جامعہ حفصہ کی طالبہ نادیہ حسن کی داستان !
کربلائے لال مسجد
نوید مسعود ہاشمی
میں پولی کلینک میں کھڑا تھا موبائل کی گھنٹی بجی میں نے موبائل آن کیا تو دوسری طرف کسی بچی کی آواز تھی آپ انکل ہاشمی بول رہے ہیں.... جی کہئے میں بول رہا ہوں آپ کون ہیں....؟ انکل میں کربلائے لال مسجد سے نادیہ حسن بول رہی ہوں، یہ سنتے ہی مجھے جیسے کرنٹ لگا میں نے فوراً موبائل سیٹ کان اور کندھے کے درمیان پھنسا کر کاغذ قلم سنبھال لیا، جی بیٹا آپ کیا کہنا چاہ رہی ہیں؟ انکل میری عمر 15 سال ہے میں نے جامعہ حفصہ میں 2سال میں قرآن پاک حفظ کیا تھا اور اب سال سوئم کی طالبہ ہوں گزشتہ 6دن سے میں نے ایک لقمہ بھی نہیں کھایا، ہمارے اساتذہ ، طالبات بہنیں اور طلباءبھائی سب بھوکے پیاسے شہادت کا بڑے شوق سے انتظار کر رہے ہیں ،
بیٹا آپ باہر کیوں نہیں آ جاتے؟.... انکل جامعہ حفصہ ہماری مادر علمی ہے، ہم اپنا گھر چھوڑ کر باہر کیوں آئیں؟ 6 دنوں سے ہم پر مارٹر گولے ، گولیوں اور آنسو گیس کے شیلوں کی بارش ہو رہی ہے ۔ ہمارے طالب علم بھائیوں اور طالبات کے جسم کٹ کٹ کر گر رہے ہیں، بیت اﷲ کی بیٹی لال مسجد کے منبر و محراب اور گنبدوں کو بموں سے اڑا دیا گیا، مسجد کا صحن، مسجد کا برآمدہ، مسجد کا احاطہ مسجد کا ہال تڑپتے ہوئے زخمیوں کے لاشوں اور خون سے بھرا ہوا ہے.... قرآن پاک کے نسخے احادیث رسول ﷺ کے ذخیرے ، گولیوں سے چھلنی چھلنی بکھرے پڑے ہیں، بچی بولتی چلی جا رہی تھی،
بیٹا سنا ہے کہ آپ کو اندر لال مسجد انتظامیہ والوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے؟ آپ کی طرح سینکڑوں دیگر طالبات اور بچے بھی یرغمال ہیں؟ میں نے جلدی سے سوالات اکٹھے کر دئےے، انکل یہ سارا حکومت کا جھوٹا پروپیگنڈہ ہے، میں اور میرے ساتھ دیگر 7 سو طالبات اپنی مرضی اور رضائے الٰہی کے حصول کےلئے ، شہادت کی تمنا لئے ہوئے کربلا ئے لال مسجد میں موجود ہیں.... ہمیں کسی نے نہیں روکا....اصل میں ہم نے نعرہ لگایا تھا شریعت یا شہادت کا، شرعی نظام تو ہماری کوششوں سے آ نہیں سکا.... لہٰذا ہم شہادت کو قبول کر لیں گیں۔
اور ہمیں یقین ہے کہ ہمارے خون کو دیکھ کر ہمارے مسلمان بھائی ضرور آئیں گے اور پاکستان میں اسلامی انقلاب آ کر رہے گا، ہمیشہ انقلاب خون مانگتا ہے، 1947ءمیں جب پاکستان بن رہا تھا، اس وقت بھی خون بہا تھا، جوانوں کا، بوڑھوں کا یا بچوں کا اور خواتین کا، کیا جن کاتحریک پاکستان میں خون گرا تھا کیا وہ ناکام کہلائے تھے؟
1953ء، 1974ءاور 1977ءکی تحریک ختم نبوت اور تحریک نظام مصطفیٰ میں بھی ہزاروں مسلمانوں کا خون گرا تھا، آپ ان قتل ہونے والوں کو شہید کہتے ہیں، انکل.... پاکستان میں جان بوجھ کر فحاشی عریانی اور بے حیائی کو فروغ دیا جا رہا تھا، اسلام کا مذاق اڑایا جا رہا تھا.... ان حالات میں ہمارے استاد محترم مولانا عبدالعزیز نے ایک طاغوتی نظام کو چیلنج کرتے ہوئے اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کر کے کونسی غلطی کر دی تھی؟
میں نے کہا بچی، آپ کے استاذ مولانا عبدالعزیز تو برقعہ پہن کر فرار ہو رہے تھے؟....
