کیا مرد اور خواتین میں ذہنی اعتبار سے فرق پایا جاتا ھے؟

یوسف-2

محفلین
منتظمین متوجہ ہوں:
ایک مسئلہ میرے ساتھ کافی دنوں سے ہے کہ میرے اکثر مراسلات میں تدوین کا آپشن پتہ نہیں کیوں غائب ہوجاتا ہے۔ اور می پروف کی فاش غلطیاں درست کرنے سے بھی قاصر رہتا ہوں۔ ایک ہی دھاگے میں کسی مراسلے میں یہ آپشن نظر آتا ہے ہوتا ہے تو کسی میں نہیں۔ میں صرف اپنے ہی مراسلے کی بات کر رہا ہوں۔ یہ چمتکار کیسا ؟ جیسا کہ اوپر میرے ایک فقرے میں تذکیر و تانیث کی غلطی کو نمایاں کیا گیا ہے، جسے میں دیکھ لینے کے باجود مدون نہیں کرسکا
تدوین: شکایت کرنے پر اس مراسلہ تدوین کا آپشن سامنے ڈر کر سامنے آگیا۔ جبکہ اوپر کے مراسلوں میں ہنوز غائب ہے :D
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
منتظمین متوجہ ہوں:
ایک مسئلہ میرے ساتھ کافی دنوں سے ہے کہ میرے اکثر مراسلات میں تدوین کا آپشن پتہ نہیں کیوں غائب ہوجاتا ہے۔ اور می پروف کی فاش غلطیاں درست کرنے سے بھی قاصر رہتا ہوں۔ ایک ہی دھاگے میں کسی مراسلے میں یہ آپشن نظر آتا ہے ہوتا ہے تو کسی میں نہیں۔ میں صرف اپنے ہی مراسلے کی بات کر رہا ہوں۔ یہ چمتکار کیسا ؟ جیسا کہ اوپر میرے ایک فقرے میں تذکیر و تانیث کی غلطی کو نمایاں کیا گیا ہے، جسے میں دیکھ لینے کے باجود مدون نہیں کرسکا
تدوین: شکایت کرنے پر اس مراسلہ تدوین کا آپشن سامنے ڈر کر سامنے آگیا۔ جبکہ اوپر کے مراسلوں میں ہنوز غائب ہے :D
اس فورم پر شاید منتظم نے وضاحت کی تھی کہ تدوین کا آپشن شاید پندرہ منٹ تک موجود رہتا ہے ۔۔۔ پھر تدوین کا اختیار "بحق سرکار" ضبط کر لیا جاتا ہے ۔۔۔
 

ساجد

محفلین
سچ پوچھیں تو میں دن میں کم ازکم ایک بار اپنی نصف بہتر کی مجھ سے بہتر معاملہ فہمی کا مشاہدہ کرتا ہوں۔ لیکن گاڑی چلاتے وہ اکثر بھول جاتی ہے کہ جب اچانک کوئی سامنے آ جائے تو پہلے چیخوں پر زور ڈالنا ہے یا بریک پیڈل پر:D۔
 

شمشاد

لائبریرین
اس ہفتے کے اخبار جہاں میں مندرجہ ذیل "کٹ پیس" شائع ہوا ہے، عنوان ہے "برتری" :

میاں بیوی بحث میں الجھے ہوئے تھے۔​
"عورتیں عقل کے اعتبار سے ہر لحاظ سے مردوں سے برتر ہیں۔" بیوی نے پرجوش انداز میں کہا۔​
"کوئی ثبوت بھی تو پیش کیجیے۔" شوہر نے کہا۔​
"دنیا بھر کے اعداد و شمار سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ساری دنیا میں پاگل مردوں کی تعداد عورتوں سے تین گنا زیادہ ہے۔ بیوی نے جواب دیا۔​
مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ ان کو پاگل خانے پہنچانے والا کون ہے یعنی عورت ذات۔" شوہر نے کہا۔​
"اس سے بھی تو یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ عورت مرد سے برتر ہے۔" بیوی نے گویا ثبوت پیش کرتے ہوئے کہا۔​
 

