیرے دربار میں
عرض ‌ہم کرتے رہیں‌سرکار میں

پھر دکھانا روئے زیبا یا نبی
پھر میرے اعمال دُھل جائیں سبھی

ہے ترا فرمان الطالح‌لی
عاصیوں‌کا آسرا ہے بس یہی

رحم کر رحم اے کریم بےکساں
آپ ہی ہیں‌پردہ پوش عاصیاں

گو بُرے ہیں یابھلے جیسے ہیں ہم
سگ ترے ہی در کے کہلاتے ہیں ہم

پیشِ حق با ناز محبوبی بگو!
نامہ عصیاں‌ایں‌عاصی بگو

کس زباں‌سے الوداع کا نام لوں
الوداع کے بعد پھر صدمے سہوں

الفراق الفراق الفراق
الفراق الفراق الفراق

الوداع آرام گاہِ مصطفے
الوداع اے بارگاہِ مصطفے

الوداع اے حاکم روح‌ امیں
الوداع اے سبز گنبد کے مکیں

الوداع رشکِ زمرد الوداع
الوداع اے سبز گنبد الوداع

نور سے معمور جالی الوداع
شان ہے تیری نرالی الوداع

الوداع صدیق اکبر الوداع
الوداع فاروق اعظم الوداع

الوداع اے قصر احمد الوداع
الوداع محراب و منبر الوداع

الوداع اے بابِ رحمت الوداع
الوداع اے راہِ جنت الوداع

الوداع خدامِِ احمد مجتبٰے
الوداع بوابِ احمد الوداع

استنِ حنانہ و جبل اُحد
عاشقانِ خاکِ محبوبِ اُحد

الوداع اے پاک طیبہ الوداع
رحمتِ عالم کے خطبہ الوادع

اب عنایت سے اجازت دیجیے
اور دُعا حق میں‌ہمارے کیجیے

پھر کرم کی مجھ پہ ہو جائےنگاہ
پھر ترا مشتاق ہو اور تیری راہ

السید غلام معین الدین شاہ مشتاق رحمۃ‌ اللہ علیہ
 

محمد مسلم

محفلین
نعت
کہاں میں ، کہاں مدحِ ذاتِ گرامی
نہ سعدی، نہ رومی، نہ قدسی نہ جامی
پسینے پسینے ہُوا جا رہا ہوں
کہاں یہ زباں اور کہاں نامِ نامی
سلام اس شہنشاہ ِہر دو سرا پر
درود اس امامِ صفِ انبیاء پر
پیامی تو بے شک سبھی محترم ہیں
مگر اﷲ اﷲ خصوصی پیامی
فلک سے زمیں تک ہے جشنِ چراغاں
کہ تشریف لاتے ہیں شاہ رسولاں
خوشا جلوہ ماہتابِ مجسم
زہے آمد آفتاب تمامی
کوئی ایسا ہادی دکھادے تو جانیں
کوئی ایسا محسن بتا دے تو جانیں
کبھی دوستوں پر نظر احتسابی
کبھی دشمنوں سے بھی شیریں کلامی
اطاعت کے اقرار بھی ہر قدم پر
شفاعت کا اقرار بھی ہر نظر میں
اصولًا خطاؤں پہ تنبیہ لیکن
مزاجاً خطا کار بندوں کے حامی
یہ آنسو جو آنکھوں سے میری رواں ہیں
عطا ئے شہنشاہ ِکون و مکاں ہیں
مجھے مل گیا جامِ صہبائے کوثر
میرے کام آئی میری تشنہ کامی
فقیروں کو کیا کام طبل و عَلم سے
گداؤں کو کیا فکر جاہ و حشم کی
عباؤں قباؤں کا میں کیا کروں گا
عطا ہو گیا مجھ کو تاجِ غلامی
انہیں صدقِ دل سے بلا کے تو دیکھو
ندامت کے آنسو بہا کے تو دیکھو
لیے جاؤ عقبی میں نامِ محمد ﷺ
شفاعت کا ضامن ہے اسمِ گرامی
(حضرت ماہر القادری رحمۃ اﷲ علیہ)
 