ابھی میرا جملہ مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ بچی چیخ پڑی انکل افسوس آپ بھی حکومتی پروپیگنڈے کا شکار ہو گئے، انکل مولانا عبدالعزیز کی بیوی، ان کا ایک بیٹا، ایک بیٹی، 80 سال کی بوڑھی ماں، سگا بھائی، بھابھی، بہنیں،بہنوں کے بچے ، سب لال مسجد میں موجود ہیں کیا وہ تنہا اپنی جان بچانے کےلئے نکلے تھے نہیں انکل نہیں.... زمینی حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے ولی صفت استاذکو دھوکے کے ساتھ مذاکرات کے بہانے باہر بلوا کر گرفتار کر کے پھر ٹیلی ویژن چینل پر لا کر ان کی تذلیل کی گئی، انکل ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر تبصرے اور تجزےے کرنے بہت آسان ہیں لیکن برستی ہوئی گولیوں میں بیٹھ کر اپنے مو ¿قف پر قائم رہنا بہت مشکل ہوا کرتا ہے.... آپ زیادہ سے زیادہ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے حکومتی یقین دہانی پر اعتماد کر کے غلطی کی تھی، لیکن آپ ان کے اخلاص، للّٰہیت ، تقویٰ اور جہاد کامل پر انگلی نہیں اٹھا سکتے،
بیٹا آپ بار بار ”کربلائے لال مسجد “ کیوں کہہ رہی ہیں....؟میرا اگلا سوال تھا.... انکل کربلا میں کیا ہوا تھا.... جس وقت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کربلا میں تشریف لے جا رہے تھے، کیا بڑے بڑے صحابہؓ نے انہیں وہاں جانے سے منع نہیں کیا تھا؟ صحابہؓ کے منع کرنے کے باوجود وہ نہیں رکے، وہ کربلا پہنچے، پھر شمر اور ابن زیاد کی فوج نے انہیں جانثاروں سمیت گھیر لیا، ان کا پانی بند کر دیا گیا، ان کے خیموں پر تیروں کی بارش کر دی گئی، انکل کیا آج وہی کیفیت نہیں ہے، مولانا عبدالعزیز اور جامعہ حفصہؓ کی طالبات کے مو ¿قف کی پاکستان کے تمام علماءنے حمایت کی مگر طریقہ کار سے اختلاف کر کے مولانا عبدالعزیز کو سمجھانے کی کوشش کی... مگر وہ اپنی روش سے باز نہ آئے اور سختی کے ساتھ پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کرتے رہے، یہاں تک کہ ان کے طلباءنے جذبات میں آ کر فحاشی کے خلاف بعض غیر قانونی اقدامات بھی کئے، لیکن اس کا مطلب یہ کہاں نکلتا ہے کہ لال مسجد کے طلباءاور جامعہ حفصہؓ کی طالبات کو گولیوں اور بموں سے اڑا دیا جائے، انکل جو چودہ سو سال پہلے کربلا میں ہوا تھا وہی منظر لال مسجد اور جامعہ حفصہؓ میں دوبارہ دیکھا جا سکتا ہے اگر کربلا والے اپنے جسموں کے ٹکڑے کروا کر کامیاب ٹھہرے تھے تو ہم بھی اپنے جسموں کے ٹکڑے کروا کر سرخرو ہونگے، میں نے پھر التجا کی بیٹی آپ صبر، حوصلے اور تدبر سے کام لو اپنے اساتذہ کو قائل کرو!
اس نے میری بات بیچ میں ہی کاٹ دی، انکل آپ اپنے قیمتی مشورے اپنے پاس ہی رکھئے ، آپ ٹھہرے دانشور، سکالر، کالم نگار لیکن ہم تو مجنوں، دیوانے شہادت کے متوالے ہیں، ہم جیسے دیوانوں کو آپ جیسے دانشور سمجھانے کے نام پر کفریہ طاقتوں کے سامنے سر جھکانے کے سبق پڑھاتے ہی رہتے ہیں....
