محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اورابا جان چلے گئے
اباجان ایک مردِ قلندر کی شان کے ساتھ اس دنیا میں رہے اور قلندرانہ شان ہی کے ساتھ ایک صبح چپکے سے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
سوگ کے ان تین دنوں میں فیس بک Face Book پر بچوں کے خیالات پڑھ کر میں حیران رہ گیا۔ اتنے گہرے احساسات، اتنے معنی خیز، اتنے نازک اور اتنے مضبوط و مربوط۔۔
ایک پوتے نے لکھا۔’’ آج فضا مسموم ہوگئی ہے، ایک نسل چلی گئی۔۔۔۔۔۔ اے کاش کوئی ہمیں بکھرنے سے بچالے۔۔۔ آج تو ہماری چیخیں بہرے کانوں سے ٹکرا کر واپس آرہی ہیں۔‘‘
ایک اور پوتے نے لکھا۔’’ آج میں پھر سے یتیم ہوگیا۔‘‘
ایک بہو نے لکھا۔’’ آج میرا ایک اور سائبان کھوگیا۔‘‘
ایک پوتی نے کینیڈا سے لکھا۔’’ میرے ویلینٹائن ، میرے دادا ابّا۔‘‘
ایک بچی نے لکھا ’’ لوگ اس دنیا سے جا سکتے ہیں، لیکن ہمارے دلوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
ایک اور بچی نے لکھا۔’’ جانے والے ہمیشہ کے لیے ہمارے دلوں میں رہیں گے۔ ریسٹ ان پیس دادا ابا۔‘‘
ایک اور بچی کہتی ہے’’ اے کاش میں گزرے ہوئے وقت کو واپس لا سکتی۔‘‘
یہ محبت نامے اور یہ عشقیہ ڈائیلاگ دراصل اس فاتحِ عالم محبت کا جواب ہیں جو اباجان نے ہمیشہ ان بچوں کے ساتھ روا رکھی۔
میرے مرحوم بھائی نے ایک دن ہنس کر اباجان سے کہا تھا ، ’’ اباجان آپ ہم سے زیادہ ہمارے بچوں سے پیار کرتے ہیں۔ سچ ہے، سود اصل سے زیادہ پیارا ہوتا ہے۔‘‘
لاہور سے سرور چچا نے جو بوجوہ ضعیفی اور ناسازی طبیعت کراچی تشریف نہیں لاسکے، فون پر مجھ سے کہا، ’’ ہم سب انھیں چھوٹے بھائی کہتے تھے لیکن وہ چھوٹے نہیں تھے، وہ تو بہت بڑے تھے۔‘‘
اباجان کا نام محمد اسمٰعیل اور تخلص آزاد، والد کا نام شیخ احمد تھا، ۱۹۲۴ میں سی پی برار کی ایک تحصیل باسم ( ضلع آکولا) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم باسم ہی میں حاصل کی، وہیں ایک دینی استاد مولانا غفور محمد حضرت سے تعلق پیدا ہوا جو دیو بندی عقیدے کے سیدھے سادے عالم تھے، جنھوں نے انھیں ساری زندگی کے لیے ایک پختہ عقیدہ اور لائحہ عمل عطا کیا۔ اللہ تب العزت کی وحدانیت اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی بشریت، ختمِ رسالت، حرمت اور معصومیت پر پختہ یقین اور بدعات سے بریت، اس عقیدے کے خاص جزو تھے۔ نوجوانی میںحیدرآباد آگئے، اور ایک پیر صاحب کی مریدی اختیار کی۔ دینی استاد کا اثر اتنا زیادہ تھا کہ پیر صاحب کا سات سالہ ساتھ بھی انھیں اس عقیدے سے متزلزل نہیں کرسکا۔ اس عقیدے کا شاخسانہ سرسید احمد خان کے خیالات سے ہم آہنگی اور مسلم لیگ کے ساتھ سیاسی ہمدردی تھا جو مرتے دم تک ان کے ساتھ رہا۔ صوبہ سرحد میں وقتاً فوقتاً قیام کے دوران تبلیغ کے ساتھ ساتھ تحریک ِ پاکستان کا کام بھی مستقل بنیادوں پر کیا۔
