کیفی اعظمی کی منتخب شاعری

یاز

محفلین
آخری رات

چاند ٹوٹا پگھل گئے تارے
قطرہ قطرہ ٹپک رہی ہے رات
پلکیں آنکھوں پہ جھکتی آتی ہیں
انکھڑیوں میں کھٹک رہی ہے رات
آج چھیڑو نہ کوئی افسانہ
آج کی رات ہم کو سونے دو

کھلتے جاتے ہیں سمٹے سکڑے جال
گھلتے جاتے ہیں خون میں بادل
اپنے گلنار پنکھ پھیلائے
آ رہے ہیں اسی طرف جنگل
گل کرو شمعیں، رکھ دو پیمانہ
آج کی رات ہم کو سونے دو

شام سے پہلے مر چکا تھا شہر
کون دروازہ کھٹکھٹاتا ہے
اور اونچی کرو یہ دیواریں
شور آنگن میں آیا جاتا ہے
کہہ دو ہے آج بند مے خانہ
آج کی رات ہم کو سونے دو

جسم ہی جسم ہیں،کفن ہی کفن
بات سنتے نہ سر جھکاتے ہیں
امن کی خیر، کوتوال کی خیر
مردے قبروں سے نکل آتے ہیں
کوئی اپنا نہ کوئی بیگانہ
آج کی رات ہم کو سونے دو

کوئی کہتا تھا ٹھیک کہتا تھا
سرکشی بن گئی ہے سب کا شعار
قتل پر جن کو اعتراض نہ تھا
دفن ہونے پہ کیوں نہیں تیار
ہوش مندی ہے آج سو جانا
آج کی رات ہم کو سونے دو
(کیفی اعظمی)​
 

m faizan

محفلین
جس غزل میں ردیف نہ ہو صرف قافیہ کی پابندی ہو اسے کس قسم کی شاعری کہتے ہیں؟؟
 

m faizan

محفلین
یہ
معذرت

یہ بکھرے سے گیسو یہ آنکھوں میں لالی
قیامت ہے تیری یہ آشفتہ حالی

یہ روئی ہوئی بھیگی بھیگی سی آنکھیں
اور آنکھوں میں یہ نرم ڈورے گلابی

شکستہ شکستہ یہ رنگِ مسرت
چکیدہ چکیدہ یہ اشکِ زلالی

پریدہ پریدہ یہ چہرے کی رنگت
رمیدہ رمیدہ یہ رُخ کی سجا لی

لبِ لعل یہ مُرتعش مُرتعش سے
یہ کچھ سمٹی سمٹی سی ہونٹوں کی لالی

یہ کچھ بہکی بہکی سی سفاک نظریں
یہ کچھ سہمی سہمی سی فرخندہ حالی

یہ کچھ الجھے الجھے پریشان تخیل
یہ کچھ بھٹکی بھٹکی سی روشن خیالی

یہ کچھ روٹھے روٹھے سے معصوم جذبے
نہ شوخی نہ عشوے نہ شیریں مقالی

مرے حسبِ وعدہ نہ آنے سے شاید
ہوئی تیرے ارمان کی پائیمالی

بس اب ہنس دے مت کر زیادہ پشیماں
کہ آخر ہوں اِک شاعرِ لا اُبالی
(کیفی اعظمی)​
کس قسم کی شاعری ہے جس میں ردیف نہیں
 

یاز

محفلین
اسے غیر مردف کہتے ہیں۔
کیفی اعظمی کی ایک ای بک یاز کے نام۔ بس دیکھنا ہو گا کہ پچھلی ای بک میں کیا کیا مشترک ہے۔

بہت نوازش اعجاز صاحب۔
انشاءاللہ ای بک کے لئے نیا مواد پورا کر ہی دیں گے۔
پچھلی ای بک میں نے دیکھی ہے۔ اس میں موجود مواد کا کچھ حصہ اس سے مشترک ضرور ہے۔ اس کا ماخذ پہلا سلام نامی کتاب ہے۔ جبکہ میرے پاس موجود مواد کا ذریعہ"سرمایہ" نامی کتاب ہے۔ یہ ایک طرح سے کلیاتِ کیفی اعظمی بھی کہلا سکتی ہے۔ اس میں آوارہ سجدے، چراغِ آخرِ شب اور دیگر ایک آدھ کتب کا مواد شامل ہے۔ یہی کتاب سکین شدہ شکل میں ریختہ کی ویب سائٹ پہ بھی موجود ہے۔
 

