باب نمبر 9 میں کرسٹوفر ہچنز کہتا ہے کہ قران الہامی نہیں بلکہ خلقی اور مستعاری ہے ۔ اس ثبوت میں وہ مندرجہ ذیل دلیلیں پیش کرتا ہے۔
باب نمبر 9 میں کرسٹوفر ہچنز کہتا ہے کہ قران الہامی نہیں بلکہ خلقی اور مستعاری ہے ۔ اس ثبوت میں وہ مندرجہ ذیل دلیلیں پیش کرتا ہے۔
1۔ مماثلت
عیسائیوں اور یہودیوں کی مذہبی کتابیں ناقص اور بے بنیاد ہیں ۔ مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآن میں موجود کلام ، عیسائیوں اور یہودیوں کی مذہبی کتابوں سے یکسانیت، مطابقت، مشابہت اور مماثلت رکھتا ہے۔ اور جو بنیادی نقائص ان کتابوں میں ہیں وہ قرآن میں بھی موجود ہیں۔
مماثلت کے لیے وہ یہ نکات پیش کرتا ہے۔
تینوں کتابوں میں:
پیغام کو لانے والا فرشتہ جبرائیل ہے۔
نوح کے طوفان کی کہاوت اور بت پرستی کے خلاف احکامات ایک جیسے ہیں ۔
خدا کا پہلا پیغام یہودیوں کو موصول ہوا۔ اور سب سے پہلے انہوں نے قبول نہیں کیا۔ دوسرے مذاہب میں بھی یہی ہوا۔
اس کے علاوہ
تینوں الہام گو کہ زندگی سے متعلق ان گنت مشکوک حکایات موجود ہیں
مصنف کے خیال میں وحدانی مذاہب میں اسلام دلچسپ اور غیر دلچسپ ہے۔ اور کیونکہ اس کی بنیاد دوسرے دو مذاہب سے چنی ہوئی کہاوتوں پر ہے اس لیے اس میں بھی وہی خامیاں ہیں جو دوسرے دو مذاہب میں موجود ہیں۔
2۔ مقامیت ۔ کلام مقامی ہے
ہچنز کے خیال میں اسلامی عالموں کا کہنا ہے کہ اللہ کا کلام صرف عربوں کی مقامی زبان میں سمجھا جاسکتا ہے لیکن ہمیں پتہ ہے کہ عربی زبان مقامی اصطلاحات سے بھری ہے۔ تینوں مذاہب کے عالم اپنی الہامی کتابوں کے متعلق یہ اصرار کرتے ہیں کے ان کی مذہبی کتاب پیغمبر کی زبان میں پڑھی اور سمجھی جائے۔
3 –کلام الہی کو پڑھنا جنگ میں کامیابی دیتا ہے
" کلام الہی کو پڑھنا جنگ میں کامیابی دیتا ہے" ۔مصنف یہ مانتا ہے کہ مسلمانوں نے تیزی سے فیصلہ کن فتوحات کیں ۔ جس سے ہم متاثر ہوسکتے ہیں۔ اگر ہم ان کامیابیوں کا سبب الہامی الفاظ کا دوہرانا سمجھیں تو ہمیں یہ بھی ماننا پڑہےگا کہ عیسائیوں کے کروسیڈس اور اسپینش کونکیسٹاڈوروں کی کامیابی کا راز بائیبل کا پڑھنا ہوگا۔ دنیا میں بہت سی قوموں نے بغیر الہامی کتابوں کے جنگیں لڑی اور مسلمانوں سے زیادہ کامیابیاں حاصل کیں۔ میسیڈونیا کا الیگزینڈر اس کی مثال ہے ۔
4۔ مذاہب میں تنقید اور اختلاف کی گنجائش
تمام مذاہب میں تنقید اور اختلاف کی گنجائش نہیں ۔ جن کے خیالات مذہب کی حدد میں نہیں آتے ان کو خاموش کرادیا جاتا ہے۔ دوسرے مذاہب میں تنقید اور اختلاف کی اجازت میں اضافہ ہوچکا ہے۔ لیکن اسلام میں شبہ کرنے والے کو قصور وار یا گناہ گار کہا جاتا ہے ۔ اسلام میں تنقید اور اختلاف کی گنجائش نہیں اور یہ بات مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں دہشت گری اور قتل و غارت کی وجہ بن چکی ہے ۔
5 ۔ بڑائی کے دعوے
مصنف کا کہنا ہے کہ اسلام اپنے متعلق بڑے دعوے کرتا ہے، اپنے ماننے والوں سےمکمل بےسوچ اطاعت چاہتا ہے اور جو لوگ اسلام کی حدود سے باہر ہیں ان سے زبردستی تعظیم و تکریم کا مطالبہ کرتا ہے۔
محمد کی موت 632 میں ہوئی ۔ محمد کی وفات کے ایک 120 سال بعد ابن اسحاق نے محمد کے متعلق لکھا اس کا اصلی مسودہ اب کھو چکا ہے۔ ابن ھیشام جس کی وفات 834 میں ہوئی نے اس کو پھر سے مرتب کیا ۔ مسلم اور غیر مسلم علماء میں اس بات پر اتفاق نہیں ہے کہ قرآن کو کیسے جمع کیا گیا تھا ۔ محمد نے اپنی وفات سے پہلے کوئی ہدایت نہیں چھوڑی جو مسلمانوں کے اپنا لیڈر چننے میں مدد دیتی۔ محمد کی وفات کے فوراً کی بعد فساد ، پھوٹ اور فرقہ پرستی شروع ہوگی۔ کئی کہاوتوں میں سے ایک یہ ہے کہ محمد کی موت کے بعد یہ خدشہ ہوا کہ لوگ محمد کے زبانی دیئے ہوئے سورۃ بھول جائیں گے۔ اس لئے پہلے خلیفہ نے یہ فیصلہ کیا کہ کاغذ کے ٹکڑوں، پتوں، پتھروں ، کھجور کے پتوں ، ہڈیوں اور چمڑوں پر لکھی ہوئی عبارتوں کو جمع کرکے Zaid ibn Thabit کو دیا جائے۔ جو اس کو ایک جگہ مکمل محفوظ رکھے گا۔ Zaid ibn Thabit محمد کے سکریٹریوں میں سے ایک تھا۔
دوسری کہاوت میں یہ کہا گیا ہے کے چوتھے خلیفہ علی کے زمانے میں ایسا ہوا۔ تیسری کہاوت کے مطابق تیسرے خلیفہ عثمان 644-656 نے Zaid ibn Thabitکو اس بات کا ذمہ دار بنایا تھا۔ اس کام کی تکمیل کے اس سے پہلے کے تمام ورژن تباہ کردیے گئے۔
عثمان کے وقت میں اور نویں صدی کے آخیر تک عربی میں نقطوں اور اعراب کا استعمال موجود نہیں تھا۔ ان تمام باتوں کہ بات یہ کہاں ممکن ہے کہ آج کا قران اور محمد کے الفظ میں فرق نہیں آیاہو۔ یہی مسئلہ دوسرے مذاہب میں بھی ہے۔
۔۔۔۔ جاری