اللہ رب العزت پر یقین کا یہ عالم تھا کہ کبھی کسی انسان( جس میں ان کی اولاد بھی شامل ہے) کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کیا۔ جو ملا صبر و شکر کے ساتھ کھایا، نہیں ملا تو بھوکے رہے۔ ایامِ طفولیت میں راقم الحروف کے ٹائیفائڈ جیسے موذی مرض میں بھی ایک خیراتی شفا خانے سے دوا لیتے وقت جب کمپاوئنڈر نے یہ کہا کہ یہ دوا فلاں جماعت کی طرف سے ہے تو اسی وقت دوا زمین پر انڈیل دی اور چلے آئے۔
اک طرفہ تماشا تھی حضرت کی طبیعت بھی
انھوں نے ہندوستان کے طول و عرض میں اور خصوصاً شمال مغربی سرحدی صوبے میں ان گنت تبلیغی دورے کیے اور بے شمار جلسوں اور مناظروں میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ کئی لوگوں کو مسلمان کیا۔
اردو کے علاوہ انگریزی ، عربی، فارسی، سنسکرت، پشتو، بریل Braille اور مرہٹی پر عبور حاصل تھا، گویا ہفت زبان تھے۔ شاعری بھی کی اور اس ناطے شعری ذوق بھی بدرجہ اتّم موجود تھا۔ طبیعت میں شوخی و شرارت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جس کا اظہار اکثر ہوتا۔
خود ہی سناتے تھے کہ بازار میں چلتے ہوئے کسی شخص کی ہیئت کذائی دیکھ کر بے اختیار ہنسی آگئی، اگلے ہی لمحے زمین پر پڑے ہوئے کیلے کے چھلکے سے پھسلے تو چاروں خانے چت، زمین پر پڑے تھے۔ فوراً ہی اٹھے اور بھرے بازار میں کان پکڑ کر تین دفعہ اٹھک بیٹھک کی ، اللہ رب العزت سے توبہ کی اور سکون سے آگے چلدیئے۔
۱۹۴۸ میں سقوطِ حیدرآباد کے موقعے پر ایک ہندو غنڈے نانا پٹیل عرف پتری سرکار کے قتل کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ بیس ماہ کی جیل کاٹ کر ہندوستان کی جیل سے رہا ہوئے تو پاکستان کی جستجو کی۔ اونٹ پر سوار ہوکر سرحد پار کی اور میر پور خاص پہنچے۔ پاکستان آکر پشاور میں سکونت اختیار کی لیکن بے قرار طبیعت نے چین سے بیٹھنے نہ دیا تو یہاں سے بھی صوبہ سرحد کے قبائیلی علاقوں کے کئی یادگار دورے کیے۔ ۱۹۵۰ میں پاکستان آتے ہی پیر صاحب اور پھر ۱۹۵۴ میں کراچی آکر تبلیغی کام دونوں کو خیر باد کہہ کر پرانی نمائش پر نابیناوں کے ایک اسکول IDA REU میں استاد ہوگئے۔ ۱۹۶۰ میں معلمی چھوڑکر نیشنل فیڈریشن فار دی ویلفیئر آف دی بلائینڈ میں بریل پریس کے مینیجر کے طور پر ذمہ داری سنبھالی اور خوب سنبھالی۔ نمایاں کارناموں میں معیاری اردو بریل کا قاعدہ اور بریل میں قرآن شریف کیطباعت شامل ہیں۔ اس سے پہلے اردن اور سعودی عرب سے بریل قرآن شائع ہوچکا تھا لیکن اردن والے نسخے میں Punctuations انگلش والے استعمال ہوئے تھے اور سعودی نسخے میں سرے سے اعراب ہی نہیں تھے، جبکہ اباجان والے نسخے میں اردو بریل کے اعراب استعمال کیے گئے ۔ ۱۹۷۰ میں بریل قرآن مکمل کرچکے تھے جسکی تصحیح مولانا احتشام الحق تھانوی صاحب نے فرمائی۔ تقریباً بیس سال نیشنل فیڈریشن فار دی ویلفیئر آف دی بلائینڈ کے ساتھ وابستہ رہنے کے بعد ۱۹۷۹ میں نیشنل بک فاونڈیشن میں بریل پریس کے مینیجر مقرر ہوئے۔
