ازل سے بولنے کا اذن تو بے شک ہمیں ہی ملا ہوا ہے۔۔۔ ۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ ہم نے اس کا ہر جائز و ناجائز فائدہ بھی اٹھا رکھا ہے۔۔۔ ۔
بقول احمد ندیم قاسمی صاحب کے
بولنے سے مجھے کیوں روکتے ہو؟
بولنے دو، کہ میرا بولنا دراصل گواہی ہے مِرے ہونے کی
تم نہیں بولنے دو گے تو میں سناٹے کی بولی ہی میں بول اُٹھوں گا
میں تو بولوں گا
نہ بولوں گا تو مر جاؤں گا
بولنا ہی تو شرف ہے میرا
کبھی اس نکتے پہ بھی غور کیا ہے تم نے
کہ فرشتے بھی نہیں بولتے
میں بولتا ہُوں
حق سے گُفتار کی نعمت فقط اِنساں کو مِلی
صرف وہ بولتا ہے
صرف میں بولتا ہوں
بولنے مجھ کو نہ دو گے تو مِرے جسم کا ایک ایک مسام بول اُٹھے گا
کہ جب بولنا ، منصب ہی فقط میرا ہے
میں نہ بولوں گا تو ، کوئی بھی نہیں بولے گا
دل تو کرتا ہے کہ کبھی فراز کی زباں میں بولیں کہ
امیرِ شہر غریبوں کو لُوٹ لیتا ہے
کبھی بہ حیلۂ مذہب کبھی بنامِ وطن
مگر ہمارے مسائل بقول گلزار
یہ روٹیاں ہیں، یہ سکّے ہیں اور دائرے ہیں
یہ ایک دوُجے کو دِن بھر پکڑتے رہتے ہیں
تو بس یہی سوچ کر بولنے سے گریز کرنے لگتے ہیں کہ
دھیان کے آتش دان میں ناصرؔ
بُجھے دِنوں کا ڈھیر پڑا ہے
بئی بہت ثقیل بول لیا۔۔۔ اب کسی دن ہلکا پھلکا بولیں گے۔۔۔ ۔