رہی بات بدیسی زبانوں کی، پہلے ایک وضاحت کہ یہاں بدیسی سے سیاسی تقسیم مراد نہ لی جائے۔ بارڈر لائنیں بنتی اور ٹوٹتی رہتی ہیں، وہ ہمارا موضوع نہیں۔ ہر وہ زبان بدیسی ہے جو کسی دُور کی تہذیب سے تعلق رکھتی ہے۔ اس میں بھی کچھ الفاظ البتہ ایسے ہو سکتے ہیں جو اردو میں یوں سما جائیں کہ اجنبیت کا احساس نہ ہو۔
پروفیسر انور مسعود کی ایک اور بات یہاں بیان کرنے کے قابل ہے۔ انہوں نے کہا: ’’پنجابی میری مادری زبان ہے، اردو میری قومی زبان ہے، فارسی میری تہذیبی زبان ہے اور عربی میری دینی زبان ہے۔ مجھے ہر زبان اپنی اپنی سطح پر عزیز ہے‘‘۔
ہاں مجھے اردو ہے پنجابی سے بھی بڑھ کر عزیز
شکر ہے انور مری سوچیں علاقائی نہیں
انگریزی فرانسیسی جرمن جاپانی میں تو غزل ہوتی ہی نہیں! غزل پر میرے لئے جناب الف عین اور جناب محمد وارث کی رائے کہیں زیادہ معتبر ہے اس بیان کے مقابلے میں جو لارڈ بائرن، موپساں وغیرہ کے حوالے سے بیان کیا جائے۔ انگریزی میں کہانی ہے، مختصر کہانی ہے؛ ان کے جو بھی خواص ہیں وہ اپنی جگہ درست، مگر انگریزی میں افسانہ نہیں ہے۔ کوئی دو چار دس مختصر کہانیاں افسانے جیسی ہوں تو بھی یہ کہنا زیادتی ہے کہ افسانہ انگریزی کی مختصر کہانی سے پیدا ہوا۔ ہائیکو جاپان والوں کا ادبی سرمایہ ہے، بجا اور یہ بھی بجا کہ ان کے ہاں یہ صنف موضوع کے اعتبار سے ہے، ہیئت کے اعتبار سے نہیں۔ جیسے ہمارے ہاں نظم میں حمد و نعت ہے، بہاریہ ہے، واسوخت ہے، غزل ہے، قصیدہ ہے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ ہمارے دانشور اس کی ہیئت پر مصروفِ بحث ہیں اور اردو میں اس کے اوزان کا تعین نزاع بنا ہوا ہے۔ صاحبو! جاپانی زبان کے تو میٹرز ہی ہم سے نہیں ملتے۔ انگریزی کے میٹرز بھی اردو سے مختلف ہیں، تو پھر میں اپنی توانائیاں وہاں صرف کیوں کروں؟ اگر مجھے میڑز پر ہی کام کرنا ہے تو مجھے اپنے موجودہ عروضی نظام پر بات کرنی چاہئے۔ بجائے اس کے کہ چینی زبان کی سر اور لے کا اردو متبادل کیا ہے۔