کراچی یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم اے کا امتحان درجہ اول میں پاس کیا ۔ مطالعے کا شوق جنون کی حد تک تھا، جسکی ابتدا اپنے ماموں کی ذاتی لائبریری سے ہوئی اور پھر قیامِ حیدرآباد کے دنوں میں وہاں کی مشہور پبلک لائبریریوں سے خاطر خواہ اکتساب کیا۔ وفات سے کچھ ہی عرصہ قبل، سامنے والے پڑوسی نے ایک رات تقریباً ڈھائی بجے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو بلا کر کھڑکی سے دکھایا، اباجان بڑے مزے سے اپنے بستر پر بیٹھے ، دنیا و مافیہا سے بے خبر، کتاب کا مطالعہ کررہے تھے اور نوٹس بنارہے تھے۔ ہمارے لیے یہ نظارہ ان کے روز مرہ کے معمولات میں سے تھا۔ کئی یادگار تحریریں چھوڑی ہیں جن میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کی کتاب ’’ خیر البشرصلی اللہ علیہ وسلم‘‘ ( جو بعد میں ماہنامہ تعمیرِ افکار کے سیرت نمبر میں بھی شایع ہوئی، ’’ اسلامی معاشرہ اور نابینا افراد‘‘ ، ’’ حضرت ابوزر غفاری‘‘ اور مذاہبِ عالم کے تقابلی مطالعے پر کئی قابلِ ذکر مضامین ( جو شش ماہی جریدہ السیرہ میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے) شامل ہیں۔
اباجان نے ایک اسلامی عالم، داعی حق، بہترین مقرر، بہترین استاد، مضمون نگار اور comparative religion کے طالب علم کی حیثیت سے ایک بھر پور زندگی گزاری، وہ اقبال کے شعر
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
کی عملی تشریح و تفسیر بن کر رہے اور نسیمِ صبح کے ایک تازہ جھونکے کی طرح ہمارے درمیان سے گزر گئے، جسکی خوشبو، تازگی اور صباحت مدتوں ہمیں ان کی یاد دلاتی رہے گی، رلاتی رہے گی اور تڑپاتی رہے گی۔
حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا
( ۱۴ فروری ۲۰۱۰ کو اباجان کی وفات پر یہ مضمون لکھا اور پھر ان کی سوانح لکھنی شروع کی، جسے اگلی نشستوں میں پیش کرنے کی جسارت کروں گا)
اورابا جان چلے گئے
اباجان ایک مردِ قلندر کی شان کے ساتھ اس دنیا میں رہے اور قلندرانہ شان ہی کے ساتھ ایک صبح چپکے سے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
سوگ کے ان تین دنوں میں فیس بک Face Book پر بچوں کے خیالات پڑھ کر میں حیران رہ گیا۔ اتنے گہرے احساسات، اتنے معنی خیز، اتنے نازک اور اتنے مضبوط و مربوط۔۔
ایک پوتے نے لکھا۔’’ آج فضا مسموم ہوگئی ہے، ایک نسل چلی گئی۔۔۔۔۔۔ اے کاش کوئی ہمیں بکھرنے سے بچالے۔۔۔ آج تو ہماری چیخیں بہرے کانوں سے ٹکرا کر واپس آرہی ہیں۔‘‘
ایک اور پوتے نے لکھا۔’’ آج میں پھر سے یتیم ہوگیا۔‘‘
ایک بہو نے لکھا۔’’ آج میرا ایک اور سائبان کھوگیا۔‘‘
ایک پوتی نے کینیڈا سے لکھا۔’’ میرے ویلینٹائن ، میرے دادا ابّا۔‘‘
ایک بچی نے لکھا ’’ لوگ اس دنیا سے جا سکتے ہیں، لیکن ہمارے دلوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
ایک اور بچی نے لکھا۔’’ جانے والے ہمیشہ کے لیے ہمارے دلوں میں رہیں گے۔ ریسٹ ان پیس دادا ابا۔‘‘
ایک اور بچی کہتی ہے’’ اے کاش میں گزرے ہوئے وقت کو واپس لا سکتی۔‘‘
یہ محبت نامے اور یہ عشقیہ ڈائیلاگ دراصل اس فاتحِ عالم محبت کا جواب ہیں جو اباجان نے ہمیشہ ان بچوں کے ساتھ روا رکھی۔
میرے مرحوم بھائی نے ایک دن ہنس کر اباجان سے کہا تھا ، ’’ اباجان آپ ہم سے زیادہ ہمارے بچوں سے پیار کرتے ہیں۔ سچ ہے، سود اصل سے زیادہ پیارا ہوتا ہے۔‘‘