یاز

محفلین
ماحول

طبیعت جبریہ تسکین سے گھبرائی جاتی ہے
ہنسوں کیسے ہنسی کم بخت تو مرجھائی جاتی ہے

بہت چمکا رہا ہوں خال و خد کو سعیٔ رنگیں سے
مگر پژ مردگی سی خال و خد پر چھائی جاتی ہے

امیدوں کا اجالا خوب برسا شیشۂ دل پر
مگر جو گرد تھی تہہ میں وہ اب تک پائی جاتی ہے

جوانی چھیڑتی ہے لاکھ خوابیدہ تمنا کو
تمنا ہے کہ اس کو نیند ہی سی آئی جاتی ہے

محبت کی نگوں ساری سے دل ڈوبا سا رہتا ہے
محبت دل کے اضمحلال سے شرمائی جاتی ہے

فضا کا سوگ اترا آ رہا ہے ظرف ہستی میں
نگاہِ شوق روحِ آرزو کجلائی جاتی ہے

یہ رنگ مے نہیں ساقی جھلک ہے خوں شدہ دل کی
جو اک دھندلی سی سرخی انکھڑیوں میں پائی جاتی ہے
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
تاشقند

بھٹکتا ہوا شوق کا کارواں
ہوا خیمہ زن آکے دیکھو کہاں

یہ عاشق کے سینے سے چوڑی زمیں
سما جائیں جس میں کئی آسماں

کہاں باغِ جنت کہاں تاشقند
یہ زندہ حقیقت وہ مردہ گماں

یہ نشہ ہی نشہ ہے اور وہ خمار
یہ شعلہ ہی شعلہ ہے اور وہ دھواں

درخت اس کے سارے مسافر نواز
پہاڑ اس کے سب مشفق و مہرباں

عزیزوں کی محفل مہکتے چمن
رفیقوں کی مجلس حسیں وادیاں

ہر اک باب اس کا نوائی کا شعر
کہیں سے بیاں کیجیئے داستاں

یہیں حسن اترا تھا پہلے پہل
یہیں عشق اک دن ہوا تھا جواں

اسی سے بہاریں نچوڑی گئیں
کبھی آگئی تھی ادھر جب خزاں

وہاں تک لہکتے ہیں شاداب کھیت
جہاں بھوک کا کل ملا تھا نشاں

خراماں ہوا اس طرح انقلاب
ہر اک راستہ بن گیا کہکشاں

جبینوں پہ سورج گریباں میں چاند
ستاروں کی گنتی نہیں ہے یہاں

پشیماں پشیماں سے ہیں زلزلے
زہے دستِ تعمیر کی مستیاں

زلیخا پہ آیا دوبارہ شباب
دوبارہ جواں ہو گئی بستیاں

جو کل مہیماں تھے جو کل میزباں
گلے ملتے ہی ہو گئے جسم و جاں

غزل چھیڑ گھنگرو پہن تاشقند
ترے ساتھ رقصاں ہے یہ جہاں
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
نئی صبح

یہ صحت بخش تڑکا یہ سحر کی جلوہ سامانی
افق سارا بنا جاتا ہے دامانِ چمن جیسے

چھلکتی روشنی تاریکیوں پر چھائی جاتی ہے
اڑھائے نازیت کی لاش پر کوئی کفن جیسے

ابلتی سرخیوں کی زد پہ ہیں حلقے سیاہی کے
پڑی ہو آگ میں بکھری غلامی کی رسن جیسے

شفق کی چادریں رنگیں فضا میں تھرتھراتی ہیں
اڑائے لال جھنڈا اشتراکی انجمن جیسے

چلی آتی ہے شرمائی لجائی حور بیداری
بھرے گھر میں تھم تھم کے رکھتی ہے دلہن جیسے

فضا گونجی ہوئی ہے صبح کے تازہ ترانوں سے
سرودِ فتح پر ہیں سرخ فوجیں نغمہ زن جیسے

ہوا کی نرم لہریں گدگداتی ہیں امنگوں کو
جواں جذبات سے کرتا ہو چہلیں بانکپن جیسے

یہ سادہ سادہ گردوں پر تبسم آفریں سورج
پیاپے کامیابی سے ہوا ستالن مگن جیسے

سحر کے آئینے میں دیکھتا ہوں حسنِ مستقبل
اتر آئی ہے چشمِ شوق میں کیفی کرن جیسے
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
انتشار