ظفری

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ اس موضوع پر بحث بغیر مذہب کے مکمل نہیں ہوسکتی ۔ ہم دنیاوی حقیتوں کیساتھ مذہب کا بھی کچھ حوالہ دے دیں تو شاید بحث کے مکمل ہونے کچھ امکانات روشن ہوجائیں ۔ عورت اور مرد کے فرق کو ہم صرف چند فلسفوں اور سروے تک محدود میں نہیں کرسکتے کیونکہ جب آپ انہیں سائنسی اور فلسفیانہ توجہات میں گھیسٹ کر عورت اور مرد کے فرق کو صرف اس بنیاد پر وضع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ زندگی کی حقیقتیں ہیں تو مذہب بھی زندگی کی ایک اہم حقیقت ہے اور اس کے بغیر یہ بحث نامکمل رہے گی ۔ کیونکہ بہرحال دنیا میں کم از کم 95فیصد لوگ کسی نہ کسی طور پر کسی خدا پر یقین تو رکھتے ہیں ۔ لہذا سائنسی ، فلسفیانہ اورتحقیقی سطح پر جب اس بحث کا آغاز کریں تو مذہب کا بھی نقطہِ نظر بھی جان لینا چاہیئے کہ وہ مرد اور عورت کے مابین کس قسم کا فرق روا رکھتا ہے ۔
پہلے تو یہ بات صحیح طور پر سمجھ لینا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جتنی بھی مخلوقات پیدا کیں ہیں ۔ ظاہر ہے ان کے درمیان صلاحیت ، ذوق ، عادات ، جبلت ظاہری جسم و ساخت کے لحاظ سے فرق رکھا ہے ۔ انسان کی حیثیت سے مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔ قرآن نے ہمیں یہ بتایا ہے اور اس سارے فلسفے کی جڑ ہی کاٹ دی ہے جس کی بنیاد پر آپ عورت و مرد میں کوئی فرق روا رکھ سکیں کہ " ہم نے انسان کو نفسِ واحدیہ سے پیدا کیا اور پھر اس سے اس کا جوڑا بنایا ۔ " مگر یہ بات واضع ہے کہ اپنی طبیعت ، مزاج ، جسمانی ساخت وغیرہ میں عورت مرد سے مختلف ہے ۔ یعنی کمزور یا کمتر ہونا زیرِ بحث نہیں ہے ۔ " مختلف " ہونا زیرِ بحث ہے ۔ جب مختلف ہے تو نظریات اور سوچ میں بھی فرق ہوگا ۔ شرعی احکامات تو ایک طرف ، آپ دیکھیں کہ جبلی کیفتوں میں بھی فرق موجود ہے ۔ جنسی اور نفسیاتی بنیادوں میں بھی فرق موجود ہے ۔ مگر یہ فرق کسی کی برتری کا موجب نہیں ہے ۔ مردوں کے درمیان بھی فرق موجود ہے ۔ کوئی شاعر ہے ،کوئی سائنسدان ہے ، کوئی ڈاکٹر ہے اور کوئی صرف ایک محنت کش ہے جو ذہن سے زیادہ جسمانی مشقت کو ترجیح دیتا ہے۔ یعنی ذہنی سطح مردوں میں کسی بھی طور پر یکساں نہیں ہے ۔ بلکل اسی طرح کایہ فرق عورتوں میں بھی موجود ہے ۔
ہماری شریعت نے بھی عورتوں اور مردوں کے درمیان جو احکامات رکھے ہیں ۔ وہ مرد و عورت کی بنیاد پر نہیں بلکہ فرقِ مراتب کے طور پر رکھے ہیں ۔ یعنی جوبھی اس سلسلے کے احکامات ہیں ۔ وہ ایک خاندان کے نظم و ضبط کو سامنے رکھ کر دیئے گئے ہیں ۔
مردوں کی جسمانی ساخت کی وجہ سے ان میں نفسیات اور جذباتیت کا جو تنوع ہے وہ عورت سے قدرے مختلف ہے اور اسی طرح عورت بھی اپنی ہیت میں مردوں سے مختلف ہے ۔ مگر یہ کہنا کہ ذہنی سطح کی بنیادپر عورت کسی بھی طور پر مرد سے کم تر ہے تو یہ بلکل غلط بات ہے ۔ عورت ذہنی طور پر ہر وہ کام کرسکتی ہے جو مرد کرسکتا ہے ۔ مگر عورت اپنی فطرت اور نفسیات کی بنیاد پر اس درجہ ان کاموں میں اتنی متحرک نظر نہیں آتی جتنا کہ مرد نظر آتے ہیں ۔ مگر ان میں معاشرتی عوامل میں شامل ہیں ۔ ثقافت اور اقدار بھی نمایاں ہے ۔ مگر جہاں عورت کو کھل کر اپنی صلاحیتوں دکھانے کا موقع ملا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ مردوں سے کسی بھی طور پر کم نہیں ہیں ۔ جب عورت انجنیئر ، ڈاکٹر اور دیگر علمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرلیتیں ہیں تو یہ تاثر کہاں سے پیدا ہوتا ہے کہ وہ ذہنی اعتبار سے مردوں سے کم ہیں ۔ اگر اس بنیاد پر کہ عورتیں ایسے علمی میدانوں میں کم نظر آتی ہے تو یہ بلکل غلط تاثر ہوگا کہ عورتیں وہ فہم نہیں رکھتیں جو مردوں کو حاصل ہے ۔ مگر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عورتیں اس میدان میں کم ہیں مگر میں اس کی وجہ بیان کرچکا ہوں ۔اگر ذہنی سطح میں کسی قسم کی کم و بیشی ہوتی ۔ تو عورت کسی ادارے کی ہیڈ ، کہیں ڈاکٹر ، کہیں انجینئر ، اور کہیں سائنسدان بن کر کسی بھی طور ابھر کر سامنے نہیں آتی ۔ ہم مہیز تعداد کی بنیاد پر مرد کو عورت پر اولیت نہیں دے سکتے ۔ کیونکہ ذہنی سطح میں اگر کوئی فرق ہوتا تو عورت وہ کام ہرگز کر نہیں پاتی جو مرد حضرات کر رہے ہیں ۔ عورت اور مرد اپنی بناوٹ و ساخت میں ایک تنوع رکھتے ہیں ۔ اس لیئے رحجانات کا بھی فرق وضع ہوگا ۔ اور فرق کی بنیاد پر وہ اپنی فطرت سے قریب تر کام کو ترجیح دیں گے ۔ یوسف ثانی صاحب نے ریاضی اور گائنا لوجی کے میدان میں عورت اور مرد کے جبلت کی بنیاد پر ان کےرحجانات کے فرق کو واضع کیا ہے ۔ مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ مرد و عورت کے مابین کسی ذہنی سطح پر کوئی فرق موجود ہے ۔ قرآن نے بھی اپنی جب دعوت کی طرف انسان کو پکارا ہے تو مرد و عورت کو یکساں پکارا ہے ۔ کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں روا رکھی ۔
 