لاہور سے سرور چچا نے جو بوجوہ ضعیفی اور ناسازی طبیعت کراچی تشریف نہیں لاسکے، فون پر مجھ سے کہا، ’’ ہم سب انھیں چھوٹے بھائی کہتے تھے لیکن وہ چھوٹے نہیں تھے، وہ تو بہت بڑے تھے۔‘‘
اباجان کا نام محمد اسمٰعیل اور تخلص آزاد، والد کا نام شیخ احمد تھا، ۱۹۲۴ میں سی پی برار کی ایک تحصیل باسم ( ضلع آکولا) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم باسم ہی میں حاصل کی، وہیں ایک دینی استاد مولانا غفور محمد حضرت سے تعلق پیدا ہوا جو دیو بندی عقیدے کے سیدھے سادے عالم تھے، جنھوں نے انھیں ساری زندگی کے لیے ایک پختہ عقیدہ اور لائحہ عمل عطا کیا۔ اللہ تب العزت کی وحدانیت اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی بشریت، ختمِ رسالت، حرمت اور معصومیت پر پختہ یقین اور بدعات سے بریت، اس عقیدے کے خاص جزو تھے۔ نوجوانی میںحیدرآباد آگئے، اور ایک پیر صاحب کی مریدی اختیار کی۔ دینی استاد کا اثر اتنا زیادہ تھا کہ پیر صاحب کا سات سالہ ساتھ بھی انھیں اس عقیدے سے متزلزل نہیں کرسکا۔ اس عقیدے کا شاخسانہ سرسید احمد خان کے خیالات سے ہم آہنگی اور مسلم لیگ کے ساتھ سیاسی ہمدردی تھا جو مرتے دم تک ان کے ساتھ رہا۔ صوبہ سرحد میں وقتاً فوقتاً قیام کے دوران تبلیغ کے ساتھ ساتھ تحریک ِ پاکستان کا کام بھی مستقل بنیادوں پر کیا۔
اللہ رب العزت پر یقین کا یہ عالم تھا کہ کبھی کسی انسان( جس میں ان کی اولاد بھی شامل ہے) کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کیا۔ جو ملا صبر و شکر کے ساتھ کھایا، نہیں ملا تو بھوکے رہے۔ ایامِ طفولیت میں راقم الحروف کے ٹائیفائڈ جیسے موذی مرض میں بھی ایک خیراتی شفا خانے سے دوا لیتے وقت جب کمپاوئنڈر نے یہ کہا کہ یہ دوا فلاں جماعت کی طرف سے ہے تو اسی وقت دوا زمین پر انڈیل دی اور چلے آئے۔
اک طرفہ تماشا تھی حضرت کی طبیعت بھی
انھوں نے ہندوستان کے طول و عرض میں اور خصوصاً شمال مغربی سرحدی صوبے میں ان گنت تبلیغی دورے کیے اور بے شمار جلسوں اور مناظروں میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ کئی لوگوں کو مسلمان کیا۔
اردو کے علاوہ انگریزی ، عربی، فارسی، سنسکرت، پشتو، بریل Braille اور مرہٹی پر عبور حاصل تھا، گویا ہفت زبان تھے۔ شاعری بھی کی اور اس ناطے شعری ذوق بھی بدرجہ اتّم موجود تھا۔ طبیعت میں شوخی و شرارت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جس کا اظہار اکثر ہوتا۔
خود ہی سناتے تھے کہ بازار میں چلتے ہوئے کسی شخص کی ہیئت کذائی دیکھ کر بے اختیار ہنسی آگئی، اگلے ہی لمحے زمین پر پڑے ہوئے کیلے کے چھلکے سے پھسلے تو چاروں خانے چت، زمین پر پڑے تھے۔ فوراً ہی اٹھے اور بھرے بازار میں کان پکڑ کر تین دفعہ اٹھک بیٹھک کی ، اللہ رب العزت سے توبہ کی اور سکون سے آگے چلدیئے۔
