فاتح
لائبریرین
فرخ صاحب نے ابھی دو گھنٹے قبل تو بتایا تھا اس ہفتہ کے متعلق اور یہاں تو ہفتہ ختم بھی ہو گیا اور میں جو ہمیشہ ہی دیر کر دیتا ہوں اس بار بھی تاخیر سے پہنچا۔
ایک پرانی نظم "نفرت" آپ کی بصارتوں کی نذر۔ جذبہ خواہ نفرت کا ہو یا محبت کا، تعلق کا پتا دیتا ہے۔ خیر تو نظم حاضر ہے
نفرت
--------------------------------------
ارے او قاتلو!
تم پر خدا کا قہر ہو
تم نے جہانِ دل کے سب کوچے محلے
سب گلی چوبارے تک ویران کر ڈالے
گلستانِ تبسم روند ڈالے
شہرِ جاں کی سب فصیلیں
ڈھا کے قبرستان کر ڈالیں
تم اپنی ذات میں خود ہی خداوندان و پیغمبر
تمہاری گفتنی و کردنی
جو تھی بزعمِ خود ہی یزدانی
جنہیں میں خضر سمجھا تھا
وہی شداد نکلے ہیں
میں جن کی ذات کا حصہ
وہی بدذات نکلے ہیں
تمہاری فتح میں تسلیم کر لوں گا ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ اگر تم یہ شکستِ دل
شکستِ عشق میں تبدیل کر پاؤ
مگر اب تک
ضمیرِ قلب کے سینے پہ گویا ایستادہ ہے
علم اک قرمزی
جو اک علامت ہے
محبت جاودانی کے جلال و فتح مندی کی
وہیں اک اور بھی
اتنا ہی اونچا اور قد آور
علم بھی ایستادہ ہے
مگر اس سرخ جھنڈے سے
سیہ رنگت جھلکتی ہے
مگر بس فرق اتنا ہے
کہ اس کے روئیں روئیں سے
فقط نفرت چھلکتی ہے
وہی نفرت علامت ہے
مرے تم سے تعلق کی
تمہارے میرے رشتے کی
مگر دکھ کیا
ابھی الفاظ باقی ہیں
قلم کا ساتھ باقی ہے
مگر جب تک
مرے سینے میں اک بھی سانس باقی ہے
مجھے تم سب سے نفرت ہے
مجھے تم سب سے نفرت ہے
-------------------------------------------
فاتح الدین بشیرؔ
ایک پرانی نظم "نفرت" آپ کی بصارتوں کی نذر۔ جذبہ خواہ نفرت کا ہو یا محبت کا، تعلق کا پتا دیتا ہے۔ خیر تو نظم حاضر ہے
نفرت
--------------------------------------
ارے او قاتلو!
تم پر خدا کا قہر ہو
تم نے جہانِ دل کے سب کوچے محلے
سب گلی چوبارے تک ویران کر ڈالے
گلستانِ تبسم روند ڈالے
شہرِ جاں کی سب فصیلیں
ڈھا کے قبرستان کر ڈالیں
تم اپنی ذات میں خود ہی خداوندان و پیغمبر
تمہاری گفتنی و کردنی
جو تھی بزعمِ خود ہی یزدانی
جنہیں میں خضر سمجھا تھا
وہی شداد نکلے ہیں
میں جن کی ذات کا حصہ
وہی بدذات نکلے ہیں
تمہاری فتح میں تسلیم کر لوں گا ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ اگر تم یہ شکستِ دل
شکستِ عشق میں تبدیل کر پاؤ
مگر اب تک
ضمیرِ قلب کے سینے پہ گویا ایستادہ ہے
علم اک قرمزی
جو اک علامت ہے
محبت جاودانی کے جلال و فتح مندی کی
وہیں اک اور بھی
اتنا ہی اونچا اور قد آور
علم بھی ایستادہ ہے
مگر اس سرخ جھنڈے سے
سیہ رنگت جھلکتی ہے
مگر بس فرق اتنا ہے
کہ اس کے روئیں روئیں سے
فقط نفرت چھلکتی ہے
وہی نفرت علامت ہے
مرے تم سے تعلق کی
تمہارے میرے رشتے کی
مگر دکھ کیا
ابھی الفاظ باقی ہیں
قلم کا ساتھ باقی ہے
مگر جب تک
مرے سینے میں اک بھی سانس باقی ہے
مجھے تم سب سے نفرت ہے
مجھے تم سب سے نفرت ہے
-------------------------------------------
فاتح الدین بشیرؔ