یوسف-2

محفلین
اس فورم پر شاید منتظم نے وضاحت کی تھی کہ تدوین کا آپشن شاید پندرہ منٹ تک موجود رہتا ہے ۔۔۔ پھر تدوین کا اختیار "بحق سرکار" ضبط کر لیا جاتا ہے ۔۔۔
جزاک اللہ ۔ بہت بہت شکریہ ۔ یہ بات میرے علم میں نہیں تھی۔
 

متلاشی

محفلین
داياں بازو ؟
داياں بازو كيا ہے؟ بہشتى زيور يا قرآن پاك
اور قرآن پاك تو مساوات مردوزن كا قائل ہے ... اب جاہل كون ہوا ؟
فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ
آل عمران
محترمہ! آپ کی بیان کردہ آیت سے ہی مرد کی برتری ثابت ہو گئی ہے ۔۔۔ کہ ذَکر پہلے آیا ہے انثی بعد میں ۔۔۔! ;)
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
"ذہنی صلاحیت" کی تعریف پر اگر ہم متفق ہو جائیں تو اس موضوع پر بحث زیادہ بہتر انداز میں ہو سکے گی ۔۔۔
 

متلاشی

محفلین
جسمانی ساخت کے لئے لحاظ سے مردو عورت ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں ۔۔۔ اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے ، تو دماغ بھی چونکہ جسم کا حصہ ہے اس لئے مرد و زن کی دماغی ساخت اور مینٹل اپروچ میں بھی فرق لازمی ہوتا ہے۔۔۔! اور تجربات و مشاہدات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے ۔۔۔’’ کہ مجموعی طور پر مرد کی ذہنی صلاحیت بنسبت عورت کے زیادہ ہوتی ہے‘‘ ۔۔۔(بلاشمول استثنیات)
اس بات کے اثبات میں مذہب و سائنس دونوں طرف سے دلائل موجود ہیں ۔۔۔!
 