بچی فون بند کرنا چاہ رہی تھی اور میری کوشش تھی کہ فون بند نہ ہونے پائے، اسلئے کہ یہ لمحات شاید پھر کبھی میسر نہ ہونے پائیں گے، میں نے پھر التجا کی، میری بیٹی فون بند نہیں کرنا، اور یہ تم نے کیا کہہ دیا کفریہ طاقتوں کے سامنے واقعی سر نہیں جھکانا چاہئے مگر یہ تو پاکستان کی فوج ہے، وہ بولی انکل، لال مسجد کی اینٹ سے اینٹ بجانے والے، جامعہ حفصہؓ کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے والے، قرآن پاک کے نسخوں کو گولیوں سے چھلنی کرنے والے، ہمارے استاذ کو مذاکرات کے بہانے بلا کر ان کو گرفتار کر کے ان کی تذلیل کرنے والے پاکستان کے فوجی نہیں ہو سکتے، ہمیں یقین ہے کہ یہ سب کچھ امریکہ کے ایماءپر کیا جا رہا ہے، اس لئے ہم کبھی طاغوت کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے، انکل چودہ سو سال پہلے کربلا میں، شہر بانوؓ سیدہ زینبؓ اور حضرت صغریٰ روتی تھیں، تڑپتی تھیں،آج لال مسجد میں سیدہ فاطمہؓ و زینبؓ کی روحانی بیٹیاں مرجائیں گی مگر اپنے مو قف سے پیچھے نہیں ہٹیں گی.
پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا، مگر یہاں روشن خیالی کے یہودی ایجنڈے کو پروان چڑھانے کی کوششیں کی گئیں، میراتھن ریس میں عورتوں کو نیکریں پہنا کر بھگایا گیا، بسنت میں سینکڑوں معصوم بچوں کا خون بہا کر اسے پاکستانی تہذیب قرار دیا گیا.... مساج سینٹر، اور نائٹ کلب کھول کر وہاں حوا زادیوں کوپامال کیا جانا روشن خیالی کی معراج سمجھا گیا۔ کیبلز کے ذریعے گھر گھر فحاشی اور عریانی کو پہنچایا گیا، ملک میں زناءکو عام کرنے کی کوشش کی گئی۔
انکل ہمارے استاذ محترم مولانا عبدالعزیز نے ملک میں طاغوت کے نظام کے مقابلے میں اسلامی نظام کا خاکہ پیش کر کے کوئی اتنا بڑا جرم نہیں کیا تھا، کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہؓ کو مارٹر گولوں سے تباہ کر دیا جاتا، انکل آپ کو قسم ہے پروردگار کی ذات کی، آپ میرے یہ الفاظ ضرور لکھیں گے، ”ہم بیٹیاں ہیں سیدہ عائشہؓ کی.... ہم بیٹیاں ہیں، سیدہ خولہؓ و خنساءکی، ہمارے برقعوں کو تضحیک کا نشانہ بنانے والے شیطان کے پجاریو، ہم تو شہید ہو کر رب کے دربار میں پہنچ جائیں گی، مگر تم ہمیں گرفتار کرنے کےلئے ترستے رہو گے، تم تڑپتے رہو گے کہ چند سو برقعہ والیوں نے تمہارے طاغوتی نظام کا چیلنج کر کے تمہارے منہ پر ایسا تھپڑ رسید کیا ہے کہ جسے تم مدتوں بھلا نہ پا ؤ گے....“ اسکے ساتھ ہی دوسری طرف خاموشی چھا گئی.... میں چیخ پڑا ہیلو....ہیلو.... لیکن دوسری طرف سکوت گہرا سکوت.... میں نے پھر چیختے ہوئے کہا....ہیلو....ہیلو.... لیکن ایسے لگتا تھا کہ جیسے دوسری طرف سے لائن کٹ گئی ہے.... میری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے،
میں ابھی اسلام کی اس بیٹی کے ساتھ بہت سی باتیں کرنا چاہتا تھا، میں اس سے پوچھنا چاہتا تھا، کہ بیٹی تم نے اتنا مضبوط عزم و یقین کہاں سے حاصل کیا؟ تمہیں گولیوں اور بموں کی بارش سے خوف محسوس کیوں نہیں ہوتا.... آنسو گیس کے بدبودار طوفان نے تمہارے معصوم قلب و ذہن کو متاثر کیوں نہیں کیا.... ؟میں اس سے پوچھنا چاہتا تھا کہ آج جب کہ وردی اور پیٹی کے رعب سے بڑے بڑے جغادریوں کا پتہ پانی ہو جاتا ہے .... تمہارا نازک سا دل اس رعب میں کیوں نہیں آ رہا.... لیکن میرے یہ سوال تشنہ ہی رہ گئے اور دوسری طرف لائن بے جان ہو چکی تھی.... کاش کہ اسلام کی یہ بیٹی اپنی دوسری سینکڑوں بہنوں اور بھائیوں سمیت سلامت رہے.... اور اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ اس کے انکل نے اس کے سارے الفاظ اپنے کالم میں سمو دیئے ہیں۔
........٭٭
ماھنامہ ”
آب حیات “