محمد مسلم

محفلین
بے خبر تو جوہرِ آئینہ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
بدیع الزماں
اے رسولِ امین خاتم المرسلین
تجھ سا کوئی نہیں، تجھ سا کوئی نہیں
ہے عقیدہ یہ اپنا بصدق و یقین
تجھ سا کوئی نہیں، تجھ سا کوئی نہیں
اے رسولِ امین خاتم المرسلین
تجھ سا کوئی نہیں، تجھ سا کوئی نہیں
بزمِ کونین پہلے سجائی گئی
پھر تیری ذات منظر پر لائی گئی
سید الاولین سید الآخریں
تجھ سا کوئی نہیں، تجھ سا کوئی نہیں
مصطفٰی مجتبٰی تیری مداح ہو ثناء
میری بس میں نہیں دسترس میں نہیں
دل کو ہمت نہیں لب کو یارا نہیں
تجھ سا کوئی نہیں، تجھ سا کوئی نہیں
دل کو ہمت نہیں لب کو یارا نہیں
اے رسولِ امین، تجھ سا کوئی نہیں
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا امام الاولیا یا خاتم الانبیا
دستِ قدرت ایسا بنایا تجھے
جملہ اوصاف سے خود سجایا تجھے
اے ازل کے حسین اے ابد کے حسین
ڈھونڈتی ہے تجھے میری جانِ عزیز
تیرا سکہ رواں کل جہاں میں ہوا
اس زمیں میں ہوا آسماں میں ہوا
کیا عرب کیا عجم سب ہیں زیرِ نگیں
توبہ توبہ نہیں کوئی تجھ سا نہیں
اے رسولِ امیں خاتم المرسلین
ہے عقیدہ یہ اپنا بصد ق و یقین
تجھ سا کوئی نہیں تجھ سا کوئی نہیں
اے رسولِ امیں خاتم المرسلین
جنید جمشید ۔​

یہ نعت جنید جمشید نے گائی ہے ان کی ہے نہیں، اس کے شاعر مشہور خطاط اور صوفی بزرگ سید نفیس الحسینی شاہ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
میں لب کشا نہیں ہوں اور محو التجا ہوں
میں محفل حرم کے آداب جانتا ہوں

کوئی تو آنکھ والا گزرے گا اس طرف سے
طیبہ کے راستے میں ، میں منتظر کھڑا ہوں

ایسا کوئی مسافر شاید کہیں نہ ہوگا
دیکھے بغیر اپنی منزل سے آشنا ہوں

یہ روشنی سی کیا ہے خوشبو کہاں سے آئی
شاید میں چلتے چلتے روضے تک آگیا ہوں

دوری و حاضری میں اک بات مشترک ہے
کچھ خواب دیکھتا تھا کچھ خواب دیکھتا ہوں

طیبہ کے سب بھکاری پہچانتے ہیں مجھ کو
مجھ کو خبر نہیں تھی میں اسقدر بڑا ہوں

اقبال مجھ کو اب بھی محسوس ہو رہا ہے
روضے کے سامنے ہوں اور نعت پڑھ رہا ہوں
اقبال عظیم


