کیفیت نامہ آپ کا تبصرہ ہمارا

محمد وارث

لائبریرین
مگر جنہوں نے فلمی دھنیں سن رکھی ہیں
وہ جب بھی مذہبی بولوں والی دھن سنیں گے انہوں یقینا فلمی گانے اور دھنیں یاد آئینگی۔

بجا فرمایا۔ ہر کسی کے ساتھ ہوتا ہوگا، میں تو اسی وجہ سے سنتا ہی نہیں (فلمی گانوں کی دھنوں پر بنا مذہبی کلام) کہ اس سے پہلا مزا بھی کرکرا ہو جاتا ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اس پر کبھی دوسری طرف کا موقف بھی سننا چاہیئے۔ فلمی دھنوں سے دینی کلام بنانے والے فرماتے ہیں کہ دھن ایک دھاگے کی مانند ہوتی ہے، اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ اس دھاگے میں موتی پرویں، کانٹے پرویں یا پھول ۔ جب ہار بن جائے گا تو دھاگے کی حیثیت ثانوی ہو جائے گی اور جو چیز پروئی گئی ہے وہ اسی چیز کا ہار کہلائے گا۔ اسی طرح دھن دھاگہ ہے اور وہ فلمی بولوں کے کانٹوں کو نکال کر اس میں مذہبی بولوں کے پھول پرو دیتے ہیں اور ایک بدنما ہار کی جگہ ایک پاک صاف ہار وجود میں آ جاتا ہے۔

ذاتی طور پر مجھے اس منطق سے کوئی اختلاف نہیں ہےمگر یہ کہ وہ فلمی گانوں کو کانٹوں کا ہار سمجھتے ہیں۔ :)
وارث بھائی آپ کی بات درست ہے لیکن میں جن مذہبی گانوں کی بات کر رہا ہوں۔ ان کو اگر آپ سن لیں گے تو بقیہ عمر تمام موسیقی سے توبہ کر لیں گے۔ کہتے ہیں تو ایک آدھ بطور ہدیہ پیش کروں۔
 

Gulmaily

محفلین
جس لڑی میں آپ اس وقت موجود ہیں، یہ ہللے پھلکے مزاح کی لڑی ہے۔ جیسا کہ عدنان بھائی نے آپ کو بتایا کہ محفل کے سرورق پہ آپ کو کیفیت نامہ میں مختلف لوگوں کے کیفیت نامے نظر آ رہے ہوں گے، وہ وٹزایپ کے سٹیٹس جیسے ہوتے ہیں۔ لیکن اس لڑی میں ان میں سے کسی کیفیت نامے کو لے کے یہاں مزاحیہ تبصرہ کیا جا رہا ہے۔
کیا میں بھی لے سکتی ہوں کسی کا کیفیت نامہ؟
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی آپ کی بات درست ہے لیکن میں جن مذہبی گانوں کی بات کر رہا ہوں۔ ان کو اگر آپ سن لیں گے تو بقیہ عمر تمام موسیقی سے توبہ کر لیں گے۔ کہتے ہیں تو ایک آدھ بطور ہدیہ پیش کروں۔
ارے نہیں صاحب، ہم لنڈورے ہی بھلے۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین

نیرنگ خیال

لائبریرین
محمداحمد بھائی فرماتے ہیں

جب بھی ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ کیسے ہو شکیلؔ
اس سےآگےتوکوئی بات نہیں ہوتی ہے

احمد بھائی محفل سے بھی غائب رہتے ہیں، اور دیگر سوشل پلیٹ فارمز سے بھی۔۔۔۔۔ بارہا وجہ پوچھی، لیکن ٹال مٹول سے کام لے گئے۔ آج ان کے کیفیت نامے پر نظر پڑی تو بین السطور وجہ بیان نظر آگئی۔ ایک شاعر آدمی جو نثر و شاعری دونوں پر یکساں عبور رکھتا ہے، ایک مدت سے گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہا ہے، اور وجہ بالکل وہی ہے یعنی گوشی۔۔۔۔ اوپر سے شادی اور پھر بچے۔۔۔۔ یعنی کوئی جائے پناہ نہیں۔۔۔۔ کرنے کو کوئی بات نہ رہی اور سننے کو سماعت نہ رہی۔ اللہ اکبر۔۔۔۔ ایسے میں جو دو چار ملاقاتیں رہیں، وہ بھی بس یہ حال رہا کہ
وہ آپ میں جناب سے آگے نہیں بڑھا۔۔۔۔
اب ایسے میں خود سے بات آگے بڑھاتے ہیں تو انا آڑے آتی ہے۔ سو شاعرانہ انداز میں ایسے شکوہ کیا کہ بھرم بھی رہ جائے اور بات بھی ہوجائے۔۔۔۔ اس کیفیت نامے کے بعد تو بالکل ہی خاموشی ہے۔ لگتا ہے اگلا کیفیت نامہ سخن فہمی کے رونے لیے ہوگا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
محمداحمد بھائی فرماتے ہیں