کبھی جمود کبھی صرف انتشار سا ہے
جہاں کو اپنی تباہی کا انتظار سا ہے

منو کی مچھلی، کشتیٔ نوح اور یہ فضا
کہ قطرے قطرے میں طوفان بےقرار سا ہے

میں کس کو اپنے گریباں کا چاک دکھلاؤں
کہ آج دامنِ یزداں بھی تار تار سا ہے

سجا سنوار کے جس کو ہزار ناز کئے
اسی پہ خالقِ کونین شرمسار سا ہے

تمام جسم ہے بیدار ، فکر خوابیدہ
دماغ پچھلے زمانے کی یادگار سا ہے

سب اپنے پاؤں پہ رکھ رکھ کے پاؤں چلتے ہیں
خود اپنے دوش پہ ہر آدمی سوار سا ہے

جسے پکاریئے ملتا ہے اک کھنڈر سے جواب
جسے بھی دیکھئے ماضی کا اشتہار سا ہے

ہوئی تو کیسے بیاباں میں آکے شام ہوئی
کہ جو مزار یہاں ہے، مرا مزار سا ہے

کوئی تو سود چکائے، کوئی تو ذمہ لے
اٌس اِنقلاب کا جو آج تک ادھار سا ہے
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
ماسکو

ساتھیو قافلۂ شوق کو روکو تو ذرا
زندگی چار طرف زمزمہ خواں ہے دیکھو
اپنے خوابوں میں جسے ہم نے بسا رکھا تھا
یہ وہی شہرِ حسیں شہرِ جواں ہے دیکھو

پرچمِ امن بلند اور بلند اور بلند
تیرے سائے سے نکل کے میں کہاں جاؤں گا
ماسکو ساز اٹھا ساز اٹھا ساز اٹھا
آج ہر گیت اسی ساز پہ میں گاؤں گا

کیسے خاموش رہوں کہ ابھی تک دل میں
پچھلے ہی شورِ قیامت کی دھمک باقی ہے
میری جھلسی ہوئی یادوں میں گھٹی سانسوں میں
اب بھی بارود کی تھوڑی سی مہک باقی ہے

اب بھی احساس میں کانٹے کی طرح چبھتے ہیں
وہ حسیں ہونٹ جو ہنسنے کو کبھی ترسے تھے
آج بھی خون سا رستا ہے مرے گیتوں سے
جس پہ خونخوار فضا سے کبھی بم برسے تھے

کتنے پاگل تھے وہ ایام کہ جن میں خالق
اپنی مخلوق کے اعمال پہ شرمایا تھا
ہیروشیما نے وہ جوڑا ابھی باندھا ہی نہیں
اپنی ہی لاش پر اِک روز جو بکھرایا تھا

جنگ ٹل سکتی،رک سکتی ہے،مٹ سکتی ہے
جنگ قسمت ہی سہی دل کا تقاضہ تو نہیں
سب ترے ساتھ ہیں میں میرا وطن میرے رفیق
آج تو جہد کے میدان میں تنہا تو نہیں

اک قدم بھی تو بڑھاتا ہے جو منزل کی طرف
اک دیا اور سرِ راہِ عمل جلتا ہے
تو جو مڑ جاتا ہے تو مڑ جاتی ہے دنیا ساری
تو جو چلتا ہے تیرے ساتھ جہاں چلتا ہے

کتنی مشکل سے یہ ٹوٹےہوئے دل جوڑے ہیں
ان کے ٹکڑوں کو دوبارہ نہ بکھرنے دیں گے
راہیں جاتی ہیں جو میخانے سے میخانے تک
ہم ادھر سے کبھی فوجیں نہ گزرنے دیں گے
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
غزل

شور یونہی نہ پرندوں نے مچایا ہوگا
کوئی جنگل کی طرف شہر سے آیا ہوگا

پیڑ کے کاٹنے والوں کو یہ معلوم تو ہو گا
جسم جل جائیں گے جب سر پہ نہ سایہ ہوگا

بانیٔ جشنِ بہاراں نے یہ سوچا بھی نہیں
کس نے کانٹوں کو لہو اپنا پلایا ہوگا

بجلی کے تار بیٹھا ہوا ہنستا پنچھی
سوچتا ہے کہ وہ جنگل تو پرایا ہوگا

اپنے جنگل سے جو گھبرا کے اڑے تھے پیاسے پیاسے
ہر سراب ان کو سمندر نظر آیا ہوگا
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
لینن