۱۹۴۸ میں سقوطِ حیدرآباد کے موقعے پر ایک ہندو غنڈے نانا پٹیل عرف پتری سرکار کے قتل کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ بیس ماہ کی جیل کاٹ کر ہندوستان کی جیل سے رہا ہوئے تو پاکستان کی جستجو کی۔ اونٹ پر سوار ہوکر سرحد پار کی اور میر پور خاص پہنچے۔ پاکستان آکر پشاور میں سکونت اختیار کی لیکن بے قرار طبیعت نے چین سے بیٹھنے نہ دیا تو یہاں سے بھی صوبہ سرحد کے قبائیلی علاقوں کے کئی یادگار دورے کیے۔ ۱۹۵۰ میں پاکستان آتے ہی پیر صاحب اور پھر ۱۹۵۴ میں کراچی آکر تبلیغی کام دونوں کو خیر باد کہہ کر پرانی نمائش پر نابیناوں کے ایک اسکول IDA REU میں استاد ہوگئے۔ ۱۹۶۰ میں معلمی چھوڑکر نیشنل فیڈریشن فار دی ویلفیئر آف دی بلائینڈ میں بریل پریس کے مینیجر کے طور پر ذمہ داری سنبھالی اور خوب سنبھالی۔ نمایاں کارناموں میں معیاری اردو بریل کا قاعدہ اور بریل میں قرآن شریف کیطباعت شامل ہیں۔ اس سے پہلے اردن اور سعودی عرب سے بریل قرآن شائع ہوچکا تھا لیکن اردن والے نسخے میں Punctuations انگلش والے استعمال ہوئے تھے اور سعودی نسخے میں سرے سے اعراب ہی نہیں تھے، جبکہ اباجان والے نسخے میں اردو بریل کے اعراب استعمال کیے گئے ۔ ۱۹۷۰ میں بریل قرآن مکمل کرچکے تھے جسکی تصحیح مولانا احتشام الحق تھانوی صاحب نے فرمائی۔ تقریباً بیس سال نیشنل فیڈریشن فار دی ویلفیئر آف دی بلائینڈ کے ساتھ وابستہ رہنے کے بعد ۱۹۷۹ میں نیشنل بک فاونڈیشن میں بریل پریس کے مینیجر مقرر ہوئے۔
کراچی یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم اے کا امتحان درجہ اول میں پاس کیا ۔ مطالعے کا شوق جنون کی حد تک تھا، جسکی ابتدا اپنے ماموں کی ذاتی لائبریری سے ہوئی اور پھر قیامِ حیدرآباد کے دنوں میں وہاں کی مشہور پبلک لائبریریوں سے خاطر خواہ اکتساب کیا۔ وفات سے کچھ ہی عرصہ قبل، سامنے والے پڑوسی نے ایک رات تقریباً ڈھائی بجے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو بلا کر کھڑکی سے دکھایا، اباجان بڑے مزے سے اپنے بستر پر بیٹھے ، دنیا و مافیہا سے بے خبر، کتاب کا مطالعہ کررہے تھے اور نوٹس بنارہے تھے۔ ہمارے لیے یہ نظارہ ان کے روز مرہ کے معمولات میں سے تھا۔ کئی یادگار تحریریں چھوڑی ہیں جن میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کی کتاب ’’ خیر البشرصلی اللہ علیہ وسلم‘‘ ( جو بعد میں ماہنامہ تعمیرِ افکار کے سیرت نمبر میں بھی شایع ہوئی، ’’ اسلامی معاشرہ اور نابینا افراد‘‘ ، ’’ حضرت ابوزر غفاری‘‘ اور مذاہبِ عالم کے تقابلی مطالعے پر کئی قابلِ ذکر مضامین ( جو شش ماہی جریدہ السیرہ میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے) شامل ہیں۔
اباجان نے ایک اسلامی عالم، داعی حق، بہترین مقرر، بہترین استاد، مضمون نگار اور comparative religion کے طالب علم کی حیثیت سے ایک بھر پور زندگی گزاری، وہ اقبال کے شعر
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
کی عملی تشریح و تفسیر بن کر رہے اور نسیمِ صبح کے ایک تازہ جھونکے کی طرح ہمارے درمیان سے گزر گئے، جسکی خوشبو، تازگی اور صباحت مدتوں ہمیں ان کی یاد دلاتی رہے گی، رلاتی رہے گی اور تڑپاتی رہے گی۔
حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا
( ۱۴ فروری ۲۰۱۰ کو اباجان کی وفات پر یہ مضمون لکھا اور پھر ان کی سوانح لکھنی شروع کی، جسے اگلی نشستوں میں پیش کرنے کی جسارت کروں گا)