محترمہ! آپ کی بیان کردہ آیت سے ہی مرد کی برتری ثابت ہو گئی ہے ۔۔۔ کہ ذَکر پہلے آیا ہے انثی بعد میں ۔۔۔ ! ;)
پھر آج سے ميں خواتين كى برترى كى قائل ہوں كيوں كہ قرآن مجيد ميں كوئى سورة الرجال نہيں !
جب كہ سورة النساء پہلى دس سورتوں ميں سے ايك ہے اور 100 سے زائد آيات پر مشتمل ، خدا اپنى اس خوب صورت اور لطيف تخليق كے ليے كتنا مہربان ہے؟
 

متلاشی

محفلین
پھر آج سے ميں خواتين كى برترى كى قائل ہوں كيوں كہ قرآن مجيد ميں كوئى سورة الرجال نہيں !
جب كہ سورة النساء پہلى دس سورتوں ميں سے ايك ہے اور 100 سے زائد آيات پر مشتمل ، خدا اپنى اس خوب صورت اور لطيف تخليق كے ليے كتنا مہربان ہے؟
مگر محترمہ شاید آپ یہ بھول گئی ہیں کہ پورے کا پورا قرآن مجید کسی صنفِ نازک پر نہیں بلکہ سید الرجال پر اترا ہے ۔۔۔۔!:p
 
ان "شرعى دلائل" كے جواب ميں عرض ہے كہ جن صلى اللہ عليہ وسلم پر قرآن مجيد اترا وہ ايك عورت كے بيٹے تھے ، عورتوں کے شوہر تھے اور عورتوں کے باپ تھے۔ اپنی رضاعى ماں كى از حد تكريم كرتے تھے ، اپنى ماں كى قبر پر جا كر روتے تھے، اپنی بيٹيوں کے آنے پر کھڑے ہو كر ان كا استقبال كرتے تھے اور ان كے بيٹھنے كے ليے اپنی كندھوں كى چادر بچھا ديتے تھے۔ يہ سب ان كى مبارك سنتيں ہيں اور ايك يہ سنت بھی كہ كبھی كسى بيوى بيٹی پر ہاتھ نہ اٹھايا تھا ۔ صلى اللہ عليہ وسلم ۔ ايك شخص نے زمانہ جاہليت ميں بيٹی كو زندہ دفن كر نے كا واقعہ سنايا تو اتنا روئے كہ ريش مبارك تر ہو گئی۔كوئى واقعى مرد مسلماں ہے تو ان سنتوں كو تازہ كرے۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
بات یہ ہے کہ "ذہنی صلاحیت" کا معاملہ ایسا ہے کہ اس پر کوئی "حکم" نہیں لگایا جا سکتا ۔۔۔ اور دونوں طرف کے دلائل موجود ہیں ۔۔۔ میرے اپنے ذاتی خیال میں ذہنی صلاحیت کے اعتبار سے ہی کیا، کسی بھی اعتبار سے مرد و زن کے مابین کوئی "تنازعہ" کھڑا کر دینا کسی صورت مناسب نہیں ۔۔۔ عورت کا تقابل عورت سے اور مرد کا تقابل مرد سے کیا جائے تو بھی بات کسی حد تک سمجھ میں آتی ہے ۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ خاصی بحث ہو چکی ہے اور زونی کو اپنا مقالہ لکھنے کے لیے خاصا مواد مل چکا ہے۔ اس لیے اب اس بحث کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
 

زونی

محفلین
ج: دلیل یہ ہے کہ دو مردوں اور دو عورتوں کی ذہنی سطح بھی ایک جیسی نہیں ہوتی۔

2۔اگر آپ کے تناظر سے دیکھا جائے تو یہ بات درست ھے کہ اصل تنازعہ انڈسٹرئیلائزیشن کے بعد کھڑا ہوا ھے۔
ج: شکریہ

3۔ لیکن اگر اس کے نفسیاتی محرکات کا جائزہ لیا جائے تو جب ایک صنف کے حقوق کو مختلف طریقوں سے پامال کیا جاتا رہے گا تو کبھی نہ کبھی تو ری ایکشن وقوع پذیر ہو گا ہی
ج: صحیح فرمایا۔