جب بھی ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ کیسے ہو شکیلؔ
اس سےآگےتوکوئی بات نہیں ہوتی ہے

احمد بھائی محفل سے بھی غائب رہتے ہیں، اور دیگر سوشل پلیٹ فارمز سے بھی۔۔۔۔۔ بارہا وجہ پوچھی، لیکن ٹال مٹول سے کام لے گئے۔ آج ان کے کیفیت نامے پر نظر پڑی تو بین السطور وجہ بیان نظر آگئی۔ ایک شاعر آدمی جو نثر و شاعری دونوں پر یکساں عبور رکھتا ہے، ایک مدت سے گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہا ہے، اور وجہ بالکل وہی ہے یعنی گوشی۔۔۔۔ اوپر سے شادی اور پھر بچے۔۔۔۔ یعنی کوئی جائے پناہ نہیں۔۔۔۔ کرنے کو کوئی بات نہ رہی اور سننے کو سماعت نہ رہی۔ اللہ اکبر۔۔۔۔ ایسے میں جو دو چار ملاقاتیں رہیں، وہ بھی بس یہ حال رہا کہ
وہ آپ میں جناب سے آگے نہیں بڑھا۔۔۔۔
اب ایسے میں خود سے بات آگے بڑھاتے ہیں تو انا آڑے آتی ہے۔ سو شاعرانہ انداز میں ایسے شکوہ کیا کہ بھرم بھی رہ جائے اور بات بھی ہوجائے۔۔۔۔ اس کیفیت نامے کے بعد تو بالکل ہی خاموشی ہے۔ لگتا ہے اگلا کیفیت نامہ سخن فہمی کے رونے لیے ہوگا۔

نین بھائی! آپ اتنی سنجیدگی سے ہمارا مذاق بناتے ہیں کہ لوگ باگ انتہائی سنجیدگی سے انگوٹھے دکھا کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
جاسمن صاحبہ فرماتی ہیں۔۔۔
گھر کے راستے میں گیدڑ دیکھا۔ پھر سیڑھی پہ بیٹھی تھی، باہر کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ سامنے چند گز کے فاصلے پہ وہ گزر رہا تھا۔ صاحب کا فرمان ہے کہ اب شام کو دو روٹیاں جھاڑیوں میں اس کے لیے بھی ڈالی جائیں۔

ایک گیدڑ دوسرے گیدڑ سے ہفتے بعد ملا۔ دیکھتے ہی بولا۔۔۔۔۔ بھئی ! کیا بات ہے؟ روز بروز دبلے ہوئے جا رہے ہیں۔ خربوزوں کا موسم ہے۔ تمہیں تو روز شہر کی طرف جاتے دیکھتے ہیں۔ خیال تھا کہ سردیوں کے لیے چربی جمع کرنے میں مصروف ہو۔ مگر یہاں عالم شباب میں تمہارا حال دبلا ہوا جاتا ہے۔
دوسرا گیدڑ۔۔۔ ارے کیا بتاؤ ں۔ کس قدر سخت حالات سے دوچار ہوں۔ روز خربوزوں کے کھیت کی طرف جانے لگتا ہوں۔ راستے میں ایک خدا ترس عورت کا گھر آتا ہے۔ وہ دو روٹیاں ڈال دیتی ہے۔ وہی کھا کر واپس پلٹ آتا ہوں۔ دل میں خود کو کوستا ہوں کہ یہی روٹی کھا کر آدمی جنت سے نکلا تھا۔ اور اب عین خربوزوں کے موسم میں میری جنت بھی یہی دو روٹیاں خراب کر رہی ہیں۔ لیکن پھر خیال آتا ہے کہ اگر روٹیاں نہ کھائیں تو ضائع ہوجائیں گی۔ میں کوئی انسان تھوڑی ہوں کہ کھاؤں کم اور خراب زیادہ کروں۔ اب اللہ ہی اس کے دل سے یہ خدا ترسی نکالے تو نکالے۔ میں تو بس دعا ہی کرتا رہ جاتا ہوں۔ آدھا موسم گزر گیا اور زبان اچھے کھانے کی آس میں ترس گئی ہے۔ لیکن سوکھی روٹی کھا کھا کر پلٹ رہا ہوں۔ یہ بھی نہیں ہوتا کہ اگر روٹی ہی رکھنی ہے تو ساتھ پانی کا پیالہ بھی رکھ دیں۔ یہ سوکھی روٹی تو حلق سے نیچے نہیں اترتی۔
 
Top