 
نعت محمدﷺ
یہ سچ ہے کہ نعتِ محمدﷺکے موتی، ہیں ایماں کی انگشتری کے نگینے
یہ سچ ہے کہ ذکرِ محمدﷺ کے جلسے،سراسر ہیں بام سعادت کے زینے
مگر خوش بیانی کے جوہر دکھا کر ،کوئی قوم دنیا میں ابھری نہیں ہے
عمل چھوڑ کر، صرف نعرے لگا کر،کوئی قوم دنیا میں ابھر ی نہیں ہے
یہ سوچو کہ نورِ ہدایت کا پرچم ، جناب ِمحمد ﷺ نے کیسے اڑایا
یہ سوچو کہ دبتوں کو کیسے ابھارا ، یہ سوچو کہ گرتوں کو کیسے اٹھایا
یہ سوچو کہ کیا چیز تھی جس کے بَل پر، خدا کے اکیلے پیغمبر نے اٹھ کر
الٹ دی تھی ایران و روما کی مسند،پلٹ دی تھی صحرا نشینوں کی کایا
نبی کی حیاتِ مقدس کو دیکھو، ملے گی سراپا جہاد مسلسل
عزیمت میں دیکھو تو فولاد و آہن،کرم کی لطافت میں رحمت مکمل
خدا کی بغاوت کے مدِّ مقابل، اٹھایا خدا کی اطاعت کا پرچم
ہدایت کا، امن و سعادت کا پرچم، انسانیت کی محبت کا پرچم
وہ بدر و حُنَین و تبوک و اُحُد کا جفا کوش، جاں باز ، یکتا مجاہد
وہ تھا جس کے مضبوط دستِ عمل میں جہاں سے نرالی حکومت کا پرچم
وہ جرات سراپا ، وہ ہمت مجسم، وہ راتوں کا عابد ،وہ دن کا سپاہی
وہ جس نے سیاست کی زلفیں سنواریں،وہ جس نے فقیری میں کی بادشاہی
کیا عرب ، کیا عجم ، ہر جگہ ہر طرف، صبحِ صادق کے جلوے مچلنے لگے
جن مناظر پہ تھیں ظلمتوں کی تہیں،وہ بھی رنگ اپنا اپنا بدلنے لگے
تانے بانے تمدُّن کے بدلے گئے ،مرنے جینے کے معیار بدلے گئے
خیر وشر کے پیمانے مقرر ہوئے ،کھانے پینے کے معیار بدلے گئے
ساری دنیا میں سچی سحر ہو گئی، زندگی کو حسیں آسرا مل گیا
جو ظلمت کدوں میں تھے بھٹکے ہوئے،ان جہالت زدوں کو خدا مل گیا
آج بھی وہ زمانے میں موجود ہے،کوہِ فاراں سے ابھر ی تھی جو روشنی
لیکن افسوس اس کا ہے وہ روشنی، ہے غلافِ عقیدت میں لپٹی ہوئی
راہ تاریک ہے ، راہ پرہول ہے، زندگی کے کہیں بھی نظارے نہیں
ماہتاب، آدمیت کا روپوش ہے،عدل وانصاف کے بھی ستارے نہیں
دامنِ علم و حکمت میں ہے تَیرگی درس گاہوں پہ ہے رات چھائی ہوئی
راہ نماؤں پہ ہے رات چھائی ہوئی اور راہوں پہ ہے رات چھائی ہوئی
کس جگہ بربریت کا ڈیرہ نہیں کس جگہ وَحشتوں کا بسیرا نہیں
دورِ نَو کی چمک پہ نہ جائے کوئی ، یہ فریبِ سحر ہے سویر ا نہیں
دوستو امن کی ہے اگر جستجو، چاہتے ہو کہ سکھ چین ، آرام ہو
امنِ عالم پیامِ محمد ﷺ میں ہے، دوستو اب یہ دنیا کو پیغام دو
ساتھیو ، رفعتوں کی طلب ہے اگر ، تو تم کو وَطِیر ہ بدلنا پڑے گا
یہ مغرب کی تقلید کو چھوڑ کر ،شریعت کے سانچے میں ڈھلنا پڑے گا
اٹھو مومنو ، آج سے عہد کر لو، حبیبِ خدا کی اطاعت کریں گے
عقیدت کے پہلو بہ پہلو عمل سےحقیقت میں تعمیلِ سنت کریں گے
وہ تابندہ اسلام جو رہ گیا ہے ،کتابوں کے اوراق میں دَفن ہو کر
وفا کیشیوں سے ،جفا کوشیوں سے،زمانے میں اس کی اشاعت کریں گے
وہ شعبِ ابو طالب و شہرِ طائف ، برابر صدا پر صدا دے رہے ہیں
وہ مکہ کی خاکِ مقدس کے ذرّے نقوشِ قدم کا پتا دے رہے ہیں
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
میری الفت مدینے سے یوں ہی نہیں میرے آقا کا روضہ مدینے میں ہے ۔
میں مدینے کی جانب نہ کیسے کھینچوں میرا تو جینا مرنا مدینے میں ہے ۔

عرشِ اعظم سے جس کی بڑی شان ہے روضہ مصطفٰی جس کی پہچان ہے ۔
جس کا ہم پلا کوئی محلہ نہیں ایک ایسا محلہ مدینے میں ہے ۔

پھر مجھے موت کا کوئی خطرہ نہ ہو موت کیا زندگی کی بھی پروا نہ ہو۔
کاش سرکار اک بار مجھ سے کہیں اب تیرا مرنا جینا مدینے میں ہے ۔

جب نظر سوئے طیبہ روانہ ہوئی ساتھ دل بھی گیا ساتھ جاں بھی گئی ۔
میں منیر اب رہوں گا یہاں کس لئے میرا سارا اثاثہ مدینے ہے ۔

 