4۔ لیکن اس ری ایکشن کے منفی نتائج یہ ہوتے ہیں کہ وہ چیز زیادہ ابھر کے سامنے آتی ھے اور چونکہ اسکا استحصال ہوا ہوتا ھے تو اسے کور کرنے کیلئے وہ اس سے زیادہ ڈیمانڈ کرنے لگتی ھے جو اس کا ڈیو ہوتا ھے
ج: جی ہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ لیکن رد عمل اگر انفرادی حیثیت میں ہو تو ڈیو سے زیادہ ڈیمانڈ والے رویہ کو کسی حد تک قبول بھی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن افراد کے کسی گروہ کی جانب سے اس رویہ پر اصرار کامطلب پورے سماج کے جاری نظام کو تلپٹ کرنا ہے۔ مثال: جنوبی افریقہ میں گورون نے کالون پر کیا کیا ظلم و ستم نہ کیا۔ لیکن جب کالوں کی حکومت آئی تو کیا کالوں نے گوروں کے ساتھ ڈیو سے زیادہ ڈیمانڈ کا رویہ اختیار کیا یا نطام کو چلتے رہنے کے لئے سابقہ حکمران گوروں کے استحصال کو بھلا دیا۔۔۔ عرب میں ظہور اسلام سے قبل مرد لڑکیوں کو زندہ درگور تک کیا کرتے تھے۔ لیکن جب عدل و انصاف کا دور آیا تو کیا عورتوں نے مردوں سے اس سابقہ استحصال کے بدلہ ڈیو سے زیادہ ڈیمانڈ کا مطالبہ کرکے معاشرہ مین سرخرو ہوئیں یا سابقہ استحصالی رویہ کو بھلا کر عدل کی بنیاد پر اپنے حقوق طلب کئے اور پائے۔

5۔ لیکن یہاں مرد و زن میں تفاوت کی بات نہیں ہو رہی جبکہ دو گروپس کی مجموعی ذہنی سطح کا موازنہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ھے اسلیئے اس میں کمتری اور برتری کا کوئی دخل نہیں ہونا چاہیئے۔
ج: ہے بھی نہیں۔ کوئی صنف کسی صنف سے نہ تو کمتر ہے نہ بد تر۔ میں نے تو صرف یہ کہا ہے (جس سے اتفاق بھی کیا جاسکتا ہے اور اختلاف بھی) کہ دونوں اصناف کی مجموعی ذہنی سطح ایک جیسی نہیں ہے اور نہ ہوسکتی ہے۔ کیونکہ ان کی جسمانی ساخت، ضروریات، سوچ، نفسیات سب میں فرق ہوتا ہے۔ اور یہ دونوں اپنی اپنی جگہ ایک "مکمل فرد" بھی ہیں اور اپنی "بقا" کے لئے ایک دوسرے کے تعاون کے محتاج بھی۔

اگر میری کوئی بات آپ کو ناگوار محسوس ہوئی ہو تو معذرت خواہ ہوں۔ لیکن نظری بحث میں اختلاف رائے تو ایک معمول کی بات ہے۔ اختلاف رائے کے بغیر بحث ممکن ہی نہیں اور اختلاف رائے اور مخالفت میں ایک باریک سا فرق ہوتا ہے، جسے بحث کے دوران مد نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔




آپ نے خود ہی اپنی اوپر والی پوسٹ میں واضح کیا کہ ایک مخصوص گروہ کی طرف اشارہ کیا جا رہا ھے اس لیے ڈیو والی بات بھی اسی تناظر میں کہی گئی ھے لیکن آپ اسے خواتین کی مجموعی آبادی پہ لاگو نہیں کر سکتے کہ سب خواتین کا یہی رویہ ھے بلکہ ایسی خواتین کی تعداد بہت زیادہ ھے جنہیں ان کے ڈیو سے کہیں کم دیا جا رہا ھے لیکن وہ اس پہ بھی مطمئن ہیں ۔
 

زونی

محفلین
ہا ہا۔ یہ لطیفہ بھی خوب ہے۔ عورتیں بھی بھلا کبھی مطمئن ہوتی ہیں :D آپ ہوئیں کیا :mrgreen:
گویا آپ نے ریڈ لائیٹیڈ فقرہ مردوں کو مطمئن کرنے کے لئے کہا ہے :D





اگر مرد حضرات میں اتنی صلاحیت اور سمجھ ہو تو دنیا بھی فتح کرسکتے ہیں عورت کو مطمئن کرنا کونسی بڑی بات ھے :D
 
Top