آسماں اور بھی اوپر کو اٹھا جاتا ہے
تم نے سو سال میں انساں کو کیا کتنا بلند
پشت پر باندھ دیا تھا جنہیں جلادوں نے
پھینکتے ہیں وہی ہاتھ آج ستاروں پہ کمند
دیکھتے ہو کہ نہیں

جگمگا اٹھی محنت کے پسینے سے جبیں
اب کوئی خط خطِ تقدیر نہیں ہو سکتا
تم کو ہر ملک کی سرحد پہ کھڑے دیکھا ہے
اب کوئی ملک ہو، تسخیر نہیں ہو سکتا

خیر ہو بازوئے قاتل کی، مگر خیر نہیں
آج مقتل میں بہت بھیڑ نظر آتی ہے
کر دیا تھا کبھی ہلکا سا اشارہ جس سمت
ساری دنیا اسی جانب کو مڑی جاتی ہے

حادثہ کتنا کڑا ہے کہ سرِ منزلِ شوق
قافلہ چند گروہوں میں بٹا جاتا ہے
ایک پتھر سے تراشی تھی جو تم نے دیوار
اک خطرناک شگاف اس میں نظر آتا ہے
دیکھتے ہو کہ نہیں

دیکھتے ہو تو کوئی صلح کی تدبیر کرو
ہو سکیں جس سے زخم رفو وہ تقریر کرو
عہد پیچیدہ، مسائل ہیں سوا پیچیدہ
ان کو سلجھاؤ صحیفہ کوئی تحریر کرو

روحیں آوارہ ہیں دے دو انھیں پیکر اپنا
بھر دو ہر پارۂ فولاد میں جوہر اپنا
رہ نما پھرتے ہیں یا پھرتی ہیں بے سر لاشیں
رکھ دو ہر اکڑی ہوئی لاش پر تم سر اپنا
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
کب تک

اک سپاہی کو پہنا دی گئی آخر زنجیر
ہے تو بیداد مگر یہ نئی بیداد نہیں
اسی زنجیر میں جکڑے ہوئے ہیں کتنے رشید
نام بھی جن کا ہمیں پوری طرح یاد نہیں

چڑھ کے پھانسی پہ اتر آیا ہے سہگل صد شکر
کتنے سہگل اسی پھانسی پہ مگر جھول گئے
ان شہیدوں کا تھا ہر قطرۂ خوں شاہنواز
رفتہ رفتہ جنہیں ارباب وطن بھول گئے

جانے ہم رحم کی درخواست کریں گے کب تک
کب تک آئین کی محتاط مذمت ہوگی
ایک ایک نام پہ کہرام مچے گا کب تک
کب تک اس طرح بالاقساط بغاوت ہوگی
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
کھلونے

ریت کی ناؤ، جھاگ کے مانجھی
کاٹھ کی ریل، سیپ کے ہاتھی

ہلکی بھاری پلاسٹک کی کلیں
موم کے چاک جو رکیں نہ چلیں

راکھ کے کھیت، دھول کے کھلیان
بھاپ کے پیرہن، دھوئیں کے مکان

نہر جادو کی، پل دعاؤں کے
جھنجھنے چند یوجناؤں کے

سوت کے چیلے، مونج کے استاد
تیشے دفتی کے، کانچ کے فرہاد

عالم آٹے کے اور ردے کے امام
ادر پنی کے شاعرانِ کرام

اون کے تیر، روئی کی شمشیر
صدر مٹی کا اور ربر کے وزیر

اپنے سارے کھلونے ساتھ لئے
دستِ خالی میں کائنات لئے

دو ستونوں میں تان کر رسی
ہم خدا جانے کب سے چلتے ہیں
نہ تو گرتے ہیں نہ سنبھلتے ہیں
(کیفی اعظمی)
 

یاز

محفلین
غزل

پتھر کے خدا وہاں بھی پائے
ہم چاند سے آج لوٹ آئے

دیواریں تو ہر طرف کھڑی ہیں
کیا ہو گئے مہربان سائے

جنگل کی ہوائیں آ رہی ہیں
کاغذ کا یہ شہر اڑ نہ جائے

لیلیٰ نے نیا جنم لیا ہے
ہے قیس کوئی جو دل لگائے

ہے آج زمیں کا غسلِ صحت
جس میں ہو جتنا خون لائے

صحرا صحرا لہو کے خیمے
پھر پیاسے لبِ فرات آئے
(کیفی اعظمی)​
 
Top