بلال حیدر

محفلین
کیا پوچھتے ہو گرمئ بازارِ مصطفٰے
خود بِک رہے ہیں آ کے خریدارِ مصطفٰے
دل ہے مرا خزینہء اسرارِ مصطفٰے
آنکھیں ہیں دونوں روزنِ دیوارِ مصطفٰے
پھیلا ہوا ہے چاروں طرف دامنِ نگاہ
اور لُٹ رہی ہے دولتِ دیدارِ مصطفٰے
تفسیرِ مصحفِ رخ پُرنور، والضحٰی
والّلیل شرحِ گیسوئے خمدارِ مصطفٰے
نعلینِ پا سے عرشِ مُعّلٰی کو ہے شرف
روح الامیں ہیں غاشیہ بردارِ مصطفٰے
بِیدم نہ آؤں جا کے دیارِ رسول سے
تُربت ہو زیرِ سایہء دیوارِ مصطفٰے
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
 

الف نظامی

لائبریرین
مت پوچھیے کہ کیا ہے سرکار کی گلی میں
اک جشن سا بپا ہے سرکار کی گلی میں

لطف و عطا کی اس پر برسات ہوگئی ہے
جو شخص آگیا ہے سرکار کی گلی میں

ہوتا ہے دل منور تابانیوں سے جس کی
جلووں کی وہ فضا ہے سرکار کی گلی میں

آنے کو آ گئے ہیں گھر پر ضرور لیکن
دل اپنا رہ گیا ہے سرکار کی گلی میں

ہر غم کا ہے مداوا آب و ہوا میں اسکی
ہر درد کی دوا ہے سرکار کی گلی میں

سرکار کی گلی کا رتبہ تو اس سے پوچھو
دل جس کا جھومتا ہے سرکار کی گلی میں

جلووں کو ڈھونڈنےمیں گھر سے چلا تھا اپنے
اب خود کو ڈھونڈتا ہوں سرکار کی گلی میں

کس کس کو میں بتاوں خود جاکے کوئی دیکھے
جنت کا در کھلا ہے سرکار کی گلی میں

جس کی تجلیوں سے سارا جہاں منور
مسرور وہ فضا ہے سرکار کی گلی میں
 

بلال حیدر

محفلین
محترم الف نظامی صاحب کی نظر
بجتی ہے "فادخلوا" کی نوبت تیری گلی میں
ملتی ہے کوڑیوں پہ جنت تیری گلی میں
جو راندہء خلائق رکھتا نہ ہو حقیقت
اُس قلب کی ہے قدر و قیمت تیری گلی میں
 
ہر ایک حرف تمنا حضور جانتے ہیں
تمام حال دلوں کے حضور جانتے ہیں

میں اس یقین سے نکلا ہوں حاضری کے لئے
میرے سفر کا ارادہ حضور جانتے ہیں

بروز حشر شفاعت کریں گے چن چن کر
ہر اک غلام کا چہرہ حضور جانتے ہیں

پہنچ کر سدرہ پہ روح الامین یہ کہنے لگے
یہاں سے آگے کا رستہ حضور جانتے ہیں

میں مانگتا ہوں انہیں سے انہیں سے مانگتا ہوں
حضور پر ہے بھروسہ حضور جانتے ہیں

خدا نے اس لئے قاسم انھیں بنایا ہے
کہ بانٹنے کا قرینہ حضور جانتے ہیں

http://vimow.com/watch?v=YqkkjGjLUic
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
جزاک اللہ بلال جلیل
ان دو اشعارمیں املا کی غلطی تھی ، درست کر لیں۔

بروز حشر شفاعت کریں گے چن چن کر
ہر اک غلام کا چہرہ حضور جانتے ہیں

پہنچ کر سدرہ پہ روح الامین یہ کہنے لگے
یہاں سے آگے کا رستہ حضور جانتے ہیں
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
جزاک اللہ بلال جلیل
ان دو اشعارمیں املا کی غلطی تھی ، درست کر لیں۔

بروز حشر شفاعت کریں گے چن چن کر
ہر اک غلام کا چہرہ حضور جانتے ہیں

پہنچ کر سدرہ پہ روح الامین یہ کہنے لگے
یہاں سے آگے کا راستہ حضور جانتے ہیں
یہاں بحر کے حساب سے "رستہ" ہونا چاہیے. شاید آپ سے یہاں صرفِ نظر ہوگیا ہے
 
آخری تدوین:
Top